اعتدال پسندی یا مغرب پرستی ؛ چند تاثرات

موجودہ دور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فکری یلغار کا دور ہے۔ ہمارے حریف نے جب ہمیں میدانِ جنگ میں ناقابلِ تسخیر پایا تو اس نے نظریاتی محاذ پر ہمیں فتح کرنے کا فیصلہ کیا۔ دشمن کا یہ وار کارگرثابت ہوا اور وہی قوم جوشمشیر و سناں کے میدان میں ناقابلِ شکست تھی فکری محاذ پر دشمن کے سامنے نیم بسمل آہو کی طرح ہوکر رہ گئی۔ چنانچہ اس نے جس نظریے اور سوچ کوجس انداز میں بھی ہمارے ذہنوں میں اُتارنا چاہا، ہم نے اسے بسروچشم قبول کیا۔ اس نے جس چیز کو اچھا کہا، ہم نے بھی اس کے لئے سند ِتحسین جاری کردی اور جس چیز کو قابل نفرت گردانا، ہم اس سے اپنا دامن بچانے کو اپنے لئے لائقِ صد افتخار جاننے لگے۔ حتیٰ کہ اپنی اَقدار و روایات کو فراموش کرکے فرنگی تہذیب کے دامِ فریب میں کچھ ایسے گرفتار ہوئے اور اس کے اعضاے ترکیبی اور عارض و رخسار کی رنگینی کچھ اس انداز سے جی کو بھائی کہ جسم کا انگ انگ سرشاری و سرمستی کے عالم میں پکار اُٹھا ؎


سرمایۂ نشاط تری ساقِ صندلی
بیعانۂ سرور ترا مرمریں بدن

چنانچہ یہ بات بھی اسی سوچی سمجھی سازش کا حصہ معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کی ہر منفرد خوبی اور اچھائی کو جو اسلام اور اہل اسلام کے لئے سرمایۂ ناز ہو، کسی ایسے مفہوم میں رنگ دیا جائے جس سے مسلمانوں کو روحِ اسلام سے دور لے جاکر لاشعوری طور پر اپنے مخصوص نظریات و مقاصد کا ہم نوا بنا لیا جائے اور دوسری طرف ہر ایسی برائی کو جسے اپنانے سے نوعِ انسانی کی اکثریت گریزاں ہو، معنی و مفہوم کے کسی ایسے سانچے میں ڈھال دیا جائے جس سے خود مسلمانوں کو اپنا دامن اس برائی میں ملوث نظر آنے لگے اور یوں اچھائی سے محبت اور برائی سے نفرت کی وہ خوبیاں جو اَزل سے انسان کی سرشت میں داخل ہیں ، ان کا رخ اسلام کے خلاف موڑ کر مسلمانوں کو بالخصوص اور دیگر مذاہب سے وابستہ لوگوں کو بالعموم اسلام سے دور کیا جاسکے۔ چنانچہ اسی منصوبہ کے تحت موجودہ دور میں جہاں دہشت گردی، بنیاد پرستی اور روشن خیالی جیسی معروف اور مسلمہ اَقدار و روایات کو معانی و مفاہیم کے نئے لبادے اوڑھا دیئے گئے ہیں ، وہاں اعتدال اور میانہ روی جیسی خوبی کے حقیقی معنی کوبھی غلط مفہوم کے لباس میں چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ باور کروایا جارہا ہے کہ اعتدل پسندی سے مراد یہ ہے کہ ہر جائز وناجائز نظریے کو صحیح سمجھا جائے، ہر روا و ناروا عقیدے کو برداشت کیا جائے اور ہر غلط اور صحیح اندازِ فکر کودرست تسلیم کر لیا جائے، اگرچہ دلائل و شواہد کی تمام کڑیاں اس کے خلاف گواہی دے رہی ہوں ۔ بقولِ اکبر الہ آبادی ؎
مغوی کو بُرا مت کہو، ترغیب ہے یہ میں کس سے کہوں ، نفس کی تخریب ہے یہ
شیطان کو 'رجیم' کہہ دیا تھا اِک دن ایک شور اُٹھا، خلافِ تہذیب ہے یہ !!

جبکہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دانشور حضرات مغرب سے درآمد شدہ کسی بھی نظریے اور سوچ کی تشہیر و تبلیغ میں  غیروں سے بھی نہ جانے کتنے ہاتھ آگے نکل جاتے ہیں ۔ ان لوگوں کے اس طرزِ عمل کو کس نام سے موسوم کیا جائے کہ یہ حلقۂ یاراں میں تو اپنے اسلام اور ایمان کے مماثل کسی کے ایمان کو تسلیم نہیں کرتے، لیکن بیگانوں سے نگاہیں دوچار ہوتے ہی ان کو اپنا وہ ایمان بھی ایک ناقابلِ برداشت بوجھ معلوم ہونے لگتا ہے جس کو خود ان کے اپنے قلوب و اذہان نے اپنے مخصوص پیمانے کے ذریعے قرآن و سنت سے کشید کیا ہوتا ہے۔
ہمارے یہ دانشور اسی مخصوص سوچ اور نظریے کے تحت اعتدال کے اس مفہوم کا لوگوں کو درس دے رہے ہیں جو اہل مغرب کو سجھائی دیا ہے اور وہ مفہوم یہ ہے کہ اپنے مذہب، عقیدے اور سوچ سے اسی قدروابستگی رکھنی چاہئے جس سے ہر مسلک، ہر عقیدے اور ہر مذہب سے وابستہ شخص کی تسکین کا سامان ہوسکے، جو ہر کسی کے ہاں قابل قبول ہو اور بعض 'ناگزیر' قسم کے حالات میں اپنے رہے سہے عقیدہ سے بھی دستبردار ہونا پڑے تو بلا تامل یہ قربانی بھی دے دینی چاہئے۔ یہ نظریہ کہاں تک درست ہے؟ اس سے بین الملّی مصالحت کے کتنے امکانات اُبھرتے ہیں ؟ اور یہ مذہب سے بیزارلوگوں کے لئے خوشحالی کے کتنے پہلو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے؟ فی الحال ان سوالات کو نظر انداز کیجئے، سردست صرف اتنی بات پر غور کیجئے کہ اس نظریے کے اوّلین خالق خود کہاں تک اپنے اس فلسفے پر عمل پیرا ہیں ؟
ہمیں اس بات سے غرض نہیں ہے کہ وہ تو اپنے اصل مذہب سے پہلے ہی بہت دور جاچکے ہیں ۔ بلکہ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ ان کے اپنے نفس اور خواہش نے جس چیز کو بھی ان کی آنکھوں میں مذہب بنا کر دکھایا ہے، وہ اس میں رواداری اور نرمی کے کہاں تک قائل ہیں ؟ کیا وہ لوگ خود اس مقصد کو پورا کررہے ہیں جس کے تحت اُنہوں نے یہ نظریہ پیش کیا ہے؟ یعنی تصادم سے گریز، دوسروں کی رائے کااحترام اور اپنے قلوب و اذہان کو ہر قسم کی مذہبی، علاقائی اور نسلی عصبیت سے پاک رکھنا...
اس سوال کاجواب کسی بھی صاحب ِبصیرت شخص پر مخفی نہیں ہے! حقیقت یہ ہے کہ اس نوع کے سارے نظریے، ساری اصطلاحیں ، سارے الفاظ اور سارے خرخشے صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص ہیں ، کیونکہ ان لوگوں کے ہاں اگر کوئی مذہب شدت پسند ہے تو وہ صرف اسلام ہے اور بنیاد پرستی صرف مسلمانوں کا وصف ہے۔ تعجب ہے ان دانشورانِ ملت پر جو اس ساری سازش سے واقف ہوتے ہوئے بھی برابران کی ہاں میں ہاں ملائے جا رہے ہیں ۔


؎ اسی کی سی کہنے لگے اہلِ حشر
کہیں پرسشِ داد خواہاں نہیں ہے


مرے تھے جن کے لئے...!
اہل مغرب کانسل انسانی سے ملّی، مذہبی، قومی اور علاقائی تعصب کوئی ایسی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے جس کو ثابت کرنے کے لئے دلائل کاطومار باندھنا پڑے۔ بالخصوص حالیہ چند برسوں کے دوران 'تہذیب' کے ان علمبرداروں کا چہرہ جس طرح بے نقاب ہوا ہے اور ان کے خانہ ساز نظریۂ اعتدال کی قلعی جس انداز میں کھلی ہے، وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ان کا یہ کردار جو بالخصوص نائن الیون کے بعد سے اب تک سامنے آیا ہے، کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ وہ 'گراں قیمت ترکہ' ہے جو اس 'مہذب قوم' کو اپنے آباء و اجداد سے تسلسل کے ساتھ بطورِ ورثہ منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ صدیوں پر محیط اس رودادِ ظلم میں سے صرف ایک مثال دیکھئے:
''تاریخ کا یہ بے لاگ تجزیہ ہے کہ اگر مسلمان سپین اور سسلی نہ جاتے تو یورپ بداخلاقی کی اتھاہ گہرائیوں سے کبھی نہ نکل پاتا، لیکن مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ عہد ِحکومت کے بعد جب زمامِ اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ آئی تو اسلام، انسانیت اور علم دشمنی کی ایسی ایسی داستانیں رقم کی گئیں کہ کائنات کا کلیجہ لرز گیا۔ مسلمانوں سے بالجبر اسلام ترک کروانے کی مہم شروع کی گئی اور تمام سرکردہ مسلمانوں کو جن کی تعداد ساڑھے تین لاکھ تھی، پکڑکر مذہبی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، ان میں سے اٹھائیس ہزار پانچ سو چالیس کو موت کی سزا ملی اور بارہ ہزار کو زندہ جلا دیا گیا، ان کی سینکڑوں لائبریریاں جن میں لاکھوں کتابیں تھیں ، سپردِ آتش کردی گئیں ۔ ''1
ایک طرف تو اہل یورپ کا 'اعتدال' پر مبنی یہ طویل نامۂ اعمال ملاحظہ کیجئے اور دوسری طرف یورپ ہی کے ان اہل علم اور ارباب ِ فکر کے طرزِ عمل پر بھی نگاہ دوڑایئے جن کا کام اپنی قوم کی اصلاح کرنا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے اہل قلم اور مفکرین کسی بھی قوم کے لئے سرمایۂ افتخار ہوا کرتے ہیں جو اپنی قوم کے حقیقی علل و امراض کا پتہ لگا کر ان کا درست حل تجویز کریں اور ان کی اصلاح کا گراں بار فریضہ سرانجام دیں ، لیکن اہل یورپ کے مجموعی طرزِعمل سے مایوس ہوکر جب ہم اس گروہِ تحقیق سے کوئی 'اعتدال پسنددانشور' تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو چہار سو ہوکا عالم نظر آتا ہے۔ ان کی تمام تر تحقیقات، کاوشوں اور خامہ فرسائیوں کا ہدف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ تاریخ اور حقائق کا حلیہ بگاڑ کر اسلام اورمسلمانوں کو دہشت گردی، بنیاد پرستی، علم سے تہی دامن اور تہذیب سے بے بہرہ ثابت کیا جائے اور دوسری طرف اپنی 'مہذب' قوم کی سیاہ و سفید کارروائیوں کو اعلیٰ کارنامے بنا کر پیش کیا جائے، ان کے لئے دلائلِ جواز مہیا کئے جائیں اور ان کی بدنمائیوں کو علم و تحقیق کا خوش نما اور جاذب لباس میں لپیٹا جائے تاکہ ایک طرف یہ ظلم و سفاکی کی سیاہ داستانیں بھی رقم کرتی رہے اور دوسری طرف ان تمام کارروائیوں کے لئے سند ِجواز بھی اس کے ہاتھ میں رہے۔ اگرچہ ان مفکرین کی علمی بددیانتیوں پر مبنی طویل فہرست میں سے چند ایک مثالیں یہاں بھی ذکر کی جاسکتی ہیں ،

لیکن اس خوف کے پیش نظر ان کو نظر اندازکیا جارہا ہے کہ اگر ایک شخص کے ظلم و سفاکی پر مبنی طویل اعمال نامے میں سے چند ایک باتوں کو بیان کردیا جائے تو درحقیقت اس کا اصل مکروہ چہرہ ان 'چند ایک مثالوں ' کے پردے کے پیچھے چھپ جایا کرتا ہے اور سننے والا یہ خیال کرتا ہے کہ شاید اس کے اعمال نامے میں یہی چند ایک گنے چنے جرائم ہیں جن کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔
البتہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب'یورپ پر اسلام کے احسانات' کے حوالے سے چند ایک ایسی عبارتیں پیش خدمت ہیں جو اہل مغرب کی عمومی اور مجموعی ذہنیت کی آئینہ دار ہیں اور جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جواہلِ قلم اس انداز کی سوچ اور ذہنیت کے حامل ہوں ، ان کے قلم علم و تحقیق کے نام پر کیا کیا گل فشانیاں اور گل کاریاں کرتے ہوں گے۔
رابرٹ بریفاٹ اپنی کتاب 'تمدنِ عرب' میں ایک مقام پر لکھتا ہے کہ
''یورپی مؤرخ مسلمان کو 'کافر کتا' سمجھتا ہے اور اس کا احسان ماننے کو تیار نہیں ... یورپ کے احیاے نو کی تاریخیں برابر لکھی جارہی ہیں ، لیکن ان میں عربوں کا ذکر موجود نہیں ... مؤرخینِ یورپ نے عربوں کی ہر ایجاد کا سہرا اس یورپی کے سرباندھ دیا ہے جس نے پہلے پہل اس کا ذکر کیا تھا۔''
اسی طرح موسیولیبان شَهد شاھد من أھلھا کے مصداق اپنی کتاب 'تشکیل انسانیت' میں رقم طراز ہے کہ
''ہمیں اسلام اور پیروانِ اسلام سے تعصب وراثت میں ملا ہے جو اَب ہماری فطرت کا جزو بن چکا ہے ... ہماری کم بخت تعلیم نے ہمارے ذہنوں میں یہ بات راسخ کردی ہے کہ ہمارے تمام علوم و فنون کا ماخذ یونان ہے اور یورپ کی تہذیب میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ۔''2

مزید برآں اسلام اور اہل اسلام کے متعلق ان مفکرین کے منفی طرز عمل اور سوچ کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 1712ء میں ایڈرین ری لینڈ نے جو Utreacht یونیورسٹی میں عربی کا پروفیسر تھا، جب اپنی قوم کے صدیوں پر مشتمل اسلام مخالف رویے کو محسوس کیا تو اس کے ذہن میں داعیۂ انصاف نے کروٹ لی اور بقول ڈاکٹر غلام جیلانی برق اس نے مسلمانوں کے متعلق یہ پہلا کلمہ خیر لکھا ہے:
''مسلمان اتنے پاگل نہیں ، جتنا اُنہیں سمجھا جاتاہے۔''
اب اس مختصر سے جملے میں اس نے شعوری یا لاشعوری طور پر ایک طرف تو مسلمانوں کے متعلق اپنی قوم کے مجموعی نظریے اور سوچ کی نشاندہی کردی اوردوسری طرف یہ بھی واضح کردیا کہ اگر یہ قوم کسی درجے میں قابلِ رحم بھی ہے تو اس کی ممکنہ حد کیا ہوسکتی ہے؟ اب اس انصاف پر اس کے سوا اورکیا کہا جائے کہ ع یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو، تو کر!
لیکن یہ ضرور عرض ہے کہ حضور! آپ کی رضا مسلمانوں کے صدیوں پر مشتمل ان علمی کارناموں پر پردہ نہیں ڈال سکتی جو آج بھی تاریخ کے اوراق میں دلائل و شواہد سے بے نیاز مہرتاباں کی طرح ضوفشاں ہیں اور جن سے آپ پہلے بھی خوشہ چینی کرتے رہے ہیں اور آج بھی کرنے پر مجبور ہیں بقولِ شاعر ع اسی گھر میں جلایا ہے چراغِ آرزو برسوں
مزید برآں ، اس 'معتدل مزاج' قوم کی اعتدال پسندی کا وہ مظہر تو کسی سے بھی مخفی نہیں ہے جو حالیہ دنوں میں ظہور پذیر ہورہا ہے کہ مسلمانوں کے شدید احتجاج کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی سے متعلقہ خاکے بار بار شائع کئے جارہے ہیں اور پھر انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اس واقعے پر معذرت کی بجائے اسے آزادیٔ اظہار کے پُرفریب نام سے موسوم کیا جارہا ہے۔
اب ایک طرف تو اہل مغرب کی اس تاریخ کو سامنے رکھئے اور دوسری طرف ان مشرقی دانشوروں کے طرزِعمل پر غور کیجئے جو یکے بعد دیگرے اعتدال اور میانہ روی کے نام پر اپنی تمام مذہبی اقدار و روایات سے دستبردار ہوتے جارہے ہیں اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ شاید ہمیں بھی تہذیب کے اس استاد کی طرف سے 'اعتدال پسند' اور 'میانہ رو' کی سند ِفضیلت جاری کردی جائے، لیکن 'عالی جاہ' کے ماتھے کی شکنیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں اور چہرے کی سلوٹیں ہیں کہ بدستور بڑھتی ہی جارہی ہیں ۔ اس صورتِ حال کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ اہل مغرب کے یہ زلہ ربا اس دوڑ میں خدا سے تو بتدریج دور ہوتے ہی جارہے ہیں ، لیکن آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ یہ 'وصالِ یار' سے بھی ہمکنار نہیں ہوپائیں گے۔ مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمة اللہ علیہ کے الفاظ اس صورتِ حال کی کس قدر بھرپور ترجمانی کرتے ہیں ! :
''یہ مستشرقین کی میز سے گرے ہوئے ٹکڑے کھانے والے مسلمان، یہ کعبۂ یورپ کے شوق میں لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں ۔ شیداے مغرب ہونے کے بعد یہ بدقسمت مسلمان مشرقیت سے محروم ہو ہی گئے مگر اہل مغرب میں بھی اُنہیں کوئی مقام نہیں ملا۔یہ گھر اور گھاٹ کے درمیان روایتی کتے کی طرح چکر لگا رہے ہیں۔۔3

اہل مغرب کا پیمانۂ اعتدال
حال ہی میں امریکی ادارے 'رینڈکارپوریشن'(Rand Corporation)کی طرف سے ایک رپورٹ تیار کی گئی ہے جس میں مسلمانوں کو 'اعتدال پسند' بنانے کے ممکنہ وسائل اور طریقوں پر غور کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کی کچھ تفصیل ہفت روزہ 'غزوہ' کے کالم 'حقیقت ِحال' میں بھی شائع ہوئی ہے۔ اس کالم کے مطابق مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ
''حتمی نتیجہ جو پہلے ہی واضح ہے، یہ ہے کہ سچ مچ کے اعتدال پسندوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔''
یعنی پہلے تو اُنہیں پوری دنیا میں صرف مسلمان ہی شدت پسند دکھائی دیئے اور اُنہیں کو اعتدال پسند بنانے کی فکر دامن گیر ہوئی جبکہ دوسری طرف قابل قبول اعتدال کے تعین کے لئے پیمانہ بھی وہ منظور کیاگیا جو یورپ کا تیار شدہ ہو اور جس پر Made in Europeکا ٹھپہ لگا ہوا ہو ۔ کیا کہنے اس اعتدال اور انصاف کے۔ گویا کہ


ع پہلے ڈالی ہے سرِ رشتۂ اُمید میں گانٹھ
پیچھے ٹھونکی ہے بُنِ ناخنِ تدبیر میں کیل

اعتدال کے دعویدار مسلم دانشوروں کا اپنا طرزِ عمل
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مغربی تہذیب کے دلدادہ یہ مسلمان دانشور جو اعتدال اور میانہ روی کے غلط مفہوم کو رواج دے کر مسلمانوں کو اسلام اور ایمان سے بیگانہ بنانا چاہتے ہیں ، وہ خود اپنے اس نظریے میں کہاں تک روادار ہیں ۔اگر یہ واقعی اعتدال پسند ہیں تو اعتدال پسندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ اپنے ساتھ اختلاف کرنے والے کی رائے کو وسعت ظرفی اور خندہ پیشانی کے ساتھ سنا جائے اور اس کی رائے کا خیرمقدم کیا جائے۔ اگر اس کے پیش کردہ نظریے سے اتفاق نہ ہو تو ادب و احترام کے تمام قرینوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے دلائل کے ساتھ اس کے ذہن میں وارد شدہ اشکالات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر وہ مطمئن ہوجائے تو فبہا ورنہ اس کی ذات کو نشانۂ تنقید بنانے سے بہرصورت اجتناب کیا جائے جبکہ ہمارے ان 'اعتدال پسند' دانشوروں کا بنیادی وصف ہی یہ ہے کہ جو کوئی بھی ان کے اس خانہ ساز نظریۂ اعتدال سے اختلاف کرنے کی جرأت کرتا ہے تو طنزو تعریض کے زہر میں ڈوبے ہوئے تیروں کے ذریعے اس کی ذات کو نشانۂ تنقید بنالیا جاتا ہے۔ چنانچہ کبھی تو اس کو بنیاد پرست، قدامت پسند اور جاہل ملّا کے اَلقاب سے نواز کر اپنی تسکینِ طبع کا سامان کیا جاتاہے اور کبھی اس کو جاہل، اُجڈ، گنوار، دور جدید کے تقاضوں سے ناآشنا اور فرقہ پرست ٹھہرا کر اپنی 'اعتدال پسندی' اور 'میانہ روی 'کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جاتاہے۔
اُنہیں اس بات کی خبر ہی نہیں ہوپاتی کہ جو کردار کسی مخصوص فرقے اور گروہ سے وابستہ ایک 'بنیاد پرست ملّا' ادا کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ زہریلا طرزِ عمل یہ 'ملایانِ افرنگ' خود اپنے مخصوص نظریات و مقاصد کے لئے اپنائے ہوئے ہیں ۔ بلکہ مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی باک نہیں کہ ہمارے یہ نام نہاد جدت پسنددانشور، فرنگیوں کی محبت میں سرشار ہوکر اسی قسم کے اعتدال اور میانہ روی کو اپنائے ہوئے ہیں جس کا مظاہرہ 1947ء کے قیامت خیز ہنگامہ میں بابا گورونانک کی نام لیوا اور 'بامسلمان اللہ اللہ، با برہمن رام رام' کے نظریۂ اعتدال پر عمل کی دعویدار اقوام نے دکھایا تھا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر اپنے دین و ایمان سے گہری وابستگی ہی شدت پسندی اور بنیاد پرستی کہلاتی ہے تو پھر اسی نوع کی اعتدال پسندی کو آخر کس نام سے پکارا جائے گا بلکہ یہ تو دوہرا جرم ہوا کہ دعویٰ تو اعتدال کا جب کہ اس کی تبلیغ کے لئے لب و لہجہ ایک متعصب ملا سے بھی زہریلا! اپنے متعلق یہ خوش فہمی کہ ہم میانہ رو ہیں جب کہ کردار ایک شدت پسند سے بھی بدتر۔ غالباً اسی طرح کی صورتِ حال کے متعلق عربی میں کہا گیا ہے کہ فرَّ من المطر وقام تحت المیزاب کہ بارش سے بھاگا اور پرنالے کے نیچے جاکھڑا ہوا۔

سوال یہ ہے کہ اگر اعتدال پسندی اور میانہ روی سے یہی مقصود ہے کہ انسان کے اندر ایسی قوتِ برداشت پیدا ہوجائے جس سے وہ ہر غلط یا صحیح نظریے کے حضور سرتسلیم خم کردے خواہ وہ نظریہ اس کی اپنی فکرسے کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو تو آپس کی رنجشوں سے اس نظریے کے وکلا خود کیوں محروم ہیں اور ان کا اپنا لب و لہجہ اس گراں قیمت خوبی سے کیوں ناآشنا ہے؟ اس سوال کاجواب جاننے کے لئے کسی گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ قول و عمل میں اس تعارض کا سبب دراصل یہ ہے کہ ہمارے یہ نام نہاد اعتدال پسند دانشور خود بھی اپنے اس نظریے کے ساتھ مخلص نہیں ہیں بلکہ درحقیقت اعتدال پسندی کو آڑ بنا کر اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں ۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں مغرب کے اس خود ساختہ نظریۂ اعتدال کی پُرزور وکالت کرنے والوں میں دو طرح کے لوگ شامل ہیں اور یہ دونوں گروہ اپنی اخلاقی کمزوری کے باعث اصل بات کا اظہار نہیں کرتے بلکہ پینترے بدل بدل کر اس کے حق میں دلائل دیتے رہتے ہیں ۔
چنانچہ ایک گروہ میں تو ایسے لوگ شامل ہیں جن کا خیال ہے کہ زندگی میں قدم قدم پر مذہب سے رہنمائی لینا اور مذہبی حدود و قیود کی جکڑبندیوں میں اُلجھے رہنا ایک بالکل فضول سی بات ہے جس کو خواہ مخواہ لوگوں نے اس قدر شدت کے ساتھ اپنا رکھا ہے اور یہ کہ انسان اپنی نجی زندگی میں بالکل آزاد ہے وہ اپنی بہیمی قوتوں کی تسکین کے لئے جو چاہے ذرائع استعمال کرتا پھرے، اسے کسی طور بھی مذہب کی چاردیواری میں مقید نہیں رکھا جاسکتا، کیونکہ مذہب کا انسان کی عملی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ تو چند مخصوص عبادات کے مجموعے کا نام ہے اوربس۔ اب چونکہ ان کے قبلہ و کعبہ یورپ میں اس نوع کے عقائد و نظریات کے لئے ماحول پہلے ہی سے سازگار ہے اور وہ پہلے ہی مذہب کو جلا وطن کرچکے ہیں ۔ لہٰذا اس کامل ذہنی اتحاد کی بنا پر اُنہوں نے یورپ ہی کو اپنی عقیدتوں اور اُمنگوں کا مرکز ٹھہرا لیا اور اسی کو اپنی تمناؤں اور آرزوؤں کا قبلہ و کعبہ جانا، حتیٰ کہ اس حسنِ عقیدت میں خدا اور رسولؐ کو فراموش کرکے مغرب ہی کو اپنا پیغمبر اور پروردگار قرار دے لیا اور مولانا ظفرعلی خان رحمة اللہ علیہ کے الفاظ میں یورپ کو مخاطب کرکے زبانِ حال سے پکارنے لگے کہ


پیغمبر جمال تیری دل رُبا ادا
پروردگارِ حسن تیرا چلبلا چلن

 

اب ظاہر ہے کہ اس نوع کے ملحدانہ عقائد و نظریات ایسی قوم میں کہاں جگہ پاسکتے ہیں جس کا دامن ایک ایسے عظیم الشان مذہب کے بندھن میں بندھا ہو کہ جس کی سادہ اور فطرت کے موافق تعلیمات تمام شعبہ ہائے زندگی پر حاوی ہوں ۔ جو اپنے ماننے والوں کو خارزارِ زندگی کے کسی گوشے میں بھی تنہا اور اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتا ہوا نہ چھوڑے اور جو اُن کے لئے ایک ایسا مربوط، ہمہ جہت اور عالمگیر نظام تشکیل دے جو دنیوی اور اُخروی دونوں زندگیوں کی فلاح کا ضامن ہو۔ لہٰذا ایسے ناسازگار حالات میں ہمارے یہ جدت پسند دانشور ایک طرف تو خود کو اعتدال پسند اور میانہ رو کہہ کراپنے ان ملحدانہ عقائد و افکار کے لئے وجہ ِ جواز پیدا کرتے ہیں اور دوسری طرف میانہ روی اور اعتدال پسندی کے پس پردہ درحقیقت مسلمانوں کو تقلید ِیورپ کے بے رحم شکنجے میں جکڑنا چاہتے ہیں ۔

جبکہ دوسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو اس قسم کے خطرناک عقائد و نظریات کے حامل تو نہیں ہیں اور اسلامی اقدار و روایات کو اپنی زندگیوں سے دیس نکالا نہیں دینا چاہتے۔ لیکن گاہے بگاہے بعض معاملات میں مغربی تہذیب کی چکاچوند روشنی سے بھی ان کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں ۔ اب یہ حضرات مسلمان رہتے ہوئے 'نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن' کے مصداق نہ تو ایسے اسلامی احکامات سے کھلم کھلی بغاوت کا اعلان کرسکتے ہیں جو مغربی تہذیب کی طبع نازک پر گراں گزرتے ہوں اور نہ ہی ایسے احکامات کو اپنا نا ان کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ کہیں مغرب ہمیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے 'گناہِ کبیرہ' سے متصف نہ ٹھہرا دے۔ گویا کہ ایسے میں یہ لوگ بقولِ شاعر :


؎ ایمان مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے

کی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں ۔ لہٰذا اس دو طرفہ اُلجھن کا حل یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ اعتدال اور میانہ روی جو کہ فی الواقع اسلام کے بنیادی اوصاف و خصائل میں شامل ہے ، کا سہارا لیا جائے اور پھر ایسے تمام اسلامی معاملات کو جن میں مغرب کی تقلید مقصود ہو، اپنے خانہ ساز نظریہ اعتدال کی سان پر چڑھا کر ان سے چھٹکارا حاصل کرلیا جائے۔
درحقیقت مذکورہ دونوں گروہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اگر ہم ایسی اقدار و روایات کو چھوڑ دیں جو مغرب کو انتہا پسندی اور شدت پرستی سے متصف دکھائی دیتی ہیں تو مسلمان رہنے کے باوجود ہم مغرب کے منظورِ نظر بن جائیں گے اور ہمارے دامن سے انتہا پسندی کے تمام دھبے دھو دیئے جائیں گے اور ہمارے ماتھے سے بھی روشن خیالی کی شعاعیں پھوٹنے لگیں گی۔ لیکن ازلی و ابدی صداقتوں کی ترجمان، ربّ العالمین کی کتاب کچھ اور کہہ رہی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَن تَرْ‌ضَىٰ عَنكَ ٱلْيَهُودُ وَلَا ٱلنَّصَـٰرَ‌ىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى ٱللَّهِ هُوَ ٱلْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ ٱتَّبَعْتَ أَهْوَآءَهُم بَعْدَ ٱلَّذِى جَآءَكَ مِنَ ٱلْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلَا نَصِيرٍ‌ ...﴿١٢٠﴾...سورۃ البقرۃ
''یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو، صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے ورنہ اگر اس علم کے بعد، جو اللہ نے بتایا ہے تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارے لئے نہیں ہے۔''

اعتدال کا اسلامی تصور اور جدت پسند دانشور
مجھے یقین ہے کہ آج اگر مغرب کی خالص مادہ پرست تہذیب کی جگہ کوئی اور تہذیب و ثقافت اپنی حشربداماں جلوہ سامانیوں اور غارت گر دین و ایمان روشنیوں کے ساتھ کرۂ ارضی کو خیرہ کئے ہوئے ہوتی تو ہمارے یہ جدت پسند دانشور اسی تہذیب کی زلہ ربائی کو اعتدال پسندی کے دل فریب نام سے موسوم کرتے اور اسی کی خوشہ چینی کو اپنی میانہ روی اور روشن خیالی کا منتہاے کمال تصور کرتے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کے عروج کے دور میں کسی کے دل میں اس نوع کی اعتدال پسندی اور مذہبی رواداری کا سودا کیوں نہیں سماتا تھا !؟ اس وقت کسی صاحب ِدرد کے دل میں یہ خواہش انگڑائی کیوں نہیں لیتی تھی کہ دوسروں کے دین و مذہب کے احترام میں کچھ اسلامی اقدار و روایات کو ترک کردینا چاہئے یا ان میں نرمی پیدا کرلینی چاہئے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ چڑھتے سورج کی پوجا کو ہی اعتدال پسندی کے نام سے موسوم کرتے اور اس کے حضور جھک جانے کو ہی مذہبی رواداری سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ان کے قلوب و اذہان میں یہ خناس سمایا ہوا ہے کہ تہذیب ِوقت کے مطابق خود کو ڈھال لینے ہی سے آدمی پر دین و دنیا کی کامیابی کے دَر وا ہوتے ہیں اور پھر یہ لوگ اسلام کے اُصول و قواعد کو بھی اپنی اسی مخصوص سوچ کے تناظر میں ڈھلے ہوئے دیکھنے لگتے ہیں ۔ حالانکہ اگر ایسا مان لیا جائے تو پھر وہ چیز جسے ہم 'اسلام' کے نام سے تعبیر کرتے ہیں ، اس کا اپنا وجود کہاں باقی رہ جائے گا اور پھر خود ہماری علیحدہ شناخت کے لئے کیا جواز باقی رہ جاتا ہے جو اسلام کے نام پر علیحدہ وطن کی لکیریں کھینچتے اور 'دو قومی نظریہ' جیسے نعرے ایجاد کرتے ہیں ۔ یہاں میں شاعر مشرق علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ کے الفاظ بھی نقل کرنا چاہوں گا جن کا مقام خود ہمارے نام نہاد متجددین کے ہاں بھی مستند ہے اور جن کے کلام کو غلط سہارا بنا کر یہ گروہِ متجددین، علماے کرام کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔

چنانچہ شاعر مشرق، جواہر لعل نہرو کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ''جو لوگ رواداری کا نام لیتے ہیں وہ لفظ رواداری کے استعمال میں بے حد غیر محتاط ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ اس لفظ کو بالکل نہیں سمجھتے۔ رواداری کی روح ذہن انسانی کے مختلف نکتہ ہائے نظر سے پیدا ہوتی ہے۔ گبن کہتا ہے کہ ایک رواداری فلسفی کی ہوتی ہے جس کے نزدیک تمام مذاہب یکساں طور پر مفید ہیں ۔ ایک رواداری ایسے شخص کی ہے جو ہر قسم کے فکروعمل کے طریقوں کو روا رکھتا ہو، کیونکہ وہ ہر قسم کے فکروعمل سے بے تعلق ہوتا ہے۔ ایک رواداری کمزور آدمی کی ہے جو محض کمزوری کی وجہ سے ہر قسم کی ذلت کو جو اس کی محبوب اشیا یا اشخاص پر روا رکھی جاتی ہے، برداشت کرلیتا ہے۔'' وہ مزید لکھتے ہیں کہ
''کسی قوم کی وحدت خطرے میں ہو تو اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ معاندانہ قوتوں کے خلاف اپنی مدافعت کرلے (یہ کیا ہوا کہ) اصل جماعت کو رواداری کی تلقین کی جائے اور باغی گروہ کو تبلیغ کی پوری اجازت ہو؟ خواہ وہ تبلیغ جھوٹ اور دشنام سے لبریز ہو۔''4

آمدم برسرِمطلب، دوسروں کی خوشنودئ خاطر کے حصول کے لئے اپنے مذہب اور عقیدے کی قربانی دے دینا، یا اس کے بعض ایسے بنیادی اصول و قواعد میں ، جو مخالف کی طبع نازک پر گراں گزرتے ہوں ، ترمیم کرلینا یا ان کا حلیہ بگاڑ کر ان کے متعلق معذرت خواہانہ انداز اپنا لینے کو آخر کس ڈکشنری اور لغت کی رو سے اعتدال پسندی اور مذہبی روا داری سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ بالخصوص جبکہ مدمقابل اپنی طے شدہ فکر اور سوچ میں نرمی پیدا کرنا تو درکنار، اس سے بال برابر بھی اِدھر اُدھر ہونے کو تیار نہ ہو۔ میرے خیال میں اس طرزِعمل کو کسی بھی صاحب ِعقل کے نزدیک خوشامد، چاپلوسی اور کاسہ لیسی سے موسوم کرنا زیاہ قرینِ انصاف ہوگا۔ کیونکہ اس نے اپنے مذہب کو مدمقابل کے مذہب اور اپنی مرضی کو مدمقابل کی مرضی کے تابع بنا دیا ہے۔ اب گویا کہ اس کا اپنا تو کوئی مذہب رہا ہی نہیں جس میں وہ روادار اور اعتدال پسند ہونے کا دعویٰ کرے۔ کیونکہ اعتدال اور رواداری سے مراد تو یہ ہے کہ آدمی کواپنے مدمقابل کے ساتھ فکرونظر کے بہت سارے زاویوں میں اختلاف ہو اور بھرپور اختلاف ہو، گویا کہ بالفاظِ دیگر، دونوں میں ذہنی تصادم اور فکری تناؤ کی پوری صورت ِ حال موجودہ ہو،لیکن اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے کو برداشت کریں اور ایک دوسرے کی فکری آزادی کو تسلیم کریں اور بالفرض اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک، دوسرے پرکسی بھی اعتبار سے اختیار و اقتدار رکھتا ہو تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے کو اس کے نظریے اور فکر کے مطابق چلنے کی آزادی دے اور اس کی مرضی کو جبراً اپنی مرضی کے تابع بنانے یا اس کی سوچ کو اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش نہ کرے اور یہی وہ حقیقی اعتدال اور میانہ روی ہے جو صحیح معنوں میں صرف اسلام ہی کا طرۂ امتیاز ہے اور کوئی بھی دوسرا مذہب اس عظیم خوبی میں اس کا شریک و سہیم نہیں ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَآ إِكْرَ‌اهَ فِى ٱلدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّ‌شْدُ مِنَ ٱلْغَىِّ ۚ...﴿٢٥٦﴾...سورۃ البقرۃ
''دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے۔''
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
وَلَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شَنَـَٔانُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَ‌امِ أَن تَعْتَدُوا ...﴿٢﴾...سورہ المائڈۃ
''اس قوم کی نفرت جس نے تم کو کعبہ سے روکا تھا تم کو ادھر کھینچ کرنہ لے جائے کہ تم بھی ان پر زیادتی کرنے لگو۔''
اسلام کی اسی پاکیزہ تعلیم کا نتیجہ تھاکہ اسلام کی پوری تاریخ غیر مسلموں کے ساتھ اسی اعتدال اور میانہ روی سے عبارت ہے۔ جس وقت اسلام کی وسیع و عریض سلطنت میں بے شمار مذاہب سے وابستہ لا تعداد لوگ آباد تھے، اس وقت بھی کسی سے نہ تو جبراً اسلام قبول کروایا گیا اور نہ ہی کسی خاص مذہب سے وابستہ لوگوں کی مذہبی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ ان کے لئے علیحدہ حقوق متعین کئے گئے۔ ان کا علیحدہ تشخص تسلیم کیا گیا اور اُنہیں جان و مال اور عزت کے تحفظ کی بھرپور ضمانت فراہم کی گئی۔ حتیٰ کہ دوسرے مذاہب و ادیان سے وابستہ لوگوں کے معابد کی حفاظت و صیانت کا بارِگراں بھی مسلمانوں نے اپنے کندھوں پر اُٹھایا اور اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دے کر پوری دنیا کے لئے اعتدال اور میانہ روی کے اعلیٰ نمونے قائم کئے۔ قاضی سلیمان منصورپوری رحمة اللہ علیہ آیت مبارکہ وَلَوْلَا دَفْعُ ٱللَّهِ ٱلنَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَ‌ٰمِعُ وَبِيَعٌ...﴿٤٠﴾...سورۃ الحج

کے متعلق لکھتے ہیں کہ
''اسلام کی جنگیں نہ اپنی تعلیم کی اشاعت کے لئے تھیں اور نہ دوسرے مذاہب کے لئے موجب ِاکراہ تھیں ۔ ربّ العالمین نے اسلامی حروب کے متعلق جو وجہ بیان کی ہے وہ قرآنِ مجید میں موجود ہے: وَلَوْلَا دَفْعُ ٱللَّهِ ٱلنَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَ‌ٰمِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَ‌ٰتٌ وَمَسَـٰجِدُ يُذْكَرُ‌ فِيهَا ٱسْمُ ٱللَّهِ كَثِيرً‌ا ۗ...﴿٤٠﴾...سورۃ الحج
''اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کی مدافعت نہ کرتا اور بعض کے ذریعے بعض کونہ ہٹا دیتا تب صَوَامع (خانقاہیں )اور بِیَع (گرجے) اور صلوٰت (معابد) اور مسجدیں جن میں اللہ کا ذکر بہت کیا جاتا ہے، ضرور گرا دی جاتیں ۔''
آیت ِبالا ظاہر کرتی ہے کہ مسلمانوں کو جنگ کی اجازت اس لئے دی گئی کہ وہ جملہ مذاہب کی آزادی کو قائم کردیں ، بداَمنی دور کردیں ، پارسیوں ، عیسائیوں ، یہودیوں کی عبادت گاہوں اور مسلمانوں کی مساجد کو کوئی شخص نہ گرا سکے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ مسلمانوں ہی کا حوصلہ تھا کہ اپنی جانیں قربان اور اپنے سینوں کو آماجِ تیروسنان بنا کر غیر مسلمانوں کے معابد کی حفاظت کی ، کیا کوئی اور قوم بھی اپنی بے تعصبی کا ثبوت اس طریقہ سے دے سکتی ہے۔ 5

چنانچہ حقیقت یہی ہے کہ اسلام ہی دنیا کا سب سے زیادہ اعتدال پسند اور غیر متعصب مذہب ہے۔ لیکن دین کے اُصول و قواعد میں مداہنت اور نرمی کو اسلام اعتدال پسندی نہیں بلکہ منافقت اور غداری سے تعبیر کرتا ہے۔ حالات موافق ہوں یا مخالف، کسی مسلمان کے لئے روا نہیں ہے کہ مذہبی رواداری کے نام پر اسلام کے اُصول و قواعد میں ترمیم کرتا پھرے۔ یہی وجہ ہے کہ سچ بات کہنے والا ایک بھی ہو تو اسلام کی نگاہ میں وہ ایک پوری اُمت کے مترادف ہے۔إِنَّ إِبْرَ‌ٰ‌هِيمَ كَانَ أُمَّةً...﴿١٢٠﴾... ''بے شک ابراہیم ؑ ایک جماعت تھے۔''
لیکن لوگوں کی کثرت اور غلبے سے گھبرا کر ان کی خوشامد اور چاپلوسی میں حق کو چھپانے والے لاکھوں بھی ہوں تو اسلام کی نگاہ میں وہ ایک ذرّئہ بے مایہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔ فَأَمَّا ٱلزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَآءً ۖ...﴿١٧﴾...سورة الرعد ''جو راکھ ہے وہ رائیگاں ہی جاتی ہے۔''
لوگوں کی اکثریت کا کیا ہے؟ یہ تو بقول مولانا ابوالکلام آزاد رحمة اللہ علیہ :
''ماننے پر آئیں گے تو گائے کو خدا مان لیں گے، انکار پر آئیں گے تو مسیح علیہ السلام کو سولی پرچڑھا دیں گے۔''6
یہی وجہ ہے کہ اسلامی تحریک کے آغاز میں جب مشرکینِ مکہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیشکش کی کہ آؤ! جسے تم پوجتے ہو اسے ہم بھی پوجیں ، اور جسے ہم پوجتے ہیں اسے تم بھی پوجو، اور اس طرح ہم اور تم اس کام میں مشترک ہوجائیں تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے پوری سورة الکافرون نازل فرمائی۔ جس میں واشگاف الفاظ میں اعلان کیا گیا ہے کہ جسے تم لوگ پوجتے ہو، اسے میں پوج ہی نہیں سکتا 7

لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ جسے مسلمان رہنا ہے اور اسلام کی غلامی کو اپنے گلے کا ہار بنانا ہے ، تو اسلام اس کی زندگی کو راس آئے یا نہ آئے، اس کے اُصول و قوانین اس کے معیارِ اعتدال پر پورے اُترتے ہوں یا نہ اور اس کے قواعد و قوانین اسے جدید دکھائی دیں یا قدیم اور دقیانوس۔ اسے چاروناچار اور علیٰ الاعلان اپنی مسلمانی کا ڈھول پیٹنا ہی ہوگا اور ڈنکے کی چوٹ پر دنیا کے سامنے اپنے اس عقیدے کا اظہار کرنا ہی پڑے گا کہ
قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَ ﴿١﴾ لَآ أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿٢﴾ وَلَآ أَنتُمْ عَـٰبِدُونَ مَآ أَعْبُدُ ﴿٣﴾ وَلَآ أَنَا۠ عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ﴿٤﴾ وَلَآ أَنتُمْ عَـٰبِدُونَ مَآ أَعْبُدُ ﴿٥﴾ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِىَ دِينِ ﴿٦...سورۃ الکافرون ''کہہ دو، اے کافرو! نہ میں پوجوں گا جن چیزوں کو تم پوجتے ہو اور نہ تم پوجنے کے جسے میں پوجتا ہوں اور نہ میں پوجنے والا ہوا جن کو تم نے پوجا اور نہ تم پوجنے والے ہوئے جسے میں پوجتا آرہا ہوں ۔تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین۔''


حوالہ جات
1.'یورپ پر اسلام کے احسانات' از ڈاکٹر غلام جیلانی برق: ص 157
2. ایضاً: ص 4،5
3.مقالا تِ مولانا داؤد غزنوی: ص328
4.'فیضانِ اقبال' از شورش کاشمیری، ص168 و313
5.رحمة للعالمین، 3؍375
6.غبارِ خاطر، 175
7. ابن ہشام، 1؍362