خرید وفروخت کے زرّیں اسلامی اُصول

( لین دین میں اختیار کا مسئلہ؛ اسلامی شریعت اور سرمایہ داریت کی نظر میں)


بیع میں خیار( Option)کی صورتیں

بعض اوقات انسان غور وفکر کے بغیر بیع کر لیتا ہے مگر اسے جلد ہی یہ احساس ہو جاتاہے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی،یا اسے کسی ماہر سے مشورہ کرنے اور چیز کی جانچ پڑتال کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، یا بیع کی شرائط پوری نہ ہونے،یا چیزاورقیمت کے متعلق مکمل معلومات نہ ہونے، یادھوکے اور فراڈکی وجہ سے نقصان اُٹھانا پڑتاہے،اسلامی شریعت نے اس کا حل قانونِ خیار کی شکل میں متعارف کرایا ہے ۔خیار کا معنی ہے :

'' خرید وفروخت کے معاملہ کوفسخ قرار دینے یااسے باقی رکھنے میں سے جو صورت بہترمعلوم ہو، اس کا انتخاب کرنا۔''

خیار کی بہت سی اقسام ہیں مگر ان میں سے نمایاں قسمیں آٹھ ہیں جو درج ذیل ہیں:

(i خیار مجلس:اس کا مطلب ہے جب تک فریقین اس مقام پر موجود ہیں جہاں بیع ہوئی ہے، ان میں سے ہر ایک کو بیع ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے جیسا کہ رسول اللہﷺکا ارشاد ہے :

«اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَفْتَرِقَا» (صحیح بخاری :۲۰۷۹)

''بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کو اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں۔''

امام ابن قیم ؒفرماتے ہیں:

''شارعﷺنے بیع میں خیارِ مجلس کو فریقین کے فائدے اور مکمل رضامندی __ جو اللہ تعالیٰ نے بیع کے لیے ایک شرط کے طور پر بیان کی ہے__ کے لیے رکھا ہے، کیونکہ عموماً بیع جلد بازی میں غور و فکرکے بغیر ہی ہوجاتی ہے، لہٰذا یہ شریعت ِکاملہ کی خوبیوں میں سے ہے کہ اس نے ایک حد (جب تک دونوں فریق بیع کی جگہ موجود ہیں) مقرر کر دی ہے جس میں دونوں فریق اپنے فیصلے پر غور و فکر اور نظر ثانی کر لیں۔'' (اعلام الموقعین:۳؍ ۱۶۴)

لیکن اگر مشتری جدا ہونے سے قبل خریدی گئی چیز میں تصرف کر لے مثلاً کسی کو ہبہ کر دے اور فروخت کنندہ اس پر اعتراض نہ کرے تو خیارِ مجلس ختم اوربیع لازم ہوجاتی ہے۔

بعض اہلِ علم کے نزدیک اگردونوں یاایک بیع کرتے وقت یہ واضح کر دے کہ بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوگاتو پھر بھی دونوں یا جس نے یہ حق ختم کیا، اس کا اختیار ساقط ہو جائے گا اور بیع لازم ہو جائے گی۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نبی ﷺکا فرمان ہے :

«إذا تبایع الرجلان فکل واحد منهما بالخیار ما لم یتفرَّقا وکانا جمیعًا أو یُخیِّر أحدهما الآخر» (صحیح بخاری:۲۱۱۲)

''جب دو شخص بیع کریں تو ہر ایک کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہوںیعنی اکٹھے ہوں یا ایک دوسرے کو اختیار نہ دے دیں۔''

یہ حضرات ایک دوسرے کو اختیار دینے کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ جب فریقین یا ان سے ایک لین دین کرتے وقت یہ شرط لگا لے کہ خیارِ مجلس نہیں ہو گا تو یہ اختیار ختم ہو جاتا ہے، لیکن یہ بات صحیح نہیں،کیونکہ یہ خیارکی حکمت وفلسفہ کے خلاف ہے۔ہماری رائے میں اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ جب تک فریقین بیع کی جگہ پر موجود ہوں، ان کے درمیان بیع لازم نہیں ہوتی سوائے اس بیع کے جس میں وہ ایک دوسرے کو جدا ہونے کے بعد بھی طے شدہ مدت تک بیع فسخ قرار دینے کا اختیار دے دیں،یعنی اس صورت میں جدا ئی سے قبل ہی بیع لازم ہو جاتی ہے البتہ طے شدہ مدت تک بیع منسوخ کرنے کا اختیار باقی رہتا ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے :

«کل بیعین لا بیع بینهما حتی یتفرقا إلا بیع الخیار»(رقم الحدیث:۲۱۱۳)

''خرید وفروخت کرنے والوں کے درمیان بیع (لازم) نہیں ہو گی یہاں تک وہ جدا ہوں جائیں سوائے اس بیع کے جس میں وہ ایک دوسرے کو اختیار دے دیں ۔''

(iiخیارِ شرط:جب فروخت کنندہ یامشتری خریداری کا معاملہ کرتے وقت یہ کہے کہ مجھے اتنی مدت تک بیع فسخ کرنے کا اختیار ہو گا اور دوسرا فریق بھی اس پرراضی ہو تو اس کو خیارِ شرط کہتے ہیں۔یہ جائز ہے اس کی دلیل نبی اکرم ﷺکا یہ فرمان ہے :

«المسلمون علی شروطهم» (سنن ابی داؤد: ۳۵۹۴)

''مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں۔''

تاہم اس کو سود کا ذریعہ بنانا جائز نہیں، لہٰذا اگر قرض دہندہ قرض پر اِضافی رقم لینے کی بجائے قرض لینے والے کی کوئی جائیداد خریدلے اور یہ طے کر لے کہ مجھے اتنی مدت تک بیع فسخ کرنے کا اختیار ہو گاتاکہ دورانِ مدت اس جائیداد سے فائدہ اُٹھاسکے اور جب مدت پوری ہو تو خیارِ شرط کے تحت بیع فسخ کر دے تویہ جائز نہیں ہوگا،کیونکہ یہ سودی حیلہ ہے ۔چنانچہ حضرت امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا :

''ایک شخص دوسرے سے کوئی چیز مثلاً زمین خریدتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ آپ کو فلاں مدت تک بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے، تو اُنہوں نے فرمایا:جائزہے بشرطیکہ حیلہ مقصود نہ ہو۔حیلہ سے مراد یہ ہے کہ وہ قرض لینے والے سے کوئی جائیداد خریدکر اس سے فائدہ اُٹھائے اور اس میں خیار کی شرط طے کرلے تا کہ اس حیلے کے ذریعے قرض کے بدلے فائدہ حاصل کرے ۔'' (المُغني:۷؍۴۸۶)

٭مزید برآں بیع کی وہ اَقسام جن میں فروخت کی گئی چیز اور اس کے معاوضہ پروقوعِ بیع کے مقام پر ہی قبضہ شرط ہے،جیسے گندم کی گندم، سونے کی سونے کے عوض بیع اور کرنسی کی خرید وفروخت ہے، یا وقوعِ بیع کے وقت مکمل قیمت کی اَدائیگی ضروری ہے جیسا کہ بیع سلم میں ہے، وہاں بھی خیارِ شرط کی گنجائش نہیں ہے ۔چنانچہ امام نوویؒ فرماتے ہیں :

''أن البیوع التي یشترط فیها التقابض في المجلس کالصرف وبیع الطعام بالطعام أو القبض في أحد العوضین کالسلم لایجوز شرط الخیار فیها'' (روضۃ الطالبین :۱؍۴۳۹)

''بیع کی وہ صورتیں جن میں دونوں طرف سے موقع پر قبضہ شرط ہے، جیسے کرنسی کی خرید و فروخت، یاغلے کی غلے کے عوض بیع ہے۔یا مکمل قیمت کی پیشگی ادائیگی ضروری ہے، جیساکہ بیع سلم میں ہے تواِن میں خیار شرط جائز نہیں ۔''

علامہ ابن قدامہ ؒ فرماتے ہیں :

''بیع کی جن اقسام میں وقوعِ بیع کے جگہ پر ہی قبضہ شرط ہے جیسے بیع صرف (کرنسی کی خرید وفروخت )،بیع سلم اور ان اَجناس کی باہم بیع ہے جن کا کمی بیشی کے ساتھ باہمی تبادلہ سود ہے ان میں خیار شرط نہیں ہے،کیونکہ ان کا مطلب ہے کہ فریقین کے جدا ہونے کے بعد ان کے درمیان کوئی تعلق باقی نہ رہے جب کہ خیارِ شرط کاتقاضا یہ ہے کہ ان کے درمیان (خیار کی مدت تک )تعلق باقی رہے گا۔'' (المغني :۷؍۴۸۸)

(iiiخیارِ تدلیس:مشتری کو اندھیرے میں رکھ کرکوئی چیز فروخت کی جائے تو اسے تدلیس کہا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں شریعت مشتری کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ حقیقت ِحال واضح ہونے پر بیع فسخ کر سکتا ہے۔

تدلیس کی یہ صورت توزمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے کہ بعض بیوپاری دودھ دینے والے جانور کو منڈی میں لے جانے سے قبل کچھ وقت کے لیے اس کا دودھ نہیں دوہتے تا کہ خریدار کو تھن بھرے نظر آئیں اوروہ یہ سمجھے کہ اچھی مقدار میں دودھ دینے والا جانور ہے، لیکن جب وہ جانور کو گھر لے جا کر دودھ دوہتا ہے توپتہ چلتاہے کہ دودھ کی حقیقی مقدار بہت کم ہے۔ نبیﷺنے اس حربے کو ممنوع قرار دیا اور فرمایا: جس نے ایسا جانور خریدلیا،اس کو دو باتوں میں اختیار ہے۔اگر اپنے سودے پر مطمئن ہے تو اسے باقی رکھے اور اگر مطمئن نہیں تو اس کوفسخ کر دے یعنی جانور واپس کرکے اپنی رقم لے لے اور دودھ کے بدلے ایک صاع کھجور دے۔ (صحیح بخاری :۲۱۵۱)

بعض لوگ حادثہ شدہ گاڑیوں کو مرمت کر کے غیر حادثہ شدہ کا تاثر دے کر فروخت کر دیتے ہیں ۔ یہ بھی تدلیس کی ایک شکل ہے جو حرام ہے ۔

(ivخیارِ غبن: غبن کا معنی ہے 'دھوکہ دہی اورکمی کرنا'جب کسی شخص سے دھوکہ دہی یا اس کی نا واقفیت اور اعتماد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی چیز مارکیٹ کی نسبت بہت زیادہ سستی خرید لی جائے یا معمول سے زیادہ مہنگی بیچ دی جائے تو اس کو اصطلاح میں 'غبن' کہتے ہیں جوکہ حرام ہے ۔

عہد ِنبوت میں مدینہ منورہ میں غلہ وغیرہ دوسرے شہروں سے لاکر ہی فروخت کیا جاتاتھا، بعض چالاک تاجر منڈی سے باہر جاکر ہی تجارتی قافلوں سے سارا مال خرید لیتے تھے ،نبی اکرمﷺ نے اس پر پابندی لگا دی،کیونکہ اس میں یہ اندیشہ بھی تھا کہ تاجر قافلے والوں کی ناواقفیت سے فائدہ اُٹھا کر سستے داموں نہ خرید لیں اوراگر کوئی مالک تاجرپر اعتماد کر کے اپنا مال فروخت کر دے اور وہ منڈی میں پہنچ کر یہ محسوس کرے کہ تاجرنے جو قیمت دی ہے، وہ صحیح نہیں اور حقیقی قیمت یہ ہے تواس کو یہ اختیار ہوگاکہ چاہے تو بیع باقی رکھے اور چاہے تو منسوخ کر دے۔ چنانچہ آپﷺ کافرمان ہے :

«لا تلقوا الجلب فمن تلقاه فاشترٰی منه فإذا أتی سیده السوق فهو بالخیار» ( صحیح مسلم :۱۵۱۹)

''قافلے والوں سے آگے جا کر نہ ملو۔جس نے آگے جا کر مال خرید لیاتو جب مال کا مالک بازار پہنچے تو اس کو (معاملہ فسخ کرنے کا) اختیار ہوگا ۔''

علمائے احناف خیارِ غبن کے قائل نہیں، وہ کہتے ہیں جو شخص بازار میں جائے، اس کا فرض ہے کہ مارکیٹ کا ریٹ معلوم کر کے علیٰ وجہ البصیرۃبیع کرے۔ اگر اس نے مارکیٹ ریٹ معلوم کئے بغیر بیع کرلی اور بعد میں معلوم ہوا کہ اس کو دھوکہ لگا ہے تو اس کا ذمہ دار وہ خود ہے اور اس کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

یہ رائے متذکرہ بالا حدیث کے خلاف ہے ۔خود حنفی علما بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ حدیث خیارِ غبن کی مضبوط ترین دلیل ہے،ہمارے پاس اس کا کوئی اِطمینان بخش جواب نہیں ہے۔چنانچہ معروف حنفی عالم مولانا تقی عثمانی اس کی تشریح میں لکھتے ہیں:

''یہ حدیث صحیح ہے اوراس میں آپ 1نے دیہاتی (مال لانے والے )کو جو اختیار دیایہ خیارِ مغبون کے سوا اور کچھ نہیں۔اس حدیث کا کوئی اطمینان بخش جواب شافعیہ اور حنفیہ کے پاس نہیں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ متاخرین حنفیہ نے اس مسئلہ میں امام مالکؒ کے قول پر فتویٰ دیا۔

علامہ ابن عابدین(شامی) ردّ المحتار میں فرماتے ہیںکہ آج کل دھوکہ بازی بہت عام ہو گئی ہے، لہٰذا ایسی صورت میںمالکیہ کے قول پر عمل کرتے ہوئے مغبون کو اختیار دیا جائے گا، کیونکہ دھوکہ اسی شخص کے کہنے کی بنا پر ہوا ہے۔ ویسے ہی دھوکہ لگ گیاتو بات دوسری ہے، لیکن جب اس نے کہا کہ بازار میں یہ دام ہے اور بعد میں بازار میں وہ دام نہیں نکلے تویہ دھوکہ اس کے کہنے کی وجہ سے ہوا لہٰذا دوسرے فریق کو اختیارہے، فتوی بھی اسی کے اوپر ہے۔''

(انعام الباری :۶؍۲۲۸)

دوسری جگہ لکھتے ہیں :

''حنفیہ کے پاس اس حدیث کا کوئی جواب نہیں ہے۔لہٰذا اس باب میں ائمہ ثلاثہ کامسلک راجح ہے ۔'' (ایضاً:ص۳۰۴)

(vخیارِ عیب:اگرچیز خریدنے کے بعداس میں کسی ایسے نقص کاانکشاف ہو جو فروخت کنندہ کے ہاں سے ہی موجود تھا،لیکن بیع کے وقت خریدار کے علم میں نہ آ سکا تو خریدار کو بیع منسوخ کرکے اپنی رقم واپس لینے کااختیار ہے ،اس کو 'خیارِ عیب' کہتے ہیں۔ نقص سے مراد ایسا عیب ہے جس سے قیمت میں کمی واقع ہو۔

مشتری رضامندہوتو خیارِ عیب میں تصفیہ کی ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس چیز کی نقص کے ساتھ اوربغیرنقص کے قیمت لگائی لی جائے اور دونوں قیمتوں میںجو فرق ہو، وہ رقم مشتری کو واپس کردی جائے اور بیع کو قائم رکھا جائے ۔

خیارِ عیب کی غرض وغایت مشتری کو ضرر سے بچاناہے،کیونکہ وہ چیز کو بے عیب سمجھ کر خریدنے پر رضامند ہوا تھا،نقص کی موجودگی اس کی رضامندی کے خلاف ہے،اس لیے علماے دین کے مابین اس کی مشروعیت متفق علیہ ہے ۔اُمّ المومنین حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہے :

«أنَّ رجلا اشترٰی عبدًا فاستغلَّه ثم وجد به عیبًا فرَدَّہ فقال:یا رسول اﷲ ! إنه قد استغل غلامي۔ فقال رسول اﷲ ﷺ: «الخراج بالضمان» (سنن ابن ماجہ:۲۲۶۲)

''ایک شخص نے ایک غلام خریدا ،پھر اس سے (اُجرت کے بدلے کام پر لگا کر )فائدہ اٹھایا، بعد میں اس میں عیب پایا اور اسے واپس کر دیا۔اس پر فروخت کنندہ نے کہا: یا رسول اللہﷺ! اس نے میرے غلام سے فائدہ بھی تو اُٹھایا ہے ۔آپﷺنے فرمایا: فائدہ نقصان کی ذمہ داری کی بنیاد پر ہے۔''

یعنی اس عرصہ میں چونکہ غلام کا ذمہ دار مشتری تھا، اگر وہ کسی وجہ سے ہلاک ہو جاتا تومشتری کا ہی نقصان ہوتا، اس لیے اجرت بھی اسی کا حق ہے ۔

(viخیار بصورتِ اختلاف: جب معاملہ طے پانے کے بعد فروخت کنندہ اور مشتری کے درمیان قیمت وغیرہ میں اختلاف پیدا ہو جائے ،مثلاً فروخت کنندہ کہے کہ میں نے اس کی قیمت ایک ہزار بتائی تھی اور خریدار کہے کہ نو سو میں سوداطے ہوا تھا اور دونوں میں سے کسی کے پاس دلیل یا گواہ موجودنہ ہو تو فروخت کنندہ کی بات معتبر سمجھی جائے گی اورخریدار کو اختیار ہو گا کہ وہ بیع باقی رکھے یا فسخ کر دے ۔

«إذا اختلف البیعان ولیس بینهما بینة فهو ما یقول ربّ السلعة أو یتتارکان» (سنن ابی داؤد:۳۵۱۱)

''جب فروخت کنندہ اور خریدار کا اختلاف ہو جائے اور دونوں میں سے کسی کے پاس دلیل نہ ہو توفروخت کنندہ کی بات معتبر ہوگی یا پھر دونوں بیع ختم کر دیں۔''

سنن ابن ماجہ میں ہے :

«أن عبد اﷲ بن مسعود باع من الأشعث بن قیس رقیقًا من رقیق الإمارة فاختلفا في الثمن فقال ابن مسعود: بعتك بعشرین ألفًا وقال الأشعث بن قیس: إنما اشتریت منك بعشرة آلاف فقال عبد اﷲ: إن شئتَ حدثتک بحدیثٍ سمعته من رسول اﷲ ﷺ۔ فقال: هاته قال: فإني سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول:«إذا اختلف البیعان ولیس بینهما بینة والبیع قائم بعینه فالقول ما قال البائع أو یترادان قال: فإني أرٰی أن أردّ البیع فرده» (رقم الحدیث:۲۲۰۶)

''حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے اشعث بن قیس کو سرکاری غلاموں میں سے ایک غلام فروخت کیا۔ پھر دونوں کا قیمت کے متعلق اختلاف ہو گیا،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے تھے: میں نے تجھے بیس ہزار میں بیچا ہے جب کہ اشعث بن قیس کا دعویٰ تھا کہ میں نے آپ سے صرف دس ہزار میں خریدا ہے۔اس پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا اگر آپ چاہیں تو میں آپ سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے رسول اللہﷺسے سنی ہے۔ اشعث نے کہا: بیان کرو۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا کہ میں نے آپﷺکو یہ فرماتے سنا کہ فروخت کنندہ اور خریدار کا اختلاف ہو جائے اور کسی کے پاس گواہ نہ ہو اور فروخت کی گئی چیز بعینہٖ موجود ہو تو فروخت کنندہ کا دعویٰ درست مانا جائے گا،یا دونوں بیع فسخ کر دیں۔ اَشعث نے کہا: میرا خیال ہے کہ میں بیع فسخ کر دوں۔ چنانچہ اُنہوں نے بیع فسخ کر دی۔''

(viiقیمت خرید غلط بتانے کی وجہ سے خیار: جب فروخت کنندہ کوئی چیز اس دعویٰ کے ساتھ فروخت کرے کہ وہ اپنی لاگت قیمت سے صرف اتنے روپے زائد منافع لے رہا ہے جیسا کہ مرابحہ میں ہوتا ہے یا اپنی لاگت قیمت پر ہی بیچ رہا ہے جیسا کہ بیع تولیہ میں ہے یا اپنی لاگت سے اتنے روپے کم وصول کر رہا ہے جیسا کہ بیع وضعیہ میں ہوتاہے اور بعد میں یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے غلط بیانی کی ہے تو مشتری کو بیع منسوخ کرنے کا اختیار ہے،کیونکہ ان صورتوں میں مشتری فروخت کنندہ پر اعتماد کر کے بیع کرتا ہے، لہٰذا ان کا ہر قسم کی خیانت اور شبہات سے پاک ہونا اور خریدار کو لاگت قیمت کا علم ہو نا ضروری ہے جو فروخت کنندہ کی غلط بیانی کی وجہ سے نہیں ہو سکا،اس لیے خریدار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بیع ختم کر دے ۔

(viiiتغیر واقع ہونے کی وجہ سے اختیار: اس سے مراد یہ ہے کہ مشتری نے ایک ایسی چیز کا سودا کر لیا جو اس نے معاملہ طے پانے سے کافی عرصہ پہلے دیکھی تھی، لیکن جب سودا طے پانے کے بعد سامنے آئی تو اس میں تبدیلی آچکی تھی، اب مشتری کو اختیار ہے کہ بیع باقی رکھے یا منسوخ کر دے،کیونکہ تبدیلی پیدا ہونے کے بعد مذکورہ چیزوہ نہیں رہی جس کا مشتری نے خریداری سے قبل مشاہدہ کیا تھا، لہٰذا یہ بیع ختم کرسکتا ہے،لیکن ا گر کوئی قابل ذکرتبدیلی واقع نہ ہو ئی ہو تو پھر مشتری کو بیع ختم کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہو گا ۔

یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ شرعی اُصول وضوابط کی رو شنی میں خیار کی فیس لی جا سکتی ہے اور نہ ہی یہ حق کسی دوسرے کو فروخت کیاجاسکتا ہے ۔

اِختیارات (s Option)کی بیع


اختیار کا جدید مفہوم

شریعت ِاسلامیہ میں اختیار(Option)کا مفہوم تو وہی ہے جو اوپر بیان کر دیاگیا ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں اختیار کا تصور اس سے بالکل مختلف ہے۔ جدید معاشی ماہرین کے نزدیک اختیار سے مرادہے :

"عقد یخول لحامله الحق ببیع أو شراء أوراق مالیة أو سلع معینة بسعر معین طیلة فترة زمنیة معینة (فقه البیوع المنھي عنھا مع تطبیقاتھا الحدیثة في المصا رف الإسلامیة،از ڈاکٹر احمد ریان:ص۲۵)

''ایساعقدجواختیار( Option)لینے والے کوایک خاص مدت تک طے شدہ قیمت پر فنانشل پیپرزیامتعین اجناس خریدنے یا بیچنے کا حق دے ۔''

اِختیار دینے کی باقاعدہ فیس لی جاتی ہے اورمعاصر معیشت میں اس کومستقل مال شمار کیاجاتا ہے جو کسی دوسرے کو فروخت بھی کیاجا سکتا ہے ۔

عقد ِاختیار میں دو فریق ہوتے ہیں:

٭ اختیار کا خریدار :(مشتری الاختیار) اس سے مراد وہ شخص ہے جو فیس دے کر خریدنے یا بیچنے کااختیار حاصل کرتاہے ۔

٭ اختیار کا فروخت کنندہ :(محررالاختیار) جو فیس وصول کر کے بیچنے یا خریدنے کااختیار دیتا ہے ۔

یہاں یہ بھی ملحوظ ر ہے کہ اختیار کا خریدار اگرچیز خریدنا یا بیچنا چاہے تو اختیار دینے والا اس کی مرضی کا پابند ہوتا ہے کیونکہ اس نے فیس وصول کی ہوتی ہے، لیکن اختیار لینے والا خریدنے یا بیچنے کا پابند نہیں ہوتا۔

نوٹ:اختیار دہندہ کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ اختیار دیتے وقت اس چیز کا مالک بھی ہو بلکہ غیر ملکیتی چیز کا اختیار بھی دے سکتا ہے۔ ماہرین معیشت کی اصطلاح میں اس کو اوپن آپشن (خیار مکشوف) کہا جاتا ہے ۔اگراختیار دیتے وقت وہ چیز اس کی ملکیت میں ہو تو اس کو کورڈ آپشن(خیار مغطي) کہتے ہیں۔

اِختیار کی قسمیں

اختیار کی بنیادی قسمیں دوہیں :

1. اگر خریدنے کا اختیار لیا گیاہو، تواس کو Call Option (اختیار الشرائ)کہتے ہیں۔

2. اور اگر بیچنے کا ہو، تو اس کوPut Option (اختیار البیع)کہتے ہیں ۔

خریداری اختیار کا مقصد

خریداری اختیار( Call Option)لینے کاپہلا مقصد خرید وفروخت کے ذریعے قیمتوں کے اُتار چڑھاؤ سے فائدہ اٹھانا ہے۔ مثلاً کسی کمپنی کے ایک سو شیئرز ہیں اور شیئر کی موجودہ قیمت ایک سو روپیہ ہے۔ 'الف'کے خیال میں ایک مہینہ تک اس شیئر کی قیمت میں کمی واقع ہو سکتی ہے جب کہ 'ب' کے نزدیک اس عرصہ میں مذکورہ شیئر کی قیمت بڑھنے کی توقع ہے۔ لہٰذا 'ب' 'الف' کو پانچ روپے فی شیئر فیس ادا کر کے ایک مہینہ تک اس قیمت پر مذکورہ شیئرز خریدنے کا اختیار لے لیتا ہے۔اس مثال میں 'ب' اختیار کا خریدار(مشتری الاختیار) اور 'الف ' فروخت کنندہ(محرر الاختیار) ہے ۔اب یہاں تین حالتیں پیش آ سکتی ہیں:

1. مقررہ تاریخ تک شیئر کی قیمت پانچ روپے سے زائد بڑھ گئی ہے ،مثلاً ایک سو چھ روپے ہو گئی ہے تو 'ب' 'الف' سے ایک سو روپے فی شیئر کے حساب سے وہ شیئرز خریدکر مارکیٹ میں ایک سوچھ میں فروخت کر دے گا۔اس طرح اسے پانچ سو روپے آپشن فیس ادا کرنے کے بعد ایک سو روپے کا فائدہ ہو جائے گاجب کہ 'الف ' کو ایک سو روپے کا نقصان ہو گا ۔

2. شیئر کی قیمت کم ہو کر نوے روپے رہ گئی ہے تو اس صورت میں'ب' 'الف' سے شیئرز نہیں خریدے گا،کیونکہ مارکیٹ میں اس کی قیمت گر چکی ہے۔اگر اسے شیئرز سے دلچسپی ہوئی بھی تو وہ'الف'سے ایک سو میں خریدنے کی بجائے مارکیٹ سے نوے روپے کے حساب سے خرید ے گا،کیونکہ اس طرح اس کا نقصان آپشن فیس تک ہی محدود رہے گا جو کہ پانچ سو روپے ہے اور یہی پانچ سو 'الف ' کا منافع ہے۔

3. شیئر کی قیمت میں اضافہ تو ہوا ہے مگر آپشن فیس پانچ روپے سے کم ۔مثلاً تین روپے اضافہ ہو گیاہے، تب بھی اختیار کا خریدار 'ب' وہ شیئرز خرید لے گا۔ اگرچہ اس صورت میں اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو رہا، تا ہم اس کا خسارہ کم ہو جاتا ہے ،کیونکہ نہ خریدنے کی صورت میں پوری آپشن فیس رائیگاں جاتی ہے جب کہ خریدار ی کی صورت میں صرف تین سو روپے کا نقصان ہے۔

خریداری اختیار( Call Option) لینے کادوسرا مقصد قیمتوں میں ممکنہ اِضافے سے پیشگی تحفظ اور متوقع کمی سے فائدہ اُٹھانا ہے،یعنی 'خریداری اختیار' احتیاطی تدبیر کے طور پر لیا جاتا ہے۔اس کی مثال یوں ہے :

'الف ' کے ذمہ ایک ہزار امریکی ڈالر قرض ہے جو اس نے تین ماہ بعد اداکرنا ہے ۔ ڈالر کی موجودہ قیمت اَسّی روپے ہے ۔'الف' اس کشمکش میں ہے کہ وہ ابھی ڈالر خریدلے یا ادائیگی کے موقع پرخریدے،کیونکہ اگر وہ ابھی خریدلیتا ہے اور اَدائیگی تک اس کی قیمت کم ہو جاتی ہے تواس کا نقصان ہے،کیونکہ اس نے ڈالر مہنگے داموں خریدا ہوا ہے۔ اور اگر اس وقت نہیں خریدتا تو ممکن ہے کہ اَدائیگی تک اس کی قیمت بڑھ جائے اور اسے مہنگے داموں خریدنا پڑے، یہ بھی خسارے کا سودا ہو گا ۔ لہٰذا 'الف ' 'ب' کوایک روپیہ فی ڈالر فیس ادا کر کے تین مہینوں تک اَسّی روپے فی ڈالر ایک ہزار ڈالر خریدنے کا اختیار لے لیتا ہے۔اَب اگر مقررہ تاریخ تک روپے کے مقابلہ میں ڈالر کی قیمت بڑھ جاتی ہے تو وہ 'ب' سے اسی روپے کے حساب سے ایک ہزار ڈالر خرید لے گااور اگر کمی واقع ہو تی ہے تو وہ 'ب'سے خریدنے کی بجائے مارکیٹ سے خریدے گا۔اس صورت میں اگرچہ اسے آپشن فیس کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا، تاہم مارکیٹ سے ڈالر سستا مل جائے گا۔

بیچنے کا اختیار ( Put Option)

اس میں اگر اختیار لینے والا فروخت کرنا چاہے تو اختیار دہندہ خریدنے کا پابند ہوتا ہے جبکہ خریداری اختیار میں بیچنے کی پابندی تھی یعنی یہ خریداری اختیار کے برخلاف ہے۔اس کا پہلا مقصد خرید وفروخت کے ذریعے قیمتوں کی کمی سے فائدہ اٹھاناہے ۔مثلاً'الف ' 'ب' کوایک سو روپیہ آپشن فیس ادا کر کے ایک مہینے تک کسی کمپنی کے ایک سو شیئرز پچاس روپے فی شیئرز کے حساب سے فروخت کرنے کا اختیار خرید لیتا ہے۔اب اگر اس عرصہ میں شیئر کی قیمت گر گئی تو 'الف' وہ شیئرز طے شدہ قیمت پر 'ب' کو فروخت کر دے گا،لیکن اگر قیمت میں اضافہ ہو گیا تو 'ب' کو بیچنے کی بجائے مارکیٹ میں فروخت کرنے کو ترجیح دے گا ۔اس صورت میں اگرچہ اس کی آپشن فیس رائیگاں جائے گی، تاہم اسے دوسری طرف سے فائدہ ہو جائے گا۔

فروختنی اختیار کا دوسرا مقصد مستقبل میں ممکنہ نقصان سے پیشگی تحفظ ہے ۔مثلاً 'الف 'کے پاس ایک امریکی ڈالر ہے جس کی حالیہ قیمت اَسّی روپے ہے ۔'الف ' اس کشمکش میں ہے کہ وہ یہ ڈالر اپنے پاس رکھے یا ابھی فروخت کردے،کیونکہ اگر وہ اپنے پاس رکھتا ہے تو اس کی قیمت گرنے کا احتمال ہے۔ اور اگر ابھی فروخت کرتا ہے تو ممکن ہے، آئندہ اس کی قیمت بڑھ جائے اور یہ نفع سے محروم رہے ۔لہٰذا'الف' 'ب' کو آپشن فیس ادا کر کے ایک مہینے تک اسی روپے میں ڈالر بیچنے کا اختیار خرید لیتا ہے۔اب اگر مقررہ تاریخ تک ڈالر کی قیمت بڑھ گئی تو وہ کسی دوسرے کو فروخت کر دے گا ،اور اگر کم ہو گئی تو اسی روپے میں'ب' کو فروخت کر دے گا۔ گویا 'الف'یہ اختیار حاصل کر کے ڈالر کی قیمت گرنے سے مطمئن ہو گیا ہے ۔

اختیار ات کی خرید وفروخت کا شرعی حکم

مذکورہ بالاتفصیلات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں رائج اختیار ات اورشریعت کے تصور ِاختیار کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔اختیار کاشرعی مفہوم تو صرف اتنا ہے کہ بیع باقی رکھنے یا فسخ کرنے میں سے جو صورت بہتر معلوم ہو، اس کا انتخاب کر لیا جائے۔اس کی نہ توکوئی فیس مقرر ہوتی ہے اور نہ ہی یہ حق کسی دوسرے کوفروخت کیا جاسکتا ہے، جبکہ زیربحث اختیارکسی چیز کو خریدنے یا بیچنے کا محض ایک حق ہے جو نہ تومال ہے اورنہ ہی کسی چیز کا حق استعمال، نیز یہ ایسامالی حق بھی نہیںجس کا معاوضہ لیا جاسکے، لہٰذا اس کی خرید وفروخت حرام ہے۔

مزیدیہ کہ اختیارات کا لین دین ایک ایسا عمل ہے جو غرر اور سٹہ بازی جیسی قباحتوں پر مشتمل ہے۔غرر اس طرح کہ اختیار کے استعمال کی نوبت آئے گی یا نہیں؟اس کاعلم نہ تو خود اختیار کے خریدار کو ہوتا ہے اور نہ ہی فروخت کنندہ کو۔کیونکہ اس کا انحصار اس پر ہے کہ خریدار کی توقع کے مطابق قیمتوں میں کمی بیشی ہو تی ہے یا نہیں؟ اگر اس نے خریداری اختیار لیا ہو اور قیمتیں بڑھ جائیں تو وہ بیع کرے گا، ورنہ نہیں ۔اسی طرح اگر اس نے بیچنے کا اختیار لے رکھا ہو تو صرف قیمت کم ہونے کی صورت میں اختیار دہندہ کو فروخت کرے گا، اضافے کی صورت میں کسی دوسرے کو بیچ دے گا۔چونکہ قیمتوں میں کمی بیشی غیر یقینی امر ہے ،اس لیے بیع کا انعقاد مبہم ہے اور یہی غرر ہے جس کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔

سٹہ بازی اس طرح کہ اس سارے معاملے میں خرید وفروخت کی نیت قطعاً نہیں ہوتی بلکہ نیت صرف یہ ہوتی ہے کہ اگر فلاں تاریخ تک شیئرز کی قیمت بڑھ گئی تو اختیار دہندہ سے اتنے فیصد اضافہ وصول کر لیا جائے گا اور اگر کم ہوگئی تو اس کو اتنے فیصد اضافہ دے دیا جائے گا۔ یااگر قیمتیں کم ہو گئیں تو اتنے فیصد اضافہ وصول اور اگر بڑھ گئیں تو ادا کر دیا جائے گا۔گویا یہ قسمت لڑانے کا کھیل ہے جسے جوا کہا جاتا ہے ۔یہی جوا شیئرز اور کرنسی کی جگہ دیگر اَجناس کی بنیاد پر بھی کھیلا جاتا ہے ۔ اگر آپشن اوپن ہو تو درج بالا خرابیوں کے ساتھ غیر ملکیتی چیز کاسوداکرنے کی خرابی بھی شامل ہوجاتی ہے۔

بعض شبہات کا ازالہ

پہلا شبہ: علماے دین بیعانہ کو جائز قرار دیتے ہیں ۔آپشن فیس بیعانہ کے مشابہ ہے کہ جس طرح بیعانہ دینے والاچیز نہ خرید سکے تو بیعانہ ضبط ہوجاتا ہے، اسی طرح اگر اختیار لینے والا چیز نہ خرید ے توآپشن فیس ضبط ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ جس طرح بیعانہ میں مشتری کو مقررہ تاریخ تک چیز خریدنے کا حق ہوتا ہے، اسی طرح اختیار میں بھی مشتری کو متعین تاریخ تک خریداری کا حق ہوتا ہے ، لہٰذا بیعانہ کی طرح یہ بھی جائز ہے ۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے بیعانہ کے بارے میں جاننا ضروری ہے، جسے علماے دین نے جائز قرار دیا ہے۔جب کوئی کاروباری معاملہ اس طرح طے پائے کہ کچھ رقم پیشگی اَدا کر کے یہ کہا جائے کہ اگر میں نے یہ چیز خرید لی تو یہ رقم قیمت کا حصہ شمار ہوگی اور اگر نہ خریدی تو یہ آپ کی ملکیت ہو گی تو اس کو 'بیعانہ کی بیع '(بیعُ الْعُرْبُوْن)کہا جاتاہے ۔ چنانچہ سنن ابن ماجہ میں بیعانہ کی تعریف یوں کی گئی ہے:

«العربان أن یشتري الرجل دابة بمائة دینار فیعطیة دینارین عربونًا فیقول: إن لم أشتر الدابة فالدیناران لك» (رقم الحدیث:۲۲۱۱)

''بیعانہ یہ ہے کہ آدمی (مثلاً)سو دینار کا جانور خریدے اور دو دینار بیعانہ کے طور پر دے کر یہ کہے کہ اگر میں نے یہ جانور نہ لیا تو یہ دو دینار تمہارے ہوں گے۔''

امام نوویؒ بیعانہ کی تشریح میں رقمطراز ہیں:

''وهو أن یشتري شیئًا ویعطي البائع درهمًا أو دراهم ویقول: إن تم البیع بیننا فهو من الثمن وإلا فهو هبة لك'' (المجموع :۹؍۳۳۵)

''بیعانہ یہ ہے کہ آدمی کوئی چیز خریدے اور فروخت کنندہ کو ایک یاکچھ درہم دے کر یہ کہے کہ اگر ہمارے درمیان بیع مکمل ہو گئی تو یہ رقم قیمت کاحصہ شمار ہوگی، بصورتِ دیگریہ آپ کے لیے ہبہ ہو گی۔''

علامہ ابن قدامہؒ لکھتے ہیں :

''والعربون في البیع هو أن یشتري السلعة فیدفع إلی البائع درهمًا أو غیرہ علی أنه إن أخذ السلعة احتسب به من الثمن وإن لم یأخذها فذٰلك للبائع'' (المغنی:۴؍۳۱۲)

''بیع میں بیعانہ کی صورت یہ ہوتی ہے کہ انسان کوئی سامان خریدے، فروخت کنندہ کو اس شرط پر درہم وغیرہ دے کہ اگر اس نے سامان لے لیا تو یہ رقم قیمت سے وضع کر لی جائے گی اور اگر نہ لیا تو یہ رقم فروخت کنندہ کی ہو گی۔''

بیعانہ کی مذکورہ بالا تعریفات سے دو باتیں سامنے آتی ہیں:

1. خریداری کی صورت میں بیعانہ کی رقم قیمت کا حصہ بن جاتی ہے ۔

2. بیعانہ میں صرف مشتری کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ چیز خریدے یا نہ خریدے،فروخت کنندہ بیچنے کا پابند ہوتا ہے ۔

لیکن اختیارات کا معاملہ اس کے برعکس ہے ۔یہاں نہ توآپشن فیس قیمت کا حصہ بنتی ہے اور نہ ہی فروخت کنندہ پر بیچنے کی پابندی ہوتی ہے بلکہ اختیار دہندہ پابند ہوتا ہے، قطع نظر اس بات کے کہ وہ خریدار ہے یا فروخت کنندہ۔

اس کے علاوہ بھی کئی لحاظ سے ان میں فرق ہے ۔مثلاً بیعانہ میں چیز کا حصول پیش نظر ہوتا ہے جبکہ اختیارات میں چیز کے حصول کی بجائے قیمتوں میں واقع فرق کا لین دین کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اختیارات کی باقاعدہ خریدو فروخت ہوتی ہے، لیکن بیعانہ میں ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا آپشن فیس کو بیعانہ پر قیاس کر نا درست نہیں۔

دوسرا شبہ: عقد ِاختیار حقیقت میں خرید وفروخت کا وعدہ ہے جو ایک نیکی ہے اور آپشن فیس کے نام پر دی گئی رقم اس نیکی کا صلہ ہے ۔

یہ توجیہ بھی غلط فہمی پر مبنی ہے۔نہ تو خرید وفروخت کے وعدے کونیکی قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اختیارکو وعدہ قرار دینے کی کوئی گنجائش موجود ہے ،کیونکہ اس کی باقاعدہ فیس لی جاتی ہے جس سے یہ عقد معاوضہ کے زمرہ میں داخل ہو جاتا ہے ۔

تیسرا شبہ: اختیارات اور خیارِ شرط باہم ملتے جلتے ہیں۔ خیارِ شرط جائز ہے، اس لیے یہ بھی جائز ہو نا چاہیے ۔

یہ بات بھی صحیح نہیں کہ اختیارات کا لین دین خیارِشرط کے مشابہ ہے۔ خیارِ شرط کا معاوضہ لیاجاتا ہے اور نہ ہی اس کے لیے عقد ِبیع سے الگ کوئی عقد؍معاہدہ ہوتا ہے جب کہ اختیار دینے کا معاوضہ وصول کیاجاتا ہے اور اس کے لیے علیحدہ عقد بھی طے پاتا ہے۔لہٰذا اس کو خیارِ شرط کے مشابہ قرار دینا بعید ازقیاس ہے اور اگر اسے خیارِشرط پر قیاس کر بھی لیا جائے تب بھی یہ جائز نہیں بنتا ،کیونکہ خیارِ شرط کا معاوضہ جائز نہیں ۔

حاصل کلام یہ کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں رائج اختیارات کالین دین حرام ہے ان کو بیعانے اور خیارِ شرط پر قیاس کرنا قیاسِ باطل ہے ۔ ہذا ما عندی واﷲ اعلم بالصواب

٭٭٭٭٭