انسان کی فطری کمزوریاں...قرآنِ کریم میں

مادّیت کے اس دو رمیں انسان کے وجود پرمادّی حوالے سے بہت کچھ لکھا جارہا ہے لیکن 'انسان' پر روحانی پہلو سے توجہ نہیں دی جارہی، نہ اس ضمن میں وحی الٰہی سے فائدہ اُٹھایا جارہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان مادّی طور پر کسی حد تک مطمئن ہوجانے کے باوجود روحانی حوالے سے بہت کھوکھلا اور تشنہ ہے۔
زیر نظر مضمون میں اس پہلو سے لکھے گئے دو مضامین کو بیک مقام شائع کیا جارہا ہے جس میں دو فاضل حضرات نے ایک ہی موضوع پر اپنے اپنے ذوق اور معلومات کے مطابق روشنی ڈالی ہے۔قرآنِ کریم میں انسان کی فطری کمزرویوں اور صفات کو مختلف انداز پر پیش کیا گیا ہے ، یہ دونوں مضامین اسی کا مطالعہ ہیں۔ پروفیسر اختر حسین عزمی کا تحریر کردہ حاشیہ میں شائع ہونے والا مضمون محدث کو موصول ہوا تھا، انہی دنوں سعودی عرب کی فاضل شخصیت شیخ عبد اللہ معتاز کی بھی اسی موضوع پرتفصیلی تحریر پڑھنے کو ملی، حاشیہ میں شائع کردہ تحریر اگر اس موضوع کا فلسفیانہ اور تفکرانہ تجزیہ پیش کرتی ہے تو متن کی جگہ پر شائع کردہ تحریر میں قرآنِ کریم کی آیات سے جابجا استشہاد کیا گیا ہے اور اس میں 'نقلی' انداز واستدلال غالب ہے ، اس حوالے سے دونوں مضامین ایک دوسرے کی تکمیل بھی ہیں، چنانچہ اسی بنا پر بیک وقت انہیں شائع کیا جارہا ہے تاکہ قارئین ایک کامل بحث سے اِستفادہ کرسکیں۔ ( حسن مدنی)
اِ س مضمون میں ہم قرآنِ مجید سے انسان کی اُن پندرہ صفات اور کمزوریوں کا ذکر کریں گے جو انسانوں میں عام طور پر پائی جاتی ہیں، مگر اللہ تعالیٰ جس شخص کو اپنے اَحکام کی پیروی اوراپنے رسول کی سیرت سے ہدایت کی توفیق دے اورا س کے نفس کی تادیب و تعلیم اور تہذیب کے ذریعے سے حفاظت فرمائے۔ وہ ان خامیوں اور کوتاہیوں سے محفوظ رہتا ہے :
پہلی صفت ... کمزوری
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
﴿وَخُلِقَ الإِنسـٰنُ ضَعيفًا ٢٨ ﴾... سورة النساء "انسان کمزور پیدا کیا گیاہے"
نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿فَليَنظُرِ‌ الإِنسـٰنُ مِمَّ خُلِقَ ٥ خُلِقَ مِن ماءٍ دافِقٍ ٦ يَخرُ‌جُ مِن بَينِ الصُّلبِ وَالتَّر‌ائِبِ ٧ إِنَّهُ عَلىٰ رَ‌جعِهِ لَقادِرٌ‌ ٨ يَومَ تُبلَى السَّر‌ائِرُ‌ ٩ فَما لَهُ مِن قُوَّةٍ وَلا ناصِرٍ‌ ١٠ ﴾... سورة الطارق
"انسان دیکھے کہ کس چیز سے پیدا کیا گیا؟ اُچھلتے پانی سے پیدا کیا گیا جو پشت اور سینوں کے درمیان سے نکلتا ہے، بے شک وہ اسے دوبارہ پیدا کرسکتا ہے، جس دن راز کھولے جائیں گے، اس دن اس کا کوئی زور اور کوئی مددگار نہ ہوگا"
بے شک انسان اتنا کمزور ہے کہ اپنے نفع و نقصان اور موت و حیات اور دوبارہ زندہ ہونے کا مالک نہیں۔ اور اگر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو اپنے اردگرد خوفناک قوتوں اور زبردست خطرات یعنی جانوروں، زہریلے کیڑوں مکوڑوں اور ان مخلوقات کے ساتھ جنہیں اللہ ہی جانتا ہے وہ اس روئے زمین پر زندہ نہ رہ سکتا...یقینا یہ انسان جو مخلوط 'منی' سے پیدا ہوا ہے، اتنا کمزور ہے کہ اگر اس کے بدن میں کانٹا چبھ جائے یا ذرا سا زخم ہوجائے تو رات بھر سو نہیں سکتا۔ اگر اس پراللہ کا کوئی ہلکا سا عذاب بھی نازل ہوجائے تو اسے سکون و قرار اور جمع خاطر نصیب نہ ہو... یہ جسمانی حیثیت میں بھی سب سے کمزور ہے۔ اگر جراثیم جو آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے، اس پر غالب آجائیں تو اس کی طاقت برباد کردیں اور اگر مکھی اس سے کوئی چیز چھین لے تو واپس نہ لے سکے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
﴿وَإِن يَسلُبهُمُ الذُّبابُ شَيـًٔا لا يَستَنقِذوهُ مِنهُ ۚ ضَعُفَ الطّالِبُ وَالمَطلوبُ ٧٣﴾... سورة الحج
"اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز چھین لے تو اس سے چھڑا (نکال) نہ سکیں، طالب (انسان) اورمطلوب (مکھی) دونوں کمزور ہیں"
کسی شاعر نے کہا ہے*

نسی الطين ساعة أنه طين حقير
فصال تيهًا و عربدا
و کُسی الخزَّ جسمُه فتباهي
وحوی المال کيسُه فتمرَّدا
أنت مثلي يهِش وجهک للنعمی
وفي حالة المصيبة يکمَد

"خاک نے جب فراموش کردیا کہ وہ حقیر خاک ہے تو شرارت اور تکبر کرنے لگی" ..."اور اس کے بدن کو ریشم پہنایا گیا تو فخر کرنے لگی اور اس کی جیب میں مال آگیا تو سرکش ہونے لگی"..."تو مجھ جیسی ہے جس کے چہرے کونعمت شاداں کردیتی ہے اور مصیبت کی حالت میں جھونپڑا ہوجاتا ہے"
دوسری صفت ... ناامید، خوشی، فخر اور اِسراف
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں
﴿وَلَئِن أَذَقنَا الإِنسـٰنَ مِنّا رَ‌حمَةً ثُمَّ نَزَعنـٰها مِنهُ إِنَّهُ لَيَـٔوسٌ كَفورٌ‌ ٩ وَلَئِن أَذَقنـٰهُ نَعماءَ بَعدَ ضَرّ‌اءَ مَسَّتهُ لَيَقولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّـٔاتُ عَنّى ۚ إِنَّهُ لَفَرِ‌حٌ فَخورٌ‌ ١٠ ﴾... سورة هود
"جب ہم انسان کو اپنی کوئی رحمت چکھاتے ہیں پھر اس سے چھین لیتے ہیں تو وہ نااُمید، ناشکرا ہوجاتاہے اور جب ہم اسے پریشانی کے بعد نعمت چکھاتے ہیں تو وہ ضرور کہتا ہے کہ میری پریشانیوں دور ہوگئیں اور اِترانے اور فخر کرنے لگتا ہے" ... اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِذا مَسَّ الإِنسـٰنَ الضُّرُّ‌ دَعانا لِجَنبِهِ أَو قاعِدًا أَو قائِمًا فَلَمّا كَشَفنا عَنهُ ضُرَّ‌هُ مَرَّ‌ كَأَن لَم يَدعُنا إِلىٰ ضُرٍّ‌ مَسَّهُ ۚ كَذ‌ٰلِكَ زُيِّنَ لِلمُسرِ‌فينَ ما كانوا يَعمَلونَ ١٢ ﴾... سورة يونس
"اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹے، بیٹھے اور کھڑے (ہر حالت میں) ہم کو پکارتا ہے اور جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو ایسے گزر جاتا ہے جیسے ہمیں کسی تکلیف میں پکارا ہی نہ ہو، ایسے ہی اِسراف پسندوں کے عمل ان کے لئے خوشنما بنا دیئے جاتے ہیں" ... اور اِرشاد ہے:
﴿وَإِذا مَسَّهُ الشَّرُّ‌ كانَ يَـٔوسًا ٨٣ ﴾... سورة الاسراء
"اور جب اسے پریشانی ہو تو مایوس ہوجاتا ہے" ... اور فرمایا:
﴿وَإِذا أَذَقنَا النّاسَ رَ‌حمَةً فَرِ‌حوا بِها ۖ وَإِن تُصِبهُم سَيِّئَةٌ بِما قَدَّمَت أَيديهِم إِذا هُم يَقنَطونَ ٣٦ ﴾... سورة الروم
"اور ہم انسان کو اپنی کوئی رحمت چکھاتے ہیں تو اس کی وجہ سے اِترانے لگتا ہے اور اگر اپنے کرتوت کی وجہ سے اسے ذرا سی تکلیف پہنچتی ہے تو یکایک نااُمید ہوجاتا ہے"
اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے: ﴿وَإِذا مَسَّ النّاسَ ضُرٌّ‌ دَعَوا رَ‌بَّهُم مُنيبينَ إِلَيهِ ثُمَّ إِذا أَذاقَهُم مِنهُ رَ‌حمَةً إِذا فَر‌يقٌ مِنهُم بِرَ‌بِّهِم يُشرِ‌كونَ ٣٣ ﴾... سورة الروم
"اور جب انسانوں کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اللہ کی طرف توجہ دے کر پکارتے ہیں اورجب وہ انہیں کوئی رحمت چکھا دیتا ہے تو یکایک ان کا ایک گروہ اپنے ربّ کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے"
اکثر اوقات انسان پل بھر میں نااُمید ہوجاتا ہے اور محض نعمت کے چھن جانے سے اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرتا ہے اور آسائش کی حالت میں اِتراتا ہے۔ کسی مشکل کو برداشت نہیں کر پاتا۔ نہ کسی تکلیف پر صبر کرتا ہے اور نہ اس کے دور ہونے کی اُمید رکھتا ہے۔ جب اللہ اسے نعمت دیتا ہے تو اس کے زوال کے بارے میں نہیں سوچتا اور مغرور بن کر اکڑتا ہے۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں جنہوں نے اپنے نفس کی تربیت صبر اور نیک اَعمال پر کی ہے اور مشکلات کو برداشت کیا اور اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت کا شکریہ ادا کیا ہے۔
انسان کی عام صفت جیسا کہ بیان کیا گیا ہے: تکلیف پر ناامید، نعمتوں کی ناشکری اور راحت اور آرام ملنے پر خوش ہونا، تکبرکرنا، شرارت و اِسراف اور ہر چیز میں حدود سے تجاوز کرنا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اپنے نفس کی تربیت ایسے کریں کہ نہ بہت خوش ہوں نہ بے حد نااُمید۔اللہ کا فرمان ہے:
﴿ما أَصابَ مِن مُصيبَةٍ فِى الأَر‌ضِ وَلا فى أَنفُسِكُم إِلّا فى كِتـٰبٍ مِن قَبلِ أَن نَبرَ‌أَها ۚ إِنَّ ذ‌ٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسيرٌ‌ ٢٢ لِكَيلا تَأسَوا عَلىٰ ما فاتَكُم وَلا تَفرَ‌حوا بِما ءاتىٰكُم ۗ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ مُختالٍ فَخورٍ‌ ٢٣ ﴾... سورة الحديد
"جو بھی مصیبت زمین یا تمہارے اوپر سے آتی ہے وہ زمین کے پیدا ہونے سے پہلے ایک کتاب میں محفوظ ہے بے شک یہ اللہ پر آسان ہے تاکہ تم سے جو چیز چھن جائے اس پر افسوس نہ کرو اور جو (چیز) تمہیں دے اس پر اتراؤ نہیں اور اللہ خود پسند مغرور کو قطعا ً پسند نہیں فرماتے"
تیسری صفت ... ظلم و ناشکری
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّ الإِنسـٰنَ لَظَلومٌ كَفّارٌ‌ ٣٤ ﴾... سورة ابراهيم "بے شک انسان بڑا ظالم ناشکرا ہے"
اور فرمایا:
﴿إِنَّ الإِنسـٰنَ لَكَفورٌ‌ مُبينٌ ١٥ ﴾... سورة الزخرف "بے شک انسان کھلم کھلا ناشکرا ہے"
اور اس کا ارشاد ہے:
﴿قُتِلَ الإِنسـٰنُ ما أَكفَرَ‌هُ ١٧﴾... سورة عبس "انسان ہلاک ہو وہ کتنا ناشکرا ہے"
لہٰذا کفر اور ظلم انسان کی پائیدار صفت ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ اسے ہدایت کی توفیق نہیں دیتا وہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری اور وہ اس وقت تک اپنے اور دوسروں پر ظلم کرتا رہتا ہے جب تک اپنے نفس کو اسلام کے اَحکامات اور محاسن پر درست نہ کرلے۔
انسان جب خود کو مالدار اور طاقتور دیکھتا ہے تو دوسروں پر ظلم و زیادتی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم کرنا اس کی پائیدار صفت بتائی گئی ہے اور اسی لئے نماز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعاکی جاتی ہے:
«اَللّٰهُمَّ إنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ ظُلْمًا کَثِيْرًا، وَلاَيَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إلاَّ أنْتَ فَاغْفِرْ لِيْ مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ إنَّکَ أنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ» (صحيح بخارى1/115)
"اے اللہ! میں نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا اور گناہوں کو آپ ہی بخشتے ہیں، آپ اپنی طرف سے مجھے بخش دیں اور مجھ پر رحم کریں آپ غفور رحیم ہیں"
اور زیادہ تر لوگ اپنے ربّ کے نافرمان اور اس کے دین سے بیزار ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَإِن تُطِع أَكثَرَ‌ مَن فِى الأَر‌ضِ يُضِلّوكَ عَن سَبيلِ اللَّهِ ۚ إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِن هُم إِلّا يَخرُ‌صونَ ١١٦ ﴾... سورة الانعام
"اور اگر آپ روئے زمین کے زیادہ تر لوگوں کے پیچھے چلیں گے تو وہ آپ کو اللہ کے راستے سے دور کردیں گے، وہ تو اندازے ہی کے پیچھے چلتے اور قیاس آرائی کرتے ہیں"
فرمانِ الٰہی ہے: ﴿وَما أَكثَرُ‌ النّاسِ وَلَو حَرَ‌صتَ بِمُؤمِنينَ ١٠٣ ﴾... سورة يوسف
"اور زیادہ تر لوگ آپ چاہیں تو بھی موٴمن نہیں ہوں گے"
صحیح موٴمنوں کی تعداد کافروں کی نسبت سیاہ بیل کے بدن پر سفید بال کی طرح ہے اور یہ بات حدیث میں وارد ہے۔ اور یہ بھی کہ جہنم کا لشکر ہر ہزار میں نو سوننانوے ہوگا۔ ہم اللہ سے سچائی اور ہدایت پر ثابت قدم رہنے کی دعا کرتے ہیں۔
چوتھی صفت ... لڑائی اور تکرار
اللہ کا ارشاد ہے: ﴿خَلَقَ الإِنسـٰنَ مِن نُطفَةٍ فَإِذا هُوَ خَصيمٌ مُبينٌ ٤ ﴾... سورة النحل
"انسان نطفے سے پیدا کیا گیا، پھر یکایک جھگڑالو بن بیٹھا"
اور اس کا ارشاد ہے: ﴿وَكانَ الإِنسـٰنُ أَكثَرَ‌ شَىءٍ جَدَلًا ٥٤ ﴾... سورة الكهف
"اور انسان سب سے بڑھ کر جھگڑالو ہے"
بے شک یہ حقیرنطفے سے پیدا کی گئی مخلوق اپنی فطرت کوبدل لیتی ہے اور جھگڑالو بن جاتی ہے۔ اپنے اس ربّ سے جھگڑتی ہے جس نے اسے عدم سے وجود بخشا۔ اس میں جان پیدا کی اور اس کے کان، آنکھ اور دل بنائے، وہ بلاوجہ اللہ کے وجودِ الوہیت کے بارے میں جھگڑتا ہے۔ یہ ہے کون کہ علم و ہدایت اور روشن کتاب سے ہدایت حاصل نہ کرے اور اللہ کے بارے میں جھگڑے۔
انسان! جیسا کہ علیم و خبیر نے بیان کیاہے، سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی مخلوقات پیدا کی ہیں اور وہ سب اس سے کم جھگڑالو ہیں اوریہ بڑی باعث ِشرم بات ہے۔اس لئے انسان کو اپنے غرور و تکبر سے باز آنا چاہئے... اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سمجھانے کے لئے مثالیں بیان کیں، لیکن وہ سچائی کے ظاہر ہوجانے کے باوجود اس کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔ اگر انسان اس بدترین اَخلاقی بیماری کا علاج نہ کرے اور شفا بخش دوا سے اس کا اِزالہ نہ کرے تو یہ کتنی بری بیماری ہے!!
لڑائی اور جھگڑا منافقوں کی خصوصیت ہے۔ وہ اپنے جھگڑوں میں بدزبانیاں کرتے ہیں اور حدیث میں انکی یہ صفت آئی ہے کہ «إذا خاصم فجر» "جب جھگڑتا ہے تو بدزبانی کرتا ہے" لیکن مسلمان کیلئے تو یہ ضروری ہے کہ مخالفوں سے بحث و تکرار بھی کرے تو اچھائی کے ساتھ اور لہجہ مناسب رہے، اِرشاد ہے :
﴿ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَ‌بِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ ۖ وَجـٰدِلهُم بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ...١٢٥ ﴾... سورة النحل
"اپنے رب کی طرف حکمت اور بہتر نصیحت کے ذریعہ دعوت دو اور ایسے انداز سے جھگڑو جو بہترین ہو"
پانچویں صفت ... عجلت و جلد بازی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَكانَ الإِنسـٰنُ عَجولًا ١١ ﴾... سورة الاسراء "اورانسان بہت جلد باز ہے"
نیز اس کا ارشاد ہے:
﴿خُلِقَ الإِنسـٰنُ مِن عَجَلٍ ۚ سَأُو۟ر‌يكُم ءايـٰتى فَلا تَستَعجِلونِ ٣٧ ﴾... سورة الأنبياء
"انسان جلد بازی سے پیدا کیا گیا ہے، میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا لہٰذا مجھ سے جلد بازی نہ کرو"
بے شک انسان بہت جلد باز ہے۔ وہ کاموں کے انجام کونہیں جانتا۔ کبھی برائی کے لئے جلدبازی کرتا ہے اور نادانی سے اپنا ہی برا کر ڈالتا ہے۔ وہ اپنے سرکش نفس کو لگام نہیں دے پاتا اور اپنی خواہش نفس کے لئے جلد بازی کرتا ہے۔ لیکن موٴمن پرسکون و مطمئن رہتا ہے اور اپنے ربّ پر بھروسہ کرتا ہے۔ بلاشبہ بردباری اور طبیعتکا ٹھہراؤ شرفاء کی صفت ہے۔ رسول اللہﷺ نے بنوتمیم کے سردار سے فرمایا:
"تمہارے اندر دو ایسی عادتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے: بردباری اوراطمینان" (بروایت مسلم، ابوداود، ترمذی اور احمد)
لہٰذا بردباری اور 'ثبات' ان عقلمندوں کی صفت ہوتی ہے جن کی عقل میں ایسے تمام اُمور کو سلجھانے کی صلاحیت ہوتی ہے جن میں کم عقل صبر نہیں کرپاتا۔ وہ نتیجے کا انتظار نہیں کرتا کیونکہ اس کا دل بڑے کاموں کو برداشت نہیں کرتا اور نہ کسی بات پر صبر کر پاتا ہے۔ بہت جلد بھڑک اٹھتا ہے اور وقت سے پہلے نتیجے کے لئے جلد بازی کرتا ہے۔
چھٹی صفت ... بخل و کنجوسی
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿قُل لَو أَنتُم تَملِكونَ خَزائِنَ رَ‌حمَةِ رَ‌بّى إِذًا لَأَمسَكتُم خَشيَةَ الإِنفاقِ ۚ وَكانَ الإِنسـٰنُ قَتورً‌ا ١٠٠ ﴾... سورة الاسراء
"آپ فرما دیں کہ اگر میرے ربّ کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہو جاؤ تو خرچ ہوجانے کے خوف سے اسے روک رکھو گے اور انسان بڑا کنجوس ہے"
بیشک اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت اور اس کا بڑا فضل اور آسمان و زمین کی بادشاہت اور دولت کے خزانے اگر اس انسان کے ہاتھ میں آجائیں تب بھی وہ کنجوسی کرے گا۔ اسے خدشہ لاحق رہے گا کہ کہیں صرف نہ ہوجائیں۔ وہ ہوس کی وجہ سے انہیں دبا کر رکھے گا۔انسان کنجوس و بخیل ہے لیکن جس نے اپنے فضل کی سخاوت، ہمدردی اور خیرخواہی پر تربیت پائی ہو اور اس کی عادت بنائی ہو وہ بخل و کنجوسی جیسی عادات اور فضائل سے محفوظ رہتا ہے۔ سخاوت، حسن سلوک اور ہمدردی اللہ کی محبوب صفات ہیں اوریہ اسی کے اَوصاف ہیں۔ وہ اہل سخاوت کو دوست رکھتا اور بخل کو چھوڑ دینے کی دعوت دیتا ہے۔ اس کا ارشاد ہے:
﴿الَّذينَ يَبخَلونَ وَيَأمُر‌ونَ النّاسَ بِالبُخلِ ۗ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الغَنِىُّ الحَميدُ ٢٤ ﴾... سورة الحديد
"جو (خود بھی) بخل کرتے اور دوسروں کو (بھی) بخل کا حکم دیتے ہیں اور جوکوئی پیٹھ پھیرے گا تو بیشک اللہ بے نیاز اور حمد وثنا کا حقدار ہے"
لہٰذا سخی اللہ کا اور لوگوں کا پیارا ہے اور بخیل اللہ کے نزدیک اور لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ شخص ہے۔
ساتویں صفت ... جہالت و نادانی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿إِنّا عَرَ‌ضنَا الأَمانَةَ عَلَى السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضِ وَالجِبالِ فَأَبَينَ أَن يَحمِلنَها وَأَشفَقنَ مِنها وَحَمَلَهَا الإِنسـٰنُ ۖ إِنَّهُ كانَ ظَلومًا جَهولًا ٧٢ ﴾... سورة الاحزاب
"ہم نے امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اسے اُٹھانے سے اِنکار کردیااور ڈر گئے اور انسان نے اسے اُٹھا لیا، بیشک وہ بڑا ظالم نادان ہے"
یہ ایک اہم ذمہ داری ہے جسے انسان نے اپنے شانوں پر اُٹھا لیا ہے۔ یہ ایسی امانت ہے جسے اٹھانے سے آسمان و زمین اورپہاڑ ڈر گئے اور اسے انجام دینے سے انکار کردیا۔ لیکن کمزور، نادان، کم علم، کم فہم، کوتاہ قد اور جذبات و خواہشات اورحرص وہوس سے بھرپور انسان نے یہ خطرہ مول لیا اور اس بھاری اوراہم ذمہ داری کو اپنے کمزور کندھے پر اُٹھا لیا۔
اس نے اپنے اوپر ظلم کرلیا اور اپنی سکت اور طاقت کے بارے میں جہالت اور کم علمی کا شکار رہا۔ خود ہی یہ بھاری ذمہ داری اپنے اِرادہ اور رضا و رغبت سے اُٹھالی۔ اب اگر اسے پوری کرے اور اس کے واجبات ادا کرے، تو عزت افزائی اور ہمیشہ کی نعمتوں کا اہل ہوگا۔ لیکن اگر اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے سے کوتاہی کرے اورامانت کے واجبات پورے نہ کرے تو اس کے لئے دردناک عذاب کی وجہ سے ہلاکت ہے اوریہ ہلاکت آسمانوں اور زمین کے زبردست مالک کے غضب کی وجہ سے ہے کیونکہ اس نے اس امانت میں خیانت کی ہے جس کا بار خود اپنے اوپر اپنی پسند سے ڈال لیا۔ یہ زبردست ذمہ داری اور اہم امانت کواٹھاناانسان کی بڑی نادانی اور اندھا پن تھا، اسی لئے وہ بڑا ظلم اور نادان قرار دیا گیا ہے۔
آٹھویں صفت ... بھول اور نسیان
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَإِذا مَسَّ الإِنسـٰنَ ضُرٌّ‌ دَعا رَ‌بَّهُ مُنيبًا إِلَيهِ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعمَةً مِنهُ نَسِىَ ما كانَ يَدعوا إِلَيهِ مِن قَبلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندادًا لِيُضِلَّ عَن سَبيلِهِ ۚ قُل تَمَتَّع بِكُفرِ‌كَ قَليلًا ۖ إِنَّكَ مِن أَصحـٰبِ النّارِ‌ ٨ ﴾... سورة الزمر
"جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے ربّ کو دھیان دے کر پکارتا ہے اور جب وہ اسے اپنی کسی نعمت سے نواز دیتا ہے تو جس (تکلیف) کے لئے پہلے پکارتا تھا اس (کے اِزالے) کو فراموش کردیتا ہے اور اللہ کا شریک بنانے لگتا ہے تاکہ اس کے راستے سے گمراہ کرے۔ آپﷺ فرما دیں کہ اپنے کفر کا تھوڑا سا فائدہ اُٹھالو، بے شک تم جہنم والوں میں سے ہو"
نیز اس کا ارشاد ہے:
﴿فَإِذا مَسَّ الإِنسـٰنَ ضُرٌّ‌ دَعانا ثُمَّ إِذا خَوَّلنـٰهُ نِعمَةً مِنّا قالَ إِنَّما أوتيتُهُ عَلىٰ عِلمٍ ۚ بَل هِىَ فِتنَةٌ وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ‌هُم لا يَعلَمونَ ٤٩ ﴾... سورة الزمر
"جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اسے اپنی کوئی نعمت دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ میں نے اسے علم کی بدولت حاصل کیا ہے بلکہ یہ ایک آزمائش ہے لیکن ان میں زیادہ تر اسے نہیں جانتے"
اس کا یہ بھی ارشاد ہے:
﴿وَلَقَد عَهِدنا إِلىٰ ءادَمَ مِن قَبلُ فَنَسِىَ وَلَم نَجِد لَهُ عَزمًا ١١٥ ﴾... سورة طه
"اور اس سے پہلے ہم نے آدم سے اقرار لیا تو وہ بھول گیا اورہم نے اس میں عزم نہیں پایا"
بے شک بھول اور نسیان انسان کی فطرت و سرشت میں داخل ہے۔ اور اگرچہ یہ اس لحاظ سے انسان کے لئے ایک نعمت ہے کہ اس کیفکرو مصائب کو فراموش کرا دیتی ہے اور ان کی یاد آنے نہیں دیتی۔ لیکن اگر وہ اسی اِقرار کو فراموش کردے اور اس وعدے کو وفا نہ کرے جس کا اس سے وعدہ لیا گیا ہے تو اس کے لئے ایک عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے اپنی عبادت کرنے اور شرک نہ کرنے کا اقرار لیا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے اس کو بیان کرنے اور لوگوں سے نہ چھپانے کا عہد و پیمان لیا تھا۔ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تونیک اَعمال کا پابند بن جاتا ہے اوراپنے ربّ کو مشکل وقت میں یاد کرتا ہے اور جب اللہ اسے کسی نعمت سے نوازتا ہے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ہوجاتاہے، اپنی دعا و پکار کو فراموش کردیتا ہے اور اپنے نفس اور خواہش کا بندہ بن جاتا ہے۔ مشکل میں اپنے ربّ کوپکارنا اور رونا انسان کی ایسی فطرت ہے جو صرف مشکل کے وقت ظاہر ہوتی ہے اسلئے پائیدار نہیں ہوتی۔ اللہ کا ارشاد ہے:
﴿وَإِذ أَخَذَ رَ‌بُّكَ مِن بَنى ءادَمَ مِن ظُهورِ‌هِم ذُرِّ‌يَّتَهُم وَأَشهَدَهُم عَلىٰ أَنفُسِهِم أَلَستُ بِرَ‌بِّكُم ۖ قالوا بَلىٰ ۛ شَهِدنا ۛ أَن تَقولوا يَومَ القِيـٰمَةِ إِنّا كُنّا عَن هـٰذا غـٰفِلينَ ١٧٢ ﴾... سورة الاعراف
"اور اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے ربّ نے بنوآدم (انسانوں) کی پشت سے ان کی ذرّیت کو لیا اور انہیں ان کے اوپر شاہد بنایا کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ سب نے کہا: کیوں نہیں! ہم شاہد ہیں (یہ عہد اس لئے لیا) کہ قیامت کے روز یہ نہ کہو کہ ہم ان سے غافل رہ گئے"
اور اس نے فرمایا:
﴿وَإِذ أَخَذَ اللَّهُ ميثـٰقَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنّاسِ وَلا تَكتُمونَهُ فَنَبَذوهُ وَر‌اءَ ظُهورِ‌هِم وَاشتَرَ‌وا بِهِ ثَمَنًا قَليلًا ۖ فَبِئسَ ما يَشتَر‌ونَ ١٨٧ ﴾... سورة آل عمران
"اور اس وقت کو یاد کرو جب اللہ نے ان سے اقرار لیا جو کتاب دیئے گئے کہ تم ضرور لوگوں کے لئے اسے بیان کرو گے اور چھپاؤ گے نہیں تو انہوں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور اس کے عوض تھوڑی قیمت خرید لی تو وہ کیا ہی بری چیز خرید رہے ہیں!"
قارون نے کہا کہ مجھے 'مال' اپنے علم کی بدولت دیا گیا اور اس زمانے میں بہت سے لوگ جو مال یا جاہ و جلال یا علم وغیرہ کے فریب میں ہیں، وہ اس نعمت کے سرچشمے کو جس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، فراموش کر بیٹھے ہیں۔
انسان کی بھول اس وقت نمایاں طور پر ظاہر ہوجاتی ہے جب سختی اور ابتلاء کی منزل کو عبور کرکے عیش و آسائش حاصل کرلیتا ہے۔ اگر اسے یہ علم ہوجائے کہ یہ آرام و راحت، یہ مال و جاہ اور یہ منصب وعلم ایک آزمائش اور امتحان ہے تو وہ اپنے ربّ کو نہیں بھولے گا اور اس کے ایمان اور جذبہ شکر میں اضافہ ہوجائے گا لیکن اس بھول اور نسیان کو تو انہوں نے اپنے باپ دادا سے وراثت میں پایا ہے، جن سے اس کے پروردگار نے عہد لیا تو بھول گئے۔ یہ ان کی اولاد کی طبیعت اور فطرت بن چکی ہے مگر اللہ تعالیٰ جس کی حفاظت فرما دے۔
نویں صفت ... بے صبری و بے قراری
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّ الإِنسـٰنَ خُلِقَ هَلوعًا ١٩ إِذا مَسَّهُ الشَّرُّ‌ جَزوعًا ٢٠ وَإِذا مَسَّهُ الخَيرُ‌ مَنوعًا ٢١ إِلَّا المُصَلّينَ ٢٢﴾... سورة المعارج
"بے شک انسان بے صبرا پیدا کیا گیا ہے اورجب اسے نقصان پہنچتا ہے تو بے قرار ہوجاتا ہے اور جب دولت ملتی ہے تو کنجوس ہوجاتا ہے مگر جو نمازی ہیں"
جب انسان خیرحاصل کرتا ہے تو متقی اور پرہیزگار بن جاتاہے ۔ شر حاصل کرتا ہے تو بداعمالیوں کا شکار ہوجاتاہے۔ اس طرح ا س کے موٴمن ہونے اور موٴمن نہ ہونے کی صورت میں اس کی یہی خوبی حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔جب اس کا دل ایسے ایمان سے خالی ہوتا ہے جو اس کے دل کو مطمئن کرے اور اس کا رشتہ اس کے ربّ سے جوڑے تو وہ اپنی اصل فطرت بے صبری و بے قراری میں گرفتار رہتا ہے۔ اور پھر جب بے تاب ہوجاتاہے تو سوچتا ہے کہ یہ مصیبت ا س سے دور نہیں ہوگی اور ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گی۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے کشائش پیدا کرے گا اور اس مشکل کو آسان بنا ئے گا۔وہ بے صبرا ہو کر کف ِافسوس ملتا ہے۔
جب خیر اور مال وجاہ یا علم حاصل کرتا ہے تو کنجوس بن جاتا ہے اور اسے دوسروں تک نہیں پہنچاتا وہ اپنے نفس اور مال کا بندہ بن جاتا ہے اور اس کی ہوس اور کنجوسی بڑھ جاتی ہے۔ اس کا معاملہ صرف ایمان اور پابندی ٴ نماز ہی سے درست ہوسکتا ہے۔ اسی لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿إِلَّا المُصَلّينَ ٢٢ الَّذينَ هُم عَلىٰ صَلاتِهِم دائِمونَ ٢٣ وَالَّذينَ فى أَمو‌ٰلِهِم حَقٌّ مَعلومٌ ٢٤ لِلسّائِلِ وَالمَحر‌ومِ ٢٥ وَالَّذينَ يُصَدِّقونَ بِيَومِ الدّينِ ﴿٢٦﴾ وَالَّذينَ هُم مِن عَذابِ رَ‌بِّهِم مُشفِقونَ ٢٧ إِنَّ عَذابَ رَ‌بِّهِم غَيرُ‌ مَأمونٍ ٢٨ وَالَّذينَ هُم لِفُر‌وجِهِم حـٰفِظونَ ٢٩ إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ‌ مَلومينَ ٣٠ فَمَنِ ابتَغىٰ وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ٣١ وَالَّذينَ هُم لِأَمـٰنـٰتِهِم وَعَهدِهِم ر‌ٰ‌عونَ ٣٢ وَالَّذينَ هُم بِشَهـٰد‌ٰتِهِم قائِمونَ ٣٣ وَالَّذينَ هُم عَلىٰ صَلاتِهِم يُحافِظونَ ٣٤ ﴾... سورة المعارج
"جو سدا نماز پڑھتے ہیں، جن کے مالوں میں سائل (فقیر) اوربے نصیب کا مقررہ حصہ ہے، جو بدلے کے دن کا یقین رکھتے ہیں اور جو اپنے ربّ کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں، بے شک تمہارے ربّ کا عذاب بے خوف رہنے کا نہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں اورکنیزوں پر، ان پر کچھ الزام نہیں اورجو ان (بیویوں اور کنیزوں) کے سوا (جنسی ذرائع) چاہتے ہیں، وہی حد سے تجاوز کرتے ہیں اور جو اپنی امانتوں اور وعدوں کا خیال رکھتے ہیں اور جو اپنی گواہیوں پر ثابت رہتے ہیں اور جو اپنی نما زکی خبرداری رکھتے ہیں"
انسان کا دل جب ایمان سے خالی ہوتا ہے تو اس کی مثال ہوا کے سامنے ایک پر کی مانند ہوتی ہے۔وہ معمولی تکلیف یا نقصان سے بے تاب ہوجاتا ہے اورتھوڑی سی بات پر خوش ہونے لگتا ہے۔ وہ اُداس و بے صبرا بن کر خوف، ڈر اور خوشی و کنجوسی کے درمیان ہچکولے کھانے لگتا ہے لیکن جب اس کا دل ایمان سے آباد ہوتا ہے تو اس کا نفس مطمئن رہتا ہے اور اسے سکونِ قلب نصیب ہوتا ہے۔ وہ پریشانی کے وقت سنگدل اور مصیبت کے وقت اُداس نہیں ہوتا بلکہ اس پر صبر کرتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ تنگی کے بعد آسانی اور مشکل کے بعد کشائش ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس کی مصیبت کا، یہاں تک کہ کانٹا بھی چبھ جائے تو اس کا بدلہ دے گا۔ اوریہ کہ جو کچھ بھی نعمت ملے وہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش و امتحان ہے۔ اس لئے اس کا دل دنیا کی نعمتیں ملنے پر خوشی سے اُڑنے نہیں لگتا۔ بلکہ وہ اس کا حساب کرتا ہے اور اللہ کی آزمائش اور ناشکری سے ڈرتا ہے لہٰذا اس کا دل ثابت، طبیعت مطمئن اور پرسکون اور اس کی حالت برقرار رہتی ہے۔
ایمان دنیا و آخرت کی ایک پائیدار سعادت ہے اورفسق و فجور دنیاو آخرت کی پائیدار شقاوت ہے۔ اسی طرح نماز حقیر بندے اور اس کے طاقتور و زبردست ربّ کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے جو اسے سکون و اطمینان اور طاقت و ثبات دیتی ہے۔ صرف ایسی نماز جو پابندی سے بلاناغہ ادا کی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب عمل وہی ہے جو مسلسل ہو اگرچہ کم ہو۔ زکوٰة و صدقہ موٴمن کے مال میں ایک واجب حصہ ہوتا ہے جسے ادا کئے بغیر اسے قرار نہیں ہوتا اوراسے ادا کرتے وقت وہ اسے سعادت اور اپنے مال کی آلودگیوں سے صفائی سمجھتا ہے ۔ اس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ وہ فقیروں اور غریبوں کی مدد اور تعاون کررہا ہے۔ اسے جب بھی موقع ملے، خیرات کرتا رہتا ہے۔ اوریومِ جزا اورحساب پر ایمان اس کے نفس کو سکون و قرار دیتا ہے اور وہ خوش ہوتا ہے کہ ادھر ایک ایسا دن ہے جس میں ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کا کوئی عمل ضائع نہیں جائے گا لیکن جو شخص آخرت اور حساب کو نہیں مانتا جب اس سے کوئی چیز چھوٹ جاتی ہے یا برباد ہوجاتی ہے یا کوئی اس پر زیادتی کردیتا ہے تو اس کا دل حیرت اورپریشانی سے ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگتا ہے کیونکہ وہ اپنی محدود اور مختصر عمر کے بارے میں ہی سوچتا ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا اور آخرت کی جزا کا امیدوار ہوتا ہے وہ حساسیت کے بلند مرتبے پر ہوتا ہے اور دنیا میں دونوں آنکھیں، دل اور حواس کھول کر چلتا ہے۔ وہ کوئی غلط بات منہ سے بولنے اور کوئی غلط کام کرنے یا کوئی نگاہ غلط اُٹھانے سے ڈرتا ہے۔وہ اللہ کی ہدایت اور اس کے رسولﷺ کی سنت پر چلتا ہے اور وہ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔ اپنی بیوی اورکنیز کو چھوڑ کر زنا کاری نہیں کرتا اور نہ دوسری عورتوں کی طرف نگاہ ڈالتا ہے۔ بے شک وہی پاک اور صاف ستھرا ہے جواپنی صفائی کو نافرمانیوں اور گناہ کا دھبہ نہیں لگاتا اور محرمات کو نہیں توڑتا۔ وہی مطمئن ہوتا ہے جس کے اعصاب پرسکون اور جس کی طبیعت خوش رہتی ہے، اس لئے کہ طبیعت کا سکون ہی راحت بخش زندگی ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
﴿وَمِن ءايـٰتِهِ أَن خَلَقَ لَكُم مِن أَنفُسِكُم أَزو‌ٰجًا لِتَسكُنوا إِلَيها وَجَعَلَ بَينَكُم مَوَدَّةً وَرَ‌حمَةً...٢١ ﴾... سورة الروم
"اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہارے لئے تمہیں میں سے اس نے تمہارے جوڑے بنائے تاکہ ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت و رحمت پیدا کی"
لہٰذا سکون و قرار، زوجیت کے اچھے امکان میں ہوتا ہے۔ یہی محبت اور رحمت ہے۔ اس کے علاوہ حیوانی خواہشات اور دنیا و آخرت کا عذاب ہے۔ اور جو اپنی امانتوں اور وعدے کا پاس رکھتے ہیں وہی بہترین عادات و سیرت کے حامل ہوتے ہیں یعنی جو لوگ اوّلاً اپنے ربّ کی عبادت کرکے اور ثانیاً اپنے اہل و عیال، نوکر چاکر اور تعلق داروں کے حقوق ادا کرکے اورکان، آنکھ اور اعضا کی حفاظت کرکے اپنی امانتوں کا لحاظ رکھتے ہیں، وہی اچھی عادات اور کردار کے مالک ہیں۔
لوگوں کی امانتیں، مال وعزت اور آبرو وغیرہ بہت سی چیزیں ہیں۔ جو شخص ان میں خیانت کرے، اس کے لئے خوف اوربے قراری کا سامنا کرنے کی وعید ہے۔ جس نے ان کی حفاظت کی تو اس نے اپنے دین اور نفس کی حفاظت کر لی اور دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرلی۔ اسی طرح شہادت پر موٴمن کا ثابت قدم رہنا ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَالَّذينَ هُم بِشَهـٰد‌ٰتِهِم قائِمونَ ٣٣ ﴾... سورة المعارج "جو اپنی گواہیوں پر ثابت رہتے ہیں"
نیز اس کا ارشاد ہے:
﴿وَأَقيمُوا الشَّهـٰدَةَ لِلَّهِ...٢ ﴾... سورة الطلاق "اور اللہ کے لئے شہادت قائم کرو"
لہٰذا اسے ادا کرنے میں کوتاہی کرنا یا اسے ضائع کر دینا یا چھپا دینا بہت بڑا گناہ اور زمین میں فساد اور معاشرتی انتشار پیدا کرنا ہے کیونکہ حدود قائم کرنا، شہادت اور عدل و انصاف کے بغیر ناممکن ہے اوراللہ تعالیٰ کے لئے شہادت کو اس کی درست صورت پر ادا کئے بغیر معاشرے میں سکون قائم نہیں ہوسکتا۔
نماز کا قیام، انسان کی اصلاح کے لئے نہایت اہم ہے۔ اسی لئے اللہ نے سورہٴ معارج کی مذکورہ بالا آیات میں اسی سے آغاز کیا اور اسی پر انتہا کی ہے۔ لہٰذا نماز ایک ایسی چیز ہے کہ جس نے اس کی حفاظت کی، اس نے اپنے پورے دین کی حفاظت کرلی اور اس کے تمام اُمور سدھر گئے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
﴿وَالَّذينَ هُم عَلىٰ صَلَو‌ٰتِهِم يُحافِظونَ ٩ أُولـٰئِكَ هُمُ الو‌ٰرِ‌ثونَ ١٠ الَّذينَ يَرِ‌ثونَ الفِر‌دَوسَ هُم فيها خـٰلِدونَ ١١ ﴾... سورة المومنون "جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔ یہی وارث ہیں جو جنت الفردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے"
دسویں صفت ... وسوسے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿قُل أَعوذُ بِرَ‌بِّ النّاسِ ١ مَلِكِ النّاسِ ٢ إِلـٰهِ النّاسِ ٣ مِن شَرِّ‌ الوَسواسِ الخَنّاسِ ٤ الَّذى يُوَسوِسُ فى صُدورِ‌ النّاسِ ٥ مِنَ الجِنَّةِ وَالنّاسِ ٦ ﴾... سورة الناس
"آپ کہہ دیجئے کہ میں لوگوں کے ربّ کی پناہ میں آتا ہوں، لوگوں کے مالک کی، لوگوں کے معبود کی (پناہ میں) وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے (شیطان) کی برائی سے جو لوگوں کے سینوں (دلوں) میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جو جنوں میں سے ہے اور انسانوں میں سے"
اور اس کا ارشاد ہے:
﴿وَلَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ وَنَعلَمُ ما تُوَسوِسُ بِهِ نَفسُهُ ۖ وَنَحنُ أَقرَ‌بُ إِلَيهِ مِن حَبلِ الوَر‌يدِ ١٦ ﴾... سورة ق "اور ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو وسوسہ تک اس کے دل میں گزرتا ہے ہم اسے بھی خوب جانتے ہیں اور ہم اس سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہیں"
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«إن الشيطان جاثم علی قلب ابن ادم فإذا ذکر الله تعالیٰ خنس وإذا غفل وسوس»
"شیطان ابن آدم کے دل پر بیٹھا رہتا ہے۔ جب وہ اللہ کاذکر کرتا ہے تو وہ (شیطان) پیچھے ہٹ جاتاہے اور جب (یادِالٰہی سے) غافل ہوجاتاہے تو وہ وسوسے ڈالتا ہے"
شیطانِ لعین چھپ کر اور پوشیدہ طور پر وسوسہ ڈالتا ہے اوریہ معرکہ انسان اور شیطان کے درمیان برابر جاری ہے اوریہ معرکہ آدم اور ابلیس کے درمیان، پہلے اس وقت ہوا جب اس نے ان کے اور ان کی بیوی کے دل میں وسوسہ پیدا کیا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَوَسوَسَ لَهُمَا الشَّيطـٰنُ لِيُبدِىَ لَهُما ما وۥرِ‌ىَ عَنهُما مِن سَوء‌ٰتِهِما وَقالَ ما نَهىٰكُما رَ‌بُّكُما عَن هـٰذِهِ الشَّجَرَ‌ةِ إِلّا أَن تَكونا مَلَكَينِ أَو تَكونا مِنَ الخـٰلِدينَ ٢٠ ﴾... سورة الاعراف
"اور شیطان نے دونوں کو وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی پوشیدہ شرمگاہیں ان کے لئے ظاہر کردے اور کہا کہ تمہیں تمہارے ربّ نے اس درخت سے اس لئے روکا ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتے نہ ہوجاؤ یا (جنت میں) ہمیشہ کے نہ ہوجاؤ"
یہ وسوسہ جس طر ح شیاطین و جنات کی طرف سے ہوتا ہے ایسے ہی ان انسانوں کی طرف سے بھی ہوتا ہے جو برے اور شریر ساتھی ہوتے ہیں اور یہ شیطان کے وسوسے سے سخت ہوتا ہے۔ ان میں چغل خور، عیب جو، شرپسند، فساد پرور، بدعات اور نفسانیت کے پرستار شامل ہیں۔ یہ ایک دوسرے کو خوشنما اور پرفریب باتوں کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ یہ معرکہ شیاطین اور صالحین و موٴمنین کے درمیان برابر جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَإِنَّ الشَّيـٰطينَ لَيوحونَ إِلىٰ أَولِيائِهِم لِيُجـٰدِلوكُم ۖ وَإِن أَطَعتُموهُم إِنَّكُم لَمُشرِ‌كونَ ١٢١ ﴾... سورة الانعام "بے شک شیاطین اپنے دوستوں کی طرف وسوسہ ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو یقینا تم مشرک ہوگے"
شیطان انسان کو دھوکہ دینے کے لئے ان کے سامنے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں سے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ثُمَّ لَءاتِيَنَّهُم مِن بَينِ أَيديهِم وَمِن خَلفِهِم وَعَن أَيمـٰنِهِم وَعَن شَمائِلِهِم ۖ وَلا تَجِدُ أَكثَرَ‌هُم شـٰكِر‌ينَ ١٧ ﴾... سورة الاعراف "پھر میں ان کے پاس ان کے سامنے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں سے آؤں گا اور تو ان میں سے زیادہ تر کو شکرگزار نہیں پائے گا"
لیکن ان کا غلبہ اور اقتدار انہی پر ہوتا ہے جو اس کی اطاعت کرتے اور اسے دوست بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّهُ لَيسَ لَهُ سُلطـٰنٌ عَلَى الَّذينَ ءامَنوا وَعَلىٰ رَ‌بِّهِم يَتَوَكَّلونَ ٩٩ إِنَّما سُلطـٰنُهُ عَلَى الَّذينَ يَتَوَلَّونَهُ وَالَّذينَ هُم بِهِ مُشرِ‌كونَ ١٠٠ ﴾... سورة النحل
"بے شک ان لوگوں پر اس (شیطان) کا کوئی قابو نہیں جو ایمان لائے اور اپنے ربّ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں، اس کا قابو تو انہی پر ہے جو اسے اپنا دوست بناتے ہیں اور جو اس (اللہ) کے ساتھ شرک کرتے ہیں"
اللہ تعالیٰ انسان کے نفس کے وسوسے کو بھی جانتا ہے اور اس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ وہ پوشیدہ و ظاہر کو یکساں جانتا ہے۔ لہٰذا انسان کو شیاطین کے وسوسے سے ڈرنا چاہئے کیونکہ یہ اس کے جال اور پھندے ہیں جس سے وہ اس کو شکار کر لیتا ہے جو اس کے پیچھے دوڑتا ہے۔ موٴمن کو چاہئے کہ اس کے وسوسے اور اس کی انگیخت سے پناہ مانگتا رہے کیونکہ شیطان کمزور اور چور ہے اور وہ لوگ اللہ کا ذکر کرتے ہیں ان کے پاس سے فرار ہوجاتا ہے۔ وہ ان سے دوررہتا ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ
"شیطان حضرت عمر بن خطاب  کے نزدیک نہیں جاتا اور اگر وہ کسی وادی میں چل رہے ہوتے ہیں تو شیطان دوسری وادی کی راہ اختیار کرلیتا ہے ۔ لیکن جو شخص اللہ کے ذکر سے غافل رہتا ہے، شیطان اس کے نزدیک ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ رہتا ہے" ... اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَن يَعشُ عَن ذِكرِ‌ الرَّ‌حمـٰنِ نُقَيِّض لَهُ شَيطـٰنًا فَهُوَ لَهُ قَر‌ينٌ ٣٦ وَإِنَّهُم لَيَصُدّونَهُم عَنِ السَّبيلِ وَيَحسَبونَ أَنَّهُم مُهتَدونَ ٣٧ ﴾... سورة الزخرف
"اور جو اللہ کی یاد سے غافل ہوجائے، ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے اور وہ اسے (سیدھے) راستے سے روکتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہدایت یافتہ ہیں"
گیارہویں صفت ... غروروتکبر
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الإِنسـٰنُ ما غَرَّ‌كَ بِرَ‌بِّكَ الكَر‌يمِ ٦ الَّذى خَلَقَكَ فَسَوّىٰكَ فَعَدَلَكَ ٧ ﴾... سورة الانفطار
"اے انسان! تیرے شفیق ربّ سے کس چیز نے تجھے فریب میں رکھا ہے، جس نے تجھے پیدا کیااور درست اور مناسب بنایا ۔جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دی اور ڈھالا"
اور اس کا ارشاد ہے :
﴿ذ‌ٰلِكُم بِأَنَّكُمُ اتَّخَذتُم ءايـٰتِ اللَّهِ هُزُوًا وَغَرَّ‌تكُمُ الحَيو‌ٰةُ الدُّنيا...٣٥ ﴾... سورة الجاثية
"یہ اس لئے کہ تم نے اللہ کی آیتوں کو مذاق بنالیا اور تمہیں حیاتِ دنیا نے مبتلائے فریب کردیا"
نیز اس نے فرمایا ہے:
﴿وَلـٰكِنَّكُم فَتَنتُم أَنفُسَكُم وَتَرَ‌بَّصتُم وَار‌تَبتُم وَغَرَّ‌تكُمُ الأَمانِىُّ حَتّىٰ جاءَ أَمرُ‌ اللَّهِ وَغَرَّ‌كُم بِاللَّهِ الغَر‌ورُ‌ ١٤ ﴾... سورة الحديد
"لیکن تم نے خود کو فتنے میں ڈال دیا اور انتظار کیا اور تمہیں جھوٹی آرزوؤں نے فریب خوردہ بنا دیا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آگیا اور شیطان نے تمہیں اللہ کے بارے میں فریب میں ڈال دیا"
اور اس کا ارشاد ہے :
﴿إِنِ الكـٰفِر‌ونَ إِلّا فى غُر‌ورٍ‌ ٢٠ ﴾... سورة الملك "بے شک کافر صرف فریب میں ہیں"
ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ غرور کی صفت انسان میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ اللہ کے راستے سے دور ہوجاتا ہے اور اپنے رب سے باغی ہوجاتا ہے پھر اس کے واجبات میں کوتاہی کرتا اور اس کی نواہی کا ارتکاب کرتا ہے حالانکہ اسی نے اسے گونا گوں نعمتوں سے نوازا ہے۔
انسان کے پاس جو کچھ ہوتا ہے اسی سے غلط فہمی کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ فریب میں مبتلا ہوکر سوچتا ہے کہ وہ امن و اطمینان میں ہے۔ وہ ہلاکت کے کام کرنے لگتا ہے اوراللہ کے غیظ و غضب کے لئے خود کو پیش کردیتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ اسے مہلت دیتا ہے اور وہ اپنی شفاعت کے لئے کوئی نیک عمل اور ایمان و تقویٰ پیش نہیں کرتا۔ لہٰذا انسان کی خود فریبی کی صفت صرف تقویٰ، درست عقیدے اور اللہ سبحانہ کے ڈر سے ہی دور ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَمَا الحَيو‌ٰةُ الدُّنيا إِلّا مَتـٰعُ الغُر‌ورِ‌ ٢٠ ﴾... سورة الحديد
"دنیا کی زندگی صرف دھوکے کا سامان ہے" ... اور فرمایا:
﴿فَلا تَغُرَّ‌نَّكُمُ الحَيو‌ٰةُ الدُّنيا وَلا يَغُرَّ‌نَّكُم بِاللَّهِ الغَر‌ورُ‌ ٣٣ ﴾... سورة لقمان
"تمہیں حیاتِ دنیا فریب میں نہ ڈال دے اور تمہیں شیطان اللہ سے دھوکہ نہ دے دے"
بارہویں صفت ... کاوِش و محنت
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿يـٰأَيُّهَا الإِنسـٰنُ إِنَّكَ كادِحٌ إِلىٰ رَ‌بِّكَ كَدحًا فَمُلـٰقيهِ ٦ ﴾... سورة الانشقاق
"اے انسان! بے شک تو مشقت اٹھائے اپنے ربّ کی طرف جارہا ہے اور اس سے جاملے گا"
نیز اس کا ارشاد ہے:
﴿لَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ فى كَبَدٍ ٤ ﴾... سورة البلد "ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا "
انسان اس دنیا میں مشقتیں برداشت کرتے ہوئے اور روزی کی طلب میں کوشش کرتے ہوئے سفر حیات طے کرتا ہے۔ وہ اپنے ربّ تک رسائی کے لئے اپنا رستہ بناتا ہے کیونکہ اسے محنت و کاوش اور تکان کے بعد اسی کی طرف لوٹنا اور اسی کے پاس ٹھکانہ بنانا ہے
اس دنیا میں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے انسان اپنے بدن یا ذہن یا دونوں کو تھکا دیتا ہے۔ اگر اسے مال مل گیا تو اس کی تکان اور بڑھ جاتی ہے اور اگر جاہ و منصب مل گیا تو اس کی فکر اور غم اور بڑھ جاتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے *

کلما ازداد الفتیٰ علما بها
کلما يدخل في عيش أمر

"جیسے جیسے کسی نوجوان کو اس کا زیادہ علم ہوتا ہے، زیادہ کڑوی زندگی میں داخل ہوجاتا ہے"
یہ مشقت و تکان کی زندگی ہے جس میں آرام و سکون نہیں، یہ مشقت و تکلیف اور حسرت و آزردگی کی زندگی ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے٭

وما السعادة في الدنيا سویٰ أمل
يرجی، فإن صار حقا مله البشر

"دنیا کی سعادت آس و امید کے سوا کچھ نہیں اور اگر پوری ہوجائے تو خوشی اسے آزردہ کردیتی ہے"
لہٰذا انسان طلب ِدنیا میں جو مشقت اٹھاتا ہے اگر وہ اپنے ربّ کی عبادت میں اُٹھاتا رہے تو اللہ اس کے بدلے میں اسے قلبی سعادت اور آخرت کا اجر دیتا ہے۔ لیکن اگر وہ دنیا کی مشقت اٹھائے تو اس کی فکر اور غم و بدبختی اور بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿وَمَن أَعرَ‌ضَ عَن ذِكر‌ى فَإِنَّ لَهُ مَعيشَةً ضَنكًا وَنَحشُرُ‌هُ يَومَ القِيـٰمَةِ أَعمىٰ ١٢٤ قالَ رَ‌بِّ لِمَ حَشَر‌تَنى أَعمىٰ وَقَد كُنتُ بَصيرً‌ا ١٢٥قالَ كَذ‌ٰلِكَ أَتَتكَ ءايـٰتُنا فَنَسيتَها ۖ وَكَذ‌ٰلِكَ اليَومَ تُنسىٰ ١٢٦ ﴾... سورة طه
" اور جس نے میرے ذکر سے منہ موڑ لیا اس کے لئے تنگ زندگی ہے اورہم اسے قیامت کے روز اندھا بنا کر اٹھائیں گے، وہ کہے گا کہ "میرے ربّ! مجھے اندھا کیوں اٹھایا جبکہ میں بینا تھا" تو اللہ فرمائے گا کہ : "ایسے ہی تمہارے پاس میری آیتیں آئیں تو تم نے انہیں فراموش کردیا اسی طرح تم آج اس دن فراموش کردیئے جاؤ گے"
لوگ محنت و مشقت کے معاملے میں بھی مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ بعض لوگ علم کی جستجو میں محنت کرتے ہیں اور بعض دنیا سمیٹنے میں محنت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی ساری کوشش دوسروں کو اللہ کے راستہ سے روکنے کے لئے صرف ہوتی ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جوجنت کی طلب اور ربّ کی رضا کے لئے محنت کرتے ہیں۔بعض ایسے ہیں جو نفسانی خواہشات کی تکمیل اور نوع بہ نوع معاصی کے لئے کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا اے انسان! تو راہِ جنت کواختیار کر نہ کہ دوزخ کو۔ باقی محنت و مشقت، رنج و غم تو اللہ تعالیٰ نے دنیا پرستوں کے لئے، دنیا و آخرت دونوں میں لکھ دیا ہے۔
جبکہ طالبین جنت کو سکون و قرار اور راحت و اطمینان دنیا و آخرت دونوں جگہ ملتا رہے گا کیونکہ جب اسے ثواب و بہترین اجر کا علم ہوا تو اس نے اپنے ربّ کو خوش کرنے کے لئے نوع بہ نوع محنت و مشقت کرنا شروع کردی۔ اس محنت و ریاضت میں بھی اسے وہ سکون اور اطمینان ملتا ہے جو دنیا کی ہر آسائش پالینے والے کے تصور میں بھی نہیں آسکتا۔
تیرہویں صفت ... سرکشی و ناشکری
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿كَلّا إِنَّ الإِنسـٰنَ لَيَطغىٰ ٦ أَن رَ‌ءاهُ استَغنىٰ ٧ ﴾... سورة العلق
"یقینا انسان سرکشی کرتا ہے، اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو غنی سمجھتا ہے"
نیز اس نے فرمایا: ﴿إِنَّ الإِنسـٰنَ لِرَ‌بِّهِ لَكَنودٌ ٦ ﴾... سورة العاديات
"بیشک انسان اپنے ربّ کا بڑا ناشکرا ہے" (یعنی وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتا ہے)
عام طور پر انسان اپنے ربّ کا شکریہ ادا نہیں کرتا اور نہ اس کی نعمتوں کا اقرار کرتا ہے۔ وہ سرکشی و برائی کرتا اور مالداری کے وقت اِتراتا ہے۔ اپنے رب کی گوناگوں نعمتوں کے باوجود اس سے منہ پھیر لیتا ہے اور دور ہوجاتا ہے۔بے شک انسان کا ایسا کردار یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے مولیٰ کی نعمتوں کی ناشکری اور ان کا انکار کرتا ہے۔ اس طرح وہ خود اپنی اس ناشکری کا شاہد ہے :
﴿وَإِنَّهُ عَلىٰ ذ‌ٰلِكَ لَشَهيدٌ ٧ ﴾... سورة العاديات "بے شک وہ اس پر گواہ ہے"
اور اس کا معاملہ اسی وقت درست ہوتا ہے جب وہ زمین کی زندگیسے آسمان کی زندگی کی طرف اور دنیا کی تنگی سے آخرت کی وسعت کی طرف بلند ہوتا ہے اور دنیا کی حقیر فکروں کو چھوڑ کر اس سے بڑی اور کشادہ چیز کو اہمیت دیتا ہے۔ شاعر نے کہا *

علی قدر أهل العزم تأتي العزائم
وتأتي علی قدر الکرام المکارم
وتکبر في عين الصغير صغارها
وتصغر في عين العظيم العظائم

"اہل ہمت کے لحاظ سے ہمتیں ہوتی ہیں، اور شرفاء کے لحاظ سے شرافتیں ہوتی ہیں۔ چھوٹے کی نگاہ میں چھوٹی چیزیں بڑی ہوتی ہیں اور بڑوں کی نگاہ میں بڑی چیزیں بھی چھوٹی ہوتی ہیں"
چودہویں صفت ... غفلت و لاپروائی
اللہ تعالیٰ اور اس کے ذکر سے غفلت انسان کی عام صفت ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
﴿اقتَرَ‌بَ لِلنّاسِ حِسابُهُم وَهُم فى غَفلَةٍ مُعرِ‌ضونَ ١ ﴾... سورة الأنبياء
"لوگوں کا حساب نزدیک آگیا اور وہ غفلت میں منہ پھیر رہے ہیں"
اور اس کا ارشاد ہے:
﴿وَإِذا أَنعَمنا عَلَى الإِنسـٰنِ أَعرَ‌ضَ وَنَـٔا بِجانِبِهِ...٨٣ ﴾... سورة الاسراء
"اور جب ہم انسان پرانعام کرتے ہیں تو منہ پھیر لیتا اور پہلو تہی کرلیتا ہے" ... اور فرمایا:
﴿وَإِنَّ كَثيرً‌ا مِنَ النّاسِ عَن ءايـٰتِنا لَغـٰفِلونَ ٩٢ ﴾... سورة يونس
"اور بے شک بہت سے لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں"
بے شک بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے غافل ہیں اوران پر توجہ نہیں دیتے۔ نہ اسے یاد کرتے، نہ اس کی آیات پر غوروفکر کرتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مزے لوٹتے ہیں اور باقی سب کچھ فراموش کردیتے ہیں۔ اس کی جنت و جہنم اورحساب و عذاب کے بارے میں نہیں سوچتے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں لیکن اس کی نافرمانی کرتے اور اس کے ذکر و اطاعت سے اعراض کرتے ہیں اور اکثر لوگوں کی عمر سی غفلت میں گزر جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَأَنذِر‌هُم يَومَ الحَسرَ‌ةِ إِذ قُضِىَ الأَمرُ‌ وَهُم فى غَفلَةٍ وَهُم لا يُؤمِنونَ ٣٩ ﴾... سورة مريم
"اور انہیں حسرت کے دن سے ڈراؤ جب معاملے کا فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں"
وہ کتنابیوقوف اور حقیر ہے جس کی یہ صفت ہو۔ کیا وہ ان ہولناکیوں کو یاد نہیں کرتا جن کا اسے سامنا کرنا ہے؟ کیا وہ اپنے متعلق ڈرتا نہیں کہ اسے عذاب آنے سے پہلے نیک اعمال کرلینے چاہئیں، اس لئے کہ عمر بہت جلد گزر جائے گی اور موت اچانک آجائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿أَن تَقولَ نَفسٌ يـٰحَسرَ‌تىٰ عَلىٰ ما فَرَّ‌طتُ فى جَنبِ اللَّهِ وَإِن كُنتُ لَمِنَ السّـٰخِر‌ينَ ٥٦ ﴾... سورة الزمر "ایسا نہ ہو کہ کوئی نفس کہے: ہائے افسوس، میں نے اللہ کے بارے میں کوتاہی کی اور میں مذاق اڑاتا رہ گیا"
پندرہویں صفت ... گھاٹا و خسارہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَالعَصرِ‌ ١ إِنَّ الإِنسـٰنَ لَفى خُسرٍ‌ ٢ إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ‌ ٣ ﴾... سورة العصر
"زمانے کے قسم! یقینا انسان گھاٹے میں ہے مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور آپس میں سچائی کی تلقین کی اور صبر کی تلقین کی"
بے شک اس زندگی میں ایک راستے کے سوا کوئی سیدھا راستہ نہیں ہے۔ اس کے سوا گمراہی اور خسارہ ہی خسارہ ہے لہٰذا اس سورة میں انسان کے تمام مفید اَوصاف یکجا کردیئے گئے ہیں۔ اسی لئے امام شافعی  کا قول ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انسان کے لئے صرف یہی سورة اُتارتاتو کافی ہوتی۔
یقینا انسان کا اصل اور عام گھاٹا، گمراہی اور ہلاکت ہے لیکن جس میں یہ چار اوصاف پائے جائیں وہ اس خسارے سے محفوظ رہتا ہے: (۱) ایمان (۲) نیک اعمال (۳) سچائی کی تلقین (۴) صبر کی تلقین
کیونکہ ایمان زبان سے اقرار کرنے، اعضاء سے عمل کرنے اور دل سے عقیدہ رکھنے کا نام ہے۔ ایمان اطاعت سے بڑھتا اور نافرمانی سے کم ہوتا ہے۔ علماءِ اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایمان کی یہی تعریف ہے۔ اور ایمان وہ اصل ہے جس سے خیر کی تمام شاخیں پھوٹتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
﴿ضَرَ‌بَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَ‌ةٍ طَيِّبَةٍ أَصلُها ثابِتٌ وَفَر‌عُها فِى السَّماءِ ٢٤تُؤتى أُكُلَها كُلَّ حينٍ بِإِذنِ رَ‌بِّها ۗ وَيَضرِ‌بُ اللَّهُ الأَمثالَ لِلنّاسِ لَعَلَّهُم يَتَذَكَّر‌ونَ ٢٥ ﴾... سورة ابراهيم
" اللہ نے کلمہ طیبہ کی مثال ایک پاکیزہ درخت سے دی ہے، جس کی جڑ ثابت و پائیدار ہے اور شاخ آسمان میں ہے جو اپنا پھل اللہ کے حکم سے ہر وقت دیتاہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں"
اور کفر ایک ایسی بنیا دہے جس سے ہر برائی پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَن يُشرِ‌ك بِاللَّهِ فَكَأَنَّما خَرَّ‌ مِنَ السَّماءِ فَتَخطَفُهُ الطَّيرُ‌ أَو تَهوى بِهِ الرّ‌يحُ فى مَكانٍ سَحيقٍ ٣١ ﴾... سورة الحج "اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا وہ آسمان سے گر گیا اور اسے پرندے اچک رہے ہیں یا ہوا اسے دور دراز جگہ میں ڈال رہی ہو"
اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے:
﴿وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبيثَةٍ كَشَجَرَ‌ةٍ خَبيثَةٍ اجتُثَّت مِن فَوقِ الأَر‌ضِ ما لَها مِن قَر‌ارٍ‌ ٢٦ ﴾... سورة ابراهيم
"اوربرے کلمے کی مثال خبیث درخت کی ہے جو زمین کے اوپر سے اکھاڑ دیا گیا ہو اور اسے کوئی قرار و ثبات نہ ہو"
انسان کا ایمان جب تک نیک عمل سے وابستہ نہ ہو یہ اس کے لئے کافی نہیں ہوتا۔ اس پربس نہیں، بلکہ جوبات دل میں ہو، عمل اس کی تصدیق کرے اور وہ صبر کے ساتھ اس کی دعوت بھی دیتا ہو۔ معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا ضروری ہے کیونکہ یہی محمدﷺ کے پیروکاروں کا طریقہ ہے:
﴿قُل هـٰذِهِ سَبيلى أَدعوا إِلَى اللَّهِ ۚ عَلىٰ بَصيرَ‌ةٍ أَنا۠ وَمَنِ اتَّبَعَنى...١٠٨ ﴾... سورة يوسف
"آپ فرما دیں کہ یہی میرا راستہ ہے کہ میں اور میرے پیروکار بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں"
اور دعوت الی اللہ اور سچائی کی تلقین کئے بغیر نہ فرد کی کامیابی ہے اور نہ جماعت کی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿كُنتُم خَيرَ‌ أُمَّةٍ أُخرِ‌جَت لِلنّاسِ تَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ...١١٠ ﴾... سورة آل عمران "تم بہترین امت ہو، لوگوں کے لئے پیدا کئے گئے ہو، نیکی کا حکم دیتے ہو اوربرائی سے روکتے اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو"
جب کوئی شخص نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لئے تیار ہوتا ہے تو اس کا ٹکراؤ لازماً ایسے لوگوں سے ہوتا ہے جو اس کی راہ میں حائل ہوتے اور اسے تکلیف پہنچاتے ہیں۔ اسی لئے جو لوگ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ ادا کرتے ہیں، ان کے لئے صبر کرنا اور اپنے ساتھیوں کو اس کی تلقین کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
﴿يـٰبُنَىَّ أَقِمِ الصَّلو‌ٰةَ وَأمُر‌ بِالمَعر‌وفِ وَانهَ عَنِ المُنكَرِ‌ وَاصبِر‌ عَلىٰ ما أَصابَكَ ۖ إِنَّ ذ‌ٰلِكَ مِن عَزمِ الأُمورِ‌ ١٧ ﴾... سورة لقمان
"اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو اور نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو تکلیف پہنچے، اس پر صبر کرو بے شک یہ عزیمت اور حوصلے کی بات ہے"

٭٭٭٭٭