دہشت گردانہ طرزِفكر كے مغالطے اور ان کی وضاحت

فضیلۃ الشیخ اما م کعبہ ﷾ اپنی عظیم دینی ذمہ داری کے ساتھ سعودی حکومت میں بڑے اہم منصب ’حرمین شریفین کے ڈائریکٹوریٹ کے چیئرمین ‘ کی ذمہ داری بھی ادا کررہے ہیں۔ اس بناپر آپ کی زیر نظر تحریر میں شریعتِ اسلامیہ کے ساتھ ساتھ سعودی حکومت کے موقف کی ترجمانی کا پہلو بھی ہے جو وہ دہشت گردی کے تناظر میں پیش نظر رکھتی ہے۔ مغالطوں کی وضاحت کے دوران اس اہم پہلو کو بھی ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ ادارہ
گزشتہ شمارے میں دہشت گردی کا مفہوم اور اس کے اسباب کے بارے میں تفصیل گزر ی، اب یہاں ہم دہشت گردانہ فکر کے شبہات کی تردید پر گفتگو کریں گے جس کی وجہ سے وہ بڑے ہولناک جرائم میں ملوث ہو گئے۔ان کے شبہات کی وضاحتیں ملاحظہ فرمائیں۔
پہلا شبہ:حاکم وقت کی تکفیر
اس بے جان شبہ اور ان کی لاعلمی کی بنیاد پر حکام کے خلاف خروج کے فتنے نے جنم لیا اور انہیں اللّٰہ تعالیٰ کے اس قول کو سمجھنے میں غلطی لگی :
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الكـٰفِرونَ ﴿٤٤﴾... سورة المائدة
’’جو لوگ اللّٰہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں ۔‘‘
اہل علم نے اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں سیدنا عبد اللّٰہ ؓبن عباس ؓکا یہ مشہور قول ذکر کیا ہے کہ
’’اس آیت میں مذکور کفر سے وہ کفر مراد نہیں جو ایک انسان کے خون و مال کو حلال کر دے ، بلکہ یہ اس سے کمتر کفر ہے ۔‘‘[1]
تکفیر کی شرائط
لہٰذا انسان کو چاہیے کہ تکفیر سے باز رہے اور مندرجہ ذیل اہم شرطوں کے پائے جانے کے بعد ہی اس کی جرات کرے :
پہلی شرط :     نصوص اس بات پر دلالت کریں کہ یہ چیز کفر اکبر اور ملت سے خارج کرنے والی ہے۔
دوسری شرط :   حکم اسی شخص پر لاگو ہوتا ہو جس پر حکم لگانا مقصود ہو ۔
تيسری شرط :    وه كلمۂ كفر صریحاً کفر ہو۔
اس کے علاوہ ان شرائط و ضوابط کا بھی خیال ضروری ہے جو پہلے ذکر ہوچکی ہیں۔
اس لیے تکفیر کا حکم لگانے والے شخص کے لیے لازمی ہے کہ اسے شریعت کے قواعد و اصول کا علم اور نصوص کے مابین جمع و تطبیق کی صلاحیت ہو ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ نصوص کے مقتضی سے وہ یہ واضح کر لے کہ یہ ملت سے خارج کرنے والا کفر ہے یا نہیں ؟ یہ چیزیں اس کفر سے متصف شخص کی حالت پر غور و فکر کرنے کے بعد طے کرے کہ آیا اس شخص کے حق میں تکفیر کی شرطیں پوری ہو رہی ہیں یا نہیں؟ ان اہم چیزوں کا اس نازک مسئلے میں اعتبار کرنا ضروری ہے ۔
تکفیر کے موانع
تکفیر چونکہ شرعی حکم ہے، اس لیے اس میں شرائط کا پایا جانا اور موانع سے خالی ہونا ضروری ہے۔ تکفیر کی شرائط بیان کرنے کے بعد بہتر یہ ہے کہ اس کے موانع بھی ذکر کر دیے جائیں ۔ چنانچہ سب سے پہلے اس شخص کی طرف کفر کی نسبت کی تحقیق کر لی جائے اور وہ خود بھى اس کفر کا اقرار کرے ، اس پر حجت قائم کی جائے اور اسے اس کے بارے میں پورا اختیار اور مہلت دے کیونکہ بسا اوقات کفر کے مرتکب شخص میں درج ذیل تین موانع میں سے کوئی ایک مانع پایا جاتا ہے :
1۔ جہالت : بسا اوقات کفر کا مرتکب شخص جاہل ہوتا ہے اور اسے مسئلے میں شرعی حکم سے واقفیت نہیں ہوتی ۔
2۔ تاویل : بسا اوقات وہ تاویل کرتا ہے اور معاملے کو ایسے حکم پر محمول کرتا ہے جو صحیح شرعی حکم نہیں ہوتا۔
3۔ اکراہ : كبھى وہ مجبوراً اس فعل کا مرتکب ہوتا ہے ، جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے فرمان میں ہے :
﴿إِلّا مَن أُكرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـٰنِ... ﴿١٠٦﴾... سورة النحل
’’ مگر جس شخص کو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو ( تو کوئی حرج نہیں ) ۔‘‘ [2]
سلف کے نزدیک تکفیر کے یہ تین موانع [3]ہیں ، اس لیے کسی شخص کا مؤاخذہ اس کے گناہ کی وجہ سے نہیں کیا جائے گا مگر بعد اس کے کہ اس کے سامنے حجت واضح کر دی جائے ، اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿وَما كُنّا مُعَذِّبينَ حَتّىٰ نَبعَثَ رَسولًا ﴿١٥﴾... سورةالإسراء
’’ اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ ( لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے ) ایک پیغمبر نہ بھیج دیں ۔‘‘
اللّٰہ تعالیٰ کا اىك اور ارشاد ہے :
﴿وَما كانَ رَبُّكَ مُهلِكَ القُرىٰ حَتّىٰ يَبعَثَ فى أُمِّها رَسولًا ...﴿٥٩﴾... سورة القصص
’’ اور تیرا ربّ بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہ تھا جب تک کہ ان کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دیتا۔‘‘
ابو واقد لیثی ؓسے مروی ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ جب خیبر کی طرف نکلے تو راستے میں مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے گزرے جسے ’ ذاتِ انواط ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا ، اس پر وہ لوگ اپنے ہتھیار لٹکایا کرتے تھے ، تو صحابہ کرام نے کہا : اے اللّٰہ کے رسول ! آپ ہمارے لیے بھی ایک ’ ذاتِ انواط ‘ مقرر دیجیے جس طرح ان کے لیے ذاتِ انواط ہے۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا :
«سُبْحَانَ اللهِ هٰذَا كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى‏:‏﴿‏‏اجْعَلْ لَنَا اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ﴾ (الأعراف: 138)‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَرْكَبُنَّ سُنَّـةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ»[4]
’’ سبحان اللّٰہ ! یہ تو وہی بات ہو گئی جس طرح موسیٰ کی قوم نے ان سے کہا ’’ آپ ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دیں جس طرح ان کے لیے ایک معبود ہے ۔‘‘قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم لوگ ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقے پر چلو گے ۔‘‘
تکفیر کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بہت زیادہ اس بات سے ڈرے کہ کہیں وہ ایسے شخص کی تکفیر نہ کردے جس کی تکفیر اللّٰہ اور اس کے رسول نے نہیں کی، ورنہ وه حكم خود اسی پر لوٹ آئے گا ، اللّٰہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے :
«أَيُّـمَا امْرِئٍ قَالَ لِأَخِيهِ "يَا كَافِرُ!"‏ فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا. إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ وَإِلاَّ رَجَعَتْ عَلَيْهِ»[5]
’’ جس نے بھی اپنے کسی بھائی کو ’اے کافر‘ کہہ کر بلایا تو ان دونوں میں سے کوئی ایک ضرور کافر ہو جاتا ہے۔ اگر واقعی مسئلہ ویسا ہی ہے جیسا اس نے کہا تب تو ٹھیک ہے، ورنہ یہ کفر اسی پر لوٹ آتا ہے ۔‘‘
امام غزالی [6] فرماتے ہیں :
’’ جہاں تک ہو سکے انسان کو تکفیر سے احتراز کرنا چاہیے، کیونکہ قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے والے اور صراحۃً لا إله إلا الله محمّد رسول الله کہنے والے کے خون اور مال کو حلال سمجھنا ایک غلطی ہے اور ایک ہزار کافروں کو زندگی بخشنے میں غلطی کرنا اس بات سے زیادہ آسان ہے کہ کسی مسلمان کے خون بہانے میں غلطی کی جائے ۔‘‘[7]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں :
’’ یہی وجہ ہے کہ اہل علم و سنت اپنے مخالفین کی تکفیر نہیں کرتے ، اگرچہ ان کے مخالفین ان کی تکفیر کرتےہیں ، کیونکہ کفر ایک شرعی حکم ہے اور کسی انسان کے لیے یہ روا نہیں ہے کہ اس کی مثل کے ذریعے بدلہ لے ۔‘‘[8]
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تکفیر ایک حکم شرعی ہے جس میں شرائط کا یقینی طور پر پایا جانا اور موانع سے خالی ہونا ضروری ہے ۔
دوسرا شبہ : حکام کے خلاف خروج کو جائز سمجھنے کا شبہ
اہل تکفیر کے بے سروپا شبہات مىں سے، جن کی بنا پر وہ شرمناک افکار کا شکار ہوئے ، ایک ظالم حاکم کے خلاف خروج کو جائز سمجھنا بھی ہے ۔ اپنے زعم سے اس جواز کی دلیل انہوں نے یہ پیش کی کہ اس مسئلے میں سلف کے مابین اختلاف تھا ۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس مسئلے میں سلف کے مابین اختلاف اس وقت تھا جب کہ خروج کے نقصانات کھل کر ان کے سامنے نہیں آئے تھے ، لیکن جب اُنہوں نے دیکھ لیا کہ خروج کوئی بھلائی نہیں لاتا تو وہ حکامِ وقت کے خلاف خروج ترک کرنے پر متفق ہو گئے، اگرچہ حکام ظلم و زیادتی کریں ۔
امام بخاری کے عقیدہ کا ذکر کرتے ہوئے امام لالکائی اپنی سند سے امام بخاری سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
’’ میں نے حجاز ، مکہ ، مدینہ ، کوفہ ، بصرہ ، واسط ، بغداد ، شام و مصر کے ایک ہزار سے زائد اہل علم سے ملاقات کی ، میں ان سے متعدد بار وقتاً فوقتاً ملتا رہا ، چھیالیس سالوں سے زائد عرصہ سے میں نے ان کو ان کی زندگی میں پایا ہے۔ کئی سالوں میں شام ، مصر اور جزیرہ والوں سے دو مرتبہ اور بصرہ والوں سے چار مرتبہ ملا ، حجاز میں چھ سال اور کوفہ و بغداد نہ جانے کتنی بار گیا جس کا کوئی شمار نہیں ، خراسان کے محدثین کے ساتھ ملا ، جن میں...‘‘ پھر انہوں نے ان میں سے بعض ناموں کا ذکر کیا، پھر بعض اعتقادی مسائل کا ذکر کیا اور اسی ضمن میں امام بخاری کا یہ قول بھی نقل کیا : ’’ وألّاننازع الأمر أهله.کہ ہم حکمرانوں سے ان کی حکومت پر نہ لڑیں ، وألّا يرى السيف على أمته محمد ﷺ . اور یہ کہ امّت محمدیہ ﷺ کے خلاف تلوار نہ اٹھائیں۔‘‘[9]
اسی طرح لالکائی نےاپنی سند سےامام ابن ابی حاتم رازی[10] ﷫سے ان کے والد اور ابوزرعہ رحمہمااللّٰہ کےعقیدہ کا تذکرہ نقل کیا ہےکہ اُنہوں نے کہا:
’’میں نےاپنےوالدسے اورابوزرعہ سےاُصولِ دین میں اہل سنت کےعقیدے کےبارےمیں پوچھا اوریہ کہ تمام ممالک میں علما کو کس منہج پر پایا؟توان دونوں نےکہا:ہم نے حجاز ،عراق ،شام اوریمن جیسے تمام ممالک میں علما کوپایا۔ان کا عقیدہ یہ تھا ...پھر بہت سارے اُمور کو ذکر کیا،جن میں ایک مسئلہ یہ تھا:اورہم اماموں (حکمرانوں )کےخلاف خروج کوجائز نہیں سمجھتےاورنہ ہی فتنہ کےزمانے میں قتال کوجائز سمجھتےہیں اوراللّٰہ تعالیٰ نےجس کوہمارے معاملات کا ذمہ دار بنا دیا ہے،ہم اس کی سمع وطاعت کرتےہیں ،اس کی اطاعت سےہاتھ نہیں کھینچتے،سنت اورجماعت کااتباع کرتے اور شذوذ ، اختلاف اور تفرقہ سے بچتے ہیں ۔‘‘[11]
امام نوو ی رحمہ اللّٰہ صحیح مسلم کی شرح میں لکھتےہیں :
’’اورجہاں تک مسئلہ ان (حکام وقت )کےخلافت خروج کرنےاوران سےقتال کرنےکاہےتویہ تمام مسلمانوں کےاجماع سےحرام ہے ،اگرچہ وہ فاسق اورظالم ہوں۔ جومیں نےذکر کیاہے اس معنیٰ کی حدیثیں واضح اورظاہرہیں ۔‘‘                                پھر لکھتےہیں :
’’قاضی نےکہا:ابوبکر بن مجاہد نےاس مسئلہ میں اجماع کادعوی کیاہے اورکچھ لوگوں نےیہ کہتے ہوئے ان کارد ّکیاہے کہ حضرت حسین، ابن زبیر رضی اللّٰہ عنہما اور اہل مدینہ بنی اُمیہ کےخلاف کھڑے ہوئے،اسی طرح تابعین اوردور اوّل کےمسلمان ابن اشعث کےساتھ مل کرحجاج کےخلاف کھڑے ہوئے۔پھر لکھتےہیں:قاضی نےکہا:’’کہاگیا کہ یہ اختلاف شروع دورمیں تھا، پھر ان کےخلاف خروج نہ کرنے پر اجماع ہوگیا ۔‘‘[12]
شاذونادرہی کوئی ایساامام ملےگاکہ جس نے اہل سنت کےعقیدہ پرکوئی کتاب لکھی ہومگر اس نےضرور بیان کیاکہ حکامِ وقت کےخلاف خروج نہ کیا جائے ،اگرچہ وہ ظلم وزیادتی کریں اورمعروف (بھلے کام )میں ان کی سمع وطاعت بجالائی جائے اوراُنہوں نےاس چیز کو اپنے اصول میں شمار کیااورجو اس مسئلے میں ان کی مخالفت کرتاہے تو وہ ہویٰ پرست وبدعتی ہےاورجماعت سےنکلنے والاہے۔
علامہ ابو الحسن اشعری[13]﷫فرماتےہیں :
’’مسلمانوں کےاماموں (حکمرانوں )کی سمع وطاعت پر علما کااجماع ہےاوراس بات پر بھی کہ ہروہ شخص جوان کےکسی معاملے کاوالی بناخواہ رضامندی کےساتھ یا زبردستی اس کی حکومت قائم ہوگئی ۔خواہ وہ نیک ہویافاجر تواس کےخلاف تلوار کےذریعہ خروج نہیں کیاجائے گا،خواہ وہ ظلم کرےیاعدل کرے۔‘‘[14]
علامہ ابوبکر اسماعیلی [15]﷫ فرماتےہیں :
’’علما کی رائے یہ ہے کہ ان ظالم حکمرانوں کےلیے اصلاح کی دعا کی جائے اوراس بات کی کہ وہ عدل کی طرف مائل ہوں ۔اوران کےخلاف تلوار سےخروج کوجائز نہیں سمجھتے۔‘‘[16]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ﷫فرماتےہیں:
’’دیے گئے علم وعدل کاتقاضا یہ ہےکہ حکام کےظلم وجور پر صبر کیاجائے ،جیسا کہ یہ اہل سنت والجماعت کااُصول ہے ۔‘‘[17]
پھر انہوں نےایک طویل گفتگو کی ،جس میں اُنہوں نےفرمایا:
’’اسی لیے اہل سنت والجماعت کااس بات پر اتفاق ہوگیاہے کہ فتنہ کےزمانے میں قتال نہ کیا جائے کیونکہ اس سلسلے میں نبی ﷺ سےصحیح احادیث ثابت ہیں ،وہ اس مسئلے کو اپنے عقائد میں ذکر کرتےہیں اورحکام کےظلم پر صبر کرنےاوران سےقتال نہ کرنے کاحکم دیتےہیں،اگرچہ فتنہ کےزمانے میں اہل علم ودین کی بڑی تعداد نےقتال کیاہے۔یہاں تک کہ اُنہوں نےیہ فرمایا :نبی ﷺ نےکسی کی تعریف نہیں کی ، نہ فتنہ میں قتال کرنےپر ،حکام کےخلاف خروج کرنےپر ،ان کی اطاعت سےہاتھ کھینچنے پر اورنہ ہی جماعت سےالگ ہونے پر ۔‘‘[18]
پھر انہوں نےحکام وقت کےخلاف خروج کےنقصانات کا فوائد کی نسبت بھاری ہونےکی وضاحت کرتےہوئے فرمایا :
’’اسی لیے اہل حدیث کامنہج یہ ہے کہ ظالم بادشاہوں کےخلاف قتال کےذریعہ خروج نہ کیاجائے ،ان کےظلم پر صبر کیاجائے تاآنکہ نیک شخص کو راحت مل جائے یافاجر سےنجات مل جائے ۔‘‘
اُنہوں نےیہ بھی فرمایا :
’’اسی لیے اہل سنت والجماعت کےاصولوں میں سے یہ رہا کہ جماعت کو لازم پکڑاجائے، حکام سےقتال نہ کیاجائے اورفتنہ کےزمانے میں قتال سےباز رہاجائے۔اورجہاں تک ہوی پرستوں کامسئلہ ہےجیسے معتزلہ توحکام کےخلاف قتال کو جائز سمجھنا ان کےاُصولِ دین میں شامل ہے۔‘‘[19]
اُنہوں نے یہ بھی فرمایا:
’’جہاں تک اہل علم وفضل اوردین کامسئلہ ہے تووہ کسی کو بھی حکام وقت کی نافرمانی کرنے،انہیں دھوکہ دینے اوران کے خلاف کسی بھی نوعیت کے خروج کرنےکی اجازت نہیں دیتےکیونکہ اس سےاللّٰہ تعالیٰ نےروکا ہے،جیسا کہ متقدمین ومتاخرین اہل سنت اوردیگر لوگوں کی عادات اور کردار سے یہ بات معروف ہے۔‘‘[20]
انہوں نےیہ بھی فرمایا:
’’اس سلسلے میں اصول یہ ہےکہ کسی امام یاگروہ کےاندر صرف ظلم وزیادتی کاپایاجانااس سےقتال کاموجب نہیں ہے ،بلکہ جواز بھی فراہم نہیں کرتا۔اس کےبرعکس جس اصول پر نصوص دلالت کرتےہیں، وہ یہ ہےکہ لوگوں کو اس بات کاحکم دیاجائے گا کہ وہ ظالم وجابر بادشاہ کےظلم وجور اور زیادتی پر صبر کریں اوراس سے قتال نہ کریں۔‘‘[21]
ان روشن نصوص و براہین سےساراابہام وغموض دورہوجاتااورشبہ زائل ہوجاتاہے اوراس جاہل فکر کاعیب واضح ہوجاتاہےجوحکام کےخلاف خروج جائز قرار دیتی ہے اوراُمتِ مسلمہ کو کشمکش ،اختلاف ،انتشار اورتباہی کی آگ میں جھونک دیتی ہے ۔[22]
تىسرا شبہ:ہاتھ اورہتھیار سےمنکر کوبدلنے کاشبہ
امربالمعروف ونہی عن المنکر شریعت کےاُصولوں میں سےایک عظیم ترین اصول ہے،اسی سےشریعت کےارکان مضبوط ہوتے ہیں،اس کی عمارت بلند ہوتی ہے اوراسی سےاُمتِ مسلمہ کو ’خیرامت‘ کادرجہ ملاہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
﴿كُنتُم خَيرَ أُمَّةٍ أُخرِجَت لِلنّاسِ تَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ ...﴿١١٠﴾... سورة آل عمران
’’تم بہترین امت ہوجولوگوں کےلیے برپاکی گئی ہے۔تم نیکی کاحکم دیتےہو،بدی سےروکتےہواوراللّٰہ پر ایمان رکھتےہو۔‘‘                                                (آل عمران:110)
اس عظیم دینی شعار کےکچھ شروط ،آداب و ضوابط اورمقاصد ہیں جنہیں مکمل طریقہ سےپوراکرناضروری ہےاوریہ بھی ضروری ہےکہ اس سلسلے میں وارد نصوص کوسب سے درست معنی اورسب سےپاکیزہ فہم پرمحمول کیاجائے ،ان کی پریشانی اس شعار کےتئیں ان کی کمزور سوچ اورالٹے قو ل کی وجہ سے ہےجوکھلم کھلاروشن شرعی احکام کےمخالف ہے،جس کی چند مثالیں ذیل میں بیان کی جارہی ہیں:
انہوں نےاللّٰہ کےرسول اللّٰہﷺ کی اس حدیث کو غلط ڈھنگ سےسمجھا:
«مَنْ رَأٰى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذٰلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ » وفي روایة:«وَلَیْسَ وَرَاءَ ذٰلِكَ مِنَ الْإِیْمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ»[23]
’’تم میں سےجو بھی کسی منکر کودیکھے تواسے چاہیے کہ وہ اسے اپنےہاتھ سےبدلے ،اگراس کی طاقت نہ ہوتو اپنی زبان سے اسے بدلے اوراگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتو اسے اپنےدل میں براجانےاوریہ سب سےکمتر اىمان ہے۔‘‘ایک دوسری روایت میں ہے:’’اوراس کےبعد ذرہ برابر بھی ایمان نہیں ہے۔‘‘
ان کویہ جواب دیاجائےگا کہ اپنی جانب سےچیزوں کوان کےحقیقی نام کو چھوڑکرایسا نام نہ دیاجائے جوفساد کاباعث ہویاشریعت کےمخالف ہو۔ایسا کرنانہ اہل علم کاقول ہے،نہ اہل فضل کاعمل ہے ،نیز اللّٰہ نےجن لوگوں کودین میں بصیرت سےنوازا ہے، ان کےہاں یہ چیز حقیقت کو کچھ بھی بدل نہیں سکتی ،کیونکہ جلیل القدر علما کااس بات پراتفاق ہےکہ ایسا منکر جو اپنے سے بڑے منکر کوجنم دے،اس کی نکیر نہیں کی جائےگی ،کیونکہ شریعت کی بنیاد اس بات پر ہے کہ مصلحتیں حاصل کی جائیں اورمفاسد کم کیےجائے ۔
اس پر قدآورعلماے کرام کےاقوال دلالت کرتےاورابھارتےہیں چنانچہ
امام نووی ﷫نےقاضی عیاض ﷫کاقول نقل کیاہے :
’’اگر غالب گمان یہ ہوجائے کہ ہاتھ سےمنکر کو بدلنے کی صورت میں اس سےبڑامنکر پیداہوجائے گا جىسے اس کے یاکسی اورکے قتل ہونےکااندیشہ ہوتوایسی صورت میں ہاتھ سے روکنے کے بجائے زبان کےذریعہ سے بات کہنےاور وعظ ونصیحت کرنےاورخوف پیدا کرنےپر اکتفا کرے۔پھر اگریہ ڈرہو کہ زبانی نصیحت سےبھی اسی قسم کاخطرہ ہےتو پھر و ہ اپنے دل سے براجانے،اس طرح وہ وسعت میں رہے گا۔یہی حدیث کامفہوم ہے ۔‘‘[24]
واللّٰہ ! یہی مشکاۃ نبوت کے فہم سےپیدا ہونے والا نور ہے اوراللّٰہ کی حرمتوں اوراس کے احکامات کےسلسلے میں پرہیز گاری اختیار کرنے کی راحت اور سکون ہے ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ﷫ نےفرمایا:
’’کسی منکر کاانکار کسی ایسے وسیلے سےکرنا جو اس سےبڑامنکر ہو،جائز نہیں ہے،اس لیے امر بالمعروف والنہی عن المنکر کی خاطر حکام کےخلاف تلوار لے کرنکلنے کوجرم قرار دیا گیاہے کیونکہ ایسا کرنے سےمحرمات کےارتکاب اورواجبات کےترک کی ایسی برائی لاز م آئےگی جوکہ حکام کی جانب سےصادر ہونےوالےمنکر اورگناہ سےکہیں بڑھ کر ہے۔‘‘[25]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ﷫ نےامام ابوحنیفہ ﷫کاقو ل نقل کیاہے کہ
’’ابو مطیع حکم بن عبداللّٰہ نے ان سے پوچھا :اس شخص کےبارےمیں آپ کی کیارائے ہےجوبھلائی کاحکم دے اورمنکر سےروکے،جس پر کچھ لوگ اس کےپیروکاربن جاتےہیں اورپھر وہ جماعت کےخلاف خروج کرے،توکیاآپ اس کوجائز سمجھتےہیں؟ انہوں نےفرمایا:نہیں ،میں نےکہا:کیوں جب کہ اللّٰہ اوراس کےرسولﷺنےامر بالمعروف اورنہی عن المنکر کاحکم دیا ہےاوریہ واجب فریضہ ہے؟تواُنہوں نےفرمایا :با ت توصحیح ہےلیکن خون بہانے اورحرام کوحلال سمجھنے کی صورت میں جو بگاڑوہ کریں گے، وہ ان کی اصلاح سےزیادہ ہوگا ۔‘‘[26]
علامہ ابن جوزی [27]﷫فرماتےہیں:
’’حکام وسلاطین کےساتھ امربالمعروف والنہی عن المنکر کےسلسلے میں جوطریقہ درست ہےوہ یہ ہےکہ ان کو آگا ہ کیاجائے اورانہیں وعظ و نصیحت کی جائے اورایسے سخت الفاظ استعمال کرنا،مثلاً: اےظالم!اے اللّٰہ سےنہ ڈرنےوالے!وغیرہ اس قسم کےالفاظ ایسا فتنہ بھڑکاتےہیں جس کاشر دوسرے لوگوں تک پہنچتاہے،توجائز نہیں ہے۔ اوراگر کہنے والےکو صرف اپنےنفس پر خطرہ ہوتو جمہور علما کےنزدیک جائز ہے لیکن میں ایسا کرنےسےبھی منع کرتاہوں ،کیونکہ اصل مقصودمنکر کو ختم کرناہے اورحاکم کےخلاف زبان درازی کرکےاسے منکر کےارتکاب پر ابھارنااس منکر سےبڑھ کرہےجس کو اس نےزائل کرنےکاقصد کیاہے۔‘‘
امام احمد ﷫فرماتےہیں :
’’حاکم سے چھیڑچھاڑنہیں کی جائےگی، کیونکہ اس کی تلوار اورتازیانہ ہمیشہ تیار رہتے ہیں اورسلف کےبارےمیں جویہ آتاہےکہ وہ اپنےسلاطین کاسامنا کرتےتھے تواس کی وجہ یہ تھی کہ ان کےدل میں علما کی ہیبت تھی۔اس لیےجب علما ان کےخلاف بولتےتھے تواکثر حالتوں میں وہ انہیں انگیز کرلیتےتھے۔‘‘[28]
ان دلائل وآثار سےان کاشبہ ظاہر ہوگیا جس نےا ن کےمفاسد اورباطل کوان پر ملتبس کردیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ظاہرہوگیا کہ انتہا پسند جماعت نےپورے اصرار کےساتھ اہل سنت والجماعت کےاجماع سےتصادم کیاہے اورامر بالمعروف والنہی عن المنکر کےسلسلے میں ان کےحق اوردرست منہج کی مخالفت کی ہےجس کی اصل وتفصیل اوّل وآخر اورباطن وظاہر سراسر شفقت علم وحکمت اوربردباری پر مبنی ہے۔ کاش کہ یہ غلو پسند اورسنگ دل لوگ ان شفقت آمیز اُصول،اخلاق اورعمدہ خصلتوں اوراقدار کو تھوڑابھی اپنا ئے ہوتے !!
چوتھا شبہ: آج دفاعی جنگ کا مرحلہ ہے جس کےلیے استطاعت کی کوئی شرط نہیں!
ان کے اس شبہ کاجواب یہ ہے کہ عالمی نظاموں،بین الاقوامی عہد وپیمان اور معاہدوں کی موجودگی میں کس نےیہ طے کیاکہ اُمت آج دفاعی جہاد کےمرحلے میں ہے؟!!آیا اس مرحلے کافیصلہ فقہ اکیڈمیوں اوراسلامی تنظیموں نےکیایاربانی علمانےکیا!!...یایہ نوخیز کم علم اورعام لوگوں کافیصلہ ہے!!
ہاں،یہ درست ہےکہ دفاعی جہاد شرعی واجبات میں سے ایک اہم واجب ہے اوردفاعی جہاد کامطلب یہ ہےکہ کسی زیادتی وظلم پر بطورِ بدلہ قتال کرنا،لیکن اس کی صحت اوروجوب کےلیے شرط ہےکہ یہ جہاد شرعی حکومت کی اجازت سےاوراس کےجھنڈے تلےہو ،نیز وہ قدرت واستطاعت سےمرتبط ہو اوراس بات سےبھی مرتبط ہوکہ یہ شر میں مزید اضافہ نہ کرے ۔اوراگر کوئی مسلمان کسی ایسےواجب کو ترک کردیتا ہے جس کی قدرت اس کےپاس نہیں ہے تواللّٰہ تبارک وتعالیٰ کےیہاں وہ معذور ہوگا اوراللّٰہ تعالیٰ اس کےلیے کوئی سبیل نکالے گا،کیونکہ وہ اس سلسلے میں اللّٰہ سےڈرنے والا ہے اوراللّٰہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مَخرَجًا ﴿٢﴾... سورة الطلاق
’’جوکوئی اللّٰہ سےڈرے گا اللّٰہ اس کےلیے مشکلات سےنکلنے کاکوئی راستہ پیدا کردےگا۔‘‘
مزید فرمایا :          ﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مِن أَمرِهِ يُسرًا ﴿٤﴾... سورة الطلاق
’’جوشخص اللّٰہ سےڈرےتواللّٰہ اس کےمعاملہ میں آسانی پیداکردیتاہے ۔‘‘
اسی طرح اگرعلم کےحصول اوردعوت الیٰ اللّٰہ میں لگ جائے اورہرآدمی اپنے اپنے میدان میں اپنی وسعت بھراُمت کی طاقت کودین کی خدمت کی جانب موڑدے تواس سےعمومی فائدہ ہوگا اورصحت مند سوچ پیداہوگی۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ﷫نےفرمایا:
’’جوشخص طاقت اورجہاد سےدین کو قائم کرنےکی طاقت نہیں رکھتا اوروہ کام کرتاہے جس کی اسےقدرت ہےجیسے دل سےاُمت کےلیے خیرخواہی اوردعا،بھلائی سےمحبت اوراپنی استطاعت بھر خیر کےکاموں کوانجام دیتاہے تواسےاس چیز کامکلف نہیں کیاجائے گا جس کےکرنےسے وہ عاجز ہےکیونکہ دین کاقیام دوچیزوں سےہے :ایک رہنمائی کرنےوالی کتاب اوردوسرى مدد کرنےوالا لوہا(ہتھیار )۔‘‘ [29]
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح عثیمین ﷫ نےفرمایا:
’’اہم بات یہ ہےکہ مسلمانوں پر جہاد واجب ہے تاکہ اللّٰہ کاکلمہ سربلند ہواوردین پوراکاپورا اللّٰہ کےلیے ہوجائے،لیکن آج مسلمانوں کےپاس وہ اسباب نہیں ہیں جن کےذریعہ وہ کافروں سےجہاد کرسکیں ،حتی کہ دفاعی جہاد بھی نہیں اورہجومی جہاد توبلاشک آج کےدور میں ناممکن ہے۔یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ ایک باشعور اُمت کوپیدا کرے جوپہلے ایمانی اورنفسیاتی طورپر تیار ہو، پھر عسکری طورپر جہاد کےلیے تیار ہومگر ہم اس موجودہ صورتحال کی موجودگی میں جہاد نہیں کرسکتے۔‘‘[30]
دفاعی جہاد کےلیے بھی یہ ضروری ہے کہ ہمارے پاس دشمن کوروکنے کی طاقت ہو،اگر ہم طاقت اورہتھیار میں ان سےکمتر ہیں اور پھر ہم ان کےطغیان وسرکشی کوبھڑکائیں اوراُنہیں اپنے وطن ،اپنی عزت اورمال پر قبضہ جمانے کاموقع دیں ،تویہ جہاد نہیں ہےبلکہ یہ زمین پر فتنہ وفساد پھیلانے کےمتراد ف ہے اورایسا کرناواضح شریعت اوراس کے مسلمہ احکام کی خلاف ورزی ہے!!
پانچواں شبہ : کفار کو جزیرۃ العرب سےنکالنے کا شبہ
اس شبہ کا جواب دینے سے پہلے اس مسئلے میں تھوڑی تفصیلی گفتگو کرنا بہتر ہے ، وہ اس لیے کہ جزیرۃ العرب میں کافروں کے رہنے کی دو شکلیں ہیں :                دائمی         اور                 وقتی
دائمی قیام کرنا بایں طور کہ وہ اسے اپنا مستقل وطن بنالیں تو یہ جائز نہیں ہے اور اگر وقتی طور پر قیام کرتے ہیں تو جائز ہے ، کیونکہ اللّٰہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿وَإِن أَحَدٌ مِنَ المُشرِكينَ استَجارَكَ فَأَجِرهُ حَتّىٰ يَسمَعَ كَلـٰمَ اللَّهِ ثُمَّ أَبلِغهُ مَأمَنَهُ ...﴿٦﴾... سورة التوبة
’’ اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللّٰہ کا کلام سنے ) تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللّٰہ کا کلام سن لے ۔ پھر اسے اس کے (امن کی جگہ ) تک پہنچادو۔‘‘ (التوبہ:6)
اور اس لیے بھی کہ دونوں خلفاے راشدین حضرت ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہما نے کفار کو جزیرۃ العرب سے نکالنے میں جلدی نہیں کی ، نیز جس شخص نے حضرت عمر ﷜كو قتل کیا تھا اور اس سے اُن كو شہادت کا اعزاز ملا۔ وہ شہادت جس کی نبی ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی، وہ کافر ہی تھا۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں حضرت عمر﷜ کے قتل اور حضرت عثمان ﷜ کی بیعت کا قصہ نقل کیا ہے ، اسی میں حضرت عمر ﷜ کا یہ قول بھی ہے :
’’تمام تعریفیں اس اللّٰہ کے لیے ہیں جس نے مجھے کسی ایسے شخص کے ہاتھوں موت نہیں دی جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہو۔‘‘ [31]
اس مسئلے میں ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ کفار کو جزیرۃ العرب سےنکالنےکی ذمہ داری کس کی ہے ؟
اس وقت پوری دنیا میں اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی بھی ملک میں اگر کوئی ایسا شخص داخل ہونا چاہتا ہے جو وہاں کا باشندہ نہیں ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کی حکومت سے اجازت حاصل کرے جسے ہم ’انٹری ویزا‘ کے نام سے جانتے ہیں ، لہٰذا جو شخص بھی اس ویزا کے ساتھ کسی بھی ملک میں جاتا ہے تو اسے جان ومال کا امان حاصل ہوتا ہے اور اس کی خلاف ورزی اس شخص پر ناحق ظلم و زیادتی کرکے ہی ہوسکتی ہے ۔
جو کفار جزیرۃ العرب میں داخل ہوئے ہیں، اُنہیں وہاں سے نکالنےکی ذمہ داری وہاں کے حکام کی ہے جن کی اجازت سے وہ وہاں داخل ہوئے ہیں ، ان کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے لیے اس قسم کی کوئی کارروائی کرنا جائز نہیں ہے ۔ اس لیے حکومت کے امان میں آنے والے بعض لوگوں کے خلاف جو بھی ظلم و زیادتی ہوتی ہے ، خواہ قتل کے ذریعے ہو یا ایذا رسانی کے ذریعے یا اس سے کمتر کسی حرکت کے ذریعے ، تو یہ سب اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور جرم ، زمین میں فساد پھیلانے اور اسلام و مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کے قبیل سے ہے۔
اس کی مزید وضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہما کے دورِ حکومت میں صحابۂ کرام میں سے کسی نے کفار کو جزیرۃ العرب سے نکالنے کو دلیل بنا کر کسی بھی کافر پر کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں کی ، نہ تو قتل کے ذریعہ اور نہ ہی اس سے کمتر کسی اورسرگرمی کے ذریعہ ، کیونکہ وہ اس بات سے واقف تھے کہ ان کو نکالنے کی ذمہ داری حکامِ وقت کی ہے ۔‘‘ [32]
اس مسئلے کا اىك پہلو یہ بھى ہے کہ جزیرۃ العرب سے مراد کیا ہے ؟
اس سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے ، اس لیے اس مسئلے اور اس کے نتیجے میں امت کے اندر وجود پذیر ہونے والے بڑے بڑے مسائل میں فیصلہ کی ذمہ داری علماے مجتہدین كى ہے نہ کہ عام افراد کى ۔
جزیرۃ العرب کے امن و سکون اور اس میں فتنہ و فساد نہ برپا کرنے کے حوالے سے اگر شریعت کے مقاصد، جن میں مصالح کو حاصل کرنے ، مفاسد کو روکنے اور انجام کا اعتبار کرنے کی دعوت ہے ، کو مد نظر رکھا جائے تو صاف ظاہر ہوگا کہ ان دہشت گردانہ کارروائیوں کا انجام اس جزیرہ میں تخریب و تباہی اور خوف ودہشت کی شکل میں بر آمد ہوا ، جسے اللّٰہ تعالیٰ نے امن و سلامتی اور صلاح و اصلاح کا گہوارہ بنانا چاہا، نہ کہ فتنہ وفساد کا اڈہ ۔ اللّٰہ عزوجل ہی سیدھے راستے کی رہنمائی کرنے والا ہے ۔
مقصد ششم: عقیدہ وَلاء وبَراءمیں غلط فہمی
عقیدے سے متعلق وہ شبہات جن میں دین سے بعید گروہ ملوث ہے اور اُنہوں نے اسے گمراہی ، فتنے اور غلو کی دلدل میں دھکیل دیا ہے ، ان میں سے ایک مسئلہ عقیدے کے ایک اہم اصول کے معانی سے ان کی جہالت و عدم واقفیت ہے ۔ اور وہ ولاء وبراء کا عقیدہ ہے، جس نے ان دونوں کی حدود سے تجاوز کیا، وہ نہایت ہی مذموم غلو کا شکار ہوا ۔ اسی طرح جس نے ان میں کوتاہی کی اس نے بھی حد سے تجاوز کیا اور تفریط کا شکار ہوا ۔
انتہا پسند فکر کے حاملین نے اسلامی معاشرہ سے اپنی براءت کا اظہار کیا ہے اور اس کی تکفیر کی ہے۔کیونکہ ان کے خیال میں مسلم معاشرہ کفار کے ساتھ لین دین کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ ان لوگوں کی جماعت سے نکل گیا ہے جس کے بارے میں ان کا زعم ہے کہ وہی دراصل مسلمانوں کی وہ جماعت ہے جس کے بارے میں احادیثِ شریفہ میں ذکر آیا ہے حالانکہ
’’یہ ان کے جھوٹ اور ان بناؤٹی عقائد کا نتیجہ ہے جو انہوں نے گھڑ رکھے ہیں ۔‘‘ (الاحقاف: 28)
ان کی اس باطل پرستی کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں :
’’اور جس شخص کے اندر ایمان اور فسق و فجور دونوں ہوں، اس کے ایمان کے بقدر اس سے دوستی رکھی جائے گی اور اس کے فسق و فجور کے بقدر اس سے بغض رکھا جائے گا اور محض گناہ اور معصیت کی وجہ سے اسے کلی طور پر ایمان سے نہیں نکالا جائے گا۔‘‘[33]
ان کی لغزش او رکج فہمی کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے کفر وولاء کا غلط مفہوم لیتے ہوئے فروعی احکام کو ولاء وبراء کا محل بنالیا ہے ۔ خیر کے ایسے اعمال جنہیں شرعی اصول و مسلمات سے چھیڑ چھاڑ کیے بغیر دنیوی مصلحتوں کی خاطر اور امن و سلامتی کی راہیں ہموار کرنے کے لیے انجام دیا جائے ، شریعت ان کی اجازت دیتی ہے اور ان کی خواہاں ہے ، اللّٰہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿ لا يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقـٰتِلوكُم فِى الدّينِ وَلَم يُخرِجوكُم مِن دِيـٰرِكُم أَن تَبَرّوهُم وَتُقسِطوا إِلَيهِم إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ ﴿٨﴾... سورة الممتحنة
’’اللّٰہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین كے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں میں سے نہیں نکالا ، اللّٰہ انصاف کرنےوالوں کو پسند کرتا ہے ۔ ‘‘
اس آیت کا مفہوم یہ کہ کفار میں سے جن لوگوں نے مسلمانوں کو تکلیف نہیں پہنچائی ، نہ ان سے قتال کیا اور نہ اُنہیں ان کے گھروں سے نکالا، مسلمان ایسے لوگوں کے ساتھ دنیوی معاملات میں احسان اور عدل وانصاف کا برتاؤ کریں گے ، کیونکہ صلہ رحمی اور حسن تعامل کافر کو اسلام میں راغب کرنے کا ذر یعہ ہے ، لیکن قلبی محبت اور دوستی نہ ہو ۔ اسی طرح اللّٰہ تعالی کا یہ فرمان بھی اسی مفہوم پر دلالت کرتا ہے:
﴿ وَإِن جَنَحوا لِلسَّلمِ فَاجنَح لَها وَتَوَكَّل عَلَى اللَّهِ ... ﴿٦١﴾... سورة الانفال
’’اور اے نبی ! اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللّٰہ پر بھروسہ کرو ۔ ‘‘
دنیوی اُمور میں غیر مسلموں کے ساتھ معاملہ کرنے کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں ، مثلاً ہجرت کے موقع پر نبی ﷺ نے عبد اللّٰہ بن اُریقط لیثی کو رہبر کے طور پر اُجرت پر رکھا تاکہ وہ راستہ کی رہنمائی کرے ۔[34]
اسی طرح آپ ﷺ نے بعض یہودیوں سے قرض لیا ہے۔ نبی ﷺ کی وفات کے وقت آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی[35]، اسی طرح نبی کریم ﷺ اپنے یہودی پڑوسی کو ہدیہ دیا کرتے تھے۔ آپﷺ نے خیبر کے یہودیوں کے ساتھ بھی معاملہ طے کیا کہ جو بھی غلہ اور پھل ہوگا، اسکا آدھا دینا ہوگا۔[36]
یہ تمام چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ خرید و فروخت او رمنافع کے تبادلے میں غیر مسلموں کے ساتھ معاملہ جائز ہے ، چنانچہ ہم کفار کے ساتھ ان چیزوں میں خریدو فروخت کا معاملہ کرتے ہیں جن کو اللّٰہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے ، مثلاً : اشیائے خور و نوش ، کپڑے ، اسلحہ اور اس کے علاوہ وہ نفع بخش اشیا جو مسلمانوں کے حق میں مفید ہیں ، یہیں سے محض دنیوی تعامل اور عقیدے کی محبت اور دوستی کے درمیان فرق بھی واضح ہوجاتا ہے جس سے پختہ کار اہل علم بخوبی واقف ہیں ، لیکن یہ جہالت ، غلو اور نفس پرستی ہے جو ان چیزوں کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ رحم فرمائے شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ پر ،اُنہوں نے فرمایا :
’’ آپ بہت سارے لوگوں کو پائیں گے کہ وہ محض ذاتی رجحانا ت کی وجہ سے کسی قوم سے محبت کرتے ہیں اور کسی قوم سے بغض رکھتے ہیں ، نہ تو اُنہیں ان کا معاملہ معلوم ہے اور نہ ہی ان کی دلیل ، بلکہ وہ لوگ مطلقاً دوستی کرتے ہیں یا بغض رکھتے ہیں ، اس بات کی پروا کیے بغیر کہ آیا وہ نبی ﷺ اور اُمت کے سلف سے صحیح طرح منقول ہیں یا نہیں اور نہ ہی اُنہیں اس بات کی پروا ہوتی ہے کہ وہ ان کے معنی ومفہوم کو سمجھیں یا ان کے نتیجے و تقاضے کو جانیں ۔‘‘[37]
کیا اللّٰہ تعالی نے مؤمنوں سے محبت اور دوستی کو واجب قرار دیتے ہوئے نہیں فرمایا :
﴿وَمَن يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَالَّذينَ ءامَنوا فَإِنَّ حِزبَ اللَّهِ هُمُ الغـٰلِبونَ ﴿٥٦﴾... سورة المائدة
’’اور جو اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنالے، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللّٰہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے ۔‘‘
ان لوگوں نے بت پرستوں کو تو چھوڑ دیا لیکن اہل ایمان سے لڑائی مول لی :
﴿وَمَن لَم يَجعَلِ اللَّهُ لَهُ نورًا فَما لَهُ مِن نورٍ ﴿٤٠﴾... سورة النور
’’اور جسے اللّٰہ نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں ۔‘‘
حوالہ جات:
[1]    تفسیر ابن کثیر : 3؍113
[2]    تفسیر ابن کثیر : 6؍605
[3]    شروط التكفير وموانعه: مجموع الفتاوٰى: 6؍58، 12؍489
[4]    سنن ترمذی ، کتاب الفتن، باب ماجاء لترکبن سنن من کان قبلکم، حدیث 2180 ، امام ترمذی: حدیث حسن صحیح
[5]    صحیح بخاری ، کتاب الادب، باب من أکفر أخاه بغیر تاویل فهو کما قال، حدیث نمبر 5753 ،
صحیح مسلم ، کتاب الایمان، باب بیان حال إیمان من قال لأخيه المسلم یا کافر! ، حدیث نمبر60
[6]    ابو حامدمحمد بن محمد طوسی غزالی ،لقب :حجۃ الاسلام ہیں ۔(ولادت طوس 450ھ ۔ وفات مصر 505ھ ) ان کی تقریبا دو سو تصنیفات ہیں ، جن میں ’ احیاء علوم الدین ‘ ، ’ تہافت الفلاسفہ‘) ، ’ الاقتصاد فی الاعتقاد ‘ ،’ المستصفی من علم الاصول ‘ وغیرہ مشہور ہیں ۔ 
[7]    ’الاقتصادفی الاعتقاد‘: 176 ، طبع : دار قتیبہ
[8]    ’الرد علی البکری ‘ از ابن تیمیہ : 2؍492
[9]    شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ : 2؍193 تا197، نمبر320
[10] أبو حاتم محمد بن ادریس بن منذر غطفانی حنظلی الرازی، حافظ المشرق،اسماء الرجال کے ماہر ومرجع۔ امام زہری کی احادیث کے جامع ومرتب ( وفات 275ھ)
[11] شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ : 2؍193 تا197، نمبر320
[12] شرح مسلم از نووی:2؍432،433
[13] ابو الحسن علی بن اسمعیل اشعری، مصنف: مقالات الاسلاميين، الإبانة عن أصول الديانة (وفات: 324ھ)
[14] رسالة إلى أهل الثغر، ص 297
[15] ابوبکر احمد بن ابراہیم اسماعیلی شافعی ، امام اہل جرجان ، مصنف: المستخرج على الصحيح، المعجم، مسند عمر، المسند الكبير(وفات 371ھ)
[16]  اعتقاد أہل السنۃ، ص 50
[17] مجموع الفتاوی :28؍279
[18] مجموع الفتاوی :4؍527 تا530
[19] مجموع الفتاوی :4؍444
[20] مجموع الفتاوی:35؍12
[21] الاستقامہ :1؍32اورمنہاج السنۃ :3؍391
[23]           صحیح مسلم ،کتاب الإیمان ، حدیث نمبر 49
[24]           شرح صحىح مسلم از نووی:1؍301
[25] مجموع الفتاوی :14؍472
[26] مجموع الفتاوی:5؍47
[27] امام عبد الرحمن بن علی بن محمد قرشی تمیمی بغدادی حنبلی ابن الجوزی، مختلف علوم میں متعدد تصانیف   لكھیں۔ (وفات 597ھ)
[28] الآداب الشرعىۃ ازابن مفلح :1؍197
[29] مجموع الفتاوی :28؍396
[30] من لقاء الخمىس :33، مجلس صفر 1414ھ منقول از ’مہمات فى الجہاد‘: ص 17
[31] صحیح بخاری ، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب قصة البیعة والاتفاق على عثمان بن عفان، حدیث نمبر 3497
[32] مجموع الفتاوی :28؍89 اور بذل النصح والتذكىر لبقاىا المفتونىن والتفجىر :ص 18۔19
[33] مجموع الفتاوی : 28؍227 تا229
[34] صحىح البخارى، كتاب الإجارة، باب استئجار المشركىن عند الضرورة إذا لم ىوجد أهل الإسلام، حدىث 2263
[35] السنن الکبری از بیہقی ، کتاب البیوع، باب جواز الرهن، حدیث نمبر 10974
[36] صحیح مسلم ، کتاب المساقاۃ، باب المساقاۃ و المعاملة بجزء من الثمر والزرع ، حدیث نمبر 4044
[37] مجموع الفتاوی :5؍163