اسلامی جنگیں ، دہشت گردی یا امن عالم کی ضمانت!؟

اللہ کی راہ میں مقدس جنگ 'جہاد فی سبیل اللہ ' کاایک حصہ ہے کیونکہ 'جہاد' غلبہ اسلام کے لئے 'مقابلے کی محنت' کو کہتے ہیں خواہ وہ علمی ہو، بدنی یا مالی۔ جہاد فی سبیل اللہ شریعت کی ایک جامع مانع اصطلاح ہے لیکن کچھ ہماری کم فہمی اور کچھ غیروں کی سازشوں سے اس کا مفہوم اتنابگڑا کہ جہاد کو صرف جنگی کاروائیوں کے لئے ہی بولا جانے لگاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف نبی اکرم ﷺ کی پوری مکی زندگی تنظیم وجہاد سے خالی قرار پائی حالانکہ مکی سورتوں میں جابجا جہاد کا ذکر ہے تو دوسری طرف مسلمان کا انفرادی جھگڑا بھی 'جہاد' سمجھا جانے لگا جبکہ اسلام کی رو سے ایسا نہیں کیونکہ اگر ڈکیتی کے دوران کوئی مسلمان اپنے جان و مال یا عزت کی حفاظت میں ماراجائے تو وہ 'شہید' توہوگا لیکن اصطلاح میں اسے 'جہاد' نہیں کہتے۔ اسی طرح صلح حدیبیہ کے بعد اگر ابوجندل اور ابوبصیر وغیرہ کی انفرادی کارروائیوں کو 'جہاد فی سبیل اللہ' کا نام دیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان سے کیوں لاتعلق رہے؟یہی وجہ ہے کہ علماءِ دین ان کارروائیوں کو 'جہاد' کے بجائے مشاغبة (جھگڑا) کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں...غرض 'جہاد' افراط و تفریط سے پاک اسلامی اجتماعیت کا ایک اہم نظام ہے جسے جمہوریت یا آمریت کے بالمقابل پیش کرکے دورِ حاضر میں اسلام کے مثبت امتیازی رویے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
زیر نظر مقالے میں محترم پروفیسر صاحب نے جبروتشدد کے بالمقابل اگرچہ اسلامی جنگوں کا اعلیٰ مقصد اور امن کا پہلو اجاگر کرنے کی قابل تعریف کاوش فرمائی ہے لیکن وہ بھی عوامی روسے متاثر ہو کر اسلامی تعلیمات کی تشریح میں تقریباً ہر جگہ 'قتال' یا 'جہاد' کو مترادف ہی قرا ر دیئے چلے جارہے ہیں حالانکہ باریک بین محدثین اور فقہاء نے جہاد و قتال کو علیحدہ علیحدہ ابواب میں تقسیم کیا ہے مثلا ً امام بخاری نے صحیح بخاری کی پہلی جلد میں کتاب الجہاد کے تحت احادیث جمع کی ہیں تو دوسری جلد میں مسلمانوں کے قتال کے لئے کتاب المغازي کا مستقل عنوان قائم کیا ہے۔
اس نکتہ کی وضاحت اس لئے بھی ضروری ہے کہ افغانستان میں طالبان کے خلاف بغاوت ہو یا سعودی حکومت کے خلاف بیت اللہ پر مسلح قبضہ کی کارروائی، ہرجگہ اسے بلا دریغ جہاد فی سبیل اللہ ہی نہ سمجھ لیا جائے تاکہ دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمان حکمرانوں کی کمزوریوں کے باوجود ہر جگہ نوجوانوں کی کسی خاص ردعمل کے تحت مشتعل ہو کر مسلح کاررائیوں کی غیر مشروط حوصلہ افزائی نہ ہو۔ اس طرح جہاد یا اِرہاب (دہشت گردی) میں فرق کرنا مشکل ہو رہا ہے اورغیروں کو بھی اسلامی اصطلاحات کی غلط توجیہات کی صورت اسلام کو بدنام کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
علاوہ ازیں مسلمانوں کی حریت و آزادی کی تحریکوں کی غیر مشروط حمایت کے لئے 'جہاد فی سبیل اللہ' کا نعرہ اس وقت بڑی تکلیف دہ صورت اختیار کرلیتا ہے جب آزاد ہونے والے علاقوں میں بے پناہ قربانیوں کے باوجود اسلام کی بجائے جمہوریت یا فسطائیت کے لادینی نظام ہی نافذ ہوتے ہیں۔ کاش اہل علم و قلم جوشیلے نعروں کے بجائے اپنی سنجیدہ تحریروں میں اسلامی تعلیمات کے مثبت پہلو بھی اجاگر کریں تاکہ مسلمان عوام میں بھیڑ چال کا مزاج تبدیل ہوسکے۔ (محدث)
کتاب و سنت میں جہاد فی سبیل اللہ کی زبردست ترغیب کے بعد قدرتی طور پریہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی حرب وجنگ میں یوں بے دریغ مرنے اور مارنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ مذہبی تعصب یا مذہبی جنون کانتیجہ ہے یا ہوسِ دولت اور ہوسِ ملک گیری کا نتیجہ ہے یا محض دہشت گردی اور فساد فی الارض برپا کرنا اس کا مقصد ہے؟ جہاد کے حوالے سے یہ سوال بڑا اہم ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں ہم اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں گے...تاریخ انسانی میں جتنی بھی جنگیں لڑی گئی ہیں ان کے پیچھے دوسرے محرکات کے علاوہ دو بڑے محرکات یہ رہے ہیں :
1۔ہوسِ دولت اور ہوسِ ملک گیری          ۲۔ مذہبی جبر
ہم بار ی باری ان دونوں محرکات کا تجزیہ کرکے یہ دیکھیں گے کہ ان میں سے کون سا جذبہ محرکہ جہادِ اسلامی کے پیچھے کارفرما ہے ۔
(ا) ہوسِ دولت اور ہوسِ ملک گیری
ہمارے سامنے اس صدی کی دو عظیم جنگوں کی تاریخ موجود ہے، ان دونوں جنگوں میں فریقین کے اَغراض و مقاصد درج ذیل تھے ۔ جنگ ِعظیم اوّل (۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ء) کے اَغراض و مقاصد :
1۔ ۱۸۷۰ء میں جرمنی نے زبردستی فرانس کے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔
2۔ جرمنی کی بڑھتی ہوئی تجارتی اور صنعتی ترقی روکنے کے لئے برطانیہ ان بحری تجارتی راستوں پر اپنا قبضہ کرنا چاہتا تھا جن پر جرمنی قابض تھا جبکہ جرمنی ان بحری تجارتی راستوں کوبھی اپنے قبضہ میں لینا چاہتا تھا جو برطانیہ کے قبضہ میں تھے۔
3۔ ۱۹۰۷ء میں روس اور فرانس نے برطانیہ سے ترکی اور جزیرہ نمائے بلقان میں اپنی تجارت بڑھانے کے لئے معاہدہ کیا جبکہ جرمنی اور آسٹریلیا نے اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے جزیرہ نمائے بلقان پر قبضہ کرنے کامعاہدہ کیا۔
جنگ ِعظیم اوّل کے یہ تین بنیادی اسباب تھے۔ تینوں ہی ہوس ملک گیری، ہوس دولت اور وسعت ِتجارت کے جذبہ سے معمور ہیں... اب ایک نظر جنگ ِعظیم دوم (۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۵ء) کے اغراض و مقاصد پر ڈالئے جو کہ درج ذیل تھے :
1۔ جرمنی نے ۱۹۳۸ء میں آسٹریا پر اور ۱۹۳۹ء میں چیکوسلواکیہ پر زبردستی قبضہ کرلیا۔
2۔ اٹلی پہلی جنگ ِعظیم کا فاتح تھا جسے شکوہ تھا کہ اسے فتح کے کماحقہ ثمرات نہیں ملے چنانچہ اس نے ۱۹۳۶ء میں ایتھوپیا پر زبردستی قبضہ کرلیا۔
3۔ ۱۹۳۹ء میں جاپان نے چین کے ایک صوبہ پر زبردستی قبضہ کرلیا۔
4۔ ۱۹۳۹ء میں سوویت یونین اور جرمنی نے ایک خفیہ معاہدے کے ذریعہ پولینڈ کے حصے بخرے کرکے آپس میں بانٹ لئے، بعد میں عدم اعتماد کی وجہ سے سوویت یونین نے فن لینڈ پر قبضہ کرلیا۔
یہ تھے وہ ارفع و اعلیٰ مقاصد جن کی وجہ سے پوری دنیا دوسری مرتبہ تباہی اور ہلاکت سے دوچار ہوئی
ایک نظر عہد حاضر کی دو بڑی جنگوں کے اَسباب و علل پر بھی ڈالتے چلئے۔ افغانستان کے پہاڑوں، میدانوں اور وادیوں پرمسلسل دس سال تک آگ اور بارود برسانے والے سوویت یونین کا مقصد صرف یہ تھا کہ کم و بیش آدھی دنیا پرپھیلی ہوئی اپنی عظیم سلطنت کو وسعت دے کر بحر ہند کے گرم پانیوں تک پہنچ کر بین الاقوامی بحری تجارتی شاہراہوں پر اپنا قبضہ جما سکے۔
ہمارے عہد کی دوسری ہلاکت خیز جنگ 'جنگ ِخلیج' ہے جس کے بارے میں اب کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ یہ ڈرامہ بڑی فنکاری سے صرف عربوں کی دولت ہتھیانے کے لئے سٹیج کیا گیا تھا۔ عرب گیس اینڈ پٹرول انسٹیٹیوٹ کی اطلاع کے مطابق اس جنگ میں اسلحہ خریدنے پر عربوں کی جو رقم خرچ ہوئی وہ پٹرول کی سالانہ آمدنی سے دس گنا زیادہ ہے۔ خبر کے مطابق اس جنگ کی وجہ سے مجموعی طور پر پٹرول برآمد کرنے والے ممالک کو سات سو بلین ڈالر سالانہ کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔( ماہنامہ 'صراطِ مستقیم' برمنگھم، جلد۱۶ شمارہ ۶، ۱۹۹۵ء)...یہ ہیں اقوامِ عالم کی جنگوں کے وہ جلیل و عظیم مقاصد جن کے لئے کرہٴ ارضی کے انسانوں کو بار بار آگ اور خون میں نہلایا گیا۔
آئیے اب ایک نظر اسلامی تعلیمات پر ڈالیں اور دیکھیں کہ جلب ِزر، حصولِ غنائم اور وسعت تجارت کی خاطر اسلام قِتال کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟
زمانہ جاہلیت میں غنائم کاحصول اور جلب ِزر قتل و غارت کاایک بہت بڑا محرک تھا لیکن اسلام نے مسلمانوں کو ایسی تعلیم دی جس سے غنائم کے بارے میں ان کی سوچ یکسر بدل گئی۔ ایک آدمی نے عرض کیا: "یارسول اللہﷺ! ایک آدمی جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ رکھتا ہے اور ساتھ دنیا کا مال بھی حاصل کرنا چاہتا ہے(اس کے لئے کتنا ثواب ہے؟)" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اس کے لئے کوئی اجروثواب نہیں" (ابوداود) ... ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اللہ کی راہ میں جنگ کی لیکن اس کی نیت اونٹ باندھنے کی ایک رسی حاصل کرنے کی تھی تو اسے وہی چیز ملے گی جو اس کی نیت تھی (یعنی وہ اجروثواب سے قطعاً محروم رہے گا)" (نسائی) ...ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص جہاد کے بعد مالِ غنیمت حاصل کرتا ہے وہ آخرت میں ایک تہائی ثواب حاصل کرے گا اور جو مالِ غنیمت نہیں پاتا وہ سارا اجر آخرت میں پائے گا" (نسائی) ...اس تعلیم نے زمانہ جاہلیت کی سوچ کو مکمل طور پربدل دیا۔ ایک اَعرابی جہاد میں شریک ہوا، جہاد کے آخر میں مالِ غنیمت سے اس کا حصہ نکالا گیاتو اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا کہ میں جہاد میں مال حاصل کرنے کے لئے شریک نہیں ہوا بلکہ اس لئے شریک ہوا کہ تیر آکر میرے حلق میں لگتا اور میں شہید ہوجاتا" (نسائی) ...غزوئہ بدر میں مالِ غنیمت کی تقسیم کے بارے میں صحابہ کرام میں اختلاف پیدا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی
﴿يَسـَٔلونَكَ عَنِ الأَنفالِ ۖ قُلِ الأَنفالُ لِلَّهِ وَالرَّ‌سولِ.......١ ﴾...... سورة الانفال
"لوگ تم سے مال غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں،کہو :یہ مال تو اللہ اور اس کے رسول کاہے"
چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرام کے تمام اختلافات ختم ہوگئے اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مالِ غنیمت تقسیم فرمایا۔
اسلامی تعلیمات کے بعد اب چند مثالیں پیغمبر اسلام کی حیاتِ طیبہ سے ملاحظہ فرمائیں:
٭ ۷ ہجری میں مکہ فتح ہوا تو مسلمانوں کو ان کی جائیدادوں، ان کے اَموال، ان کے کاروبار سے محروم کرنے والے درندہ صفت مجرم لوگ فاتح کے سامنے دست بستہ حاضر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو انہیں ان کی جائیدادوں اور ان کے اَموال سے اسی طرح محروم کرسکتے تھے جس طرح انہوں نے مسلمانوں کو کیا تھا لیکن تاریخ انسانی میں حسن عمل اور عظمت ِکردار کی ایسی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ صحابہ کرام نے کفار کی جائیدادوں اور اَموال کو چھوڑ اپنی چھینی ہوئی جائیدادوں اور اَموال کی واپسی کا مطالبہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مال اور جائیدادیں اللہ کے لئے چھوڑ چکے ہو، انہیں واپس نہ لو"( غزواتِ مقدس از محمدعنایت اللہ وارثی، ص۳۵)
صحابہ کرام نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس منفرد اور تابناک فرمان کے سامنے فوراً سرتسلیم خم کردیا۔ کیا لوٹ مار کرنے، غنائم حاصل کرنے، دوسروں کی تجارت پر قبضہ کرنے، دولت سمیٹنے والے جاہ پسند اور اقتدار پرست فاتحین کا طرزِ عمل ایسا ہی ہوتا ہے؟
٭ سقوطِ مکہ کے بعد حنین فتح ہوا تو مالِ غنیمت میں ۲۴ ہزار اونٹ، ۴۰ ہزار بکریاں اور ۶ ہزار کلو گرام چاندی حاصل ہوئی، اسیرانِ جنگ کی تعداد ۶ ہزار تھی۔ اموالِ غنیمت تقسیم کرنے سے قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے دو ہفتہ انتظار فرمایا تاکہ اگر کوئی وفد تائب ہو کر گفت و شنید کے لئے آئے تو تمام اَموالِ غنیمت واپس کردیئے جائیں جب کوئی وفد نہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے اَموال لشکراسلام میں اس طرح تقسیم فرمائے کہ صرف اپنی چادر باقی رہ گئی۔ اس کے بعد لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر میرے پاس تہامہ کے درختوں کی تعداد کے برابر مویشی ہوتے تو میں انہیں بھی تمہارے درمیان تقسیم کردیتا اور تم مجھے ایسا کرتے ہوئے نہ بخیل پاتے، نہ بزدل، نہ جھوٹا۔ "
کوئی ذی ہوش آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ تاریخ عالم میں ایسی زرّیں مثالیں پیش کرنے والا فاتح جس مذہب کی تعلیم لے کر آیا ہے وہ حصولِ غنائم کے لئے، دولت ِدنیا سمیٹنے کے لئے، جلب ِزر کیلئے اور دوسروں کے وسائل معیشت و تجارت پر قبضہ کرنے کیلئے قتال اور خون ریزی کی اجازت دے سکتا؟ ہرگز نہیں !!
(۲) مذہبی جبر
خون ریزی اور جنگ و جدل کا دوسرا بڑا جذبہ محرکہ مذہبی جبر رہا ہے،چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
۵۲۳ء میں یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے عیسائیوں کے مرکز نجران پر حملہ کیا تاکہ وہاں سے عیسائیت کا خاتمہ کرکے لوگوں کو یہودیت اختیار کرنے پر مجبور کرے۔ عیسائیوں نے یہودیت اختیار کرنے سے انکار کردیا تو ذونواس نے حاکم نجران 'حارثہ' کو قتل کردیا۔ اس کی بیوی 'رومہ' کے سامنے اس کی دو بیٹیوں کوقتل کیا اور ماں کو بیٹیوں کا خون پینے پر مجبور کیا۔بعد میں 'رومہ' کو بھی قتل کردیا۔ بشپ پال کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلائیں، گڑھے کھود کر ان میں آگ جلوائی جن میں عورتوں، مردوں، بچوں، بوڑھوں سب کو پھینکوا دیا۔ مجموعی طور پر ۲۰ ہزار سے ۴۰ ہزار تک زندہ انسانوں کوآگ میں جلا دیا، اس واقعہ کا تذکرہ قرآنِ مجید سورئہ بروج میں ان الفاظ میں کیا گیاہے :
﴿وَما نَقَموا مِنهُم إِلّا أَن يُؤمِنوا بِاللَّهِ العَزيزِ الحَميدِ ٨ ﴾...... سورة البروج
"اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس اللہ پر ایمان لائے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے" (تفہیم القرآن: جلد ششم، سورئہ بروج، حاشیہ ۴)
۳۰۳ء میں شہنشاہ روم ڈریو کلیٹیان نے اپنی مملکت سے عیسائیت ختم کرنے کے لئے حکم جاری کیا کہ تمام کلیسا مسمار کردیئے جائیں۔ انجیلیں جلا دی جائیں، کلیساؤں کے اَوقاف ضبط کرلئے جائیں، جو شخص مسیحی مذہب پر اصرار کرے، اسے قتل کردیا جائے۔ اس حکم کے باوجود جن عیسائیوں نے عیسائیت ترک کرنے سے انکار کیا، ان کے بدن زخمی کرکے ان پرسرکہ اور نمک ڈالا جاتا، بعد میں ان کی بوٹی بوٹی کاٹی جاتی۔ بعض اوقات ان کو عبادت گاہوں میں بند کرکے آگ لگا دی جاتی، زیادہ لطف اٹھانے کے لئے ایک ایک عیسائی کو پکڑ کر دہکتے ہوئے اَنگاروں پرلٹا دیا جاتا یا لوہے کے کانٹے اس کے بدن میں بھونکے جاتے۔ (الجہاد فی الاسلام از ابوالاعلیٰ مودودی، ص۴۴۸)
۱۴۹۲ء میں سپین سے مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو صرف آٹھ برسوں کی قلیل مدت میں وہاں کی عیسائی حکومت نے مسلمانوں سے اِسلام چھڑانے کی مہم شروع کردی۔ سپین کے ساڑھے تین لاکھ سرکردہ مسلمانوں کو ایک مذہبی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ عدالت نے ۲۸ ہزار ۵ سو ۴۰ مسلمانوں کوموت کی سزا سنائی اور بارہ ہزار مسلمانوں کو زندہ جلانے کا حکم دیا۔ مسلمانوں کی سینکڑوں لائبریریاں جن میں لاکھوں کتابیں تھیں،نذرِ آتش کردیں۔بالآخر ۱۶۱۰ء میں تمام مسلمانوں کو ترکِ وطن کا حکم دے دیا گیا۔ ڈیڑھ لاکھ عربوں کا ایک قافلہ بندرگاہ کی طرف جارہا تھاکہ بلیڈا نامی ایک پادری نے غنڈوں کو ساتھ ملا کر قافلہ پر حملہ کردیا اور ایک لاکھ مسلمان قتل کرڈالے، اس کے بعد مسلمانوں کے گھروں، گلیوں اوربازاروں میں قاتلانہ حملے شروع ہوگئے حتیٰ کہ ۱۶۳۰ء تک ایک بھی مسلمان سپین میں باقی نہ رہا۔( یورپ پر اسلام کے احسان از ڈاکٹر غلام جیلانی برق: ص۸۷،۸۸)
مارچ ۱۹۹۲ء میں بوسنیا ہرزگووینا کے شہریوں نے ایک ریفرنڈم میں ۴․ ۹۹ فیصد کثرت سے آزادی کی حمایت میں ووٹ دیئے جس کے نتیجہ میں بوسنوی مسلمانوں نے اپنی آزاد ریاست کا اعلان کردیا۔ اعلانِ آزادی کے دن سے لے کر آج کے دن تک مسلمانوں پر جو قیامت خیز مظالم ڈھائے جارہے ہیں، اس کی وجہ اس مذہبی جبر کے علاوہ او رکیا ہے کہ یورپی عیسائی برادری اپنے درمیان کسی آزاد مسلمان ریاست کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔
مذکورہ مثالوں میں خون ریزی، غارت گری، درندگی اور سفاکی کا جذبہ محرکہ صرف مذہبی جبر ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ گھناؤنا اور مکروہ کردار ان اَقوام کا ہے جنہوں نے یہ پروپیگنڈہ کرتے کرتے زمین و آسمان کے قلابے ملا رکھے ہیں کہ" اِسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے، مسلمان دہشت گرد اور ڈاکو ہیں"1 یہ پروپیگنڈہ اس قدر فنکاری اور عیاری سے کیا گیا ہے کہ ان کی اپنی خونخوار اور مکروہ تصویر اس پروپیگنڈے کے پیچھے چھپ گئی ہے۔ لیکن کیا حقیقت بھی ایسی ہی ہے ؟ آئیے حقائق کی روشنی میں اس پروپیگنڈہ کا جائزہ لیں :
دعوت اور اشاعت ِاسلام کے بارے میں قرآنِ حکیم نے مسلمانوں کو جو بنیادی اَحکام دیئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "دین کے معاملہ میں زبردستی نہیں" (البقرة:۲۵۶) یعنی کسی کو دین منوانے کے لئے شریعت ِاسلامیہ میں زبردستی یا جبر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آیت ِمبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ اَنصار کے ایک قبیلہ بنو سالم بن عوف کے ایک آدمی کے دو لڑکے عیسائی تھے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان لڑکوں کو جبراً مسلمان بنالوں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(تفسیر ابن کثیر)
2۔ سورئہ کہف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے : ﴿فَمَن شاءَ فَليُؤمِن وَمَن شاءَ فَليَكفُر‌........٢٩﴾...... سورة الكهف
"جس کا جی چاہے ایمان لائے، جس کا جی چاہے انکار کردے"
آیت ِکریمہ کا مطلب بالکل واضح ہے کہ اسلام میں زبردستی دین منوانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا۔ ہر آدمی کو مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تواِسلام قبول کرے،جو چاہے نہ کرے۔ اگر دین زبردستی منوانا مقصود ہوتا تو پھر جزا اور سزا کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اس مضمون کی بے شمار آیات ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں: (۷۳:۱۹)،(۷۶:۲۹)،(۸۰:۱۲)،(۸۱:۲۷۔۲۸)
3۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دورانِ دعوت جن حالات سے سابقہ پیش آرہا تھا، ان سے بعض اوقات آپ ا پریشان ہوجاتے کہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں باربار یہ وضاحت ارشاد فرمائی﴿وَإِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ﴾ "اگر لوگ روگردانی کریں تو تم پر صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے" (سورئہ آلِ عمران :۲۰) یعنی اگر لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کی ذمہ داری صرف پیغام پہنچانا ہے۔ زبردستی منوانا نہیں۔ اس مضمون کی دوسری آیات میں سے چند ایک یہ ہیں (۵:۹۹)' (۱۶:۳۵)' (۴۲:۴۸)' (۸۸:۲۱، ۲۲)
جہاد کے اَحکام دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: "کافروں سے جنگ کرو حتیٰ کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں"2 (سورئہ توبہ :۲۹) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کافروں سے جنگ کرو حتیٰ کہ وہ مسلمان ہوجائیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ جب کافر جزیہ ادا کرنے پر راضی ہوجائیں تو جنگ بند کردو۔ جزیہ کا قانون بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام زبردستی کسی کو مسلمان نہیں بنانا چاہتا۔سورئہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے :"کافروں سے جنگ کرو حتیٰ کہ فتنہ باقی نہ رہے"(سورة بقرہ:۱۹۳) یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کافروں سے اس وقت تک جنگ کرو جب تک وہ مسلمان نہیں ہوجاتے بلکہ مطلوب یہ ہے کہ دین اسلام کو غالب اور نافذ کرنے میں دشمنانِ اسلام کی کھڑی کی ہوئی رکاوٹیں دور ہوجائیں۔
قرآنی احکام کے بعد سنت ِمطہرہ کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
1۔ غزوئہ بدر میں کافروں کے ۷۰ آدمی قید ہوئے جنہیں رہاکرنے کے لئے دو شرطیں مقرر کی گئیں پہلی یہ کہ فدیہ اَدا کیا جائے۔ دوسری یہ کہ جو فدیہ نہ دے سکے وہ دس وہ دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے۔ چند آدمیوں کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مشروط طور پربطورِ احسان بھی رہا فرمایا۔ اگر زبردستی اسلام منوانا مطلوب ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے یہی شرط مقرر فرماتے کہ جو شخص مسلمان ہوجائے، اسے رہا کردیا جائے گا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں فرمایا۔
2۔ غزوئہ بنو نضیر میں یہودیوں پرمکمل غلبہ حاصل کرنے کے بعد از راہِ عفو وکرم ان کی جان بخشی کی اور پورے امن اور سلامتی کے ساتھ انہیں مدینہ منورہ سے نکلنے کا راستہ بھی دیا۔ اگر آپ تلوار کے زور سے اسلام منوانا چاہتے تو اس سے بہتر موقع اور کون سا تھا...؟
3۔ سقوطِ مکہ کے بعد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاجاری کردہ فرمان تاریخ کے اَوراق میں سنہری حروف سے ثبت ہے: "جو ہتھیار ڈال دے، اسے قتل نہ کیا جائے۔جو حرم میں داخل ہوجائے، اسے قتل نہ کیا جائے۔ جو اپنے گھر کے اندر بیٹھا رہے، اسے قتل نہ کیا جائے۔جوابوسفیان کے گھر میں پناہ لے لے،اسے قتل نہ کیا جائے۔ جو حکیم بن حزام کے گھر میں پناہ لے لے، اسے قتل نہ کیا جائے" کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فرمانِ مبارک میں ان الفاظ کااضافہ نہیں فرماسکتے تھے "جو اسلام لے آئے، اسے قتل نہ کیا جائے!" یقینا ایسا ممکن تھا، لیکن تلوار کے زور سے اسلام منوانا چونکہ اسلام کے ارفع و اعلیٰ اصولوں کے خلاف تھا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔
4۔ حضرت عمر کا غلام 'اسبق' عیسائی تھا۔ حضرت عمر اسے اسلام کی دعوت دیتے تو وہ انکار کردیتا تو آپ فرماتے ﴿لاَ إِكراهَ فِى الدِّيْنِ﴾ یعنی دین منوانے میں زبردستی نہیں ہے۔ (ابن کثیر)
حقیقت یہ ہے کہ اشاعت ِاسلام کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات اور پیغمبر اسلام ا کا طرزِ عمل اس قدر وسیع النظری اور عالی ظرفی پر مبنی ہے کہ تنگ نظر اور متعصّب دشمنانِ اسلام اس کا تصور تک نہیں کرسکتے۔
اب یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ جہاں اقوامِ عالم کی جنگوں کے سب سے بڑے مقاصد میں سے اولاً حصولِ دولت/ جلب ِزر، کمزور اقوام کے وسائل معیشت و تجارت پر قبضہ کرنا اور ثانیاً مذہبی جبر سرفہرست ہیں، وہاں جہادِ اسلامی کے مقاصد کو ان دونوں چیزوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس وضاحت کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ جہادِ اسلامی کے مقاصد ہیں کیا...؟ ذیل میں ہم جہادِ اسلامی کے اغراض و مقاصد تحریر کر رہے ہیں تاکہ اقوامِ عالم کی جنگوں کے مقاصد کا جہادِ اسلامی کے مقاصد سے تقابل کیا جاسکے :
جہاد اسلامی کے مقاصد
جہاد اسلامی کے اہم ترین مقاصد درج ذیل ہیں:
1۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿أُذِنَ لِلَّذينَ يُقـٰتَلونَ بِأَنَّهُم ظُلِموا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلىٰ نَصرِ‌هِم لَقَديرٌ‌ ٣٩ ﴾...... سورة الحج
"(قتال کی) اجازت دے دی گئی، ان لوگوں کو جن سے جنگ کی جارہی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیاہے اور اللہ تعالیٰ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے"قرآنِ مجید کی یہ سب سے پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دی گئی ہے۔ اجازت دینے کی وجہ اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے بیان فرما دی ہے کہ چونکہ مسلمانوں پر مسلسل تیرہ سال تک بے پناہ ظلم و ستم ڈھائے گئے، لہٰذا اب انہیں اس بات کی اجازت دی جاتی ہے کہ وہ بھی ظلم کرنے والوں کے خلاف جنگ کریں۔
جہاد کی اجازت دینے کے بعد دوسری آیت جس میں مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا گیااور جس کے بعد جنگ ِبدر پیش آئی، اس آیت کا مضمون بھی قابل غور ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَقـٰتِلوا فى سَبيلِ اللَّهِ الَّذينَ يُقـٰتِلونَكُم وَلا تَعتَدوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ المُعتَدينَ ١٩٠وَاقتُلوهُم حَيثُ ثَقِفتُموهُم وَأَخرِ‌جوهُم مِن حَيثُ أَخرَ‌جوكُم......١٩١ ﴾ ..... سورة البقرة
"تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا ان سے مقابلہ ہو اورانہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے"
اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے جہاد کے حکم کی وجہ واضح طور پر بیان فرما دی ہے چونکہ کفار نے تمہارے ساتھیوں کو قتل کیا ہے، تمہیں تمہارے گھر بار اور جائیدادوں سے نکال دیا ہے لہٰذا اب ان سے جنگ کرو۔دونوں آیتوں کو سامنے رکھا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا جارہا ہو ان کے گھربار چھینے جارہے ہوں، ان کو ان کی جائیدادوں سے بے دخل کیاجارہا ہو، انہیں قتل کیا جارہا ہو تو ایسے ظالموں، قاتلوں اور مفسدوں کے خلاف جنگ کرنی چاہئے اور اگر کفار مسلمانوں کو ان کی سرزمین سے نکال دیں یا ان سے اِقتدار چھین لیں تو مسلمانوں کو بھی طاقت حاصل ہونے پر کفار کو وہاں سے نکال دینا چاہئے اور ان سے اقتدار واپس لینا چاہئے۔
ہجرت کے بعد مکہ میں رہائش پذیر مسلمانوں پر کفارِ مکہ کا ظلم و ستم بدستور جاری رہا تو ان کی فریاد وفغاں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
﴿وَما لَكُم لا تُقـٰتِلونَ فى سَبيلِ اللَّهِ وَالمُستَضعَفينَ مِنَ الرِّ‌جالِ وَالنِّساءِ وَالوِلد‌ٰنِ الَّذينَ يَقولونَ رَ‌بَّنا أَخرِ‌جنا مِن هـٰذِهِ القَر‌يَةِ الظّالِمِ أَهلُها وَاجعَل لَنا مِن لَدُنكَ وَلِيًّا وَاجعَل لَنا مِن لَدُنكَ نَصيرً‌ا ٧٥ ﴾...... سورة النساء
"آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لئے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا فرما دے"
یعنی جن مسلمانوں پر ظلم و ستم ہو رہا ہے، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں بستے ہوں ان کو ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لئے دوسرے تمام مسلمانوں کو جہاد کے لئے اٹھ کھڑے ہونا چاہئے۔
تینوں آیات میں جو اہم اور مشترک نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ظلم و تشدد، خون ریزی اور دہشت گردی کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا ہے، خواہ ظالم طاقت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ پس جہاد کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد دنیا سے ظلم وتشدد، جارحیت، خون ریزی،غارت گری، دہشت گردی اور بدامنی کا مکمل طور پر استیصال اور خاتمہ کرنا ہے۔
2۔ سورئہ انفال میں جن لوگوں کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ان کا ایک جرم درج ذیل آیت میں بتایا گیا ہے:
﴿إِنَّ الَّذينَ كَفَر‌وا يُنفِقونَ أَمو‌ٰلَهُم لِيَصُدّوا عَن سَبيلِ اللَّهِ ۚ فَسَيُنفِقونَها ثُمَّ تَكونُ عَلَيهِم حَسرَ‌ةً ثُمَّ يُغلَبونَ.......٣٦ ﴾...... سورة الانفال
"جن لوگوں نے حق ماننے سے انکار کیا ہے، وہ اپنے مال خدا کے راستے سے روکنے کے لئے خرچ کر رہے ہیں اور ابھی اور خرچ کرتے رہیں گے مگر آخر کار یہی کوششیں ان کے لئے پچھتاوے کا سبب بنیں گی پھر وہ مغلوب ہوں گے"
یعنی جرم یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ (دین اسلام) پر آنے سے روکتے ہیں۔ اسی طرح سورئہ توبہ میں اللہ نے جن مشرکوں کے خلاف مسلمانوں کو جنگ کرنے کا حکم دیا ہے، ان کا جرم یہ بتایا گیاہے:
﴿اشتَرَ‌وا بِـٔايـٰتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَليلًا فَصَدّوا عَن سَبيلِهِ ۚ إِنَّهُم ساءَ ما كانوا يَعمَلونَ ٩ ﴾..... سورة البقرة
"ان مشرکوں نے اللہ کی آیتوں کوبہت کم قیمت پر فروخت کیا ہے اور لوگوں کو اللہ کی راہ پر آنے سے روکا ہے، بہت ہی برا کام ہے جو یہ لوگ کررہے ہیں"
دونوں آیتوں میں اللہ کی راہ سے روکنے والوں کے خلاف مسلمانوں کوجنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اللہ کی راہ سے روکنے کے تین مفہوم ہیں اور تینوں صورتوں میں جہاد کا حکم ہے:
اوّلاً: مسلمانوں کو دین اسلام پر چلنے سے زبردستی روکا جائے، ان کے لئے مشکلات پیدا کی جائیں اور ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں۔
ثانیاً :جو لوگ مسلمان بننا چاہیں، انہیں زبردستی مسلمان بننے سے روکا جائے۔
ثالثاً: مسلمانوں کو زبردستی مرتد بنایا جائے یہ تمام صورتیں اللہ کی راہ سے روکنے کی ہیں، ایسا کرنے والوں کے خلاف اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مذہبی جبر ختم کرنا اسلامی عقائد اور نظریات کی نشوونما اور ارتقاء میں رکاوٹ بننے والی باطل قوتوں کا قلع قمع کرنانیز بحیثیت ِمسلمان اپنے قومی وجود اور قومی یکجہتی کی حفاظت کرنا بھی جہادِ اسلامی کے مقاصد میں شامل ہے۔
3۔ سورئہ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی جہاد کا مقصد بھی بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قـٰتِلُوا الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَلا بِاليَومِ الءاخِرِ‌ وَلا يُحَرِّ‌مونَ ما حَرَّ‌مَ اللَّهُ وَرَ‌سولُهُ وَلا يَدينونَ دينَ الحَقِّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حَتّىٰ يُعطُوا الجِزيَةَ عَن يَدٍ وَهُم صـٰغِر‌ونَ ٢٩ ﴾...... سورة التوبة
"جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخرت میں ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے، اسے حرام قرار نہیں دیتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور زیر دست بن کر رہیں"
مذکورہ آیت سے دو باتیں بالکل واضح ہیں :
ا-دین حق کو غالب کرنے کے لئے کفار اور مشرکین کے خلاف جہاد کرنے کا حکم ہے ۔
ب- غیر مسلموں کو بزورِ تلوار مسلمان بنانا مطلوب نہیں بلکہ اسلام کوغالب کرنے میں ان کی فعال تخریبی قوتوں کا قلع قمع کرنا مطلوب ہے۔یہی بات اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں بھی ارشاد فرمائی ہے :
﴿وَقـٰتِلوهُم حَتّىٰ لا تَكونَ فِتنَةٌ وَيَكونَ الدّينُ لِلَّهِ.......١٩٣ ﴾...... سورة البقرة
"کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لئے ہوجائے"
اس آیت میں دین اسلام کو غالب کرنے کے لئے جہاد کا حکم دیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ ارشادِ مبارک ہے کہ دین کو غالب کرنے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا فتنہ جب تک ختم نہ ہوجائے، اس وقت تک جنگ کرتے رہو۔
یاد رہے کہ دین اسلام کی بنیاد عقیدئہ توحید ہے جس کے مطابق اس دنیاکا خالق، مالک، رازق، معبود، آقا اور شہنشاہ صرف ایک اللہ کی ذات ہے، باقی ساری مخلوق اس کے عاجز بندے اور دست بستہ غلام ہیں جو اس کے آگے جوابدہ ہیں لہٰذا کسی انسان کویہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود لوگوں کاآقا بن جائے اور دوسروں کو اپناغلام بناکر ان پر ظلم و ستم کرنے لگے، کسی پیشوا کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود بندوں کا معبود بن کر ان سے اپنی پوجا کروانے لگے، کسی دولت مند کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود بندوں کا رازق بن کر ان کو ذلیل و رسوا کرنے لگے،کسی طاقتور کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود بندوں کامالک بن جائے اور ان کی عزتوں سے کھیلنے لگے، کسی حاکم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کا شہنشاہ بن جائے اور رعایا کے حقوق پامال کرنے لگے گویا بنیادی طور پر دین اسلام امن، سلامتی، مساوات، عدل و انصاف اور اُخوت کا مذہب ہے اور ظلم و زیادتی، جبروتشدد، بدامنی و دہشت گردی، خون ریزی اور غارت گری کا شدید دشمن ہے لہٰذا دین اسلام کو غالب کرنے کا مطلب اَمن و سلامتی، عدل و انصاف، مساوات اور اُخوت کا قیام اور ظلم و زیادتی جبروتشدد، بدامنی، دہشت گردی، خون ریزی اور غارت گری کا خاتمہ اور استیصال ہے۔
بعض دیگر جنگی اُمور کا تقابلی جائزہ
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس لئے اس نے مسلمانوں کو زندگی کے ہر معاملہ میں ہدایات دی ہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں بھی مسلمانوں کو ایسے قواعد و ضوابط کا پابند بنایا گیاہے جوکہ
اولاً: قیامت تک کے لئے نافذ العمل ہیں۔
ثانیاً: ان قواعد و ضوابط میں کسی بڑی سے بڑی اتھارٹی کو تغیر و تبدل کا اختیارنہیں۔
ثالثاً: ان قواعد و ضوابط کا ہر وہ شخص پابند ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتا ہے۔ اگر کوئی فاتح یا سپہ سالار ان قواعد وضوابط پر دورانِ جہاد عمل نہیں کرتا تو شریعت کی نگاہ میں وہ قانون شکن اور مجرم ہے جس کی اللہ کے ہاں قیامت کے روز باز پرس ہوگی۔ اس کے مقابلہ میں مغربی اَقوام کے بارے میں یہ حقائق تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں کہ :
اولاً: سترہویں صدی کے ابتدا تک مغربی اَقوام کے ہاں قانونِ جنگ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔3
ثانیاً: مغربی اَقوام کے وضع کردہ قوانین جنگ ان کے اپنے مفادات کے تابع ہی وضع کئے گئے ہیں جن میں حسب ِضرورت نہ صرف تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے بلکہ قانون بنانے والے جب چاہتے ہیں، اپنے ہی قانون کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔4
ثالثاً: ان قوانین کی پابندی صرف وہ اَقوام کرتی ہیں جو باقاعدہ اس معاہدہ میں شریک ہوتی ہیں، دیگر اَقوام ان قوانین کی پابندی سے آزاد ہوتی ہیں۔

اسلامی جنگیں اور غیر مسلموں کی جنگوں کا تقابلی مطالعہ

جہادِ اسلامی کے قواعد و ضوابط اور دنیاوی جنگوں کے خود ساختہ قوانین میں اس بنیادی فرق کی وضاحت کے بعد ہم جہادِ اسلامی اور اقوامِ مغرب کی جنگوں کے بعض اُمور کا تقابلی جائزہ پیش کر رہے ہیں جو ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں مدد دے گا کہ تاریخ کی میزانِ عدل میں خون ریزی ، غارت گری، دہشت گردی، درندگی، سفاکی اور بربریت اَقوامِ مغرب کی جنگوں کے پلڑے میں ہے یا جہادِ اسلامی کے پلڑے میں ؟
۱۔ آدابِ قتال
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دورانِ جہاد مختلف مواقع پر جو ہدایات ارشاد فرمائیں، وہ یہ ہیں:
دورانِ جہاد دشمن کے مقتولین کامثلہ نہ کرنا(بخاری) ...دشمن کی اَملاک میں لوٹ مار نہ کرنا(ابوداود)... دشمن کو اَذیت دے کر قتل نہ کرنا(ابوداود)... زیردست دشمن کوآگ میں نہ جلانا (بخاری) ...دشمن کو امان دینے کے بعد قتل نہ کرنا (ابن ماجہ) ...دشمن کو دھوکہ سے قتل نہ کرنا(ابوداود)
جنگ ِموتہ کے لئے لشکر اسلام کوروانہ کرتے ہوئے درج ذیل ہدایات دیں:
"بدعہدی نہ کرنا، خیانت نہ کرنا، کسی بچے بوڑھے اور درویش کو قتل نہ کرنا، کھجور یا کوئی دوسرا درخت نہ کاٹنا، کسی عمارت کو منہدم نہ کرنا" (رحمة للعالمین از قاضی سلیمان منصور پوری: ۲/۲۷۱)
حضرت ابوبکرصدیق نے لشکر اسامہ  کوروانہ فرماتے ہوئے درج ذیل ہدایات دیں: (موطا ٴ مالک)
"خیانت نہ کرنا، مال نہ چھپانا، بے وفائی نہ کرنا، مثلہ نہ کرنا،بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا، ہرے بھرے اور پھلدار درختوں کونہ کاٹنا، کھانے کے علاوہ جانوروں کو بے کار ذبح نہ کرنا"
ایک فوجی مہم میں حضرت خالد بن ولید سے غلط فہمی میں کچھ لوگ مارے گئے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: "اے اللہ! خالد نے جو کچھ کیا میں اس سے بری الذمہ ہوں"(بخاری) بعد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولین کی دیت اور ان کے نقصانات کا معاوضہ ادا فرمایا۔
جنگ ِبدر سے چند یوم پہلے حضرت حذیفہ اپنے والد ِمحترم کے ساتھ مکہ مکرمی سے ہجرت کرکے مدینہ آرہے تھے، کافروں نے روک لیا اور اس وعدہ پر مدینہ جانے کی اجازت دی کہ اگر جنگ ہوئی تو تم اس میں حصہ نہیں لو گے۔ حضرت حذیفہ نے وعدہ کرلیا اور مدینہ پہنچ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صورتِ حال سے آگاہ کردیا۔جنگ کا موقع آیا تو حضرت حذیفہ نے عرض کیا: "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اب ہم کیا کریں؟" رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "ہم قریش سے کئے گئے معاہدے کوپورا کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں گے" چنانچہ حضرت حذیفہ خواہش کے باوجود جنگ ِبدر میں شریک نہ ہوسکے۔(حیاتِ صحابہ کے درخشاں پہلو: حصہ دوم، ص۱۳۷)
حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی ان اعلیٰ و ارفع تعلیمات اور ذاتی حسن عمل نے عہد شکنی ، دھوکہ دہی، خون ریزی، وحشت بربریت، درندگی اور خونخواری کی حامل جنگوں کا اصولاً خاتمہ کرکے جنگ کو ایک مقدس مشن کا مقام دے دیا اور یہ مقدس مشن 'جہاد فی سبیل اللہ' مسلمانوں کے لئے اسی طرح کی ایک عبادت بنا دیا گیا جیسی نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور صدقات وغیرہ عبادت ہیں۔
جنگ ِاُحد میں دشمنوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نچلا دانت مبارک توڑ دیا ،ہونٹ زخمی ہوگیا، خود کی دو کڑیاں چہرے کے اندر دھنس گئیں اور چہرئہ اقدس خون آلود ہوگیا۔ میدانِ اُحد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار ساتھیوں کی لاشوں سے اَٹا پڑا تھا، لاشوں کا مثلہ کیا گیا تھا۔ میدانِ جنگ کا یہ نقشہ دیکھ کر کسی بھی فوج کے سپہ سالار کی جو ذہنی کیفیت ہوسکتی ہے،اس کاندازہ لگانا مشکل نہیں۔ چنانچہ لمحہ بھر کے لئے انسانی جذبات غالب آگئے اور فرمایا: "اس قوم پر اللہ کا سخت عذاب ہو جس نے اپنے پیغمبر کا چہرہ خون آلود کردیا" لیکن فوراً مقدس مشن کے علمبردار رحمة للعالمین، محسن اِنسانیت انے اپنی بددعاکو اِس دعا کے ساتھ بدل دیا "اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے کہ وہ جانتی نہیں" (الرحیق المختوم: ص۴۲۱)
مخلوقِ خدا کے رحم و کرم کی یہ بارش،بنی نوع انسان کے لئے عفوو درگزر کا یہ فیضان اور اپنے قاتلوں اور جانی دشمنوں کے لئے ہدایت اور نیکی کی یہ دعائیں اس بات کا واضح اعلان ہیں کہ مطلوب انسانوں کی ہلاکت اور بربادی نہیں بلکہ ہدایت اور فلاح ہے۔ سیرتِ طیبہ کا یہ پہلو عظمت ِکردار کی ایسی رِفعتوں اور بلندیو ں کا حامل ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے مصلحین اور فاتحین پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شانِ کریمی کے آگے اوندھے منہ پڑے نظر آتے ہیں۔ حق بات یہ ہے کہ بنی نوع انسان پر پیغمبر اسلام کا یہ وہ احسانِ عظیم ہے جس کے بار سے بنی نوع انسان تاقیامت سبکدوش نہیں ہوسکتی۔
اسلام نے یہ پاکیزہ اور اعلیٰ و اَرفع تعلیمات اس وقت دیں جب اپنے وقت کی مہذب ترین اقوام ... روم و ایران ... جنگوں میں وحشی جانوروں سے برتر وحشت کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔
۵۴۰ء میں نوشیروان نے شام پر چڑھائی کی تو اس کے دارالحکومت انطاکیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، باشندوں کا قتل عام کیا، عمارتوں کو مسمار کیا، جب اس سے بھی تسکین نہ ہوئی تو شہر میں آگ لگوا دی۔ (الجہاد فی الاسلام: ص۲۱۲)
۱۰۹۹ء میں عیسائیوں نے جب بیت المقدس پرقبضہ کیا تو مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ ہر طرف ان کے ہاتھ اور پاؤں کے انبار لگ گئے، کچھ آگ میں زندہ پھینکے جارہے تھے ،کچھ فصیل سے کود کر ہلاک ہو رہے تھے اور گلیوں میں ہر طرف سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ حضرت سلیما ن  کے ہیکل میں دس ہزار مسلمانوں نے پناہ لی تھی، عیسائیوں نے ان سب کو قتل کر ڈالا۔ (یورپ پر اسلام کے احسان: ص۸۲)
آج کے مہذب ترین یورپ کا حال عہد ِقدیم کے وحشی یورپ سے ذرا بھی مختلف نہیں۔ مارچ ۱۹۹۲ء میں بوسنیا کے مسلمان شہریوں نے ریفرنڈم کے ذریعہ آزادی کا فیصلہ کیا تو متعصّب سرب عیسائیوں نے بوسنوی مسلمانوں پر جو ظلم و ستم کئے، وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ مسلمانوں کے سینوں پر خنجروں سے صلیب کے نشان بنائے گئے، بچوں کو ذبح کرکے ماں باپ کو ان کا خون پینے پر مجبور کیاگیا۔ حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کرکے معصوم بچے نکال کر ذبح کئے گئے ۔کم سن نوجوان اور بوڑھی خواتین کی آبروریزی کرکے انہیں قتل کیا گیا۔ مسلمان قیدیوں کے جسموں سے اس طرح خون نکالا گیا کہ وہ سسک سسک کر موت کے منہ میں چلے گئے۔ زندہ انسانوں کے جسموں سے خنجروں کے ساتھ کھال اُتاری گئی۔ بستیوں کی بستیاں اور دیہاتوں کے دیہات نذرِ آتش کئے گئے۔ پناہ گزین زندہ جلا دیئے گئے، لاشوں کا مثلہ کیا گیا، سرکاٹ کر سڑکوں پر فٹ بال کی طرح روندے گئے۔5
قدیم اور جدید وحشی یورپ کے یہ واقعات کسی تبصرہ کے محتاج نہیں۔ یہ واقعات پڑھ کرکسی بھی ذی ہوش انسان کے لئے یہ فیصلہ کرنامشکل نہیں کہ دورانِ جنگ احترامِ آدمیت، امن، سلامتی، نیکی، احسان، رحمدلی، خداترسی اور شرافت کس پلڑے میں ہے اور ظلم، بربریت، دہشت گردی، شقاوت اور درندگی کس پلڑے میں ہے...؟؟
2۔ غیر مقاتلین سے سلوک
جنگ میں کسی بھی صورت میں حصہ نہ لینے والے اَفراد مثلاً عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، زخمی اور معذور لوگ یا گوشہ نشین درویش وغیرہ کو اسلام نے قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ رسولِ رحمت کا ارشادِ مبارک ہے "عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرو" (بخاری)... ایک دوسری حدیث میں ارشاد مبارک ہے "عورتوں اور مزدوروں کو قتل نہ کرو" (ابوداود)... ایک جنگ میں کچھ لوگ جمع تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر بتایا گیا کہ ایک عورت کی لاش پر لوگ جمع ہیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراض ہو کر فرمایا: "عورت تو قتال نہیں کر رہی تھی" (پھر کیوں قتل کی گئی؟) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید کو پیغام بھجوایا کہ کسی عورت اور مزدور کو قتل نہ کیا جائے۔ (ابوداود)
عہد ِنبوی کی مہذب اَقوام (قیصر و کسریٰ) کا حال یہ تھا کہ ۶۱۳ء میں ایرانی بادشاہ خسرو پرویز نے قیصر روم ہرقل کو شکست دی تو مفتوحہ علاقے میں تمام مسیحی عبادت خانے مسمار کردیئے اور ۶۰ ہزار غیر مقاتلین (عورتوں،بچوں، بوڑھوں) کو تہ تیغ کیا جن میں سے ۳۰ ہزار مقتولوں کے سروں سے شہنشاہِ ایران کا محل سجایا گیا۔ (غزواتِ مقدس: ص۲۵۷)
ایک نظر ترقی یافتہ یورپ کے مہذب جرنیلوں کی غیر مقاتلین کے بارے میں تعلیماتِ عالیہ بھی ملاحظہ ہوں:
"گولہ باری کے وقت محصورین میں عورتوں اور بچوں اور دوسرے غیر مقاتلین کا موجود ہونا ہی جنگی نقطہ نظر سے مطلوب ہے کیونکہ صرف اسی صورت میں محاصر فوج محصورین کو خوفزدہ کرکے ہتھیار ڈالنے پر جلدی سے جلدی مجبور کرسکتی ہے۔" ( الجہاد فی الاسلام: ص۵۷۰)
۱۸۵۷ء کی جنگ ِآزادی ہند میں انگریزوں نے جس بے دردی اور سنگدلی سے بچوں اور عورتوں کو قتل کیا، اس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے
"جنگ ِآزادی میں ۲۷ ہزار اہل اسلام نے پھانسی پائی، سات دن برابر قتل عام ہوتا رہا جس کا کوئی حساب نہیں، بچوں تک کو مار ڈالا گیا، عورتوں سے جو سلوک کیا گیا وہ بیان سے باہر ہے۔ اس کے تصور سے ہی دل دہل جاتا ہے۔ (تاریخ ندوة العلماء از مولوی محمد جلیس:حصہ اوّل، ص۴)
۱۹۰۷ء کی ہیگ کانفرنس میں غیر مقاتلین کو تحفظ دینے کا معاہدہ طے ہوا لیکن اس معاہدہ کے بعد جب متحدہ ریاست بلقان اور ترکی کے درمیان جنگ ہوئی تو اس میں ۲ لاکھ چالیس ہزار غیر مقاتلین مسلمان تلوار کے گھاٹ اُتا ردیئے گئے۔ (الجہاد فی الاسلام: ص۵۷۱)
جنگ ِعظیم اوّل اور دوم میں مہذب یورپ کے مہذب جرنیلوں نے جس سنگدلی اور بربریت کے ساتھ شہری آبادیوں پربمباری کی، اس نے مقاتلین اور غیر مقاتلین کا تصور ہی ختم کردیا۔جنگ ِعظیم دوم میں جدید تہذیب و تمدن کے تین بڑے علمبرداروں(امریکہ کے ٹرومین،برطانیہ کے چرچل اور روس کے سٹالن) نے جاپان کا سلسلہ فتوحات روکنے کے لئے ایک اجلاس میں متفقہ طور پر جاپان کی شہری آبادی کو ایٹم بم کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ ۶/ اگست کوہیروشیما اور ۹/ اگست ۱۹۴۵ء کو ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر ڈیڑھ لاکھ غیر مقاتلین کی شہری آبادی کو آنِ واحد میں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔(قومی ڈائجسٹ: جولائی ۱۹۹۵ء)
اقوامِ مغرب کی مکاری اور عیاری واقعی قابل داد ہے کہ ایک طرف دورانِ جہاد صرف ایک خونِ ناحق پر ناراض ہونے والے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم... جس نے اس کے نتیجہ میں ہمیشہ کے لئے مستقل ضابطہ بنا دیا کہ دورانِ جہاد کسی غیر متعلق بچے، بوڑھے، عورت ، مزدور اور تارک الدنیا درویش کوقتل نہ کیا جائے... کی تلوار انسانیت دشمن6 وہ پیغمبر خونی پیغمبر، اس کی تعلیمات دہشت گردی اور دوسری طرف ہزاروں نہیں لاکھوں بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کوبے دریغ قتل کرنے والے زہریلی گیسوں سے ہلاک کرنے والے، ایٹم بموں سے ہنستے بستے گھروں اور شہروں کوصفحہ ہستی سے مٹانے والے خون خوار درندے اور قصاب مہذب، امن پسند اور انسانیت کے خیر خواہ... ؟؟؟
۳۔ اسیرانِ جنگ سے سلوک
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں دشمنانِ اسلام کے خلاف سات جنگیں لڑیں،ان میں سے دو جنگوں میں دشمن کے قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ غزوئہ بدر میں ۷۰ اور غزوئہ حنین میں ۶ ہزار۔جنگ ِبدر کے قیدی وہ لوگ تھے جنہوں نے ظلم و تشدد کرکے مسلمانوں کوجلاوطنی پر مجبور کر دیاتھا، اس کے باوجود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو ان قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا تو صحابہ کرام نے اس شدت سے اس حکم پرعمل کیا کہ خود کھجوریں کھا کر گزارا کرتے اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے۔ جن قیدیوں کے پاس کپڑے نہیں تھے، انہیں کپڑے مہیا کئے۔(تاریخ اسلام: ص۴۲)
کچھ مدت بعد بعض قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں رہا کردیا گیا بعض قیدیوں کوبلا فدیہ بطورِ احسان رہا کیا گیا اور بعض قیدیوں کودس دس بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کے عوض رہا کیا گیا۔یاد رہے کسی ایک بھی قیدی کو نہ تو قتل کیا گیا، نہ کسی سے انتقام لیا گیا بلکہ ایک قیدی سہیل بن عمرو جوبڑا شعلہ بیان خطیب تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اشتعال انگیز تقریریں کیا کرتاتھا، کے بارے میں حضرت عمر نے تجویز پیش کی کہ اس کے اگلے دو دانت تڑوا دیجئے تاکہ آئندہ یہ آپ کے خلاف شعلہ بار تقریریں نہ کرسکے۔ رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تجویز مسترد فرما کر اسیرانِ جنگ سے حسن سلوک کی ایسی زرّیں مثال قائم فرمائی جو رہتی دنیا تک جنگوں کی تاریخ میں اپنی مثال آپ رہے گی۔
غزوئہ حنین میں چھ ہزار اسیرانِ جنگ کو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف بطورِ احسان بلا فدیہ رہا فرمایابلکہ رہائی کے وقت تمام قیدیوں کو ایک ایک چادر بطورِ ہدیہ عنایت فرمائی۔( الرحیق المختوم: ص ۶۷۱)
اجتماعی قیدیوں کے ساتھ ساتھ ایک انفرادی قیدی کا تذکرہ بھی پڑھ لیجئے۔ یمامہ کا حاکم ثمامہ بن اثال گرفتار ہو کررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا اور خود گھر جاتے ہی فرمایا "گھر میں جو کھانا موجود ہے، وہ ثمامہ کو بھجوا دیا جائے نیز فرمایا کہ روزانہ میری اونٹنی کا دودھ صبح و شام اسے بھجوا دیا جائے"۔ یاد رہے کہ ثمامہ ماضی میں نہ صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کرچکا تھا بلکہ کئی صحابہ کرام کا قاتل بھی تھا۔ اس کے باوجود تین چار دن کے بعد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بطورِاحسان بلا فدیہ رہاکرنے کا حکم دیا تو اس حسن سلوک اور فیضانِ عفووکرم سے متاثر ہو کر ثمامہ مسلمان ہوگیا۔
اب ایک نظر 'مہذب اور امن پسند' یورپ کے اسیرانِ جنگ سے'حسن سلوک' پربھی ڈال لیجئے:
قیصر روم باسل (۹۶۳ء تا ۱۰۲۵ء) نے بلغاریہ پر فتح حاصل کی تو پندرہ ہزار اسیرانِ جنگ کی آنکھیں نکلوا دیں۔ ہر سو قیدی کے بعد ایک قیدی کی ایک آنکھ باقی رہنے دی تاکہ وہ ان اندھوں کو گھروں تک پہنچا سکیں۔ (یورپ پر اسلام کے احسان از ڈاکٹر غلام جیلانی برق: ص۸۲)
ایک جنگ میں رومی عیسائیوں نے مسلمانوں کو شکست دی تو تمام مسلم اسیرانِ جنگ کو سمندر کے کنارے لٹا کر ان کے پیٹ میں لوہے کے بڑے بڑے کیل ٹھونک دیئے تاکہ بچے کھچے مسلمان جب جہازوں پرواپس جائیں تو اس منظر کو دیکھ سکیں۔(ایضاً)
۱۷۹۹ء میں مہذب یورپ کے سب سے بڑے جنرل نپولین بونا پارٹ نے یافا کے چار ہزار ترک اسیرانِ جنگ کو محض اس عذر کی بنا پر قتل کرا دیا کہ وہ انہیں کھلانے کے لئے خوراک مہیا نہیں کرسکتا اور نہ مصر بھیجنے کا انتظام کرسکتا ہے۔ (الجہاد فی الاسلام : ص۵۴۶)
جنگ ِعظیم دوم (۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۵ء) میں فلپائن کے ایک محاذ پر امریکہ اور فلپائن کی مشترکہ فوج کے ۷۵ ہزارفوجیوں نے جاپانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ فاتح فوج نے ۷۵ ہزار اسیرانِ جنگ کو شدید گرمی، بھوک اور پیاس کی حالت میں ۶۵ میل پیدل چلا کر نظر بندی کیمپوں تک پہنچنے کا حکم دیا۔بیشتر اسیرانِ جنگ طویل سفر کی ناقابل برداشت صعوبتوں کی وجہ سے راستے میں ہی ہلاک ہوگئے۔ تاریخ میں اس سنگدلانہ اور بے رحمانہ سفر کوDeath March کا نام دیا گیا ہے۔(قومی ڈائجسٹ:جولائی ۹۵ء)
قارئین کرام! تاریخ کے دو کردار، دو نظامِ حیات، دو عقیدے، دو نظریے اور دو راستے ہمارے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح رکھے ہیں، کیا یہ حقیقت سمجھنے میں کوئی دقت یا دشواری پیش آرہی ہے کہ کون سے نظامِ حیات یا عقیدے کی بنیاد نیکی، احسان، امن، سلامتی، شرافت اور احترامِ آدمیت پرہے اور کون سے نظامِ حیات یا عقیدے کی بنیاد ظلم، خون ریزی، غارت گری، انسانیت دشمنی، دہشت گردی، سنگدلی، بے رحمی اور وحشت و بربریت پر ہے؟
4۔ مفتوحین سے سلوک
فتح کے بعد فاتح قوم، مفتوح قوم سے بڑا سنگدلانہ اور بے رحمانہ سلوک کرتی ہے۔ قدیم اور جدید عہد کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن پیغمبر اسلام نے اپنے دشمنوں پر مکمل دسترس حاصل کرنے کے بعد رحمدلی، خدا ترسی، عفووکرم اور حسن سلوک کی نادر مثالیں پیش کرکے جنگوں کی تاریخ میں ایک نئے زرّیں باب کا اضافہ فرمایا۔
مکہ فتح ہوا تو تمام اکابر مجرمین، جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف قبیلہ بنو خزاعہ کے حرم کے اندر خون بہانے والا عکرمہ بن ابی جہل، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کو نیزہ مار کر اونٹ سے گرانے والا ہبار بن اسود (یاد رہے کہ اونٹ سے گرنے کے نتیجہ میں حضرت زینب کا حمل ساقط ہوگیا تھا) مکی زندگی میں بیت اللہ شریف کی چابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودینے سے سختی سے انکار کرنے والا عثمان بن طلحہ، مکہ مکرمہ میں داخلہ کے وقت لشکر اسلام کی مزاحمت کرنے والا صفوان بن امیہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کوشہید کرکے جسم مبارک کا مثلہ کرنے والا وحشی بن حرب، حضرت حمزہ کا کلیجہ نکال کر چبانے والی ہند بنت عتبہ، سارے کے سارے مجرم موجود تھے ۔رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطابِ عام فرمایا اور پوچھا: "تم لوگ مجھ سے کس سلوک کی توقع رکھتے ہو؟" لوگوں نے کہا: "آپ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا : ﴿لا تَثر‌يبَ عَلَيكُمُ اليَومَ...﴾
"آج تم پر کوئی سرزنش نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو"
مفتوح قوم سے حسن سلوک کی اس پیغمبرانہ تعلیم کا ہی نتیجہ تھا کہ عہد ِنبوت کے بعد مسلم فاتحین بھی اس طرزِ عمل پر کاربند رہے۔ عہد ِصدیقی میں جب حیرہ فتح ہوا تو حضرت ابوبکر صدیق نے وہاں کے عیسائیوں کو از روئے معاہدہ یہ حقوق عطا فرمائے:
"ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہیں کئے جائیں گے، کوئی جنگی قلعہ نہیں گرایا جائے گا، ناقوس بجانے کی اجازت ہوگی، تہوار کے موقع پرصلیب نکالنے کی اجازت ہوگی"
جزیہ کی شرح محض دس درہم سالانہ تھی جو کہ سات ہزار میں سے صرف ایک ہزار ذمیوں سے وصول کی جاتی، اپاہج اور نادار ذمیوں کی کفالت کا اسلامی بیت المال ذمہ دار تھا۔ ( تاریخ اسلام، ص۱۵۳)
حضرت عمر نے بیت المقدس کو فتح کیا تو مفتوح قوم کو ان الفاظ میں معاہدئہ امن لکھ کردیا
"یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیر المومنین عمر نے ایلیا کے لوگوں کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لئے ہے، نہ ان کے گرجاؤں میں سکونت کی جائے گی، نہ وہ گرائے جائیں، نہ ان کی صلیبوں اور ان کے اموال میں کمی کی جائے گی۔ مذہب کے معاملہ میں ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا" (تاریخ اسلام، ص۱۸۹)
عہد ِفاروقی میں ہی مسلم افواج کے سپہ سالار حضرت ابوعبیدہ بن جراح  کو رومیوں کے دباؤ کی وجہ سے شام کا ایک شہر چھوڑنا پڑا تو حضرت ابوعبیدہ نے ذمیوں کا جزیہ یہ کہہ کر واپس لوٹا دیا کہ اب ہم تمہاری حفاظت کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ سماں دیکھنے کا قابل تھاکہ مسلمان رخت ِسفر باندھ رہے تھے اور عیسائی زار زار رو رہے تھے، ان کے بشپ نے ہاتھ میں انجیل لے کر کہا
"اس مقدس کتاب کی قسم! اگر کبھی ہمیں اپنا حاکم خود منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تو ہم عربوں کو ہی منتخب کریں گے۔" (یورپ پر اسلام کے احسان، ص۱۲۸)
۷۱۱ء میں مجاہد اسلام محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا اور صرف تین سال وہاں قیام کیا۔ ان تین برسوں میں محمد بن قاسم نے اپنے حسن سلوک اور حسن تدبر سے سندھیوں کو اس حد تک اپنا گرویدہ بنا لیا کہ وہ اس کی ماتحتی میں اپنے ہی فوجی سرداروں سے لڑنا باعث ِفخر سمجھتے تھے۔ تین سال بعد جب محمد بن قاسم عراق واپس جانے لگا تو لوگوں کی اشکبار آنکھیں ان کے اندرونی غموں کی غمازی کر رہی تھیں۔ لوگ عرصہ دراز تک اس کی جرات ، نیک سلوک اور پروقار شخصیت کی باتیں کرتے رہے۔(اسلامی تاریخ پاک و ہند، از ہدایت اللہ خان چوہدری، ص۱۲)
۷۱۱ء میں مسلمانوں نے اندلس فتح کیا تو فاتح قوم کے حسن سلوک کی گواہی ایک انگریز موٴرخ ول ڈیوران نے ان الفاظ میں دی" اندلس پر عربوں کی حکومت اس قدر عادلانہ، عاقلانہ اور مشفقانہ تھی کہ اس کی مثال اندلس کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ (یورپ پر اسلام کے احسان، ص۱۳۲)
۱۰۷۱ء میں سلجوقی سلطان الپ ارسلان نے دیو جانوس رومانوس کوشکست دی۔ قیصر گرفتار ہوکر ارسلان کے سامنے پیش ہوا تو اس نے پوچھا "اگر میں گرفتار ہو کر تمہارے سامنے پیش ہوتا تو تم مجھ سے کیا سلوک کرتے؟" قیصر نے جواب دیا "میں کوڑوں سے تمہاری کھال کھینچ لیتا۔" سلطان نے کہا "مسلمان فاتح اور غیر مسلم فاتح میں یہی فرق ہے۔" اس کے بعد قیصر کے ساتھ جزیہ کی انتہائی معقول شرائط طے کرکے اسے بے بہا تحائف عطا کئے، اس کی سلطنت اسے واپس کردی اور بڑے شان و احترام سے رخصت کیا۔ (یورپ پر اسلام کے احسان، ص۱۲۸)
۱۱۸۷ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس فتح کیا تو کسی عیسائی کو کوئی تکلیف نہ دی او رہلکا سا ٹیکس (جزیہ) لگانے کے بعد سب کو مذہبی آزادی دے دی اور دورانِ جنگ عیسائیوں کا سپہ سالار رچرڈ اوّل بیمار ہوا تو صلاح الدین اسے کھانا، پھل اور دیگر مفرحات بھجواتا رہا۔(ایضاً : ص۸۳)
۱۱۹۳ء میں والی قرطبہ ابویوسف یعقوب بن منصور نے طلیطلہ کا محاصرہ کیا جس پرایک عیسائی شہزادی حکومت کررہی تھی۔ شہزادی نے ابویوسف کوپیغام بھجوایا کہ عورتوں پر حملہ کرنا بہادروں کا شیوہ نہیں۔ ابویوسف نے شہزادی کو سلام بھجوایا اور محاصرہ فوراً اٹھا لیا۔" (ایضاً:ص۱۳۰)
مسلم فاتحین کے اس حسن سلوک کے نتیجہ میں وہاں کے خاص و عام میں اسلام کس تیزی اور سرعت سے پھیلا، یہ تاریخ کا ایک الگ سنہری باب ہے جو ہمارے موضوع سے تعلق نہیں رکھتا، لہٰذا ہم اپنے موضوع کی طرف واپس پلٹتے ہوئے اب مفتوح اقوام کے ساتھ غیر مسلم فاتحین کے 'حسن سلوک' کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں :
۶۱۳ء میں شہنشاہِ ایران خسرو پرویز نے قیصر روم ہرقل کو شکست دی تو ہرقل نے صلح کی درخواست کے لئے اپنا ایک وفد خسرو کے پاس بھیجا۔ خسرو نے سربراہِ وفد کی جیتے جی کھال کھنچوا دی اور باقی ارکانِ وفد کو قید کردیا اور صلح کی پیشکش کے جواب میں جو خط لکھا اس کا سرنامہ یہ تھا۔ خسرو، خداوند ِبزرگ، فرمانروائے عالم کی جانب سے اس کے احمق او رکمینہ غلام ہرقل کے نام" (الجہاد فی الاسلام، ص۲۰۹)
خسرو نے صلح کے لئے جوشرائط مقرر کیں، وہ یہ تھیں:
"ڈھائی لاکھ پونڈ سونا، ڈھائی لاکھ پونڈ چاندی، ایک ہزار ریشمی تھان، ایک ہزار گھوڑے کے ساتھ ایک ہزار کنواری لڑکیاں، ہرقل ادا کرے گا۔ ہرقل نے یہ سب کچھ دینا منظور کرلیا تو خسرو نے مزید مطالبہ یہ کیا کہ ہرقل زنجیروں میں جکڑا ہوا میرے تخت کے نیچے ہونا چاہئے اورمیں اس وقت تک صلح نہیں کروں گا جب تک شہنشاہِ روم اپنے مصلوب خداکو چھوڑ کر سورج دیوتا کے آگے سر نہ جھکائے۔" (غزواتِ مقدس: ص۲۵۸)
تیسری صلیبی جنگ میں برطانیہ کے 'شیردل' رچرڈ اوّل (۱۱۸۹ء۔ ۱۱۹۹ء) نے اسلامی فوج کے ایک دستے کو جو تین ہزار افراد پر مشتمل تھا، وعدہ معافی دے کر ہتھیار رکھوا لئے اور بعد میں سب کو قتل کرڈالا۔ (یورپ پر اسلام کے احسان، ص۸۳)
۱۸۳۷ء میں فرانس نے الجزائر کا دارالحکومت قسطنطنیہ فتح کیا تو اس کی فوجیں تین دن تک قتل و غارت میں مشغول رہیں۔ ( الجہاد فی الاسلام، ص۵۷۵)
۱۸۵۷ء میں انگریزوں نے جب دِلی فتح کی تو فاتح قوم نے مفتوح قوم کے ساتھ جس درندگی، وحشت اور بربریت کا مظاہرہ کیا، تاریخ انسانی اس کے ماتم سے قیامت تک فارغ نہیں ہوسکے گی۔ انگریزوں کے ظلم اور بربریت کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں :
1۔ دہلی میں جس شخص کے چہرے پر داڑھی نظر آتی یا جس کا پاجامہ اونچا ہوتا، اسے تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا۔ (سوانح سیدعطاء اللہ شاہ بخاری از شورش کاشمیری: ص۱۳۷،۱۳۸)
2۔ سرہنری کاٹن کی یاداشتوں سے ایک اقتباس "میں نے اپنے سکھ اردلی کی خواہش پر ان بدبخت مسلمانوں کو عالم نزع میں دیکھا جن کی مشکیں کس کے زمین پربرہنہ ڈال دیا گیا تھا۔ ان کے جسم پر گرم تانبے کی سلاخیں داغ دی گئی تھیں۔ میں نے انہیں پستول سے ختم کردینا ہی مناسب سمجھا، ان بدنصیب قیدیوں کے سڑے ہوئے گوشت سے مکروہ بدبونکل کر آس پاس کی فضا کو مسموم کر رہی تھی۔" (ایضاً: ص ۱۳۷،۱۳۸)
3۔ مسٹر ڈی لین ایڈیٹر 'ٹائمز آف انڈیا' کے مضمون کا ایک اقتباس "زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سینا یا پھانسی دینے سے پہلے ان کے جسم پر سور کی چربی ملنا یا زندہ آگ میں جلانا اور انہیں مجبور کرنا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بدفعلی کریں یقینا عیسائیت کے نام پر ایک بدنما دھبہ ہے" (ایضاً)
4۔ جنرل نکلسن نے دریائے راوی کے کنارے جس بہیمانہ طریقے سے باغیوں کو قتل کیا، وہ ایک لرزہ خیز داستان ہے۔ انگریز موٴرخوں نے خود اسے انگریز قوم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ قرار دیا۔ بقول لارڈ الفسٹن "ہماری فوج کے مظالم کا تذکرہ روح میں کپکپی پیدا کردیتا ہے۔ جہاں تک لوٹ مار کا تعلق ہے، ہم نادر شاہ ایرانی سے بھی بازی لے گئے ہیں" (ایضاً:۱۳۶)
۱۹۱۸ء میں سوویت یونین نے قازقستان پرقبضہ کیا تو وہاں کی تمام مساجد اور دینی مدارس منہدم کردیئے۔ علماء اور اساتذہ کوفائرنگ اسکواڈ کے سامنے بھون دیا گیا۔ ان ظالمانہ کارروائیوں میں دس لاکھ قازق مسلمان شہید کئے گئے۔ (ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ، جولائی ۱۹۹۵ء)
۱۹۴۶ء میں یوگو سلاویہ میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو کیمونسٹوں نے چوبیس ہزار سے زائد مسلمانوں کو تہ تیغ کیا۔ سترہ ہزار سے زائد مساجد اور مدارس مسمار کئے اور بیشتر مساجد کی جگہ ہوٹل اور سینما جات تعمیر کردیئے۔ آج جس جگہ سربیا کے دارالحکومت بلغراد کااسمبلی ہاؤس واقع ہے وہاں بلغراد کی سب سے زیادہ خوبصورت وسیع و عریض مسجد واقع تھی جو ۱۵۲۱ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ (مجلہ الدعوة:فروری ۱۹۹۳ء)
داروسکندر سے لے کر ترقی یافتہ یورپ کے مہذب جرنیلوں تک کی روایت یہی ہے کہ فاتح قوم مفتوح قوم کے مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو بے دریغ قتل کرتی ہے۔ شہریوں اور بستیوں کو تاراج کرتی ہے، سرسبزوشاداب کھیتوں اور باغات کو برباد کرتی ہے، گھروں اور عمارتوں کونذرِ آتش کرتی ہے، لیکن پیغمبر اسلام نے اس خونی روایت سے ہٹ کر ایک عظیم انقلابی اور اِصلاحی روایت کی طرح ڈالی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کامشن لوگوں کی جانیں لینا نہیں، جانیں بچانا تھا، زمین کے خطوں کوفتح کرنا نہیں بلکہ دلوں کوفتح کرنا تھا، انسانوں کو ذلیل اور رسوا کرنا نہیں بلکہ عزوشرف عطا کرنا تھا۔ شہروں اور بستیوں کو ویران کرنا نہیں بلکہ آباد کرنا تھا۔ درندگی، دہشت گردی اور فساد فی الارض برپا کرنا نہیں بلکہ درندگی، دہشت گردی اور فساد فی الارض کا قلع قمع کرنا تھا۔ ہر وہ شخص جو ضمیر کی آواز رکھتا ہے، جس کا دل اور دماغ تعصب سے اندھا نہیں ہوا، وہ پیغمبر اسلام کی قائم کی ہوئی اس عظیم انقلابی اور اصلاحی روایت میں پیغمبر اسلام کے مقدس مشن کو بڑی آسانی سے دیکھ سکتا ہے۔
۵۔ جنگوں میں ہلاکت کے اعدادوشمار
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سالہ مدنی زندگی میں سات جنگیں لڑیں جن میں طرفین سے کام آنے والے افراد کی تعداد درج ذیل ہے :
غزوہ/سریہ مسلمانوں کا نقصان دشمن کا نقصان
اسیر زخمی شہید اسیر زخمی مقتول
۱۔ غزوئہ بدر ... ... ۲۲ ۷۰ ... ۷۰
۲۔ غزوئہ اَحد ... ۴۰ ۷۰ ... ... ۳۰
۳۔ غزوئہ اَحزاب ... ... ۶ ... ... ۱۰
۴۔ غزوئہ خیبر ... ۵۰ ۱۸ ... ... ۹۳
۵۔ سریہٴ موتہ ... ... ۱۲ ... ... نامعلوم
۶۔ غزوئہ مکہ ... ... ۲ ... ... ۱۲
۷۔ غزوئہ حنین ... ... ۶ ۶۰۰۰ ... ۷۱
کل تعداد ... ۹۰ ۱۳۶ ۶۰۷۰ ... ۲۸۶
غزوات اور سرایا میں دونوں طرف سے کام آنے والے افراد کی کل تعداد = ۴۲۲7
پس رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سالی مدنی زندگی میں پیش آنے والی سات جنگوں میں مسلم شہدا کی تعداد ۱۳۶ اور دشمن کے مقتولین کی تعداد ۲۸۶ اور طرفین سے کام آنے والے تمام اَفراد کی کل تعداد ۴۲۲ ہے اور اسیرانِ جنگ کی تعداد ۶۰۷۰ ہے۔ یاد رہے کہ اسیرانِ جنگ میں سے کوئی ایک بھی قتل نہیں کیا گیا بلکہ سارے کے سارے قیدی بخیریت رہا کئے گئے۔
سات جنگوں میں کام آنے والے افراد کی یہ محیر العقول تعداد اس زمانے کی ہے جس زمانے میں انتقام درانتقام کی شکل میں ہونے والی طویل جنگوں میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت ایک معمولی بات سمجھی جاتی تھی۔آئیے ایک نظر آج کے مہذب اور امن پسند یورپ کی جنگوں پر ڈالیں اور دیکھیں کہ وہ دورِ جاہلیت کی وحشت اور بربریت سے کس قدر مختلف ہے؟
جنگ ِعظیم اوّل (۱۴تا ۱۹۱۸ء) میں مجموعی طور پر ۷۵ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ ایک کھرب ۸۶ ارب ڈالر کے وسائل حیات کو نذرِ آتش کیا گیا۔(جہانگیر انسائیکلوپیڈیا آف جنرل نالج از زاہد حسین انجم : ص ۳۸۱)
جنگ ِعظیم دوم (۱۹۳۹ء ۔ ۱۹۴۵ء) میں مجموعی طور پر ساڑھے چار کروڑ انسان ہلاک ہوئے، صرف ایک شہر سٹالن گراڈ میں دس لاکھ اَفرادلقمہ اَجل بنے۔ جرمنی میں ساٹھ لاکھ انسان گیس چیمبروں کے ذریعے ہلاک کئے گئے۔جاپان کے دو شہر مکمل طور پر صفحہٴ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔ بیک وقت چاربراعظموں ... یورپ، امریکہ، ایشیا اور افریقہ... پر مسلسل ۶ برس تک اس منحوس جنگ کے مہیب سائے چھائے رہے۔ چار براعظموں کے انسٹھ ممالک (پچاس اتحادی اور نو محوری) آپس میں دست و گریبان ہوئے جن میں سے صرف ایک ملک امریکہ کا اس جنگ میں تین کھرب ساٹھ ارب ڈالر کاخرچ اُٹھا۔ (ماہنامہ قومی ڈائجسٹ لاہور، جولائی ۱۹۹۵ء)
مذکورہ اَعدادوشمار دیکھنے کے بعد ہم یورپ کے واقعتا مہذب، امن پسند اور سنجیدہ ماہرین حرب و ضرب سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے انقلاب کے لئے دو طرفہ کام آنے والے نفوس کی ایسی ناقابل یقین حد تک کم تعداد کی اگر کوئی دوسری مثال ہے تو پیش کیجئے، اگر نہیں (اور واقعی نہیں) تو پھر ہم یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر اتنے عظیم سیاسی، تمدنی اور روحانی انقلاب کی خاطر دو طرفہ کام آنے والے ۴۲۲ نفوس کی مثال دنیا کی تاریخ میں ناپید ہے او راس کے باوجود تمہارے نزدیک پیغمبراسلام کی تلوار انسانیت کی دشمن ہے، پیغمبر اسلام، خونی پیغمبر ہے، اس کی تعلیمات سے بوئے خوں آتی ہے، اس کا لایا ہوا دین قصاب کی دوکان ہے اور اس کا دیا ہوا فلسفہ جہاد، دہشت گردی اور فساد فی الارض ہے تو پھر جنگ ِعظیم اوّل اور دوم کی داستانیں پڑھ کر بتاؤ کہ کرئہ ارضی کو دو مرتبہ آگ اور خون میں نہلانے والے خونخوار اور سفاک درندوں کو کس نام سے پکارو گے۔ کروڑوں معصوم اور بے گناہ جانوں کوہلاک کرنے اور خون کی ندیاں بہانے والے قصابوں اور جلادوں کو کس لقب سے یاد کرو گے؟ سرسبز و شاداب وادیوں اور مرغزاروں کو تاراج کرنے اور شہری آبادیوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے والے دہشت گردوں اور مفسدوں کو تاریخ میں کون سا مقام دو گے؟ نسل انسانی کے گلے میں طوقِ غلامی کی لعنت ڈالنے والے اور تڑپتی لاشوں پر اپنی عیش و عشرت کے محل سجانے والے مغرور شہنشاہوں کے لئے لغت ِانسانی کے کون سے الفاظ استعمال کرو گے؟
المیہ یہ ہے کہ اہل کتاب عہد ِنبوت میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب جاننے اور پہچانے کے باوجود محض نسلی تعصب، حسد اور بغض کی وجہ سے ایمان نہیں لائے تھے اور آج بھی ایمان نہ لانے کی اصل وجہ یہی تعصب، حسد اور بغض ہے۔ عہد ِنبوت میں اُمّ المومنین حضرت صفیہ کا بیان کردہ واقعہ اس دعویٰ کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ حضرت صفیہ  فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے چچا ابویاسر بن اخطب کو سنا وہ میرے (یہودی) والد حیی بن اخطب سے کہہ رہا تھا "کیا واقعی یہ وہی (نبی) ہے؟" والد نے کہا "ہاں! خداکی قسم وہی ہے۔" چچا نے کہا "کیا آپ انہیں ٹھیک ٹھیک پہچان رہے ہیں؟" والدنے کہا "ہاں! " چچا نے پوچھا "پھر کیا ارادہ ہے؟" والد نے کہا "خدا کی قسم! عداوت ہی عداوت، جب تک زندہ رہوں گا " (الرحیق المختوم، ص۲۸۴)
عہد ِنبوت کو گزرے آج چودہ صدیاں بیت چکی ہیں لیکن افسوس کہ حریت ِفکر، آزادی رائے اور تہذیب ِجدید کے اس دور میں مغرب میں بسنے والا ترقی پسند انسان جو مادّی دنیا میں زمین سے چاند تک کا سفر طے کرچکا ہے، ایمان کی دنیا میں تعصب، بغض اور حسد کے مقام سے ایک انچ کاسفر بھی طے نہیں کرسکا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آج بھی اس کا اندازِ فکر وہی ہے جو چودہ سو سال پہلے تھا ورنہ امر واقعہ یہ ہے کہ جب ساری دنیا میں ہر طرف شرک و بت پرستی کا دور دورہ تھا، جہالت، وحشت اور بربریت کے منحوس سائے چھائے ہوئے تھے۔ خون ریزی، غارت گری، انسانی زندگی کا لازمی جزو بن چکے تھے۔ شہنشاہوں اور ان کے حواریوں نے ہر جگہ رعایا کو بدترین مظالم کا نشانہ بنا رکھا تھا۔مذہبی پروہتوں کی خانقاہیں عیش و عشرت کے اڈّے بنے ہوئے تھے، انسانیت بے بسی اور بے کسی کی خوفناک زنجیروں میں اس طرح جکڑی ہوئی تھی کہ نجات کے لئے کہیں سے اُمید کی موہوم سی کرن بھی نظر نہیں آتی تھی، اس وقت پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، انسانیت کے نجات دہندہ بن کر اُٹھے اور صدیوں پرانے جمے جمائے جاہلانہ نظام سے ٹکر لے کر انتہائی مختصر مدت میں محض چار سو بائیس (۴۲۲) افراد کی قربانی سے پورے جزیرئہ عرب میں ایک ایسا عظیم الشان تہذیبی، سیاسی، اقتصادی اور روحانی انقلاب برپا کردیا جو پیغمبرانہ بصیرت کے بغیرممکن ہی نہیں اور پھر سات جنگوں میں صرف ۴۲۲ /افراد کا زیاں اور ۶۰۷۰ / اسیرانِ جنگ میں سے سارے کے سارے ۶۰۷۰ اسیرانِ جنگ کی بخیریت رہائی، کیا اس بات کا منہ بولتا ثبوت نہیں کہ پیغمبر اسلام خوں ریزی اور غارت، ہلاکت اور بربادی، دہشت اور بربریت، غلامی اور ذلت و نکبت کے نہیں، امن و سلامتی، رحمدلی وخدا ترسی، نیکی و احسان، شرافت و اُخوت، حریت و احترامِ آدمیت کے پیغمبر تھے؟
اہل مغرب کے نام
دنیا کو آج جس بدامنی، دہشت گردی ،وحشت اور درندگی کا چیلنج درپیش ہے اس کے مقابلے میں انسانوں کے بنائے ہوئے نظریات ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔ الہامی مذاہب میں اسلام کے علاوہ باقی تمام مذاہب تغیر و تبدل سے غیر محفوظ ہیں لہٰذا اب اسلام ہی وہ الہامی مذہب ہے جسے عہد ِجدید کے اس خوفناک چیلنج کوقبول کرنے کے لئے آزمایا جانا چاہئے۔ اہل مغرب کے نام ہمارا پیغام یہ ہے کہ وہ اسلام سے تصادم کا راستہ نہ اپنائیں، اسے اپنا حریف نہ سمجھیں، اس سے خا ئف نہ ہوں۔ اسلام سراسر امن وسلامتی اور محبت و اُخوت کا مذہب ہے اور اپنے سے پہلے آئے ہوئے مذاہب کی تائید کرنے والا ہے۔ اہل مغرب کو حریت ِفکر کے اس عہد میں تعصب سے بالاتر ہو کرپورے صدقِ دل سے پیغمبر اسلام کی سیرتِ طیبہ اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات کامطالعہ کرناچاہئے اور حقائق کی تہ تک پہنچنا چاہئے۔
یاد رکھئے، آج اہل مغرب کے پاس دو ہی راستے ہیں: یا تو وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی دعوت حق کو قبول کرکے دم توڑتی ہوئی انسانیت کو تباہی، ہلاکت اور بربادی سے بچا لیں یا پھر اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا انتظار کریں جو تھوڑا ہی عرصہ پہلے دریائے آمو کے اس پار بسنے والی دنیا کی ایک عظیم الشان قوت پر پوری ہوچکی اور جس کاذکر اللہ نے اپنی کتابِ مقدس 'قرآن مجید' میں ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے :
﴿وَكَم أَهلَكنا قَبلَهُم مِن قَر‌نٍ هُم أَشَدُّ مِنهُم بَطشًا فَنَقَّبوا فِى البِلـٰدِ هَل مِن مَحيصٍ ٣٦ ﴾....... سورة ق
"ہم ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں جو ان سے بہت زیادہ طاقتور تھیں اور دنیا کے ملکوں کو انہوں نے چھان ماراتھا، پھر کیا وہ کوئی جائے پناہ پاسکے ؟"


 

نوٹ

1. چند سال قبل امریکہ کے یہودی ایمرسن نے ایک فلم ’جہاد اِن امریکہ‘ بنائی جس میں مسلمانوں کو ڈاکو او ردہشت گرد دکھایا گیا ہے ۔ (   ہفت روزہ ’تکبیر‘ ۴؍مئی ۱۹۹۵ء

2. جزیہ سے مراد وہ ٹیکس ہے جو اسلامی حکومت غیرمسلموں سے وصول کرتی ہے جس کے بدلے میں اسلامی حکومت ان کے جا ن ومال کی حفاظت کرتی ہے ۔ جزیہ ادا کرنے والے غیر مسلموں کو اس بات کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اسلامی حکومت کے قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے عقیدہ اور مذہب پر عمل کرتے رہیں لیکن انہیں اپنے عقیدہ اور مذہب کی اشاعت کا حق حاصل نہیں ہوتا۔

3. تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، الجہاد فی الاسلام : باب ہفتم ’جنگ تہذیب ِجدید میں‘‘

4. پہلی مرتبہ ۱۸۶۸ء میں جنیوا اور دوسری مرتبہ ۱۸۷۴ء میں بروسلز کانفرنس میں یورپ کی مہذب ترین حکومتوں میں یہ طے پایا کہ جنگ میں آتش گیر مادّہ او رزہریلی گیس استعمال نہیں کی جائے گی۔لیکن جنگ ِعظیم دوم(۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۵ء) میں ہٹلر نے ساٹھ لاکھ انسان گیس چیمبروں کے ذریعے ہلاک کرکے اس قانون کے پرخچے اُڑا دئیے۔  اگست ۱۸۶۴ء میں یورپ کی تمام حکومتوں نے ایک سمجھوتے پر دستخط کئے جس کے مطابق فوجی ہسپتالوں کا عملہ غیر جانبدار قرار دیا گیااور بیماروں ، زخمیوں کے علاج میں مزاحمت کوناجائز قرار دیا گیالیکن جنگ ِعظیم اوّل (۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ء) میں فریقین نے ایک دوسرے کے ہسپتالی جہاز بڑی دیدہ دلیری سے غرق کرکے اس قانون کی دھجیاں اُڑا دیں۔

5. تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو مجلہ ’الدعوۃ‘ لاہور :اگست ۱۹۹۲ء ، فروری ۱۹۹۳ء … ہفت روزہ ’تکبیر‘کراچی: ۱۵؍جولائی ۱۹۹۳ء … ہفت روزہ ’زندگی‘ لاہور: ۱۳؍نومبر ۱۹۹۳ء

6. ہندوستان میں یوپی کے گورنر سر ولیم میور نے پیغمبر اسلام اکے خلاف کتاب لکھی جس میں اس نے لکھا ہے کہ ’’انسانیت کے دو سب سے بڑے دشمن ہیں: محمد ا کی تلوار اور محمد کا قرآن‘‘   (موجِ کوثر از شیخ محمد اکرم: ص ۱۶۳)

7. عام طو رپر مؤرخین او رسیرت نگاروں نے رسولِ اکرم   ﷺ کے غزوات اور سریا کی تعداد ۸۲ لکھی ہے جودرست نہیں۔ غزوات کی تعداد صرف ۷ ہے ، البتہ حیاتِ طیبہ کی تمام چھوٹی بڑی کاروائیوں کی تعداد ۸۲ ہے جن کی تفصیل حسب ِذیل ہے
                                                        کارروائیوں کا مقصد           کارروائیاں              شہداء         مقتولیندشمن
1۔تبلیغ اسلام اور تکمیل معاہدات                                                 ۵                            …              …
2۔بت شکنی کی مہمات                                                                      ۳                             …              …
3۔دشمن کی طرف سے ڈاکہ زنی کے بعد مسلمانوںکا تعاقب   ۱۰                            ۱۹            ۱۲
4۔ذاتی نوعیت کے واقعات قتل                                                 ۵                                  …              ۵
5۔غلط فہمی کی بنا پرپیش آنے والے تصادم                                 ۶                              …              ۱۲۷
6۔سرحدوں کی حفاظت کے لئے کی گئی کارروائیاں                   ۳۸                          ۷۳          ۱۱
7۔دشمن کی طرف سے دھوکہ دہی اور بغاوت کے واقعات       ۸                             ۸۲          ۴۱۰
8۔جنگیں (غزوات و سرایا)                                                         ۷                             ۱۳۶         ۲۸۶
  کل تعداد ۸۲                          ۳۱۰         ۸۵۱
  ۲۸ کاروائیوںمیں دونوں طرف سے کام آنے والے افراد کی تعداد : ۱۱۶۱
نوٹ: دونوں جدول ترتیب دینے میں زیادہ تر انحصار قاضی سلیمان منصور پوری ؒ مؤلف رحمۃ للعالمین کی تحقیق پر کیا گیا ہے ، مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، رحمۃ للعالمین : ج۲، باب غزوات و سرایا۔