کیا قرآن ’میزان‘ ہے؟

جاوید احمد غامدی کہتے ہیں کہ الفرقان اور المہیمن وغیرہ اسماے قرآنی کی طرح المیزان بھی قرآن کے ناموں میں سے ایک نام اور اس کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں :''چوتھی چیز یہ ہے کہ قرآنِ مجید اس زمین پر حق و باطل کے لئے 'میزان' اور 'فرقان' اور تمام سلسلۂ وحی پر ایک مُہیمن کی حیثیت سے نازل ہوا ہے:
ٱللَّهُ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ ٱلْكِتَـٰبَ بِٱلْحَقِّ وَٱلْمِيزَانَ...﴿١٧﴾...سورة الشوری
''اللہ وہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اُتاری یعنی 'میزان' نازل کی ہے۔''

اس آیت میں والمیزان سے پہلے 'و' تفسیر کے لئے ہے۔ اس طرح المیزان درحقیقت یہاں الکتاب ہی کا بیان ہے۔ آیت کامدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کے لئے قرآن اُتارا ہے جو دراصل ایک میزانِ عدل ہے اور اس لئے اُتارا ہے کہ ہر شخص اس پر تول کر دیکھ سکے کہ کیا چیز حق ہے اور کیا باطل؟ چنانچہ تولنے کے لئے یہی ہے، اس دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس پر اسے تولا جاسکے۔''1

ہمارے نزدیک 'میزان' نہ تو قرآن کے ناموں میں سے کوئی نام ہے اور نہ اس کی صفات میں سے کوئی صفت بلکہ وہ وحی کے لئے ہرگز میزان نہیں ہے۔ جس آیت سے اُنہوں نے قرآن کے میزان ہونے کا استدلال کیاہے، وہ استدلال بھی کئی لحاظ سے غلط ہے جس کی تفصیل یہ ہے:
قرآن مجید کے پچپن (55) اسماء اور صفات کی مکمل فہرست امام بدرالدین زرکشی نے البرہان في علوم القرآن میں اور امام سیوطی نے الإتقان مںا دے دی ہے مگر ان میں 'میزان' کا نام یا صفت کہیں شامل نہیں ہے۔2

علامہ زمخشری (جسے غامدی صاحب إمام اللغة مانتے ہیں ، دیکھیں : میزان ج1؍ص128 طبع 1985ئ) نے اپنی تفسیر الکشاف میں سورة الشوریٰ کی مذکورہ بالا آیت میں الکتابسے بھی قرآن مراد نہیں لیا بلکہ جنسِ الکتاب مراد لی ہے جس کا مطلب ہے: وہ سلسلۂ کتب جو اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں نازل کیا ہے۔ اس سے خاص قرآن مراد نہیں لیا جاسکتا، بلکہ ہر الہامی کتاب اس میں داخل ہے۔ اس کے علاوہ علامہ زمخشری نے میزان کو قرآن کی صفت نہیں مانابلکہ 'و' کو عاطفہ مانا ہے اور قرآن اور میزان کو دو الگ الگ چیزیں قرار دیا ہے۔ نیز اُنہوں نے میزان کے دو معنی لکھے ہیں ، ایک 'عدل و انصاف' اور دوسرے 'ترازو'

لہٰذا جب عربی زبان کے امامِ لغت نے مذکورہ آیت میں نہ تو قرآن کو میزان قرار دیا ہے اور نہ 'و'کو بیان یا تفسیر کے معنوں میں لیا ہے بلکہ واؤ عاطفہ قرار دے کر اس سے 'عدل وانصاف' یا 'ترازو'کے معنی لئے ہیں تو غامدی صاحب کس بنیاد پر اس آیت سے قرآن کا میزان ہونامراد لے سکتے ہیں ؟ الکشاف کی پوری عبارت باحوالہ یوں ہے:
أنزل الکتاب، أي جنس الکتاب {وَالْمِیْزَانَ} والعدل والتسویة، ومعنی إنزال العدل أنه أنزله  في کتبه المنزلة وقیل الذي یوزن به3
آیت ِمذکورہ کا یہی مفہوم امام طبری رحمة اللہ علیہ نے 'تفسیر طبری' میں ، امام قرطبی رحمة اللہ علیہ نے 'تفسیر قرطبی' میں ، حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے 'تفسیر ابن کثیر' میں ، علامہ شوکانی رحمة اللہ علیہ نے 'فتح القدیر' میں ، علامہ محمود آلوسی رحمة اللہ علیہ نے 'روح المعانی' میں اور احمد مصطفی مراغی رحمة اللہ علیہ نے 'تفسیر مراغی' میں بیان کیا ہے۔

ان میں سے کسی مفسرنے اس آیت میں الکتاب سے نہ تو قرآن مراد لیا ہے اور نہ میزان کواس کی صفت قرار دیاہے۔ بلکہ اُمت ِمسلمہ کے یہ تمام معتمد علیہ اور عربی زبان و ادب کے ماہر مفسرین کرام اس آیت کا ایک ہی مفہوم مراد لیتے ہیں کہ اس میں الکتاب سے سلسلۂ کتب مراد ہے اور میزان سے یا تو عدل و انصاف مراد ہے یا پھر ترازو مراد ہے، ان میں سے کسی نے بھی اس آیت کا وہ مفہوم نہیں لیا جو غامدی صاحب اس آیت سے کشید کرتے ہیں ۔

قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کرنا اعلیٰ اور معتبر ترین تفسیر ہوتی ہے، کیونکہ ''القرآن یُفسِّر بعضہ بعضا'' کا اُصول ایک مُسلّمہ اُصول ہے۔ اس اُصول کے تحت جب ہم اس آیت کے نظائر کامطالعہ کرتے ہیں تو اِن سے بھی قرآن کامیزان ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں مثال کے طور پر صرف دو آیات ملاحظہ ہو ں :
(الف) {لَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا رُ‌سُلَنَا بِٱلْبَيِّنَـٰتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْمِيزَانَ لِيَقُومَ ٱلنَّاسُ بِٱلْقِسْطِ...﴿٢٥﴾...سورة الحدید}
''بے شک ہم نے اپنے پیغمبروں کو نشانیاں دے کر بھیجا اور اُن کے ساتھ کتابیں نازل کیں اور ترازو بھی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ۔''

اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے ہر دور میں واضح نشانیوں کے ساتھ پیغمبر بھیجے، کتابیں نازل کیں اور ان کتابوں کے ساتھ ترازو یعنی عدل و انصاف کا تصور اور اس کے بارے میں حکم بھیجا تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رہیں اور ظلم و زیادتی سے باز رہیں ۔

مذکورہ بالا آیت سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی کہ قرآن میزان ہے، کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ قرآن میزان ہے تو لامحالہ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہ قرآن تمام پیغمبروں ؑپر نازل ہوا ہے جب کہ واقع میں ایسانہیں ہے۔ میزان تو پہلے بھی تھی اور عدل و انصاف کا تصور اور حکم پہلے بھی تھا مگر قرآن صرف اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر نازل ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن میزان نہیں ہے۔

(ب) 'میزان' کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کے لئے ایک نظیر یہ بھی پیش نظر رہے کہ
{وَٱلسَّمَآءَ رَ‌فَعَهَا وَوَضَعَ ٱلْمِيزَانَ ﴿٧﴾ أَلَّا تَطْغَوْا فِى ٱلْمِيزَانِ ﴿٨﴾ وَأَقِيمُوا  ٱلْوَزْنَ بِٱلْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُ‌وا  ٱلْمِيزَانَ ﴿٩...سورة الرحمن}
''اور اُسی نے آسمان کوبلند کیا اور ترازو رکھ دی تاکہ تم لوگ تولنے میں زیادتی نہ کرو بلکہ انصاف سے پورا تولو اور کم نہ تولو۔''

سورۂ رحمن کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے پہلے آسمان کی تخلیق کاذکر فرمایا ہے اور پھر میزان یعنی ترازو رکھنے کو واضح فرمایا ہے۔ پھر یہ حکم دیا ہے کہ تول ٹھیک رکھو، پورا تولو اور تول میں کمی نہ کرو۔ ان آیات کا سیدھا سادا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان بنانے کے بعد انسانوں کو میزان کا تصور دیاہے تاکہ وہ عدل و انصاف سے کام لیں ، تول پورا رکھیں اور تول میں ہرگز کمی نہ کریں ۔

یہ آیات بھی قرآن کے میزان ہونے کی نفی کرتی ہیں ۔ کیونکہ آسمان، زمین، سورج اور چاند کی تخلیق کے ساتھ اوّل روز سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو میزان یعنی عدل و انصاف کا تصور دیا اور پھر حکم دیا کہ لوگ عدل و انصاف سے کام لیں ، ترازو سیدھی تولیں اور ڈنڈی نہ ماریں ۔

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزول سے بھی بہت پہلے وضع المیزان (میزان رکھی گئی) ہوچکی تھی۔ اس لئے قرآن کو میزان قرار دینا کسی طرح صحیح نہیں ۔

ایک معمولی عقل کا آدمی بھی جانتا ہے کہ میزان (ترازو) کاکام کسی شے کو صرف تولنا اور اس کا وزن بتانا ہوتا ہے، اس کا کام اچھی اور بُری یا اصلی اور نقلی چیز میں فرق و امتیاز کرنا نہیں ہوتا۔ آپ اصلی اور نقلی سونے کو تول کر اُن کاوزن معلوم کرسکتے ہیں مگر میزان کے ذریعے سونے کے اصلی یا نقلی ہونے کا پتہ نہیں چلاسکتے۔ میزان کا کام تولنا ہے، وہ کھری چیز کو بھی تولے گی اور کھوٹی چیز کو بھی تولے گی، وہ حلال شے کوبھی تولے گی اور حرام شے کو بھی تولے گی مگر وہ کھری اور کھوٹی چیز میں یا حلال اور حرام شے میں امتیاز نہیں کرسکے گی۔

غامدی صاحب کومعلوم ہونا چاہئے کہ جب وہ قرآن کو 'میزان' قرار دیتے ہیں تو وہ گویا قرآن کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ گویا نعوذ باللہ قرآنِ مجید ایک ایسی میزان ہے جو اس لئے نازل ہوئی تاکہ لوگ اس کے ذریعے سے ہر طیب، نجس، پاک اور ناپاک چیز کو تول کر اس کاوزن معلوم کرلیا کریں ۔

دراصل غامدی صاحب کے لئے قرآن کو 'میزان' کہنا ایک 'ضرورت' ہے تاکہ وہ اس کی آڑ میں آسانی سے جس حدیث کا جب چاہیں ، یہ کہہ کر انکار کردیں کہ یہ تو قرآن کی 'میزان' پر تولنے کے بعد 'باطل' ثابت ہوئی ہے لہٰذا اسے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے۔ یاد رہے کہ غامدی صاحب اپنی اس 'میزان ' کے حربے سے بالفعل بہت سی احادیث ِصحیحہ کا انکار کرچکے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ غامدی صاحب کا یہ کہنا کہ قرآن میزان ہے ایک بالکل بے اصل بات ہے۔

البتہ غامدی صاحب نے اپنی کتاب کا نام 'میزان' ضرور رکھا ہے، گویا اُنہیں یہ اِدعا ضرور ہے کہ ان کی یہ کتاب ایک میزانِ عدل کی حیثیت رکھتی ہے۔ایک طرف تو وہ یہ حیثیت قرآن کو دیتے ہیں ، اور ساتھ ہی اپنی تصنیف کو بھی اسی شان سے متصف ٹھہراتے ہیں !!

کبھی صرف قرآن میزان ہے تو کبھی سنت بھی میزان!
غامدی صاحب کبھی صرف قرآن کو میزان قرار دیتے ہیں اور کبھی اس کے ساتھ سنت کو بھی میزان ٹھہراتے ہیں ۔ کبھی ایک میزان اور کبھی دو میزانیں ۔ چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
''قرآن میزان ہے ... چنانچہ تولنے کے لئے یہی ہے۔ اس دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس پر اسے تولاجاسکے۔''4
''ہر چیز اب اسی میزان (قرآن) پر تولی جائے گی۔''5

مگر دوسرے موقع پر صرف قرآن ہی میزان نہ رہا بلکہ قرآن کے ساتھ سنت بھی میزان بن گئی۔ پہلے ایک میزان تھی، اب دو ہوگئیں اور تضاد بالکل واضح ہوگیا۔ چنانچہ 'اشراق' جس کے مدیر غامدی صاحب ہیں ، میں یہ اشتہار عرصے تک چھپتا رہا کہ
''قاری محترم ! اشراق ایک تحریک ہے، علمی تحریک ... فکر و نظر کو قرآن و سنت کی میزان میں تولنے کی تحریک... ''6

اس طرح غامدی صاحب ایک طرف صرف قرآن کو میزان قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف سنت کوبھی میزان مانتے ہیں اور یہ چیز اُن کے ہاں کھلے تضاد کی صورت میں موجود ہے!


حوالہ جات
1. میزان: ص22، طبع دوم اپریل 2002ء واُصول و مبادی: ص23،22 طبع فروری 2005ء
2. ملاحظہ ہو: البرہان :ج1؍ ص273 تا 276
3. الکشاف:ج3؍ ص465، طبع مصر 1392ھ
4. میزان: ص22 ، طبع دوم اپریل 2002ء
5. میزان: حصہ اوّل، ص140، طبع 1985ء
6. ماہنامہ اشراق، بابت اپریل تا دسمبر1991ء