خطباتِ حجۃ الوداع... احادیث ِنبویؐ کی روشنی میں

'حجۃ الوداع' کی و جہ تسمیہ یہ ہے کہ آپ ﷺکا یہ آخری حج تھا،اس کو 'حجۃ الاسلام'بھی کہا جاتا ہے اس وجہ سے کہ ہجرت کے بعد آپؐ نے یہی ایک حج کیا، اس کے علاوہ اس کو'حجۃ البلاغ'کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے جملہ مسائل حج اس کے ذریعے قول اور فعل اور کردار کے آئینہ میں دکھا دیئے اور اسلام کے اُصول و فروع سے آگاہ کر دیا۔ تاہم ان ناموں میں سے 'حجۃ الوداع' زیادہ مشہور ہوا، کتب ِاحادیث میں اکثر راوی اسی نام سے روایت کرتے ہیں۔

خطبہ حجۃ الوداع ایک اہم تاریخی دستاویز اور 'حقوقِ انسانی کے چارٹر' کی حیثیت رکھتا ہے جو ذخیرئہ احادیث و روایاتِ تاریخ کی صورت میں موجود ہے۔محدثین اور مؤرخین نے اپنے اپنے فن کے مطابق اسے اپنی تصنیفاتمیں ذکر کیا ہے۔ اب تک متعدد سیرت نگاروں نے ان شقوں کواکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سیرت کی کتابوں میں یکجا کی گئیں روایات کی تخریج و تحقیق کا کام کماحقہ نہ ہوسکا۔ اکثر مصنّفین نے صحیح احادیث کا اہتمام نہیںکیا بلکہ خطبہ حجۃ الوداع سے متعلق تمام رطب و یابس جمع کردیا ہے۔ اس کے علاوہ کتب ِسیرت میں خطبات کی ترتیب کا بھی کوئی خاص لحاظ نہیں رکھا گیا بلکہ نبی کریم ﷺ کے خطبات جو آپؐ نے تین دن مختلف مقامات واوقات میں دیے، ایک ہی جگہ جمع کردیئے گئے اور ان تینوں خطبوں کوایک ہی خطبہ (یعنی خطبہ حجۃ الوداع) کا نام دے دیا گیا۔ اسی طرح بعض بے سند تاریخی روایات بھی خطبات حجۃ الوداع کے نام سے متداول ہوچکی ہیں۔

ضرورت اس بات کی تھی کہ محسن انسانیت محمد رسول اللہﷺ کے ان خطبات کو جوکہ 'حجۃ الوداع' کے نام سے موسوم ہیں، الگ الگ مقام اور وقت کی مناسبت سے اپنی تمام شقوں کے ساتھ مرتب کیا جاتا۔ راقم نے مذکورہ مضمون میں اسی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔لہٰذا آئندہ سطور میں اس ترتیب کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ ۹،۱۰،۱۲ ذوالحجہ کے خطبات جو یوم عرفہ، یوم النحر، یوم الرؤس اوسط ایام التشریق کے نام سے مشہور ہیں، میں سے ہر خطبہ اس کے مقام و دن کے ساتھ بالترتیب لکھ دیا گیا ہے۔

خطبات میں چونکہ نبی کریمؐ نے اعادہ کے طور پر ایک خطبہ کے کچھ جملوں کو ہر خطبہ میں بیان فرمایا، لہٰذا مکرر شدہ جملوں کو طوالت سے بچاتے ہوئے صرف ایک خطبہ میں ہی لکھ دیا گیا ہے اور غیر مکرر جملے اپنے اپنے مقام پر درج کردیئے گئے ہیں۔ اس کے بعد وہ روایات جو کسی مقام کی طرف منسوب نہیں بلکہ راویوں نے صرف حجۃ الوداع یا حجۃ النبیؐ کی طرف منسوب کرکے انہیں روایت کیا ہے ، رقم کردی گئی ہیں۔ اور اس میں صرف احادیث کی کتب سے صحیح روایات کا چناؤ کیا گیا ہے۔ تاریخی روایات کی اسنادی حیثیت ثانوی ہونے کی وجہ سے ان روایات سے گریز کیا گیا ہے، تاکہ رسول اللہﷺ کے اقوال مستند طور پر پیش کئے جاسکیں۔کوشش کی گئی ہے کہ صحیح و مقبول روایات ہی ان خطبات کا حصہ بنیں اور اس چیز کوممتاز کرنے کے لئے غیر مستند روایات کو آخر میں ان کے ضعف کی نشاندہی کے ساتھ درج کردیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں ان تمام خطبات سے جو نکات آخر کار حاصل ہوتے ہیں، ان کو آخرمیں ایک مستقل صورت میں عنوانات کے تحت مدون کر دیاگیا ہے۔

حجۃ الوداع کاپس منظر

نبوت کے ۲۳ سال پورے ہونے کو تھے،آپ ﷺ نے اللہ کا پیغام لوگوں تک کما حقہ پہنچا دیا تھا اور آپ ؐ کا مشن پایۂ تکمیل تک پہنچ چکا تھا۔یقینا آپ کو اس کا احساس تھا جس کا پتہ آپؐ کی وصیت سے چلتا ہے جو آپؐ نے حضرت معاذ ؓ کو یمن کا گورنر مقرر فرما کر بھیجتے ہوئے فرمائی تھی۔ آپ ؐنے حضرت معاذؓ کو ۱۰ ہجری میں یمن کا گورنر مقرر کیا اور وصیت کی کہ

'' اے معاذ! غالبا تم مجھ سے میرے اس سال کے بعد نہ مل سکو گے، بلکہ غالبا میری اس مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو گے۔حضرت معا ذؓیہ سن کر رسول اللہ ﷺ کی جدائی کے غم میں رونے لگے '' (مسنداحمد ۵؍۲۳۵ ،مجمع الزوائد ۹؍۲۲)

حج کامہینہ قریب تھا اور ضرورت اس بات کی تھی کہ رہبر اعظمؐ کی لوگوں سے آخری ملاقات اور آپ کے وصیتی ارشادات لوگوں تک پہنچ جائیں۔سو آپ ؐ نے اس سال حج کا ارادہ فرمایا اور اسی منصوبہ کے پیش نظر اطرافِ مکہ میں اس کا اعلان کر دیا گیا کہ نمائندگانِ قبائل اپنے قبائل کے افراد کے ساتھ اس اجتماع میں حاضر ہوں۔مسلمانانِ عرب جوق در جوق مکہ کی طرف روانہ ہونے لگے تھے۔شنبہ کے روز ظہر کے بعد مدینہ سے مکہ کی طرف کوچ فرمایا۔

آپ ؐ تقریبا آٹھ دن سفر کرنے کے بعد ۴/ذی الحجہ ۱۰ھ؁ کو مکہ میں داخل ہوئے۔ ۸؍ذی الحجہ ، ترویہ کے دن آپ ؐ منیٰ تشریف لے گئے۔۹ذی الحجہ کی صبح تک وہیں قیام فرمایا اور پہلاخطبہ عرفات میں ارشاد فرمایا۔اور اس طرح دیگر مناسک حج ادا کرتے ہوئے ۱۰،۱۱ذی الحجہ کو بھی خطبات ارشاد فرمائے۔

آپؐ کے ساتھ شریک صحابہ اکرام ؓ کی تعداد تقریبا ایک لاکھ چوالیس ہزار تھی۔حال ہی میں وفات پانے والے نامور مسلم محقق ومؤرخ جناب ڈاکٹر حمید اللہ نے اسے 'انسانیت کا منشورِ اعظم' قرار دیا ہے۔'رسول اکرم کی سیاسی زندگی' کے نام سے ان کی کتاب جس میں نبی کریم کے سیاسی کارناموں اور سیاسی دستاویزات کی تحقیق پیش کی گئی ہے، میں ایک مستقل باب میں انہوں نے اس خطبہ کی تمام شقوں کوکتب ِ تاریخ کی مدد سے ۱۶ دفعات میں جمع کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

''جمعہ ۹ذی الحجہ ۱۰ھ کو جبل الرحمہ پر سے میدان عرفات کے ڈیڑھ لاکھ حاضرین سے حجۃ الوداع کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے جو خطاب فرمایا تھا، اسے تاریخ نے خوش قسمتی سے محفوظ رکھا ہے، اس خطاب کو انسانیت کا منشورِاعظم کہا جاسکتا ہے ۔'' (ص ۳۰۲تا ۳۰۵)

وصایا اور مناسک ِ حج سکھلانے کے بعد نبی ؐ اپنے جاں نثاروں کے ہمراہ یوم النفر الثاني (۱۳ذی الحجہ) کو عشاء کے بعد طوافِ وداع کر کے واپس مدینہ کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔

حجۃ الوداع میں نبیؐ نے چار خطبات ارشاد فرمائے جیسا کہ امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں کہ''ہمارے نزدیک چار خطبات ہیں:پہلا مکہ میں کعبہ کے نزدیک ذوالحجہ کے ساتویں دن، دوسرا مسجد نمرہ میں عرفہ کے دن ، تیسرا منیٰ میں نحر کے دن، چوتھا ایام التشریق کے دوسرے دن منیٰ میں۔'' (مسلم شرح نووی: ۹؍۵۷)

ْساتویں دن' کے متعلق امام بیہقی 'سنن الکبریٰ' میں ابن عمرؓ کا یہ فرما ن ذکر کرتے ہیں: «کان رسول الله ﷺ إذا کان قبل التروية خطب الناس فأخبرهم بمناسکهم» (بیہقی:۵؍۱۱۱) ''رسول اللہ ﷺ نے یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) سے پہلے (سات ذوالحجہ) لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا ، جس میں ان کو ان کے مناسک کے بارے میں خبر دی۔''

راقم کو باوجود بسیار کوشش کے 'یوم السابع' کے خطبہ کی تفصیل کتب ِاحادیث سے نہیں مل سکی اہل علم و تحقیق اس بارے میں مزید جستجو اور رہنمائی فرمائیں۔

ذیل میں پیش کردہ روایات کی تحقیق و تخریج بقدر امکان کی گئی ہے ۔اور احتیاط کے لئیاحادیث کے تراجم نامور سیرت نگاروں کی کتب سے لئے گئے ہیں، صرف وہ احادیث جن کا ترجمہ ان کتب سے نہ مل سکا ، راقم کا کیا ہوا ہے۔ وما توفيقی إلا بالله

خطبہ یوم عرفہ ... ۹ ذوالحجہ

وقت او ر دِن :نبیؐ نے عرفہ کے دن کا خطبہ بطن وادی (عرفہ) میدانِ عرفات میں سواری پر جمعہ کے دن ظہر کی نماز سے پہلے ارشاد فرمایا جیسا کہ اس کا ذکر آگے روایات میں آرہا ہے:

سنن ابی داؤد میں خالد بن عداء سے روایت ہے کہ؛«رأيت رسول اللهؐ يخطب الناس يوم عرفة علی بعير قائم فی الرکابين» (صحیح ابوداود للالبانی )۱۶۸۷،۱۶۸۶ )''میں نے رسول اللہ ﷺ کو عرفہ کے دن اونٹ کی رکابوں پر کھڑے ہوکر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔''

مسلم، سنن ابی داود، مستدرک حاکم ابن ماجہ میں روایت ہے کہ آپؐ کے خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد«ثم أذّن بلال ثم أقام فصلی الظهر» بلالؓ نے اذان کہی اور ظہر کی نماز نبیؐ نے پڑھائی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ نے یہ خطبہ ظہر سے پہلے دیا تھا۔ (واللہ اعلم)

حضرت عمرؓ کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یوم عرفہ جمعہ کے دن تھا۔چنانچہ آپؓ آیت ﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم....﴾کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «وهو قائم بعرفة يوم جمعة» (بخاری ۴۴۰۷، ۴۶۰۶، نسائی ۵۰۱۲)

جبکہ دوسری روایت میں أنزلت لیلة الجمعة کے الفاظ بھی ہیں اور ان دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت یہی ہے کہ یہ جمعہ کا دن تھا جس کی یہ آیت اتری اور حضرت عمرؓ نے جمعہ کی شام کی مناسبت سے اسے لیلۃ الجمعۃ کہہ دیا ورنہ لیلۃ الجمعۃ سے ان کی مراد جمعرات نہ تھی۔

اس سلسلے میں حافظ ابن حجر کا موقف بھی یہی ہے کہ عرفہ کا دن جمعہ کے دن تھا۔ (فتح الباری :۸؍۲۷۰)اوریہی بات صاحب ِتحفۃ الاحوذی لکھتے ہیں کہ ''یہ عرفہ کا دن تھا اور اس دن جمعہ تھا۔'' (تحفۃ الاحوذی: ۴؍۹۶ )

اس تحقیق کے بعد راجح بات یہی سامنے آتی ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا۔ اسی روایت کو بنیاد بناتے ہوئے ہم نے دوسرے دو خطبوں کے دنوں کا تعین یوم النحربروز ہفتہ، یوم الرؤس بروز سوموار کیا ہے۔ واللہ أعلم

خطبہ یومِ عرفہ کی روایات درج ذیل ہیں:

1. امام بیہقی مسور بن مخرمہ سے روایت لائے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفات میں حمدوثنا کے بعد خطاب فرمایا۔ (بیہقی ۵؍۱۲۵(

2. حضرت جابر نبی کریم ؐ کا حج بیان کرتے ہوئے خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق بیان کرتے ہیں

«فأتی بطن الوادی، فخطب الناس وقال: إن دماء کم وأموالکم حرام عليکم، کحرمة يومکم هذا فی شهر کم هذا فی بلدکم هذا»

«ألا کل شيئ من أمر الجاهلية تحت قدمی موضوع، ودماء الجاهلية موضوعة وإن أول دم أضع من دمائنا دم ابن ربيعة بن الحارث، کان مسترضعا في بنی سعد فقتله هزيل،

وربا الجاهلية موضوع، و أوّل ربا أضع ربانا، ربا عباس بن عبد المطلب، فإنه موضوع کله

فاتقوا الله فی النساء فإنکم أخذتموهن بأمان الله، واستحللتم فروجهن بکلمة الله، ولکم عليهن أن لا يوطئن فروشکم أحداً تکرهونه، فإن فعلن ذلک فاضربوهن ضربًا غير مبرح، ولهن عليکم رزقهن وکسوتهن بالمعروف،

وقد ترکت فيکم ما لن تضلوا بعده إن اعتصتم به: کتاب الله،

وأنتم تُسألون عنی، فما أنتم قائلون؟

قالوا: نشهد أنک قد بلغت وأدّيت ونصحت،

فقال بإصبعه السبابة، يرفعها إلی السماء وينکتها إلی الناس: اللهم! اشهد، اللهم! اشهد ثلاث مرات»

(صحیح مسلم :۲۹۴۱، صحیح سنن ابی داود للالبانی :۱۹۰۵، ابن ماجہ :۱۸۵۰، الفتح الربانی :۲۱؍۵۸۸)

''نبی کریمﷺ بطن الوادی میں آئے اور لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا: تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح ہے جس طرح تمہارے آج کے دن کی، رواں مہینے کی اور موجودہ شہر کی حرمت ہے۔ سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کردیئے گئے اور ہمارے خون میں سب سے پہلا خون جسے میں ختم کررہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔ یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ انہی ایام میں قبیلہ ہزیل نے اسے قتل کردیا اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے۔ اب یہ سارا کا سارا سود ختم ہے۔

ہاں! عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جو تمہیں گوارا نہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن سخت مار نہ مارنا، اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاؤ اور پہناؤ

اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے اللہ کی کتاب

اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔ یہ سن کر آپؐ نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہ۔'' (الرحیق المختوم: ص ۷۳۳)

3. عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: «ألا وإنی فرطکم علی الحوض، وأکا ثربکم الأمم فلا تسودوا وجهی»

«ألا وإنی مستنقذ أناسا، ومستنقذ منی أناس فاقول: يارب! أصيحابی فيقول: إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک»

(صحیح ابن ماجہ للالبانی :۲۴۸۱)''آگاہ رہو میں تمہارا پیش خیمہ ہوں، حوضِ کوثر پراور میں تمہارے سبب اس اُمت کی کثرت پر فخر کروں گا، مجھے شرمندہ نہ کرنا۔

خبردار! کچھ لوگوں کو میں چھوڑ دوں گا اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑوالئے جائیں گے۔ میں کہوں گا: اے میرے ربّ! یہ تو میرے اصحاب ہیں، سو وہ فرمائے گا تو نہیں جانتا جو اُنہوں نے تیرے بعد نئی بدعتیں ایجاد کیں۔''

4. عرفہ کے دن ہی یہ آیت بھی نازل ہوئی:﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ...﴿٣﴾... سورة المائدة" آ ج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا۔''

(الرحیق المختوم :۷۳۵)

اس کے متعلق حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ«إنی لأعلم أي مکان أنزلت ورسول اﷲ واقف بعرفة» (بخاری:۴۴۰۷)

''بے شک میں بہتر جانتا ہوں کہ یہ کس مقام پر نازل ہوئی ، نبیؐ اس وقت عرفہ میں تھے ۔''

خطبہ یوم النحر... ۱۰؍ ذوالحجہ

«عن رافع بن عمرو المزني قال رأيت رسول الله يخطب الناس بمنی حين ارتفع الضحیٰ علی بغلة شهباء وعليؓ يعبر عنه والناس بين قائم وقاعد» (بیہقی:۵؍۱۴۰) ''رافع کہتے ہیں کہ میں نے نبیؐ کو چاشت کے وقت دن چڑھے سواری پر خطاب کرتے سنا، حضرت علیؓ آپؐ کا خطاب دہرا رہے تھے، سامعین میں بعض بیٹھے اور بعض کھڑے تھے ۔''

1. حضرت وابصہ بن معبد الجہنی کہتے ہیں کہ میں حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا:

«يا أيها الناس أي شهر أحرم؟ قالوا: هذا الشهر، قال أي يوم أحرم؟ قالوا: هذا وهو يوم النحر، قال: فأي بلد أعظم عند الله حرمة؟ قالوا: هذا، قال: فإن دماء کم وأموالکم وأعراضکم محرمة عليکم کحرمة يومکم هذا في شهر کم هذا، في بلدکم هذا إلی يوم تلقون ربکم»

«ألا هل بلغت؟ قال الناس: نعم، فرفع يديه إلی السماء ثم قال: اللهم اشهد، ثم قال: ليبلغ الشاهد منکم الغائب» (مجمع الزوائد:۳؍۲۶۹( ''اے لوگو! کون سا مہینہ سب سے زیادہ حرمت والا ہے، لوگوں نے کہا: یہی مہینہ۔ فرمایا کون سا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: آج کا دن اور وہ یوم النحر تھا۔ پھر آپؐ نے پوچھا: اللہ کے نزدیک سب سے حرمت والاشہر کون سا ہے تو صحابہ کرامؓ نے جواب دیا کہ یہی ہے۔ تب آپؐ نے فرمایا کہ تمہارا خون اور تمہارا مال اور تمہاری عزت تم پر اسی طرح حرمت والے ہیں جس طرح یہ مہینہ، یہ دن اور اس شہر کی حرمت ہے اور یہ اس دن تک ہے جس دن تم اپنے ربّ سے ملاقات کرو گے۔

خبردار! کیا میں نے تمہیں پیغام پہنچا دیا۔ لوگوں نے کیا جی ہاں! تو نبی ﷺ نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا: اے اللہ گواہ رہ، پھر آپؐ نے فرمایا: ہر حاضرغائب کو یہ دعوت پہنچا دے۔''

2. حضرت جابر فرماتے ہیں، آپؐ نے نحر کے دن فرمایا: «ويقول لتأخذوا مناسککم فانی لا أدري لعلي لا أحج بعد حجتی هذه» ''آپؐ فرما رہے تھے کہ لوگو! تم حج کے طریقے سیکھ لو، میں اُمید نہیں کرتا کہ اس حج کے بعد حج کرسکوں۔'' (صحیح مسلم:۱۲۹۷، مجمع الزوائد:۳؍۲۶۹)

3. امام بخاری اپنی صحیح میں ابوبکرہ کی روایت لائے ہیں کہ آپٖ ﷺ نے فرمایا: «الزمان قد استدار کهيئة يوم خلق السماوات والأرض، السنة اثنا عشر شهرًا منها أربعة حرم، ثلاثة متواليات: ذوالقعدة ، وذو الحجة والمحرم، ورجب، مضر الذي بين جمادی وشعبان» (بخاری:۴۴۰۶) ''زمانہ گھوم پھر کر اپنی اس دن کی ہیئت پر پہنچ گیا ہے جس دن اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہے جن میں سے چار مہینے حرمت والے کے ہیں۔ تین پے درپے یعنی ذیقعد، ذی الحجہ اور محرم اور ایک رجب،مضر(قبیلے کا) جو جمادی الآخرۃ اور شعبان کے درمیان ہے۔'' (الرحیق المختوم:۷۳۷)

4. مزید فرمایا:« فإن دماء کم وأموالکم وأعراضکم عليکم حرام، کحرمة يومکم هذا في بلدکم هذا، في شهر کم هذا، وستلقون ربکم فسيألکم عن أعمالکم، ألا فلا ترجعو بعدي ضلالا، يضرب بعضکم رقاب بعض، ألا ليبلغ الشاهد الغائب فلعل بعض من يبلغه أن يکون أوعی له من بعض من سمع » (بخاری:۴۴۰۶،۷۰۷۸)

''اچھا تو سنو کہ تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہے جیسے تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے۔ اور تم لوگ بہت جلد اپنے پروردگار سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا، لہٰذا دیکھو میرے بعد پلٹ کر گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو جو شخص موجود ہے، وہ غیر موجود تک (میری باتیں) پہنچا دے۔ کیونکہ بعض وہ افراد جن تک (یہ باتیں) پہنچائی جائیں گی، وہ بعض (موجودہ) سننے والوں سے کہیں زیادہ ان باتوں کے دروبست کو سمجھ سکیں گے۔'' (الرحیق المختوم:۷۳۷،۷۳۸9

5. سلیمان بن عمرو بن اَحوص اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی اور وعظ فرمایا: «ألا لا يجنی جان إلا علی نفسه، ولا يجنی والد علی ولده ولا ولد علی والده، ألا إن المسلم أخو المسلم، فليس يحل لمسلم من أخيه شيئ إلا ما أحل من نفسه۔ ألا وإن کل ربا فی الجاهلية موضوع، لکم رؤوس أموالکم، لا تظلمون ولا تظلمون غير ربا العباس بن عبد المطلب فإنه موضوع کله» (صحیح ابن ماجہ للالبانی:۲۴۷۹)

''یاد رکھو! کوئی بھی جرم کرنے والا اپنے سوا کسی اور پر جرم نہیں کرتا (یعنی اس جرم کی پاداش میں کوئی اور نہیں بلکہ خود مجرم ہی پکڑا جائے گا) کوئی جرم کرنے والا اپنے بیٹے پر یا کوئی بیٹا اپنے باپ پر جرم نہیںکرتا (یعنی باپ کے جرم میں بیٹے کو یا بیٹے کے جرم میں باپ کو نہیں پکڑا جائے گا) خبردار! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور کسی مسلمان کی کوئی بھی چیز دوسرے مسلمان کے لئے حلال نہیں جب تک وہ خود حلال نہ کرے۔ خبردار! جاہلیت کا ہر قسم کا سود اب ختم ہے، تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی تم ظلم کا شکار ہو۔ عباس بن عبدالمطّلب کا سود سارے کا سارا ختم ہے۔''

6. انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: خطبنا رسول اﷲ ﷺ بمسجد من منی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مسجد ِخیف میں جو کہ منیٰ میں ہے، خطبہ دیا۔ آپؐ نے فرمایا: «نضر الله امرأ سمع مقالتی فحفظها ووعاها، ثم ذهب بها إلی من لم يسمعها، فربّ حامل فقه ليس بفقيه ورب حامل فقه إلی من هو أفقه منه» (صحیح الترغیب والترہیب للالبانی :۸۶)

''تروتازہ رکھے اللہ اس بندے کو جس نے میری بات کو سنا، حفظ کیا اور یاد کیا۔ پھر اس کو اس تک پہنچایا جس نے اسے سنا نہیں۔کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو خود فقیہ نہیں،مگر فقہ(بصورتِ حدیث) کو اٹھائے پھرتے ہیں اور کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اپنے سے زیادہ فقیہ شخص تک اس فقہ(حدیث) کو پہنچانے والے ہیں۔''

اسی روایت کو کچھ الفاظ کے اضافہ کے ساتھ حضرت جبیر بن مطعم بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مسجد ِخیف، (منیٰ) میں سنا :

«نضر اللّٰه عبدًا سمع مقالتي، فحفظها ووعاها، وبلغها من لم يسمعها، فربّ حامل فقه لا فقه له، وربّ حامل فقه إلی من هو أفقه منه، ثلاث لا يغل عليهن قلب مؤمن: إخلاص العمل لله، والنصيحة لأئمة المسلمين، ولزوم جماعتهم فإن دعوتهم تحوط من ورائهم» (صحیح ترغیب للالبانی:۸۷، صحیح ابن ماجہ:۲۴۸۰، مسنداحمد:۴؍۸۰)

''تروتازہ رکھے اللہ اس بندے کو جس نے میری بات کو سنا، حفظ کیا اور یاد کیا۔ پھر اس کو جس نے نہیں سنا، اس تک پہنچایا۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو خود غیر فقیہ ہیں مگر فقہ (حدیث)کو اٹھائے پھرتے ہیں۔اور بہت سے فقہ اٹھانے والے اپنے سے زیادہ فقہ والے کی طرف بات لے جاتے ہیں۔

... تین چیزیں ہیں جن پر مؤمن کا دل خیانت (تقصیر) نہیں کرتا: صر ف اللہ کے لئے عمل کے اخلاص میں، اور مسلمانوں کے حکمرانوں کی خیرخواہی میں، اور ان کی جماعت سے چمٹے رہنے میں، بے شک ان کی دعا ان پچھلے لوگوں کو بھی گھیر لیتی ہے۔''

7. عمووبن احوص اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ نبیؐ نے حجۃ الوداع (یوم النحر) میں فرمایا:

«لا إن الشيطان قد أيس أن يُعبد في بلدکم هذا أبداً ولکن سيکون له طاعة فی بعض ما تحتقرون من أعمالکم، فيرضی بها ...»

ألا يأمتاه! هل بلغت؟ ثلاث مرات، قالوا: نعم، قال: اللهم اشهد ثلاث مرات» (صحیح ابن ماجہ للالبانی:۲۴۷۹)

''یاد رکھو! شیطان مایوس ہوچکا ہے کہ اب تمہارے اس شہر میں کبھی بھی اس کی پوجا کی جائے لیکن اپنے جن اعمال کو تم لوگ حقیر سمجھتے ہو، ان میں اس کی اطاعت کی جائے گی اور وہ اسی سے راضی ہوگا۔ خبردار، اے میری اُمت! کیا میں نے تمہیں تبلیغ کردی، یہ تین دفعہ کہا۔ لوگوں نے کہا: جی ہاں۔ پھر آپؐ نے تین دفعہ فرمایا: اے اللہ! گواہ رہ۔''

8. عمرو بن یثربی سے روایت ہے کہ نبیؐ کریم نے اپنے خطبہ میں فرمایا: «ولا يحل لامرء من مال أخيه الا ما طابت به نفسه»

(مسند احمد۳؍۴۲۳، دارقطنی:۳؍۲۵، بیہقی:۶؍۹۷)

''کسی آدمی کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے مال میں سے لے جب تک وہ اپنی خوشی سے نہ دے دے۔''

9. عمرو بن خارجہ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے منیٰ کے خطبہ میں فرمایا: «إن الله قسم لکل وارث نصيبه من الميراث، فلا يجوز لوارث وصية، الولد للفراش وللعاهر الحجر، ومن ادعی إلی غير أبيه، أو تولی غير مواليه، فعليه لعنة الله والملائکة والناس أجمعين، لا يقبل منه صرف ولا عدل» (صحیح ابن ماجہ للالبانی :۲۱۹۲، مصنف عبدالرزاق :۱۶۳۰۶)

''اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے میراث میں سے ہر وارث کے لئے ثابت کردہ حصہ مقرر کردیا ہے اور وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں۔ بچہ اس کاہے جس کے بستر پر تولد ہوا اور بدکار کے لئے پتھر!۔ جس نے اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے کو باپ قرار دیا یا جس غلام نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو آقا ظاہر کیا تو ایسے شخص پراللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی طرف لعنت ہے، اس سے (قیامت کے دن) کوئی بدلہ یا عوض قبول نہ ہوگا۔'' (محسن انسانیت از نعیم صدیقی ؒ:ص۵۸۷)

10. حضرت اُمّ الحصین سے مروی ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: «إن اُمّر عليکم عبد مجدع أسود يقودکم بکتاب الله تعالیٰ فاسمعوا له وأطيعوا» (مسلم:۱۲۹۸) ''اگر کوئی حبشی یعنی بریدہ غلام بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔'' (سیرۃ النبیؐ از شبلی نعمانی:ؒ۲؍۱۶۴)

11. عبد اللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا:«يأيها الناس! إياکم والغلو فی الدين، فإنه أهلک من کان قبلکم الغلو في الدين» (صحیح ابن ماجہ للالبانی: ۲۴۵۵) ''لوگو! مذہب میں غلو اور مبالغہ سے بچو کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی سے برباد ہوئیں''

(سیرۃ النبیؐ از شبلی نعمانی:ؒ۲؍۱۶۱9

12. امام احمد بن حنبل، مرۃ ؒسے روایت لائے ہیں کہ جس میں نبیؐ نے منیٰ کے دن خطبہ دیا اور ایک لمبے وعظ کے بعد فرمایا:

«ألا وقد رأيتمونی وسمعتم منی وستسألون عني فمن کذب علی فليتبوأ مقعده من النار» (مسنداحمد:۵؍۴۱۲)

''خبردار! تم لوگوں نے مجھ سے سن لیا اور مجھے دیکھ لیا، عنقریب تم سے میرے بارے میں سوال ہوگا پس جس نے بھی مجھ پر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔''

خطبہ یوم الرؤس اوسط ایامِ التشریق... ۱۲؍ ذوالحجہ

یہ خطبہ پچھلے دو خطبوں کی طرح کا تھا۔ نبی کریم ؐ نے یہ خطبہ سوموار کو سواری پر منیٰ کے مقام پر 'اوسط ایام التشریق' میں ارشاد فرمایا۔سنن ابی داود میں ابو نجیح سے روایت ہے کہ وہ بنی بکر کے دو آدمیوں سے روایت کرتے ہیں:

«رأينا رسول الله يخطب بين أوسط أيام التشريق، ونحن عند راحلته، وهي خطبة رسول اللهؐ التي خطب بمنی»

(صحیح ابی داود للالبانی:۱۷۲، بیہقی:۵؍۱۵۱)

''ہم نے نبیؐ کو اوسط ایام تشریق میں منیٰ کے مقام ،پرخطبہ ارشاد فرماتے دیکھا، اس وقت ہم ان کی سواری کے قریب ہی تھے اور منیٰ کا خطبہ یہی ہے ۔''

«ونحن عند راحلته» سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سواری پر تھے۔

اس بارے میں مزید روایات درج ذیل ہیں :

1. امام بیہقی اپنی 'سنن' میں سراء بنت نبہاء کی روایت لائے ہیں، وہ فرماتی ہیں: «سمعت رسول اللهﷺ، يقول فی حجة الوداع: هل تدرون أي يوم هذا قال وهو اليوم الذي يدعون يوم الرؤس، قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: هذا أوسط أيام التشريق: هل تدرون أي بلد هذا؟ قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: هذا الشهر الحرام، ثم قال: انی لا أدری لعلی لا ألقاکم بعد هذا ألا وإن دماء کم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام کحرمة يومکم هذا في بلدکم هذا حتی تلقوا ربکم فيسألکم عن أعمالکم ألا فليبلغ أقصاکم أدناکم ألا هل بلغت» (بیہقی:۵؍۱۵۱، مجمع الزوائد:۳؍۲۷۳)

''میں نے رسول اللہؐ سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے، کیا تم جانتے ہو، یہ کون سا دن ہے؟ اور یہ وہ دن تھا جسے 'یوم الرؤس' کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ سب لوگوں نے کہاکہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا! یہ اوسط ایام التشریق ہے اور تم جانتے ہو یہ کون سا شہر ہے؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا: یہ مشعر الحرام ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: میں نہیں جانتاشاید اس وقت کے بعد میں تم سے ملاقات کروں۔ بے شک تمہارا خون، تمہارے اَموال اور تمہاری آبروئیں تمہارے ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کا دن حرمت والا ہے اور یہ شہر حرمت والا ہے ، یہاں تک کہ تم اپنے ربّ سے جاملو ۔ عنقریب وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق سوال کرے گا۔ خبردار! تمہارا قریب والا دور والے کو یہ باتیں پہنچا دے۔خبردار! کیا میں نے تم کو تبلیغ کردی۔''

2. خطبہ اوسط ایام التشریق کے متعلق حافظ نورالدین ہیثمی ابونقرۃ سے روایت لائے ہیں جس میں آپؐ کا فرمان یوں روایت کیا گیا ہے :

«يٰأيها الناس إن ربکم واحد وأباکم واحد ألا لا فضل لعربي علی عجمي ولا لعجمي علی عربي ولا أسود علی أحمر ولا أحمر علی أسود إلا بالتقوی» (مجمع الزوائد:۳؍۲۶۶، مسنداحمد:۵؍۴۱۲)

''لوگو! بے شک تمہارا ربّ ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے، ہاں عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر،سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیںمگر تقویٰ کے سبب سے۔'' (سیرۃ النبی از شبلی نعمانی:ؒ ۲؍۱۵۵)

3 ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اوسط ایام التشریق کو ہی سورۂ ﴿إِذا جاءَ نَصرُ‌ اللَّهِ وَالفَتحُ ١﴾... سورة النصر" نازل ہوئی۔ (بیہقی:۵؍۱۵۲)

حجۃ الوداع کے غیرمعین خطبات

حجۃ الوداع کے وہ فرمودات جنہیں راویوں نے کسی جگہ کی طرف منسوب کئے بغیر بیان کردیا، درج ذیل ہیں:

1. ابوامامہ ؓکہتے ہیں کہ میں نبیؐ کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک تھا ، آپؐ نے سب سے پہلے اللہ کی حمدوثنا بیان کی ، پھر فرمایا:

«ألا لعلکم لاترونی بعد عامکم هذا، ألا لعلکم لا تروني بعد عامکم هذا ألا لعلکم لا تروني بعد عامکم هذا، اعبدو ربکم وصلوا خمسکم وصوموا شهر کم و حجو بيتکم و أدّوا زکوٰتکم طيبة بها أنفسکم تدخلوا جنة ربکم عزوجل» (مسنداحمد:۵؍۲۶۲، المسدرک حاکم :۱؍۹)

سال کے بعد شاید تم مجھے نہ دیکھ سکو، خبردار! اس سال کے بعد شاید تم مجھے نہ دیکھ سکو۔ اپنے پروردگار کی عبادت کرو، پانچوں وقت کی نماز پڑھو اور حج کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ یہ سب کام خوشی سے سرانجام دو تو تم اپنے ربّ کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔''

2. امام بخاری اپنی 'صحیح' میں ابن عمر ؓکی روایت لائے ہیں جس کے الفاظ یوں ہیں:

«فحمدالله وأثنی عليه ثم ذکر المسيح الدجال فأطنب في ذکره وقال ما بعث الله من نبي إلا أنذر أمته، أنذره نوح والنبيون من بعده وإنه يخرج فيکم فما خفي عليکم من شأنه فليس يخفی عليکم أن ربکم ليس علی ما يخفی عليکم ثلاثا، إن ربکم ليس بأعور، وإنه أعور عين اليمنی فأن عينه عنبة طافية، ويلکم، أو ويحکم انظروا لا ترجعوا بعد کفارًا يضرب بعضکم رقاب بعض» (بخاری :۴۴۰۲،۴۴۰۳)

''آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان فرمائی۔ پھر آپؐ نے دجال کا ذکر کیا کہ کوئی بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی اُمت کو اس (دجال) سے نہ ڈرایا ہو۔ نوحؑ اور اس کے بعد آنے والے نبیوں نے بھی اس کے بارے میں ڈرایا۔ وہ تم (امت ِمحمدیہ کے زمانہ) میں ظاہر ہوگا اور یہ بات تم خوب جانتے ہو، اس کی حالت بھی تم سے ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی یہ بات تم پر مخفی ہے کہ تمہارا ربّ ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو تمہارے لئے پردہ میں ہیں (یہ تین دفعہ فرمایا)۔ اور فرمایا : تمہارا ربّ کانا نہیں جبکہ اس (دجال) کی دائیں آنکھ کانی ہے اور وہ آنکھ اس طرح ہے جس طرح پھولا ہوا منقیٰ ہوتا ہے۔ افسوس تم پر دیکھو! میرے بعد کفر میں نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنا شروع کردو۔''

دوسری جگہ حضرت جریر ؓسے روایت ہے کہ «قال فی حجة الوداع لجرير، استنصت الناس فقال: لا ترجعوا بعدي کفاراً يضرب بعضکم ر قاب بعض» (بخاری:۴۴۰۵)

''نبی کریمؐ نے حجۃ الوداع میں حضرت جریر کو فرمایا کہ لوگوں کو چپ کروائیں، پھر فرمایا کہ میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔''

3. ابوامامہ الباہلی سے روایت ہے کہ آپؐنے فرمایا:

«يأيها الناس! خذوا من العلم قبل أن يُقبض العلم وقبل أن يرفع العلم وقد کان أنزل الله عزوجل ﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَسْألُوْا عَنْ أشْيَاءَ إنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤکُمْ وَإنْ تَسْألُوْا عَنْهَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَلَکُمْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ﴾ قال فکنا نذکرها کثيرا من مسألته وأتقينا ذلک حين أنزل الله علی نبيه ؐ قال فأتينا أعرابيا فرشوناه برداء ه قال فاعتم به حتی رأيت حاشية البرد خارجة من حاجبه الأيمن قال: ثم قلنا له سل النبیؐ قال فقال له يا نبی الله! کيف يرفع العلم منا وبين أظهرنا المصاحف وقد تعلمنا ما فيها وعلمناها نساء نا وذرارينا وخدمنا قال فرفع النبیؐ رأسه وقد علت وجهه حمرة من الغضب قال فقال: أي ثقلتک أمک! هذه اليهود والنصاری بين أظهرهم المصاحف لم يصبحوا يتعلقوا بحرف مما جاء تهم به أنبياؤهم ألا وإن من ذهاب العلم أن يذهب حملته، ثلاث مرات»(مسنداحمد:۵؍۲۶۶)

ترجمہ: ''اے لوگو! علم حاصل کر لو قبل اس کے کہ وہ قبض کرلیا جائے اور اٹھا لیا جائے (اور اس وقت تک یہ آیت نازل ہوچکی تھی) ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَسـَٔلوا عَن أَشياءَ إِن تُبدَ لَكُم تَسُؤكُم وَإِن تَسـَٔلوا عَنها حينَ يُنَزَّلُ القُر‌ءانُ تُبدَ لَكُم عَفَا اللَّهُ عَنها ۗ وَاللَّهُ غَفورٌ‌ حَليمٌ ﴿١٠١﴾﴾... سورة المائدة"کسی نے پوچھا کہ علم کیسے اُٹھا لیا جائے گا حالانکہ ہمارے پاس مصاحف موجود ہیں، ہم اس کو سیکھتے ہیں اور ان میں موجود (مسائل) اپنی عورتوں، اولاد اور خادموں کو بھی سکھلاتے ہیں؟ تونبی کریم ؐنے سر اٹھایا اور آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا، فرمایا! تیری ماں تجھے گم پائے، یہود و نصاریٰ کے درمیان بھی تو مصاحف موجود تھے لیکن انہوں نے اپنے انبیاکی لائی ہوئی آسمانی کتابوں میں سے ایک حرف کے ساتھ بھی سروکار نہ رکھا۔ خبردار علم کے ختم ہوجانے کی ایک یہ بھی شکل ہے کہ اس کے جاننے والے ختم ہوجائیں ، آپؐ نے یہ بات تین دفعہ کہی۔''

4. فضالہ بن عبیدۃ انصاری سے روایت ہے کہ آپؐ نے حجۃ الوداع میں فرمایا:

«سأخبرکم، مَنِ المسلم؟ من سلم الناس من لسانه ويده والمؤمن من أمنه الناس علی أموالهم وأنفسهم، والمهاجرين هجر الخطايا الذنوب، والمجهدين جاهد نفسه فی طاعة الله تعالیٰ» (کشف الاستار:۱۱۴۳)

''عنقریب میں تمہیں خبردوں گا کہ مسلمان کون ہے؟ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ سلامت رہیں، اور مؤمن وہ ہے جس سے لوگوں کے اموال اور جانیں امن میں رہیں، مہاجر وہ ہے جوگناہوں اور خطاؤں کو چھوڑ دے اور مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے۔''

5. ابوامامہ سے ہی روایت ہے کہ میں نے حجۃ الوداع میں نبیؐ سے سنا کہ «إن الله قد أعطی کل ذی حق حقه فلا وصية لوارث»

(صحیح ابن ماجہ للالبانی:۲۱۹۳، اِرواء :۱۶۵۵، نسائی:۳۶۴۱، مشکوٰۃ:۳۰۷۳) ''بے شک اللہ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا، اب وارث کیلئے کوئی وصیت نہیں۔''

6. حارث بن برصاء فرماتے ہیں کہ میں نے نبیؐ سے حجۃ الوداع میں سنا، آپؐ نے فرمایا:

«من اقتطع حال أخيه بيمين فاجرة فليتبوأ مقعده من النار» (ترغیب:۲؍۶۲۲)

''جس شخص نے اپنے بھائی کا مال جھوٹی قسم سے ہتھیایا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔''

7. ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں خطبہ دیا اور فرمایا:

«يايها الناس! إني قد ترکت فيکم ما ان اعتصمتم به فلن تضلوا أبداً: کتاب الله وسنة نبيه إن کل مسلم أخ المسلم المسلمون إخوة» (مستدرک حاکم:۱؍۹۳) ''اے لوگو! بے شک میں تم میں وہ چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے، وہ ہے: اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔ بے شک ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔''(مستدرک حاکم:۱؍۹۳)

ایسی غیر مستند روایات جو خطبہ حجۃ الوداع کی طرف منسوب ہیں

1. عبدالرحمن بن یزید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا:

«أرقائکم، أرقائکم، أطعموهم مما تأکلون، واکسوهم مما تلبسون فإن جاء وا بذنب لا تريدون أن تغفروه فبيعوا عباد الله ولا تعذبوهم» (مسنداحمد:۴؍۳۶) '' اپنے غلاموں کا خیال رکھو! جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ، جو خود پہنو، وہی ان کو پہناؤ... اگر وہ کوئی ایسی غلطی کر بیٹھیں کہ تم معاف نہ کرنا چاہو تو ان کو سزا مت دو بلکہ انہیں اللہ کے بندوں کو بیچ دو''۔ (سیرۃ النبی از شبلی نعمانی:ؒ۲؍۱۵۶)

حکم:یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند میں عاصم بن عبیداللہ جو کہ ابن عاصم بن عمر بن الخطاب ہے، ضعیف ہے۔ اس کے علاوہ یہ روایت مصنف عبدالرزاق (۱۷۹۳۵)، طبرانی (۲۲؍۶۳۶) میں بھی ہے۔ اور ان دونوں سندوں میں سفیان ثوری کی تدلیس ہے...اسی طرح طبقات ابن سعد (۳؍۲۷۷) اس میں عبداللہ الاسدی جو کہ ابواحمد الزبیری کی کنیت سے معروف ہے ضعیف راوی ہے کیونکہ یہ سفیان ثوری کی حدیث کے بارے میں غلطیاں کرتا ہے...مجمع الزوائد (۴؍۲۳۶) میں ہیثمی نے ذکر کیا اور کہا کہ اس روایت کو احمد اور طبرانی نے بھی اسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور ان میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہے۔ الغرض غلاموں کے بارے میں اس مضمون کی حجۃ الوداع کے حوالے سے کوئی مستند روایت نہیں۔

نوٹ:لیکن ان الفاظ کے ساتھ یہ صحیح روایت بھی موجود ہے: «إخونکم خولکم جعلکم الله تحت أيديکم فمن کان أخوة تحت يده فليُطعمه مما يأکل وليلبسه مما يلبس ولا تکلفوهم ما يغلبهم فإن کلفتموهم فأعينوهم» (مسلم:۱۶۵۷،۱۶۶۱) (مسنداحمد:۴۷۸۴)

، (ابویعلی:۵۷۸۲)، (الادب المفرد:۱۸۰)، (ابوداود:۵۱۶۸)، (سنن بیہقی:۸؍۱۰)، (الشعب :۸۵۷۲)، (طبرانی فی الکبیر:۱۳۲۹۴) ان کتب میں اس مضمون کی روایت صحیح سند کے ساتھ موجود ہے لیکن وہ خطبہ حجۃ الوداع کی طرف منسوب نہیں۔

2. ابوحرہ الرقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبیؐ نے اوسط ایام التشریق میں فرمایا:«ألا ومن کانت عنده أمانة، فليؤدها إلی من ائتمنهٰ عليها» (مسنداحمد:۵؍۷۳) (محسن انسانیت از نعیم صدیقی:صفحہ ۵۸۵)

حکم:یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں علی بن زید ضعیف ہے جو کہ ابن جدعان کی کنیت سے معروف ہے۔

3. ابوامامۃ الباہلی سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع میں نبیؐ نے فرمایا: «لا تنفق امرأة شيئا من بيتها إلا بإذن زوجها، قيل: يارسول اللهؐ! ولا طعام؟ قال: ذلک أفضل أموالنا، العارية مؤداة، والمنيحة مردودة، والدين يقضی والزعيم غارم» (مصنف عبدالرزاق:۱۶۳۰۸) ''ہاں عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ دینا جائز نہیں، قرض ادا کیا جائے، عاریتا واپس کی جائے، عطیہ لوٹایا جائے، ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔''

حکم:یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ اس میں اسماعیل بن عیاش مُختلط راوی ہے۔ اس معنی کی روایت (ابوداود :۳۵۶۵، ابن ماجہ:۲۳۹۸) وغیرہ میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے لیکن خطبہ حجۃ الوداع کی طرف منسوب نہیں کی گئی۔

4. ابن عمر سے روایت ہے کہ نبیؐ نے اوسط ایام التشریق میں فرمایا: ﴿إِنَّمَا النَّسىءُ زِيادَةٌ فِى الكُفرِ‌ ۖ يُضَلُّ بِهِ الَّذينَ كَفَر‌وا يُحِلّونَهُ عامًا وَيُحَرِّ‌مونَهُ عامًا لِيُواطِـٔوا عِدَّةَ ما حَرَّ‌مَ اللَّهُ...﴿٣٧﴾... سورة التوبة" کانوا يحلون صفرًا عاما، ويحرمون المحرم عاما ويحرمون صفرًا عاما، ويحلون المحرم عاما، فذلک النسيئ» (کشف الاستار:۱۱۴۱) ''سال کی کبیسہ گری کفر میں ایک زیادتی ہے۔ جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ اس کے باعث بہکائے جارہے ہیں۔ وہ اسے ایک سال حلال کرلیتے ہیں اور اسے ایک سال حرام کرلیتے ہیں، تاکہ اس تعداد کا تکملہ کرلیں جو خدا نے حرام کررکھی ہے اور نسئ اس کوکہتے ہیں کہ وہ لوگ محرم کو ایک سال حرام قرار دیتے اور ایک سال صفر کو حلال قرار دیتے ، اسی طرح ایک سال صفر کے مہینے کو حرمت والا بنا دیتے ہیں تو ایک سال محرم کو لڑائی کے لئے حلال قرار دیتے ہیں۔''

حکم:یہ روایت ضعیف ہے ، اس میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہے۔

5. ابن صامت سے روایت ہے کہ آپؐ نے عرفہ کے دن فرمایا: «إن الله قد غفر لصالحيکم وشفع صالحيکم فی طالحيکم ينزل المغفرة فتعمهم ثم يفرق المغفرة فی الأرض فتقع علی کل تائب ممن حفظ لسانه ويده وإبليس وجنوده علی جبال عرفات ينظرون ما يصنع الله فيهم، فإذا نزلت المغفرة دعا وجنوده بالويل»(الموضوعات:۲؍۲۱۶، ترغیب:۲؍۲۰۲، منثور : ۱؍۲۳۰)

''بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے صالحین کو بخش دیا اور ان کی ضعیف اعمال والے لوگوں کے بارے میں بھی سفارش قبول کی جس کی و جہ سے اللہ کی رحمت اُترنے لگی اور عام ہونے لگی، پھر یہ مغفرت زمین پر بکھیر دی گئی، زبان اور ہاتھ کے گناہوں سے بچنے والے ہر تائب پریہ واقع ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس تقسیم کو ابلیس اور ا س کا لشکر عرفات کے پہاڑوں پر سے دیکھ رہے ہیں۔ جب بھی اللہ کی رحمت اُترتی ہے تو ابلیس اور اس کے لشکر واویلا کرتے ہیں۔''

حکم:یہ روایت موضوع ہے ،الحسن بن علی ازدی حدیثیں گھڑنے والا راوی ہے۔

اس روایت کی سند کے بارے میں ابن حبان لکھتے ہیں: «ليس هذا الحديث من کلام رسول اللهؐ ولا من حديث أبی هريرة ولا الأعرج ولا مالک والحسن بن علي کان يضع علی الثقاة لا يحل کتب حديثه ولا الرواية عنه حلال» (الموضوعات:۲؍۲۱۶) ''یہ روایت اللہ کے رسولؐ کے کلام میں سے نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ابوہریرۃ کی کلام ہے اور نہ اعرج و مالک کے کلام میں سے ہے۔ حسن بن علی الازدی ثقات پر جھوٹ باندھتا تھا، اس سے روایت کرنا جائزنہیں۔''

6. حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: «المؤمن حرام علی المؤمن کحرمة هذا اليوم، لحمه عليه حرام أن ياکله بالغيبة يغتابه وعرضه عليه حرام أن يظلمه وأذاه عليه حرام أن يدفعه دفعا» (مجمع الزوائد:۳؍۲۶۸)

''مؤمن دوسرے مؤمن کے لئے اس طرح حرمت والا جس طرح آج (یوم الاضحی) کا دن حرمت والا ہے اور مؤمن کا گوشت دوسرے مؤمن پر حرام ہے جو وہ اس کی غیبت کرکے کھاتا ہے اور اس کی عزت بھی حرام ہے کہ ظلم کرکے اس کی بے عزتی کرے اور اس کو ردّ ؍ دور کرکے تکلیف پہنچانا بھی حرام ہے۔''

حکم:یہ روایت ضعیف ہے، اس میں محمد بن اسماعیل بن عیاش ضعیف ہے۔

7. سنن ابن ماجہ میں ابن مطر سے مروی ہے کہ نبیؐ نے حجۃ الوداع میں فرمایا: «ياأيها الناس خذوا العطاء ماکان عطاء فإذا تجاحفت قريش علی الملک وکان عن دين أحدکم فدعوه » (ضعیف سنن ابی داود للالبانی:۶۳۳)

(آپ لوگوں کو نصیحت فرما رہے تھے ، نیک کاموں کا حکم دیتے اور برے کاموں سے منع کررہے تھے۔ سو آپؐ نے فرمایا: )

اے لوگو! (حاکم) کی بخشش کو لے لیا کرو جب تک وہ بخشش رہے (یعنی موافق شرع کے حاصل ہو اور موافق شرع کے تقسیم ہو) پھر جب قریش ایک دوسرے کے ساتھ بادشاہت کے لئے لڑنا شروع کردیں اور یہ عطا فرض کے بدلہ میں ملے تو اس کو چھوڑ دو۔''

حکم:یہ روایت ضعیف ہے، دیکھئے حوالہ مذکورہ ؛ ضعیف سنن ابی داؤد للالبانی

8. کعب بن عاصم الاشعری کہتے ہیں کہ میں نے اوسط ایام التشریق میں نبیؐ سے خطبہ سنا، آپؐ فرمارہے تھے :

«المؤمن علی المؤمن حرام کحرمة هذا اليوم لحمه عليه حرام أن ياکله بالغيب ويغتابه وعرضه عليه حرام أن يخرقه ووجهه عليه حرام أن يلطمه وأذاه عليه حرام أن يؤذيه وعليه حرام أن يدفعه دفعا يتعتعه» (مجمع الزوائد:۳؍۲۷۲)

''مؤمن دوسرے مؤمن کے لیے اس طرح حرمت والا ہے جس طرح آج کا یہ دن حرمت والا ہے۔اس کاگوشت بھی اس پر حرام ہے، وہ جو اس کی غیبت کر کے کھاتا ہے۔اس کی عزت کو تار تار کرنا، چہرے پر تھپڑ مارنا، اس کو اذیت دینا اور دھکے دے کر دفع دور کرنا بھی حرام ہے ۔'' (مجمع الزوائد :۳؍۲۷۲)

حکم:اس روایت میں کرامۃ بنت الحسن مجہول ہے۔

9. ابوامامہ الباہلی سے روایت ہے کہ آپؐ نے یوم العرفہ کو فرمایا: «ألا کل نبی قد مضت دعوته إلا دعوتی فإنی قد ذخرتها عند ربی إلی يوم القيامة، أما بعد! فإن الانبياء مکاثرون فلا تخزونی فإنی جالس لکم علی باب الحوض» (مجمع الزوائد:۳؍۲۷۱، کنز الاعمال:۳۹۰۸۵) ''خبردار! ہر نبی اپنی دعا کے ساتھ گزر چکے لیکن میں نے اپنے ربّ کے پاس اپنی دعا قیامت کے دن کے لئے ذخیرہ کر چھوڑی ہے۔ پس بے شک انبیا اپنی اپنی امت کی کثرت دیکھ رہے ہوں گے، سو تم مجھے خفت میں نہ ڈالنا، میں تمہارے لئے حوضِ کوثر کے دروازے پر بیٹھا ہوں گا۔''

حکم:یہ روایت ضعیف ہے ، اس میں بقیۃ بن الولید مدلس ہے۔

10. امام ابوداؤد اپنی 'سنن' میں باب الخطبۃ علی المنبر بعرفۃکے تحت روایت لائے ہیں «عن رجل من بنی ضمرة، عن أبيه، أو عمه قال: رأيت رسول اللهؐ وهو علی المنبر بعرفة» ''بنو ضمرہ (قبیلہ ) کا ایک آدمی اپنے والد یا چچا سے روایت کرتا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، وہ عرفہ کے روز منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔''

حکم:یہ روایت ضعیف ہے، دیکھئے (ضعیف سنن ابی داؤد للالبانی : ۴۱۶)

خطبۂ حجۃ الوداع: منشورِ انسانیت

آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا سے خطاب شرو ع کیا...

مرد و زَن کے حقوق و فرائض:عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پرکسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جو گواراہ نہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن سخت مار نہ مارنا اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاؤ اور پہناؤ۔

ہدایت نامہ :اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے اور وہ اللہ کی کتاب ہے اور اس کے نبیؐ کی سنت ہے۔

انسانی مساوات :لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے ہاں عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔

حرمت سود :خبردار! جاہلیت کا ہر قسم کا سود اب ختم ہے ۔تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے ،نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی تم ظلم کا شکار ہو اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں، عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے اب یہ سارے کا سارا سود ختم ہے!!

جاہلیت کے خون معاف :سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کردیے گئے اور ہمارے خون میں سب سے پہلے خون جسے میں ختم کررہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ انہی ایام میں قبیلہ ہذیل نے اسے قتل کردیا۔

ذاتی ذمہ داری : یاد رکھو! کوئی بھی جرم کرنے والا اپنے سوا کسی اور پر جرم نہیں کرتا (یعنی اس جرم کی پاداش میں کوئی اور نہیں بلکہ خود مجرم ہی پکڑا جائے گا) کوئی جرم کرنے والا اپنے بیٹے پر یا کوئی بیٹا اپنے باپ پر جرم نہیں کرتا (یعنی باپ کے جرم میں بیٹے کو یا بیٹے کے جرم میں باپ کو نہیں پکڑا جائے گا)

اطاعت امیر :اگر کوئی حبشی یعنی بریدہ غلام بھی تمہارا قائد بتا دیا جائے اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔

تلقین پیغام رسانی :جو شخص موجود ہے، وہ غیر موجود تک (میری باتیں) پہنچا دے، کیونکہ بعض وہ افراد جن تک (یہ باتیں) پہنچائی جائیں گی وہ بعض (موجودہ) سننے والوں سے کہیں زیادہ ان باتوں کے دروبست کو سمجھ سکیں گے۔

باہمی سلوک: خبردار! کسی مسلمان کی کوئی بھی چیز دوسرے مسلمان کے لئے حلال نہیں جب تک وہ خود حلال نہ کرے اور اپنی خواہش سے نہ دے دے۔

بدکاری کا خاتمہ :بچہ اس کا جس کے بستر پر تولد ہوا اور بدکار کے لئے پتھر ہیں۔

حفاظت نسب :جس نے اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے کو باپ قرار دیا یا جس نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو آقا ظاہرکیا تو ایسے شخص پر اللہ اور فرشتوں اور عام انسانوں کی طرف سے لعنت ہے۔ اس سے (قیامت کے دن) کوئی بدلہ یا عوض قبول نہ ہوگا۔

قوم کی ہلاکت کے مرض کی نشاندہی :لوگو! مذہب میں غلو اور مبالغہ سے بچو کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی سے ہلاک ہوئیں۔

اہمیت علم :اے لوگو! علم حاصل کرو قبل اس کے کہ وہ قبض کرلیا جائے اور اٹھالیا جائے۔

خبردار! علم کے ختم ہوجانے کی ایک یہ بھی شکل ہے کہ اس کے جاننے والے ختم ہوجائیں (یہ بات آپؐ نے تین دفعہ دہرائی)

احترام انسانیت :عنقریب میں تمہیں خبر دوں گا کہ مسلمان کون ہے؟ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ سلامت رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے اموال اور جانیں محفوظ رہیں۔

دھوکہ دہی کی حوصلہ شکنی :جس شخصنے اپنے بھائی کا مال جھوٹی قسم سے ہتھیایا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔

باہمی اخوت :بے شک ہرمسلما ن دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

بڑے دشمن کی پہچان :کوئی بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو اس (دجال) کے بارے میں نہ ڈرایا ہو۔ نوح ؑ اور اس کے بعد آنے والے نبیوں ؑ نے بھی اس کے بارے میں ڈرایا۔ وہ تم (امت محمدیہ کے زمانہ) میں ظاہر ہوگا اور یہ بات تم خوب جانتے ہو۔ اس کی حالت بھی تم سے ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی یہ بات تم پر مخفی ہے کہ تمہارا رب ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو تمہارے لئے پردہ میں ہیں۔ تمہارا ربّ کا نا نہیں جبکہ اس (دجال) کی دائیں آنکھ کانی ہے اور وہ آنکھ اس طرح ہے جس طرح پھولا ہو منقیٰ ہوتا ہے۔

حکمرانوں کی خیرخواہی :تین چیزیں ہیں جن پر مؤمن کا دل خیانت (تقصیر) نہیں کرتا۔ صرف اللہ کے لئے عمل کے اخلاص میں، مسلمانوں کے حکمرانوں کی خیر خواہی میں اور ان کی جماعت سے چمٹے رہنے میں۔

حق وراثت :اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے میراث میں سے ہر وارث کے لئے ثابت کردہ حصہ مقرر کردیا ہے۔ اب وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں۔

سچ کی تلقین :خبردار! عنقریب تم سے میرے بارے میں سوال ہوگا۔ جس نے بھی مجھ پرجھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔

حفاظت دین :اپنے پروردگار کی عبادت کرو پانچوں وقت کی نماز پڑھو اور حج کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ یہ سب کام خوشی سے سرانجام دو تو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔

درس اتحاد :اور تم لوگ بہت جلد اپنے پروردگار سے ملو گے وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا، لہٰذا دیکھو میرے بعد پلٹ کر گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

شہادت اور تکمیل مشن :اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہ کرام ؓ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا۔ یہ سن کر آپؐ نے انگشت ِشہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہ، اے اللہ گواہ رہے، اے اللہ گواہ رہے!!

اُنہی ایام میں یہ وحی نازل ہوئی:

﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا٣﴾... سورة المائدة ''آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا۔'' ٭٭

عید الاضحی اورعشرئہ ذو الحجہ کےمسائل

عشرئہ ذو الحجہ

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:﴿وَلَيالٍ عَشرٍ‌ ٢ وَالشَّفعِ وَالوَترِ‌ ٣ ﴾... سورة الفجر

حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ ’’عَشْرٍسے مراد دوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں اور وَتْرِسے مراد یومِ عرفہ اور شَفْعِ کا مطلب قربانی والا دن (یوم النحر) ہے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر: ۴؍۷۹۹)

عبد اللہ بن عباسؓ ان دس دنوں کی فضیلت کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ذو الحجہ کے ان دس دنوں کا عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں دوسرے تمام دنوں کے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہے۔ لوگوں نے کہا: جہاد فی سبیل اللہ بھی اس کا مقابلہ نہیں کرتا؟آپ ؐ نے فرمایا:جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، ہاں اس شخص کا جہاد افضل ہو گا جو اپنی جان ومال لے کر اللہ کی راہ میں نکلااور سب کچھ قربان کر دیا اور کوئی چیز واپس لے کر نہ لوٹا۔‘‘   (بخاری: حدیث۹۶۹، ابن کثیر:۴؍۷۹۸)

۹ ذوالحجہ : ذوالحجہ کا مہینہ حرمت کے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ نو تاریخ کا روزہ رکھنے کے بارے میں آپ ﷺ فرماتے ہیں:’’ عرفہ (۹؍ذوالحجہ) کے دن روزہ کے بارے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ پچھلے ایک سال اور آئندہ ایک سال کے گناہ مٹا دیئے جائیں گے۔‘‘   (مسلم)

عید الاضحی … مسائل واحکام

1.              نماز عید کے لیے سب مسلمان مرد وعورتیں جائیں حتیٰ کہ حیض والی عورتیں اور پردہ والی خواتین بھی مسلمانوں کی دعا میں ضرور شریک ہوں۔ (بخاری: حدیث ۳۲۴)

2.             عید گاہ میں جانے سے پہلے کچھ نہ کھانا مستحب ہے، لیکن اگر کھالے تو نبی ﷺ کی تقریری حدیث کے مطابق وہ بھی درست ہے۔(بخاری:حدیث۹۸۳)

3.             عید گاہ میں عید کی نمازکے سوا، نہ پہلے کوئی نفل وغیرہ پڑھے جائیں اورنہ بعد (بخاری)

4.            عید اگر جمعہ کو آجائے تو جمعہ پڑھنے میں اختیار ہے، جمعہ نہ پڑھنا ہو توظہر کی نماز پڑھ لے (ابن ماجہ)

5.             عید کی نماز مسنون طریقہ سے ادا کرنے کے بعد رستہ بدل کر آنا چاہیے۔(بخاری:۹۸۶)

6.              جس کی عید کی نماز فوت ہو جائے تو وہ علیحدہ دو رکعتیں عید کی طرح پڑھ لے۔ (بخاری)

7.             عید کے دنوں میں تکبیرات کے مستند الفاظ یہ ہیں:   «اﷲ أکبر، اﷲ أکبر، اﷲ أکبر کبيرا »

دوسری روایت:«اﷲاکبرکبيرا، اﷲ أکبرکبيرا، اﷲ أکبروأجلّ، اﷲ أکبروﷲ الحمد» (بیہقی، ابن ابی شیبہ ،مستدرک حاکم۱۱؍۲۹۹)

قربانی سے متعلقہ احکام ومسائل:جانوروں کی قربانی خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کی جائے، اس عمل میں ذرّہ بھر شرک یا ریاکاری کی ملاوٹ نہ ہو ۔نبی ﷺ کو بھی یہی حکم ہے کہ ﴿قُل إِنَّ صَلاتى وَنُسُكى وَمَحياىَ وَمَماتى لِلَّهِ رَ‌بِّ العـٰلَمينَ ﴿١٦٢﴾... سورة الانعام

’’آپ کہہ دیجئے؛ یقینا میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ انسان کے دل کے تقویٰ پرہیز گاری اخلاص اور جذبہ اطاعت کو دیکھ کر بدلہ دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿لَن يَنالَ اللَّهَ لُحومُها وَلا دِماؤُها وَلـٰكِن يَنالُهُ التَّقوىٰ مِنكُم...٣٧﴾... سورة الحج ’’اللہ کو ان جانوروں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا بلکہ اسکو تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔‘‘

جانوروں کو غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا شرک وحرام ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ اس آدمی پر لعنت کرے جو اپنے والد پر لعنت کرے اور اللہ تعالیٰ اس آدمی پر بھی لعنت کرے جو غیر اللہ کے لیے ذبح کرے۔‘‘ (مسلم: حدیث۵۰۹۶)

1.              عید الاضحی کے روز نمازِ عید پڑھ کر قربانی کرنی چاہیے۔اگر پہلے قربانی کر لی گئی تو وہ قربانی متصور نہ ہو گی اور دوبارہ قربانی کرنا پڑے گی۔ (بخاری : حدیث ۹۸۵،مسلم)

2.            قربانی کرنیوالا چاند دیکھتے ہی دس ذوالحجہ تک کے لیے بال اور ناخن نہ کٹوائے۔ (مسلم )

3.            قربانی کی طاقت نہ رکھنے والا عید کے دن ہی اپنے ناخن اور بال کٹوائے، اس کی یہی قربانی ہے۔( ـابو داود:حدیث۱۰۱۶)

4.             چھری وغیرہ جانور کو دِکھا کر تیز نہیں کرنی چاہیے اور چھری خوب تیز کی جائے تا کہ جانور کو آرام پہنچے۔ (مسلم : حدیث۵۰۶۴، حاکم ۲۳۱۱۴، نسائی ۴۴۱۳)

5.            اونٹ کو کھڑا کر کے نحر کرنا چاہیے جبکہ دوسرے جانوروں کو لٹا کر ذبح کرنا چاہیے اور اپنا قدم اس کے پہلو پر رکھنا سنت ہے۔ (بخاری:حدیث۱۷۱۳ ،مسلم)

6.             جانور کو قبلہ ُرخ لٹانا سنت ہے۔(بیہقی:حدیث۹؍۲۸۵، موطأ:۱؍۳۷۹)

7.             جانوروں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے۔(بخاری:حدیث ۵۵۵۸، مسلم)

8.            عورت بھی ذبح کر سکتی ہے۔ (فتح الباری ؍ بخاری:حدیث   ۵۵۵۹)

9.             ذبح کرتے وقت تکبیر ان الفاظ میں پڑھی جائے: ’بسم اللہ واللہ اکبر‘ (مسلم:حدیث۵۰۶۳)

10.            ذبح کرنے والے کی اُجرت کھال یا قربانی کے گوشت کی صورت میں نہیں بلکہ اپنے پاس سے دینی چاہیے کیونکہ نبی ﷺ نے کھال اُجرت پر دینے سے منع کیا ہے (بخاری، مسلم)

11.       ایک قربانی سب گھر والوں کو کفایت کر جاتی ہے۔(صحیح ترمذی:حدیث۱۲۱۶)

12.       بڑے جانور مثلا گائے اور ا ونٹ کی قربانی میں ایک سے زیادہ لوگ شریک ہوسکتے ہیں۔ گائے کی قربانی میں سات اور اونٹ کی قربانی میں دس افراد تک حصہ دار بن سکتے ہیں۔ (نسائی:حدیث۴۳۹۲، ترمذی:حدیث ۱۵۵۳، احمد ، حاکم)

13.       قربانی کا گوشت غربا،مساکین پر صدقہ کیا جاسکتا ہے ۔دوست واحباب ،عزیز واقارب کو تحفہ اور خود بھی جتنی ضرورت ہو کھایا جاسکتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا القانِعَ وَالمُعتَرَّ‌...٣٦ ﴾... سورة الحج ’’پس ان (کے گوشت) سے کھاؤ، نہ مانگنے اور مانگنے والے، دونوں کو کھلاؤ۔‘‘ اور اسکے علاوہ سٹور بھی کر سکتا ہے۔(مسلم:حدیث ۵۰۷۷)

14.         قربانی کی کھال کا مصرف بھی گوشت کی طرح ہی ہے ۔

قربانی کے جانور کے اوصاف: 1. جانور صحت مند ہونا چاہیے۔ 2. جانور کا دو دانتا ہونا ضروری ہے۔ اگر دو دانتا نہ ملے یا تنگی کی وجہ سے دو دانتا نہ لیا جاسکتے تو کھیرا مینڈھا چل جائے گا۔ (مسلم:حدیث ۱۹۶۳) 3. قربانی کا جانور مندرجہ ذیل عیوب سے پاک ہونا چاہیے :

1. کان اور آنکھیں اچھی طرح دیکھ لی جائیں کہ کہیں آنکھیں کانی نہ ہوں جن کا کانا پن ظاہر ہو۔2. کان اوپر نیچے سے کٹا ہوا نہ ہو اور کان لمبائی میں بھی چرا ہوا نہ ہو ،نہ ہی کان میں گول سوراخ ہو۔

3. لنگڑا نہ ہو کہ اس کا لنگڑا پن ظاہر ہوتا ہو۔  4. واضح بیماری والا نہ ہو۔

5. لاغر نہ ہو کہ اس کی ہڈیوں میں گودا تک نہ ہو۔6. کان اور سینگ آدھا یاآدھے سے زیادہ کٹا ہوا نہ ہو   (ابوداود:حدیث۲۸۰۲،ابن خزیمہ:حدیث۲۹۱۲، مستدرک:حدیث۱؍۴۶۸، دارمی)

یہ قربانی ’ایامِ تشریق‘ (۱۱،۱۲،۱۳ذوالجہ ) کے دنوں میں کی جاسکتی ہے۔ (احمد ،دار قطنی، ابن حبان)