’تعلیم‘ کے نام پر حکومتی جبرواستحصال

وطن عزیز حسب ِسابق سنگین بحرانوں سے دوچار ہے، جہاں ایک طرف سیاست اور الیکشن کا شور وغوغا ہے، وہاں ہلاکت وبربادی اور بدنظمی و لاقانونیت بھی اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے۔ دہشت گردی نے معصوم عوام سے آگے بڑھ کر نامور سیاستدانوں کو بھی اپنے گھیرے میں لے لیا ہے اور پاکستان کی سیاست خون آشام ہوچلی ہے اور اس میں ذلت ورسوائی کے ساتھ ساتھ اَب جان ہارنے کی رِیت بھی پختہ ہو رہی ہے۔
 
یوں تو اس وقت کئی موضوعات اہل نظر کی توجہ کے متقاضی ہیں لیکن ایک دینی جریدہ ہونے کے ناطے ہم ایک ایسے مسئلہ کی طرف اپنے قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جو اِن سنگین مسائل کی تہ میں دَب کر رہ گیا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں دین دار طبقے کے اثر ورسوخ کوکنٹرول کرنے کے لئے عرصۂ دراز سے دینی اسناد کی منظور ی کا مسئلہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ماضی میں بھی دینی اسناد کی منظوری کو متحدہ مجلس عمل کے خلاف ایک اہم سیاسی ہتھکنڈہ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا اور جب بھی ایم ایم اے نے کسی مرحلہ پر اپنا سیاسی دبائو استعمال کرنے کی کوشش کی تو عدالتی فیصلہ کی یہ تلوار اُنہیں اپنے خلاف لٹکتی نظر آئی...!
 
موجودہ الیکشن میں جہاں بہت سے دیگر واقعات غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں، وہاں الیکشن کمیشن کا ایک حالیہ فیصلہ بھی انتہائی دو ررَس اثرات کا حامل ہے جس میں دینی اسناد کے بارے میں ایک واضح اور فیصلہ کن موقف اختیار کرلیا گیا ہے۔ ذیل میں الیکشن ٹربیونل کے دینی اسناد کے حوالے سے تازہ ترین فیصلہ کے تذکرہ کے بعد اس پر ہمارا تبصرہ اور موقف نذرِ قارئین ہے۔
 
13 ؍دسمبر2007ء بروز جمعرات، روزنامہ 'پاکستان' میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق
''لاہور ہائیکورٹ کے الیکشن ٹربیونل کے دو جج صاحبان جسٹس محمد مزمل خاں اور جسٹس سردار محمد اسلم نے اپنے فیصلہ میں یہ قرار دیا کہ الیکشن 2008ء میں دینی مدارس کی اسناد کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور ایسے اُمیدوار الیکشن لڑنے کے سلسلے میں نااہل تصور ہوں گے۔ یاد رہے کہ گذشتہ انتخابات کے موقع پر 25؍ جولائی 2002ء کو ایک عدالتی فیصلہ کی رو سے دینی اسناد کے حامل اُمیدواروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی تھی جس فیصلہ کو عدالت ِعالیہ نے اُسی الیکشن کے ساتھ مخصوص قرار دیتے ہوئے آئندہ انتخابات کے لئے ایسے اُمیدواروں کو نااہل قرار دیا۔
 
فاضل عدالت نے یہ قرار دیا کہ صرف ایسے اُمیدوار انتخابات لڑنے کے اہل ہیں جنہوں نے دینی اسناد کے ساتھ بی اے کی انگریزی اور ایک مضمون کا سرکاری امتحان بھی پاس کیا ہو۔ ''
یاد رہے کہ گذشتہ 5 سالوں میں 64 ارکانِ اسمبلی انہی دینی اسناد کی بنا پر منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچے تھے لیکن حالیہ فیصلہ کے بعد اَب ایسے امیدوار الیکشن لڑنے کے اہل نہیں رہے۔ دوبرس قبل 2005ء میں یونین کونسلوں کے انتخاب کے موقع پر سپریم کورٹ کے سامنے بھی یہی مسئلہ پیش آیا تھا تو اس وقت دینی اسناد کے بارے میں سپریم کورٹ نے واضح موقف اختیار کرنے کی بجائے اس امر کا فیصلہ کیا تھا کہ دینی اسناد کے بی اے کے برابر ہونے کا فیصلہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں ہوگا، اوروہ جس سند کو بی اے کے برابر قرار دے گا، اسی اُمیدوار کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہوگی۔ اس اُصولی فیصلہ کے بعد ماہِ جون 2006ء کے وسط میں قومی اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ضلع ژوب کے ناظم سمیت ۱۶؍ ناظمین کو اُن کے عہدے سے صرف اس بنا پر ہٹا دیا گیا کہ ان کے پاس محض دینی تعلیم کی اَسناد تھیں اور جدید علوم کی سندیں موجود نہ تھیں۔ ان ناظموں کی جگہ پر دوسرے نمبر پر آنے والے اُمیدواروں کو عہدۂ نظامت سپرد کردیا گیا۔ اب لاہور ہائیکورٹ کے اس واضح اور دوٹوک فیصلہ کے بعد عملاً دینی مدارس کی اسناد کی علمی حیثیت کو بالکل بے وقعت کر دیا گیا ہے۔
 
دینی جماعتوں کوالیکشن میں حصہ لینا چاہئے یا نہیں؟ اس بارے میں مختلف آرا ہوسکتی ہیں۔ موجودہ سیاسی عمل کی اسلام میں کس حد تک گنجائش ہے اوراس میں اہل دین کی شرکت سے اسلام کو فائدہ پہنچتا ہے یا نقصان؟ اس بارے میں بھی مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ لیکن جو چیزایک نمایاں مظہرکے طورپرسامنے آرہی ہے، وہ یہ ہے کہ قومی سطح پر وطن عزیز میں دینی مدارس سے غیر معمولی امتیاز کی روایت جڑ پکڑتی جارہی ہے اور علم کے حوالے سے وہی پالیسی جاری وساری ہے جو مغرب کے ملحدانہ نظریات کا حاصل ونتیجہ ہے۔ آزادی کے ۶۰ برس بعد بھی صرف اُسی علم اور اہلیت کو مستند گردانا جارہا ہے جو جدید مغربی علوم کے حوالے سے حاصل ہو۔ یہ چیز جہاں ایک مسلمان ہونے کے ناطے بالکل ناقابل قبول ہے کیونکہ قرآن وسنت سے اس تصورِ علم کی کھلی مخالفت ہوتی ہے، وہاں یہ رجحان خالصتاً سیکولر نظریات کا بھی آئینہ دار ہے!
 
جہاں تک قرآن وسنت کے نظریۂ علم کا تعلق ہے تو اس کی تفصیل آگے آرہی ہیں۔ ہماری نظر میں پاکستانی عدالت اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے یہ فیصلے سیکولر نظریات سے متاثر ہونے اور اسے اپنانے کا لازمی نتیجہ ہیں جبکہ آئین پاکستان میں سیکولرزم کی اُصولی طور پر کوئی گنجائش موجود نہیں ہے کیونکہ آئین کی رو سے پاکستان 'سیکولر' کی بجائے ایک اسلامی ملک ہے جس میں قرآن وسنت ہی سپریم لاء ہیں۔ مزید برآں دستورِ پاکستان میں نہ صرف شریعت ِاسلامیہ کے کئی قوانین کو جگہ دی گئی ہے بلکہ پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت، اسلامی نظریاتی کونسل اور ادارہ تحقیقاتِ اسلامی وغیرہ جیسے کئی آئینی اسلامی ادارے بھی موجود ہیں۔
 
سیکولرزم کا یہ بنیادی تقاضا ہے کہ کسی بھی اجتماعی معاشرتی معاملہ میں مذہب کا حوالہ ناجائز قرار پائے۔ یہ سیکولر نظریات کو اپنانے ہی کا شاخسانہ ہے کہ دینی مدارس کی خدمات کو نہ تودائرئہ علم میں شمار کیا جاتا ہے، اورنہ ہی وزراتِ تعلیم ان کے لئے تعلیمی پالیسی یا سالانہ بجٹ میں کوئی حصہ رکھتی ہے اور اُنہیں علم کے حوالے سے زیر بحث لانا ہی گوارا نہیں کرتی۔
یہ بھی سیکولر نظریات کو ماننے ہی کا نتیجہ ہے کہ دینی تعلیم کے فاضل حضرات کو اہل علم وفضل ہی شمار نہیں کیا جاتا جبکہ قرآن وحدیث اور ہمارے مسلم معاشرے کے روزمرہ 'عرف' کے اعتبار سے تو'عالم' کا مصداق ہی دراصل قرآن وسنت کی تعلیم سے بہرہ ور لوگ قرار پاتے ہیں۔
 
یہ سیکولر نظریات کا ہی کرشمہ ہے کہ فن کے دائرئہ عمل میں بھی اگر کوئی مذہبی حوالہ آجائے تووہ مذہبی عمل فن کے دائرہ سے نکل کر حکومتی سرپرستی سے بھی محروم ہونے کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فن خوش الحانی جس کی اعلیٰ ترین شکل اگر تلاوتِ قرآن کی صورت میں سامنے آئے تو حکومت کے آرٹس اورکلچر کے ادارے اسے نظرانداز کرنے کی روش اپناتے ہیں لیکن جب یہی فن 'گلوکاری' کی شکل میں عشق ومستی اور محبوبہ کے جسم واَدا کا ہوسناک نقشہ کھینچے تو وہ گلوکار 'فنکار' کہلاتا، قومی اثاثہ قرار پاتا اور حکومتی گرانٹ کے علاوہ عوامی مقبولیت کا بھی مستحق ٹھہرتا ہے۔
 
یہ انہی سیکولر نظریات کا ہی حاصل ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ضوابط کی رو سے مذہب کی بنیاد پر کوئی چندہ؍ ڈونیشن حاصل کرنا ایک جرم ٹھہرتا ہے جبکہ اسلام ہمیں مذہب کی بنیاد پر ہی تمام صدقات وزکوٰۃ کی ترغیب دیتا ہے۔
دورِ حاضر کی دیگر بہت سی ناانصافیوں کی طرح ایک بڑی زیادتی وہ بھی ہے جو تعلیم کے میدان میں مسلمانوں سے برتی جارہی ہے۔ تعلیم کے خودساختہ تصور کے نام پر جہاں ایک طرف منتخب نمائندگان کو حق نمائندگی سے محروم کردیا جاتا ہے، وہاں اس طرح اسلام کے نظریۂ تعلیم سے بھی بہت بڑا مذاق کیا جارہا ہے۔ تعلیم کی اہمیت مسلمہ ہے اور کسی قوم کی تعمیروتخریب میں اس کا کردار اہم ترین ہے۔ کسی قوم کی تربیت جس نہج پرکرنا مقصودہو، اس سلسلے میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔لیکن تعلیم محض ایک عمل کا نام ہے، اصل قابل غور امر یہ ہے کہ تعلیم کن نظریات اور مقاصد کے تحت دی جائے کیونکہ 'تعلیم برائے تعلیم' تو ایک مہمل تصور ہے !
 
تعلیم کے سلسلے میں بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں، بعض لوگ اگراس کا ہدف طالب علم کی ذاتی فلاح اور آئندہ زندگی میں پیش آنے والی ضروریات کی تکمیل کی بہتر استعداد کو ٹھہراتے ہیں توکچھ لوگ اسے ریاستی مفادات کے تابع قرار دیتے ہیں۔ تعلیم کے سلسلے میں ایسے ہی مزید کئی نظریات بھی پائے جاتے ہیں جن کی تفصیل متعلقہ کتب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ ہماری نظر میں ہر قوم کی تعلیم کو اس کے نظریاتِ زندگی کے تابع ہونا چاہئے۔ کسی قوم کے اَفراد جو 'ورلڈ ویو' رکھتے ہیں، اس کے نونہالوںاور نوجوانوں کی تعلیم وتربیت بھی اسی نہج پر ہونی چاہئے۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے جہاں ہماری تعلیم کو ملکی ترقی اور وطنی استحکام کا باعث بننا چاہئے، وہاں ایک مسلمان ہونے کے ناطے اسے اسلام کے نظریۂ حیات سے بھی کلی طورپر ہم آہنگ ہونا چاہئے یعنی تعلیم ایسی ہو جو اسلامی تقاضوں کے مطابق ہمیں اچھا مسلمان بناسکے اور ہماری دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنور جائے۔
 
پاکستان کے اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے سے اہالیانِ پاکستان پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ ہماری تعلیم ایسی ہو جو اس مملکت ِخداداد کو حقیقی معنوں میں اسلام کا گہوارہ بنا دے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ تعلیم کے کئی ایک تصورات سے ہٹ کر ہماری حالیہ قومی تعلیمی پالیسی اور عدالتی فیصلے اس وقت گلوبلائزیشن کے عالمی ایجنڈے اور نیوورلڈ آرڈر کے مفادات کے تابع ہوتے جارہے ہیں۔ ہر گہری نظر رکھنے والا شخص تعلیم کے میدان میں قومی سطح پر اپنائے جانے والے ان رجحانات کا بآسانی مشاہدہ کرسکتا ہے ۔
 
'علم' کا مصداق ؛ قرآن وسنت کی روشنی میں
جہاں تک اسلام کے نظریۂ تعلیم کا تعلق ہے تو یہ مغرب کے تعلیمی نظریہ سے کئی لحاظ سے بالکل مختلف ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اہل مغرب یک دنیوی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہیں اورسیکولرزم پر یقین رکھنے کے باعث تعلیم میں الٰہیات کا عمل دخل درست قرار نہیں دیتے جبکہ مسلمان دنیا اور آخرت پر ایمان رکھنے کے سبب اسلامی ہدایات کی روشنی میں ہی اپنے نظریۂ تعلیم کو استوار کرتے ہیں۔مسلمان بچوں کو دی جانے والی تعلیم لازماً مذہبی تعلیمات سے ہم آہنگ اور اَسلامی اہداف ومقاصد پر مبنی ہونی چاہئے۔ چنانچہ قرآنِ کریم نے تعلیم کے مغربی نظریہ کی تردید کرکے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی تعلیم سے پرے رہنے کا حکم دیا ہے جس کا مقصد فقط اِس دنیا کا مفاد ہو۔ سورۃ النجم میں ارشادِ باری ہے :
فَأَعْرِ‌ضْ عَن مَّن تَوَلَّىٰ عَن ذِكْرِ‌نَا وَلَمْ يُرِ‌دْ إِلَّا ٱلْحَيَو‌ٰةَ ٱلدُّنْيَا ﴿٢٩﴾ ذَ‌ٰلِكَ مَبْلَغُهُم مِّنَ ٱلْعِلْمِ ۚ إِنَّ رَ‌بَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِۦ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ ٱهْتَدَىٰ ﴿٣٠...سورۃ النجم
''اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! جو میرے ذکر سے منہ موڑتے ہیں اور صرف دنیوی زندگی کے طالب ہیں، ان سے اِعراض کر، ان کے عِلم کا مقصد وہدف توبس اتنا ہی ہے۔ تیرا ربّ زیادہ جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے گمراہ ہے اور کون ہدایت یافتہ...؟''
 
اس آیت میں واضح طورپر اس مغربی نظریۂ تعلیم کی نفی کی گئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے مسلمانوں کو ایسے مقصد ِتعلیم سے اِعراض کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کا ہدف محض دنیا ہو او رجو اللہ کے ذکر سے خالی ہو...!
قرآنِ کریم مسلمانوں کو جو نظریۂ تعلیم دیتا ہے، وہ پہلی وحی میں موجود ہے لیکن افسوس کہ اس کے پہلے جملے سے آگے بڑھنے کا تکلف ہی گوارا نہیں کیا جاتا۔ پہلی وحی اِقرأہے اور اسی کے نام سے ہمارے ہاں اِقرأ سرچارج بھی عائد کیا گیا ہے، لیکن اس اِقْرَأ کا ہدف قرآن نے کیا قرار دیا ہے ؟ اس کے لئے پہلی وحی کی آیات ملاحظہ فرمائیں :
ٱقْرَ‌أْ بِٱسْمِ رَ‌بِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ ٱلْإِنسَـٰنَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ ٱقْرَ‌أْ وَرَ‌بُّكَ ٱلْأَكْرَ‌مُ ﴿٣﴾ ٱلَّذِى عَلَّمَ بِٱلْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ ٱلْإِنسَـٰنَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿٥﴾ كَلَّآ إِنَّ ٱلْإِنسَـٰنَ لَيَطْغَىٰٓ ﴿٦﴾ أَن رَّ‌ءَاهُ ٱسْتَغْنَىٰٓ ﴿٧﴾ إِنَّ إِلَىٰ رَ‌بِّكَ ٱلرُّ‌جْعَىٰٓ ﴿٨...سورۃ العلق
''پڑھ ، اس ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا ربّ بہت عزت والا ہے جس نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ جانتا نہیں تھا۔سچ مچ، انسان تو سرکشی کرتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو غنی خیال کرتا ہے لیکن آخرکار اسے تیرے ربّ کے پاس تو لوٹ کرجانا ہی ہے۔''
 
پہلی وحی کا مفہوم واضح ہے لیکن قرآن کے فلسفہ تعلیم کے مزید نکھار کے لئے اسے حسب ِذیل تین نکات میں پیش کیا جاتا ہے :
تعلیم اس ربّ کے نام سے ہونی چاہئے جو انسان کا خالق ہے۔ گویا تعلیم کو خالق کی ہدایات اور رہنمائی پر اُستوا رہونا چاہئے۔
اس معزز ربّ کے نام سے علم سیکھوجس نے انسان کو وہ علم سکھایاجو وہ جانتا نہیں تھا۔ گویا علم کا بنیادی ذریعہ اللہ کی وحی اور اِلہامی ہدایات ہیں۔
جولوگ بے فکر ہوکر اس تعلیم کی پروا نہیں کرتے، اُنہیں ایک روز ربّ کے پاس تو جانا ہی ہے۔ گویا ایسی تعلیم حاصل نہ کرنا بے فکری کی دلیل ہے جس پر روزِمحشر ، پکڑ کی وعید ہے۔
 
ہمارے ہاں مغرب کے نظریۂ تعلیم اور نصاب ونظامِ تعلیم سے متاثر ہوکرلوگ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات سیکھنے کو عِلم کے زمرے میں ہی شمار نہیں کرتے لیکن قرآن کا فیصلہ اس سے یکسر مختلف ہے، آئیے دیکھیں قرآن نے علم کا اطلاق کس پر کیا ہے؟ قرآنِ کریم علم کا اطلاق وحی اور الہامی ہدایات پر کرتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑنے اپنے والد سے فرمایا:
يَـٰٓأَبَتِ إِنِّى قَدْ جَآءَنِى مِنَ ٱلْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَٱتَّبِعْنِىٓ أَهْدِكَ صِرَ‌ٰ‌طًا سَوِيًّا ﴿٤٣﴾ يَـٰٓأَبَتِ لَا تَعْبُدِ ٱلشَّيْطَـٰنَ ۖ إِنَّ ٱلشَّيْطَـٰنَ كَانَ لِلرَّ‌حْمَـٰنِ عَصِيًّا ﴿٤٤...سورۃ مریم
''اباجان! میرے پاس وہ عِلم آیا ہے، جو آپ کے پاس نہیں آیا۔ میری بات مانیں تاکہ میں آپ کو سیدھے رستے پر لے چلوں۔ اباجان! شیطان کی پیروی مت کریں، وہ تو ربّ کا نافرمان ہے۔''
 
اس آیت میں واضح طورپر علم کا مصداق وحی الٰہی کو قرار دیا گیا ہے، کیونکہ حضرت ابراہیم کے پاس آنے والی چیز وحی کے سوا اورکچھ نہیں تھی۔
اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویوں خطاب فرمایا گیا اورساتھ یہ وعید سنائی گئی ہے :
وَلَئِنِ ٱتَّبَعْتَ أَهْوَآءَهُم بَعْدَ ٱلَّذِى جَآءَكَ مِنَ ٱلْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلَا نَصِيرٍ‌ ﴿١٢٠...سورۃ البقرۃ
''اگر تو نے علم آجانے کے بعد ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ سے تجھے بچانے اور مدد دینے والا کوئی نہ ہوگا۔''
ان آیاتِ کریمہ میں عِلم کا اطلاق کسی جدید علم مثلاً سائنس و ٹیکنالوجی پر کرنے کی بجائے اس شے پر کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل ہوتی ہے یعنی ' وحی'!
 
جدید مغربی علوم اور اسلامی علوم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جدید علوم انسان کے مشاہدے اور تجربے کا حاصل ہیں اور ان کا مطمح نظر انسان کے دنیوی مفادات تک ہی محدود ہے جبکہ اسلام کی نظر میں علم یوں تو مشاہدے اور تجربے سے بھی حاصل ہوتا ہے لیکن علم کی اعلیٰ اور حتمی ترین شکل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی صورت میں ملتی ہے۔ کیونکہ مشاہدے کی صورت میں تو حاصل ہونے والے علم میں غلطی کا امکا ن یا بہتری واصلاح کی گنجائش برقرار رہتی ہے جبکہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ علم میں قیامت تک کسی کوتاہی یا غلطی کا کوئی شائبہ بھی موجود نہیں۔یوں بھی اللہ کا عطا کردہ علم دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی کامیابی کو بھی شامل ہے۔
 
اس سلسلے میں مسلمانوں کے برعکس غیرمسلموں کا رویہ فکری جبر اور انتہا پسندی پر مبنی ہے کیونکہ ایک طرف مسلمان 'علم' کے مآخذ کو مشاہدے اورتجربے سے خارج قرار نہیں دیتے لیکن علم کی اعلیٰ اور حتمی ترین شکل الہامی علم یعنی وحی کو سمجھتے ہیں۔ یہ علم نہ صرف حتمی ہے بلکہ اسلامی اعتقاد کے مطابق مسلمان کے ایمان واعتقاد کی بھی اساس قرار پاتا ہے۔ دوسری طرف اہل مغرب وحی والہام کی بنیادپر حاصل ہونے والے علم کو تخیل یا واہمہ Myth سے زیادہ حیثیت دینے کے روادار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر ایسی تحقیق کو جو وحی الٰہی کی بنیاد پر قائم ہو، دائرئہ تحقیق سے ہی خارج قرار دیتے ہیں۔
 
اہل مغرب کے اس تصور کی دو زمینی وجوہات ہیں: ایک تو ان کے مذاہب میں واقعتا جو چیزیں وحی والہام کے طورپر موجود ہیں، وہ درحقیقت تحریف شدہ اور ان کے اَحبار ورُہبان کے واہمات وتخیلات کا ہی نتیجہ ہیں۔ اس لحاظ سے اپنے مذہب کے حوالے سے ان کا یہ رویہ بالکل درست اور منطقی ہے۔ دوسرے، اگر وہ مسلمانوں کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ حقائق جو قرآن وسنت کی شکل میں ہیں، کی مستند حیثیت کو تسلیم کرلیں تو اسلام قبول کیوں نہ کرلیں؟ ہم مسلمانوں کا ان اِلہامی حقائق کوتسلیم کرنا تو ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کیونکہ قرآن کی آیت یا نبیؐ کے فرمان کو دل وجان سے تسلیم نہ کرنے والا شخص مسلمان ہونے کا حقدار ہی نہیں رہتا!
 
الغرض علم کے میدان میں مسلمانوں او رغیر مسلموں کے تصورات میں بہت سے زمینی فرق موجود ہیں، لیکن ہمارے جدید تعلیم یافتہ مسلمان ان کو نظر انداز کرتے ہوئے مغرب کے نظریۂ علم پر ایمان لے آتے ہیں، او ر اسلام کا نام لینے کے باوجود اپنے عمل سے یہی ثابت کرتے ہیں کہ واقعتا وہ بھی نعوذ باللہ قرآن وسنت پر مبنی علم کو واہمہ سے زیادہ حیثیت دینے کو بالکل تیار نہیں اور اس علم کے حامل لوگوں کو اس منصب و اہلیت پر فائز نہیں سمجھتے کہ وہ قوم کے اجتماعی مسائل میں رہنمائی کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں۔ یہ تصور اورسوچ ایک مسلمان کے لئے انتہائی مکروہ اور گھنائونی ہے...!!
قرآنِ کریم تو اُنہیں ہی اہل علم قرار دیتا ہے جن کے علم کا نتیجہ اللہ پر ایمان اور اس کی خشیت کی شکل میں سامنے آئے۔ درج ذیل آیات ملاحظہ ہوں:
وَٱلرَّ‌ٰ‌سِخُونَ فِى ٱلْعِلْمِ يَقُولُونَ ءَامَنَّا بِهِۦ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَ‌بِّنَا ۗ...﴿٧﴾...سورہ آل عمران
''علم میں پختہ کار لوگ تویہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے، ہر شے تو ہمارے ربّ کی طرف سے ہے۔''
 
ایسے ہی:
إِنَّمَا يَخْشَى ٱللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ ٱلْعُلَمَـٰٓؤُا...﴿٢٨﴾...سورۃ الفاطر
''علم رکھنے والے ہی اللہ کی خشیت اختیار کرتے ہیں۔ ''
 
ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کی زبان میں علم کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان اللہ پرایمان لائے اور اللہ سے ہی ہر خیر کی اُمید رکھے۔ گویا جس علم سے اللہ کی خشیت حاصل نہ ہو، وہ علم کا حقیقی مصداق نہیں ہے۔ اسی سے قرآن وسنت کے مقابلے میں جدید علوم کی حیثیت اورحقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے۔ غور طلب امریہ ہے کہ قرآن ایک چیز کو صراحت کے ساتھ علم قرار دیتا ہے لیکن ہمارے حکمران قرآن وسنت کی تعلیمات سے باخبر علما کو بے علم ہونے کا طعنہ دے کر صرف اُنہیں ہی علم والا قراردیتے ہیں جنہیں یورپ سے مستند اور منظور شدہ تعلیمی سندات حاصل ہوں لیکن یاد رکھئے کہ اللہ کے ہاں ایسے علم کی کوئی قدر وقیمت نہیں!
 
تعلیم یافتہ ہونے کا یہ فیصلہ تو مغرب نواز 'مسلم' حکمرانوں اور اربابِ اختیار کا ہے لیکن قرآن کا نظریۂ تعلیم اس کے برعکس ہمیں محض دنیاوی مفادات کے تابع اور اللہ کی یاد سے خالی علم سے کنارہ کش ہونے کا حکم دیتا ہے بلکہ دینی علم سے گریز کرنے پر روزِ محشر کی وعید کا بھی اضافہ کرتا ہے، جیسا کہ پیچھے سورۃ النجم کی آیات گزر چکی ہیں۔
 
یہ ہے تعلیم وتعلّم کے میدان میں مغرب کا فکری جبر جسے ہمارے ہاں جدید تعلیم یافتہ لوگوں نے لفظ بہ لفظ اختیار کررکھا ہے۔افسوس کہ مغرب کی یہ ذہنی غلامی مسلمانوں کو ان کی اساس سے کاٹنا اورحقیقی اہل علم کو 'لاعلمی' کا طعنہ دے کرانسانوں کی نمائندگی سے محروم کرنا چاہتی ہے۔
حدیث ِنبویکا نظریۂ تعلیم بھی ملاحظہ ہو:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مقصد ِبعثت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
(إنما بُعِثتُ مُعَلِّمًا) (سنن ابن ماجہ: ۲۹۹) (i)
''مجھے علم سکھانے والا یعنی اُستاد بنا کر بھیجا گیا ہے۔''
 
غور طلب امر یہ ہے کہ آپ نے اپنی اُمت کو کس چیز کی تعلیم دی؟ زندگی گزارنے کا طریقہ(ii)، انسانوں سے میل جول کے آداب، اللہ اور بندوں کے حقوق و فرائض۔ یہ وہ تعلیم تھی جس نے بادیہ نشین عرب کو دنیاکی قیادت وسیادت کا وارث بنادیا۔ اس تعلیم نے اُنہیں جہانبانی کے آداب بھی سکھائے اورایسا معاشرہ قائم کردیا کہ وہ پرسکون معاشرہ اور فلاحی ریاست چودہ صدیوں کے بعد، ا س چکا چوند ترقی کے دور میں بھی ایک خواب نظرآتا ہے۔ وہ دور جب بندوں سے کوئی مانگنے والا نہ ملے اور ہر ایک کی ضروریات اس کی دہلیزپرپوری ہوتی ہوں۔لیکن افسوس کہ اس تعلیم کی اہمیت سے بے بہرہ آج کے حکمران دربارِ رسالتؐ سے ملنے والے اس علم کو 'علم' ہی تسلیم نہیں کرتے۔کیونکہ ان کی آنکھیں مغرب کی پرفریب ترقی نے خیرہ کررکھی ہیں جس کا ظاہر بڑا دل فریب اور دیدہ زیب لیکن اندر انسانیت سسکتی ہے اور فطری جذبے پامال کئے جاتے ہیں؛ وہاں چین وسکون عنقا اور زندگی کی خوشیاں اور اطمینان گم کردہ متاع ہیں۔ ایک اورفرمانِ نبویؐ ہے کہ
(وإن العلماء ورثة الأنبیاء وإن الإنبیاء لم یورثوا دینارًا ولا درہمًا، ورثوا العلم فمن أخذہ أخذ بحظ وافر) 1
''علما ہی انبیا کے وارث ہیں۔ نبیوں نے اپنے پیچھے درہم ودینار کی وراثت نہیں چھوڑی، اُنہوں نے اپنے پیچھے علم چھوڑا ہے۔جس نے یہ عِلم سیکھا،گویا اس نے متاعِ گراں مایہ حاصل کی۔''
 
اس حدیث ِنبوی میں علم کو انبیا کی وراثت قرار دیا گیا ہے، لیکن اس علم سے کون سا علم مراد ہے جو انبیا کی وراثت ہے؟ انبیا کی وراثت شریعت ِاسلامیہ کا علم ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو حاتم ؓ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
''في هذا الحدیث بیان واضح أن العلماء الذین لهم الفضل الذي ذکرنٰهم  الذین یعلمون علم النبي ﷺ دون غیرہ من سائر العلوم ألا تراہ یقول (العلماء ورثة الأنبیاء) والأنبیاء لم یورثوا إلا العلم وعلم نبینا ﷺ سنّته فمن تعری عن معرفتها لم یکن من ورثة الأنبیاء''2
''اس حدیث میں واضح طورپر یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایسے فضیلت والے علما جن کا ہم نے ابھی تذکرہ کیا ہے، وہ ہیں جو دیگر تمام علوم کو چھوڑ کرعلم نبویؐ سیکھتے ہیں۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علما کو انبیا کا وارث قرار دیاہے اور انبیاے کرام نے علم کے سوا کوئی وراثت نہیں چھوڑی؟ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت آپ کی سنت ِمطہرہ ہے۔ جو سنت ِمطہر ہ کے علوم سے غافل ہے، وہ انبیا کا وارث نہیں ہے۔''
 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے کیا چھوڑاہے ، اس ترکہ کا تذکرہ آپؐ کی اپنی زبانی سنئے:
(ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکم بهما: کتاب اﷲ وسنة نبیه)
''میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں، تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے، اگر اُنہیں مضبوطی سے تھامے رکھا: اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت''3
 
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ آج بھی مسلم معاشرے میں جو مقام ایک مخلص ومتقی اور باعمل عالم دین کو دیا جاتا ہے، ا س کے مساوی کوئی اور مرتبہ نہیں ہوتا لیکن یہ اس کی ذاتی شان وشوکت نہیں بلکہ اس کلامِ الٰہی کی برکت اور فرمانِ نبویؐ کا فیض ہے کہ لوگ ان سے پہلو تہی نہیں کرسکتے (البتہ دین کا علم رکھنے والے جو لوگ اپنے علم پر عمل نہیں کرتے تو ان کی وعید بھی عوام الناس کی نسبت بہت سنگین ہے)۔ علم نبویؐ کا مقام ومرتبہ بڑا ہی عظیم الشان ہے جس کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
أھل الحدیث هم أهل النبي وإن لم یصحبوا نفسه أنفاسه صحبوا
''حدیث ِ نبویؐ کا دن رات وِرد کرنے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل وعیال ہیں جنہیں صحبت کا شرف تو حاصل نہیں، لیکن ان کے سانس ہمہ وقت آپ کی باتوں سے معطر رہتے ہیں۔''
مراد یہ ہے کہ جو شخص دن رات کلامِ الٰہی اور فرمانِ نبوی ؐمیں بسر کرتا ہو، وہ گویا اللہ سے ہم کلام اورصحبت ِنبویؐ سے مشرف رہتا ہے، اور اس کا مقام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے 'اہل' کا ہے۔ اسی سے علما کے مقام ومرتبہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم حاصل کرنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
(من سلک طریقًا یبتغي فیه علمًا سلک اﷲ له طریقًا إلی الجنة وإن الملائکة لتضع أجنحتها رضًا لطالب العلم وإن العالم لیستغفر له مَن في السموات ومن في الأرض حتی الحیتان في الماء وفضل العالم علی العابد کفضل القمر علی سائر الکواکب) 4
''جو شخص عِلم سیکھنے کے رستے پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے رستہ پر چلا دیتے ہیں اور طالب علم کے اعزاز واکرام میںاللہ تعالیٰ کے فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں۔ اور عالم دین کے لئے اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان میں موجود ہر چیز استغفارکرتی ہے حتیٰ کہ پانی میں موجود مچھلیاں بھی۔ عالم کا کسی عبادت گزار سے مقام و مرتبہ میں وہی فرق ہے جیسے چاند تمام ستاروں میں نمایاں ہوتاہے۔''
 
مذکورہ بالا احادیث کے مفہوم پر ذرا سا بھی غور کریں تو اس امرمیں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ کس علم سے جنت کا راستہ ہموار ہوتا اور کس علم کے لئے فرشتے اپنے پر فرشِ راہ کئے دیتے ہیں۔ وہ علم جو اللہ کی بجائے دنیا پروری سکھائے او رمادّی منفعت کے پیش نظرسیکھا جائے، کیا یہ اس کے درجات وفضیلت کا بیان ہے یا اس علم کے درجات کا جو اللہ کی رضا، اس کی عبادت اور اس کی عطا کردہ رہنمائی کو سمجھنے کے لئے حاصل کیا جاتا ہو...؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
(من یُّرِدِ اﷲ به خیرًا یفقهه في الدین)5
''جس سے اللہ خیرخواہی کا ارادہ فرماتے ہیں، اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔''
 
اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ اوراس کی فقاہت وعلم اللہ کا بہت بڑا احسان اور اس کی اپنی بارگاہ میں پسندیدگی کا نتیجہ ہے۔ایسے اہل علم کاتذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اپنی ذاتِ عزوجل اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہے:
شَهِدَ ٱللَّهُ أَنَّهُۥ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ وَأُولُوا ٱلْعِلْمِ قَآئِمًۢا بِٱلْقِسْطِ ۚ...﴿١٨﴾...سورۃ آل عمران
''اللہ نے خود بھی اس بات کی گواہی دی ہے کہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور فرشتوں نے بھی اور اہل علم نے بھی راستی اور انصاف کے ساتھ یہی گواہی دی ہے۔''
 
اسلام نہ صرف علم پرور اور علم دوست دین ہے، بلکہ ہرمسلمان پر علم سیکھنے کو فرض بھی قرار دیتا ہے، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
(طلب العلم فریضة علیٰ کل مسلم)6
''ہرمسلمان پر علم سیکھنا فرض ہے۔''
 
مذکورہ بالا آیات واحادیث کی روشنی میں ا س فرض علم کا تعین بھی بخوبی ہوجاتا ہے کہ ا س سے علم حقیقی یعنی علم دینی مراد ہے کیونکہ جہاں تک علومِ آلیہ ہیں، مثلاً لکھنا پڑھنا یا جدید سائنسز مثلاً ریاضی، فزکس کیمسٹری وغیرہ تو وہ کئی صحابہؓ کے علاوہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم نہیں تھے۔(iii)
آج ہر سکول کے صدر دروازے پر یہ فرمانِ نبویؐ توآویزاں نظر آتا ہے لیکن اس کے مفہوم پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس فرمان سے مراد سراسر دینی علم ہے کیونکہ ظاہر سی بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے اس فرض علم کو حاصل کیا تھا، وگرنہ وہ سارے اس فرض علم کو ترک کرنے کی بنا پر گناہ گار ٹھہرتے اور خیرالقرون کا مصداق بننے سے بھی محروم رہتے۔اب غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ صحابہؓ میں سے گنتی کے چند لوگ تھے(iv) جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے، البتہ سب لوگ دین کا ضروری علم لازماً جانتے تھے۔اسی سے پتہ چل جاتا ہے کہ اس حدیث ِمبارکہ کا مصداق کون سا علم ہے جو ہر مسلمان پر سیکھنا فرض ہے۔ آج بحیثیت ِقوم ہم مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کی وجہ اپنے دین سے دوری اور اسلامی عقائد ونظریات سے لاعلمی ہے جس کے پس پردہ دراصل اس فرض تعلیم کو چھوڑنے بلکہ نظر انداز کرنے کی سنگین کوتاہی کارفرما ہے۔ ہر مسلمان پر کس قدر دینی علم فرض ہے؟اس کی تفصیل ہم آئندہ کسی مضمون میں مستقل طورپر زیر بحث لائیں گے۔ ان شاء اللہ
 
علم ... دینی اور دنیاوی ؟
مذکورہ بالا بحث کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ علم کو صرف کتاب وسنت میں ہی محدود ومنحصر کردیا جائے اور اس کے علاوہ دیگر علوم کو علم کے زمرہ سے ہی خارج سمجھا جائے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اصل اور حقیقی علم جس کی شان اور فضیلت دوسرے علوم سے زیادہ ہے، وہ کتاب وسنت کا علم ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں اس بنیادی اور افضل ترین علم کو ہی لاعلمی قرار دیا جارہا ہے(v) اور اس کے فروغ کی حکومتی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے اس کا خاتمہ کرنے کی سعی مذموم عرصۂ دراز سے جاری ہے۔اسی مغالطے کے ازالے کے لئے ہی مذکورۃ الصدر آیات واحادیث کا تذکرہ کیا گیا۔
 
دیگر تجرباتی علوم کے سلسلے میں اسلام کا نظریۂ تعلیم یہ ہے کہ ہر شعبۂ حیات میں تعلیم وتعلّم کے اَہداف ومقاصد اور اس کا فلسفہ ونظریہ کتاب وسنت سے حاصل کیا جائے، اوراس کی روشنی میں ہی آگے بڑھا جائے۔یوں تو کتاب وسنت میں تمام مشاہدات وتجربات کی تفصیل موجود نہیں ہے، لیکن ان مظاہر فطر ت کی جستجو کرنے کی خوب خوب حوصلہ افزائی بلکہ دعوت واِصرار پایا جاتا ہے۔ اگر ہر شعبۂ علم کے فلسفہ واَہداف کا تعین قرآن وسنت کی روشنی میں کردیا جائے تو پھر علوم کی دینی ودنیاوی تقسیم ہی باقی نہیں رہتی۔ یاد رہے کہ دینی اور دنیوی علوم کی یہ ثنویت مغربی نظریۂ تعلیم کے باعث مسلمانوں میں پیدا ہوئی ہے جہاں علم کے میدان سے مذہب کو نکال کر صرف انسانی ضروریات اور تعیشات کے لئے نظامِ تعلیم کو محض مادّی بنیادوں پر استوار کردیا گیا جس کے نتیجے میں علم کی دو قسمیں ہوگئیں۔
 
تعلیم کو دینی ودنیاوی تقسیم میں بانٹنے کی بجائے اسے پیش نظر مقاصد واہداف کے لحاظ سے دیکھنا چاہئے۔ مقاصد واہداف کی اہمیت اس قدر مسلم ہے کہ اس کی رو سے حضرت زیدؓ بن ثابت کا سریانی زبان سیکھنا بھی عظیم دینی خدمت قرار پاتا ہے اورغیرمسلموں (مستشرقین) کا اعتراض کی نیت سے قرآن وسنت سیکھنا بھی دین دشمنی بن جاتا ہے۔ ایسے ہی اسلام نے بھی دینی علم کو دنیاوی مفادات کے تحت سیکھنے پر سنگین وعید(vi)سنائی ہے۔
 
اسلام نے کسی بھی مفیدعلم کو ناجائز قرار نہیں دیا۔ مسلم ذخیرئہ علم میں علوم کو دو قسموں پر تقسیم کیا گیا ہے: ایک علم نافع اور دوسرا علم غیرنافع۔چنانچہ ہر وہ علم جو مسلمان کے عقیدہ وعمل کے اعتبار سے نفع بخش ہے، وہ سیکھنا نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کی غیر معمولی ترغیب بھی ملتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بہت سے دعائوں میں جہاں علم نافع کی دعا فرمائی ہے، مثلاً (اللهم  إني أسئلک علمًا نافعا ورزقًا طیِّبًا وعَمَلاً مُّتقبَّلا)(سنن ابن ماجہ:۹۲۵،صحیح)وہاں غیرنافع علم سے اللہ کی پناہ بھی طلب کی ہے۔ جیسا کہ آپؐ کی ایک لمبی دعا میں یہ الفاظ موجود ہیں:
(وأعوذ بک من علم لا ینفع ومن قلب لایخشع ...) الخ
''باری تعالیٰ! مجھے ایسے علم سے پناہ دینا جو نفع بخش نہ ہو اور ایسے دل سے عافیت دینا جو تیری خشیت سے خالی ہو۔الخ''7
 
چنانچہ اسلام کا اپنے ماننے والوں سے جہاں یہ تقاضا ہے کہ وہ انسان کی اوّلین اور اساسی ضرورت یعنی 'مذہب'کی تعلیم حاصل کریں، وہاں مسلم معاشروںکی دیگر ضروریات کی تعلیم حاصل کرنا بھی فرضِ کفایہ ہے تاکہ معاشرہ مناسب طورپر ہر شعبہ زندگی میں آگے بڑھ سکے، مثلاًدفاع و تحفظ کے نقطہ نظر سے ان حربی میدانوں میں بھی سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنا اسلامی فریضہ ہے جس کے ذریعے اسلام کا دفاع کیا جاسکے اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے وسائل میسر آسکیں۔
اس کے باوجود دینی علوم براہِ راست دین ہونے کے ناطے افضیلت رکھتے ہیں۔ البتہ دیگر علوم کو دینی مقاصد کے تابع ہونے کی وجہ سے باعث ِثواب قرار دیا جاتا ہے۔ ہردو میں ایک توازن اور حفظ ِمراتب ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ اسلامی نقطہ نظرسے جس دین کی حفاظت اور فروغ کے لئے جدید علوم سیکھنے کی ضرورت ہے، سب سے پہلے اسی دین کی تعلیم وتعلّم کے ساتھ چند ممتاز لوگوں کو وابستہ ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان حضرت آدمؑ کو دنیا میں بھیجتے ہوئے اُنہیں نبوت ورسالت سے بھی سرفراز فرمایا کیونکہ مقصد ِحیات اور زندگی کو بسر کرنے کا طریقہ انسان کی اوّلین ضرورت ہے، اور یہی دین کا اصل موضوع ہے۔
 
اس بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ
دینی علوم کو دیگر علوم پر فضیلت ومرتبہ حاصل ہے اور مسلم معاشرے میں سب سے پہلے ان کے سکھانے کا انتظام ہونا چاہئے کیونکہ انسان کی اوّلین ضرورت انہی سے وابستہ ہے۔
معاشرے کی ضروریات کی تکمیل کیلئے دیگر علوم سیکھنے بھی ضروری ہیں، لیکن ان علوم کے اہداف ومقاصد کا تعین لازماً اسلامی ہدایات کی روشنی میں ہی کیا جائے گا، میسر احکامات ورجحانات سے بھی بھرپور استفادہ کیا جائے گا اور حالات کے پیش نظر تمام علوم میں ایک توازن برقرار رکھا جائے گا۔موجودہ زمانے میں علومِ اسلامیہ کو ایک شعبہ میں محصور کرکے تمام دیگر علوم کو اسلامی رہنمائی سے محروم کردینا کسی طور درست نہیں۔
 
علوم کو دینی ودنیاوی میں بانٹنے کی بجائے مقاصد کے پیش نظر تقسیم کیا جائے، دینی علوم براہِ راست دین سے وابستہ ہونے کی بناپر زیادہ باعث ِثواب ہیں، البتہ دینی مقاصد کے تحت سیکھے جانے والے علوم بھی نیک مقاصد کی وجہ سے عند اللہ اجر کے مستحق ہوں گے۔ محض دنیا کمانے اوراللہ کی یاد سے غافل کرنے والے علوم کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
 
ایک طرف تعلیم وتعلّم کے میدان میں قرآن وسنت کے نظریات یہ ہیں اوردوسری طرف ہمارے مسلمان اربابِ اختیار کی دانش وحکمت کا یہ حال ہے کہ وہ قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرنے والوں کو علم سے ہی بے بہرہ خیال کرتے ہیں۔ اور اُنہیں لاعلمی کے الزام میں عوام کی نمائندگی کے حق سے ہی برطرف کرنے کے احکامات صادر کرتے رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے حکمرانوں سے نجات دلائے جن کی عقل وفکر کے پیمانے مغرب سے مستعار لئے ہوئے ہیں اور جنہیں 'اسلام' کے نام کے علاوہ کسی اسلامی نظریے کی خبر تک نہیں!!
 
آغاز میں ذکر کردہ ناظمین کی اپنے عہدوں سے سبکدوشی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا اور الیکشن ٹربیونل کا حالیہ فیصلہ بھی جدید مغربی تعلیم کے پروردہ لوگوں کی طرف سے کوئی پہلا گھائو نہیں۔جب سے مسلم امہ سیاسی طورپر مغلوبیت کا شکار ہوئی ہے، اس وقت سے غیروں کی خصوصی 'نظر عنایت' کا مستحق مسلمانوں کا 'نظام علم' ہی رہا ہے۔افسوس تو اس امر پر ہے کہ مملکت ِخداداد پاکستان میں تعلیم کی وزارت بھی ہمیشہ ایسے لوگوں کے قبضے میں رہی ہے جو مغربی مفادات کے اسیر بلکہ محافظ اور داعی رہے ہیں۔جاوید اشرف قاضی کے تعلیم کے ضمن میں بیانات کے زخم ابھی بھرے نہیں تھے کہ یہ دل دوز خبر بھی سننے کو ملی کہ پنجاب کی نگران حکومت میں وزراتِ تعلیم کا قلمدان تہذیب ِمغرب اور فتنۂ اباحیت کے مرکز کنیئرڈ کالج کی مشہورِ زمانہ عیسائی پرنسپل میرا فیلبوس کے سپردکردیا گیا ہے۔
 
شہر علم 'لاہور' میں جو اسلامی تہذیب کا عظیم مرکز بھی ہے، دینی تعلیم کے کسی ادارے کے پاس اس اثر ورسوخ کا عشر عشیر بھی نہیں جو لاہور میں عیسائیوں کے کئی مشنری تعلیمی اداروں کو حاصل ہے۔ لاہور کے قلب میں بیسیوں عظیم الشان عمارتیں عیسائی سکولوں کے قبضے میں ہیں اور پنجاب کی آخری حکومت نے سرکار کے قبضہ قدرت سے ایک کالج جسے 'فارمین کرسچین کالج' کے نام سے جانا جاتاہے، عیسائیوں کو 'واگزار' کرنے کا سنہرا کارنامہ بھی انجام دیا ہے جس کی اب براہِ راست نگرانی مغرب کررہا ہے اور امریکہ اسے پوری سرپرستی اور گرانقدر مالی گرانٹ سے بھی نواز رہا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے بالمقابل یہ عظیم درسگاہ تو اَربوں کی سرزمین اور انتہائی قیمتی اثاثے رکھتی ہے لیکن اسی شہر زندہ دلانِ لاہور میں کوئی ایک اسلامی ادارہ بھی ایسا نہیں جو اس کے سہیم و شریک یا مقابل ہونے کا دعویٰ ہی کرسکے۔
 
یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی حالات کی ایک المناک جھلک... اہل اقتدار کو یہ کھلے امتیاز مبارک ہوں، لیکن پاکستان کے غیور عوام دین کے خادم اداروں اور ان سے فیض پانے والے علما کی عظیم خدمات کے شاہد وامین ہیں۔ دینی مدارس نے ماضی میں قوم کے جذبہ قربانی وایثار پر انحصار کرکے دنیا کی عظیم الشان این جی او کی بنیادیں رکھی تھیں اور آج دو صدیاں گزرنے کے بعد بھی یہ نظام بدستور قوم کی بے لوث دینی خدمت میں مگن ومشغول ہے۔ بر صغیر کے دینی مدارس کی یہ درخشندہ روایات اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ اس قوم میں اسلام کے بے لوث خادم بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو فہم واِدراک کی صلاحیت سے مالا مال فرمائے۔
 
اس صورت ِحال میں اس امر کی شدیدضرورت ہے کہ علم کے حوالے سے حکومت کے مغربی نظامِ تعلیم کی سرپرستی کو موضوعِ بحث بنایا جائے تاکہ عوام بھی سمجھ سکیں کہ اصل مسئلہ علم کے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں بلکہ اصل سوال حکومت کا اسے سند ِقبولیت بخشنے کا ہے۔ ایک طرف قرآن اور فرما نِ رسالتؐ علم کس کو قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف ہماری حکومتیں اسلامی نظریات کے برعکس صرف اسی کو عِلم قرار دینے پر مصر ہیں، جس پر مغربیت کی چھاپ نمایاں ہو۔ ایک وہ علم ہے جو انسان کو دنیا گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے، حقوق اللہ اورحقوق العباد بتاتا ہے او ردوسرا وہ علم ہے جس نے آج مغربی تہذیب کو قائم کرکے انسانیت کو شرمندہ کردیا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے اسی تعلیم کے بارے میں برسوں قبل کہا تھا :
ہم ان کل کتابوں کو قابل ضبطی سمجھتے ہیں جن کو پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
اور علامہ اقبال نے خواتین کے لئے اسی تعلیمِ افرنگ کی زہر ناکی کے بارے فرمایا تھا:
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازَن
کہتے ہیں، اسی علم کو اربابِ ہنر'موت'
 
آج مسلمانوں کے ذلت وپستی میں گرجانے اور اجتماعی میدانوں میں پیچھے رہ جانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے سکیولر فلسفہ پر ایمان لاتے ہوئے زندگی کے اہم میدانوں میں اسلام کی تعلیم کو پس پشت ڈال کر مغرب کے ملحدانہ نظریات کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ آج ہماری مسلم یونیورسٹیوں میں بھی عین آکسفورڈ وکیمبرج کی طرح علومِ اسلامیہ کو بھی محض 'دینیات' کے ایک شعبے کے طور پر پڑھا پڑھایا جاتا ہے لیکن قانون، معیشت، سیاست اور ایجوکیشن کے میدان جن میں اسلامی ہدایات و خدمات اور شرعی اَحکام ومسائل کی لمبی چوڑی تفصیلات موجود ہیں، لادین نظام تعلیم کے ہی سپرد کر دیے گئے ہیں۔ معاشرتی میدانوں میں ترقی اور ملت کے اجتماعی احیا کے لئے انتہائی ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم یونیورسٹیوں میں اسلامی قانون، اسلامی معیشت، اسلامی سیاست اور اسلامی تعلیم وابلاغ کے شعبے خالص اسلامی نظریات کے تحت کام کریں جس میں کتاب وسنت کی بنیاد پر زندگی کے ان میدانوں میں اسلامی احکامات کی تعلیم دی جائے۔ یہی اسلام کا تقاضا ہے کہ اسے پورے دین کے طورپر اختیار کیا جائے وگرنہ اس کی برکات سے محرومی اور قوموں کی صف میں ذلت ہی ہمارا مقدر رہے گی...!
 
حوالہ جات
1. سنن ابو داؤد: 3641 'صحیح
2. صحیح ابن حبان: 88 'صحیح
3. موطا امام مالک: رقم: 1594 'حسن
4. جامع ترمذی: 2682'صحیح
5. صحیح بخاری:71،3116،7312
6. سنن ابن ما جہ: 220 'صحیح
7. صحیح مسلم:4899

(i) یہ فرمان متعدد کتب ِحدیث میں ایک لمبی روایت کے آخر میں بیان ہوا ہے لیکن تمام روایات کی اسناد ضعف سے خالی نہیں، بہرحال اس حدیث کے مفہوم کی تائید اور تشریح دیگر احادیث اور قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے: (وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ...﴿١٢٩﴾...سورۃ البقرۃ) کہ'' آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اُنہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔''
(ii) حضرت سلمان سے مروی ہے، فرماتے ہیں: قیل له قد علَّمَکم نبیکم ۖ کل شيئ حتی الخراء ة قال فقال: أجل لقد نها نا أن نستقبل القبلة لِغائط أو بول أو أن نستنج بالیمین أو أن نستج بأقل من ثلاثة أحجار أو أن نستنج برجیع أو بعظم(مسلم: 285)
'' انہیں کہا گیا کہ تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو تمہیں ہر چیز کی تعلیم دی ہے، حتیٰ کہ تمہیں قضاے حاجت تک کا طریقہ سکھایا ہے۔ اُنہوں نے جواب دیا : بالکل ، ہمیں ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے قبلہ رخ ہوکر پیشاب وپاخانہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے، تین سے کم پتھروں سے استنجا کرنے یا گوبر اور ہڈی سے بھی استنجا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
(iii) علم کو لازماً لکھنے پڑھنے کے ساتھ مشروط سمجھناسطحی انداز ہے، کیونکہ بہت سے نابینا لوگ بھی لکھنے پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن وہ حافظ ِقرآن سے مفتی اعظم تک بنتے رہے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) علم وفضل میں بلند ترین شان رکھتے ہیں اور معلم انسانیت ہیں۔لیکن قرآنِ کریم کو کہیں سے نقل کر لانے کے اِلزام کا جڑ سے خاتمہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو لکھنا پڑھنا نہیں سکھایا، یہی راجح مسلک ہے، قرآنِ کریم میں ہے:
وَمَا كُنتَ تَتْلُوا مِن قَبْلِهِۦ مِن كِتَـٰبٍ وَلَا تَخُطُّهُۥ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّٱرْ‌تَابَ ٱلْمُبْطِلُونَ ﴿٤٨...سورۃ العنکبوت
''اے نبی! اس سے قبل آپ کو لکھی چیز پڑھ نہیں سکتے تھے، نہ ہی اپنے داہنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے، مبادا یہ کہ آپ کو جھٹلانے والے شک وشبہ کا شکار نہ ہوجائیں۔''
(iv) دیکھئے اسی شمارہ میں شائع شدہ مضمون 'مصحف شریف ؛ ایک تاریخی جائزہ' کا صفحہ اوّل
(v) دینی تعلیم کی افضیلت پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم)کا یہ فرما ن ملاحظہ ہو : (خیرکم من تعلم القرآن وعلَّمہ)
''تم میں سب سے بہترین وہ ہے کہ قرآن سیکھتا اور اسے سکھاتا ہے۔'' (صحیح بخاری: 4639)
اور عبداللہ بن مسعود سے مروی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(لا حسد لا في اثنتین رجل آتاه  اﷲ مالا فسلطه علی ہلکته  ورجل آتاه  اﷲ الحکمة فھو یقض بھا ویُعلِّمھا) (صحیح بخاری :73) '' دو قسم کے آدمی قابل رشک ہیں، ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال سے نوازا اور وہ اسے حق کی راہ میں لٹاتا ہے، اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت (دینی علم) سے بہرہ ور فرمایا اور وہ اسی کے ساتھ فیصلے کرتا اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔''
(vi)  علم دین کو دنیاوی مقاصد کے تحت حاصل کرنا حرام ہے، فرمانِ نبویؐ ہے: '' من طلب العلم لیُجاري به العلماء أو لیُماري بہ السفهاء أو یَصرفَ به  وجوه  الناس إلیه أدخله  اﷲ النار'' ''جو شخص اسلئے علم سیکھتا ہے کہ علما میں اس کا شمار کیا جائے یا نادانوں کے ساتھ وہ بحث مباحثہ کرے اور لوگوں کے چہرے اپنی طرف پھیر کربلند مقام پائے تو اللہ اس کو آگ میں داخل کریں گے۔( ترمذی: 2654 'حسن')
اس حدیث میں بھی علم کا غالب مصداق دینی علم کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے یا اس کو تمام علوم پر پھیلالیا جائے؟