آئینہ توحید

الفصل الاوّل: عبادت کی اقسام :
جب آپ نے ان قواعد اور اصولوں کو پہچان لیا تو آپ یہ بھی جان لیں کہ اللہ نے عبادت کو کئی اقسام میں منقسم فرمایا ہے ۔کچھ ان میں اعتقادی ہیں جو دین کی بنیاد ہیں ۔مثلاً اس بات کا اعتقاد رکھے کہ وہ یقینی طور پر اس کا رب ہے۔ پیدائش اور امر کےمعاملہ پر اس کا مکمل کنٹرول ہے۔نفع و نقصان پر اسے مکمل دسترس ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اس کی اجازت کے بغیر اس کے ہاں کسی کو سفارش کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ وہ ایسا معبود نہیں کہ غیر کو اپنی عبادت میں شامل کرے کیونکہ یہ الوہیت کے لوازم میں سے ہے۔کچھ عبادتیں زبانی ہوتی ہیں جیسے کلمہ توحید کا زبان سے اقرار کرنا، تو جو شخص مذکورہ کلمہ کا اعتقاد رکھتا ہے۔ لیکن زبان سے نہیں کہتا تو اس کے جان و مال کی حفاظت نہیں ہوگی، وہ شخص ابلیس کی مانند ہوگا کیونکہ وہ توحید ربانی کا قائل ہے بلکہ اس کا اقرار بھی کرتاہے۔ جیسا کہ اس کے متعلق ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں ۔ہاں البتہ اس نے اللہ کے حکم سے سرتابی کی، جس کی بناء پر اس پر کفر کا فتویٰ صادر ہوگیا۔ جو شخص زبان سے کلمہ توحید پڑھتا ہے لیکن اس کے مطابق اس کا عقیدہ نہیں تو اس کی جان و مال مسلمانوں پر حرام ہیں ۔ اور اپنے اندرونی نفاق کا اللہ کے ہاں جوابدہ ہوگا۔ ایسا شخص منافقوں کے زمرہ میں شمار ہوگا اور اس پر منافقوں کے مطابق احکام نافذ ہوں گے۔

بدنی عبادات جیسے نماز میں قیام، رکوع اور سجدہ وغیرہ۔ روزہاور حج کے افعال بھی اس عبادت میں شمار ہیں ۔

مالی عبادت جیسے اللہ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اپنے مال سے کچھ متعین حصہ اللہ کی راہ میں دینا۔ پھرمالی اور بدنی عبادات میں سے کچھ امور واجب ہیں اور کچھ مستحب۔مالی، بدنی او رقولی عبادات میں واجبات اور مستحبات بے شمار ہیں لیکن ان کی بنیاد ان مذکورہ بالا امور پر ہے۔

جب ان امور سے آپ کو آگاہی ہوگئی تو آپ یہ بھی جان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے اوّل سے آخر تک تمام انبیاء کو اس لیے بھیجا تھا تاکہ لوگوں کو اس امر کی دعوت دیں کہ اللہ کی عبادت میں اس کا کوئی شریک نہ ٹھہرائیں ۔ وہ صرف اس لیے نہیں تشریف لائے تھے کہ لوگوں کو بتائیں کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں جو تخلیقی امور میں اس کا معاون اور مددگار ہو۔کیونکہ اس کا تو وہ اقرار کرتے تھے او راس بات کو تسلیم کرتے تھے، جیسے کہ ہم گذشتہ سطور میں ثابت کرچکے ہیں ۔ اسی لیے وہ اپنے پیغمبرؐ سے کہتے تھے کہ:
﴿أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ ٱللَّهَ وَحْدَهُ...﴿٧٠﴾...سورۃ الاعراف
''کیا تو ہمیں اس بات پر لگانا چاہتا ہے کہ ہم اپنے تمام بتون کو چھوڑ کر صرف اللہ کی عبادت کریں ۔''

پیغمبروں سے ان کی مخالفت صرف اس بات پر تھی کہ ''صرف اللہ کی عبادت کرو۔'' وہ اللہ کی ذات کے منکرنہیں تھے او رنہ اس بات سے انکار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ عبادت کے لائق ہے، بلکہ وہ تو اقرار کرتے تھے کہ اللہ کی ذات لائق عبادت ہے۔ان کو انبیاؑء سے صرف اس بات میں اختلاف تھا کہ انبیاؑء انہیں کہتے تھے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو جبکہ وہ اللہ کی عبادت میں او رلوگوں کو شریک کرتے تھے اور ان کو معبود سمجھتے تھے جیساجیسا کہ اللہ نے فرمایا:

﴿فَلَا تَجْعَلُوالِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٢٢...سورۃ البقرۃ'' یعنی'' تمہیں اس بات کا علم ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں ۔ پھر تم اللہ کا شریک کیوں بناتے ہو!''

جب وہ حج کرتے تو تلبیہ یوں پڑھتے:
''لبیك لا شریك لك إلا شریکا ھولك تملکه وما ملك''
''میں حاضر ہوں ! الٰہی تیرا کوئی شریک نہیں ، لیکن ایک شریک ہے جو اپنے آپ پر اختیار نہیں رکھتا اس کا بھی تو مالک ہے۔''

نبی اکرم ﷺ جب ان کا تلبیہ سنتے تو فرماتے، ''جب یہ لوگ ''لاشریك لك'' کہتے ہیں تو اللہ کی توحید کا اقرار کرتے ہیں ۔ کاش وہ اسے اگلا کلمہ ''إلا شریکا ھو لك'' نہ کہتے۔

تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کو مانتے تھے لیکن اس کے ساتھ اور لوگوں کو اس کے شریک بناتے تھے۔ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ مشرکوں کو مخاطب کرکے فرمائے گا۔
﴿أَيْنَ شُرَ‌كَآءِىَ ٱلَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ﴿٦٢...سورۃ القصص
''میرے جو تم نے شریک بنائے ہوئے تھے اُن کوبلاؤ تو سہی وہ کہاں ہیں ؟''

ایک او رمقام پر فرمایا:
﴿وَقِيلَ ٱدْعُواشُرَ‌كَآءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوالَهُمْ...﴿٦٤﴾...سورۃ القصص
''اللہ تعالیٰ مشرکوں سے فرمائے گا ، تم نے جو میرے شریک بنا رکھے تھے اُن کو بلا ؤ، وہ اُن کو پکاریں گے لیکن وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے۔''

ایک او رمقام پر اللہ رب العزت نے اپنے نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
﴿قُلِ ٱدْعُواشُرَ‌كَآءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنظِرُ‌ونِ ﴿١٩٥﴾...سورة الاعراف'' ''آپؐ ان مشرکوں سے کہیں کہ تم نے جو اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں ، ان سب کو بلا لو۔ پھر میرے ساتھ جو داؤ کرنا چاہتے ہو کرو او رمجھے مہلت مت دو۔''

تو ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اللہ کا شریک تو بناتے تھے لیکن اللہ کی ذات کے منکر نہیں تھے۔ وہ بتوں کو خُدا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی عبادت ، ان کے سامنے خشوع خضوع کا اظہار او را ن کے پاس قربانی کے جانور اس لیے ذبح کرتے تھے تاکہ وہ ان کو اللہ کے مقرب بنا دیں اور ان کی اللہ کے ہاں سفارش کریں اور بس۔کیونکہ وہ اس پر اعتقاد رکھتے تھےکہ ان کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے او ریہ اس کےہاں سفارش کرتے ہیں ۔

الغرض اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو لوگوں کی طرف اس لیے بھیجا تاکہ ان کو اللہ کی عبادت کے ماسوا ہر شے کی عبادت سے روک دیں اور لوگون کو بتلا دیں کہ اللہ کے شریک بنانے کے متعلق ان کا عقیدہ سراسر غلط اور باطل ہے۔ یہ عقیدہ صرف اللہ رب العزت کے متعلق ہونا چاہیے۔ اسی کا نام توحید عبادت ہے۔ توحید ربوبیت کے تو وہ قائل تھے جیسا کہ چوتھے اصول میں ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ ہم سب کا پیدا کرنے والا ہے۔

پیغمبروں کی دعوت:
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ توحید جس کی حضرت نوحؑ سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیاؑء نے دعوت دی ، عبادت کی توحید تھی۔اسی لیے اللہ کے رسول اُن سے کہتے تھے:

''أَلَّا تَعْبُدُوٓاإِلَّا ٱللَّهَ'' ''تم اللہ کے ماسوا کسی کی عبادت مت کرو۔''

﴿ٱعْبُدُوا ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُ‌هُ...﴿٥٩﴾...سورۃ الاعراف
''تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔''

بعض مشرک ایسے تھے جو فرشتوں کو پکارتے تھے او رمصائب و شدائد کے موقعہ پر ان سے درخواستیں کرتے تھے ، کچھ پتھروں کے پجاری تھے اور دُکھ درد کے موقعہ پر ان کو پکارتے تھے۔ اندریں حالات اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کومبعوث فرمایا تاکہ ان کو ایک اللہ کی دعوت دیں اور یہ کہ صرف اُسی کی عبادت کریں جیسے ربوبیت میں ، یعنی زمین و آسمان کا رب ہونے میں اسی کا اقرار کرتے تھے۔ اسی طرح کلمہ ''لا إله إلا اللہ'' میں اسے خالص کریں اس کے معانی پر اعتقاد رکھتے ہوئے اس کے مقتضیات کے مطابق عمل کریں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو مت پکاریں ۔

چنانچہ فرمایا:
﴿لَهُۥ دَعْوَةُ ٱلْحَقِّ ۖ وَٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَىْءٍ...... الایة'' (الرعد:14)
''اللہ کو پکارنا تو برحق ہے لیکن جو لوگ اس کے سوا اوروں کو پکارتے ہیں تو وہ ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتے۔''

﴿وَعَلَى ٱللَّهِ فَتَوَكَّلُوٓاإِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٣...سورۃ الاعراف
''اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر بھروسہ کرو۔''

یعنی ایمان باللہ کی تصدیق کی شرط یہ ہے کہ اس کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کیا جائے اور توکل صرف اسی ذات اقدس پر کیا جائے کہ دعا اور استغفار اللہ کے لیے خالص ہیں ۔ اللہ نے اپنے بندوں کو حکم فرمایا کہ وہ یوں کہیں : ''إِيَّاكَ نَعْبُدُ'' ''ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں ۔'' اس کلمہ کے قائل کی تصدیق اس وقت ہوگی جب وہ اپنی تمام عبادت اللہ کے لیے خاص کرے، ورنہ وہ اپنے بیان میں جھوٹا ہوگا اور اسے ایسا کلمہ کہنے کی اجاست نہ ہوگی۔ کیونکہ اس کے معانی یہ ہیں کہ ہم تجھ کو عبادت میں خاص کرتے ہیں ۔ اللہ کے ارشاد ﴿فَإِيَّـٰىَ فَٱعْبُدُونِ ﴿٥٦...سورۃ العنکبوت'' اور ﴿وَإِيَّـٰىَ فَٱتَّقُونِ ﴿٤١...سورۃ البقرۃ'' یعنی میری ہی عبادت کرو اور صرف مجھی سے ڈرو۔'' کا یہی مطلب ہے جیسا کہ علم بیان سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو او رغیر اللہ سے مت ڈرو جیسے کشاف میں مذکور ہے تو اس کی توحید عبادت کی تکمیل اس وقت ہوگی جبکہ دُکھ سُکھ میں ہر قسم کے نداء اور دُعاء اللہ کے لیے ہو۔ یعنی صرف اللہ سے مدد طلب کی جائے، اسی سے پناہ حاصل کی جائے، اسی کی نذر مانی جائے او راسی کے نام کی قربانی دی جائے عبادت کی تمام اقسام خضوع و خشوع، قیام، اللہ کے سامنے عاجزی کا اظہار، رکرع، سجود، طواف، حلق و تقصیر وغیرہ، تمام امور اللہ کے لیے کئے جائیں ۔جو شخص ان امور میں سے کوئی امر اللہ کی مخلوق کے لیے کرتا ہے ، خواہ وہ زندہ ہو یا مُردہ یا جمادات وغیرہ ہو تو ایسا شخص شرک فی العبادت کا ارتکاب کرتاہے۔جس کے لیے وہ یہ کام کرے گا وہ اس کا الٰہ مقصود ہوگا او روہ اس کا عبادت کنندہ شمار ہوگا خواہ وہ فرشتہ ہو یا نبی، کوئی ولی ہو یا کوئی درخت یا قبر ہو، زندہ ہو یا مُردہ۔ تو اس عبادت سے یا اس قسم کی دیگر عبادات سے اس کا عبادت کنندہ شمار ہوگا، خواہ وہ زبان سے اللہ کی ذات کا اقرار کرے او راس کی عبادت کرے۔کیونکہ مشرکوں کا اللہ کا اقرار کرنا او ران کے ذریعے اسی کا قرب حاصل کرنا انہیں مشرک ہونے سے خارج نہیں کرسکتا او ران کے خون بہانے او ران کے بچوں کو قید کرنے او ران کا مال لوٹنے سے بچا نہیں سکتا۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
''أناأغنی الشرکاء عن الشرك''
''میرے جو شریک بنائے جاتے ہیں ، میں اُن کے شریک سے بیزار ہوں اور بے احتیاج ہوں ۔''

اللہ تعالیٰ ایسا کوئی عمل قبول نہیں فرماتےجس میں شرک کی آمیزش ہو تو جو شصا اللہ کی عبادت کے ساتھ غیر کی عبادت کرتاہے تو وہ درحقیقت اللہ کی ذات پر ایمان ہی نہیں لایا۔

توحید عبادت کے بغیر توحید ربوبیت بے سُود ہے:
جب یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ گئی کہ مشرک لوگ اللہ کا اقرار کرتے ہیں تو وہ ان کے لیے سود مند نہیں کیونکہ وہ اللہ کی عبادت میں شرک کرتے ہیں اور ان کی یہ عبادت اللہ ک ےہان ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔ وہ ان کی عبادت یوں کرتے ہیں کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بت وغیرہ ان کو نفع و نقصان پہنچانے پر قادر ہیں او ران کے ذریعے ان کو اللہ کا قرب حاصل ہوتاہے اور یہ اللہ کے ہاں اُن کی سفارش کرتے ہیں ۔ بناءبریں ان کے لیے قربانیاں کرتے ہیں ، ان کے آثار کے گرد طواف کرتے ہیں ، وہاں پر نذریں پوری کرتے ہیں ۔ ان کیخدمت میں دست بستہ عاجزی اور انکسار سے کھڑے ہوتے ہیں او ران کو سجدہ کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی ربوبیت اور خالقیت کا اقرار کرتے اور کہتے ہیں اللہ ہمارا خالق اور پروردگار ہے۔ لیکن جب انہوں نے اس کی عبادت میں شریک کیا تو اللہ نے ان کو مشرک قرار دیا او ران کا ربوبیت اور خالقیت کا اقرار کسی کام نہ آیا کیونکہ ان کا یہ فعل اس اقرار کے منافی ہے۔ بناء بریں صرف توحید ربوبیت کا قائل ہے اسے عبادت میں بھی اللہ کو منفرد تسلیم کرنا چاہیے۔ اگر اس کا اقرار نہیں کرے گا تو اس کا پہلا اقرار بے سُود ہوگا۔ یہ لوگ جب عذاب الٰہی میں گرفتار ہوں گے تو خود اقرار کریں گے۔

﴿تَٱللَّهِ إِن كُنَّا لَفِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ ﴿٩٧﴾ إِذْ نُسَوِّيكُم بِرَ‌بِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ﴿٩٨...سورۃ الشوری ''(وہ اپنے معبودوں سے مخاطب ہوکر کہیں گے)بخدا! جب ہم نے تم کورب العالمین کی ذات کے برابر تصور کیا تو اس وقت ہم واضح گمراہی میں تھے۔''

حالانکہ وہ ان کو تمام وجوہ سے اللہ کے برابر نہیں سمجھتے تھے نہ اجن کو رازق مانتے تھے او رنہ اُن کو خالق تصور کرتے تھے لیکن جہنم کے گڑھے میں گرنے کے بعد اُن کو معلوم ہوگا کہ ہم توحید عبادت میں شرک کی ملاوٹ کے باعث جہنم کاایندھن بن گئے اور اس کی وجہ سے اللہ نے ان سے ایسا سلوک کیا جیسا کہ بتوں کو خدا کے برابر سمجھنے والے کے ساتھ کیا۔ چنانچہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُ‌هُم بِٱللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِ‌كُونَ ﴿١٠٦...سورۃ یوسف
''ان میں سے اکثر لوگ، جو اللہ کا اقرار کرتے ہیں (یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے ان کو پیدا کیا اور زمین و آسمان کا خالق بھی وہی ہے ، اس کے باوجود) مشرک ہیں (کیونکہ وہ بتوں کی پوجا کرتے ہیں )''

بلکہ اللہ نے اپنی اطاعت میں ریار کاری کو بھی شرک سے تعبیر فرمایا۔ حالانکہ ریا کار اللہ کا بندہ ہے کسی او رکا نہیں مگر اس نے اپنی عبادت کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اپنا مرتبہ حاصل کرنا چاہا۔بنا ء بریں اس کی عبادت درجہ قبولیت حاصل نہیں کرسکتی اور اسے شرک سے تعبیر کیا گیا ہے جیساکہ مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں مذکور ہے کہ رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
''أنا أغنی الشرکآء عن الشرك من عمل عملا أشرك فيه معي غیري ترکته و شركه'' 1
''میں کسی شریک کا محتاج نہیں ۔جس شخص نے ایسا عمل کیا کہ اس میں میرے ساتھ کسی غیر کو شریک کیا تو میں اس کی او راس کے شرکیہ عمل کی پرواہ نہیں کرتا یعنی اس کاعمل قبول نہیں کرتا۔''

اللہ تعالیٰ نے عبدالحارث نام رکھنے کو شرک سے تعبیر فرمایا، چنانچہ ارشاد ہوا:
﴿فَلَمَّآ ءَاتَىٰهُمَا صَـٰلِحًا جَعَلَا لَهُۥ شُرَ‌كَآءَ فِيمَآ ءَاتَىٰهُمَا...﴿١٩٠﴾...سورۃ الاعراف
کہ '' جب اللہ نے حضرت آدم او رحضرت حوّا کو لڑکا عطا کیا تو انہوں نے اس میں شرک کیا۔ یعنی لڑکے کا نام عبدالحارث رکھا۔''

چنانچہ امام احمد او رامام ترمذی نے حضرت سمرہؓ کی روایت سے بیان کیا ہے ، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت حوا کا کوئی بیٹا زندہ نہیں رہتا تھا۔ جب وہ حاملہ ہوتیں تو شیطان اُن کے پاس آیا او رکہنے لگا کہ تم جب تک اس کا نام عبدالحارث نہیں رکھو گے اس وقت تک تمہارا کوئی بچہ زندہ نہیں رہے گا۔ چنانچہ انہوں نے شیطان کی بات مان کر بچے کا نام عبدالحارث رکھا۔یہ شیطانی امر تھا جسے انہوں نے مان لیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا نام رکھنے کو شرک سے تعبیر فرمایا کیونکہ ابلیس کا نام حارث ہے اور عبدالحارث کے معنی ''شیطان کا بندہ'' ہوا۔

یہ واقعہ دّر منثور وغیرہ کتب میں مذکور ہے۔

غیر اللہ کو نفع و نقصان پر قادر سمجھنا شرک ہے:
اس تمام بحث سے آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ جو شخص کسی درخت، پتھر، قبر، فرشتہ او رجن وغیرہ زندہ یا مُردہ کے متعلق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اس کو نفع پہنچانے پر قادر ہے او راس کا نقصان بھی کرسکتا ہے ، وہ اسے اللہ کے قریب کرتاہے یا اس کے ہاں اس کی کسی دنیوی حاجت کی سفارش کرتاہے او رصر ف اس کی سفارش سے اللہ کام کرتاہے اور وہ اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بنتے ہیں تو ایسا آدمی اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اور اس کا یہ عقیدہ مشرکانہ ہے جیسے مشرک لوگ بتوں کے متعلق یہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اسی طرح جو شخص کسی مردہ یا زندہ کے لیے اپنے مال یا اولاد کی نذر مانتا ہے یا ا س سے ایسی چیز طلب کرتا ہے جو غیر اللہ سے طلب کرنا جائز نہیں ۔ جیسے کسی بیمار کی صحت کے لیے یا کسی غائب کے حاضر ہونے کے متعلق یا کسی مطلب براری کی خاطر، تو یہ سراسر شرک ہے۔بتوں کی پوجا کرنے والے اسی شرک میں مبتلا تھے۔

قبر پر قربانی کا حکم:
کسی میت پر مال کی نذر ماننا اور قبر پر قربانی کرنا، اس سے وسیلہ پکڑنا او راس سے حاجت روائی کا سوال کرنا، یہ سب وہی کام ہیں جو دور جاہلیت میں مشرک کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ان کا نام ''وثن'' اور ''صنم'' رکھا ہوا تھا۔لیکن آج اہل قبور ان کو ولی تصور کرتے ہیں او ران کی قبروں کو مزارات سے تعبیر کرتے ہیں ۔حالانکہ نام تبدیل کرنے سے کسی شے کی ماہیت او رحقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اور نہ اس کے لغوی ، عقلی اور شرعی معانی میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ کیونکہ جو شخص شراب پیتا ہے اور اسے پانی سے تعبیر کرتاہے تو وہ حقیقتاً شراب ہی پیتا ہے او راس کا عذاب شراب خور سے کم نہیں ہوگا، بلکہ ممکن ہے اس کے عذاب میں اضافہ ہو، کیونکہ اس نے نام تبدیل کرکے دھوکا، فریب اور جھوٹ سے کام بھی لیا ہے۔

کسی شے کا نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی!
احادیث میں مذکور ہے کہ ایک ایسی قوم آئے گی جو شراب پئیں گے او را س کا نام تبدیل کردیں گے۔ چنانچہ آج فاسقوں کا ایک گروہ ایسا ہے جو شراب کا عادی ہے لیکن اسے نبیذ کے نام سے تعبیر کرتاہے۔ سب سے پہلا شخص ، جس نے سامعین کوخوش کرنے کے لیے ایسا نام تبدیل کیا، جو اللہ کی ناراضگی کا موجب ہوا، شیطان تھا۔ اس نے حضرت آدمؑ سے کہا:
﴿يَـٰٓـَٔادَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ شَجَرَ‌ةِ ٱلْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَىٰ ﴿١٢٠...سورۃ طہ
''اے آدم، آؤ میں تمہیں ایک ایسا درخت بتاؤں جس کا پھل کھانے ابدی اور دائمی زندگی ملتی ہے او رایسا ملک ملتا ہے جسے کبھی زوال نہیں آئے گا۔''

تو اس نے اس درخت کا نام ، جس کے پاس آنے سے اللہ تعالیٰ نے روکا تھا، ''شجرة الخلد'' رکھا، تاکہ اس کی طبیعت کو اس نام کے ساتھ، جو اس نے اختراع کیا تھا، مائل کرسکے او راس کو دھوکا اور فریب دینے او راس کے دل میں تحریک پیدا کرنے کے لیے اس نے اسے ایجاد کیا جیسے اس کے دیگر بھائی جو بھنگی او رپوستی ہیں ، بھنگ کو فرحت اور سرور کا گھونٹ کہتے ہیں ، جیسے جوروجفا کے خوگر جو لوگوں کے مال پر ظلم و زیادتی سے قبضہ کرتے ہیں ، اس کا نام ادب رکھتے ہیں ، وہ کسی کا نام قتل کا ادب ، کسی کا چوری کا ادب او رکسی کا نام تہمت کا ادب رکھتے ہیں ۔ وہ ظلم کو ادب سے تعبیر کرتے ہیں جیسے بعض لوگ مقبوضہ مال کو نفع سے تعبیرکرتے ہیں ، بعض اسے کمیشن کہتے ہیں اور بعض اسے ناپنے اور تولنے کا ادب کہتے ہیں ۔ لیکن یہ تمام امور اللہ کے نزدیک ظلم و زیادتی ہیں ۔ جیسا کہ کتاب و سنت سے معمولی سی واقفیت رکھنے والا مسلمان جانتا ہے کہ یہ تمام باتیں ابلیس نے ان کو سکھلائی ہیں ۔ جس نے ''شجرة ممنوعة'' کو ''شجر الخلد'' سے تعبیر کیا تھا۔

مزار،صنم اور وثن کا دوسرا نام ہے:
اسی طرح کسی کی قبر کو مشہد یا مزار کہنے اور قبر کے مردہ کو ولی تصور کرنے سے اسے صنم اور وثن کے حکم سے خارج نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ وہ ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتے ہیں جیسا کہ مشرک لوگ بتوں کے ساتھ کیا کرتے تھے ۔ وہ ان کے گرد یوں طواف کرتے ہیں ۔ جیسے حاجی لوگ بیت اللہ کے گرد طواف کرتے ہیں او راسے یوں بوسہ دیتے ہیں جیسے وہ ارکان بیت اللہ کو بوسہ دیتے ہیں او رمیت کوایسے کلمات سے مخاطب کرتے ہیں جو کفریہ ہوتے ہیں ۔مثلاً وہ کہتے ہیں کہ ''یہ کا م کرنا تیرے او راللہ کے ذمے ہے۔'' جب کسی مصیبت کے بھنور میں پھنس جاتے ہیں تو ان کا نام لے کر پکارتے ہیں او رہرملک کے لوگوں کے لیے کوئی نہ کوئی ایسا آدمی ہوتا ہے جسے وہ پکارتے ہیں ۔چنانچہ اہل عراق او راہل ہند شیخ عبدالقادر جیلانی کو پکارتے ہیں او راہل تہامہ کے لیے ہر شہر میں ایک ایک میت ہے جسے وہ پکارتے ہیں ۔ وہ ''یا زیلعی'' اور ''یا ابن العجیل'' وغیرہ کے نعرے لگاتے ہیں ۔ اہل مکہ او راہل طائف ابن عباس کو پکارتے تھے۔اہل مصر ''یا رفاعی'' اور ''یا بدوی'' کا نعرہ لگاتے تھے۔اہل جبال ''یا اباطیر'' او راہل یمن ''یا ابن علوان'' کا نعرہ لگاتے تھے۔

چنانچہ ہر شہر میں کوئی نہ کوئی ایسا مُردہ ہوتا ہے جسے وہ پکارتے ہیں ، اس سے فریاد رسی کی درخواست کرتے او ران سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کی تکلیف کو رفع کریں گے او رانہیں راحت و سکون پہنچائیں گے۔ ان لوگوں کے کام بعینہ ان مشرکوں جیسے ہیں جو وہ بتوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔

مزارات پر اللہ کے نام کی قربانی:
اگر کوئی یہ کہے کہ میں نے اسے اللہ کے لیے قربانی دی ہے او راس پر اسی کا نام لیا ہے تو آپ ان سے دریافت کیجئے کہ اگر تم نے اللہ کے نام پر قربانی دی ہے تو پھر تم نے اپنی قربانی باب مشہد کے پاس لے جاکر او روہاں پر ذبح کرنے کو افضل سمجھ کر کیوں قربانی دی؟ کیا ا سسے تمہارا مدعا اس کی تعظیم کرنا تھا؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو تمہاری یہ قربانی غیر اللہ کے نام پر ہوگئی بلکہ تم نے غیر اللہ کو، اللہ کا شریک بنا دیا ۔ اگر آپ کا ارادہ اس کی تعظیم کرنا نہیں ہے تو کیا آپ باب مشہد کو گندگی اور نجاست سے آلودہ کرنا چاہتے ہیں ، کیونکہ وہاں پر لوگ جمع ہوں گے او ران سے گندگی اور نجاست پھیلے گی۔ آپ خود جانتے ہیں کہ آپ کا یہ ارادہ ہرگز نہیں ، بلکہ آپ کی مراد پہلے معانی ہیں پھر اسی طرح ان کا اس کو پکارنا بھی ہے۔ یہ ایسے امور ہیں جن کے شرک ہونے میں ذرہ بھر شائبہ نہیں ۔

فاسقوں کے متعلق دستگیری کا عقیدہ:
کچھ لوگ بعض زندہ فاسق و فاجر لوگوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مصائب و شدائد کے موقعہ پر وہ ان کی دستگیری کرتے ہیں ۔چنانچہ امن و سکون کا زمانہ ہو یا کرب و بلا کا دور، وہ ان فاسقوں اور فاجروں کو پکارتے رہتے ہیں ۔ حالانکہ وہ افعال شنیعہ او رامور قبیحہ کے مرتکب ہوتے ہیں ۔جہاں اللہ نے ان کو حاضر ہونے کا حکم فرمایا ہے وہاں حاضر نہیں ہوتے۔ جمعہ اور نماز باجماعت میں کبھی حاضر نہیں ہوتے۔ وہ کسی بیمار کی عیادت کرتے ہیں نہ کسی کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں ۔ اکل حلال کی کبھی تلاش نہیں کرتے۔ وہ اپنے آپ کو متوکل کہتے ہیں اور علم غیب کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ ابلیس ان کے پاس اپنی ایک جماعت بھیجتا ہے جو ان کے دلوں پر پوری طرح چھا جاتے ہیں ۔ وہ ان کے نعروں کی تصدیق کرتے ہیں او روہ ان کی تعظیم کرتے ہیں ، او ران کو رب العالمین کے شریک ٹھہراتے ہیں ۔ افسوس ان کی عقل کہاں گئی، ان کی شریعت کہاں گئی کہ ان کو اتنا بھی علم نہیں کہ اللہ کو چھوڑ کر جن کو یہ پکارتے ہیں وہ ان کی مثل بندے ہیں ۔......... (جاری ہے)


حوالہ جات
1. مشکوٰة، ص454