’بل برائے خواتین دشمن رواجات‘

اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک'پاکستان' کی تاریخ میں گذشتہ سال اس لحاظ سے بدترین ہے کہ اس سال 15؍ نومبر کو قومی اسمبلی اور 22؍ نومبر کو سینٹ آف پاکستان نے قرآن وسنت سے صریح متصادم ایسے قانون کو منظور کرکے ملک بھر میں رائج کردیا جس کے خلاف ِاسلام ہونے پر پاکستان بھر کے دینی حلقے یک آواز تھے۔ یہ ظالمانہ قانون اس اسمبلی سے پاس ہوا جس کی عمارت پر نمایاں الفاظ میں کلمہ طیبہ درج ہے، اس کے اراکین اور جملہ عہدیداران اسلام کے تحفظ کا حلف اُٹھاتے ہیں اور اس کے آئین میں خلاف ِاسلام قانون سازی کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اس سعی ٔ نامشکور میں مملکت کے اہم ترین عہدوں پر براجمان وہ شخصیات بھی شامل ہیں جنہیں یہ اہم ذمہ داری 'اسلام اور نظریۂ پاکستان کے تحفظ' کی یقین دہانی کی بنا پر ہی تفویض ہوتی ہے۔

خواتین کے تحفظ کے نام پر بنائے گئے اس بل میں، جسے اب ایکٹ کا درجہ حاصل ہوچکا ہے، سب سے پہلے جرم کا اندراج کرانے والے شخص کو عدالتی کاروائی کا سامنا کرتے ہوئے اپنے دعویٰ کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔اس ایکٹ کی رو سے سنگین جرائم کو پولیس کی دسترس سے نکال کرعوام کے جذبہ خیرواِصلاح کے سپرد کردیا گیا ہے۔ سب سے بڑھ کریہ کہ صنفی امتیاز کے خاتمے کے لئے لایا جانے والا یہ قانون وطن ِعزیز میں صنفی امتیازکی سب سے بڑی بنیاد ثابت ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ظالمانہ ایکٹ کے منظورہونے کے دن سے لے کر آج تک لاکھوں پاکستانی ا س کے خلاف رائے شماری میں حصہ لے کر اس قانون سے اظہارِ برا ت کرچکے ہیں، دکانوں اور عام چوراہوں پر اس قانون کی تردید پر مبنی پوسٹرز اور ہینگرز عام نظر آتے ہیں۔اس قانون کو غلط قرار دینے والوں میں خواتین کی اکثریت کے علاوہ اہم عہدوں پر فائز شخصیات بھی شامل ہیں، اور تازہ اعداد وشمار کے مطابق اس کے خلاف دستخط کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی تجاوز کرچکی ہے، جن میں غیرمسلم بھی شامل ہیں۔ یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا عوامی احتجاج ہے، جس کا سامنا اس غیراسلامی قانون کو کرنا پڑرہا ہے۔ i

قانون کی منظوری اور بحث مباحثہ کے دنوں میں ہی ملک کی نمائندہ علمی شخصیات نے حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا تھا۔ہرمکتب ِفکر سے وابستہ علماے کرام نے بعض سینئر سیاستدانوں اور حکومتی ذمہ داروں سے ملاقاتوں میں کہا تھا کہ اگر حکومت تحفظ ِخواتین کے سلسلے میں اقدامات کرنے میں سنجیدہ ہے تو(منظور شدہ) بل میں تو صرف زناکاروں کے حقوق(ii) کاتحفظ کیا گیا ہے، پاکستانی خواتین کے لئے تو اس میں کوئی ریلیف نہیں ہے اورپاکستانی خواتین سنگین معاشرتی مسائل کا شکار ہیں جن کے لئے کئی ایسے قانونی اقدامات کئے جاسکتے ہیں، جن سے ان کے مسائل کے خاتمے میں حقیقی مدد مل سکتی ہے لیکن نجانے کیوں ان مسائل سے صرف ِنظر کیا جارہاہے ؟

اس موقع پر جہاں علما نے حقوقِ نسواں بل میں اصلاح کے لئے تین ابتدائی ترامیم(iii) تجویز کی تھیں، وہاں خواتین کے اصلاحِ احوال کے لئے بھی متفقہ طورپرچھ تجاویز پیش کی گئی تھیں۔ جس کے بعدچوہدری شجاعت حسین نے ملک بھر کے نمائندہ اِن علماے کرام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر دو نوعیت کی تجاویز کو قانون سازی کے مرحلے میں لائیں گے۔ ان دِنوں حکومت، سینئرسیاستدانوں اور غیرسیاسی علماے کرام کے یہ مذاکرات جلی سرخیوں سے اخبارات میں شائع ہوئے اور حکومت نے عوام کو یہ بھی باور کرایا کہ علما حکومت کے پیش کردہ بل سے متفق ہوگئے ہیں، جبکہ حقیقی صورتحال اس سے بالکل برعکس تھی۔

جہاں تک ان ہردو نوعیت کی تجاویز کا تعلق ہے توحقوقِ نسواں بل سے متعلقہ پہلی تین تجاویز میں سے کسی ایک کو بھی بل کی منظوری کے وقت درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا اور دوسری چھ تجاویز پر، جودرحقیقت طبقہ نسواں کے مسائل کے حقیقی حل کے حوالے سے پیش کی گئی تھیں، حکومت نے علماے کرام سے سودے بازی شروع کردی۔ حکومت کا کہنا یہ تھا کہ علما ہمارے پیش کردہ حقوقِ نسواں بل کوبعینہٖ تسلیم کرلیں تو ہم ان چھ تجاویز کو بھی قانون میں شامل کرلیں گے، جیسا کہ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

قارئین کو یہ بھی یاد ہوگا کہ حقوقِ نسواں بل کی منظوری کے وقت چوہدری شجاعت حسین نے قومی اسمبلی میں اپنا مشروط استعفیٰ بھی پیش کیا تھا جسے سپیکر نے اسی وقت واپس کردیا۔ چوہدری صاحب نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ 31؍دسمبر تک اس بل میں سے کوئی ایک بات بھی خلافِ اسلام ثابت ہوجائے تو وہ مستعفی ہوجائیں گے، لیکن ملک کے ممتاز علما، مثلاً مفتی منیب الرحمن، مولانا تقی عثمانی کے علاوہ مرکزی جمعیت اہل حدیث کی چھ رکنی علما کمیٹی کے متفقہ تفصیلی موقف اور شیعہ مکتب ِفکر کے مولانا حسین نقوی قمی کے بادلائل مضامین کے باوجود آج تک اُنہوں نے اپنا وعدہ ایفا نہیں کیا۔ملک کے تمام مکاتب ِفکر کے ممتاز نمائندہ علما کے بعد اور کون سے وہ لوگ ہیں جن کے خلاف ِاسلام قرار دینے کا چوہدری صاحب کوانتظار ہے؟

اب گذشتہ ماہ، فروری 2007ء میں چوہدری صاحب نے ان علما مذاکرات کے نتیجے میں تحریر کی جانے والی علما کی دوسری چھ متفقہ تجاویز کو بھی اسمبلی میں پیش کردیا ہے، لیکن یہاں بھی اُنہوں نے یہ سیاسی چال کھیلی ہے کہ اس بل کو حکومتی پارٹی مسلم لیگ 'ق' کے پلیٹ فارم سے پیش کرنے کی بجائے اُنہوں نے اپنی ذاتی حیثیت سے بطورِ رکن اسمبلی پیش کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے، اس سے ان کی نیم دلانہ کوشش کا بخوبی علم ہوجاتاہے۔ چوہدری صاحب کا اس بل کو پیش کرنے کا مقصد اپنی اسلام پسندی کی گرتی ساکھ کو سنبھالا دینا اور علما سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کی طرف ایک قدم اُٹھانا ہے۔ یہ بل اس وقت ایوانِ اسمبلی میں زیر بحث آنے کا منتظر ہے۔ ہم یہاں اس 'خواتین دشمن رواجات بل' پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہیں۔

علما کی پیش کردہ چھ تجاویزکا متن
سب سے پہلے تو علما کی ان تجاویز کا اصل متن ملاحظہ ہو، جو 10 ستمبر2006ء کے اجلاس میں پیش کی گئیں اور جو موجودہ بل کا اصل محرک بنیں۔ یاد رہے کہ اس اجلاس میں چوہدری شجاعت حسین کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی، سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین سردار نصر اللہ دریشک اور وزارتِ قانون کے بعض ذمہ دار بھی موجود تھے۔دوسری طرف علماے کرام میں مولانا تقی عثمانی،ڈاکٹر سرفراز نعیمی، مفتی منیب الرحمن، مولانا زاہدالراشدی، مولانا حسن جان، مفتی غلام الرحمن اور قاری حنیف جالندھری وغیرہ شامل تھے۔علما کی پیش کردہ تجاویز کا متن یہ ہے:
''اگر حکومت واقعی پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے عملی پیش رفت کرنا چاہتی ہے تو اسے مندرجہ ذیل قانونی اقدامات کرنے چاہئیں:

1. خواتین کوعملاً وراثت میں عام طورپر محروم رکھا جاتا ہے،اس کے سد ِباب کے لئے مستقل قانون بنایا جائے۔
2. بعض علاقوں میں خواتین کوان کی مرضی کے خلاف نکاح پرمجبور کیا جاتاہے، اس کی روک تھام کے لئے قانون سازی کی جائے اور اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔
3. بیک وقت تین طلاقیں دینے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے اور ایسی دستاویز لکھنے والے نوٹری پبلک او ر وثیقہ نویس کو بھی شریک ِجرم قرار دیا جائے۔
4. قرآن کے ساتھ نکاح کی مذموم رسم کا سدباب کیا جائے۔
5. جبری وٹہ سٹہ یعنی نکاحِ شغار کو قانوناً جرم قرار دیا جائے۔
6. عورتوں کی خرید وفروخت اور اُنہیں میراث بنانے کے غیرشرعی رواج اور رسوم(iv) کا قانوناً سدباب کیاجائے۔''

بل پر تبصرہ
اب ان تجاویز کو قومی اسمبلی میں ' خواتین دشمن رواجات بل' کے نام سے پیش کیا گیا ہے، اس بل کے مکمل مندرجات مضمون کے آخر میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ چونکہ اس بل پر اسمبلی میں کس وقت بھی بحث ہوسکتی ہے، اس لئے قارئین کو ضروری حقائق سے آگاہ ہونا چاہئے:
1 اوّل تو اس بل میں یہ امر قابل غور ہے کہ وعدے کے باوجود علماے کرام کے پیش کردہ چھ میں سے محض تین نکات کو اس میں شامل کیا گیا ہے اور نکتہ نمبر۳،۵ اور۶ کو سرے سے ہی حذف کردیا گیا ہے۔نکتہ نمبر ۳ میں درج بیک وقت طلاقِ ثلاثہ ہمارے معاشرے کا ایک گمبھیر مسئلہ ہے، جس کی بنیاد شرعی موقف کی بجائے زیادہ تر وثیقہ نویسوں کی تحریریں بنتی ہیں۔ ملک کے معتمد ترین علما نے بھی یہ قرار دیا ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں دینا سنگین جرم(v)ہے جس کی سزا مقرر ہونی چاہئے۔ یہی صورتحال نکتہ نمبر ۵ میں موجود نکاحِ شغار (وٹہ سٹہ) کے بارے میں بھی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی رو سے ایسا نکاح حرام ہے کیونکہ اس سے بے شمار معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں، جس کا خمیازہ ہردو طرف سے آخرکار عورت کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود اس کو قانون سازی سے خارج کرنے کی کوئی و جہ اس کے سوا سمجھ نہیں آتی کہ ا س پر سزا کے اجرا سے ملک میں اسلامی قانون کی طرف ایک مثبت پیش رفت ہوتی اور ملک کا اسلامی تشخص اُجاگر ہوتا ہے۔ یہی صورتحال عورتوںکی خرید وفروخت کے بارے میں بھی ہے کہ یہ ایک انتہائی مکروہ اقدام ہے کہ عورت کو مال وزَر اور ڈھو ڈنگر کی طرح فروخت کیا جائے۔

2 اس بل میں بعض باتیںابھی مزید اصلاح طلب ہیں، مثا ل کے طورپر کسی عورت کو بدلِ صلح یا ونی(vi)کی رسم کی بھینٹ چڑھانے کی سزا زیادہ سے زیادہ تین سال قید یا کوئی بھی جرمانہ تجویز کی گئی ہے، یہ سزا جرم کی سنگینی کے بالمقابل کافی کم معلوم ہوتی ہے۔ اس سزا کا مطلب یہ ہے کہ کسی عورت کی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کرنے یا اسے بلانکاح مخالفوں کے حوالے کردینے کے باوجود مجرم کو محض دوماہ سزا اور ۵ صد روپے جرمانہ کی سزا دینا بھی گوارا کیا جاسکتاہے۔ جرم کی نوعیت کے مطابق اس کی سزا میں اضافہ کی شدید ضرورت ہے۔سزا کی کمی کی یہی صورتِ حال قرآن کے ساتھ شادی(vii)اور جبری شادی کروانے کی صورت میں بھی ہے۔

دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ چوہدری صاحب کی نظرمیں عورت کو وراثت سے اپنا حصہ وصول کرنے سے روکنا تو سنگین ترجرم ہے، جس کی سزا ۷ برس تک یا جرمانہ یا دونوں ہوسکتی ہیں، جبکہ مذکورہ بالاتینوں جرائم کی سنگینی ان سے کہیں زیادہ ہے۔ گویاان کی نظر میں عورت کے مالی استحقاق پر دست درازی اس کو زندگی بھر غلام بنانا یامخالفین کے سپرد کرنے کے مقابلے میں زیادہ سنگین امر ہے۔ غرض ان جرائم کی سزائوں پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔ قرین قیاس یہی ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھے بعض جاگیرداروں اور وڈیروں کو رعایت دینے کے لئے ان جرائم کی سزا کم رکھی گئی ہے کیونکہ ان جرائم میں عموماً ایسے بااثر افراد ہی ملوث ہوتے ہیں۔

3 یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ حالیہ بل کی ۴۹۸ ج کی شق نمبر ۲ کے تحت عورت کا باقی ماندہ زندگی میں شادی نہ کرنے، وراثت میں اپنے حصہ کا دعویٰ نہ کرنے کے حلف وغیرہ کو'قرآن پاک سے شادی' سے تعبیرکیا جائے گا۔ ان جرائم کا یہ نام مناسب نہیں۔ اسم اور مسمیّٰ میں ایسی مناسبت کا پایا جانا ضروری ہے کہ اسم بول کر مسمیٰ کی طرف ازخود ذہن مائل ہوجائے۔ ان جرائم کو ان واقعات میں پائے جانے والے مظالم سے ہی منسوب کرنا قرین قیاس ہے، وگرنہ ان جرائم کے لئے یہ اصطلاح خلط ِمبحث کو جنم دے گی، بالخصوص اس وقت بھی جبکہ اس اصطلاح کے تحت آنے والے بعض جرائم، مثلاً عورت کو وراثت سے روکنا اور دیگرجرائم کی سزائوں میں بھی واضح فرق موجود ہے۔

4 اس بل کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ علما کی تجویز پرجاری ہونے والے اس بل میں اسی خلافِ اسلام قانون سازی اور صنفی امتیازکو دوبارہ شامل کردیا گیا ہے، جن کے خاتمے کے لئے علماے کرام پہلے دن سے کوشاں رہے ہیں۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ
'حقوقِ نسواںایکٹ 2006ء'کا حاصل یہ ہے کہ ا س کے ذریعے زنا کے دیگرجرائم کی سزا کو عملاً معطل کیا گیااور اُن پر عمل درآمد کے تمام راستے مسدود کردیے گئے ہیں۔ اس بل کے ذریعے زنا کی رپورٹ کرنے والے کو فوری سزا ملنے کے امکانات تو کافی قوی ہیں، البتہ زنا کے مجرموں کو ہرممکنہ چھوٹ میسر کردی گئی ہے۔ جبکہ اس بل میں زنا بالجبر کی سزا کو زیادہ سے زیادہ سنگین بنانے کی کوشش کی گئی تھی، اور ا س پر عمل درآمد کے دوران جو جو رکاوٹیں پیدا ہونے کا اِمکان تھا، ان کو اس بھونڈے انداز میں ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ قانون ایک مذاق بن کررہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں ا س کے تحت درج ہونے والے زنا بالجبر کے پہلے مقدمہ نے ہی ا س قانون کی عملی صورتحال کے متعلق سنگین سوالات پیدا کردیے۔ ا س بل میں زنا بالجبر کو قابل عمل بنانے کی وجہ یہ تھی کہ اس جرم میں عورت کو سزا سے مستثنیٰ کیا گیا اور اکیلا مرد ہی مجرم قرار پاتا ہے۔ غالباً اس ایکٹ کے عنوان 'تحفظ ِنسواں بل' کا عملی تقاضا بھی یہی تھا۔

موجودہ 'خواتین دشمن رواجات بل' میں 'تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ' سے حاصل ہونے والے اسی اکلوتینتیجے یعنی زنا بالجبر کی سزا کو صوبہ جات بالخصوص صوبہ سرحد وبلوچستان میں جہاں متحدہ مجلس عمل اقتدار میں ہے،قابل نفاذ بنانے کے لئے ترمیم نمبر4 کو متعارف کرایا گیا ہے جس کا متن یہ ہے :
''402 د: صوبائی حکومت زنا بالجبر کی سزائوں میں مداخلت نہیں کرے گی: باوجود اس امرکے کہ دفعہ 401، 402، 402 ب میں کوئی چیز مذکورہو، صوبائی حکومت مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 376 کے تحت دی گئی کسی سزا کو معطل، معاف یاکم نہیں کرسکے گی۔''

یاد رہے کہ اس سے پہلے 'تحفظ ِحقوق نسواں بل' کی ترمیم نمبر 18 کے ذریعے حدود آرڈیننس کی دفعہ20 کی اُس شق 5 کو منسوخ کردیا گیا تھا جس میں یہ تھا کہ حدود آرڈیننس1979ء میں درج سزائوں کو کوئی معاف نہیں کرسکے گا۔ اس ترمیم نمبر18 سے ایک طرف حدود آرڈیننس کی باقی ماندہ دو دفعات کو ماتحت کرنے کا مقصد پورا کیا گیا تودوسری طرف خود ساختہ زنا بالجبر کی سزا کو وہی شرعی سزائوں والی برتر حیثیت دینے کے لئے مذکورہ بالا ترمیم (نمبر4) لانے کی ضرورت باقی تھی تاکہ زنا بالجبر (دفعہ 376)کی سزا، جو 'تحفظ ِحقوقِ نسواں بل' کا حاصل اور مآل کار ہے، کو تمام دیگر قوانین اور اختیارات پر برتری حاصل ہوجائے اور ملک بھر میں اس کے اِجرا میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔

یہ امر آئین پاکستان کی دفعہ 227؍اے، تمام عہدوں کے لئے، لئے جانے حلف اورقرآن مجید کی آیت (النساء: 65) کے صریح خلاف ہے کہ قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو ان کے اُمتیوں کے خود ساختہ قوانین کے ماتحت کردیاجائے، پھر یہ بات ا س سے بھی سنگین ترہے کہ ان خود ساختہ قوانین کو شرعی قوانین پر ہرنوعیت کی برتری بھی دے دی جائے۔ یہ ترمیم نہ صرف اسلامی تقاضوں سے انحراف بلکہ صوبائی حکومتوں کے اختیارات پر بھی ڈاکہ ہے۔ چوہدری شجاعت حسین صاحب سے ہمارا یہ سوال ہے کہ اگر اُنہیں اسلامی قوانین برقرار رکھوانے کی صلاحیت میسر نہیں توپھر کم ازکم وہ اسلام مخالف قوانین کو اسمبلی سے منظور کروانے کی کوشش تو نہ کریں۔ایسے اقدامات ان کی گرتی ہوئی دینی ساکھ کو مزید ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے۔

5 بل کی ترمیم نمبر3 کے ذریعے اضافہ کی جانے والی دفعہ 498 د کا متن ملاحظہ ہو:
''لعان کے طریق کار کے زیر کارروائی خاوند کی غیرحاضری میں فسخ نکاح وغیرہ: (1) باوجود اس امرکے، کہ کوئی چیز جرم قذف (نفاذِ حد) آرڈیننس 1979ء (نمبر8 مجریہ 1979ء) کی دفعہ 14 میں، اور انفساخِ مسلم نکاح جات ایکٹ 1939ء (نمبر8 مجریہ 1939ء) کے علاوہ مذکور ہو، جہاں خاوند کو قذف کے لئے کورٹ میں اپنی بیوی کی شکایت یا رپورٹ، اس کی غیرحاضری یا بصورتِ دیگر مذکورہ دفعہ میں صراحت کردہ لعان کے طریق کار میں زیر کارروائی ہونے میںناکامی ہوتی ہو، یہ بیوی کے لئے مجاز کورٹ کی وساطت سے اپنے نکاح کے انفساخ حاصل کرنے کے لئے جائز بنیاد ہوگی اور خاوند کو قذف کی سزا بھی دی جائے گی۔''

سادہ الفاظ میں اس ترمیم کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی خاوند لعان کی کاروائی کے دوران بیوی کی غیرحاضری، شواہد کی عدمِ فراہمی یا قذف آرڈیننس مجریہ 1979ء کی دفعہ 14 میں درج طریقہ کا رکے مطابق کسی بنیاد پر لعان کی سزا دلوانے میں ناکام رہتاہے تو یہ امر بیوی کے لئے نہ صرف مجاز کورٹ سے انفساخِ نکاح کی جائز بنیاد ہوگا بلکہ شوہر کے لئے قذف کی سزا کا موجب بھی ہوگا۔

زیر نظر بل کی یہ دفعات دراصل تحفظ ِحقوق نسواںایکٹ کا تتمہ ہیں، اگر بعض صنفی امتیازات اور صریح ناانصافیاں پہلے قانون سازی میں آنے سے بچ گئی تھیں تو اب ان کو اس بل کے ذریعے پورا کیا جارہا ہے۔ حدقذف آرڈیننس 1979ء کی دفعہ نمبر۱۴ میں یہ تھاکہ اگر خاوند اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگاتاہے تو یہ لعان کا کیس شمارہوگاجس کے بعد سورة النور کی آیت نمبر6 تا 9 میں درج شدہ طریقہ کار کو پیش کیا گیا۔ مناسب ہوگا کہ اس دفعہ کے مکمل متن کو یہاں ذکر کردیا جائے کیونکہ ہمارے آخری دونوں تبصرے اسی حوالے سے ہیں:
''دفعہ14:جب کوئی شخص ایک عدالت کے سامنے اپنی محصنہ بیوی کے بارے میں ایسا الزام لگائے گا جو زنا کی دفعہ ۵کے تحت آتا ہے اور اس کی بیوی اس الزام کو درست تسلیم کرنے سے انکار کردے تو لعان کے بارے میں درج ذیل طریقہ کار قابل اطلاق ہو گا:

1 (الف) شوہر حلف اُٹھا کر عدالت کے سامنے کہے گا کہ
''میں اللہ کی قسم اُٹھاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ میں اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگاتے ہوئے یقین رکھتا ہوں کہ میں سچا ہوں(بیوی کا نام لے گا) اور جب وہ چار مرتبہ یہ دہرائے گا تو پھر کہے گا: '' مجھ پر اللہ کی لعنت ہو، اگر میں جھوٹا ہوں اور میرا اپنی بیوی (نام لے کر) پر زنا کا الزام جھوٹا ہو، اور(ب)اس کے جواب میں، بیوی شوہر کے بیان پر دفعہ(الف)کے مطابق عدالت کے سامنے کہے گی کہ ''میں اللہ کی قسم اُٹھاتی ہوں کہ میرا شوہریقینا مجھ پر زنا کا الزام لگانے میں جھوٹا ہے۔'' اور جب وہ چار مرتبہ یہ قسم اُٹھائے گی تو کہے گی کہ ''اگر میرا شوہرمجھ پر زنا کے الزام میں سچا ہے تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔''

2 جب ذیلی دفعہ'1'

میں بیان کیا گیا طریقہ کار پورا ہو جائے گا تو عدالت ایک حکم کے ذریعے دونوں کے درمیان نکاح کے ختم ہونے کااعلان کرے گی۔ اس حکم کو شادی کے خاتمے کا حتمی حکم سمجھاجائے گا اور اس کے خلاف کہیں اپیل نہیں ہو سکے گی۔

3 جہاں شوہر یا اس کی بیوی ذیلی دفعہ'1'

میں دئیے گئے طریقہ کار کے مطابق تیار نہ ہوں گے تو شوہر یا بیوی کو قید کردیا جائے گا حتیٰ کہ
الف) شوہر کی صورت میں جب اس نے بیان کئے گئے طریقے پر عمل کرنے کی رضا مندی ظاہر کر دی ہو یا
ب) بیوی کے معاملے میں، جب اس نے بیان کئے گئے طریقے پر عمل درآمد کے لئے رضا مندی ظاہر کر دی ہو یاشوہرکاالزام درست تسلیم کر لیا ہو۔


4 جس بیوی نے شوہر کا الزام تسلیم کر لیا ہو،

اس پر زنا کی وہ سزا دی جائے گی جس میں حد جاری ہوتی ہے، جیسا کہ حدود کے نفاذ میں 'زنا آرڈی ننس' میں یہ سزا مذکور ہے۔''

تبصرہ:ذیلی دفعہ 3میں ہے کہ اگر لعان کی کاروائی میں شوہر یا بیوی کوئی ایک تعطل ڈالے تو اسے اس وقت تک قید میں ڈال دیا جائے جب تک وہ کاروائی مکمل کرنے پر آمادہ نہ ہو۔ پہلے 'حقوقِ نسواں ایکٹ 2006ء' کی ترمیم نمبر 25 نے اس دفعہ 3 اور 4 کو منسوخ کردیاتھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لعان کی کاروائی عملاً معطل ہوگئی کیونکہ اگر کوئی شوہر بیوی پر لعان کا الزام لگا کرکاروائی کو معلق رکھ دے تو بیوی معلق رہے گی اور اس کے لئے یہ الزام ذہنی اذیت کا باعث بنا رہے گا۔ چنانچہ اس ترمیم کے ذریعے عورتوں کو رعایت ملنے کی بجائے ان کی مشکل میں مزید اضافہ کردیا گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مرد کو الزام لگانے کے بعد اس الزا م کے شرعی تقاضے پورا کرنے کا پابند بنایا جاتا، وگرنہ وہ سزا کا سامنا کرتا، جیساکہ منسوخ شدہ دفعہ میں تھا، لیکن چونکہ اس طرح لعان کے اسلامی تصور کی طرف پیش قدمی ہوتی ہے جو سیکولر ماہرین قانون کے لئے گوارا نہیں، ا س لئے غلط ترمیم کی اصلاح کی بجائے اب 'خواتین دشمن رواجات بل' کے ذریعے ایک مزید قدم یہ اُٹھایا گیا کہ اگر کسی بناپر لعان کی کاروائی مکمل نہیں ہوپاتی جس میں بیوی کی غیرحاضری بھی شامل ہے تواس صورت میں بیوی محض اسی بنا پر مجازکورٹ سے طلاق کی اجازت حاصل کرکے شوہر پر قذف کی سزا بھی عائد کراسکتی ہے، یاد رہے کہ قذف کی اب ترمیم شدہ سزا ۵ سال قید اور ۱۰ ہزار روپے جرمانہ ہے۔

یہ قانون سازی کس طرح اسلامی تقاضوں کے مطابق ہے؟ قانون کا مقصد کیا رشتوں کو جوڑنا ہونا چاہئے یا اُنہیں علیحدگی کی ترغیب دینا اور جھگڑے کے حالات پیدا کرنا ؟ مزید برآں یہ ترمیم مزید صنفی امتیاز کی بھی ایک سنگین مثال ہے کہ اگر کوئی شوہر اپنی بدکردار بیوی پر الزامِ زنا لگائے توبیوی بڑی آسانی سے خود غیر حاضر رہ کرشوہر کو دو طرح کے نتائج سے دوچار کرسکتی ہے۔ اوّل توشوہر کا یہ الزام آخرکار بیوی کے لئے مجاز کورٹ سے طلاق حاصل کرلینے کی جائز بنیاد قرار پائے گا۔ مزید برآں شوہر کو اس الزام کا خمیازہ یہ بھی بھگتنا پڑے گاکہ اسے حد ِقذف سے دوچارہونا ہوگا۔

اسلام نے شوہر کوعام مردوں کے بالمقابل لعان کے ذریعے ایک اضافی استحقاق دیا ہے کہ ایک عام مسلمان کے برعکس عورت پرالزام لگانے والا اگر اس کا شوہر ہے توایسا شوہر چار گواہوں کی بجائے چار قسمیں کھا کر بھی اپنے دعوے پر برقرار رہ سکتا ہے۔ شریعت ِاسلامیہ میں لعان کا منشا یہ ہے کہ اس طرح شوہر اپنے مشکوک بچے کی ولدیت اور ذمہ داری سے بری ہوسکے۔ جبکہ حالیہ قانون سازی کے ذریعے شوہر کو یہ رعایت ملنے کی بجائے اس پر حدقذف کا اجرا کرکے اسے ہراساں کیا جارہا ہے ،جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ عملاً لعان کا اسلامی تصور سرے سے ناقابل عمل قرار پائے گا، کیونکہ شوہر کے الزام کے بعد ہردوفریق کو قانونی طورپر تو کاروائی شروع کرنے کی کوئی پابندی موجود نہیں، البتہ بیوی کو تنسیخ نکاح کا سر ٹیفکیٹ اور شوہر کو حد قذف کا ڈراوا ضرور موجود ہے۔ یہ شق اسلام سے صریحاً متصادم اور صنفی امتیاز کی بنیاد ہے!

یہ تواس شق کی قانونی صورتحال ہے، لیکن اس قانون سازی کا معاشرتی نتیجہ یہ نکلے گا کہ شوہر وں کے اپنی بیویوں پر الزامِ زنا لگانے میں عملاً اضافہ ہوگا کیونکہ عام پاکستانی عورت ان قانونی جھمیلوں سے بہت دور ہے، اسے اپنے شوہر کو سزا دلوانے کی بجائے اس کے ساتھ زندگی بسر کرنے میں زیادہ دلچسپی ہے کیونکہ ہماریمعاشرے میں شادی شدہ عورت کا دوبارہ نکاح بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔اس لئے عملاً اس شق سے خواتین کو تحفظ ملنے کی بجائے ان کی ذہنی اذیت میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔

جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اسلام میں اس کا بڑا بہترین حل موجود ہے۔ کیونکہ اسلام کی رو سے اگر کوئی مرد اپنی بیوی پر الزامِ زنا عائد کرے تو اس کے لئے باقی ماندہ زندگی اس بیوی کے ساتھ بسرکرناکسی طور ممکن نہیںرہتا۔ بیوی پر الزام لگانے کامطلب یہ ہے کہ یا تو لعان کے بعد بیوی کے اعتراف کی صورت میں شادی شدہ بیوی کو سنگسار کردیا جائے یا عدمِ اعتراف کی صورت میں دونوں میں دائمی جدائی کرا دی جائے۔ افسوس کہ مسلمان اسلام کے ایسے بہترین قانون سے جس میں طبقہ نسواں کی حقیقی بھلائی موجود ہے کہ کوئی مرد اپنی بیوی پر الزام سوچ سمجھ کر ہی لگائے، خود ہی دستبردار ہونے پر تلے بیٹھے ہیں۔

5 ترمیم نمبر 3 کی آخری شق 498ھ

بھی صنفی امتیاز کی ایک اور مثال اور عدل وانصاف کی خود ساختہ میزان ہے۔جس کا متن یہ ہے کہ '' جہاں بیوی لعان کی زیرکاروائی زنا کا اعتراف کرتی ہے تو وہ زنا کے استغاثہ کا موجب ہوگی۔''
اوپر درج کردہ دفعہ نمبر14 کی ذیلی شق 4میں یہ ہے کہ
''جو بیوی دوران لعانِ اعتراف کرلے، اس پر حدزناجاری کی جائے گی۔''
'تحفظ ِحقوقِ نسواں ایکٹ2006ء 'کی ترمیم نمبر25 کے ذریعے اس ذیلی شق کو منسوخ کرکے اب 'خواتین دشمن رواجات بل2007ء' کے ذریعے اس کا متبادل یہ لایا جارہا ہے کہ عورت کا ایسا اعتراف زنا کی سزا جاری ہونے کی بجائے زنا کے کیس کا نقطہ آغازہوگا۔

ابھی اس سے قبل دفعہ '498؍د' گزر چکی ہے جس میں یہ تھاکہ لعان کی کاروائی میں رکاوٹ ہونے کی بنا پر ''شوہر کو حدقذف کی سزا بھی دی جائے گی۔'' توجہ فرمائیے کہ شوہر کو سزا دینے کا مرحلہ ہو تو کوئی کوتاہی بھی سزادینے کی قانونی وجہ بن سکتی ہے، البتہ جب عورت کو سزا دینے کی بات ہو تو اس کا اعتراف بھی سزا دینے کی بنیاد کی بجائے کیس شروع کرنے کی بنیاد قرار پائے گا تاکہ اس دوران عورت اگر چاہے تو اس اعتراف سے رجوع کرکے سزا سے استثنا حاصل کرلے۔ یہ ہے عدل وانصاف کی خود ساختہ میزان اورصنفی امتیاز کی ایک اورمثال، جسے قانون کے ذریعے مستقل طورپر رواج دیا جارہا ہے۔ قانون کو ان امتیازات کا خاتمہ کرنا چاہئے نہ کہ خود ایسے امتیازات کی بنیاد بننا چاہئے...!!

جہاں تک اس ترمیم کے بارے میں اسلامی موقف کا تعلق ہے تو یہ امر درست ہے کہ زنا کے کیس میں ملزم کااعتراف ہی کافی نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے واقعات میں اعتراف کرنے والوں سے بہ تکرار تصدیق طلب کی۔1
ایسے ہی حضرت علیؓ نے بھی اپنے دورِ خلافت میں اعتراف کرنے والی عورت 'شراحہ' سے بار بار تصدیق چاہی۔ 2

البتہ لعان کے سلسلے میں چونکہ معاملہ باقاعدہ اللہ کے نام پر حلف لینے کا ہے اور شوہر،بیو ی سے یہ حلف مقابلتاً لیا جائے گا، اس لئے لعان کی صورت میں عورت کا محض اعتراف ہی اسے زنا کی سزا سے دوچارکرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ واللہ اعلم

بل سے مطلوب 'سیاسی اہداف'
ان خلافِ اسلام ترامیم کو لانے کا بظاہر مقصد یہ ہے کہ
مذکورہ بالا ترامیم گو کہ کامل نہیں اور ان میں بعض اصلاحات کی شدید ضرورت ہے، لیکن ایک جزوی مثبت پیش رفت ہونے کے ناطے متحدہ مجلس عمل اگر ان کی منظوری کے لئے ووٹ ڈالتی ہے، تو اس سے ازخود 'تحفظ ِحقوقِ نسواں ایکٹ' کو اور مزید خلافِ اسلام ترامیم کو بھی قانونی تحفظ اور عملی صلاحیت حاصل ہوجائے گی۔ اور اگر وہ ان خلافِ اسلام ترامیم کی بنا پر اس بل کے حق میں ووٹ ڈالنے سے گریز کرتی ہے تو اس صورت میں طبقہ نسواں کے اصلاحِ احوال میں مطلوبہ پیش رفت نہ ہو گی۔گویا ہر دو صورت میں اس بل کے ذریعے اسلام اور پاکستانی معاشرے کو ہی نقصان پہنچتا ہے۔کیونکہ اگر یہ بل منظور نہیں ہوتا تو تب مثبت جزوی پیش رفت نہ ہونا بھی ایک نقصان ہے اور اگر یہ منظور ہوجاتا ہے تو خلافِ اسلام ترامیم کی منظوری سے بھی شریعت ِاسلامیہ پر حرف آتا ہے۔

مزید برآں مذکورہ بالا آخری دو ترامیم کے تجزیے سے بخوبی یہ بھی پتہ چلتاہے کہ ان کا اضافہ اس بل میں مسئلہ کو مزید اُلجھانے اور مجلس عمل سے سودے بازی کے لئے کیا گیا ہے، کیونکہ نہ تو بل کے عنوان سے ان کی کوئی مناسبت ہے اور نہ ہی شق نمبر 2 اور3 میں مندرج ترامیم اور ترمیم نمبر 3 اور 4 میں کوئی داخلی مماثلت پائی جاتی ہے۔ آسان الفاظ میں یہ بل ایک سیاسی ہتھکنڈے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا جس سے چوہدری صاحب ایک طرف علما کے سامنے اپنے وعدے میں جزوی طورپرسچے ثابت ہونا اور اپنی اسلام دوستی کا ٹوٹا بھرم پھرسے جوڑنا چاہتے ہیں، دوسری طرف 'خواتین دشمن رواجات' کے خاتمے کے نام پر طبقہ خواتین کی ہمدردی سے بھی ہاتھ نہیں دھونا چاہتے اور 'حقوقِ نسواں ایکٹ' کو تحفظ بلکہ توسیع دے کر پرویز مشرف کی حکومتی تائید بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ عملاً یہ بل سیاسی سودے بازی کی ایک حیلہ گری توہے، لیکن خواتین کے حقیقی مسائل اور عملی قانون سازی کی طرف کوئی پیش قدمی اس میں نہیں پائی جاتی!!

زیر نظر حالیہ بل پر تبصرہ اس لئے مناسب خیال کیا گیا کہ یہ سابقہ حقوقِ نسواں ایکٹ کا ہی ایک تتمہ ہے، اور اس بل کے پیش ہونے کے دن سے اس پر کوئی جامع تبصرہ سامنے نہیں آیا۔ مستقبل میں جب بھی 'حقوقِ نسواں ایکٹ' کو کسی عدالت میں چیلنج کیا جائے گا تو اس کے تتمہ کو بھی زیربحث لایا جائے گا، اس سلسلے میں علماے کرام کا موقف واضح ہونا چاہئے اور اگر یہ اسمبلی میں پیش ہو، توان خدشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی اس پر رائے زنی کی جانی چاہئے۔

یاد رہے کہ 'خواتین دشمن رواجات' میں سے قتل غیرت کے بارے میں نومبر 2004ء میں قانون سازی کی گئی تھی، اس موقعہ پرراقم نے بڑی تفصیل سے قتل غیرت کی سزا کے بارے میں پائے جانے والے مختلف آراکا تجزیہ کرتے ہوئے 'محدث' میں شریعت اسلامیہ کا موقف پیش کیا تھا، پھر حدود اللہ کے بارے میں گذشتہ برس جنونی مہم سازی ہوئی جس کے دفاع میں ہر مرحلے کے حوالے سے متعدد مقالات 'محدث' میں شائع کئے گئے، اب اس سلسلے کا تیسرا مرحلہ اسمبلی میں زیر بحث آرہا ہے تو اس حوالے سے بھی محدث میں زیر نظر تفصیلی بحث ہدیۂ قارئین کی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسلام کے لئے ہماری کاوشوں کو شرفِ قبولیت سے نوازے اوراس ملک پر مسلط اسلام مخالف عناصر سے ہمیں نجات عنایت فرما کر ایسے حکمران عطا فرمائے جو نظریۂ پاکستان کے خادم اور اسلام کے حقیقی علمبردار ہوں تاکہ جس مقصد کے لئے یہ وطن عزیز حاصل کیا گیا، 60 برس گزرنے کے بعد اس سمت کوئی مثبت پیش رفت ہوسکے۔ آمین!

حقوقِ نسواں کے لئے قانون سازی اور حکومت کا رویہ
متحدہ مجلس عمل کی طرف سے گذشتہ سالوں میں پاکستانی خواتین کے صورتحال کی اصلاح کے لئے قومی اسمبلی میں تقریباً 20 اورسینٹ آف پاکستان میں 6 بل جمع کرائے گئے۔ اگر حکومت خواتین کی اصلاح کے بارے میں سنجیدہ ہوتی تو وہ ان میں سے اکثر بلوں کو زیر بحث لاتی، جبکہ عملاًان میں سے اکثر بلوں کو مسترد کردیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چوہدری صاحب کے حالیہ بل کی ابتدائی تین ترامیم بھی ان پیش کئے جانے والے بلوں کا چربہ ہیں۔ اس سے بخوبی یہ پتہ چلتا ہے کہ اصل مسئلہ خواتین کی صورتحال کی اصلاح کی بجائے محض ان کے نام پر سیاست چمکانے کا ہے۔بلکہ حقوقِ نسواں کی بحالی کا یہ سیاسی جنون اس وقت دوچند ہوجاتاہے، جب اس کا تقاضا مغرب کی کسی حکومت یا ادارے کی طرف سے ہو۔ جہاں تک پاکستانی عورت کے عملی مسائل ہیں، ان کی اصلاح کے لئے حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ذیل میں مجلس عمل کے پیش کردہ بعض بلوں کا مختصر تعارف ملاحظہ فرمائیے :
(1) مسلم عائلی قوانین آرڈیننس(ترمیمی) بل 2006ء: اس قانون کی دفعہ 7 میں طلاق کی رجسٹریشن کا نوٹس ممکنہ مدت میں بھجوانا شوہر کی ذمہ داری قرار دیا گیا تھا، اس بل میں یہ ترمیم تجویز کی گئی ہے کہ اگر شوہر تین روز کے اندر طلاق کا نوٹس نہیں بھجواتا تو بیوی طلاق کی رجسٹریشن خود بھی کراسکتی ہے۔
(2) مسلم عائلی قوانین آرڈیننس(ترمیمی) بل 2006ء: اس قانون کی دفعہ 9 خاتون اور بچوں کے نفقہ کے متعلق ہے۔ لیکن بیوہ خاتون یا نادار فرد کی بیوی کے لئے کوئی قانون موجود نہیں۔ چنانچہ یہ ترمیم تجویز کی گئی کہ ایسی صورت میں وراثت میں حصہ کی ترتیب سے مرد رشتہ داروں کو کفالت کا ذمہ دار قرار دیا جائے، البتہ اس بنا پر عورت سے بچوں کی تربیت کا حق نہ چھینا جائے۔
(3)دستور ترمیمی ایکٹ 2006ء: 'مسلم پرسنل لائ' کو دستور کی دفعہ 203 ب کے تحت وفاقی شرعی عدالت کے دائرئہ سماعت سے خارج کردیا گیا ہے، جبکہ اس قانون میں کئی باتیں خلافِ اسلام ہیں جن کی نشاندہی اسلامی نظریاتی کونسل بھی کرچکی ہے، اس بل میں ایسی ترمیم تجویز کی گئی ہے تا کہ یہ قانون بھی وفاقی شرعی عدالت کے دائرئہ اختیار میں آجائے۔
(4) ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کا بل2005ء: اس بل میں ایسی خواتین کی تعیناتی گھر کے قریب، اوقاتِ کار کے تعین میں عورت کی خانگی ذمہ داریوں کو پیش نظررکھنا، ان کے بچوں کیلئے چائلڈ کیئرسنٹرکی سہولت اور زچگی کی رخصت کو تین ماہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
(5) خواتین کی ترقی اور بہبود کابل2005ء :اس بل میں بچیوں کی مفت لازمی تعلیم، خواتین کے لئے الگ یونیورسٹیاں، زچہ بچہ صحت کے زیادہ مراکز، تھانوں میں خواتین کے لئے خواتین عملہ، پبلک مقامات پر خواتین کے لئے مستقل انتظام وغیرہ پرقانون سازی کی سفارش کی گئی ۔ موجودہ زیر بحث بل میں اوّلین تین ترامیم بھی پہلے پہل اسی بل میں متعارف کرائی گئیں، جنہیں یہاں تو مسترد کردیا گیا، لیکن بعد میں اُنہیں ایک اور نام سے پیش کردیا گیا۔
(6) خواتین کے معاشی استحکام کابل2005ء: اس بل میں خواتین کی کفالت، حق مہر اور وراثت کی ادائیگی کی تفصیلات پیش کرنے کے بعد یہ ترامیم تجویز کی گئیں کہ حکومت کے ہاں مختلف مالی گوشوارے درج کروانے کے موقعہ پر خواتین کو کی جانے والی ان ادائیگیوں کے بارے میں بھی سوالات شامل کئے جائیں،نیز وراثت کی تقسیم کے موقعہ پر عورت کا اپناحصہ معاف کرنے کو غیرقانونی قرار دیا جائے، البتہ عورت وصولی کے بعد اسے گفٹ کرسکتی ہے۔
(7) عائلی عدالتیں ترمیمی بل2005ء:خواتین کو قانون کی طاقت سے اپنا حصہ وراثت حاصل کرنے کے لئے سول کورٹس سے رجوع کرنا پڑتا ہے جبکہ اُنہیں ا س سلسلے میں فیملی کورٹس سے رجوع کا حق دیا جائے جو دیگر سہولیات کے علاوہ 6 ماہ میں فیصلہ نمٹانے کی پابند بھی ہیں۔
(8) قرآنِ کریم کے ساتھ شادی کی ممانعت کا بل

(9) جہیز اور شادی تحائف پرپابندی کا بل

(10) خواتین کی وراثت کا بل

(11) خاندان کے ادارے کو تحفظ او راستحکام دینے کا بل وغیرہ 2005ء میں جمع کرائے جانے والے ان متعدد بلوں میں سے ہیں جنہیں متحدہ مجلس عمل نے پاکستان میں طبقہ نسواں کے حالات کی حقیقی اصلاح کے لئے پیش کیا۔لیکن یہ تمام بل قومی اسمبلی اور سینٹ میں حکومت کی دلچسپی حاصل نہ کرسکے اور اُنہیں مسترد کیاجاتا رہا۔حتی کہ ان بلوں میں حدود آرڈیننس کے حوالے سے پولیس کے رویے کی اصلاح پر مبنی قانون سازی کی مثبت تجاویز بھی شامل تھیں، مثلاًجرم زنا ترمیمی بل 2005ء اورجرم قذف ترمیمی بل 2005ء لیکن حکومت نے ان ترامیم کی بجائے سرے سے حدود آرڈیننس کوناقابل عمل بنانے والی قانون سازی میں دلچسپی لی، اس سے حکومت کے رجحانات کا بخوبی علم ہوجاتا ہے!!


قومی اسمبلی میں پیش کردہ ''خواتین کے خلاف استحصال اورامتیاز برتنے والے بعض رواجات کے امتناع کا بل''
چونکہ یہ قرین مصلحت ہے کہ خواتین کے استحصال اور امتیاز برتنے والے بعض رواجات کے امتناع کا قانون وضع کیا جائے اور چونکہ یہ ضروری ہے کہ بعض قانونی تصریحات کی غلط تشریح سے پیدا شدہ ابہامات کی وضاحت کی جائے۔
لہٰذا بذریعہ حسب ِذیل قانون وضع کیا جاتاہے:

1. مختصر عنوان اور آغازِ نفاذ :

 یہ ایکٹ 'خواتین دشمن رواجات (فوجداری قانون ترمیم) ایکٹ 2006ء' کے نام سے موسوم ہوگا۔یہ فی الفور نافذ العمل ہوگا۔

2. ایکٹ45 مجریہ1860ء کی دفعہ 310؍الف کی تبدیلی:

مجموعہ تعزیراتِ پاکستان (ایکٹ 45 مجریہ 1860ء) میں جس کا بعد ازاں مذکورہ مجموعہ کے طور پر حوالہ دیا گیا ہے، کے باب 16 میں 310 الف کی بجائے حسب ِذیل شامل کردی جائے گی، یعنی:
''310؍الف:کسیعورت کو شادی میں یا بصورتِ دیگر بدلِ صلح،ونی یا سوارا میں دینے کی سزا: جو کوئی بھی کسی عورت کی شادی یا بصورتِ دیگر بدل صلح، وَنی یا 'سوارا' یا کسی نام کے تحت کسی دیگر رواج یا عمل کے طور پر شادی میں داخل ہونے کے لئے مجبور کرتا ہے، کسی دیوانی مقدمہ یا کسی مجرمانہ مجبوری کے تصفیہ کے پیش نظر اسے تین سال تک سزائے قید دی جائے گی اور وہ جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہوگا۔''

3. ایکٹ 45مجریہ1860ء میں نئے باب20؍الف کا اندراج :

مذکورہ مجموعہ میں باب20کے بعد، حسب ِذیل نئے باب کا اندراج کیا جائے گا، یعنی:

''باب 20؍الف :خواتین کے خلاف جرائم
498؍الف:عورت کو وراثت سے اپنا حصہ وصول کرنے سے منع کرنا:

جو کوئی دھوکہ سے یا غیرقانونی ذرائع سے کسی عورت کو منقولہ یا غیرمنقولہ جائیداد سے وراثت کاعمل شروع ہونے کے وقت محروم کرتا ہے، اسے سات سال تک کی مدت کے لئے سزائے قید دی جائے گی، یا جرمانہ ، یا دونوںسزائیں دی جائیں گی۔

498؍ب:جبری شادی کا امتناع:

جوکوئی کسی عورت کو شادی میں داخل ہونے کے لئے دباؤ ڈالتا ہے یاکسی اندازمیں مجبور کرتاہے، اسے تین سال تک کی مدت کے لئے سزائے قید دی جائے گی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔

498؍ج:قرآن پاک کے ساتھ شادی:

i)جوکوئی بھی کسی عورت کو قرآن پاک کے ساتھ شادی پر مجبور کرتاہے، انتظام کرتا ہے یا سہولت فراہم کرتا ہے، اسے تین سال تک سزائے قید دی جائے گی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔
ii) باوجود اس امر کے کوئی ذیلی دفعہ'۱'میںمذکور ہو، قرآنِ پاک پرکسی عورت سے ناکتخدا رہنے یا اپنی باقی ماندہ زندگی میں شادی نہ کرنے یا وراثت میں اپنے حصہ کا دعویٰ نہ کرنے کے لئے حلف لینے کو قرآن پاک سے شادی کرنا سمجھا جائے گا۔

498؍د:لعان کے طریق کار کے زیر کارروائی خاوند کی غیرحاضری میں فسخ نکاح وغیرہ:

باوجود اس امر کہ کوئی چیز جرم قذف (نفاذِ حد) آرڈیننس 1979ء (نمبر8 مجریہ 1979ء) کی دفعہ 14 میں، اور انفساخِ مسلم نکاح جات ایکٹ 1939ء (نمبر8 مجریہ 1939ء) کے علاوہ مذکور ہو، جہاں خاوند کو قذف کے لئے کورٹ میں اپنی بیوی کی شکایت یا رپورٹ اس کی غیرحاضری یا بصورتِ دیگر مذکورہ دفعہ میں صراحت کردہ لعان کے طریق کار میں زیر کارروائی ہونے میںناکامی ہوتی ہے، یہ بیوی کے لئے مجاز کورٹ کی وساطت سے اپنے نکاح کے انفساخ حاصل کرنے کے لئے جائز بنیاد ہوگی اور خاوند کو قذف کی سزا بھی دی جائے گی۔

498؍ھ:الزام کا اعتراف مستوجب ِاستغاثہ ہوگا:

جہاں بیوی لعان کی زیر کارروائی زنا کا اعتراف کرتی ہے تو وہ زنا کے استغاثہ کی مستوجب ہوگی۔

ایکٹ 5مجریہ 1898ء میں نئی دفعہ 402ج کا اندراج:

مجموعہ ضابطہ فوجداری (ایکٹ5 مجریہ1898ء) جس کا بعدازاں مذکورہ مجموعہ کے طور پر حوالہ دیا گیا ہے۔ دفعہ402ج کے بعد حسب ِذیل نئی دفعہ شامل کردی جائے گی یعنی:
''402؍و:صوبائی حکومت زنا بالجبر کی سزاؤں میں مداخلت نہیں کرے گی: باوجود اس امر کہ دفعہ401، دفعہ402اور402ب کوئی چیز مذکور ہو، صوبائی حکومت مجموعہ تعزیراتِ پاکستان (ایکٹ 45مجریہ1860ء) کی دفعہ 376 کے تحت دی گئی سزا کو معطل و معاف یا کم نہیں کرے گی۔''

ایکٹ 5مجریہ 1898ء کے جدول2کی ترمیم: مذکورہ مجموعہ میں، جدول دوم میں؛
(1) کالم ۱ میں دفعہ 310؍ الف اور کالم 2 تاکالم 8 میں اس سے متعلق اندراجات کی بجائے حسب ِذیل تبدیل کردیا جائے گا، یعنی:

باب20؍الف ... خواتین کے خلاف جرائم
12345678
310
الف
عورت کوشادی یا بصورتِ دیگر بد لِ صلح ونی یا سوارا میں دینا
بلا وارنٹ گرفتار نہیں کرے گا
وارنٹ
قابل ضمانت
قابل مصالحت
تین سال تک سزائے قید
اور جرمانہ
سیشن کورٹ یا درجہ اوّل مجسٹریٹ

(II) کالم۱ میں دفعہ 498کے بعد اور کالم 2 تا کالم 8میں اس سے متعلق اندراجات کے بعد حسب ِذیل کا اندراج کردیا جائے گا، یعنی
1
2
3
4
5
6
7
8
498
الف

عورت کو موروثی جائیداد سے محروم کرنا
بلا وارنٹ گرفتار نہیں کرے گا
وارنٹ
قابل ضمانت
قابل مصالحت

سات سال تک سزاے قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں
سیشن کورٹ یا درجہ اوّل مجسٹریٹ
498
ب

جبری شادیاں
ایضاً
ایضاً
ایضاً
ایضاً

تین سال تک سزائے قید اور جرمانہ
ایضاً
498
ج


قرآن کیساتھ شادی کا امتناع
ایضاً
ایضاً
ایضاً
ایضاً
ایضاً
ایضاً
بیانِ اغراض و وجوہ :ملک میں رائج الوقت کئی رواجات اور رسومات ہیں جو نہ صرف انسانی شرف کے خلاف ہیںبلکہ انسانی حقوق کے خلاف بھی ہیں۔ ایسے رواجی قاعدے بعینہٖ اسلامی احکام کے منافی ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ایسے غیر انسانی رواجات اور رسو م کو فوری طور پر ختم کردیا جائے اور ان کے تسلسل پر اصرار کرنے والے شخص کو سختی سے نمٹا جائے اور اسے تعزیری ذمہ داریوں کے تحت لایا جائے۔ بل ہذا کامقصد ان اغراض کا حصول ہے۔ دستخط چوہدری شجاعت حسین (رکن قومی اسمبلی )


حوالہ جات
1. صحیح مسلم: 1691، 1695
2. مسند احمد1129،897، صحیح بخاری: 6314

 


 

i. جماعة الدعوة کی دستخطی مہم کی تفصیلات کے لئے دیکھئے: www.hudood.org
ii. افسوسناک امر یہ ہے کہ اسلام میں بدکاری ایک سنگین جرم ہے جس پر فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مصداق اللہ تعالیٰ کو روئے زمین پر سب سے زیادہ غیرت آتی ہے، لیکن اس بل کا نام 'حقوقِ نسواں بل' رکھ کراس فعل کو جرائم کے زمرے سے نکال کر حقوق میں شامل کردیا گیا ہے۔انا للہ!
iii. حقوق نسواں بل میں علما کی پیش کردہ تین تجاویز کے متن کے لیے دیکھیں:محدث ستمبر2006ء ، ص 15
iv. علما کی طرف سے یہ چند اہم تجاویز ہیں وگرنہ خواتین کے حوالے سے پاکستانی معاشرہ میں اصلاحِ احوال کی مزید کئی پہلوؤں سے بھی اشد ضرورت ہے۔کیونکہ پاکستانی معاشرہ تاریخی طورپر ہندو معاشرت سے متاثر ہونے کے باعث ابھی تک حقیقی اسلامی معاشرہ سے بہت دور ہے۔ان تجاویز میں بعض حسب ِذیل ہیں:

  •  خواتین مخالف بعض دیگر رسوم کا بھی خاتمہ کیا جائے، مثلاً پختونوں کی ایک رسم وَلْوَرجس میں شادی کے موقع پر لڑکے کو لڑکی کے اہل خانہ کو بڑی رقم دینا ہوتی ہے، جس کے بعد وہ لڑکی گویا لڑکے کے خاندان کی ہی ہوجاتی ہے اور لڑکی کے خاندان والے اس سے میل ملاقات سے بھی گریز کرتے ہیں۔
  •  شادی بیاہ کی غلط رسوم کا خاتمہ جس میں جہیز کاخاتمہ، بارات یا سسرال کے لئے بیش قیمت تحائف وغیرہ
  • تعلیم و تربیت میں لڑکے لڑکیوں میں ترجیح کا خاتمہ، شوہرکی طرف سے بے جا تشدد وغیرہ

ان غیراسلامی رجحانات کے خاتمے کے لئے سزاؤں کے علاوہ تعلیم اور میڈیا میں عوامی رویوں کی اصلاح کی کوششیں کی جائیں اورقومی میڈیا کو محض تفریح کی بجائے بامقصد قومی اصلاح کے لئے استعما ل کیا جائے۔
v. اسی تناظر میں دو ماہ قبل محدث میں 'طلاقِ ثلاثہ' پر ایک تفصیلی مضمون بھی شائع کیا گیا تھا اور یہی تجویز اس مضمون کو شائع کرنے کی بنیادی وجہ بنی تھی۔ (دیکھئے 'محدث' شمارئہ نومبراور دسمبر2006ء)
vi.  وَنی کی رسم یہ ہے کہ قتل کے بدلے میں قاتل کے خاندان یا قبیلہ کی کسی لڑکی کا مطالبہ کیا جائے اور لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کی شادی مقتول کے خاندان کے کسی فرد سے (چاہے وہ بے جوڑ ہی ہو)کردی جائے۔ چونکہ اس شادی کے پیچھے ایک قتل کارفرما ہوتا ہے، اسلئے مقتول کے خاندان میں اس لڑکی کو شدید ظلم بلکہ غلامی جیسے حالات کاسامنا کرتا پڑتا ہے۔ صوبہ پنجاب کے بعض علاقوں میں پائی جانے والی یہ رسم 'ونی'، اندرونِ سندھ میں سَام اور صوبہ سرحد میں سَوَرَا کہلاتی ہے ،جس پر کچھ عرصہ قبل سرحد کی صوبائی حکومت نے پابندی عائد کر دی ہے۔واقعہ کی سنگینی کے پیش نظر بعض اوقات لڑکی کو بلا نکاح ہی مخالف کی تحویل میں بھی دے دیا جاتا ہے۔
vii. یہ رسم صوبہ سندھ میں پائی جاتی ہے جس کے تحت لڑکی کو خاندان میں مناسب رشتہ نہ ملنے یا جائیداد میں اس کا وراثتی حق نہ دینے کی نیت سے اس کا قرآن کے ساتھ معاہدہ کرادیا جاتا ہے۔ لڑکی کو باقاعدہ دلہن بنا کر قرآن کے ساتھ بٹھا کر معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت اسے باقی زندگی ایک راہبہ کی طرح خاموش اور دنیا کی دلچسپیوں سے ہٹ کر گزارنا ہوتی ہے۔ بعض تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ یہ رسم عملاً اب متروک ہو چکی ہے۔ یاد رہے کہ مذکورہ بالا خواتین مخالف رسوم مختلف شکلوں میں پائی تو جاتی ہیں لیکن ایسے واقعات کی تعداد اُس سے کہیں کم ہے جنہیں مغرب کے فنڈز پر پلنے والی این جی اوز اپنے فنڈز میں اضافے کے لئے بڑھا چڑھا کرپیش کرتیں اور ملک کو عالمی سطح پر بدنام کرانے کا مکروہ کردار ادا کرتی ہیں۔