وفاق ہائے مدارسِ دینیہ کی خدمت میں چند گزارشات

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی معاشرے میں دینی لحاظ سے اس وقت جتنی رونق اور حرکت نظر آتی ہے، اس کا ایک بڑا ذریعہ اور سبب ہمارے دینی مدارس ہیں جن سے فارغ التحصیل ہونے والے علماے کرام ہماری مساجد کو آباد رکھنے اور معاشرے کی مذہبی رسوم ادا کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ راقم مدارس کے اسی کردار کی وجہ سے ان کامداح ہے اور ان کے نظام کو بہتر اور خوب تر بنانے کے لئے کوششیں کرتا رہتا ہے۔

ہمارے ادارے نے اہل سنت کے چار وفاقوں کے زعما کی مشاورت اور ان کے تعاون سے پچھلے سالوں میں دینی مدارس کے نصاب کی بہتری اور اساتذہ کی تربیت جیسے متعدد اقدامات کئے ہیں۔ حال ہی میں ملک کے سب سے بڑے وفاق 'وفاق المدارس العربیہ' میں اختلاف و انتشار کی خبروں سے راقم کو بھی دُکھ پہنچا ہے اور بعض دیگر وفاقوں کے حالات بھی اس کے علم میں ہیں لہٰذا وہ دینی مدارس سے محبت اور خیرخواہی کے جذبے سے، نہ کہ کسی خاص گروہ کی حمایت یامخالفت کی وجہ سے، اہل مدارس کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہے۔ اگر وہ مناسب سمجھیں تو اپنے وفاق سے متعلق ان تجاویز پر عمل کرسکتے ہیں۔

وفاق بنیادی طور پر حکومت سے منظور شدہ ایک تعلیمی امتحانی ادارہ ہے جوملحقہ مدارس کے طلبا کا امتحان لیتا اور سند جاری کرتا ہے، جس طرح کہ ملک میں جدید تعلیم کے لئے قائم سیکنڈری بورڈ اور یونیورسٹیاں کرتی ہیں۔ صرف امتحانی شعبے کے ایک انتظامی ادارے کی حیثیت سے اُصولاً وفاق کا ملکی سیاست یا دوسرے دینی کاموں،جیسے دعوتِ دین و تبلیغ، امربالمعروف و نہی عن المنکراور نفاذ ِ شریعت وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ اگر وفاق چاہیں تو اپنے مستقل مدارس بھی قائم کرسکتے ہیں۔ ہماری معلومات کی حد تک ابھی کسی وفاق نے کوئی ایسا تعلیمی ادارہ قائم نہیں کیا ہے۔

اسی وجہ سے وفاق سے ملحقہ مدارس سے تعلق رکھنے والے علما اور طلبا اگر تعلیم و تعلّم کے علاوہ دوسرے دینی شعبوں میں کام کرناچاہتے ہوں اور مدارس بحیثیت ِآجر i کے، اگر اُنہیں اس امر کی اجازت بھی دے دیں تو ان علما و طلبا کو چاہئے کہ وہ دین کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والی جماعتوں اور اداروں کے تحت اور ان کے نام سے ہی کام کریں۔ اس صورت میں کسی دینی مدرسے کا علما اور طلبا کی ان سرگرمیوں سے براہِ راست کوئی قانونی تعلق نہ ہوگا۔ اور مدرسے کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ بحیثیت ِآجر اپنے ملازم علما اور طلبا کو سیاسی، دعوتی، سماجی سرگرمیوں کی اجازت نہ دے۔ ہمارے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ یہ تقسیم کار بہت ضروری ہے ورنہ بڑی خرابیاں پیدا ہوجائیں گی۔

تعلیم و تعلّم دینی اور دنیاوی لحاظ سے ایک پیشہ ہے اور اس سے وابستہ لوگوں کا رویہ پیشہ ورانہ (پروفیشنل) ہونا چاہئے۔ اسی طرح سیاست بھی آج کل ایک کل وقتی پیشہ ہے اور ایک ایسا پیشہ جس میں اختلاف، کشمکش اور نزاع بہت زیادہ ہے۔ اس لئے وفاقوں کو چاہئے کہ وہ ایک اُصولی فیصلہ کریں کہ ان کاکوئی عہدیدار ایسا عالم دین نہیں ہوگا جو عملاً سیاست دان ہو۔

وفاقوں کو یہ فیصلہ بھی کرلیناچاہئے کہ کوئی ایسا شخص کسی وفاق کا عہدیدار نہیں ہوسکتا جو باقاعدہ سند یافتہ عالم دین نہ ہو یا مدرسے کامعلّم یا مہتمم نہ ہو اور نہ وہ کوئی ایسا شخص ہو جس کا اکثر وقت کسی دوسری سرگرمی مثلاً ملازمت یا تجارت وغیرہ میں گزرتا ہو۔

وفاق سے ملحق دینی مدارس کا یہ بھی فرض ہے کہ اگر وفاق کے نظم کے مطابق عہدیداروں کا تعین الیکشن سے ہوتا ہو تو وہ اس انتخاب کو سرسری طور پر نہ لیںبلکہ اسے ایک زندہ سرگرمی بنائیں اور باقی اُمور سے قطع نظر صرف اس شخص کو ووٹ دیں جو وفاق کی تعلیمی سرگرمیوں کی دیکھ بھال کرنے کااہل ہو۔ سن رسیدہ،بیمار یا کسی دوسرے دینی شعبے میں مصروف شخص کو وفاق کا عہدیدار منتخب نہیں کرناچاہئے۔

یہ طریقہ اور روایت بھی صحیح نہیں ہے کہ جو شخص کسی وجہ سے ایک دفعہ عہدیدار منتخب ہوجائے، پھر از راہِ احترام تا زندگی اُسے ہی منتخب کیا جاتا رہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ قانون بنا دیا جائے کہ کوئی شخص مسلسل دو سے زیادہ دفعہ منتخب نہ ہو، تاکہ ادارے کو نیا خون اور تازہ دم قیادت میسر آتی رہے۔ نظام کی بہتری کے لئے نئے تجربات کئے جاتے رہیں اور اسے خوب سے خوب تر بنانے کی کوششیں جاری رہیں۔

اگرچہ کسی بھی پیشہ ورانہ ادارے کے قائدین میں صلاحیت کے علاوہ دیانت و امانت اہم کردار ادا کرتے ہیں، تاکہ اِلحاق کرنے والے رکن اداروں کا اعتماد قیادت پر بحال رہے لیکن مدارس کا کام چونکہ دینی نوعیت کا ہے اور علماے کرام معاشرے میں دین کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ وفاق کے عہدیداروں کا اخلاقی معیار اونچا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ کسی وفاق کا کوئی بھی عہدیدار حکومت کے کسی منافع بخش عہدے کو قبول نہ کرے اور نہ وہ حکومتی حلقوں میں اپنے تعلقات بڑھائے تاکہ کسی کو اُس پر اُنگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ اگرچہ پہلے بھی اسلاف اس امر کا لحاظ رکھا کرتے تھے جیسا کہ امام ابوحنیفہ نے قضا کا عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ تاہم ہمارے عہد میںتو دو مزید خرابیوں نے اس شرط کو بالکل ناگزیر بنا دیا ہے۔ ایک تو یہ کہ مسلم معاشرے میں عوام اور حکمرانوں میں بُعد ہے۔ عوام اسلا م پسند ہیں اور حکمران مغرب پسند یا سپرقوتوں سے وابستہ۔ دوسرے، خفیہ ایجنسیوں کا کردار جو ہر طالب ِعلم یا عالم دین کو قابو کرنے کی تگ و دو میں رہتی ہیں تاکہ حکمرانوں اور حکومتوں کے مفادات کا تحفظ ہوسکے۔ اس لئے کوئی حرج نہیں کہ وفاق کے عہدوں کے لئے درکار اہلیت میں قانوناً اس شرط کا اضافہ کردیاجائے کہ وفاق کا کوئی عہدیدار کسی منافع بخش حکومتی عہدے پر متمکن نہ ہو۔

وفاق کے عہدیداروں کے لئے علم و عمل کی شرائط کی بات ہورہی ہے تو غالباً اس کے لئے عمر کی حد کم از کم چالیس سال بھی مقرر کردینی چاہئے کیونکہ اس عمر کو پہنچنے تک سنجیدگی، متانت، ٹھہراؤ اور صلاحیتوں کے بلوغ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ممکن ہے دینی حلقوں میں اسے ناپسندیدہ سمجھا جائے، لیکن اُصولاً علم اور تجربے کی شرط بھی رکھی جاسکتی ہے۔ جس نے کبھی دینی مدرسے میں اعلیٰ جماعتوں کو پڑھایا نہ ہو، جس کی کوئی دینی تصنیف نہ ہو اور جس کا تبحر علمی معروف نہ ہو، اسے دینی مدارس کے امتحانی ادارے کی قیادت آخر کیوں سونپی جائے...؟

جیسا کہ دیگر اداروں میں نصب و عزل کے قواعد ہوتے ہیں، اسی طرح وفاقوں کے لئے بھی بنائے جاسکتے ہیں مثلاً تقرر کے وقت، انتخاب کے لئے رائے شماری تحریری اور خفیہ ہونی چاہئے۔ اسی طرح اگر کوئی عہدیدار' رکن' مدارس کا اعتماد کھو دے تو آئین میں اس کے عزل کا طریق کار بھی واضح ہونا چاہئے۔

ہماری حکومتیں اکثر دینی مدارس کے ساتھ مخلص نہیں ہوتیں اور اُنہیں اپنے تعلیمی منصوبوں میں حقیقی طور پر قبول نہیں کرتیں اور نہ ہی ان کے فضلا کے مستقبل کے لئے اچھے مواقع پیدا کرنے پر تیار ہیں۔ ورنہ اُولی الامر ہونے کی حیثیت سے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کے معاملات کو کنٹرول کرنے کے لئے نظم و قواعد بنائیں اور نافذ کریں۔ موجودہ حالات میں دینی مدارس کی قیادت کو خود ہی اِن معاملات کو سلجھانا پڑے گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ جذباتی ہوئے بغیر ٹھنڈے دل ودماغ سے اداروں کوچلایا جائے۔ اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالی جائے کہ یہ اجتماعی معاملات میں ناگزیر ہوتاہے اور محض شک و شبہ کی بنا پر کسی کی علانیہ کردار کشی نہ کی جائے۔

اسلامی اخلاق کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کسی شخص کو وفاق کے عہدے کاطلب گار نہیں ہونا چاہئے اور نہ اس کے لئے لابنگ اور جتھہ بندی کرنی چاہئے۔ اور اگر کوئی شخص احباب کا اعتماد کھو دے تو اسے منصب سے چمٹے رہنے کی بجائے خود ہی فوراً منصب سے الگ ہوجانا چاہئے کہ نزاہت اور اخلاقی عظمت اسی میں ہے۔ ان باتوں کے لئے اگر ناگزیر ہو تو قواعد و ضوابط بنائے جاسکتے ہیں جیساکہ کچھ دینی جماعتوں اور اداروں نے بنائے ہوئے بھی ہیں خصوصاً رفع نزاع کا طریق کار اورفورم بھی ان قواعد میں مذکور ہونا چاہئے۔ تلک عشرة کاملة

دینی مدارس بالخصوص وفاقوں کے اہل حل و عقد سے درخواست ہے کہ وہ ان گزارشات پر ہمدردانہ غور فرمائیں جو محض اخلاص اور دردمندی سے پیش کی گئی ہیں اور ان سے مقصود نہ کسی کی حمایت ہے اور نہ کسی کی مخالفت بلکہ وفاقوں کو بحیثیت ایک تعلیمی ادارہ مضبوط و مستحکم دیکھنے کی خواہش ہے۔ إن أرید إلا الإصلاح ما استطعت وما توفیقي إلا باﷲ العلي العطیم


 

i. یہاں "آجر" کا لفظ مفہوم کی وضاحت کے لیے بولا گیا ہے جو مشاہرہ یا خدمت کے معنی میں ہیں۔ ورنہ مدارس کے طلبہ جس نوعیت کا علم حاصل کرتے ہیں ، اس کو جنس بازار بنا کر اس کا معاوضہ کرنا ویسا ہی محل نظر ہے۔ نہ ہی اپنے طلبہ کے لیے یہ ہدف یہ مدارس کے منتظمین و معاونین بلکہ کود طلبہ کے پیش نظر ہوتا ہے۔ ح م