انبیاء ہی معیارِ حق کیوں؟

'نبوت و رسالت' بڑا اہم، نازک اور عالی شان منصب ہے۔ اس منصب کے تین خاصے وحی ٴہدایت، معصومیت اور واجب الاتباع ہونے پر سطورِ ذیل میں ہم گزارشات پیش کرتے ہیں :

ان پہلووں کا آپس میں گہراربط ہے کیونکہ ایک نبی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ٴہدایت آتی ہے جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ معصوم ہو، تاکہ اس کے ذریعے ایک غلط بات بندوں تک نہ پہنچنے پائے اور چونکہ وہ معصوم ہوتا ہے لہٰذا وہی معیارِ حق اور آخری واجب الاتباع ہوتا ہے، اس کی تصدیق وتائید اور غیر مشروط اطاعت و اتباع فرض کی حیثیت رکھتی ہے۔

عصر حاضر میں زوالِ اُمت کی ایک و جہ یہ بھی ہے کہ ہم نے نبوت و رسالت کے ان خاصوں کو افرادِ امت میں بانٹنا شروع کردیا ہے۔ جب کوئی اُمت اپنے نبی اور رسول کی اطاعت کرنا چھوڑ دے تو ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ والعياذ بالله

'نبی' کامعنی و مفہوم

'نبی' عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے 'خبر دینے والا۔' چونکہ ایک نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دین کی نوعیت رکھنے والی مختلف خبریں حاصل کرتا اور انہیں اس کے بندوں تک پہنچاتا ہے، اس لئے اسے نبی کہا جاتا ہے۔ ان خبروں کو ﴿أنْبَاءِ الْغَيبِ﴾ یعنی غیب کی خبریں کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر محض حس و عقل کے ذریعے ان خبروں کا علم ہوتا ہے، نہ ہوسکتا ہے۔ (دیکھئے :آلِ عمران:44)

نبی کی بات کی صداقت ضروری ہے:کسی نبی کے ذریعے ان خبروں کا علم ہوجانے کے بعد ان کی صداقت پر ایمان لانا ضروری ہوجاتا ہے خواہ یہ خبریں ماضی کی ہوں یا حال و استقبال کی۔ انسان کی حس و عقل کے دائرے میں آئیں یا نہ آئیں ۔ چنانچہ ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ نے علاماتِ قیامت کے ضمن میں دجالِ اکبر کی آمد کا ذکر کیا اور فرمایا:

"وہ(ادھر زمین میں )چالیس روز رہے گا۔ پہلا دن سال جتنا، دوسرا ایک ماہ کے برابر،تیسرا ایک ہفتے کے مساوی اور باقی 37 دن تمہارے (عام) دنوں کی طرح ہوں گے۔"
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: "یارسول اللہ! یہ دن جو سال برابر ہوگا، کیا اس میں ہمیں ایک دن کی نمازیں پڑھنی ہوں گی؟" آپ نے فرمایا: "نہیں بلکہ تم (ہر چوبیس گھنٹوں کے لئے پانچ نمازوں کے اوقات کا) اندازہ لگانا۔" (صحیح مسلم ؛حدیث7373 )

شیخ محمد بن صالح عثیمین  فرماتے ہیں :

"دیکھیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم ﷺ کی زبانِ اقدس سے ایک غیبی خبر سن کر کس طرح اس کی تصدیق فرمائی۔ انہیں معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ انسانی فکر و نظر کی ہر حد سے بلند و بالا ہے۔ اس لئے انہوں نے یہ سوال نہیں اٹھایا: "بھلا دن ایک سال کے برابر کیسے ہوسکتا ہے؟" اس کے برعکس اُنہوں نے نماز سے متعلق ایک شرعی مسئلہ پوچھا کیونکہ وہ اس کے مکلف تھے...
اور اس لحاظ سے یہ حدیث ِشریف نبی اکرم ﷺ کی سچائی کی ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ آج بھی بعض قطبی علاقوں میں چھ چھ ماہ کا دن اور اتنی لمبی رات ہوتی ہے ۔ ایسے علاقوں میں یہ حدیث نما زکے حوالے سے ایک اہم دینی ضرورت کو پورا کرتی ہے حالانکہ آج سے ہزاروں سال قبل جب نبی اکرم ﷺ نے یہ خبر دی تھی تب یہ صورتِ حال معلوم نہیں تھی۔ سچ فرمایا ربّ العٰلمین نے: "آج کے دن میں نے تمہارے دین کو مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی ، اور تمہارے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کرلیا ہے۔" (ملخص از مجموع فتاویٰ و رسائل :2/17 ، 18)

'رسول' کا معنی و مفہوم

'رسول' بھی عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے: قاصد،بھیجا ہوا،پیغام پہنچانے والا (یوسف:50) فرشتوں کے سردار جبریل امین علیہ السلام کو بھی 'رسول' کہا گیا ہے۔ (التکویر:19تا21) کیونکہ آپ وہ اللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے انبیاء و رسل تک پہنچاتے رہے۔ نبی اکرم ﷺ بھی اللہ کے رسول ہیں کیونکہ آپ اللہ کی وحی اس کے بندوں تک پہنچانے پر مامور تھے۔ (المائدة:56/67) چنانچہ حجة الوداع کے موقعہ پر میدانِ عرفات میں آپ کا خطبہ حج سننے والے ایک لاکھ سے زائد افراد نے (بیک زبان) گواہی دی۔ "آپ نے ہم تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا، امانت اداکردی، اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا۔" (سنن ابی داود؛ 1905)

الغرض نبی اور رسول اُس مقدس ہستی کو کہتے ہیں جسے اللہ ربّ العٰلمین نے پسند کرلیا ہو (الاعراف:144 ، 145) تاکہ اس کے ذریعے اپنا پیغام (کتاب و حکمت) اپنے بندوں تک پہنچائے۔ ماننے والوں کو جنت کی بشارت دے اور نہ ماننے والوں کو جہنم سے ڈرائے، لوگوں میں پائے جانے والے اختلافات کا فیصلہ کرے اور انہیں راہِ ہدایت سے آگاہ کرے۔ (البقرة:213) اس اہم ترین مشن کے لئے اللہ تعالیٰ جس ہستی کو پسند کرلیں ، اسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ وہی سب سے زیادہ جانتا ہے کہ کون اس منصب کے تقاضوں پر پورا اُترے گا (الانعام:6/124) اور اس بات کا فیصلہ بھی صرف اللہ تعالیٰ کرتے ہیں کہ کس نبی کی طرف کب اور کیا وحی بھیجنی ہے۔(صحیح بخاری؛3218)

اللہ جس خبر سے اپنے نبی کو آگاہ کردے، اُسے اسی خبر کا پتہ چلتا ہے اور جس خبر سے آگاہ نہ کرے، اسے نبی اپنے طور پر معلوم نہیں کرسکتا۔ارشادِ باری ہے:
"کہہ دیجئے! میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو، آیا وہ قریب ہے یا میرا ربّ اس کے لئے کوئی مدت مقرر کرے گا۔ (الجن: 25)
یہ وہ حقیقت ہے جس کی مثالوں سے کتاب و سنت کے مقدس اوراق بھرے پڑے ہیں ۔

وحی ہدایت
بلا شبہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی پسند و ناپسند کا علم نبی اکرم ﷺ کے ذریعے ہوا جس کی درج ذیل شکلیں تھیں : قرآن پاک ، قدسی احادیث،قولی احادیث،فعلی احادیث ،تقریری احادیث، آپ کے خواب اور آپ کے اجتہادات جن کی وحی الٰہی نے حمایت یا اصلاح کی۔

(1) قرآن پاک:  قرآن پاک دراصل اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جو جبریل علیہ السلام کے ذریعے محمد ﷺ پر نازل کیا گیا ہے جسے نماز وغیرہ میں پڑھنا عبادت ہے۔ جس کی مثل لانے کا اہل عرب کو چیلنج دیا گیا مگر وہ ہمیشہ اس سے عاجز رہے۔ اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ آج تک اس میں زیر زبر کا فرق نہیں ڈالا جاسکا ۔ ہر دور میں دنیا کے لاکھوں ، کروڑوں انسان اسے پڑھتے پڑھاتے اور یاد کرتے آئے ہیں اور رہتی دنیا تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔ان شاء اللہ

(2) حدیث ِقدسی:   حدیث ِقدسی سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ ارشاد ہے جو قرآنِ مجید میں نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے، اسی لیے نماز و غیرہ میں اس کی تلاوت کا حکم دیا گیا ہے نہ اس کی مثل لانے کا چیلنج!!

(3) قولی احادیث:   یعنی نبی اکرم ﷺ کے جملہ ارشادات و فرامین خواہ ان میں حکم ہو یا حرمت، ترغیب ہو یا ترہیب، خبر ہو یا انشا ،تنبیہ ہو یا نصیحت،تفصیل ہو یا جوامع ا لکلم۔ارشادِ باری ہے:

﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾ ( النجم:3،4)

"اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔"

یہاں يتلويا يقرا کے بجائے ﴿يَنْطِقُ﴾ کا لفظ بولا گیا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تلاوتِ قرآن پاک کے علاوہ دینی امور کے بارے میں آپ کی ہر طرح کی گفتگو بھی وحی ہوتی تھی۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ

"میں رسول اللہ ﷺ سے جو بات بھی سنتا، لکھ لیتا تھا تاکہ اسے محفوظ کرلوں ۔ قریش کے لوگوں نے مجھے منع کیا اور کہا: تم ہر چیز لکھ لیتے ہو حالانکہ رسول اللہ ﷺ انسان ہیں (کبھی) غصے اور (کبھی) خواہش کی حالت میں بولتے ہیں ۔
فرماتے ہیں کہ میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: (عبداللہ! ہربات) لکھ! اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے سوائے حق کے اس (منہ) سے کچھ نہیں نکلتا۔" (سنن ابی داؤد؛ 3646، سلسلہ احادیث ِصحیحہ؛1532)

(4) فعلی احادیث:   یعنی نبی اکرم ﷺ کے جملہ اعمال و افعال خواہ وہ آپ کا خاصہ تھے یا اَفرادِ اُمت سے بھی مطلوب تھے اور خواہ ان کی حیثیت فرض و استحباب کی تھی یا بیان جواز کی۔ارشاد ہے:

﴿ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلٰى شَرِيْعَةٍ مِّنَ الاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا﴾ (الجاثیہ: 18)
"پھر ہم نے تجھے امر (دین) کی نوعیت رکھنے والی شریعت پر لگا دیا ہے پس تو اسکی اتباع کر۔"

نیز فرمایا:

"اتباع کر اس چیز کی جو تیرے ربّ کی طرف سے تیری طرف وحی کی جاتی ہے یقینا اللہ خبر رکھتا ہے ان کاموں کی جو تم کرتے ہو۔" (الاحزاب:2)
گویا نبی اکرم ﷺ کے تمام اعمال و افعال قرآن پاک کی پیروی تھے، اسی لئے جب سعد بن ہشام بن عامر رضی اللہ عنہما نے سیدہ عائشہ  سے نبی اکرم ﷺ کے اخلاق کی بابت پوچھا تو سیدہ نے فرمایا:

"کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟"

سعد نے کہا: "جی ہاں ، کیوں نہیں ؟" فرمایا:
"یہی (قرآن) اللہ کے نبی کا اخلاق تھا۔" (صحیح مسلم؛2839)

(5) تقریری احادیث:   'تقریر' کامعنی ہے برقرار رکھنا اور تقریری احادیث سے مراد وہ تمام باتیں اور واقعات ہیں جو آپ کی حیاتِ طیبہ کے دوران نزولِ وحی کے زمانے میں مسلمانوں کے ہاتھوں ظاہر ہوئے مگر وحی الٰہی نے انہیں ان سے روکا، نہ نفرت دلائی۔ بلکہ خاموشی ا ختیار کرکے انہیں برقرار رکھا یعنی سند ِجواز مہیا کردی کیونکہ آپ کسی مسلمان کے ہاتھوں ناجائز کام ہوتا دیکھ کر خاموش نہیں رہتے تھے۔ ارشادِ باری ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الرَّ‌سُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِ‌سَالَتَهُ ۚ وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِ‌ينَ﴾ ( المائدة :67)
"اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا بےشک اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔"

نبی اکرم ﷺ نے اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک کیسے پہنچایا؟ ذرا تصور کریں ، مکہ کی بستی جو کفر و شرک کا گڑھ تھی، جہاں کے چوہدری اور سردار بدی کے علمبردار تھے، اس بستی میں ایک آدمی تن تنہا اٹھتا ہے اور بستی والوں کے عقائد کو ترغیب و ترہیب کے ساتھ چیلنج کرتا ہے۔ حالانکہ کسی کا عقیدہ چھیڑنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے مگر پیارے نبی ﷺ سرکش بھڑوں کے عین درمیان میں استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑے ہوگئے۔ طائف کے سرداروں سے بنفس نفیس ملے مگر جواب میں سنگباری ملی، جوتوں میں خون جم ہوگیا۔ کیا جو شخص کسی ملامت کی پرواہ کئے بغیر بازاروں ، میلوں اور حاجیوں کی مختلف ٹولیوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کا پیغام سناتا ہو کیا اس کی بابت یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس نے کسی موقعہ پر اپنے ہی کسی پیرو کار کے ہاتھوں ایک ناجائز کام ہوتے دیکھا مگر اس سے روکا ، نہ نفرت دلائی؟

ممکن ہی نہیں توپھر ماننا ہوگا کہ نبی اکرم ﷺ جس بات یا کام کی بابت خاموشی اختیار کریں وہ اللہ کے ہاں جائز ہوتاہے۔ارشاد ِربانی ہے:

"اے ایمان والو! ایسی چیزوں کی بابت سوال نہ کرو کہ اگر (ان کے حقائق) تمہارے لئے ظاہر کردیے جائیں تو تمہیں تکلیف دیں اور اگر تم ان کی بابت سوال کرو گے جبکہ قرآن اُتارا جارہا ہے تو وہ تمہارے لئے ظاہر کردی جائیں گی۔" (المائدة:5/101)

ایک د فعہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"لوگو! تم پر حج فرض کردیا گیا ہے لہٰذا تم حج کرو۔" اس پر ایک آدمی نے پوچھا: "کیا ہر سال اے اللہ کے رسول(ﷺ)؟" آپ خاموش رہے۔ حتیٰ کہ اس نے تین دفعہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا:
"اگر میں 'ہاں ' کہہ دوں تو یہ (ہر سال ہی) واجب ہوجائے اور تم اس کی طاقت نہ رکھو۔"
ٍٍپھر فرمایا:"جب تک میں تمہیں (تمہارے حال پر ) چھوڑ ے رکھوں تم مجھے چھوڑے رکھو (خواہ مخواہ سوال نہ کرو) تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے نبیوں کے پاس آکر بکثرت سوال کرتے تھے۔ جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اسے سرانجام دو اور جب کسی چیز سے منع کردوں تو اسے چھوڑ دو۔" (صحیح مسلم؛3257 )

مزید فرمایا: " اللہ تعالیٰ نے تم پر کچھ فرائض عائد کئے ہیں ، انہیں ضائع نہ کرو، کچھ حدیں مقرر کی ہیں انہیں نہ پھلانگو، کچھ چیزوں کو حرمت بخشی ہے انہیں پامال نہ کرو اور کسی بھول کے بغیر (محض) تم پر شفقت کرتے ہوئے کچھ چیزوں کی بابت خاموشی اختیار کی ہے پس ا ن کے متعلق سوال مت کرو"۔ (المصباح المنیر فی تہذیب ِتفسیر ابن کثیر؛المائدة:101)

نیز فرمایا: "یقینا وہ شخص جرم کے لحاظ سے سب مسلمانوں سے بڑھ کر ہے جس نے ایسی چیز کے متعلق سوال کیا جو حرام نہیں تھی مگر اسکے سوال کی و جہ سے وہ حرام کردی گئی۔"( بخاری؛7289)

(6) سچے خواب:انبیاء و رسل علیہم السلام کو جو خواب آتے ہیں وہ اللہ کی وحی ہوتے ہیں ۔غالباً اسی لئے نبی اکرم ﷺ سوئے ہوتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اُنہیں جگایا نہیں کرتے تھے (مبادا کوئی خواب دیکھ رہے ہوں )۔ (صحیح بخاری؛3571) اور یہ بھی عین حقیقت ہے کہ انبیاء ورسل علیہم السلام جب نیند فرماتے تو ان کی صرف آنکھیں سوتیں جب کہ دل بیدار رہتے (صحیح بخاری؛ 3570) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں عالم خواب میں عالم بیداری کے بدلتے حالات کا پتہ چل جاتا تھا ورنہ نیند کے دوران آپ کی نماز قضا نہ ہوتی۔ (صحیح بخاری؛3571)

قرآنِ پاک میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خواب ذکر ہوا ہے جس میں وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کررہے تھے۔ بیٹے نے سنا تو کہا: ابا جان! آپ (اللہ کی طرف سے) جس بات کا حکم دیے گئے ہیں ، کر گزریں ..."(الصافات:102 تا 105)

نبی ﷺ نے نمازِ فجر کے بعد اپنا ایک طویل خواب بیان فرمایا جس میں آپ کو مختلف جرائم کے مرتکب افراد کو عالم برزخ میں عذاب ہوتا دکھایا گیا تھا۔" (صحیح بخاری؛1386)

امّ المؤمنین عائشہ صدیقہ پرجب منافقین نے جھوٹا الزام لگایا تو نبی اکرم ﷺ ، ان کے گھر والے اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسلسل ایک ماہ تک بڑے پریشان رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے سورة النور میں حضرت عائشہ صدیقہ  کی براء ت نازل فرمائی۔ سیدہ  فرماتی ہیں :

"مجھے معلوم تھا کہ میں بری ہوں اور اللہ تعالیٰ میری براء ت ضرور واضح کرے گا لیکن اللہ کی قسم! مجھے خیال تک نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میری بابت (قرآن پاک کی) وحی نازل فرمائیں گے جو (رہتی دنیا تک) تلاوت کی جائے گی۔ میں اپنے آپ کو اس سے کہیں کم تر خیال کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میری بابت خود کلام فرمائیں ۔ مجھے (زیادہ سے زیادہ) یہ توقع تھی کہ رسول اللہ ﷺ نیند میں کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ مجھے بری کردیں گے۔" (صحیح بخاری / ؛4749)

یاد رہے کہ کسی اُمتی کا خواب اگر اچھا ہو تو وہ بشارت ہو گا، عام مسلمانوں کے لئے وہ شرعی حکم کی حیثیت نہیں رکھتا لہٰذا محض کسی کے اچھے خواب کی بنیاد پر کوئی نیا مسئلہ ثابت کیا جائے گا اور نہ کسی ثابت شدہ مسئلے کو باطل ٹھہرایا جائے گا۔

(تفصیل کے لئے دیکھیں : امام نووی کی شرح صحیح مسلم: 1/18)

(7) نبی اکرمﷺ کے اجتہادات:پیش آمدہ مسائل میں آپ عموماً وحی کا انتظار فرمایا کرتے تھے تاہم بسا اوقات اپنے دینی علم و فہم کی روشنی میں اجتہاد بھی فرماتے جس کی وحی الٰہی حمایت یا اصلاح کردیتی تھی کیونکہ جس طرح یہ ناممکن ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک غلط کام دیکھیں اور غلطی کی نشاندہی نہ کریں ، اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ کسی اجتہادی امر میں بتقاضائے بشریت آپ سے کوئی لغزش ہو اور وحی الٰہی اس کی اصلاح نہ کرے۔ واللہ اعلم!

ارشادِ باری ہے: ﴿فَإنَّكَ بِأَعْيُنِنَا﴾ (الطور:48)

"پس یقینا تو ہماری نگاہوں میں ہے۔"

مزید فرمایا: "اس غالب مہربان پر بھروسہ کر جو تجھے دیکھتا ہے جب تو اُٹھتا ہے اور سجدہ کرنے والوں میں تیری بدلتی حالتوں کو بھی دیکھتا ہے۔" (الشعراء:217تا 219)

ہجرتِ مدینہ کے بعد جب مسجد ِاقصیٰ کو قبلہ بنایا گیا تو آپ کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ ہی کو مستقل قبلہ بنا دیا جائے یہ آپ کی خواہش تھی۔ آپ نے کئی دفعہ آسمان کی طرف دیکھا گویا وحی کا انتظار فرما رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آپ کی خواہش کے مطابق خانہ کعبہ کومستقل قبلہ بنا دیا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ ہم تیرے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھتے رہے ہیں : فرمایا:﴿قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَآءِ﴾ (البقرة:144) "یقینا ہم دیکھتے ہیں آسمان میں تیرے چہرے کا پھرنا۔"

ایک نابینا شخص نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ! مجھے مسجد تک لانے والا کوئی نہیں ، اس نے گھر میں نماز پڑھنے کی رخصت چاہی آپ نے رخصت دے دی ۔ جب وہ مڑ کر واپس جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: 'کیا اذان سنتے ہو؟' اس نے کہا:'ہاں ' تو فرمایا: "تو پھر نماز میں حاضر ہو۔"

(صحیح مسلم ؛ 1486)

جنگ ِاُحد کے بعد جب آپ نے نما زکے دوران قنوتِ نازلہ میں بعض مخصوص افراد کانام لے کر بددعا فرمائی تو آپ کو روک دیا گیا:

(آل عمران:128 و صحیح بخاری؛4069)

جب آپ نے جنگ ِتبوک کے موقع پر بعض لوگوں کے عذر سن کر انہیں پیچھے رہنے کی اجازت دے دی تو تنبیہ آگئی:

"اللہ نے آپ سے درگزر کیا، آپ نے انہیں اجازت کیوں دی؟" (التوبہ: 43)

دراصل ایک نبی اور اُمتی کی اجتہادی خطا میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحی نبی کی اجتہادی خطا کو باقی نہیں رہنے دیتی بلکہ اصلاح کردیتی ہے تاکہ ایک ایسی چیز دین نہ بننے پائے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں جبکہ امتی کی اجتہادی خطا بعض دفعہ اس کے پیرو کاروں میں کچھ یوں رواج پا جاتی ہے کہ اس کی محض نشاندہی کی جائے تو گستاخی کا فتویٰ لگ جاتا ہے۔

ارشادِ باری ہے: ﴿إنَّا أنْزَلْنَا الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بينالنَّاسِ بِمَا أرَاكَ اللهُ﴾

"یقینا ہم نے تیری طرف حق کے ساتھ (سچی) کتاب اتاری ہے تاکہ تو لوگوں کے درمیان فیصلہ کردے اس چیز کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے تجھے دکھائی ہے۔" (النساء:105)

گویا آپ کے فیصلے محض آپ کی صوابدید کے مطابق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی رہنمائی کے مطابق نافذ ہوتے تھے، اسی لئے آپ کا ہر فیصلہ واجب الاتباع ہے۔ یہ اعزاز کسی امتی حاکم، جج، مفتی یا مجتہد کونہیں دیا جاسکتا کیونکہ کسی اُمتی پرکوئی وحی نہیں آتی لہٰذا اس کا ہر اجتہاد حرفِ آخر ہوسکتا ہے نہ واجب الاتباع۔ چہ جائیکہ اس کے اجتہادات پراپنا مذہب استوار کیا جائے یا فقہ کے نام پر لوگوں کو ان پرقائم رہنے کی پرزور دعوت دی جائے۔

بہرحال احتیاط اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ کسی بھی اختلافی مسئلہ میں کسی مخصوص فقہ کے اجتہادات پر کلی انحصار کرنے کی پالیسی ترک کرکے دل و دماغ کو وسعت دی جائے اور فقہی نقطہ ہائے نظر سے بھی استفادہ کیا جائے تاکہ ہدایت اپنی دلیل سمیت واضح ہوجائے۔

وحی ہدایت کی حفاظت

مذکورہ تصریحات سے واضح ہوگیا کہ وحی ہدایت کی ہر صورت ، منجانب اللہ ہے۔ اب یہ بھی جان لیں کہ وحی الٰہی کی یہ صورتیں الحمدللہ پوری طرح محفوظ و مامون چلی آرہی ہیں ۔

ارشادِ باری ہے: ﴿إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَ وَإنَّالَه لَحَافِظُوْنَ﴾(الحجر:9)

"یقینا ہم نے ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔"

مزید فرمایا: "پھر یقینا ہم پر ہی ہے اس کا بیان۔" (القیامہ:19)

یعنی یہ کام ہمارے ذمے رہا کہ

ا․ آپ کی زبانِ اقدس پر قرآنِ پاک کی تلاوت آسان کریں ۔

ب․ اپنے کلام کی وضاحت کریں ۔

ج․ پھر اس وضاحت کی حفاظت کا بندوبست کریں ۔

اور پھر واقعی اللہ تعالیٰ نے یہ بندوبست فرمایا اور خوب فرمایا۔ارشادِ باری ہے:

"اور بے شک یہ (قرآن) ربّ العالمین کانازل کردہ ہے جسے روح امین (ایک امانتدار فرشتہ جبریل ) لے کر نازل ہوئے، تیرے دل پر، تاکہ تو ڈرانے والوں میں (شامل) ہوجائے۔" (الشعراء:192تا194)

مزید فرمایا: "پس شان تو یہ ہے کہ وہ (اللہ تعالیٰ) چلاتا ہے اس کے آگے پیچھے پہریدار تاکہ (دیکھ کر بھی) جان لے کہ انہوں نے (فرشتوں نے انبیا تک اور انبیا نے لوگوں تک)اپنے ربّ کے پیغامات پہنچا دیئے ہیں اور اس نے احاطہ کررکھا ہے (وحی کی) ہراس بات کاجو ان(فرشتوں یاانبیاورسل) کے پاس ہے اور اس نے شمار کررکھا ہے ہر چیز کو گن گن کر۔" (الجن:27 ، 28)

یعنی اللہ تعالیٰ کی وحی پر اور اسے آگے پہنچانے والے فرشتوں اور نبیوں پر اضافی فرشتوں کا سخت پہرا ہوتا ہے تاکہ جب تک وحی اللہ کے بندوں تک پہنچ نہیں جاتی، اسے شیطان کی جھپٹ وغیرہ سے بچایا جاسکے۔ (واللہ اعلم)

نیز فرمایا: "اور جب ان (کفار) پر ہماری کھلی آیات پڑھی جاتی ہیں (تو) وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی اُمید نہیں رکھتے (قیامت کو نہیں مانتے) کہتے ہیں : اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آ، یا اسی کو بدل ڈال، کہہ دیجئے کہ میرے لئے (ایسا کوئی اختیار نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل ڈالوں ۔" (یونس:15)

اور فرمایا: "اور اگر وہ (محمد ﷺ) کچھ من گھڑت باتیں ہم پر کہہ ڈالتے تو ہم انہیں دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے پھر ان کی رگِ جہان کاٹ ڈالتے۔ پھر تم میں سے کوئی بھی رکاوٹ نہ بن سکتا۔" (الحاقہ:44تا47)

یعنی اگر ایسا نہیں ہوا اور یقینا ایسا نہیں ہوا، تو پھر مان لو کہ محمد کریم ﷺ تمہیں جو کچھ سناتے اور بتاتے ہیں وہ ان کی اپنی بنائی ہوئی باتیں نہیں بلکہ ہماری نازل کردہ وحی ہے۔

صحابہ کرام  جو نبی اکرم ﷺ کا لعابِ مبارک اور وضو کے قطرے بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے (صحیح بخاری/2731 عروہ بن مسعود کی گواہی) وہ بھلا آپ کے الفاظ و افعال کیسے ضائع ہونے دیتے۔ جس طرح قرآن پاک نبی اکرم ﷺ کا ا خلاق تھا، قرآن و حدیث صحابہ کرام کے اخلاق بن گئے، انہوں نے ان پرعمل پیرا ہو کر اپنے اخلاق و کردار اور فکر و نظر میں پوری طرح سمو لیا اور پھر نہ صرف عمل پیہم کے ذریعے ان کی حفاظت کی بلکہ حفظ و تکرار، تحریر وکتابت، درس و تدریس، وعظ و تبلیغ اور روایت و درایت کے ذریعے بھی اس کی حفاظت کی پھر چراغ سے چراغ جلا اور یہ روایت تابعین سے ہوتی ہوئی تبع تابعین تک اور پھر بعد کے محدثین تک پہنچی۔

وحی الٰہی کے اس مقدس ذخیرے کو اجنبی مداخلت ، ملاوٹ اورآمیزشوں سے بچانے کے لئے بیسیوں بے مثال علوم ایجاد ہوئے۔ اعتراض کرنے والے اعتراض تو کرتے ہیں کیونکہ کوئی کسی کی زبان کو نہیں پکڑ سکتا (جب تجھے کسی بات کی شرم ہی نہیں رہی تو جو چاہتا ہے کر (بخاری:3484)) ایسے لوگ ہمیشہ اس بات سے قاصر رہے ہیں کہ کسی ایسے قدیم یا جدید، مقدس و مستند علمی ذخیرے کی نشاندہی کریں جس کی قرآن کریم یا حدیث شریف سے بڑھ کر خدمت و حفاظت کی گئی ہو اس لحاظ سے وحی ہدایت کے دونوں سوتے بے مثال و لاجواب ہیں ۔

معصومیت

قرآن میں نبی اکرم ﷺ کو توبہ و استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ (النصر:3) اور یہ نوید بھی سنائی گئی ہے کہ "اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے ہیں ۔" (الفتح:2)

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ تو معصوم ہیں ، اس لئے گناہ نہیں کرسکتے لہٰذا سورة الفتح کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی وجہ سے اُمت کے اگلے پچھلے تمام لوگوں کے گناہ معاف کردیئے گئے ہیں (کنز الایمان)۔ یہ تاویل عیسائی عقائد کا چربہ ہے۔ آیت ِمبارکہ کے الفاظ اس کے متحمل نہیں ہیں ۔

اس کے برعکس بعض لوگوں کا موقف یہ ہے کہ افضل امور کو چھوڑ کر جائز امور کو اختیار کرنا عام لوگوں کے لئے گناہ نہیں ہے مگر ایک نبی کا درجہ چونکہ بہت بڑا ہوتا ہے اس لئے ایسے امور کو ان کے حق میں گناہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ توجیہ بھی دل کو نہیں لگتی کیونکہ اگر 'جواز' شرعی احکام کی ایک قسم ہے تو بیانِ جواز منصب ِرسالت کاایک لازمی تقاضا ہے پھر یہ گناہ کیسے ہوگیا؟

اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے (واللہ اعلم بالصواب) کہ توبہ و استغفار بجائے خود ایک بہت بڑی عادت ہے جس میں نہ صرف اللہ کے حضور بندے کے اعترافِ جرم ، احساسِ ندامت، عاجزی و انکساری اور خوف و خشیت کا اظہار ہوتا ہے بلکہ اللہ کی طرف سے برکت و مغفرت اور درجات کی بلندی بھی حاصل ہوتی ہے پھر نبی اکرم ﷺ ایسی عظیم تر عبادت سے کیسے محروم رہ سکتے تھے؟ یہ بات ہی بڑی گھسی پٹی ہے کہ نبی ﷺ نے فلاں عبادت کبھی نہیں کی۔ (والعياذ بالله)

اسی طرح عفو و درگزر کرنا اللہ تعالیٰ کو بڑا پسند ہے (جامع ترمذی؛ 3513) یہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کو معاف کردے، اسی لئے ہر سچے موٴمن کی ساری تگ و دو کا ماحصل ہی یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح میرا اللہ مجھے معاف کردے اور یہ بات بڑی عجیب و غریب لگتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی اکرم ﷺ کو اور تو بہت سے انعامات سے نوازیں مگر مغفرت کے انعام سے محروم رکھیں ۔

باقی رہا آپ کا معصوم ہونا تو اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں نبی اکرم ﷺ کی طرف سے کوئی خیانت یا غلطی نہیں ہوئی۔ اگر کہیں بشری تقاضوں کی وجہ سے کوئی بھول چوک ہوئی بھی تو وحی الٰہی کی بروقت رہنمائی سے اس کی اصلاح کردی گئی یعنی کسی غلطی کو باقی نہیں رہنے دیا گیا۔ اس سلسلہ میں اصل یہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ وحی الٰہی کی اطاعت و اتباع کی ہے اور جان بوجھ کر کبھی اللہ کی نافرمانی نہیں کی بلکہ فرمایا:

"(ایک جن) میرے ساتھ بھی (مقرر) ہے لیکن اللہ نے اس پر میری مدد کی ہے۔ اس لئے وہ مسلمان ہوچکا ہے لہٰذا مجھے صرف نیکی کا حکم دیتا ہے" (صحیح مسلم؛7108)

مزید فرمایا:

"اللہ کی قسم!میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں ۔" (بخاری؛5063)

نیز فرمایا: "جب میں ہی نافرمانی کروں تو اور کون اللہ کی اطاعت کرے گا؟ اللہ تو مجھے اہل زمین پر امین جانے اور تم مجھے امین نہ جانو؟" (صحیح بخاری؛3344)

اور فرمایا: "جب میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا؟" (صحیح بخاری؛6163)

البتہ بشری تقاضوں کی وجہ سے جب کوئی لغزش ہوئی تو آپ کو اس پر قائم رہنے سے بچا لیا گیا، اصلاح بھی کی گئی، توبہ کی توفیق بھی دی گئی۔ بلکہ بعض دفعہ تو اصلاح کے ساتھ ہی پیشگی معافی کا اعلان کردیا گیا۔" (التوبہ:43 اور التحریم:1)

کبھی کبھار ہونے والی ان بشری لغزشوں میں نجانے کیا کیا حکمتیں پوشیدہ تھیں ، ایک حکمت یہ ہوسکتی ہے کہ خالق اور مخلوق میں فرق رہے کیونکہ یہ صرف خالق کی صفت ہے کہ اسی سے علیٰ الاطلاق کبھی غلطی نہیں ہوتی۔ قرآن پاک نے بتایا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا: ﴿لاَ يَضِلُّ رَبِّیْ وَلاَ يَنْسٰی﴾ (طہٰ:20/52) "میرا ربّ نہ بھٹکتا ہے، نہ بھولتا ہے۔"

جبکہ رسول اللہ ﷺ کی بابت ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿سَنُقْرِئُكَ فَلاَ تَنْسَٰى إلاَّ مَا شَآءَ اللهُ﴾ (الاعلیٰ:/6،7)

"اب ہم تجھے (اچھی طرح قرآن) پڑھا دیں گے پس تو بھولے گا نہیں مگر جو اللہ چاہے۔"

چنانچہ ایک بار آپ جماعت کے دوران قراء ت بھول گئے فراغت کے بعد فرمایا:

"(اے اُبی!) تمہیں (لقمہ دینے سے) کس چیز نے روکا؟" (سنن ابی داود؛907)

اسی طرح ایک دفعہ اپنے گھر میں رات کو اٹھے تو مسجد سے ایک صحابی کی تلاوت سن کر فرمایا:

"اللہ اس پر رحم کرے اس نے مجھے فلاں فلاں آیت یاد کراد ی ہے جو مجھے بھول گئی تھی۔" (صحیح بخاری؛6335)

یعنی ایسا نہیں ہوا کہ آپ ﷺ لوگوں تک آیات کو پہنچانا بھول گئے ہوں بلکہ تبلیغ کے بعد بھول واقع ہوئی جس کی ایک و جہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خالق و مخلوق میں فرق کو واضح کردیاجائے۔

علاوہ ازیں نبی ﷺ اس لحاظ سے بھی معصوم تھے کہ آپ کو اللہ کی راہ میں جب بھی کسی نے ستایا، ناحق ہی ستایا۔ اس میں آپ کا قطعاً کوئی قصور نہ تھا ۔

(مثلاً دیکھیں بخاری؛ 3856)

ارشادِ نبوی ہے: "بلا شبہ میں اللہ کی راہ میں ڈرایا گیا ہوں (اس قدر) کوئی نہیں ڈرایا گیا میں اللہ کی راہ میں تکلیف دیا گیا ہوں (اتنی) تکلیف کوئی نہیں دیا گیا۔" ( ترمذی؛2472)

آپ کو زیادہ تر ذہنی اذیت پہنچائی گئی جو جسمانی اذیت سے کہیں زیادہ صبر آزما ہوتی ہے۔ مثلاً جب اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ پر جھوٹی تہمت تراشی گئی آپ مسلسل ایک ماہ تک سخت پریشانی میں مبتلا رہے۔ اس دوران ایک دن منبر پر کھڑے ہوکر فرمایا:

"اے مسلمانوں کی جماعت! کون شخص میرا وکیل ِصفائی بنے گا، اس شخص کے جواب میں جس کی ایذا رسانیاں میرے اہل بیت تک پہنچ گئی ہیں ۔ اللہ کی قسم! میں اپنے اہل کی بابت خیر ہی جانتا ہوں اور جس آدمی کا انہوں نے ذکر کیا ہے، اس کی بابت بھی صرف خیر جانتا ہوں وہ میرے اہل پر (ہمیشہ) میرے ساتھ ہی داخل ہوا ہے۔" (صحیح بخاری؛4749)

مزید برآں نبی اکرم ﷺ اس لحاظ سے بھی معصوم تھے کہ کفار نے کوئی بیسیوں مرتبہ کوشش کی کہ نعوذ باللہ آپ کوقتل کردیا جائے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر بار ان کی ہر چال سے بچا لیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کررکھا تھا کہ" آپ لوگوں تک میرا پیغام پہنچائیں ، ان (کی ضرب کاری) سے میں آپ کو بچاؤں گا۔" (المائدة:67)

چنانچہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں آپ نے اپنی قیام گاہ پر رات کے پہرے کی ضرورت محسوس کی مگر جب یہ آیت نازل ہوئی تو پہرہ ختم کردیا گیا۔

(صحیح بخاری/7231و مسنداحمد:6/141 و المصباح المنیر فی تہذیب تفسیر ابن کثیر: ص391)

اطاعت باذن اللہ

شریعت کی رو سے جب ایک بات فن حدیث کے مطابقپایہٴ ثبوت تک پہنچ جائے تو پھر غیر مشروط طور پر دل و جان سے آپ ﷺ کی تصدیق اور اطاعت و اتباع کرنا، قیامت تک آنے والے ہر مکلف مسلمان کے لئے فرضِ عین کی حیثیت رکھتا ہے۔ارشادِ باری ہے:

﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إلاَّ لِيطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ﴾(النساء:64)

"اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی لئے کہ وہ اللہ کے حکم سے اطاعت کیا جائے۔"

نیز فرمایا: "اور ہم نے آپ کو (تمام) لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ کافی ہے گواہی دینے والا، جو کوئی رسول (ﷺ) کی اطاعت کرے تو اس نے یقینا ا للہ کی اطاعت کی۔" (النساء:79 ،80)

فرشتوں نے آپ کے پاس گفتگو کرتے ہوئے کہا:

"جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور محمد(ﷺ) نے (جنتی اور جہنمی) لوگوں میں امتیاز قائم کردیا ہے۔ " (صحیح بخاری؛7281)

ارشادِ باری ہے: "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور (ان کی مخالفت میں کسی اور کی اطاعت کرکے) اپنے اعمال کوضائع مت کرو۔"(محمد:33)

مزید فرمایا: "اتباع کرو اس چیز کی جو تمہارے ربّ کی طرف سے تمہاری طرف اتاری گئی ہے اور نہ اتباع کرو اس کے علاوہ دوسرے اولیا (چہیتوں )کی۔" (الاعراف:7/3) یعنی اللہ کی نافرمانی میں دوسرے پیاروں کے پیچھے مت چلو۔

ارشادِ نبوی ہے: "(اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ) نافرمانی میں کسی کی اطاعت(کرنا جائز)نہیں ہے۔(کسی اور کی)اطاعت صرف معروف میں (جائز) ہے۔"(صحیح بخاری؛7257)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پاؤ گے۔"(النور:54)

نیز فرمایا: "اور تم اس کی اتباع کرو، تاکہ ہدایت پاؤ" (الاعراف:158)

مزید فرمایا: "اور جو کچھ تمہیں رسول (ﷺ) دیں وہ لے لو اور جس بات سے منع کریں (اس سے) رک جاؤ۔" (الحشر:7) اور فرمایا:

"کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا اور اللہ (ایسے ہی لوگوں کیلئے) غفور رحیم ہے۔" ( آل عمران:31)

ارشادِ ربانی ہے: "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان لاؤ۔ اللہ تمہیں اپنی دوہری رحمت سے نوازے گا اور تمہارے لئے ایسا نور کردے گا جس کے ساتھ تم چلو گے وہ تمہیں معاف کردے گا اور اللہ (بڑا )غفور رحیم ہے۔" (الحدید:28)

آپ ﷺ کی رسالت چونکہ قیامت تک کے لئے ہے اس لئے آپ کی تصدیق اور اطاعت و اتباع بھی قیامت تک کے لئے ہے، ان دونوں میں تفریق کرنا درست نہیں ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: " اور نہیں بھیجا ہم نے تجھے مگر (قیامت تک آنے والے) تمام لوگوں کی طرف خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔" (سبا: 28)

مزید فرمایا:"کہہ دیجئے! اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا فرستادہ رسول ہوں ۔" (الاعراف:158)

نیز فرمایا:"اور نہیں ہیں محمد (ﷺ) مگر اللہ کے رسول، ان سے پہلے بھی (بہت سے) رسول گذر چکے ہیں اگر وہ وفات پاجائیں یا (اللہ کی راہ میں ) قتل کردیئے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل (دوبارہ کفر کی طرف ) پلٹ جاؤ گے۔؟" (آل عمران:144)

اور فرمایا: "پس تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹو۔" (آل عمران:103)

فرمانِ الٰہی ہے: "اور جب ان سے کہا جاتا ہے آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے اتاری اور (آؤ) رسول (ﷺ) کی طرف ، تو منافقین کو دیکھتا ہے کہ ہٹ جاتے ہیں تجھ سے ہٹ جانا۔"(النساء:61)

افسوس جو لوگ خود اپنے مرشدوں کی وفات کے بعد ان کے افکار و نظریات کو نہیں چھوڑتے بلکہ ان کا پرچار کرتے ہیں وہ دوسروں کو دعوت دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد ان کی اطاعت چھوڑ کر 'مرکز ِملت' سے وابستہ ہوجاؤ۔