ترے خیال کو دل میں بسا کے لایا ہوں میں ایک ذرّے میں صحرا چھپا کے لایا ہوں ترے کرم کی نہایت ہے یہ کہ تیرے حضورؐ میں اپنے آپ کو خود سے بچا کے لایا ہوں میں دیکھتا تھا کبھی جس میں اپنی ذات کا عکس اس آئینہ کی میں کِرچیں اُٹھا کے لایا ہوں یہ جاں کہ تجھ کو زمانے کا روپ کہتی ہے میں قیدِ وقت سے اس کو چھڑا کے لایا ہوں نظر کا سوز، تمنّا کی آنچ، غم کی جلن میں خود کو سردِ چراغاں بنا کے لایاں ہوں کہاں ہے تیرگیٔ خاکدان کہ میں امشب فلک سے تیری تجلّی اُٹھا کے لایاں ہوں جلا مجھے کہ مہک اُٹھوں اے چراغِ حر مزید مطالعہ