عربی زبان سکھانے کابہتر اُسلوب

مجھے اس امر کا اعتراف ہے کہ خصوصاً ہماری دینی درسگاہوں میں عربی زبان و ادب کی نہایت وقیع اور معیاری کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، نیز عربی گرامر کے دونوں شعبوں یعنی علم صرف اور علم نحو میں مستند اور مفصل کتابوں کی تدریس ہوتی ہے اور ان کی تعلیم و تدریس کئی سال جاری رہتی ہے، جو بڑی محنت اور جانفشانی سے کی جاتی ہے اور پھر ان تینوں علوم (عربی زبان، علم صرف اور علم نحو) کی تدریس کی ذمہ داری صرف کہنہ مشق اور محنتی اساتذہ کو ہی دی جاتی ہے۔ چنانچہ طلبہ و طالبات علم صرف کی گردانوں اور قواعد کو بڑی توجہ سے پڑھتے ہیں بلکہ حفظ کرتے اور فرفرسناتے ہیں اور نحو کے قواعد کو بھی نہایت محنت اور توجہ سے پڑھایا جاتا ہے، پھر بڑی جماعتوں میں عربی زبان کی بلاغت اور معانی کی مستند کتابوں کی تدریس بھی ہوتی ہے۔ تو اُن علوم پر اتنی توجہ اور اہتمام کے باوجود ہمارے طلبہ و طالبات ان میں پسماندہ کیوں رہتے ہیں؟


اسلامی درسگا ہوں کی ان مفید خدمات اور روشن پہلوؤں کے باوجود ہم ان کے فضلا کو دیکھتے ہیں کہ وہ عربی زبان واَدب دونوں میں پسماندہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ ان علوم کی پچیس تیس کتابیں پڑھنے کے باوجود عربی زبان کے عملی استعمال یعنی اس میں گفتگو اور تحریر کی قدرت نہیں رکھتے اور سخت ضرورت کے وقت معمولی عربی بول چال اور تحریرسے بے بس نظر آتے ہیں۔ نیز اہل زبان سے ملاقات کے وقت ان کی باتوں کو سمجھ نہیں پاتے اور عصر حاضر کے عربی اخبارات اور مجلات سے استفادہ نہیں کرسکتے۔ وہ صرف قدیم کتابوں کی عبارتوں کو سمجھتے ہیں، لیکن جدید عربی لٹریچر کا مطالعہ نہیں کرپاتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے طویل تعلیمی عرصے میں ان کی کتابوں کا اُردو ترجمہ یاد کرتے ہیں، اور ان کے قواعد اور اُصولوں کو صرف نظری اور زبانی حد تک رَٹنے میں صرف کرتے ہیں اور عربی الفاظ اور تراکیب کے ان روزمرہ استعمالات اور محاوروں سے ناواقف رہتے ہیں، جو اہل زبان کے معاشرے میں لکھے بولے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کہ یہ فاضل حضرات صرف عربی زبان کے مفرد اسماء اور افعال کو توکسی حد تک جانتے ہیں لیکن انکے عملی استعمال کی شکلوں اور تراکیب سے ناواقف رہتے ہیں۔


اس لئے مدارس کے طلبہ اور اساتذہ اوّلاً تو عربی بولنے یا لکھنے سے بچتے ہیں۔ اگر ا ن میں سے کچھ اسے بولنے یا لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ان کے جملوں میں لغت، صرف، نحو اور محاوروں کی غلطیاں اتنی کثرت سے ہوتی ہیں کہ ان کی اِصلاح کرنا ممکن نہیں ہوتا،کیونکہ اُنہوں نے اگرچہ زبان کے ان چاروں اَجزا کو سالہا سال تک پڑھا بلکہ رَٹا ہوتا ہے ،لیکن اُنہیں ان کے عملی استعمال کی مشق اور تربیت سے محروم رکھاجاتاہے، لہٰذا اسے لکھنے یا بولنے کی استعداد حاصل نہیں کرپاتے، حالانکہ اُن کے لئے عربی ایک نہایت آسان زبان ہے۔ اگر انہیں کچھ ہی عملی تربیت کرادی جاتی تو وہ اسے خوب لکھ بول سکتے ہیں۔
اب میں محترم علماے کرام، تعلیمی ماہرین، عربی زبان و ادب کے معلّمین و معلّمات نیز عزیز طلبہ و طالبات کے سامنے اس مسئلے کو آسانی سے پیش کرنے کے لئے عربی زبان کی تعلیم وتدریس کی چند مثالیں ذکر کرنا چاہتا ہوں…
وباﷲ التوفیق وھو المستعان

 

پہلا طریقۂ تدریس
تصور کیجئے کہ یہ ہمارے فاضل دوست کسی جامعہ میں عربی زبان کے مدرّس ہیں۔ اس وقت ان کے سامنے 18 ،20 طلبہ بیٹھے ہیں۔ وہ اُنہیں وفاق المدارس العربیہ کے نصاب میںمقرر نصابی کتب قصص النّبیین کا پہلا حصہ پڑھا رہے ہیں، جو مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ کی تصنیف ہے۔ معلم اور طلبہ ، دونوں کے ہاتھوں میں کتاب کا ایک ایک نسخہ موجود ہے، ان کی تدریس کا طریقہ یہ ہے کہ معلم خود سبق کی عبارت پڑھ رہا ہے اور طلبہ کو اس کے الفاظ اور جملوں کا لفظی اُردو ترجمہ بتا رہا ہے جسے وہ سنتے اور ذہن نشین کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس طرح یہ طلبہ اپنے معلم سے سبق کی عبارت کا لفظی اُردو ترجمہ پڑھتے اور اسے یاد کرتے ہیں۔ معلم کے پاس اپنی تیاری کے لئے اس کتاب کا چھپا ہوا اُردو ترجمہ موجود ہے جسے وہ حسب ِضرورت دیکھ لیتے ہیں۔
نتیجہ :طلبہ سبق کی عبارت کا لفظی اُردو ترجمہ سمجھنے اور یاد کرنے لگتے ہیں۔

 

دوسرا طریقۂ تدریس
ہمارے ایک اورفاضل دوست ایک دوسرے مؤقر دارالعلوم میں عربی زبان و ادب کے مدرّس ہیں۔ یہ ابتدائی اور متوسط جماعتوں کو پڑھانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ بھی اس پیریڈ میں مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی کتاب قصص النّبیین کے پہلے حصے کی تدریس کررہے ہیں۔ تاہم ان کی تدریس کا طریقہ پہلے مدرّس کے طریقۂ تدریس سے کچھ مختلف ہے۔ ان کی جماعت میں تختۂ سیاہ موجود ہے اور ہر طالب ِعلم کے پاس نصابی کتاب کے علاوہ اپنی کاپی اور قلم موجود ہے۔ معلم سبق کے آغاز میں تختۂ سیاہ پر مناسب اور خوبصورت خط میں سبق کے منتخب الفاظ کی تشریح لکھ رہا ہے، جس میں عربی افعال کے معنی اور ان کا ماضی، مضارع اور مصدر، نیز اسم مفرد کا معنی اور جمع، اور اسم جمع کا معنی اور مفرد وغیرہ شامل ہیں۔ طلبہ الفاظ کی اس تشریح کو اپنی کاپیوں میں نقل کرکے اسے یاد کررہے ہیں۔ بعد ازاں معلم سبق کی تدریس اس طریقے پر کرتا ہے کہ ایک طالب ِعلم سبق کی عبارت پڑھتاہے اور معلم اس کا اُردو ترجمہ کرتا جاتا ہے۔ یوں پہلے سبق کی تکمیل ہوتی ہے اور طلبہ سبق کی عبارت کے اُردو معنی کو آسانی سے سمجھنے لگتے ہیں اور مختلف عربی الفاظ کی تشریح سے واقف ہوتے ہیں۔
نتیجہ : طلبہ سبق کی عبارت کے اُردو ترجمہ اور الفاظ کی تشریح کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔

 

تیسرا طریقۂ تدریس
ایک تیسرے معلم معھد اللغة العربیة اسلام آباد میں اپنے طلبہ کو یہی کتاب قصص النبیینکا پہلا حصہ پڑھا رہے ہیں۔ بچوں کے سامنے ایک وائٹ بورڈ آویزاں ہے اورہر بچے کے پاس نصابی کتاب کے علاوہ ایک کاپی اور قلم موجود ہے۔ نیزمعلم اور ہر طالب ِعلم کے پاس اس کتاب کی درسی گائیڈ (ورک بک) موسومہ دلیل قصص النبیین، الجزء الاوّل موجود ہے۔ وہ اس گائیڈ کے مطابق سبق کے آغاز میں وائٹ بورڈ پر سبز مارکر سے منتخب الفاظ کے معنی اور تشریح لکھتے ہیں،  جسے ہر طالب علم بلندآواز سے پڑھتا ہے، اور اس کے صحیح تلفظ کی مشق کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ اسے اپنی کاپی میں درج کرتاہے۔ اس کے بعد معلم عربی میں کہتے ہیں: الآن بدأ الدرس،الآن نبدأ الدرس۔ اور سبق کی تدریس شروع ہوتی ہے، تو سبق کو معلم خود نہیں پڑھتا بلکہ اسے باری باری مختلف طلبہ پڑھتے ہیں اور معلم اس کا بامحاورہ اُردو ترجمہ بولتا ہے۔ پھر معلم گاہے گاہے طلبہ کو مناسب ہدایات دیتے ہوئے عربی بولتا ہے۔ مثلاً الآن اقرأ أنت یا خالد! الآن اقرأ أنت یا حمزة، اور کسی طالب ِعلم کی اچھی ادائیگی پر أحسنتَ! بارك اﷲ فیك  اورکسی سے غلطی سرزد ہونے پر لا  یا عبدالرحمن اورسبق کے اختتام پر الآن انتھی الدرس، الآن انتھتِ الحصة وغیرہ   نیز معلم طلبہ کو جملوں کا لفظی ترجمہ سکھانے کے بجائے ان کا بامحاورہ ترجمہ بتاتا ہے۔ اس طرح معلم پہلے پیریڈ میں پہلے سبق کی تدریس مکمل کرتا ہے۔


پھر دوسرے دن وہ طلبہ کو دلیل قصص النبیین، الجزء الاوّل کے مطابق اس سبق پر عربی میں بول چال کی مشق کراتا ہے ،جو دو مشقوں پر مشتمل ہے۔ پہلی مشق میں سبق کے مضمون کے بارے میں عربی زبان میں چھوٹے چھوٹے سوال دیئے گئے ہیں۔ معلم ایک سوال بولتا ہے ،تو طلبہ اس کا جواب دیتے ہیں۔ اگر طلبہ کا جواب غلط یا ناقص ہو تو معلم اسے درست کراتا ہے۔ دوسری مشق میں سبق کے بارے میں لکھے ہوئے جملوں میں خالی جگہوں کو مناسب الفاظ سے پُر کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔
عربی بول چال کی ان دونوں مشقوں کو طلبہ دو بار زبانی اور تحریری دونوں طرح حل کرتے ہیں، پہلے کلاس میں اپنے معلم کی نگرانی میں زبانی حل کرتے ہیں اور پھر انہیں اپنی کاپیوں میں تحریری طور پر حل کرکے لاتے ہیں اور معلم اسے چیک کرتا اور حسب ضرورت تصحیح کرکے اس پر اپنے دستخط کرتا ہے۔
نتیجہ: طلبہ سبق کی عبارت کا بامحاورہ اُردو ترجمہ سیکھتے ہیں اور مختلف عربی الفاظ کی لغوی تشریح کے ساتھ ان کے تلفظ کی صحت سیکھتے ہوئے روزمرہ کی ابتدائی عربی زبان کو سمجھنے، لکھنے اور بولنے لگتے ہیں ،کیونکہ اُنہیں عربی لکھنے اور بولنے کااچھا ماحول میسر آیا ہے۔

 

چوتھا طریقۂ تدریس
اب معھد اللغة العربیة میں عربی زبان و ادب کے ایک دوسرے معلم کی کلاس کو دیکھتے ہیں۔یہ آج راقم الحروف کی کتاب اقرأ، الجزء الاوّل کا پہلا سبق پڑھا رہے ہیں۔ اس سبق میں چونکہ ہر چیز کی تصویر کے ساتھ اس کا عربی نام لکھا ہے، اس لئے وہ الفاظ کا اُردو ترجمہ نہیں کرتے بلکہ ہر چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کا عربی نام پڑھنے کی مشق کراتے ہیں اور اگر طالب ِعلم سے کسی اسم کی خواندگی میں تلفظ کی غلطی واقع ہو تو اسے درست کراتے ہیں۔ کلاس کے شرکاء بالکل نئے ہیں اور آج پہلے دن عربی زبان پڑھنے لگے ہیں، اس کے باوجود وہ اُنہیں براہِ راست عربی پڑھنے اوربولنے کی مشق کرا رہے ہیں۔ وہ تمام طلبہ کو ضروری ہدایات بھی عربی میں ہی دے رہے ہیں، اور جہاں دقت پیش آتی ہے، اشارے سے کام لیتے ہیں۔ اب کلاس پہلا سبق ختم کررہی ہے، تومعلم نے اُنہیں کسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے   ما ھٰذا؟ سے سوال کرنا سکھادیاہے اور اس کا جواب بھی ھذا قلم وغیرہ سمجھا دیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم اضافی مشق یعنی کسی شخص کے بارے میں سوال کرتے ہوئے مَن ھذا؟ اور اس کا جواب بھی سکھا دیا ہے، اور اس کے لئے جماعت کے شرکاء کی جانب اشارہ کرتے ہوئے من ھذا؟ ھذا أکرم ، من ھذا؟ ھذا جمیل الرحمن وغیرہ کی مشق کرا دی ہے اور اس اُسلوب کو جاری رکھتے ہوئے سبق کی تینوں مشقیں بھی حل کرا دی ہیں۔
یوں ان نو وَارد طلبہ نے آج 20 ،22 چیزوں کے عربی نام سیکھ لئے ہیں اور ان کے بارے میں سوال و جواب کی مشق کرلی ہے، اور اس طرح پندرہ بیس اشخاص کے بارے میں من ھذا؟ کی مشق بھی کرلی ہے اور مجموعی طور پر پہلے ہی دن ھذا …،ھذا… کی طرح کے تیس سے زیادہ عربی جملے فر فر بولنے لگے ہیں۔ اب معلم نے طلبہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ کل ان مشقوں کو اپنی کاپیوں میں تحریر کرکے لائیں۔
نتیجہ : طلبہ سبق کے جملوں کو براہ راست سمجھنے کے علاوہ اُنہیں بار بار پڑھنے ، بولنے اور لکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں اور ان کے تلفظ کی تصحیح بھی کرچکے ہیں۔ کیونکہ اُنہیںخالص عربی ماحول میںبول چال کی مشق کرنے کاموقع میسر آیا ہے۔

 

ہمارے ہاں مروّجہ طریقۂ تدریس
اب آئیے دیکھیں کہ ہم اپنی درس گاہوں میں اپنے بچوں کو بنیادی عربی زبان کی تعلیم ان چار طریقوں میں کس طریقے پر دے رہے ہیں؟ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں،ہماری درس گاہوں میں عرصۂ دراز سے عربی زبان و ادب کی تعلیم کا پہلا طریقۂ تدریس ہی رائج ہے اور ہمارے اساتذہ سبق کے لفظوں یا عبارت کو خود پڑھتے ہیں یا کبھی کبھی کسی طالب علم سے پڑھوا کر اس کااپنی مقامی زبان اُردووغیرہ میںترجمہ کرتے ہیں، جسے طلبہ و طالبات سنتے اور یاد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری اکثر درس گاہوں میں تفہیم و تعلیم کا بنیادی ذریعہ تختۂ سیاہ یا وائٹ بورڈ موجود نہیں ہوتا، اگر موجود ہوتا ہے تو اسے بہت کم استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لئے بچوں کو عربی الفاظ کی تشریح لکھوانے کا اہتمام بہت ہی کم کیا جاتا ہے۔ یوں ہمارے مروّجہ نظامِ تعلیم میں عربی زبان وادب، قرآنِ کریم اور حدیث شریف نیز صرف و نحو اور فقہ کی تدریس کا یہی منہج جاری ہے کہ سالِ اوّل سے لے کر سالِ ہشتم (دورہ شہادة عالمیة) تک اور مڈل سے لے کر ایم اے عربی، ایم اے اسلامیات تک بلکہ پی ایچ ڈی تک عربی عبارتوں کا اُردو ترجمہ ہی سکھاتے ہیں، اور ان کا اُردو ترجمہ کرلینے اور اپنی زبان میں ان کے مفہوم کی تشریح کرنے کو کامیابی کی منزل قرار دیتے ہیں۔ اس کے سوا وہ اس پورے عرصے میں عربی زبان کے الفاظ اور محاوروں کو لکھنے یا بولنے اور ان کے متنوع استعمالات کی کوئی مشق نہیں کرتے، اور نہ ہی اُنہیں عربی زبان میں زبانی یا تحریری بول چال کی مشقیں کرائی جاتی ہیں مثلاً ملک کے عربی مدارس کے تمام وفاقوں کے نصاب تعلیم کو دیکھ لیجئے اس میں ایسی درسی کتابیں بہت کم ملیں گی جن میں متعلقہ مضمون پر سوال و جواب، عربی بول چال اور تحریر و انشا کی مشقیں موجود ہوں، اور جہاں ایسی بہت ہی کم کتابوں میں ایسی مشقیں موجود ہوتی ہیں، ان کی تدریس کرنے والے اساتذہ اُنہیں نظر انداز کردیتے ہیں اور وہ اِنہیں زبانی یا تحریری طور پر حل کرانے کااہتمام نہیں کرتے۔ إلا قلیل منهم

 

ہمارے نظامِ تعلیم میں عربی عملاً متروک ہے
اگر آپ اپنے ملک کے قرآن و حدیث اور عربی ادب کو پڑھنے والے نہایت ذہین اور محنتی طلبہ بلکہ نہایت وسیع اور طویل تدریسی تجربات کے مالک اساتذہ کرام کو دیکھتے ہیں کہ وہ بوقت ضرورت عربی زبان میں گفتگو اور تحریر میں بے بس ہوتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عربی زبان اس قدر مشکل یا پیچیدہ ہے کہ اسے طویل عرصہ تک پڑھنے اور پڑھانے کے باوجود اس میں مناسب صلاحیت پیدا نہیں ہوتی، بلکہ اس کی اصل وجہ یہی ہوتی ہے کہ انہیں ان کی طویل تعلیمی مدت کے دوران ایسی تربیت نہیں دی گئی جاتی بلکہ اُنہیں عربی زبان واَدب کے زبانی اور تحریری استعمال سے مکمل محروم رکھا گیا۔


اس لئے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں عربی زبان کو، غیر شعوری طور پر ہی سہی، عملی طور پر اور مسلسل ترک کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے ہمارے فضلا اس فن میں ترقی نہیں کرسکتے۔ ہماری درس گاہوں میں عربی زبان کی تعلیم و تدریس کے دوران کئی صورتوں میں اس کے عملی استعمال کی راہ نکل سکتی ہے لیکن ہم ایسا نہیں کرسکے۔ چنانچہ عربی کو ترک کرنے اور نظر انداز کرنے کی کئی صورتیں بالکل واضح ہیں :

1   ہماری نصابی کتابوں میں تمرین و تربیت کی مشقیں موجود نہیں ہیں۔

2    ہمارے اساتذہ بول چال اور تحریر کی مشقیں نہیں کراتے۔

3     ہمارے اداروں میں تشریح و تعلیم کے لئے تختۂ سیاہ استعمال نہیں کیاجاتا۔

4     ہمارے اداروں کے داخلی ماحول میں عربی بول چال کا ماحول پیدا نہیں کیا جاتا۔

5    ہمارے معلّمین بھی اپنے اسباق کے دوران کلاس میں ایساعربی ماحول پیدا نہیں کرتے، جس سے معلم اور طلبہ کے درمیان باہمی گفتگو میں عربی زبان کے روزمرہ محاورے استعمال ہوتے ہوں۔اس طرح ہمارے طلبہ اور مدرّسین دونوں کوعربی الفاظ یا عبارتوں کا مقامی زبان اُردو یا پشتو وغیرہ میں ترجمہ تو یاد رہتا ہے، لیکن عربی الفاظ کی سرسری قراء ت کے بعد اس کے عملی استعمال کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ یوں ہم اپنے تمام اسباق میں اور تمام تعلیمی مراحل میں عربی زبان کو عملاً اور مسلسل ترک کرتے رہتے ہیں۔


اس لئے ہمارے طلبہ و طالبات بلکہ اساتذہ بھی عربی ایسی آسان زبان کو بھی لکھنے اور بولنے کی معمولی صلاحیت سے قاصر رہتے ہیں۔ اس فرسودہ طریقۂ تدریس سے عربی زبان مسلسل ’متروک‘ رہتی ہے۔ اس لئے ہمارے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور اسلامی درس گاہوں میں عربی زبان عملاً ’متروک‘ ہے۔ اور یہ ایک بدیہی بات ہے کہ جس چیز سے آپ زندگی بھر گریزاں رہیں بلکہ اسے آپ عمداً ترک کریں  تو وہ آسان ہونے کے باوجود آپ کو نہیں آئے گی۔

 

معلّم کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے
میں نے بنیادی عربی زبان کی تعلیم و تدریس کے جن چار مختلف طریقوں کا ذکر کیا ہے، ان سب میں ایسی نصابی کتابوں کی مثالیں دی ہیں جو ہمارے اپنے ملک یا علاقے میں لکھی گئی ہیں اور ان میں ہمارے اداروں اور ہمارے طلبہ و طالبات کی ضروریات اور معیار کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور وہ یہاں زیر تعلیم ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہرمعلم کی مہارت، تجربے اور محنت کی بدولت اس کاطریقۂ تدریس دوسرے سے یکسر مختلف ہے اور اس کے مقاصد اور نتائج بھی مختلف ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ
٭    تدریس کا پہلا طریقہ بالکل سادہ اور سطحی ہے اور ا س میں عربی عبارت کا صرف لفظی اُردو ترجمہ سکھایاجاتا ہے۔
٭    دوسرے طریقے میں اُردو ترجمہ کے ساتھ منتخب الفاظ کی تشریح سکھائی جارہی ہے۔
٭     جبکہ تیسرا طریقۂ تدریس کئی طرح کی محنت اور منصوبہ بندی سے تیار کیا گیاہے اور اس سے پانچ فوائد کی تکمیل ہورہی ہے:
    1. بامحاورہ اُردو ترجمہ، 2.  الفاظ کی تشریح، 3.  نطق کی تصحیح، 4.  عبارت کامکمل فہم اور 5. عربی لکھنے بولنے کی استعداد
٭    اسی طرح چوتھا طریقۂ تدریس بھی بڑی مہارت اور توجہ سے تیار کیا گیاہے۔یہ کسی زبان کی تدریس کا سب سے زیادہ مؤثر اور نہایت کامیاب طریقۂ تدریس ہے، اور تمام مقاصد اور فوائد کی تکمیل کرتا ہے۔ اس سے قارئین اُردو ترجمہ کے بجائے براہِ راست عربی زبان میں غور و فکر کرتے ہوئے اسے پڑھنے، لکھنے اور بولنے کی مہارت حاصل کرتے ہیں۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

"وَأَن لَيسَ لِلإِنسـٰنِ إِلّا ما سَعىٰ  ﴿٣٩﴾....( النجم)"

’’اور اس حقیقت کو یاد رکھو کہ انسان کو اس کی محنت کے مطابق ہی نتیجہ ملتا ہے۔‘‘

بہرحال یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور تدریس میں معیاری اور اچھی تدریسی کتاب کے ساتھ معلم کوبنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں لسانِ قرآن سیکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین!