حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ
آپ کا اسم گرامی جندب بن جنادہ بن سفیان بن عبید بن حرام بن غفار تھا۔ آپ کی والدہ کا نام رملہ بنت وقیعہ غفاریہ تھا۔بعض لوگوں نے آپکا نام بریر بھی لکھا ہے لیکن پہلا نام صحیح ہے، کنیت ابوذر تھی۔
سکونت:میدانِ بدر کے قریب مدینہ منورہ کی راہ میں 'صفراء' نامی ایک بستی تھی، یہی بستی آپ کامسکن تھا۔ آپ کے قبیلہ کی رہائش دو پہاڑوں کے درمیان تھی جن میں سے ایک پہاڑی کا نام مُسلَح تھا اور دوسری کا نام مُحزٰی... آنحضرت ﷺجب بدر کی طرف آرہے تھے، ان پہاڑوں کے قریب پہنچے تو ان کا نام پوچھا۔ جب لوگوں نے ان کے نام بتائے تو آپ کو ان کے نام پسند نہ آئے۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا:یہاں کون سے قبیلے آباد ہیں تو آپ کو بتایا گیا کہ یہاں دو قبیلے آباد ہیں، ایک کا نام نار (آگ) ہے اور دوسرے کانام بنی حراق (جلنا) ہے۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا: یہ کس قبیلہ کی شاخیں ہیں تو بتایا گیا کہ یہ بنو غفار کے قبیلے کے ہیں۔ پھر آپ نے اس راستے سے گزرنا مناسب نہ سمجھا اور 'صفراء 'بستی کی دائیں جانب سے ہو کرگزر گئے۔
پیشہ:آپ کے خاندان کا پیشہ تو ڈاکہ زنی تھا لیکن آپ ابتدا ہی سے اس پیشہ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے اور محنت مزدوری کرکے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے۔ آپ ایامِ جاہلیت میں بھی عبادت گزار تھے۔ چونکہ آپ کا قبیلہ اس شاہراہ پر آباد تھا جو یمن سے لے کر شام تک چلی گئی تھی اور اسی شاہراہ پر عرب کے تمام تجارتی قافلے آیا جایا کرتے تھے لہٰذا جب آنحضرت ﷺنے مکہ میں اپنی نبوت کا اعلان کیا تو بہت جلد آپ کی خبر آنے جانے والوں کے ذریعہ بنوغفار میں پہنچ گئی۔
حلیہ : آپ کا قد لمبا تھا، نحیف و کمزور تھے۔ رنگ گندم گوں اور نقش تیکھے تھے۔ حضرت ابوذر کا بھائی اُنیس مکہ مکرمہ آرہا تھا۔ عمرو بن عبسہ آپ کے اَخیافی بھائی ہیں۔ آپ نے اُنیسسے کہا : سنا ہے ، ایک آدمی نے مکہ میں اپنی نبوت کا اعلان کیاہے، ذرا اس سے ملاقات کرکے پورے حالات کا پتہ کرتے آنا۔
جب آپ کا بھائی مکہ مکرمہ سے واپس پہنچا تو آپ نے دریافت کیا۔ اس نے بتایا کہ قریش میں سے محمّد (صلی اللہ علیہ وسلم) نامی ایک شخص اپنے آپ کو خدا کا رسول کہتا ہے۔ میں نے جب اس سے ملاقات کی تو اس نے کہا۔ خدا تعالیٰ کو ایک جانو، اس کا کوئی شریک نہیں، بتوں کی عبادت چھوڑ دو، کسی کو تکلیف نہ دو، برے کام نہ کرو اور خدا کی عبادت کرو اور خلق خدا کی خدمت کرو۔
آپ نے فرمایا:کچھ اس سے آگے بھی بتاؤ تو اس نے کہا: میں اس سے آگے کچھ نہیں جانتا۔ تو آپ نے فرمایا: تو نے میرے دل کو مطمئن نہیں کیا۔ میں خود مکہ مکرمہ جاکر حالات دریافت کروں گا۔ چنانچہ کچھ زادِ راہ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔
مکہ مکرمہ پہنچ کرپتہ چلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پورے قریش میں غم و غصہ کی ایک لہر دوڑ چکی ہے۔ حالات اتنے نازک تھے کہ آپ کے متعلق کسی سے کچھ پوچھنا اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ چنانچہ آپ نے کسی سے پوچھنا مناسب نہ سمجھا اور خانہ کعبہ میں آکر بیٹھ رہے کہ شائد کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ خود بخود آنحضرت ﷺسے ملاقات ہوجائے اور کسی مصیبت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔سارا دن گزر گیا لیکن مقصود کو نہ پہنچ سکے۔
چونکہ بنو ہاشم خانہ کعبہ کے متولی تھے اور اس وقت محمد ﷺکے چچا ابوطالب اس منصب پر فائز تھے لہٰذا رات کو خانہ کعبہ کا دروازہ بند کرنے کے لئے حضرت علی سب سے پیچھے رہ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک مسافر بیٹھا ہے۔ اس سے پوچھا: تم مسافر ہو؟ ابوذر نے کہا: ہاں۔ حضرت علی نے فرمایا: میرے ساتھ چلو۔ چنانچہ آپ حضرت علی کے ساتھ چلے گئے۔ رات کو کھانا اور ٹھکانا دونوں مل گئے۔ صبح پھر خانہ کعبہ میں آگئے۔ پھر سارا دن گزر گیا لیکن گوہر مراد ہاتھ نہ آیا۔ دوسری رات پھر حضرت علی نے دیکھا کہ وہی مسافر آج بھی بیٹھا ہے۔ پوچھا کیا مسافر کو اپنی منزل نہ ملی؟ کہنے لگے: نہیں۔ وہ پھر ان کو اپنے ساتھ لے گئے اور حسب سابق مہمان کا حق ادا کیا لیکن دونوں راتیں بالکل خاموشی سے گزریں ۔ نہ تو حضرت علی نے ان سے پوچھا کہ تم کو ن ہو، کہاں سے اورکس کام سے آئے ہو اور نہ ہی حضرت ابوذر نے ان سے کچھ کہا۔ تیسرے روز پھر خانہ کعبہ میں چلے آئے اور پھر سارا دن گزر گیا۔ تیسری رات حضرت علی نے دیکھا کہ وہی مسافر بیٹھا ہے، کہنے لگے: کیا ابھی بھی منزل کانشان نہیں ملا؟کہنے لگے: نہیں۔ تو آپ نے فرمایا:آؤ پھر میرے ساتھ چلو، چنانچہ وہ آپ ان کے پیچھے ہو لئے۔ راستہ میں حضرت علی نے پوچھا: آپ کس مقصد کے لئے یہاں آئے ہیں؟ تو حضرت ابوذر نے کہا :اگر راز داری کا وعدہ کرو تو عرض کروں۔ حضرت علی نے کہا:وعدہ ہی سمجھو۔ حضرت ابوذر نے کہا:"میں نے سنا تھا کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیاہے، ان کا پتہ کرنے آیا ہوں، اگر آپ کچھ جانتے ہوں تو میری راہنمائی کریں"۔ حضرت علی نے کہا: میں ان کو بڑی اچھی طرح جانتاہوں، آپ میرے ساتھ آجائیں، میں آپ کو ان کی خدمت میں پہنچا دوں گا۔
راستہ کی احتیاط
حضرت علی نے کہا:
"نبی اکرم ﷺاو ران کے متبعین آج بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں۔ قریش کی دشمنی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے، تم نے بہت اچھا کیا جو کسی سے آنحضرت کے متعلق نہ پوچھا ورنہ لوگ تمہیں بھی پیٹ دیتے۔ اب بھی ذرا احتیاط سے آنا۔ تم میرے پیچھے اتنے فاصلہ پر آؤ کہ اگر کوئی رستہ میں مل جائے تو اسے یہ گمان نہ ہو کہ تم میرے پیچھے آرہے ہو۔ اگر رستہ صاف ہو تو خیروگرنہ خدانخواستہ کوئی رستہ میں مل گیا تو میں اس طرح جوتا اُتار کر صاف کرنے لگوں گا جیسے کوئی کنکر وغیرہ جوتے میں آگیا ہو اور اتنے میں تم سیدھے نکل جانا، میرے پاس نہ ٹھہرنا۔"
بار گاہِ نبوت میں حاضری
بالآخر اسی احتیاط سے چلتے ہوئے آپ بارگاہِ نبوت میں پہنچ گئے۔ چہرہٴ انور دیکھتے ہی فوراً بول اُٹھے : ھذا الوجه لیس بکذاب(یہ مبارک چہرہ کسی جھوٹے آدمی کانہیں ہوسکتا) پھر گفتگو شروع ہوئی۔ آنحضرت ﷺنے اِسلام کی دعوت پیش کی جس کاخلاصہ یہ تھا کہ "اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک سمجھو، وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے اور محمد ﷺاللہ کے سچے رسول ہیں، اچھے کام کرو، نیکی پھیلاؤ،برائی سے بچو اور برائی سے لوگوں کو روکو"۔ پھر رسول اللہ ﷺنے ان کو تھوڑا سا قرآن سنایا۔ اس کے بعد انہوں نے کلمہ شہادت پڑھ لیا... آپ پانچویں مسلمان تھے۔
آنحضرت ﷺکی نصیحت
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
"ابوذر !اس وقت اسلام بڑے سخت دور سے گزر رہا ہے۔ مسلمانوں کو اذیت ناک تکلیفیں دی جارہی ہیں۔ ہماری تعداد اس وقت بہت تھوڑی ہے۔ ہماری حمایت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔کفار بدکردار کے دل میں جو آتا ہے، کر گزرتے ہیں اور جتنا کسی کو چاہتے ہیں، مار تے پیٹتے ہیں۔ لہٰذا تم اپنے ایمان کو ظاہر نہ کرو۔ اور چپ چاپ اپنے قبیلے میں چلے جاؤ۔ وہاں جاکر اسلام کی تلقین کرو اور جو قرآن تم نے مجھ سے سیکھا ہے، یہ لوگوں کو سکھاؤ۔جب اسلام کا بول بالا ہوجائے، مسلمانوں کی تعداد بڑھ جائے، اس وقت میرے پاس چلے آنا۔"
ایمان کی حرارت
آپ نے آنحضرت ﷺکے ارشاد کو سنا اور عرض کیا: حضور !میں یہاں سے چلا جاؤں گا، اپنے قبیلہ میں رہوں گا، اسلام کی تلقین کروں گا اور جب اسلام کاغلبہ ہوگا اس وقت حاضر خدمت ہوں گا لیکن آپ اپنے حکم میں تھوڑی سی تبدیلی کرلیں۔میرا دل چاہتا ہے کہ خانہ کعبہ میں جاکر ایک دفعہ بلند آواز سے لوگوں کوقرآن سناؤں، اس کی اجازت فرمائیں۔آپ نے فرمایا:مار کھاؤ گے،خاموش رہو۔ کہنے لگے:آج واقعی مار کھانے کو دل بے قرار ہے...چنانچہ آپ نے اجازت دے دی۔
قریش کے مجمع میں قرآن کی آواز بلند ہوئی!
حضرت ابوذر کاشانہٴ نبوت سے نکل کر سیدھے خانہ کعبہ پہنچے۔قریشی سردار اور نوجوان سبھی دارالندوہ میں بیٹھے تھے کہ یک لخت قرآن کی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔ سانپ کی طرح بل کھاگئے اور خانہ کعبہ میں پہنچے۔ دیکھا کہ ایک نوجوان قرآن پڑھ رہا ہے، اس پر ٹوٹ پڑے۔ مار پیٹ کے نتیجہ میں لباس تارتار ہوا اور چہرہ گلنار۔ جسم کا بند بند درد سے چیخ اٹھا لیکن اس بندہٴ مومن کی زبان اور لب قرآن کی تلاوت میں مصروف رہے۔کہیں سے حضرت عباس بن عبدالمطّلب آپہنچے تو ان کو دیکھ کر پہچان لیا اور کہا کہ یہ تو بنو غفار کا آدمی ہے۔یہ تمہارا تجارتی راستہ بندکردیں گے اور بھوکے مرجاؤ گے۔ بہرحال انہوں نے چھڑا دیا۔ بارگاہِ نبوت میں پہنچے، لباس اور جسم خون آلود اور دل ایمانی قوت سے بھرا ہوا تھا۔ لباس تار تار اور جسم داغدار تھا۔ آنحضرت ﷺنے دیکھ کر فرمایا: میں نے نہ کہا تھاکہ خاموشی سے نکل جاؤ۔اب پتھر گرم کرکے جسم پر ٹکور کرو۔ عرض کیا ع ہر بن موزخم شدہ پنبہ کجا کجا نہم!
اور ساتھ ہی عرض کیا: یا حضرت ا! ابھی دل کے ارمان پوری طرح نہیں نکلے، کل کے لئے پھر اجازت مرحمت فرمائیں۔ چنانچہ ان کا شوق دیکھ کر رسالت ِمآب نے پھر اجازت دے دی۔
دوسرا دن
کل کی نسبت آج کچھ ایمان سوا تھا۔ اسلام کی اس خار دار وادی میں قدم بے دھڑک اُٹھنے لگے۔ دل کا سوز اور زبان کا جوش دونوں اپنی جوانی پر تھے۔ کل کی مار خدا ہی جانے اس اسلام کے دیوانے کو کتنے مراحل طے کرا گئی تھی۔ آج سیدھے دارالندوہ ہی پہنچے۔جہاں قریشی سرداروں اور نوجوانوں کا جمگھٹا رہتا تھا۔ جسم پر وہی کل والا خون آلود اور تار تار لباس تھا۔ جسم پر جگہ جگہ نئے نئے زخم لگے ہوئے تھے لیکن چال میں ایک وقار تھا اور گلے میں سوز... قرآن کے الفاظ، لہجہ عربی اور دل ایمان سے معمور، فضا میں قرآن کی آواز بلند ہوئی اور وہ آواز جو موٴمنوں کے کانوں میں رس گھولتی تھی، کفار اشرار کے کانوں میں زہر گھول گئی۔ بے اختیار اٹھ کھڑے ہوئے اور فضا میں دو آوازیں برابر سنائی دیتی رہیں۔ ایک قرآن کی آواز اور دوسری مار پیٹ اور گالی گلوچ کی آواز۔ آج جسم پہلے کی نسبت خوب لہولہان ہوا تھا۔ دل کی حسرتیں پوری ہوگئیں۔ شادان و فرحاں قرآن پڑھتے گئے۔ آج پھر حضرت عباس کوپتہ چلا تو آپ دارالندوہ میں آئے۔ اُن کو چھڑایا اور قریش کو کہا: خدا تمہارا برا کرے،اگر تمہاری تجارت بند ہوگئی تو کتنے دن جیو گے۔ اپنی شاہ رگ پر چھری نہ رکھا کرو۔ جب آنحضرت ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے تو سارا جسم لہولہان تھا۔ آج دل مطمئن تھا،طبیعت سیر ہوچکی تھی اور اس مار کے دوران خدا ہی بہتر جانے، آپ کو کتنے راز منکشف ہوئے۔
کفر اور ایمان کا مزاج
ذرا غور کرو... کفر کتنا ڈرپوک اور بزدل ہے اور ایمان کتنا جری اور دلیر۔ یہ ایک ہی شخص کی زندگی کے دو نمونے ہیں۔ صرف ایک دن پہلے طبیعت پرکفار کا اتنا خوف مسلط ہے کہ کسی سے ڈر کے مارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھتے تک نہیں۔ مبادا کوئی تکلیف نہ پہنچے اور دوسرے دن جب مسلمان ہوگئے تو اتنی جرات پیداہوگئی کہ طبیعت بے اختیار ہونے لگی اور اس کا انجام؟ ...اس سے بالکل بے پرواہ ہوگئی۔
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
واپسی
رسول اللہ ﷺکی صحبت میں چند روز رہنے کے بعد اپنے قبیلے میں واپس آگئے اور جو حکم رسول اللہ ﷺنے دیا تھا،اس کی تعمیل میں دن رات کوشاں رہے۔ تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا۔ ان کے قبیلے کے کئی آدمی مسلمان ہوکربارگاہِ نبوت میں پہنچتے رہے اوراس ایمانی شان سے پہنچتے کہ رسول اللہ ﷺکی زبانِ مبارک سے بے اختیار دعانکل جاتی: غَفَّارٌ غَفَرَالله لَهَا (بنو غفار کو اللہ معاف کرے)لیکن وہ سراپا عشق و سرمستی خود پورے سترہ سال تک مہجوری کی بھٹی میں پڑے رہے اور خالص کندن بن کردمکے اور جگمگائے۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا تھا: جب اسلام کا بول بالا ہوجائے، اس وقت میرے پاس آنا۔ پھر ابوذر خندق کے بعد حاضر خدمت ہوئے۔
ابوذر کون تھے؟
رسول اللہ ﷺنے آج سے تیرہ سال پہلے ان کے دل میں ایمان کا بیج بویا تھا، آج وہ ایک تناور درخت بن چکا تھا، اس کے پھل پک کرتیار ہوچکے تھے... ابوذر کون تھے؟ اس بھری پُری دنیا میں ایک غریب الدیار، ایک مسافر جس کی نگاہوں میں دنیا کی بے ثباتی اور دل میں دنیا سے بے رغبتی کاایک لازوال تصور تھا۔ وہ ابوذر جس کے خاندان کا پیشہ ڈاکہ زنی تھا، وہ آج دنیائے انسانیت کا تاجدار تھا۔ غریبوں، تنگدستوں، محتاجوں، مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کی دستگیری کرنے والا،جو ہاتھ میں آئے غریبوں پر خرچ کردینے والا اور دوسروں کے پاس جائز ذرائع سے پیدا شدہ حلال کی دولت بھی دیکھ کر ان سے اُلجھ جانے والا کہ اس دولت کو اپنے پاس رکھتے ہی کیوں ہو۔ اس کی ساری دولت کو غریبوں پر خرچ کردو۔تاکہ دنیا میں کوئی آدمی غریب نہ رہے ع
سارے جہاں کا درد ہمارے ہی دل میں ہے!
سورج کی کرنیں
صحابہ کرام کی ایک ہی جماعت میں آپ مختلف رنگ دیکھیں گے۔ کوئی نرم مزاج، کوئی سخت گیر، کوئی امیر، کوئی غریب، کوئی بڑا کوئی چھوٹا لیکن جس کو بھی جس رنگ میں دیکھو گے، بے مثال پاؤ گے۔خالد بن ولید کی سپہ سالاری بھی دیکھنے کی چیز ہے۔ اور معزولی کے وقت سمعًا وّطاعة للأمير(ہم نے امیر کا حکم سنااور سرخم کردیا) کہنا بھی مثالی ہے۔ عبدالرحمن بن عوف کی دولت مندی بھی مثالی ہے لیکن مزاج کا فقر بھی اپنی مثال آپ ہے جن کو مصعب بن عمیر اور حمزہ بن عبدالمطلب کی غریبی اور ناداری قابل رشک معلوم ہوتی تھی۔ حضرت عمر کی زبان سے سخت کلمہ نکل جانا اور پھر اس کی معافی مانگنا بھی یاد ہے۔ اور ابوبکر کا باوجود مطالبے کے انتقام نہ لینا بھی تاریخ میں ہیرے کی طرح جگمگاتا رہے گا۔ بہرحال صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ ساری کیفیتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت ہی کانتیجہ تھیں۔ کوئی کسی رنگ میں رنگا گیا اور کوئی کسی میں... ابوذر پر یہ رنگ چڑھا تھا
ع ایک پہلو یہ بھی ہے اسلام کی تصویر کا!
ابوذر کا مقام
حضرت ابوذر جتنی دیر بعد آئے،اتنے ہی درست آئے۔ سارا گھر خدامِ نبوت میں شامل ہوگیا۔ خود رسول اللہ ﷺکی خدمت میں لگ گئے۔ بیوی اُمہات المومنین کی خدمت میں پہنچ گئیں۔ صدقہ کے اونٹ کچھ جمع ہوچکے تھے۔ رسالت ِمآب نے پوچھا: صدقہ کے اونٹ کون چرائے گا؟ حضرت ابوذر اٹھ کھڑے ہوئے۔ رسول اللہ ﷺنے نگاہ بھر کر دیکھا۔ مطلب یہ تھا کہ سترہ سال کی طویل جدائی کے بعد ملے ہو تو اب پھر جدا ہونے کو دل چاہ رہا ہے۔ عرض کیا: حضرت !میرا بیٹا اونٹ چرائے گا۔ اگر کاشانہٴ نبوت کی گلہ بانی نصیب ہوجائے تو تاجِ خسرو سے سوا ہے۔بہرحال ان کے بیٹے ذرّ بمعہ اپنی بیوی لیلیٰ کے اونٹ لے کر چراگاہ میں آگئے۔ یہ چراگاہ مدینہ منورہ کی مشہور چراگاہ غابة تھی جو کہ مدینہ منورہ سے شمال کی طرف تین چار میل کے فاصلہ پر تھی۔ انہی اونٹوں میں خود رسول اللہ ﷺکے ذاتی اونٹ بھی تھے۔ بلکہ آپ کی مشہور زمانہ اونٹنی عضباء بھی انہی میں تھی۔
عیینہ بن حسن بن حذیفہ بن بدر کو پتہ چلا کہ مدینہ کی چراگاہ میں مسلمانوں کے بہت سے اونٹ چرتے ہیں اور رکھوالا صرف ایک آدمی ہے۔ وہ بنو غطفان کی ایک جماعت لے کر چراگاہ پرحملہ آور ہوا۔چرواہے (ذرّ ) کو قتل کردیا،اس کی بیوی لیلیٰ کواٹھا لیا اور اونٹ ہانک کر لے گیا۔ چراگاہ سے نکلتے ہی سلمہ بن اکوع نے اسے دیکھ لیا کہ چرواہے کو قتل کرکے اونٹ لے جارہا ہے۔ سلمہ بڑے بلند آواز تھے۔ ایک پہاڑی پر چڑھ کر بلند آواز سے مدینہ کی طرف منہ کرکے پکارا کہ جلدی آجاؤ غطفانی حملہ کرکے اونٹ لے جارہے ہیں۔ چنانچہ ان کی آواز مدینہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا کر گونجنے لگی۔ رسول اللہ ﷺنے لشکر لے کر تعاقب کیا۔ اونٹ چھڑا لئے اور غطفانیوں کا مالِ غینمت لے آئے، لیلیٰ بھی واپس آگئیں۔
مدینے پہنچ کر لیلیٰ نے کہا: یارسول اللہ ﷺ!میں (قید کے دوران)آپ کی اونٹنی عضباء پر سوار رہی ہوں، میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہتعالیٰ نے مجھے اس اونٹنی پر نجات دی تو میں اس کو خدا کی راہ میں ذبح کروں گی۔ اب کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: تو نے اس کو بہت برا بدلہ دیا۔ وہ تو تجھے بچائے اور تو اس کو ذبح کرلے۔ اور پھر یہ بھی تو دیکھو، وہ میری اونٹنی ہے، تمہاری نہیں۔ اور آدمی جس چیز کا مالک نہ ہو، اس کی نذر ماننا کوئی حقیقت نہیں رکھتا...!!
ملازمت ِنبوی
جنگ ِخندق کے بعد حضرت ابوذر تمام جنگوں میں ہم رکاب رہے۔ د ن رات آپ کی صحبت میں رہتے۔پھر ایک روز ایک فیصلہ کن جنگ کی تیاری ہونے لگی اور یہ جنگ تھی: غزوہ تبوک جوکہ ۹ ہجری میں پیش آئی۔ اس جنگ کا پس منظر یہ تھا کہ ہرقل نے مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ سن لیا اور خوف زدہ ہو کر جنگ کی تیاری کرنے لگا کہ کہیں ہم پرمسلمان حملہ نہ کریں۔ ادھر آنحضرت ﷺکو جب شاہِ روم کی جنگی تیاریوں کا علم ہوا تو آپ نے بجائے ا س کے کہ اس حملے کا انتظار کرتے، اس کے ملک میں اس کی مدافعت کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ دشمن کی فوج ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ اور وہ بھی تربیت یافتہ فوج۔ سفر نہایت دور دراز کا تھا۔ موسم انتہائی گرم تھا، باغوں کے پھل پکے ہوئے تھے۔ پچھلا ذخیرہ خوراک ختم ہوچکا تھا اور سفر پر جانے سے آئندہ کا پھل ضائع ہوجانا یقینی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس لڑائی کانامجیش العسرة (تنگدستی کا لشکر) پڑ گیا۔
ایسے موقع پر موٴمن مخلص ہی آنحضرت کے ہمرکاب نکل سکتے تھے۔ منافقوں سے اس کی کوئی توقع نہ تھی۔ منافقوں کی اکثریت تو مختلف بہانے بناکر مدینہ منورہ سے نکل ہی نہ سکی اور کچھ منافق ساتھ نکلے۔ تاکہ یہ پتہ نہ چل جائے کہ سارے منافق ہی پیچھے رہ گئے ہیں لیکن راستہ سے واپس ہونے لگے۔ کوئی ایک منزل سے کوئی دو منزل سے لیکن مخلص مسلمانوں میں سے کوئی آدمی بھی پیچھے نہ رہا۔ ماسوائے ان تین آدمیوں کے جن کو خدا تعالیٰ کی مشیت نے ہی پیچھے رکھ لیا تھا۔ مسلمانوں کے لشکر کی کل تعداد تیس ہزار تھی۔
سفر کے دوران رسول اللہ ﷺکو روزانہ شام کو رپورٹ مل جاتی کہ اس منزل پر فلاں فلاں آدمی پیچھے رہ گیا ہے۔ تو آپ فرماتے: چھوڑ دو اس کو، اگر اس میں کوئی بھلائی ہے تو وہ تم سے آملے گا اور اگر منافق ہے تو اللہ تعالیٰ نے تم کو اس سے نجات بخشی۔
ابوذر بھی پیچھے رہ گئے!
پھر ایک دن یہ رپورٹ پیش ہوئی کہ ابوذر پیچھے رہ گیا ہے۔ (جس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا اونٹ کمزور اور لاغر تھا، وہ تھک گیا تو آپ نے کچھ دیر سستانے کے لئے چھوڑ دیا لیکن دوسرے دن تک بھی سفر کے قابل نہ ہوا تو اسے جنگل ہی میں چھوڑ دیا او رپالان او رسامان سر پراُٹھایا اور پیدل سفر کرتے ہوئے لشکر سے آملے) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بات کہی جو پہلے کہتے تھے۔ پھر ایک منزل پرآپ نے پڑاؤ کیا توکسی نے کہا: یارسول اللہ ﷺ! کچھ گرد اُڑتی نظر آرہی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی آدمی آرہا ہے۔ آپ نے دعا فرمائی: یا اللہ! ابوذر ہو۔ جب لوگوں نے غور سے دیکھا توکہنے لگے: اللہ کی قسم! وہ ابوذر ہی ہیں۔ تو زبانِ رسالت سے یہ اَلفاظ صادر ہوئے کہ "اللہ ابوذر پر رحم کرے۔یہ خدا کی راہ میں اکیلا سفر کرتاہے اور اکیلا ہی مرے گا، اور قیامت کواکیلا ہی اٹھے گا" اور پھر تاریخ نے ثابت کردیا کہ اس پیشین گوئی کا ایک ایک لفظ پورا ہوا۔
آنحضرت ﷺکی وفات کے بعد
رسول اللہ ﷺکے انتقال کے بعد ان کی طبیعت کچھ ایسی مجروح ہوئی کہ مدینہ کی گلیاں اور بازار کاٹ کھانے کو دوڑتے۔نبی ﷺسے تعلق رکھنے والی کوئی چیز دیکھتے تو بے اختیار ہو کر روتے۔ اور اتنا روتے کہ بے حال ہوجاتے ۔ آخر آپ کی بیوی اُمّ ذر اور دوسرے لوگوں نے بھی مشورہ دیا کہ آپ مدینہ منورہ چھوڑ کر کسی اور جگہ چلے جائیں چنانچہ آپ شام کے علاقہ میں چلے گئے۔
آپ کا مسلک اور اس میں پختگی
قرآنِ مجید میں ہے کہ ﴿وَيَسـَٔلونَكَ ماذا يُنفِقونَ قُلِ العَفوَ......٢١٩ ﴾..... سورة البقرة" (آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ آپ کہیں: تمہاری ضروریات سے جو زائد ہو، وہ فی سبیل اللہ خرچ کردو) اسلام کے ابتدائی عہد میں چونکہ غربت زیادہ تھی، اس لئے حکم دیا گیا تھاکہ ضروری اخراجات کے بعد باقی جو بچے وہ غریبوں کو دے دیا کرو لیکن بعد میں جب فراخی و رفاہیت کا زمانہ آیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے سونے چاندی پر چالیسواں حصہ زکوٰة فرض کردی اورباقی اُنتالیس حصے صاحب ِمال کو اللہ تعالیٰ نے دے دیئے۔ چنانچہ صحابہ کرام مال میں سے زکوٰة اداکرتے اور باقی مال اپنے تصرف میں لاتے لیکن حضرت ابوذر اپنے اسی پرانے مسلک پر سختی سے کاربند رہے اور جب دوسروں کو مسئلہ بتاتے تو بھی یہی کہتے کہ جو ضرورت سے بچ رہے، وہ خدا کی راہ میں دے دو ۔ اس بارے میں وہ اپنے سے بڑے صحابہ کی مخالفت کی بھی پرواہ نہ کرتے نہ ہی فتویٰ اور تقویٰ کا فرق ملحوظ رکھتے۔ حالانکہ فتویٰ اور چیز ہے اور تقویٰ اور چیز ہے!
حضرت ابوذرغفاری اَجلہ صحابہ کرام سے ہیں۔ بڑے عابد ، زاہد، اور شب زندہ دار تھے۔ پوری اُمت کے علاوہ صحابہ کرام بھی ان کااحترام ملحوظ رکھتے اور ان کے مسلک کو لازمی نہ سمجھتے ہوئے بھی ان سے اُلجھنا پسندنہ کرتے۔
شام سے واپسی
شام سے واپس آنے کی وجہ یہ ہوئی کہ حضرت ابوذرغفاری ،امیرمعاویہ کے پاس گئے۔ امیرمعاویہ ان دنوں حضرت عثمان کی طرف سے شام کے گورنر تھے۔ آپ کے پاس حضرت ابوموسیٰ اشعری بھی تشریف فرماتھے۔ ان دنوں حضرت عبدالرحمن بن عوف کی وفات ہوئی تھی اور انہوں نے جتنی دولت اپنے ترکہ میں چھوڑی تھی، اس کا ہر جگہ چرچا تھا۔ حضرت امیر معاویہ نے ابوموسیٰ اشعری سے حضرت ابوذر غفاری کی موجودگی میں حضرت عبدالرحمن بن عوف کی دولت کے متعلق سوال کیا اور کہا کہ "بتاؤ، تمہارے خیال میں جو عبدالرحمن نے اتنی دولت جمع کر رکھی تھی،یہ صحیح ہے یا غلط ، جائز تھی یا ناجائز؟" حضرت ابوموسیٰ نے کہا اگر حضرت عبدالرحمن اپنے مال کی زکوٰة ادا کر رہے ہوں تو پھر آخر کیا حرج ہے، ٹھیک ہے۔ یہ جواب چونکہ حضرت ابوذر غفاری کے مسلک کے خلاف تھا، لہٰذا آپ اپنا عصا اُٹھا کر ان کو مارنے کے لئے دوڑے۔ امیر معاویہ نے بیچ بچاؤ کرکے ان کوبچا لیا۔ اور پھر حضرت ابوذر سے کہا کہ جو کچھ آپ نے کیا صحیح نہیں تھا اور جو آپ نے ایک نظریہ قائم کر لیا ہے، وہ بھی صحیح نہیں ہے۔اس معاملہ میں آپ دیگر صحابہ کرام سے اتفاق کریں اور پھر یہ بھی سوچیں: اگر ساری دولت ہی دینا درست ہو تو زکوٰة اور زکوٰة کے تمام مسائل تو محض بے فائدہ ہوگئے۔ اس مسئلہ میں چونکہ امیرمعاویہ سے اختلاف ہوگیا اور پھر یہ اختلاف بڑھتا گیا، بالآخر حضرت ابوذر نے کہا کہ جب تک تم شام میں ہو، خدا کی قسم میں شام میں نہیں رہوں گا۔
امیرمعاویہ نے ساری کیفیت حضرت عثمان کولکھ کر بھیج دی۔ آپ نے ہدایت بھیجی کہ ابوذر سے بالکل نہ اُلجھو۔ وہ ایک متقیبزرگ ہیں، ان کے احترام کو ملحوظ رکھو۔ لیکن چونکہ وہ قسم اٹھا چکے ہیں کہ جب تک تم یہاں ہو میں شام میں نہیں رہوں گا، لہٰذا ان کو میرے پاس مدینہ منورہ بھیج دو۔
حضرت عثمان کا خط سن کر حضرت ابوذر مدینہ واپس آگئے۔ لیکن طبیعت میں وہی سادگی رہی۔ مدینہ منورہ میں بھی اپنے خیالات کی تبلیغ کرنے لگے۔ حضر ت عثمان نے کہا کہ جہاں تک آپ کی ذات کا تعلق ہے، ہم آپ کا بے حد احترام کرتے ہیں اور آپ کواپنے لئے ایک مسلک منتخب کر لینے پر بھی حق بجانب سمجھتے ہیں لیکن جہاں تک اس مسئلہ کا عوام سے تعلق ہے، آپ کا دوسروں کومجبورکرنا صحیح نہیں ہے اور نہ ہی آپ کو اس رائے کی تبلیغ کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
امیرالمومنین کا نظریہ سمجھ کر حضرت ابوذر نے کہاکہ بہتر یہ ہے کہ آپ مجھے مدینہ سے باہر کسی جگہ سکونت کرنے کی اجازت دے دیں جہاں عوام مجھ سے نہ مل سکیں اور نہ میں ان کو تبلیغ کرسکوں۔چنانچہ حضرت عثمان نے ان سے کہا کہ آپ 'ربذہ' چلے جائیں۔ربذہ مدینہ منورہ سے چھ میل کے فاصلے پر ایک جگہ تھی جہاں بالکل معمولی سی آبادی تھی لیکن اس زمانہ میں وہ بالکل بے آباد ہوچکی تھی۔
۳۱ یا ۳۲ ہجری میں حضرت ابوذر مقامِ ربذہ میں بیمار پڑگئے اور بیماری زیادہ بڑھ گئی تو پاس چونکہ ایک غلام اور ایک بیوی تھی۔ ان کو فکر دامن گیر ہوئی کہ اگر خدا نخواستہ ان کی وفات ہوگئی تو ان کے کفن دفن کابندوبست کیسے ہوگا۔ چنانچہ آپ نے اس بات کو بھانپ لیا، کہنے لگے: جب میری موت ہوجائے تو میرے جنازہ کو رستے پر رکھ دینا۔ مسلمانوں کاایک قافلہ آئے گا ، انہیں کہنا کہ رسول اللہ ﷺکے صحابی ابوذر کا یہ جنازہ پڑا ہے، اسے دفن کرتے جاؤ۔
چنانچہ آپ کی وفات ہوگئی۔ بیوی اور غلام نے مل کر غسل دیا اور کفن دے کر جنازہ راستے پرلارکھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود عراقیوں کی جماعت کے ہمراہ عمرہ کرنے کے لئے تشریف لارہے تھے تو انہوں نے ایک عورت کو راہ پر کھڑے دیکھا تو پوچھا کون ہے؟ اس نے کہا:اُمّ ذر۔ آپ نے پوچھا: ابوذر کہا ہیں؟ انہوں نے کہا:یہ ان کا جنازہ پڑا ہے، اسے دفن کرتے جاؤ۔عبداللہ بن مسعود دھاڑیں مار مار کر روئے اور جنازہ پڑھ کر اُن کو دفن کیا او رپھر اپنے ساتھیوں کو رسول اللہ ﷺکی وہ پیشگوئی بتائی کہ ابوذر تو خدا کی راہ میں اکیلا سفر کرتا ہے۔ اکیلا ہی مرے گا اور اکیلا ہی اٹھایا جائے گا۔رضی اللہ عنہ و رضاہ
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
مصادر: یہ مضمون بخاری شریف، سیرت ابن ہشام، تقریب، اکمال، تہذیب اور اخبار سے اَخذ کیا گیاہے۔
٭٭٭٭٭