پتھر سے اُمید عبث ہے

کالے ہو یا اُ جلے پتھرہوتے ہیں کب کس کے پتھرپتھر سے امید عبث ہےپتھر تو ہیں پگلے پتھردردوسوز کے پیکر انساںہوجاتے ہیں کیسے پتھرپریم نگر کی ریت یہی ہےکھالے خوشی سے پیارے پتھرپُھولوں کی نگری میں تابش!ہم نے اکثر دیکھے پتھر مزید مطالعہ

جنوری 1985ء

غزل

آئینہ رو برو کیجئےپھر کوئی نقد فرمائیےاک ذرا سی خوشی کے لیےکتنے غم ہم نے اپنا لیےمہر سے کوئی شکوہ نہیںماہ نے جسم جھلسا دیےراہزن بن گئے راہبرکتنے شاعر ہیں بہروپئےمجرمِ حق ہوں میں شہر میںبخشئے یا سزا دیجئےدیکھ کر ان کے در کی طرفکیوں کوئی اور در دیکھئےآپ تابش سے ہیں بدگماںبندہ پرور ذرا سوچئے مزید مطالعہ