جب سے انگریز بہادرنے اس خطے پر قبضہ جمایا ہے، تب سے ہمیں وہی چیز پسند آتی ہے جسے انگریز یا انگریزی سے نسبت ہوتی ہے۔ دیگر باتیں تو ایک طرف، ہمارے ہاں اپنی ذاتی پہچان کے حوالے 'دستخط' تک انگریزی ہی میں ثبت کرنا تہذیب و شائستگی قرار پائے۔ کچھ یہی حال تعلیم کا ہے۔ کبھی تعلیمی معیار کی علامت عیسائی مشنری تعلیمی ادارے تھے، اور ابھی تک ہم اسی جادو کے اسیر تھے کہ اب اس کے ساتھ 'اے' لیول اور 'او' لیول کا برطانوی امتحانی نظام (GCE) بھی ہمارے ذہنوں پر بھوت بن کر مسلط ہوگیا ہے۔ جس فرد کے پاس چند ہزار روپے ف مزید مطالعہ
ہم بھی ایک عجب عہد میں سانس لے رہے ہیں کہ پسے اور مصیبت میں پھنسے ہوئے فرد بلکہ معاشرے ہی کو نصیحت کے درس دیے جاتے ہیں اور ظالم کے ظلم پر بات کرنے کو مصلحت کے خلاف یا شاید انتہا پسندانہ سوچ قرار دیا جاتا ہے۔مغرب کے مخصوص دہشت پسندانہ ماحول اور مسلم دنیا کی استبدادی فضائوں میں سانس لینے والے 'ناصحین اور سیانے' لوگ یہ کہتے ہیں: ''بھائی، مسلم دنیا کے بارے میں فکری عدم توازن اور قلمی صلیبیت کے علم بردار مغربی قلم کاروں کی تحریروں کا مت نوٹس لیا کریں۔ مغربی معاشرے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔'' اسی مزید مطالعہ