پتھر سے اُمید عبث ہے
کالے ہو یا اُ جلے پتھرہوتے ہیں کب کس کے پتھرپتھر سے امید عبث ہےپتھر تو ہیں پگلے پتھردردوسوز کے پیکر انساںہوجاتے ہیں کیسے پتھرپریم نگر کی ریت یہی ہےکھالے خوشی سے پیارے پتھرپُھولوں کی نگری میں تابش!ہم نے اکثر دیکھے پتھر مزید مطالعہ
غزل
آئینہ رو برو کیجئےپھر کوئی نقد فرمائیےاک ذرا سی خوشی کے لیےکتنے غم ہم نے اپنا لیےمہر سے کوئی شکوہ نہیںماہ نے جسم جھلسا دیےراہزن بن گئے راہبرکتنے شاعر ہیں بہروپئےمجرمِ حق ہوں میں شہر میںبخشئے یا سزا دیجئےدیکھ کر ان کے در کی طرفکیوں کوئی اور در دیکھئےآپ تابش سے ہیں بدگماںبندہ پرور ذرا سوچئے مزید مطالعہ