غیر مسلم ممالک میں سفر وسکونت کا شرعی حکم

ہجرت کا مفہوم اور یہ کب فرض ہوتی ہے؟
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّ ٱلَّذِينَ تَوَفَّىٰهُمُ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ ظَالِمِىٓ أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِى ٱلْأَرْ‌ضِ ۚ قَالُوٓاأَلَمْ تَكُنْ أَرْ‌ضُ ٱللَّهِ وَ‌ٰسِعَةً فَتُهَاجِرُ‌وا فِيهَا ۚ فَأُولَـٰٓئِكَ مَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرً‌ا ﴿٩٧﴾ إِلَّا ٱلْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ ٱلرِّ‌جَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلْوِلْدَ‌ٰنِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا ﴿٩٨﴾ فَأُولَـٰٓئِكَ عَسَى ٱللَّهُ أَن يَعْفُوَ عَنْهُمْ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَفُوًّا غَفُورً‌ا ﴿٩٩...سورة النساء
''جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے، ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں ، تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلاتھے، اُنہوں نے جواب دیا کہ زمین میں کمزور اور مجبور تھے۔ فرشتوں نے کہا: کیا اللہ (تعالیٰ) کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں ، جن کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے۔ ہاں جو مرد ، عورتیں اوربچے واقعی بے بس ہیں اور نکلنے کاکوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے، بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کردے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔''

الھِجرَة لغوی طورپرالھَجرسے ماخوذ ہے جس کا مطلب 'چھوڑ دینا'ہے۔ اور شریعت کی اصطلاح میں الھِجرَة سے مراد یہ ہے :
''الانْتِقَالُ مِنْ بَلَدِ الشَِّرْکِ إلیٰ بَلَدِ الإسْلَامِ'' 1
'' کفر و شرک والے علاقے سے 'بلد ِاسلام' کی طرف منتقل ہونا۔ ''

'بلد ِکفر' وہ مقام ہے جہاں کفر کے شعائر نمایاں ہوں ، اور اسلام کے شعائر، جیسے اذان، باجماعت نماز پنجگانہ، عیدین کا انعقاد اور نمازِ جمعہ وغیرہ کا عام اور ہرجگہ اہتمام نہ کیا جاتا ہو۔ 'عام' کی شرط کی ضرورت اس بنا پر ہے تاکہ اس سے وہ مقامات اور غیر مسلم ممالک بھی نکل جائیں جہاں مسلم اقلیت کی بنا پر اسلامی شعائر کا اہتمام تو کیا جاتا ہے مگر بہت محدود دائرے میں رہ کر ان کی اجازت دی جاتی ہے۔چنانچہ ایسے علاقے اور ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں اور بعض مخصوص جگہوں پرہی محدود دائرے میں رہتے ہوئے ان اسلامی شعائر کا انعقاد کرسکتے ہوں تو وہ اسلامی شہریااسلامی ممالک نہیں ہیں ۔ 'دیار اسلام' وہی ہوسکتے ہیں ، جہاں مکمل مذہبی آزادی ہو اور وہاں اسلامی شعائر عمومی طور پر اور ہرجگہ منعقد ہوتے ہوں ۔

ہجرت ہر اس مؤمن پر واجب ہے، جوبلد ِکفر میں رہتا ہو اور اپنے دین اور اس کے شعائر کے اظہار کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اگر وہ بغیر ہجرت کے اپنے دین کو ظاہر رکھنے کی طاقت نہ رکھے تو ایسی صورت میں ہجرت کے بغیر اس کا اسلام ناقص ہوگا، کیونکہ جس 'عمل' کو کئے بغیر، واجب (فرض)ادا نہ ہوتا ہو تو اس 'عمل' کو بجا لانا بھی واجب (یعنی فرض) ہوجاتا ہے۔چنانچہ آغاز میں درج کردہ قرآنِ حکیم کی آیت ِکریمہ میں اس بات کی دلیل موجود ہے:
'' وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی قدرت و طاقت ہوتے ہوئے بھی ہجرت نہ کی تو موت کے فرشتوں نے ان کی روحیں قبض کرتے ہوئے ان کو سخت ڈانٹ ڈپٹ کی اور ان سے کہا کہ کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں کہیں ہجرت کرجاتے؟ مگر وہ کمزور او ربے بس لوگ، جو ہجرت کی طاقت نہیں رکھتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ہجرت سے عاجزی اور بے بسی کی بنا پر ان سے درگزر فرما دیا، اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ (رحیم و کریم) کسی بھی انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ کسی چیز کا مکلف (یعنی پابند) نہیں کرتے۔'' (النساء :97تا99)

ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے :
يَـٰعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا إِنَّ أَرْ‌ضِى وَ‌ٰسِعَةٌ فَإِيَّـٰىَ فَٱعْبُدُونِ ﴿٥٦...سورة العنکبوت
' اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو! میری زمین وسیع ہے، پس تم میری ہی بندگی کرو۔''

امام بغوی رحمة اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
''یہ آیت ِکریمہ ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی، جو مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے اور اُنہوں نے ہجرت نہ کی تھی۔''

ایسی صورت میں ہجرت فرض ہونے کی دلیل رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اِرشاد گرامی ہے:
(لَا تَنْقَطِعُ الْھِجْرَة حَتّٰی تَنْقَطِعَ التَّوْبَة وَلاَ تَنْقَطِعُ التَّوْبَة حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا)2
''جب تک توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوجاتا تب تک ہجرت کا سلسلہ بھی منقطع نہیں ہوگا اور توبہ کادروازہ اس وقت تک بندنہ ہوگا، جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوتا (یعنی جب تک قیامت قائم نہیں ہوتی)۔''

غیر مسلم معاشروں کی طرف سفر کرنا تین شرائط کے بغیر شرعاً جائز نہیں :
1 انسان کے پاس دین کا اتنا ٹھوس اور پختہ علم ہو جس کے ذریعے وہ شکوک وشبہات کو دور کرسکے اور اپنے آپ کو (غیر اسلامی اثرات سے)بچا سکے۔
2 وہ دینی اعتبار سے اتنا پختہ اور ثابت قدم ہو کہ شہوات اور جنسی خواہشات میں پڑنے سے بچ سکے۔
3 وہ ان ممالک کی طرف سفر کرنے کا شدید محتاج اور ضرورت مند ہو۔

اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو ایک مسلمان کے لئے غیرمسلم معاشروں کی جانب سفر کرنا اس لئے جائز نہیں کہ ایک تو اس کے'فتنہ' میں واقع ہوجانے کا ڈر ہے اور دوسرے: سراسر نافرمانی کے اس سفر میں بہت سا مال بھی ضائع ہوجاتا ہے، اس لئے کہ انسان ان جیسے سفروں میں بہت زیادہ مال و دولت بلاضرورت خرچ کر بیٹھتا ہے۔

اگر انسان کو کسی اشد ضرورت کی بنا پر سفر کرنا پڑ جائے، جیسے علاج یاآپریشن کی غرض سے یا ایسے جدید منفعت بخش علوم کے حصول کے لئے جو اس کے اپنے ملک میں ناپید ہوں (بشرطیکہ اس کے پاس اس حد تک علم اور دینی و روحانی قوت بھی ہو، جو اسے غیر مسلم تہذیب کے اثرات سے محفوظ رکھ سکے) جیساکہ ہم نے قبل ازیں بیان کیا ہے تو ایسی صورت میں سفر کی ممانعت نہیں ۔

لیکن اگر یہی سفر کفار و مشرکین کے ممالک کی محض سیروسیاحت کے لئے ہو، کسی اور ضرورت و مصلحت کی بنا پر نہیں ، ایسے ہی اسی سیروتفریح کی غرض سے کسی اسلامی ملک میں سفر کرنا اس کے بس میں ہو جہاں شعائر ِاسلام کی پاسداری کرنے والے کثرت سے ہوں ، تو ایسی صورتِ حال میں غیر مسلم ملک میں جانا جائز نہیں ، جبکہ آج کے دور میں مسلمانوں کے شہر اور ممالک سیروسیاحت کے اعتبار سے بہت ہی موزوں اور مناسب ہیں ، لہٰذا ایک مسلمان کے لئے یہ زیادہ مناسب ہے کہ وہ کچھ وقت کے لئے ایسے ممالک کا رخ کرے جہاں وہ ایام تعطیلات گزار کر اپنا جی بہلا سکے۔

جہاں تک ایک مسلمان کے لئے بلاد ِکفرو شرک میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا تعلق ہے، تو اس سے مسلمان کے دین ، اس کے آداب و اخلاق اور کردار پر خوفناک اور تباہ کن نتائج مرتب ہوتے ہیں ۔ ہم نے خود اور کئی دیگر لوگوں نے متعدد اشخاص کو وہاں رہتے ہوئے، دین سے منحرف ہوکر یافسق و فجور میں لت پت ہو کر، یا پھر اپنے دین سے مرتد ہوکر واپس لوٹتے دیکھا ہے۔اوران کی دین و مذہب سے نفرت کا یہ عالم ہوا کہ وہ اپنے دین سے ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ بقیہ تمام ادیان و مذاہب کے بھی نہ صرف منکر ہوئے بلکہ اس دین سے وابستہ ہونے والی پاکیزہ ہستیاں (ٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ)اور متاخرین میں سے جو اسلام لائے، سب کے سب ان ملحدوں اور مرتدوں کے استہزا اور مذاق کا نشانہ بنے ، اور یہ صورت حال اب تک جاری ہے۔

اسی لئے یہ بات از حد ضروری ہے کہ عام مسلمانوں کے اخلاقی تحفظ اور دینی و ایمانی تشخص کی بقا کے لئے ٹھوس اور مضبوط اقدامات ہونے چاہئیں اور قانونی اعتبار سے بھی ایسی شرائط وضع کی جائیں جو مسلمانوں کو ان ہلاکت خیزیوں اور تباہ کاریوں سے بچا سکیں ۔

بلادِ کفروشرک میں سکونت کی دو بنیادی شرطیں
1 سکونت اختیار کرنے والے شخص کا دین و ایمان محفوظ و مامُون ہو، اس اعتبار سے کہ اس کے پاس اتنا مضبوط علم و ایمان اور عزیمت کی قوت و طاقت موجود ہو، جس کی بنا پر وہ اپنے دین پر ثابت قدم رہ سکے اور انحراف و گمراہی سے بھی بچ سکے، اور ساتھ ہی ساتھ اہل کفر کی محبت اور ان سے دوستانہ تعلقات سے دور رہتے ہوئے، ان سے نفرت اور عداوت کو اپنے دل میں سمائے رکھے، اس لئے کہ کفار و مشرکین سے محبت و عقیدت رکھنا اور ان سے تعلقات استوار رکھنا، ایمان کے منافی اُمور میں سے ہے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے :
لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ‌ يُوَآدُّونَ مَنْ حَآدَّ ٱللَّهَ وَرَ‌سُولَهُۥ وَلَوْ كَانُوٓاءَابَآءَهُمْ أَوْ أَبْنَآءَهُمْ أَوْ إِخْوَ‌ٰنَهُمْ أَوْ عَشِيرَ‌تَهُمْ ۚ...﴿٢٢...سورة المجادلہ
'' تو جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں ، آپ کبھی اُنہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں ، جو اللہ اور اس کے رسول ؐ کی مخالفت کرتے ہوں ، خواہ وہ ان کے باپ ہوں ، یا بیٹے ہوں ، یا بھائی یا (سارے) کنبہ (وقبیلہ) والے ہوں ۔''

اور سورة المائدة میں حق تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا لَا تَتَّخِذُوا ٱلْيَهُودَ وَٱلنَّصَـٰرَ‌ىٰٓ أَوْلِيَآءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُۥ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ ﴿٥١﴾ فَتَرَ‌ى ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَ‌ضٌ يُسَـٰرِ‌عُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰٓ أَن تُصِيبَنَا دَآئِرَ‌ةٌ ۚ فَعَسَى ٱللَّهُ أَن يَأْتِىَ بِٱلْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ‌ۢ مِّنْ عِندِهِۦ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَآ أَسَرُّ‌وا فِىٓ أَنفُسِهِمْ نَـٰدِمِينَ ﴿٥٢...سورة المائدة
''اے ایمان والو!یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، یہ سب ایک دوسرے کے دوست ہیں ، اگر تم میں سے کسی نے ان کو دوست بنایا، تو وہ بھی انہی میں سے ہے، یقینا اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔آپؐ دیکھیں گے کہ جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے، وہ انہی (یہود و نصاریٰ) میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہ کسی مصیبت میں نہ پڑ جائیں ، ہوسکتا ہے کہ جلدہی اللہ (مؤمنوں کو)فتح عطا فرما دے، یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کردے، تو جو کچھ یہ اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں ، ان پر نادم ہوکر رہ جائیں گے۔''

اورصحیح حدیث میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے :
(أنَّ مَنْ أحَبَّ قَوْمًَا فَھُوَ مِنْھُمْ،وَأنَّ الْمَرْء مَعَ مَنْ أَحَبَّ ) i
'' جس شخص نے کسی قوم سے محبت کی تو وہ انہی میں سے شمار ہوگا، اور بے شک آدمی اسی کے ساتھ (ہوگا) جس کے ساتھ اس نے محبت کی ہوگی۔''

اور اللہ کے دشمنوں سے محبت، ایک مسلمان کے لئے بڑی خطرناک بات ہے، اس لئے کہ ان کے ساتھ محبت کا لازمی نتیجہ ان کی موافقت اور پیروی کی صورت میں نکلتا ہے یا پھر یہ محبت کم از کم ان کی (دین کے خلاف ہر) بات کو ردّ کرنے سے بھی روکتی ہے، اسی لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے :

(مَنْ أَحَبَّ قَوْمًا فَھُوَ مِنْھُمْ )
'' جو شخص کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو وہ انہی میں سے شمار کیا جائے گا۔''

2 سکونت پذیر شخص کے لئے دارالکفر والشرک میں اپنے دین و ایمان کاکھلے عام اظہار ممکن ہو، اس طرح سے کہ وہ بغیر کسی ممانعت کے دین کے شعائر کا اہتمام اور اس پر عمل پیرا ہونے کا ہر طرح سے مجاز ہو، مثلاً اگر وہاں اس کے ساتھدوسرے مسلمان بھی ہوں تو اسے ان کے ساتھ فر ض نمازوں کو باجماعت اور جمعة المبارک کی نماز ادا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اسی طرح اسے دیگر ارکانِ دین ،یعنی زکوٰة ، روزے اور حج وغیرہ کی ادائیگی کی ممانعت نہ ہو، اگر ایسا ممکن نہیں تو ان حالات میں چونکہ اس پر ہجرت واجب ہے لہٰذا اس کا کفار ومشرکین کے ملک میں ٹھہرنا بھی جائز نہیں ۔

علامہ ابن قدامہ رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب 'المغنی 'میں ہجرت کے ضمن میں لوگوں کی مختلف اقسام ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بعض لوگ تو وہ ہیں جن پر ہجرت کرنا واجب ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو ہجرت کی طاقت رکھتے ہوں اور 'بلادِ کفار' میں اپنے دین کااظہار ان کے لئے ناممکن ہو۔اور وہ کفار کے درمیان رہتے ہوئے اپنے دین کے واجبات پربھی عمل پیرا نہ ہوسکتے ہوں تو ایسے لوگوں پر اللہ عزوجل کے اس فرمان کی رو سے ہجرت کرنا فرض ہوجاتا ہے۔اس کے بعد ابن قدامہ رحمة اللہ علیہ نے مذکورہ بالا آیت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آیت ِہذا میں یہ شدید ترین وعید، ہجرت کی فرضیت پردلالت کرتی ہے۔ واضح رہے کہ دین کے واجبات پر عمل کرنا ہر اس شخص پر ضروری ہے جواس کی طاقت رکھتا ہو، اور دین اسلام میں ہجرت تو 'واجب کی ضرورت' اور اس کے تکمیل سے ہے، اور جس عمل کو ادا کئے بغیر واجب پورا نہ ہوتا ہو تو اس عمل کو بجا لانا بھی واجب ہوتا ہے۔

غیر مسلم ممالک میں سکونت کی مختلف صورتیں اور ان کے احکام
مذکورہ دو شرطوں کی تکمیل کے بعد دارِ کفر میں سکونت اختیارکرنے کی کئی ایک صورتیں ہیں ، جن کے لئے شریعت کے علیحدہ علیحدہ احکام ہیں :

پہلی صورت:

آدمی 'دارِکفر' میں لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے اور راغب کرنے کے لئے رہائش اختیار کرے۔ ایسی صورت میں اس کا یہ فعل جہاد کی ایک قسم ہے ، البتہ ا س صورت میں دین اسلام کی دعوت دینے کے لئے اس کا ضروری علم ہونا لازمی ہے۔

ایسے داعی کے لئے یہ سکونت 'فرضِ کفایہ' کا حکم رکھتی ہے، اس شرط کے ساتھ کہ اس کی وہاں یہ دعوت ایک تو بار آور ثابت ہو اور دوسرے یہ کہ نہ کوئی اس کو یہ دعوت دینے سے منع کرتا ہو، اور نہ اس دعوت کو لبیک کہنے (یعنی قبول کرنے) والے کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالتا ہو۔ دلیل اس امر کی یہ ہے کہ اسلام کی طرف دعوت دینا، دین کے واجبات میں سے ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں (4)کا وظیفہ اور مشن ہے۔ اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی اُمت کے ہر فرد کو ہر جگہ پر اپنی شریعت ِطاہرہ کے احکامات و پیغامات پہنچانے کا حکم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(بَلِّغُوْا عَنِّيْ وَلَوْ آیَة )3
''مجھ سے لی ہوئی خواہ ایک ہی آیت(اور حدیث) ہو تو اس کوآگے پہنچا دو۔''

دوسری صورت: کوئی مسلمان 'بلادِ کفر و شرک' میں رہتے ہوئے کافروں اور دشمنانِ دین کے حالات کے بارے میں آگاہی رکھے، نیز ان کے عقائد کی خرابیوں ، طریقۂ عبادت کی غلطیوں ، اخلاقی انحطاط اور ان کے کردار و گفتار کے بگاڑ پر کڑی نگاہ رکھتا ہو، تاکہ عام لوگوں (خاص طور پر جاہل مسلمانوں ) کو ان کے دامِ فریب میں آنے سے ڈرا اور بچا سکے، اور ان کفار کی طرف رشک آلود نگاہوں سے دیکھنے والوں پر ان کی حقیقت آشکارا کرسکے۔ بلادِ کفر میں ایسی سکونت بھی جہادہی کی ایک قسم ہے اور یہ اس لئے کہ یہ دعوت اپنے نتائج و ثمرات کے اعتبار سے اہل اسلام کو کفر اور اہل کفر سے بچانے اور عامة المسلمین کو اسلام کی طرف لانے پر مشتمل ہے،کیونکہ کفر کا بگاڑ و فساد اسلام کی اصلاح و فلاح کی دلیل ہے، جیساکہ کہا جاتا ہے:

وَبِضِدِّھَا تَتَبَیَّنُ الاَشْیَاء4
'' اشیا کی حقیقت، اپنی مخالف اشیا سے نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔''

مگر یہاں یہ شرط ملحوظ رہے کہ داعی کی یہ دعوت جس مقصد کے لئے ہو، وہ مقصد اپنے سے بڑھ کر کسی فساد کے رونما ہوئے بغیر بَرگ و بار لائے۔ اور اگر اس داعی کو اس دعوت کا کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہ ہوسکے اور وہ اس طرح کہ وہاں کے کفار و مشرکین اس کو اپنے باطل عقائد (اور کفر کی تردید) سے روک دیں تو تب اس شخص کے وہاں ٹھہرنے کاکوئی فائدہ نہیں ۔

ایسے ہی اگر اس داعی کو اس دعوت کے مثبت نتائج تو مل رہے ہیں ، مگر ساتھ ہی وہ دعوت اپنے فوائد اور مصالح سے بڑھ کر مفاسد و مضرات کے سر اُٹھانے کا سبب بن رہی ہو ،مثلاً : اس کی دعوت کے ردِ عمل میں مخالفین ِ اسلام ، اہل اسلام، رسول کریمؐ اور دیگر مسلمان ائمہ کو گالی گلوچ کا نشانہ بنانے لگ جائیں تو ایسے حالات میں داعی کو دعوت سے رُک جانا چاہئے کیونکہ اللہ جل شانہ' کا یہ فرمان ہے :
وَلَا تَسُبُّوا ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ فَيَسُبُّوا ٱللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ‌ عِلْمٍ ۗ كَذَ‌ٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَ‌بِّهِم مَّرْ‌جِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٠٨...سورة الانعام
''(اے مسلمانو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں ، اِنہیں گالی نہ دوـ۔ ورنہ یہ لوگ جہالت کی وجہ سے چڑ کر اللہ کو گالی دیں گے۔ اسی طرح ہم نے ہر گروہ کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے، پھر اُنہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے، تو جو کچھ یہ کرتے رہے، اس کی اُنہیں وہ خبر دے دے گا۔''

اس آیت ِکریمہ میں کفار کے معبودوں کو برا بھلاکہنے سے اس بنا پر روکا گیا ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ اللہ کو برا بھلا کہیں گے۔ چنانچہ ایسی صورت حال میں جب دعوت کا نتیجہ اسلام اور پیغمبر اسلام پر اعتراضات وکردار کشی کی صورت میں سامنے آئے، تو ایسی دعوت کو روک کراپنی حکمت عملی کو تبدیل کرنا چاہئے۔

دوسری صورت:

دوسری صورت میں یہ نوعیت بھی شامل ہے کہ کوئی مسلمان شخص، غیر مسلم معاشروں میں محض اس غرض سے ٹھہرے کہ وہاں رہ کر وہ مسلمانوں کے حق میں کفار اور دشمنانِ اسلام کی جاسوسی کے فرائض انجام دے سکے اور ان کی تیار کردہ خفیہ سازشوں اور دسیسہ کاریوں سے اہل اسلام کو متنبہ کرسکے ،جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خندق میں ، حضرت حذیفہ بن یمان 5 کو مشرکوں کی طرف بھیجا تھا تاکہ وہ ان کی (جنگی چالوں اور) سرگرمیوں کی خبریں معلوم کرسکیں ۔ 5

تیسری صورت:

وہ شخص 'مسلمان ملک' یا اسلامی ریاست کی ضرورت اور غیر مسلم ممالک کے ساتھ انتظامی اُمور کو منظم اور مربوط کرنے کی خاطر مقیم ہو، جیسے سفارتخانوں کے ملازمین یا عملہ ہے، تو ان کا حکم بھی مذکورہ شخص کے حکم جیسا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص 'اسلامی ثقافت' کا ترجمان اور ماہر ذمہ دار ہو اور وہ غیر مسلم ملک میں اس مقصد کے لئے رہتا ہے کہ وہاں مسلمان طلبا کے حالات اور ان کی دن رات کی سرگرمیوں پرنظر رکھتے ہوئے، اُن کی اخلاقی اقدارو روایات کی نگرانی کر سکے اور ہمہ وقت ان کو دین ِاسلام کی پاسداری کرنے ،انہیں دین کے آداب و اخلاقیات کو اپنائے رکھنے اور ہمہ وقت اورہرجگہ اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھنے کی ترغیب دلا سکے ہے۔ توایسے شخص کے وہاں رہنے سے جہاں ایک بہت بڑی مصلحت اور منفعت حاصل ہوگی ،وہاں ایک بڑے شر اور فساد کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے گا۔

چوتھی صورت:

آدمی کسی خاص اور جائز ضرورت کی خاطر وہاں ٹھہرے،مثلاً تجارت (کاروبار) یا علاج وغیرہ کی غرض سے، تو ایسے حالات میں ضرورت پوری ہونے تک وہاں ٹھہرنا جائز ہے۔اہل علم حضرات نے کاروباری مقاصد کی خاطر کافر ملک میں ٹھہرنے یا اس کی طرف سفر کرنے کو جائز قرار دیا ہے اور اُنہوں نے اس کی دلیل بعض صحابہ کرام7 کے آثار و واقعات سے لی ہے۔واضح رہے کہ سکونت کی یہ نوعیت عارضی ہے،ضرورت مکمل ہونے پر اس مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ 'دار الاسلام' میں واپس پلٹ آئے۔

پانچویں صورت :

آدمی کسی کافر ملک میں تحصیل علم اور علم کے کسی شعبہ میں تحقیق و تدریس کے لئے ٹھہرے اور یہ صورت سابقہ ضرورت کی ہی ایک قسم ہے کہ جہاں انسان کسی ضرورت کے پیش نظر مقیم ہو، البتہ بعض پہلووں سے یہ سابقہ شکل کی نسبت زیادہ خطرناک، اور سکونت پذیر مسلمان شخص کے دینی اور اخلاقی اقدار کی پامالی کے اعتبار سے زیادہ سنگین بھی ہو سکتی ہے۔

کیونکہ ایک طالب علم اپنے اساتذہ کے علم سے متاثر ہوتا اور ان کی شخصیت کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اور اساتذہ کی اپنے شاگرد کے ہاں قدرومنزلت براہِ راست اس کے اخلاق و کردار پراثر انداز ہوتی اور شاگرد کو ان کے افکار و آرا اور طریقۂ زندگی کو اپنانے پر اُکساتی ہے۔ تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ تعلیم وتعلّم کے میدان میں اکثر لوگ اپنے اساتذہ کی ہی سیرت و کردار کے اَسیر ہو جاتے ہیں ، سواے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ بچائے رکھتا ہے اور وہ بہت ہی کم تعداد میں ہیں ۔

پھر طالب ِعلم اپنے اُستاد کے سامنے ضرورت مند ہوتا ہے اوریہی ضرورت ہی اس کے دل کو استاد سے محبت کی طرف مائل کرتی ہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس دینی انحراف اور گمراہی پر وہ استاد گامزن ہوتا ہے، شاگرد بھی اسی کوتاہی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ ایسے ہی وہ طالب علم جس تعلیمی ادارے میں مقیم ہوتا ہے، وہاں اس کے ساتھی اور دوست بھی ہوتے ہیں جن سے وہ محبت کرتا، میل جول رکھتا اور دیگر معاشرتی ضروریات پوری کرتا ہے۔ان سب اُمور کے ہوتے ہوئے ایک نوخیز طالب علم کے اخلاق و کردار کے بگاڑ کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے، لہٰذا اس قسم کے لوگوں کے بارے میں حفاظتی اقدامات دوسروں کی نسبت زیادہ ضروری ہیں ۔ لہٰذا 'دیار ِ کفر'میں ان کے دین و ایمان اور اخلاق و کردار کے تحفظ کی خاطر ان دو بنیادی شرطوں (جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے) کے علاوہ درج ذیل اضافی شروط کو اپنانا لازم ہوگا:

1 طالب ِعلم عقل کی پختگی اور سوچ و بچار میں اتنی صلاحیت رکھتا ہو کہ وہ آسانی سے منفعت بخش اور نقصان دہ چیز میں فرق کرسکے اور کسی بھی چیزکے نفع و نقصان کے بارے میں وہ دوربین اور دور اندیش ہو۔ اور جہاں تک چھوٹی عقل کے ناسمجھ بچوں کو طلب ِعلم کے لئے ایسی جگہوں میں بھیجنے کا تعلق ہے تو یہ ان کے دین اور ان کے اخلاق و کردار کی بربادی کے لئے سنگین خطرہ ہے۔کل کلاں یہ نونہال اپنی قوم و ملت کے لئے بھی بہت بڑے خطرے کا باعث ہوں گے، یہی لوگ واپس آکر اپنی قوم کے دل و دماغ میں وہ زہر اُتاریں گے،جو انہوں نے (دارِ کفر میں رہتے ہوئے) کفار سے نادانستگی میں سیکھا تھا۔ اوراس قسم کی متعدد مثالیں مسلم معاشروں میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔ایسے متعدد ناقابل تردید حقائق موجود ہیں کہ بہت سے لوگ تعلیم و تعلّم کے لئے 'دیارِ کفر و شرک' میں گئے، جب واپس پلٹے تو ایمان کی پونجی سے محروم تھے، اور مزید ستم یہ کہ دینی تشخص اور اچھے اخلاق و کردار سے بیگانہ ہو کر اپنے ساتھ کفر و الحاد کو بھی لے کر لوٹے، اور خود اپنے لئے اور اپنی قوم و ملت کے لئے بھی فساد و بگاڑ کا سبب بنے۔ یہاں یہ بات ہم ببانگ دہل کہیں گے کہ ایسے حالات میں کم عمر اور مذکورہ شرائط سے تہی دامن لوگوں کو دیارِ کفر بھیجنا، خونخوار کتوں کے آگے پھینک دینے کے مترادف ہے۔

2 'دیارِکفر' میں مقیم طالب علم کے پاس اس حد تک شرعی علم ہوناچاہئے جس کی وساطت سے وہ حق اور باطل کے درمیان فرق کرسکتا ہو، اور حق کی ضرب سے باطل کا قلع قمع کرسکتا ہو، تاکہ باطل کی جس روش پر اہل کفر جمے ہوئے ہیں ، کہیں وہ ان سے متاثر ہوکر دھوکہ نہ کھا جائے۔ ان کے جھوٹ کو، سچ نہ سمجھ بیٹھے، یا حق اور باطل اس پر خلط ملط نہ ہو جائیں ۔کہیں اس باطل سے اپنا بچاؤ کرنے میں وہ ناکام نہ ہو جائے اور پھر سر گرداں ہو کر باطل کی پیروی میں نہ لگ جائے ... جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعامیں یہ الفاظ آئے ہیں :
(اللّٰھُمَّ أرِنِيْ الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنِيْ اِتَّبَاعَه وَأَرِنِيْ الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنِي اجْتِنَابَه وَلَا تَجْعَلْه مُلْتَبِسًا عَلَيَّ فَأضِلَّ ) 6
'' الٰہی! مجھے راہ حق دکھا دے اور (پھر) مجھے اس کی پیروی کی توفیق دے اورمجھے باطل رستے دکھا دے اور اس سے بچنے کی توفیق مرحمت فرما دے، اور اس (حق و باطل کی) راہ کو مجھ پر خلط ملط نہ کر، کہ میں راہ ِحق سے بھٹک کر گمراہ ہوجاؤں ۔''

3 کفر و شرک والے ممالک میں سکونت پذیر طالب علم کے پاس اتنی دینی حمیت و جذبہ اور ایمانی غیرت ہو جو اسے بے راہ روی سے بچا سکے اور کفر و فسق کی لعنتوں سے اسے محفوظ رکھ سکے کیونکہ دینی اعتبار سے کمزور نوجوان، وہاں اقامت کے دوران کفر وفسق کے فتنہ و فساد سے محفوظ نہیں رہ سکتا، سواے اس کے جسے اللہ تعالیٰ بچالے۔ اور یہ اس معاشرے میں کفروشرک کے طاقتور ہونے اور اس کے ردعمل میں دینی قوتوں کے انتہائی کمزور ہونے کی وجہ سے ہے، اور جب یہ الحادی اور طاغوتی قوتیں کسی بھی جگہ اپنی مخالف قوتوں کو کمزور اور ناتواں پاتی ہیں تو فوراً اپنی تخریبی کارروائی شروع کردیتی ہیں ۔

4 ایک شرط یہ ہے کہ جس علم کو حاصل کرنے کے لئے وہ دیار غیر میں بیٹھا ہے ، اُس کی اس اعتبار سے انتہائی زیادہ ضرورت ہو کہ اس میں عام مسلمانوں کی مصلحت ہے ۔ اورپھر اس جیسی تعلیم، اس کے اپنے ملک کے کسی مدرسہ یا تعلیمی ادارے میں نہ پائی جاتی ہو، اور نہ اس قسم کا کوئی ادارہ ہی موجود ہو۔ لیکن اگر وہ کوئی ایسا علم ہے جس میں مسلمانوں کا کوئی فائدہ بھی نہ ہو، یا اس جیسا تعلیمی ادارہ اس کے اپنے ملک یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں موجود ہو جہاں سے وہی تعلیم پانا اس کے لئے ممکن ہو تو اس صورت میں اس کے لئے کفار و مشرکین کے درمیان رہ کر اُن کے ملک میں تعلیم حاصل کرنا جائز نہیں ، اس لئے کہ ایک تو اس کا ایسی جگہ پر ٹھہرنا اس کے دین اور اخلاقی اقدار کے لئے انتہائی خطرناک ہے اور دوسرا یہ کہ ایک نقصان دہ چیز کی طلب میں بہت زیادہ رقم خرچ ہوگی۔

چھٹی صورت:

کوئی شخص باقاعدہ کفار و مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرلے (یا کوئی طالب علم، کفار و مشرکین کے ساتھ تعلیمی ادارے میں سکونت اختیار کرے) تو ایسی اقامت، پہلی ذکر کردہ صورتوں سے اس لئے زیادہ خطرناک اور بڑی نقصان دہ ہے کہ اہل کفر کے ساتھ مکمل اختلاط سے بڑا فتنہ و فساد جنم لے گا، اور پھر اس شخص کا یہ تصور کہ یہ لوگ یہاں کے مقامی باشندے ہونے کے ساتھ ساتھ تعداد میں بھی زیادہ ہیں ، اور ان کے ساتھ لین دین، مودّت ومحبت رکھنا اور ان کے رسم و رواج کو اپنانا، یہاں ان کے وطن میں رہنے کے لئے اُس کی ایک مجبوری ہے، اور ان کے درمیان سکونت کا تقاضا بھی ۔ توانجام کار یہ ہوگا کہ اس کے اِہل خانہ کفار کے درمیان پروان چڑھیں گے، جہاں ( نہ چاہتے ہوئے بھی) وہ ان کے طرزِ حیات، اخلاق و عادات اور غیر اسلامی رسومات کو اپنالیں گے، اور بسا اوقات تو دینی معاملات اور خاص طور پر عقائد و عبادات میں بھی ان کی بدعات و خرافات میں آنکھیں بند کئے پیروی کریں گے۔ اس ضمن میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہمیں یاد رکھنا چاہئے:
(مَنْ جَامَعَ الْمُشْرِکَ وَسَکَنَ مَعَه فَھُوَ مِثْلُه ) 7
''جو مشرک کے ساتھ بیٹھا اور اس کے ساتھ سکونت اختیار کی تو وہ اسی کی مانند ہے۔''
یہ حدیث اگرچہ اپنی سند کے اعتبار سے ضعیف ہے،لیکن حقیقت یہی ہے کہ کسی شخص کا کسی قوم کے ساتھ مل جل کر رہنا آخر کار ان کی مشابہت اور موافقت کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔

حضرت جریر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں ، جس نے مشرکوں کے درمیان اقامت اختیار کی، صحابہ کرامؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ، کس وجہ سے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لاتراء ی نارھما) 8
''ان (اہل ایمان اور مشرکین) کو تو ایک دوسرے کی جلائی ہوئی آگ بھی نہیں دکھائی دی جانی چاہئے۔''

(یعنی ان کی اقامت ورہائش کے درمیان کم از کم اتنا فاصلہ ضرور ہونا چاہئے)

اس حدیث کو امام ابوداود رحمة اللہ علیہ اور امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے اپنی اپنی 'سنن' میں روایت کیا ہے اور اکثر راویوں نے اسے قیس بن حازم تابعی رحمة اللہ علیہ سے'مرسل'بیان کیا ہے۔
امام ترمذی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے امام بخاری رحمة اللہ علیہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے:
'' صحیح یہ ہے کہ قیس بن حازم رحمة اللہ علیہ کی یہ حدیث اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے 'مرسل' ہے ''

اگر معاملہ اس حد تک خطرناک ہو توایک مؤمن اس بات کوکیونکر گوارا کرسکتا ہے، کہ وہ 'بلادِ کفار' میں مستقل رہائش اختیار کرے جہاں کھلے عام کفریہ شعائر کا پرچار ہوتا ہواور اللہ جل جلالہ' اور اس کے رسولؐ کے حکم کے علاوہ، طاغوت کے اَحکام و قوانین نافذ ہوں اور وہ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا اور اپنے کانوں سے سنتا ہو اور اس پر مطمئن بھی رہتا ہو، بلکہ اس سے بڑھ کر وہ اپنے آپ کو انہی کافروں کے ممالک اور اقوام کی طرف منسوب کرتا ہو، اور وہ وہاں 'غیر مسلم معاشرے' میں اپنے اہل و عیال سمیت رہائش پذیر ہو، اور اس طرح مطمئن زندگی بسر کرتا ہو جیسے وہ کسی مسلم معاشرے اور مسلمان ملک میں رہائش اختیار کئے ہوئے ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ اپنے اہل و عیال اور خاندان کے اخلاق و کردار اور دینی اقدار پر اس کافر معاشرے کے بڑے خطرات اور زہریلے اثرات کے ہولناک اور تباہ کن نتائج سے بخوبی آگاہ بھی ہو، ایک مسلمان اسے قطعاً گوارا نہیں کر سکتا ۔9


حوالہ جات
1. کتب الجامی:2؍91
2. سنن ابوداود:2479
3. صحیح بخاری:3461
4. البرہان:3؍60
5. صحیح مسلم:1788
6. ابن کثیر: 1؍571
7. سنن ابوداود:2787
8. سنن ابوداود:2645، جامع ترمذی:1604
9. ماخوذ از کتاب 'شرح اُصولِ ثلاثہ' مترجم: زیر طبع

 


 

i. مندرجہ بالا الفاظ بعینہ مرفوع سند کے ساتھ ہمیں نہیں ملے سوائے ان الفاظ کے (المرء مع من أحب) صحیح بخاری:6169 میں یہ پوری حدیث اس طرح ہے:جاء رجل إ لی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اﷲ! کیف تقول في رجل أحب قوما ولم یلحق بهم؟ فقال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم (المرء مع من أحب) البتہ من أحب قوما فهو منهم کے الفاظ مرفوعاً التاج والکلیل لمختصر الخلیل:16711 میں موجود ہیں ،لیکن اس کی سند بیان نہیں کی گئی ۔ واﷲ أعلم