عزت تواللہ،اسکے رسولﷺ اور اہل ایمان کی ہے!


آج ہر طرف بے دینی اور مادہ پرستی کا دور دورہ ہے، اسلام کی تعلیم حاصل کرنے والے تو کجا ، اس پر عمل کرنے والوں کو بھی 'کٹھ ملا' کہہ کرکھلے عام پھبتی کسی جاتی ہے۔ اُنہیں بزعم خود 'طالبان' باور کیا جاتا اور دہشت گردی کے محرک نہ سہی تو ان کے مؤید ضرور شمار کیا جاتا ہے۔ یہ رِیت کوئی نئی نہیں بلکہ ہر دور میں اہل ایمان سمیت انبیا ورسل کو بھی ایسی ایذارسانیوں کاسامنا رہا ہے۔ خلوصِ دل سے دین پر عمل پیرا ہونے والوں کے لئے اس حوالے سے قرآنِ کریم کی تعلیمات تقویت اور طمانیت کا باعث ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے...

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا} (الاحزاب:۶۹)

''اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح مت بنو جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف دی، تو اللہ نے انہیں ان کی اس بات سے جو انہوں نے کہی، بَری فرما دیا، اور وہ اللہ کے نزدیک بڑے ہی باوقار اور باعزت تھے۔''

اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء و رسل بے انتہا عظیم الشان عزوشرف کے حامل ہیں، ان کا آپس میں تفاضل(مقابلہ وفضیلت) ایک الگ ضمنی مسئلہ ہے۔{تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ} (البقرہ،۲:۲۵۳) ان کا یہ اعزاز و اِکرام محض اس وجہ سے نہیں رہا وہ کسی اونچی قوم برادری کے فرد ہوتے تھے،یا بڑے بڑے خزائن و دفائن کے مالک تھے،یا ان کارنگ و روپ خاص قسم کا جاذبِ قلب و نظر ہوتا تھا،یا کسی سیاسی و سماجی رُعب و داب کی وجہ سے انہیں اللہ کے ہاں وجاہت حاصل تھی۔ بلا شبہ انہیں یہ فضائل ایک حد تک حاصل رہے ہیں۔ مگر ان کی حقیقی قدر و منزلت محض ایمان و عمل اور تقویٰ کے ساتھ اس منصب کی وجہ سے تھی جس کا انہیںذمہ دار بنایاگیا تھا۔

{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ}

''ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا ہے کہ (لوگو!) عبادت صرف ایک اللہ کی کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچے رہوـ۔''(النحل:۳۶)

چنانچہ ان قدوسی حضرات نے اپنی زندگی کے ہرہر مرحلے پر اپنے ذاتی ذوق و شوق یا قوم برادری کے رسم و ریت کے مقابلے میں ہمیشہ اللہ عزوجل کے قانون و شریعت پر عمل کیا اور اسی کی برملا دعوت دی۔ علیہم الصلاۃ والسلام

اس ذمہ داری میں انہیں قوم برادری کی طرف سے بے انتہا اذیتوں اور مشکلات کاسامنا رہا ہے۔مگر انہوں نے صبروثبات اور استقامت کا وہ مظاہرہ فرمایا کہ آخرالامر مخالفین کو بری طرح ناکام ہونا پڑا اور پھر ان کے لگائے الزامات کا دفعیہ بڑے بڑے عجیب انداز میں کیا گیا اور ان کی تاریخ کو رہتی دنیا تک کے لیے بطورِ حجت محفوظ فرما دیا گیا ہے۔

مذکورۃ الصدر آیت کریمہ میں یہ مضمون بڑے اختصار اور جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس کاشانِ نزول اور اس سے متعلق واقعہ کتب تفاسیر و اَحادیث میں لائق مطالعہ ہے۔

اس بارے میں قرآن کریم اور تاریخ اسلام سے مزید چند واقعات قابل غور ہیں، مثلاً :

a سیدنا یوسف علیہ السلام کا قصّہ اکثر لوگ جانتے ہیں۔ آپ کے بھائیوں نے ابتدا میں آپ کے ساتھ جو سلوک کیامعلوم و معروف ہے۔ سو ایک وقت آیا کہ ان برادران کو اپنے کئے پر بڑی شرمندگی اُٹھانا پڑی اور اپنی زبان سے اقرار و اعتراف کرنا پڑا کہ

{قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ} (یوسف:۹۱)

''اللہ کی قسم! اللہ نے آپ کو ہم پر برتری دی ہے اور یقیناً ہم خطاکار تھے۔''

{قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ} (یوسف:۹۷)

''ابا جان، ہمارے لیے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے، بیشک ہم قصور وار ہیںـ۔''

{وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا} (یوسف:۱۰۰)

''انہوں نے اپنے ماں باپ کو اپنے تخت پر اونچا بٹھایا اور پھر وہ سب اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔''

b سیدنا رسول اللہ1 کو بھی اپنی قوم کی طرف سے بدترین اذیتوں اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔مگر وہی زبانیں جو آپ کے خلاف طعن وتشنیع میں دراز ہوتی رہی تھیں۔ ایک وقت کے بعد اپنی بھول اور خطا کااعتراف کرنے پر مجبور ہوگئیں۔مثلاًابوسفیان اور ان کی بیوی ہندبنت عتبہ اسلام سے قبل رسول اللہ1 کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھے۔مگر اللہ کی تقدیر اور اس کے فیصلے بڑے عجیب ہیں کہ یہی گھرانہ فتح مکہ کے موقع پر قبولِ اسلام سے مشرف ہوگیا اور اس خاتون نے برملا اعتراف کیا:

'' یا رسول اﷲ! ما کان علی ظھر الأرض أھل خباء أحب إلیّ أن یذلّوا من أھل خباء ك ثم ما أصبح الیوم علی ظھر الأرض أھل خباء أحب إليّ أن یعزوا من أھل خباء ك) (صحیح بخاری:۳۸۲۵)

''اے اللہ کے رسول1! ساری زمین پر جتنے بھی ڈیرے اور خیموں والے ہیں ان میں سے کسی کاذلیل و خوار ہونا مجھے اتنا پسند نہیں تھا جتناکہ آپ کا اور آج برسرزمین کوئی ڈیرے اور خیمے والے ایسے نہیں کہ ان کا عزت و آبرو والا ہونا آپ سے بڑھ کر مجھے محبوب ہو۔''

اور یہ تفسیر تھی مذکورہ بالا آیت کریمہ کی کہ:{فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا}''اللہ نے اپنے نبی کو ان لوگوں کی کہی باتوں سے بری قرار دیا۔''

c اس سے واضح تر بیان جناب ثمامہ بن اثالؓ کا ہے۔ یہ علاقہ یمامہ کے رئیس تھے اور اسلام و مسلمان کے بڑے دشمنوں میں سے تھے۔ اللہ کاکرنا یہ ہوا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوگئے اور پھر انہیںمدینہ منورہ لاکر مسجد میں ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ اس دوران رسول اللہ1 موقعہ بہ موقعہ ان سے مزاج پرسی کرتے رہے، مگر ان کی تلخی اپنی انتہا پر تھی، یہ جواب دیتے تھے کہ

''إن تقتُلْني تقتُلْ ذا دمٍ وإن تُنعم تُنعم علیٰ شاکر وإن کنتَ تریدُ المال فسل منه ما شئت'' (صحیح بخاری :۴۳۷۲)

''اگر مجھے قتل کرو گے تو ایک خون والے کو قتل کرو گے (یعنی میری قوم پورا پورا قصاص لے گی) اگر احسان کرو گے تو ایک شکرگزار پراحسان کرو گے (یعنی احسان مند رہوں گا) اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو کہیے... جو چاہتے ہیں دے دیا جائے گا۔''

مگر تیسرے دن رسول اللہ1 نے ان پراحسان کرتے ہوئے انہیں آزاد کردیا تو انہوں نے قریب کے باغ میں جاکر غسل کیا اور پھر مسجد میں لوٹ آئے اور کلمۂ شہادت پڑھ کر حلقۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔

اس موقع پر جو کچھ انہوں نے کہا وہ ایک آزاد، مخلص اور صاف دل انسان کا بیان تھا اور اللہ عزوجل کے اسی عہد کا اِظہار تھا کہ وہ اپنے انبیا کو لوگوں کے طعن و تشنیع اور اِلزامات سے بڑے عجیب اَسالیب سے بری کرتا ہے۔ انہوں نے کہا:

''یا محمد! واﷲ ما کان علی الأرض وجه أبغض إلیّ من وجھك فقد أصبح الیوم وجھك أحب الوجوہ کلّھا إلي۔

واﷲ ما کان من دین أبغض إلیّ من دینك فأصبح دینك أحبّ الدین کله إلي۔

واﷲ ما کان من بلد أبغض إليّ من بلدك فأصبح بلدك أحب البلاد کلّھا إليّ۔'' (صحیح مسلم:۱۷۶۴)

''اے محمد (1) اللہ کی قسم! اس روئے زمین پرمیرے لیے آپ کے چہرے سے بڑھ کر اور کوئی چہرہ مبغوض و ناپسندیدہ نہ تھا۔مگر اب آپ کا چہرہ میرے لیے سب چیزوں سے بڑھ کر محبوب ہوگیا ہے۔

اللہ کی قسم! آپ کے دین سے بڑھ کر میرے لیے کوئی دین مبغوض و ناپسندیدہ نہ تھا مگر اب آپ کا دین میرے لیے سب سے بڑھ کر محبوب بن گیا ہے۔

اللہ کی قسم! آپ کے شہر سے بڑھ کرمیرے لیے اور کوئی شہر مبغوض و ناپسندیدہ نہ تھا مگر اب آپ کا شہر میرے لیے سب سے بڑھ کر محبوب ہوگیا ہے۔''

الغرض! یہ اور اس طرح کی دسیوں مثالیں ہیں کہ آپؐ کے شدید ترین مخالفین نے اپنے کئے اور اپنے کہے پر انتہائی ندامت کا اظہار کیا اور پھر اس کا ازالہ کرتے ہوئے آپ کے ساتھ الفت و محبت اور آپ کے دین کی اشاعت اور دفاع میں ا نتہاکردی۔

اس بات کا دوسرا پہلو

علماے اُمت انبیاء و رُسل کے وارث ہیں۔العلماء ورثة الأنبیاءاوریہ وراثت روپے پیسے یا حکومت و فرماں روائی کی نہیں بلکہ علم یعنی علم شریعت کی وراثت ہے۔اس علم اور دعوت کی وراثت ہے جس کے انبیاے کرام مکلّف تھے یعنی{أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ}کی دعوت کہ''ایک اللہ کی عبادت کرو اور ماسوا اللہ معبودوں کی عبادت سے بچو (اوردوسروں کو بچاؤ)''

سیدناابوالدرداء ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ1 نے فرمایا:

إن العلماء ورثة الأنبیاء،وإن الأنبیاء لم یورّثوا دیناراً ولا درھماً وإنما ورّثوا العلم،فمن أخذہ أخذ بحظ وافر ( سنن ابوداؤد:۳۶۸۲)

''علمائ، انبیاء کے وارث ہوتے ہیں اور انبیا کسی درہم و دینار کے وارث نہیں بناتے، وہ تو بس علم کا وارث بناتے ہیں جس نے یہ علم حاصل کرلیا اس نے بھرپور حصہ پایا۔''

اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے :

من بطأ به عمله لیس یسرح به نسبه (رقم الحدیث:۲۶۹۹)

'' جس کا علم اسے پیچھے رکھے اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا۔''

علماے حق کا بے مثل اعزاز

وراثت کے متعلق معلوم و معروف ہے کہ یہ ہمیشہ قرابت قریبہ ہی کے تحت ملتی ہے۔ انسان کاخواہ کوئی کتنا ہی عزیز اور محبوب ہو مگر ان میں رشتہ داری کا تعلق کا نہ ہو تو اس دوست کو وارث نہیںبنایا جاسکتا۔چنانچہ علما کے لیے یہ عظیم ترین اعزاز ہے جو اُمت کے کسی اور طبقہ کے حصے میں نہیں آیا کہ انہیں انبیا کا وارث قرار دیا گیا ہے۔قطع نظر اس سے کہ ان کی قوم برادری کیا ہو،رنگ و روپ کیسا ہو، قدوقامت اور مال و منصب کیا ہو،نبی کا وارث محض اور محض وہی ہوگا جو صاحب علم ہوگا یعنی شریعت الٰہیہ کا عالم جو پیغمبرؐ نے پیش کی۔

یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے حین حیات اپنی قوم قبیلے کے ان اَفراد سے علی الاعلان لاتعلقی کا اظہارفرما دیا تھا جو ایمان و عمل صالح سے خالی تھے فرمایا:

إنَّ آل أبي فلان لیسوا بأولیائي إنما ولي اﷲ وصالح المؤمنین

'' آل ابی فلاں میرے کوئی ولی (وارث) نہیں ہیں۔میرے ولی اور وارث تو اللہ عزوجل کے بعد صالح ایمان دار ہیں۔'' (صحیح بخاری:۵۹۹۰)

علماے حق کا فرض منصبی

اس لیے علماے اُمت اور طلبۂ شریعت الٰہیہ کا فرض ہے کہ اپنی اس نسبت کی رعایت سے اپنا مقام و منصب ہمیشہ پیش نگاہ رکھیں۔ تقویٰ واخلاص میں گہرائی پیدا کرنے میں محنت کریں اور اپنے تمام تر مشاغل میں سے علم قرآن و سنت کو اوّلین ترجیح دیں اور اس کی اشاعت میں کسی قسم کی کمزوری اور کسل مندی کو راہ نہ دیں اور اللہ کا شکر کرتے ہوئے اس دولت کو اپنے لیے وجہ افتخار جانیں اور عین ممکن ہے کہ علماے حق کوبھی اپنے مورثین کی سنت میں جہلا کی طرف سے کچھ مشکلات کا سامنا کرنے پڑے وہ مشکلات اقتصادی، معاشی، سیاسی اور سماجی ہر طرح کی ہوسکتی ہیں۔طعن و تشنیع اور سچے جھوٹے الزامات بھی ہوسکتے ہیں اور ممکنہ رکاوٹیں بھی۔مگر یقین رکھنا چاہیے کہ جیسے اللہ عزوجل نے اپنے انبیا کو {فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا} ''اللہ نے (جناب موسیٰ علیہ السلام کو) لوگوں کی کہی باتوں سے بری فرمایا۔'' کا قرار دیا ہے تو عین اس طرح، ان وارثوں کے لیے بھی جلد یا بدیر یہ عہدوقرار ثابت ہوکر رہے گا۔ان مشکلات اور رکاوٹوں کا اِزالہ ہوکر رہے گااور جیسے اپنے پیارے مو سیٰؑ کے لیے فرمایاہے کہ{وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا}''وہ اپنے اللہ کے ہاں بڑے ہی معزز تھے'' تو اس طرح نبی کے وارث بھی بڑے معزز و محترم ہیںبشرطیکہ اس اعزاز کی شرائط پر پورے اترتے ہوں۔

{وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ} (المنافقون:۸)

''اور عزت توبس اللہ کے لیے، اس کے رسول کے لیے اور اہل ایمان کے لیے ہے۔''

اور یہ عزت شہادت ِ توحید و رسالت اور اعمال صالحہ کی عزت ہے اور ان کے بالمقابل اگر کوئی شرک و بدعت سے آلودہ ہو اور حکومت و فرماں روائی یا کچھ روپے پیسے کی گنتی میں بڑھا ہوا ہوتو یہ اللہ کے ہاں عز و شرف کا کوئی معیارنہیں ہے۔

{وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ}

''تمہارے مال اور اولاد کوئی ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ تمہیں ہمارے ہاں (مرتبوں سے) قریب کردیں، مگر جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں۔''(سبا:۳۷)

اَئمہ و محدثین میں ہمیں امام مالک،۱مام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، یحییٰ بن معین، یحییٰ القطان رحمہم اللہ اور دیگربے شمار بزرگ نظر آتے ہیں کہ ان حضرات نے فقروفاقہ کو خاطر میں لائے بغیر علم دین حاصل کیا۔اس کی حفاظت کی اور اس کی اشاعت میں کسی حاکم اور حکومت کے زیراِحسان نہیں ہوئے تو اللہ عزوجل نے ان کو ایسی 'وجاہت' عنایت فرمائی ہے جو اَصحاب مال و منال اور صاحبان تخت کو حاصل نہیں ہوئی۔ چنانچہ ان کاکلمہ بلند اور ان کاتذکرہ محفوظ ہے اور دوسرے دور کہیں تاریخ کی تہوں میںمدفون ہیں۔اور کفر و کفار آج بھی ان بوریا نشینوں کے وارثوں سے لرزہ براَندام ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور انہیں مزیدخدمت دین کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین