آغاز وحی سے ہجرت تک (قسط 2)

رَدِّعمل
اس ہجرت سے مکے کے گھر گھر میں گہرام مچ گیا۔ کیونکہ قریش کے بڑے اورچھوٹے خاندانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کے چشم و چراغ ان مہاجرین میں شامل نہ ہوں، کسی کابیٹا گیاتو کسی کا داماد، کسی کی بیٹی گئی تو کسی کا بھائی اور کسی کی بہن۔ ابوجہل کے بھائی سلمیٰ بن ہشام اس کے چچازاد بھائی ہشام بن ابی حذیفہ اور عیاش بن ابی ربیعہ اور اس کی چچا زاد بہن حضرت اُم سلمیٰ، ابوسفیان کی بیٹی اُم حبیبہ، عتبہ کے بیٹے اور ہندہ جگر خور کے سگے بھائی ابوحذیفہ، سہیل بن عمرو کی بیٹی سہلہ اور اسی طرح دوسرے سرداران قریش اور مشہو ردشمنان اسلام کے اپنے جگر گوشے دین کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اسی لیے کوئی گھر نہ تھا جو اس واقعہ سے متاثر نہ ہوا ہو۔ بعض لوگ اس کی وجہ سے اسلام دشمنی میں اور سخت ہوگئے اور بعض کے دلوں میں اس کا ایسا اثر ہوا کہ آخر کار وہ مسلمان ہوکر رہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کی اسلام دشمنی پر سب سے پہلی چوٹ اسی واقعہ پر لگی۔ ان کیایک قریبی عزیزہ لیلیٰ بنت ابی حشمہ بیان کرتی ہیں کہ میں ہجرت کے لیے سامان باندھ رہی تھی اور میرے شوہر عامر بن ربیعہ کام سے باہر گئے ہوئے تھے اتنے میں عمرؓ آئے اور میری مشغولیت دیکھتے رہے، کچھ دیر کے بعد کہنےلگے ''عبداللہ کی ماں جارہی ہو؟'' میں نے کہا ''ہاں! خدا کی قسم تم لوگوں نے ہمیں بہت ستایا ہے۔ خدا کی زمیں بڑی کھلی پڑی ہے۔اب ہم کسی ایسی جگہ چلے جائیں گے جہاں خدا ہمیں چین دے۔'' یہ سن کر عمرؓ کے چہرے پر رقّت کے ایسے آثار طاری ہوئے جو میں نے کبھی ان پر نہ دیکھے تھے اور بس یہ کہہ کر نکل گئے کہ ''خدا تمہارے ساتھ ہو۔''

ہجرت کے بعد قریش کے سردار سرجوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے عبداللہ بن ابی ربیعہ (ابوجہل کے ماں جائے بھائی) اور عمرو بن العاص کوبہت سے قیمتی تحائف کے ساتھ حبش بھیجا تاکہ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح نجاشی کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ ان مہاجرین کومکہ واپس بھیج دے۔ اُم المؤمنین حضرت اُم سلمیٰؓ نے (جو خود مہاجرین حبشہ میں شامل تھیں) یہ واقعہ بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ قریش کے یہ دونوں ماہر سیاسیات سفیر ہمارے تعاقب میں حبش پہنچے ۔ پہلے انہوں نےنجاشی کے اعیان سلطنت میں خود ہیرے تقسیم کیے۔ سب کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ مہاجرین مکہ کو واپس کرنےکے لیے نجاشی پر بالاتفاق زور دیں گے۔ پھر نجاشی سے ملے اور اسے بیش قیمت نذرانے دینے کے بعد کہا کہ ''ہمارے شہر کے چند نادان لونڈے بھاگ کر آپ کے ہاں آگئے ہیں اور قوم کے اشراف نے ہمیں آپ کے پاس ان کی واپسی کی درخواست کرنے کے لیے بھیجا ہے یہ لڑکے ہمارے دین سے نکل گئے ہیں اور آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے ایک نرالا دین نکال لیاہے۔'' ان کا کلام ختم ہوتے ہی درباری ہر طرف سے بولنے لگے کہ ایسے لوگوں کو ضرور واپس کردینا چاہیے ان کی قوم کے لوگ زیادہ جانتے ہیں کہ ان میں عیب کیا ہے انہیں رکھنا ٹھیک نہیں۔ مگر ناشی نے بگڑ کر کہا کہ ''اس طرح تو میں انہیں حوالے نہیں کروں گا، جن لوگوں نے دوسرے ملکوں کو چھوڑ کرمیرے ملک پر اعتماد کیا اور یہاں پناہ لینے کے لیے آئے اُن سے بے وفائی نہیں کرسکتا۔ پہلے میں انہیں بلاکر تحقیق کروں گا کہ یہ لوگ ان کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے۔'' چنانچہ نجاشی نے اصحاب رسول اللہ ﷺ کو اپنے دربار میں بلا بھیجا۔

نجاشی کے دربار میں
نجاشی کا پیغام پاکر سب مہاجرین یکجا ہوئے اور انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بادشاہ کے سامنے کیا کہنا ہے۔ آخر سب نے بالاتفاق یہ فیصلہ کیا کہ نبیﷺ نے جو تعلیم ہمیں دی ہے ہم تو وہی بے کم و کاست پیش کریں گے۔ خواہ نجاشی ہمیں نکال دے یا رکھے۔ دربار میں پہنچے تو چھوٹتے ہی نجاشی نے سوال کیا کہ ''تم لوگوں نے کیا کیا کہ اپنی قوم کا دین بھی چھوڑا اور میرے دین میں بھی داخل نہ ہوئے نہ دنیا کے دوسرے ادیان ہی میں سے کسی کو اختیار کیا؟ آخر یہ تمہارا اپنا دین ہے کیا؟'' اس پر مہاجرین کی طرف سے جعفرؓ بن ابی طالب نے ایک برجستہ تقریر کی جس میں عرب کی دینی، اخلاقی و معاشرتی خرابیوں کو بیان کیا پھر نبیﷺ کی بعثت کا ذکر کرکے بتایا کہ آپ کیا تعلیمات پیش فرماتے ہیں، پھر ان مظالم کا ذکر کیا جو آنحضورؐ کی پیروی کرنے والوں پر قریش کے لوگ ڈھا رہے تھے اور اپنا کلام اس بات پر ختم کیا کہ دوسرے ملکوں کے بجائے ہم نے آپ کے ملک کا رخ اس امید پر کیا کہ یہاں پر ہم پر ظلم نہ ہوگا۔''

نجاشی نے تقریر سن کر کہا کہ ذرا مجھے وہ کلام سناؤ: جو تم کہتےہو کہ خدا کی طرف سے تمہارے نبی پر اترا ہے۔ حضرت جعفرؓ نے جواب میں سورہ مریم کا وہ ابتدائی حصہ سنایا جو حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے متعلق ہے۔نجاشی اس کو سنتا رہا اور روتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی۔ جب حضرت جعفرؓ نے تلاوت ختم کی تو اس نے کہا : ''یقیناً یہ کلام اور جو کچھ عیسیٰ لائے تھے دونوں ایک ہی سرچشمے سے نکلے ہیں۔ خدا کی قسم میں تمہیں ان لوگوں کے حوالے نہیں کروں گا۔''

دوسرے روز عمر و بن العاص نےنجاشی سے کہا کہ ذرا ان لوگوں کوبلا کر یہ تو پوچھئیے کہ عیسیٰ ؑبن مریم ؑ کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا ہے، یہ لوگ ان کےمتعلق ایک بُری بات کہتے ہیں۔ نجاشی نے پھر مہاجرین کوبلا بھیجا ۔ مہاجرین کو پہلے عمرو کی چال کا علم ہوچکا تھا۔ انہوں نے جمع ہوکر پھرمشورہ کیا کہ اگرنجاشی نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارےمیں سوال کیا تو کیا جواب دوگے؟ موقع بڑا نازک تھا اور سب پریشان تھے مگر پھربھی اصحاب رسول اللہ ﷺ نےیہی فیصلہ کیا کہ جو کچھ ہوتا ہے ہوجائے ہم تو وہی بات کہیں گے جو اللہ نے فرمائی اور اللہ کے رسول نے سکھائی ۔چنانچہ جب یہ لوگ دربار میں گئے تو نجاشی نے عمرو بن العاص کا پیش کردہ سوال اُن کے سامنے دوہرایا تو جعفرؓ بن ابی طالب نے اُٹھ کر بلا تامل کہا۔ ''ھو عبداللہ و رسوله و روحه و کلمته ألقاھا إلی مریم العذراء البتول'' ''وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی طرف سے ایک روح اور ایک کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری مریم پر القا کیا۔'' نجاشی نے سن کر ایک تنکا زمیں سے اٹھایا اور کہا ''خدا کی قسم جو کچھ تم کہتے ہو عیسیٰ ؑ اس سے ایک تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں تھے۔'' اس کےبعد نجاشی نے قریش کے بھیجے ہوئے تمام ہدیے یہ کہہ کرواپس کردیئے کہ میں رشوت نہیں لیتا اور مہاجرین سے کہا کہ تم بالکل اطمینان سے رہو۔

ہے ترکِ وطن سنّتِ محبوب الٰہیؐ
مخالفین دعوت کی طرف سے مزاحمت پوری شدت اختیار کرچکی ہے۔ وہ نبی اور پیروان نبی کو اپنے درمیان برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان سے اب یہ امید باقی نہیں رہی کہ تفہیم و تلقین سے راہ راست پر آجائیں گے اب انہیں انجام سے خبردار کرنے کا موقع آگیا ہے جو نبیؐ کو آخری اور قطعی طور پر ردّ کردینے کی صورت میں انہیں لازماً دیکھنا ہوگا۔

اس انجام کا آغاز ہجرت سے ہوا جس میں نبیؐ نے اس زمیں کو چھوڑ دیا، جو دعوت حق کے لیے بنجر ہوگئی تھی اور پھر آٹھ سال بعد اس میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے۔

مکی دور کے آخری تین چار سالوں میں یثرب میں اسلام کی شعاعیں مسلسل پہنچ رہی تھیں اور وہاں کے لوگ متعدد وجوہ سے عرب کے دوسرے قبیلوں کی بہ نسبت زیادہ آسانی کے ساتھ اس روشنی کو قبول کرتے جارہے تھے آخر کار نبوت کےبارہویں سال حج کے موقع پر 75 نفوس کا ایک وفد نبیﷺ سے رات کی تاریکی میں ملا اور اس نے نہ صرف یہ کہ اسلام قبول کیا بلکہ آپؐ اور آپؐ کے پیرووں کو اپنے شہر میں جگہ دینے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔ یہ اسلام کی تاریخ میں ایک انقلابی موقع تھا، جسے خدا نے اپنی عنایت سے فراہم کیا اور نبیﷺ نے ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا۔ اہل یثرب نبیﷺ کو محض ایک پناہ گزین کی حثییت سے نہیں بلکہ خدا کے نائب اور اپنے امام و فرمانروا کی حیثیت سے بلا رہے تھے اور اسلام کے پیروؤں کو ان کا بلا وا اس لیےنہ تھا کہ وہ ایک اجنبی سرزمیں میں محض مہاجر ہونے کی حیثیت سے جگہ پالیں بلکہ مقصد یہ تھا کہ عرب کے مختلف قبائل اور خطوں میں جو مسلمان منتشر ہیں۔وہ یثرب میں جمع ہوکر اور یثربی مسلمانوں سے مل کر ایک منظم معاشرہ بنا لیں۔ اس طرح یثرب نے دراصل خود اپنے آپ کو مدینة الاسلام کی حیثیت سے پیش کیا اور نبیﷺ نے اسے قبول کرکے عرب میں پہلا دارالسلام بنا لیا۔

عرب کو چیلنج
اس پیش کش کے معنی جو کچھ تھے اس سے اہل مدینہ ناواقف نہ تھے۔ اس کے صاف معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹا سا قصبہ اپنے آپ کو پورے ملک کی تلواروں اور معاشی و تمدنی بائیکاٹ کےمقابلہ میں پیش کررہا تھا۔ چنانچہ بیعت عقبہ کے موقع پر رات کی اس مجلس میں السام کے ان مددگاروں (انصار) نےاس نتیجہ کو خوب اچھی طرح جان بوجھ کر نبیﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا۔ عین اس وقت جب کہ بیعت ہورہی تھی یثربی وفد کے ایک نوجوان رکن اسد بن زرارہؓ نے جو پورے وفد میں سب سے کم سن شخص تھا اُٹھ کر کہا:
''ٹھہرو اے اہل یثرب! ہم لوگ ان کے پاس آئے ہیں تو یہ سمجھتے ہوئے آئے ہیں کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور انہیں یہاں سے نکال کر لے جانا تمام عرب سے دشمنی مول لینا ہےاس کےنتیجہ میں تمہارے نونہال قتل ہوں گے اور تلواریں تم پر برسیں گی۔ لہٰذا اگر تم اس کو برداشت کرنےکی طاقت اپنے اندر پاتے ہو تو ان کا ہاتھ پکڑ اور اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور اگر تمہیں اپنی جانیں عزیز ہیں تو پھر چھوڑ دو اور صاف صاف عذر کردو۔ کیونکہ اس وقت عذر کردینا خدا کے نزدیک زیادہ قابل قبول ہوسکتا ہے۔''
اس بات کو وفد کے ایک دوسرے شخص عباس بن عبادہ بن نضلہؓ نے دہرایا:

''جانتے ہو اس شخص سے کس چیز پربیعت کررہے ہو؟'' (آوازیں،''ہاں ہم جانتے ہیں'') ''تم اس کے ہاتھ پربیعت کرکے دنیابھر سے لڑائی مول لے رہے ہو۔ پس اگر تمہارا خیال یہ ہو کہ جب تمہارا مال تباہی کے اور تمہارے اشراف ہلاکت کے خطرے میں پڑ جائیں تو تم اسے دشمنوں کے حوالے کردو گے توبہتر ہے آج ہی اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہے اور اگر تمہارا ارادہ یہ ہے کہ جو بلا وا تم اس شخص کو دے رہے ہو اس کو اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کی ہلاکت کے باوجود نباہ کرسکو گے تو بیشک اس کا ہاتھ تھام لو کہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔''

اس پر تمام وفد نے بالاتفاق کہا : (ترجمہ) ''ہم اسے لے کر اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کو ہلاکت میں ڈالنے کے لیے تیا رہیں'' تب وہ مشہو ربیعت واقع ہوئی جسے تاریخ میں بیعت عقبہ ثانیہ کہتے ہیں۔

قریش کے لیے ہجرت کے نتائج
دوسری طرف اہل مکہ کے لیے یہ معاملہ، جو معنی رکھتا تھا۔ وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔ دراصل اس طرح محمدﷺ کو جن کی زبردست شخصیت اور غیر معمولی قابلیت سے قریش کے لوگ واقف ہوچکے تھے، ایک ٹھکانا میسر آرہا تھا اور ان کی قیادت رہنمائی میں پیروان اسلام، جن کی عزیمت و استقامت اور فدائیت کو بھی قریش ایک حد تک آزما چکے تھے، ایک منظم جتھے کی صورت میں جمع ہوئے جاتے تھے۔ یہ پرانے نظام کے لیے موت کا پیغام تھا۔ نیز مدینہ جیسے مقام پر مسلمانوں کی اس طاقت کو مجتمع ہوتے دیکھ کر قریش کو مزید خطرہ یہ تھا کہ یمن سے شام کی طرف جو تجارتی شاہراہ ساحل بحر احمر کے کنارے کنارے جاتی تھی اور جس کے محفوظ رہنے پر قریش اور دوسرے بڑے بڑے مشرک قبائل کی معاشی زندگی کا انحصار تھا وہ مسلمانوں کی زد میں آجاتی تھی اور اس شہ رگ پر ہاتھ ڈال کر مسلمان نظام جاہلی کی زندگی دشوار کرسکتے تھے۔ صرف اہل مکہ کی وہ تجارت جو اس شاہراہ کے بل پر چلتی تھی، ڈھائی لاکھ اشرفی سالانہ تک پہنچتی تھی۔ طائف اور دوسرے مقامات کی تجارت اس کے ماسوا تھی۔ قریش ان نتائج کو خوب سمجھتے تھے۔ جس رات بیعت عقبہ ثانی واقع ہوئی اسی رات اس معاملہ کی بھنک اہل مکہ کے کانوں میں پڑی اور پڑتے ہی کھلبلی مچ گئی۔ پہلے تو انہوں نے اہل مدینہ کو نبیﷺ سے توڑنے کی کوشش کی۔ پھر جب مسلمان ایک ایک دو دو کرکے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے تو قریش کو یقین ہوگیا کہ اب محمدﷺ بھی وہاں منتقل ہوجائیں گے اور وہ اس خطرے کو روکنے کے لیے آخری چارہ کار اختیار کرنے پر آمادہ ہوگئے۔

قتل کامنصوبہ
یہ اس موقع کا ذکر ہے جب کہ قریش کا یہ اندیشہ یقین کی حد کو پہنچ چکا تھا کہ اب محمدﷺ بھی مدینہ چلے جائیں گے۔ اس وقت وہ آپس میں کہنے لگے کہ اگر یہ شخص مکہ سے نکل گیا تو پھر خطرہ ہمارے قابو سے باہر ہوجائے گا۔ چنانچہ انہوں نے آپؐ کے معاملہ میں آخری فیصلہ کرنے کے لیے دارالندوہ میں تمام رؤسائے قوم کا ایک اجتماع کیا اور اس پر باہم مشاورت کی کہ اس خطرے کا سدباب کس طرح کیا جائے۔ایک فریق کی رائے یہ تھی کہ اس شخص کو بیڑیاں پہنا کر ایک جگہ قید کردیا جائے اور جیتے جی رہا نہ کیا جائے، لیکن اس رائے کو قبول نہ کیا گیا کیونکہ کہنے والوں نے کہا کہ اگ رہم نے اسے قید کردیا تو اس کے ساتھ قید خانے سے باہر ہوں گے وہ برابر اپنا کام کرتے رہیں گے اور جب ذرا بھی قوت پکڑ لیں گے تو اسے چھڑانے کے لیے جان کی بازی لگانے میں بھی دریع نہیں کریں گے۔ دوسرے فریق کی رائے یہ تھی کہ اسے اپنے ہاں سے نکال دو پھر جب یہ ہمارے درمیان نہ رہے تو ہمیں اس سےکچھ بحث نہیں کہ کہاں رہتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ بہرحال اس کے وجود سے ہمارے نظام زندگی میں خلل پڑنا تو بند ہوجائے گا۔ لیکن اسے بھی یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ یہ شخص جادو بیان آدمی ہے۔دلوں کو موہ لینے میں اسے بلا کا کمال حاصل ہے اگریہ یہاں سے نکل گیا تو نامعلوم عرب کے کن کن قبیلوں کو اپنا پیرو بنا لے گا اور پھر کتنی قوت حاصل کرکے قلب عرب کو اپنے اقتدار میں لانے کے حملہ آور ہوگا۔ آخر کار ابوجہل نے یہ رائے پیش کی کہ ہم اپنے تمام قبیلوں میں سے ایک ایک عالی نسب تیزدست جوان منتخب کریں اور یہ سب مل کر یکبارگی محمدؐ پرٹوٹ پڑیں اور اسے قتل کردیں۔ اس طرح محمدؐ کا خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہوجائے اور بنی عبدمناف کے لیے ناممکن ہوجائے گا کہ یہ سب سے لڑسکیں۔ اس لیے مجبوراً خون بہا پر فیصلہ کرنے کے لیے راضی ہوجائیں گے۔ اس رائے کو سب نےپسند کیا۔ قتل کے لیے آدمی بھی نامزد ہوگئے اور قتل کا وقت بھی مقرر کردیا گیا۔ حتیٰ کہ جو رات اس کام کے لیے تجویز کی گئی تھی اس میں ٹھیک وقت پر قاتلوں کا گروہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچ بھی گیا لیکن......

ہجرت
آپؐ عین اس وقت رات کو ، جو قتل کے لیے مقرر کی گئی تھی ، مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے تھے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد دو دو چار چار کرکے پہلے ہی مدینہ جاچکی تھی۔ مکہ میں صرف وہی مسلمان رہ گئے تھے جو بالکل بے بس تھے یا جو صرف دل میں ایمان چھپائے ہوئے تھ اور ان پر کوئی بھروسہ نہ کیا جاسکتا تھا۔ اس حالت میں جب آپؐ کو معلوم ہوا کہ آپ ؐ کو قتل کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے تو آپؐ صرف ایک رفیق حضرت ابوبکرؓ کو ساتھ لے کر مکہ سے نکلے اور اس خیال سے کہ آپؐ کا تعاقب ضرور کیا جاوے گا آپؐ نے مدینہ کی راہ چھوڑ کر جو شمال کی جانب تھی، جنوب کی راہ اختیار کی۔ یہاں تین دن تک آپؐ غار ثور میں چھپے رہے۔ خون کے پیاسے دشمن اپؐ کو ہر طرف ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ اطراف مکہ کی وادیوں کا کوئی گوشہ انہوں نے نہ چھوڑا جہاں آپؐ کو تلاش نہ کیا ہو۔ اسی سلسلہ میں ایک مرتبہ ان میں سے چند لوگ عین اس غار کے دہانے پر بھی پہنچ گئے جس میں آپؐ چھپے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کو سخت خوف لاحق ہوا کہ اگ ران لوگوں میں سے کسی نے ذرا آگے بڑھ کر جھانک لیا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا ۔ لیکن نبیﷺ کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا اور آپؐ نے ابوبکرؓ کو یہ کہہ کر تسکین دی کہ ''غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔''

ہجرت مسلمانوں کا شعار ہے اور خداوند تعالیٰ کی جانب سے اپنے ماننے والوں کی صداقت اور عزم و ہمت جانچنے کا طریقہ ۔ جب نبیﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو سب مسلمان آہستہ آہستہ مکہ چھوڑ کر مدینہ آئے اس مرحلہ پر مومنین کو جس سخت آزمائش سے گزرنا پرا اور اس آزمائش سے جس جرأت و ہمت سے وہ گزر گئے وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔

جس ظلم کے ساتھ یہ لوگ نکالے گئے اس کا اندازہ کرنے کے لیے ذیل کے چند واقعات ملاحظہ ہوں:
حضرت صہیبؓ رومی جب ہجرت کرنے لگے تو کفار قریش نے ان سے کہا کہ تم یہاں خالی ہاتھ آئے تھے اور اب خوب مالدار ہوگئے ہو تم جانا چاہو تو خالی ہاتھ ہی جاسکتے ہو، اپنا مال نہیں لے جاسکتے۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا تھا ۔ کسی کا دیا نہیں کھاتے تھے ۔ آخر وہ غریب دامن جھاڑ کر کھڑے ہوگئے اور سب کچھ ظالموں کے حوالے کرکے اس حال میں مدینہ پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا۔

حضرت اُم سلمہؓ اور ان کے شوہر ابوسلمہؓ اپنےدودھ پیتے بچے کو لے کر ہجرت کے لیے نکلے ۔ بنی مغیرہ (اُم سلمٰہ کے خاندان)نے راستہ روک لیا اور ابوسلمٰہ سے کہا کہ تمہارا جہاں جی چاہے پھرتے رہو مگر ہماری لڑکی کو لے کر نہیں جاسکتے مجبوراً بیچارے بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے پھر بنی عبدالاسد (ابوسلمہؓ کے خاندان والے) آگے بڑھے اور انہوں نے کہا کہ بچہ ہمارے قبیلہ کا ہے، اسےہمارے حوالے کرو اس طرح بچہ بھی ماں اور باپ دونوں سے چھین لیا گیا۔ تقریباً ایک سال تک حضرت اُم سلمہؓ اور شوہر کے غم میں تڑپتی رہیں اور آخر بڑی مصیبت سے بچے کو حاصل کرکے مکہ سے اس حال میں نکلیں کہ اکیلی عورت گود میں بچہ لیے اونٹ پر سوار تھی اور ان راستوں پر جارہی تھی جن سے مسلح قافلے بھی گزرتے ہوئے ڈرتے تھے۔

عیاشؓ بن ربیعہ ابوجہل کے ماں جائے بھائی تھے۔ حضرت عمرؓ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ پہنچ گئے۔ پیچھے پیچھے ابوجہل اپنے ایک بھائی کو ساتھ لےکر جاپہنچا اور بات بنائی کہ اماں جان نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک عیاش کی شکل نہ دیکھ لوں گی نہ دھوپ سے سائے میں جاؤں گی اور نہ سر میں کنگھی کروں گی۔ ا س لئے تم بس چل کر انہیں صورت دکھا دو پھر واپس آجانا۔وہ بچارے ماں کی محبت میں ساتھ ہولئے راستے میں دونوں بھائیوں نے ان کو قید کرلیا اور مکے میں انہیں لے کر اس طرح داخل ہوئے کہ وہ رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور دونوں بھائی پکارے جارہے تھے کہ ''اے اہل مکہ ! اپنے ان نالائق لونڈوں کو یوں سیدھا کرو، جس طرح ہم نے کیا ہے۔'' کافی مدت یہ بیچارے قید رہے اور آخر کار ایک جانباز مسلمان انہیں نکال لانے میں کامیاب ہوا۔''

مسلمانوں کا یہ عمل اس بے مثال اخلاقی تربیت کا براہ راست نتیجہ تھا جو مکی زندگی کے پورے دور میں قرآن کی راہنمائی میں نبی کریمﷺ نے ان کو دی۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ ہجرت کرنے میں فکر جان کی طرح فکر روزگار سے بھی پریشان نہ ہونا چاہیے۔ آخر یہ بے شمار چرند و پرند اور ابی حیوانات جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوا، خشکی اور پانی میں پھر رہے ہیں، ان میں سے کون اپنا رزق اٹھائے پھرتا ہے، اللہ ہی تو ان سب کو پال رہا ہے۔ جہاں جاتے ہو اللہ کے فضل سے کسی نہ کسی طرح رزق مل ہی جاتا ہے۔ لہٰذا تم یہ سوچ کر ہمت نہ ہارو کہ اگر ایمان کی خاطر گھر بار چھوڑ کرنکل گئے تو کھائیں گے کہاں سے۔ اللہ جہاں سے اپنی بے شمار مخلوق کو رز دے رہا ہے، تمہیں بھی دے گا۔ ٹھیک یہی بات ہے جو سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمائی تھی ۔ انہوں نے فرمایا:
''کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کرسکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے ناچیز جانے گا۔ تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے اور نہ اپنے بدن کی کی کیا پہنیں گے۔ کیا جان، خوراک سے اور بدن، پوشاک سے بڑھ کر نہیں۔؟''