کُلُ بِدعَۃ ضَلَالَۃ

دین سے متعلقہ ہر وہ کام جس کا سبب زمانہ رسولؐ میں موجود تھا ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے خود کیا اور نہ امت کو اس کے کرنے کا حکم دیا او رجس کی علامت یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جسے درخور اعتنا نہ جانا او رتابعین عظام رحمہم اللہ تعالیٰ کے دور میں بھی اس کا کچھ اتہ پتہ نہیں ملتا، بدعت کہلاتا ہے۔کیونکہ یہ تین زمانے خیر القرون میں شمار ہوتے ہیں۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''خیر القرون قرني ثم الذین یلونهم ثم الذین یلونهم'' 1
''کہ تمام ادوار سے بہتر میرا یہ دور (رسالت) ہے، پھر وہ لوگ جو اس کے قریب تر ہوں اور پھر وہ لوگ جو اُن کے قریب تر ہوں۔''

رسول اللہ ﷺ نے بدعت کی تعریف و وعید یوں بیان فرمائی ہے:
''إن شرالأمور محدثا تها وکل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة و کل ضلالة في النار'' 2
''کہ بدترین کام وہ ہیں جو دین میں نئے داخل کیے جائیں۔ ایسا ہر کام بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے او رہر بدعت جہنم میں جھونکی جائے گی۔''

نیز اس کے ردّ میں فرمایا:
''من أحدث في أمرنا ھذا مالیس منه فھورد'' 3
''کہ جس نے ہمارے (دینی) امور میں کوئی نیا شوشہ چھوڑا، جسکو (ظاہر ہے) دین سے کوئی تعلق نہیں، ایسا کام مردود ہے!''

اور کیوں نہ ہو، کسی بدعت کا بانی یا اس پر عمل پیرا گویا عملی طور پر یہ دعوٰے کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی بات امت سے چھپائی یا آپؐ نے دین سارے کا سارا امت تک نہیں پہنچایا۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مشہور خطبہ حجة الوداع میں کم و بیش ڈیڑھ لاکھ صحابہ کرامؓ سےمخاطب ہوکر فرمایا تھا:
''وأنتم تسألون عني فما أنتم قائلون؟''
''کہ تم سے (روز قیامت) میرے بارے میں (تبلیغ دین سے متعلق) سوال ہوگا تو تم کیا جواب دوگے؟''

تو تمام صحابہ کرامؓ نے بیک زبان فرمایا تھا:
''نشهد أنك قد بلغت رسالات ربك و أدیت و نصحت''
''کہ اے اللہ کے رسولؐ، ہم گواہی دیں گے، آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے تمام پیغامات (ہم تک )پہنچا دیئے، حق ادا کردیا او رامت کی پوری پوری خیرخواہی فرما دی۔''

اس پر آپؐ نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے او رپھر اُسے لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے فرمایا:
''اللھم اشھد ۔۔۔۔۔ اللھم اشھد!''
''کہ اے اللہ، اس بات پرگواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا''

پھر اسی حجة الوداع کے موقع پر اس آیہ مبارکہ کا نزول آپؐ کی اس ادائے نصیحت اور ابلاغ دین پر مہر تصدیق ہے کہ:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَ‌ضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا...﴿٣﴾...سورۃ المائدہ
''(لوگو!) آج کے دن میں نے تمہارے دین کو مکمل کردیا (کہ اس میں کمی بیشی کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں) اپنی نعمتوں کا اتمام کردیا وار تمہارے لیے میں نے دین اسلام کو پسند فرما لیا ہے۔''

مزید برآں رسول اللہ ﷺ نے نہایت واضح الفاظ میں فرمایا:
''ماترکت شیئا یقربکم إلی اللہ ألا وقد أمرتکم به وما ترکت شیئا تبعدکم من اللہ و یقربکم إلی النار ألا وقد نھیتکم عنه!''
''کہ میں نے کوئی ایسی بات نہیں چھوڑی جو تمہیں اللہ کے قریب کرسکتی ہو، مگر میں تمہیں اس کا حکم دے چکا ہوں اور میں نے کوئی ایسی بات بھی ترک نہیں کی جو تمہیں اللہ سے دور کردے او رجہنم سے قریب کردے، مگر میں نے تمہیں اس سے منع بھی کردیا ہے۔''

پیارے رسولﷺ کے تیئس سالہ دور نبوت کے شب و روز کا ہر لمحہ گواہ ہے کہ آپؐ نے تبلیغ دین کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، کوئی پہلو تشنہ تکمیل نہیں چھوڑا اور اس سلسلہ میں کوئی دقیقہ آپؐ نے اٹھا نہیں رکھا۔ حدیث رسول اللہ ﷺ کے آئینہ میں آج بھی وہ منظر ہمارے سامنے ہے۔ جب آپؐ کے لخت جگر حضرت ابراہیمؓ آپ کی گود مبارک میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کرچکے ہیں، آپؐ کی آنکھون سے آنسو رواں ہیں اور زبان مبارک پر یہ الفاظ کہ:
''إن العین تدمع والقلب یحزن ولا نقول ما یسخط الرب''
''یعنی آنکھیں اشکبار ہیں اور دل غم سے لبریز ، تاہم اپنی زبان (مبارک) سے ہم ایسی کوئی بات نہیں نکالیں گے جو ہمارے رب کی ناراضگی کا باعث بنے۔''

غور فرمائیے! جس معلّم انسانیتﷺ نے اپنے پیارے بیٹے کی جدائی پر، اس حزن و اضطراب کے عالم میں بھی تبلیغ دین کا یہ نقطہ نظر انداز نہیں فرمایا کہ ایسے موقعوں پر کوئی انسان اگرچہ غمزدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور آنکھوں پربھی کس کا بس چلتا ہے، تاہم واویلا، چیخ پکار او رایسے الفاظ منہ سے نکالنا جو بے صبری کے غماز ہوں، کسی طرح بھی روا او رمناسب نہیں! ایسے ہادئ کاملؐ کے متعلق یہ سوچنا کہ اس نے دین کی بعض باتیں تو ہم تک پہنچا دیں اور بعض کو آپؐ گول کرگئے ، جبکہ بدعات کا مرتکب یا کسی ایسے کام کو دین سمجھنے والا، جس کو آپؐ نے نہ خود کیا، نہ دوسروں کو اس کا حکم فرمایا، گویا اپنے طرز عمل سے آپؐ پر یہی الزام لگاتا اور اللہ رب العزت کے کلام مجید کو بھی، کہ جس نے تکمیل دین کی خوشخبری ہمیں سنائی ہے، جھٹلاتا ہے۔ تو پھر ایسا کام مردود کیوں نہ ہوگا؟ بدعت کیوں نہ کہلائے گا؟ بدعت ضلالت سے کیونکر تعبیر نہ ہوگی اور ایسی ضلالت کاٹھکانا جہنم نہیں تو او رکیا ہوگا؟

اور دین میں کسی نئے کام کو رواج دینے والا گویا یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ رسول اللہﷺ (کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) تو اس نیکی کے حصول سے محروم رہے مگر وہ اس سے باسعادت ہوا۔ حالانکہ ایک مسلمان کا یہ ایمان ہونا چاہیے کہ کوئی نیکی ایسی نہیں جسے رسول اکرمﷺ نے اختیار نہیں فرمایا اور اسی طرح کوئی بُرائی ایسی نہیں جس سے آپؐ نے اجتناب نہ فرمایا ہو۔ پس ظاہر ہے، یہ دعویٰ بھی کہ جس نیکی کی سعادت سے آپؐ تو محروم رہے لیکن یہ اس امتی کے حصہ میں آگئی، اس قدر گستاخی پر مبنی ہے کہ اس کی سزا بھی جہنم ہی ہوسکتی ہے۔

اور کسی ایسے کلام کو، جسے رسول اللہﷺ کے قول وفعل سے مشروعیت حاصل نہیں، دین کا حصہ سمجھنا گویا یہ دعویٰ کرنے کے مترادف بھی ہے کہ شارع اللہ رب العزت نہیں، بلکہ وہ شخص ہے جس نے دین میں اس نئے کام کو داخل کیا ہے، بالخصوص اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے دین پورے کا پورا ہم تک پہنچا دیا، اللہ رب العزت نے اس کی تصدیق فرما دی اور ہر وہ کام جس کو آپؐ نے خود کیا یا دوسروں کو اس کے کرنے کا حکم دیا، شریعت ہے۔

﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ﴿٣﴾ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ﴿٤﴾ النجم

اور ظاہر ہے، اللہ رب العزت کی بجائے خود شارع ہونے کا دعوےٰ کرنا بھی جہنم رسید کرنے کے لیے کافی ہے۔

پھر یہ بات اس گستاخی پر بھی مبنی ہے کہ گویا جوبات اللہ رب العزت کو نہ سوجھی، رسول اللہﷺ کی سمجھ میں نہ آئی، صحابہ کرامؓ اس کو پانے میں ناکام رہے (العیاذ باللہ) یہ سوجھی تو اُسے، جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ اللہ ذوالجلال نے احکام رسول اللہ سے اختلاف رکھنے والوں کے لیے کیا سزا مقرر فرمائی ہے۔
فَلْيَحْذَرِ‌ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِ‌هِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣...سورۃ النور
''کہ ان لوگوں کو ، جو رسول اللہ ﷺ کے احکام کی مخالفت کرتے ہیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ان کے کرتوتوں کی بناء پر ان کوکوئی فتنہ یا (اللہ رب العزت کی طرف سے) کوئی دردناک عذاب اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔''

نیز فرمایا:
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّ‌سُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ‌ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرً‌ا ﴿١١٥...سورۃ النساء
''کہ جس نے رسول اللہﷺ سے مخالفت کی ٹھانی، اس کے باوجود کہ ہدایت کی تبیین اس کے لیے ہوچکی او روہ مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی او رہی راہ پر نکل کھڑا ہوا، ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے جس طرف کا وہ رُخ کرچکا ہے اور (بات یہیں تک محدود نہ رہے گی بلکہ) ہم اسے جہنم میں(بھی )داخل کریں گے جو کہ بہت ہی بُری جگہ ہے۔''

پس کتاب و سنت کی ان نصوص صریحہ کے باوجود، اے وہ لوگ کہ عید میلادالنبیؐ کو دین کا ایک حصہ سمجھ کر اس تقریب کو منانے کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہو، کیا تم نے کبھی یہ سوچا کہ دانستہ یا دانستہ رسول عربیﷺ کی ذات گرامی پر تم یہ الزام عائد کررہے ہو کہ دین کی یہ بات آپؐ نے امت سے چھپائی تھی یا دین پورے کا پورا ہم تک نہیں پہنچایا۔ کیا عشق و محبت رسولؐ کا یہی تقاضا او ریہی انداز ہیں؟ کیا تم کل کو روز محشر خدا تعالیٰ کے سامنے بھی یہی بات کہو گے کہ آپؐ نے معاذ اللہ دین کو ہم تک پہنچانے میں بخل سے کام لیا اور ایک بہت بڑی نیکی کے حصول سے ہمیں محروم رکھنے کی کوشش کی لیکن ہم نے بالآخر اسے تلاش کر ہی لیا او راس سعادت سے سعادت مند ہونے کا حق ادا کردیا اور کیا تم اس روز (العیاذ باللہ) اللہ رب العزت کوبھی جھٹلانے کی جرات کرو گے کہ ''اے اللہ، تکمیل دین او راتمام نعمت کی وہ بات غلط تھی جو دنیا میں اپنے رسولؐ کے ذریعے تو نے ہم تک پہنچائی تھی،لہٰذا ہمیں نہ تیرے قرآن پر اعتماد تھا نہ تیرے رسولؐ پر، یہی وجہ تھی کہ ہم نے بڑی جرأت سے کام لے کر اس نیکی کو، جسے تو نے اور تیرے رسولؐ نے امت مسلمہ کی نظروں سے مخفی رکھا تھا، دنیا والوں کو اس سے روشناس کرایا کہ تیرے رسول کی محبت کا یہی تقاضا او رتجھ پر ایمان لانے کا بھی یہی مقصود تھا اور جس کے سامنے دیگر تمام عبادات بھی ہیچ تھیں، یہی وجہ تھی کہ ان تقریبات کے لیے ہم نے ان لوگوں کو بھرتی کیا جن کو نماز روزہ سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا، لیکن سینما ہال او رتھیٹروں ، کلبوں کے تربیت یافتہ یہ نونہالان قوم ان تقریبات میں خوب خوب رنگ بھر سکتے تھے او راے رب ذوالجلال، ہم نے اس انداز عشق و محبت سے انکار کرنے والوں کوبھی معاف نہیں کیا او ران کو گالیاں تک دے ڈالیں کہ دعوےٰ توامت محمدیہ میں سے ہونے کا کرتے تھے لیکن ان سے یہ تک نہ ہوسکا کہ اپنے نبیؐ کا یوم ولادت ہی منا سکیں۔ یہی وجہ تھی کہ اے الٰہ العالمین، ہم نے مساجد میں کھڑے ہوکر علی الاعلان رسولؐ اللہ کے ان ''انکاریوں'' پر کفر کے فتوےٰ لگائے، انہیں گستاخ رسول قرار دیا، رسول اللہؐ کے دشمن گردانا کہ انہیں رسول اللہ ؐ کی ولادت پر کوئی مسرت نہ ہوئی تھی۔ بس انہیں مطلب تھا تو تیرے رسولؐ کی بعثت سے، جس کا احسان اگرچہ تو نے بھی اپنے کلام مبارک میں جتلایا ہے۔ (لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَ‌سُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١٦٤...سورہ آل عمران) لیکن جس سے ہمیں کوئی سروکار نہ تھا۔ چنانچہ ان لوگوں کو امتیاز کے طور پر ہم نے ''وہابی'' کے خطاب سے نوازا کہ یہ جہاں بھی جاتے تھے ''اللہ، اللہ کی صدائیں بلند کیا کرتے تھے او ریہ اس لیے، تاکہ لوگ ان سے خبرداررہ کر ان کے قریب تک نہ پھٹلیں ۔ ہم نے لوگوں پر یہ بات واضح کردی تھی کہ یہ لوگ حدیث رسول اللہ ﷺ بیان کریں، خواہ قرآن پڑھیں ، ان پر اعتماد نہ کرنا۔ لہٰذا تم اس وقت ڈھول پیٹا کرو، ریکارڈنگ سے ان کی سمع خراشی کرو، ان کو جلانے او رکڑھانے کے لیے جلوس نکالا کرو، اگریہ اس پراعتراض کریں تو تم ان لغویات میں مزید رنگ بھرو، میلاد النبیؐ کے جلوسوں میں اونٹوں کی قطاریں لگا دو کہ ان جانوروں کو سرزمین عرب سے خصوصی نسبت حاصل ہے۔ اس پر معترض ہوں تو بیلوں کی قطاریں کھڑی کردو، پھربھی باز نہ آئیں تو ان بیلوں کوچھکڑوں کے ساتھ باندھ دو اور لائنیں جمادو، اس پر بھی اعتراض کریں تو ان چھکڑوں پر بندروں کو سوار کردو اور گراموفون سے وہ طوفان بدتمیزی مچاؤ کہ الامان والحفیظ۔ اور اگر اب بھی کہیں سے ''أمربالمعروف او رنهي عن المنکر'' کی آواز سناوی دے تو بیلوں اور اونٹوں کو چاندی کے اوراق سے ڈھک دو، رنگ بھرنگی جھنڈیاں لگاؤ، چراغاں کرو، دوکانون کو، مکانوں کو، بازاروں کو، منڈیوں کو سجا ڈالو، اپنے پیارے رسولؐ کی ولادت کی خوشی میں اسراف و تبذیر کا بازار اس قدر گرم کرو کہ اللہ کے قرآن کی اس آیت ''إن المبذرين كانوا إخوان الشياطين'' کا اصل مفہوم ان لوگوں پر واضح ہوجائے تاکہ دیکھنے والے دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھیں کہ دیکھو، یہ ہیں رسول اللہﷺ کے چہیتے، شمع رسالت کے پروانے، عاشق صادق، جنہیں رسول اللہ ﷺ کی ولادت کی خوشی میں اپنے آپ کا بھی ہوش نہیں رہا (کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم!) قرآن تک کو پیچھے چھوڑ گئے، رسول اللہ ﷺ سے آگے نکل گئے، صحابہؓ کو مات کرگئے ، ائمہ کوبھول گئے، اور ! اور اس طرح اے خالق ارض و سماء، ہم نے تیرے سچے قرآن کی اس آیت کریمہ کی عملی تفسیر دنیا والوں کے سامنے پیش کردی۔
لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْ‌آنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ ﴿٢٦...سورۃ فصلت
''کہ (رسول اللہؐ کے ان انکاریوں سے) قرآن مت سنو، لغویات کا سہارا ڈھونڈو، شائد اسی طرح تم (ان ''مخالفین'' رسول اللہ) پر غالب آجاؤ'' العیاذ باللہ

مندرجہ بالا پیرا گراف لکھ کر ہم نے کوئی زیادتی نہیں کی، کہ واقعات کی سچی تصویر یہی ہے، حقائق اتنے ہی تلخ ہیں او راس کے نتائج بھی وہی ہیں جو ہم نے ذکر کیے ہیں۔ لہٰذا ان حرکتوں پر، کہ ہر سال ربیع الاوّل کے مہینے میں جن کو تم مرتکب ہوتے ہو، تمہیں کوئی شرمساری نہیں بلکہ فخر ہے تو اس کے نتائج بھگتنے کے لیے بھی تمہیں تیار رہنا چاہیے۔ اور اگر یہ صورت حال تمہارے لیے واقعی پریشان کن ہے تو ہمارا مقصود بھی ان حقائق کے ذکر سے تمہاری ہمدردی اور خیر خواہی ہے، کہ توحید کے نشتر سے بعات کے ان رستے ہوئے ناسوروں کو چھیڑ کر ان پر سنت رسولؐ کا طمانیت بخش مرہم رکھیں اور جب تم صحت یاب ہوکر اپنا سفر حیات نئے سرے سے شرو ع کرو تو اس راستہ کا انتخاب کرسکو جو جنت کی طرف جاتا ہے او را س سے اجتناب برتو جو سوئے جہنم چلا جاتا ہے او راگر تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ ولادت رسولؐ کی خوشیاں منانے کی سزا جہنم کیونکر ہوسکتی ہے کہ یہ تو خالص عشق و محبت کی داستان ہے، اگرہم مسجدوں او ربازاروں کو اس موقع پر سجا لیتے ہیں تو اس میں دین میں اضافہ کی بات کہاں سے درآئی؟ توہم یہ وضاحت کرنا چاہیں گے کہ رسول اللہ ﷺ سے تعلق، دین سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ لہٰذا یہ یقیناً دین ہی میں اضافہ ہے او رنیکی کی بجائے بدعت کا اس سے بڑھ کر او رکیا ثبوت ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی نبوی حیثیت کے تئیس سال اس دنیا میں گزارے لیکن آپؐ نے اپنی عمر عزیز کے اس پورے دور میں اپنی ولادت کا دن یا سالگرہ منانے کا کبھی اہتمام نہیں فرمایا اور قرآن مجید میں یہ بات تنبیہ کے انداز میں فرمائی گئی ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ...﴿١﴾...سورۃ الحجرات
کہ ''اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسولؐ سے آگے نکلنے کی کوشش مت کرو؟''

مزید فرمایا:
لَا تَرْ‌فَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُ‌وا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ‌ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُ‌ونَ ﴿٢...سورۃ الحجرات
''کہ پیارے رسولؐ کی آواز سے اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش نہ کرو۔۔۔ مباداکہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں او رتمہیں اس کا احساس تک نہ ہوسکے۔''

رسول اللہ ﷺ اب اس دنیا میں موجود نہیں، مگر آپؐ کی سالت باقی ہے، تو پھر اس آیت کا مطلب یہی ہوگا کہ آپؐ کے فرامین، آپؐ کے بتائے ہوئے دین میں اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرنے کی کوشش مت کرو، کہ یہ بات تمہارے اعمال صالحہ کی بربادی کا موجب بھی بن سکتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے علاوہ اب آپؐ کے اہل بیت کو دیکھئے۔ ام المؤمنین خدیجة الکبریٰؓ، اُم المؤمنین عائشہ صدیقہؓ، اسی طرح دیگر تمام امہات المؤمنینؓ او ربنات النبیﷺ میں سے کسی نے بھی اس طرف توجہ مبذول نہیں فرمائی۔ صدیق اکبرؓ کا پورا دور خلافت، فاروق اعظمؓ کا زمانہ، عثمان غنیؓ اور علی مرتضیٰ ؓ کا پورا دور خلافت بھی ان تقریبات سے خالی نظر آتا ہے بلکہ تمام اصحاب کرامؓ اور تابعین عظام کے پورے دور حیات میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، نہ انہوں نے یوم میلاد کا اہتمام فرمایا، نہ اسی دن مشعلیں روشن کیں، تو کیا یہ لوگ معاذ اللہ، رسول اللہ ﷺ کی نبوی حیثیت سے ناآشنا ، حب رسولؐ سے محروم، بالکل ہی بے ذوق، ولادت رسول اللہﷺ کی خوشیوں کے انکاری، دین سے ناواقف اور اس کے تقاضوں اور دواعی سے بے خبر تھے کہ یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آسکی؟ یا کیا آپ عقیدت و محبت میں ان حضرات سے بھی آگے نکل گئے ہیں؟ کیا یہ بات بجائے خود بی ایک بہت بڑی گستاخی نہیں؟ پھر لطف یہ کہ ائمہ اربعہ میں سے بھی کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی، تو پھر تقلید ائمہ کے وہ فخریہ دعوے کیا ہوئے کہ جن کی بناء پر غیر مقلد ہونا ایک طعن او رگالی بن چکا ہے او رمقلد (نقال) ہونے کا ہمیں کوئی شوق بھی نہیں، لیکن خدارا یہ تو سوچو کہ اس صورت میں ائمہ کو ''نہ ماننے'' کا مرتکب کون ٹھہرتا ہے؟ آخر کسی دعویٰ میں تو سچائی او ردلیل کا کوئی شائبہ ہی موجود ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یقیناً یہ بات قابل غور ہے کہ جس راستے پر تم سرپٹ دوڑے چلے جارہے ہو، وہ کس طرح کو جاتا ہے؟

رسول اللہ ﷺ سے اس دن اگر کوئی عمل ثابت بھی ہے تو یہ کہ آپؐ نے اس دن روزہ رکھا ہے۔ جیسا کہ آپؐ ہی کے اس ارشاد گرامی سے معلوم ہوتا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سے ''یوم الاثنین'' کے روزے کے متعلق استفسار کیا گیاتو آپؐ نے فرمایا:'' فيه ولدت وفيه أنزل علي''4
''کہ اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل ہوا۔''

لیکن آپؐ نے عید کے دن روزہ رکھنے سے منع بھی فرمایا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں:
''إن ھذان یومان نھیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن صیامھما یوم فطر کم من صیامکم والآخر یوم تأکلون فيه من نسککم'' 5
''کہ رسول اللہ ﷺ نے عیدین کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا کہ ان میں سے ایک دن تو ایسا ہے جس میں تمہارے (رمضان) کےمہینوں سے افطار ہوتا ہے او ردوسرا ایسا کہ جس میں تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔''

ان ہر دو فرامین رسولؐ سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ عید کے دن روزہ نہیں او رروزہ کے دن عید نہیں، تو پھر جب رسول الہ ﷺ نے اس دن روزہ رکھا ہے تو یہ ''عید میلاد النبیؐ'' کہاں سے آگئی؟

علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ نے عجمی عیدوں کے مقابلے میں فرمایا تھا:
''قد أبدلکم بهما خیرا منها یوم الأضحیٰ و یوم الفطر'' 6
''کہ (عجمی عیدوں کے مقابلے میں) اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو نعم البدل عطا فرمایا ہے۔ وہ عید قربان او رعید الفطر ہے۔''

حضورؐ کے اس ارشاد گرامی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں عیدیں صرف دو ہیں۔ پھر یہ تیسری کہاں سے آگئی؟ اگریہ اسلامی عید ہے تو پھر اس کا ثبوت یا اس اشکال کا کوئی حل، کہ خود حضور علیہ الصلوٰة والسلام اگر اس تیسری عید میلاد سے بے خبر رہے تو آپ کو اس کی خبر کیونکر ہوگئی؟ یا اب تشریع کا اختیار خدا تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں دے دیا ہے یا اب آپ بھی نبوت کے منصب پر سرفراز کو ڈالے گئے؟ اس صورت میں بتائیے کہ لفظ ''خاتم النبیین'' کے کوئی معنی اور ''لا إلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ'' کا کوئی امتیاز باقی رہ جاتا ہے؟

روزہ رکھنے والی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسی روز جس دن اپؐ کی ولادت باسعادت ہوئی، آپؐ پر قرآن مجید کا نزول بھی ہوا ، تو پھر کیا اسی دن اسی قرآن کریم کی صریح خلاف ورزی مثلاً کھیل تماشہ، رانگ رنگ، اسراف و تبذیر، لغویات (اور اب تو بات فواحش تک پہنچ چکی ہے) یہ حرکتیں کیا غصب خداوندی کو دعوت دینے کے مترادف نہیں؟ آہ! ''کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہو کہ جب تم (اس) کھیل تماشہ میں مصروف ہو تو اللہ کا عذاب اچانک تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے'' او ریہ اسی قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کا ترجمہ ہے جو اسی دن نازل ہوا تھا او رجس کی مخالفت کرکے تم اس کی توہین کے مرتکب ہورہے ہو۔
أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَ‌ىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ ﴿٩٨...سورۃ الاعراف

خدا کے بندو، اس عیدمیلاد النبیؐ'' کی تقریبات اب جن حدود کو چھُو رہی ہیں، یہ محض ایک فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں رہا۔ تم خود سوچو کہ اس کی ابتدا ء کہاں سے ہوئی تھی او راس کی انتہاء کیا ہے؟ ان تقریبات ن ےکتنے رُخ بدلے؟ کیسے کیسے انداز اختیار کیے؟ کیا اللہ کا دین متبدل ہے؟ کیا یہ آئے دن بدلتا ہی رہے گا؟ کل یہ یوم، یوم وفات تھا، آ ج میلاد النبیؐ ہے، پرسوں یہ علم و فضل کی محفلیں تھیں تو کل یہ جلوسوں سے عبارت رہا۔ آج اگر چراغاں تک بھی نوبت پہنچی ہے، میلے او رجشن کا سماں طاری ہے او رمردو عورت کے باہم آزادانہ اختلاط تک بات جاپہنچی ہے تو آنے والے کل سے تم کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہو کہ یہ تقریبات کسی او ربرائی کو دعوت نہیں دیں گی؟ بدعت کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ یہ آئے دن نت نئے روپ بدلتی رہتی ہے، ذرا اس کسوٹی پر بھی اسے پرکھ دیکھو کیا ان تقریبات میں نت نئی تبدیلی ہمارے اس دعوے پر مہر تصدیق ثبت نہیں کرتی ، کہ یہ بدعت ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ہر بدعت گمراہی ہے! او رہر گمراہی جہنم کی نذر ہوگی: ''کل بدعة ضلالة و کل ضلالة في النار''

اور اس مسئلہ پرایک اور انداز سے غور کرنا بھی ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے۔ مؤرخین نے ان اختلاف کو سامنے رکھتے ہووے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ صحیح تاریخ پیدائش 9 ربیع الاوّل ہے (رحمة للعالمین از قاضی سلمان منصور پوری، تاریخ اسلام از مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی) تو پھر یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا جاسکتاکہ 9 کی بجائے 12 ربیع الاوّل کو خوشیاں منانے کی کیا تُک ہے؟ اور اگریہ تسلیم کر ہی لیا جائے کہ ولادت 12 تاریخ کو ہوئی تھی، تو آپؐ کی وفات کا دن بھی تو یہی 12 ربیع الاوّل ہے۔اس پر یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ خوشیاں رسول اللہ ﷺ کے دنیا پر تشریف لانے کی ہیں یا رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے اُٹھ جانے کی؟ إنا للہ وإنا إليه راجعون۔

اب تاریخوں کو چھوڑیئے کہ تاریخوں میں اختلاف ہے، لیکن یوم ولادت اور یوم وفات میں قطعاً اختلاف نہیں۔ یہ بہرحال ''یوم الاثنین'' (سوموار کا دن) ہے۔ لیکن آپ کی یہ عید میلاد النبیؐ کبھی منگل کو آتی ہے تو کبھی بُدھ کو۔ آخری اس اونٹ کی کوئی کل سیدھی بھی ہے یا نہیں؟ اے علمائے امت، کہ جن کے پیٹ کا یہ مسئلہ ہے، تم دلائل سے اس قدر تہی دامن اور عاجز ہونے کے باوجود بھی اس عید کو منانے اور منوانے پرمصر کیوں ہو کہ جس کی بناء پر خدا تعالیٰ کی نافرمانی، رسول اللہ ﷺ کی مخالفت، کتاب و سنت سے انکار، تعامل صحابہؓ سے انحراف کی نوبت آتی اور مسلمان اغیار کے مذاق کا نشانہ بھی بنتا ہے کہ کوئی عیسائی یا یہودی ان کرتوتوں کو دیکھ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ کیا ان کے نبیؐ کی تعلیمات یہی تھیں؟ کیا ان مسلمانوں کے ہاں اتباع رسولؐ کا معیار یہی ہے کہ جن حرکتوں سے ان کے رسولؐ نے انہیں سختی سے منع فرمایا ہے، یہ اسی رسولؐ سے محبت و عقیدت کی آڑ میں اس کے ارشادات سے کھیل جاتے ہیں: اور وہ تم سے یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ جس نبیؐ نے بھیک مانگنے اور دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے کو ناروا اور نامناسب بتلایا تھا، او رجس کا تم فخریہ ذکر کرتے ہو، اسی نبیؐ کا یوم ولادت تم لوگوں سے بھیک مانگ مانگ کر اور چندے جمع کرکرکے مناتے ہو، اگر تمہیں اظہار محبت کا اسی قدر شوق ہے تو اس شوق کی متحمل تمہاری اپنی ذاتی کمائی کیوں نہیں ہوتی؟کیا تمہاری ذاتی کمائی اس قابل نہیں یا تم رسول اللہﷺ کو چندوں کے مال پر ٹرخانا چاہتے ہو؟ او رپھر یہ چندہ بھی صرف عوام پر کیوں ہے؟ علماء کرام اس سے مستثنیٰ کیوں ہیں؟ او رہم بھی کہتے ہیں کہ خدارا پوری قوم کو مانگت مت بناؤ کہ یہ بات مسلمانوں کے وقار کے بھی منافی ہے۔

مسلمانو! یہودی عاشورے کے دن روزہ رکھا کرتے تھے، رسول اللہﷺ نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کی، اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعونیوں سے نجات بخشی اور فرعونیوں کو غرق کیا تھا، اس پرموسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر روزہ رکھا او رہم بھی اس خوشی میں روزہ رکھتے ہیں۔ سنو! مسلمانو، تم یقیناً اس بات کے دعویدار ہو کہ تم خیرالامم ہو، یہودیوں کے دین سے تمہارا دین بہتر ہے ، پھر اگر یہود اپنےنبیؐ کی سنت میں اس دن روزہ کا اہتمام کرتے تھے، تو تمہیں بھی رسول اللہ ﷺ کا اس قدر پاس تو ہونا چاہیے کہ سوموار کو روزہ نہیں رکھ سکتے تو کم از کم ان بدعات سے مجتنب ہی رہو، یا تم روز قیامت ، حوض کوثر پر ساقی کوثر کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر ضروری تشنہ کام لوٹنا چاہتے ہو۔
''سحقا سحقا لمن غیر بعدي''
''دور ہوجاؤ، دو رہوجاؤ میری نظروں سے اے وہ لوگو، کہ جنہوں نے مارے بعد میرے دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔''

آخر میں ہم صدر مملکت کو بھی ایک بات یاد دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ گزشتہ یوم آزادی پر انہوں نے کہا تھا کہ:
''پاکستان کا مطلب کیا؟ لا إلٰه إلا اللہ'' یہ نعرہ ادھورا ہے۔ لہٰذا اس کی تکمیل یوں ہونی چاہیے کہ:

''پاکستان کا مطلب کیا؟ لا إلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ!''

یہ بات اگرچہ ایوان حکومت سے شائید پہلی دفعہ گونجی ہے او رشاید یہ خیال سب سے پہلے آیا بھی انہی کو ہے او رہم اس خوش فہمی میں بھی مبتلا نہیں رہنا چاہتے کہ جب ''لا إلٰه إلا اللہ'' کے تقاضے وہ اپنے دور اقتدار میں پورے نہیں کرسکے کہ بہشتی موریوں اور غسل قبور ایسی شرکیہ رسوم کو ان کے دور میں کچھ زیادہ ہی عروج حاصل ہوا ہے ، تو وہ ''محمد رسول اللہ'' کے تقاضے کیونکر پورے کریں گے؟ تاہم ان سے یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ جب آپ نے یہ بات منہ سے کہہ ہی ڈالی ہے تو اس کو عملی جامہ پہنانے میں آپ کو تامل کیوں ہے؟ یا کم از کم رسول اللہ ﷺ کی ان نافرمانیوں کو حکومت کی سرپرستی کیوں حاصل ہے؟ ورنہ کرنے کا کام تو یہ ہے کہ جہاں ''لا إلٰه إلا اللہ'' کے تحت اس ملک پاکستان کو شرک کی نجاستوں سے آلودہ ہونے سے بچایا جانا چاہیے، وہاں ''محمد رسول اللہ '' کے تحت اسے بدعیہ رسوم سے نجات دلانا بھی از بس ضروری ہے۔ کرنے کا کام تو یہی ہے کہ، اگر ولادت کی خوشیوں میں حکومت بھی شریک ہے تو اسی ربیع الاول سے اس مبارک کام کی ابتداء کیوں نہیں کی جاسکتی؟ او رعلماء کرام لوگوں کو ان جہنمی وادیوں سے نجات دلانے کے لیے حکومت سے تعاون کیوں نہیں کرسکتے؟ پتہ تو چلے کہ جس رسولﷺ کی ولادت کی انہیں خوشی ہے، اس کی بعثت کو بھی یہ اپنے لیے انتہائی مبارک تصور کرتے ہیں تاکہ اس کے خوشگوار نتائج کو دیکھ کر کوئی پکارنے والا پکار اٹھے ''سچ فرمایا تھا، اللہ رب العزت نے:
''لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَ‌سُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١٦٤...سورۃ آل عمران'' وما علینا إلا البلٰغ!

وآخردعوانا أن الحمدللہ رب العالمیں والصلوٰة والسلام علی النبي الأمي الکریم!


حوالہ جات
1. بخاری و مسلم
2. مسلم، نسائی وغیرہ
3. بخاری ، مسلم
4. مسلم عن ابی قتادہ
5. متفق علیہ
6. رواہ أبوداود والنساوئي و صححه الحافظ