روشی کم ہے
نجومِ شب کو جگائو کہ روشنی کم ہے شرر شرر کو بتاؤ کہ روشنی کم ہےکوئی بھی بزم میں پہچانتا نہیں ہم کو فروغِ ربط بڑھاؤ کہ روشنی کم ہےابھی لہو کے چراغوں پہ اکتفا کر لو ابھی زبان پہ نہ لاؤ کہ روشنی کم ہےسرشکِ خوں کے ستارے بھی پڑ گئے مدھم وفا کی شمع جلاؤ کہ روشنی کم ہےترس رہی ہیں نگاہیں کرن کرن کے لئے دلوں میں آگ لگاؤ کہ روشنی کم ہےلرز رہے ہیں جو سائے پر سے نگاہوں سے قریب لا کے دکھاؤ کہ روشنی کم ہےنمودِ صبح درخشاں سے پیشتر راسخؔقدم سنبھل کے اُٹھاؤ کہ روشن مزید مطالعہ
لے کے آجائے اگر بخت سلیماں کوئی آپ ﷺ سے بڑھ کے معزز نہ ہو انساں کوئی طاعتِ حضرتِ سرکارِ دو عالم کے بغیر ہو نہیں سکتا کبھی صاحبِ ایماں کوئی بحرِ زخّار کو کوزے میں سموئے کیونکر کیسے تعریف لکھے اُن کی سخنداں کوئی قلب بیتاب کو محشر میں سکوں مل جائے اُنؐ کے دیدار کا ہو جائے جو ساماں کوئی جو نہیں تابعِ احکام نبیؐ، کچھ بھی نہیں والیٔ ملک ہو، منعم ہو کہ سلطاں کوئی دل میں ہے اُنؐ کی محبت کا خزینہ، ورنہ میری بخشش کا نہیں اور تو عنواں کوئی ارضِ طیبہ میں پس مرگ ہو مدفن راسخؔ ما سوا اس کے نہیں حسرت مزید مطالعہ
گلہائے نعت
تکوین کائنات کا عنوان کہیں انہیںؐ معراجِ حسنِ محفلِ امکاں کہیں اُنہیںؐ!نوعِ بشر ہے جن کے تعلق سے سر بلند برحق ہے یہ کہ عظمتِ انسان کہیں انہیںؐ!کرتے ہیں فخر جن کی غلامی پہ تاجدار حیران ہیں کس زبان سے سلطان کہیں انہیںؐ!جن کا وجود زینتِ گلزارِ حسن ہے تزینِ خلا و جانِ بہاراں کہیں انہیںؐ!کمتر ہے یہ مثال بھی، لیکن نہ جانے کیوں جی چاہتا ہے مہر درخشاں کہیں انہیںؐ!بندے ہوئے ہیں جنکی ہدایت سے خودشناس رمز آشنائے خلوتِ عرفاں کہیں انہیںؐ!وہ بھی بشر ضرور ہیں، لی مزید مطالعہ
جس نے نبیؐ سے پیار کیا قلب و جاں کے ساتھ بخشا فروغ حق نے اسے عزوشاں کے ساتھ ناچیز ہوں اگرچہ تفاخر ہے بخت پر نسبت ہے مجھ کو خاتم پیغمبراں کے ساتھ چومے تھے اس نے پائے مقدس حضورؐ کے الفت ہے اس بنا پر مجھے کہکشاں کے ساتھ اے رشک ، نعت حضرت حسانؓ مرحبا روشن ہر ایک شعر ہے حُسن بیان کے ساتھ وہ زائرین شہر مدینہ کے جمگھٹے میں بھی غبار بن کے رہا کارواں کےساتھ راسخ یہی ہے باب حرم پر مری دُعا اُٹھوں میں روز حشر شہ دو جہاں ک مزید مطالعہ
ضوفشاں مشعل توحید ہے ماشاء اللہ انجمن ہمسر خورشید ہے ماشاء اللہ شافع ؐ روز قیامت کا دمکتا چہرہ میرے اشعار کی تمہید ہے ماشاء اللہ دل ہیں شاداب کہ الحاد کا فسوں ٹوٹا دن تو کیا شب بھی شب عید ہے ماشاء اللہ ہر طرف نام محمدؐ کی ہیں شمعیں روشن ہرطرف جلوہ گہہ دید ہے ماشاء اللہ سربسجدہ ہے کوئی محو تلاوت ہے کوئی کیا حسین صور تجوید ہے ماشاء اللہ صدیوں پہلے جو شہؐ خلد نے بخشا تھا ہمیں پھر اُسی عزم کی تحدید ہے ماشاء اللہ پاک کے نزدیک منازل کے نشاں اے راسخ ذہن آسودہ اُمید ہے ماشاء اللہ مزید مطالعہ
ہونٹوں پہ تذکرہ ہے رسالت مآب ﷺ کا ہر سانس ہم نفس ہے شمیمِ گلاب کا دیدارِ مصطفےٰ ﷺ کی تمنا لئے ہوئے مدّت سے منتظر ہوں میں روزِ حساب کا پتھر بھی موم کر دیئے زورِ کلام سے کس درجہ یہ کمال ہے اُمّ الکتاب کا سایہ کیا تھا دھوپ میں جس نے حضور ﷺ پر کتنا وہ خوش نصیب تھا ٹکڑا اسحاب کا بنیادِ دیں ہےاصل میں طاعت رسول ﷺ کی ہے انحصار اس پہ ہی اجر و ثواب کا مشتاق جن کے اُمّتی بننے کے تھے کلیم ادنیٰ سا میں غلام ہوں ان ﷺ کی جناب کا پیشِ نگاہِ شوق ہیں طیبہ کی رونقیں راسخؔ میں جاگتا ہوں کہ عالم ہے خوا مزید مطالعہ
حمد باری تعالیٰ
ڈوبتے دل کا تموج میں سہارا تو ہےمری سوچوں کے سمندر کا کنارا تو ہےمیں تو بیتاب ہوں گرداب میں قطرے کی طرحراحتِ روح کی سمتوں کا اشارہ تو ہےتیرے الطافِ مسلسل سے ہوں زندہ یا ربمیں ہوں بیمار مرے درد کا چارا تو ہےکوئی بھی آنکھ نہیں جس نے کہ دیکھا ہو تجھےپھر بھی حیرت ہے کہ ہر آنکھ کا تارا تو ہےدیدہ و دل کا مکاں تیری ضیا سے روشنحسنِ احساس ہے تو جان نظارا تو ہےتو جو چاہے تو سرابوں سے بھی چشمے پھوٹیںظلمتِ یاس میں امید کا تارا تو ہےکوئی زرد ہو یا راسخ بے مایہ ہوسب پہ ہے تیرا کرم سب کا سہارا تو ہے مزید مطالعہ
حدیث ختمِ رسل ؐ
کلام حق کی وضاحت حدیث ختم رسل ؐ!چراغِ راہِ شریعت حدیث ختم رسلؐ!حسین طرز تکلم ،دھنک دھنک جملےعروج رنگ فصاحت حدیث ختم رسل ؐ!حبیب رب جہاں کا کلام جاں پرورزبان پاک کی نکہت حدیث ختم رسل ؐ!ہجوم دولت وزر میں قناعتوں کا بھرمحروف فقر کی عظمت حدیث ختم رسل ؐ!عداوتوں کے خرنگوں کے زخم کا تریاقپیام صلح واخوت حدیث ختم رسل ؐ!ہوائے جنت طیبہ ،شمیم خلد حرمبہار گلشن امت حدیث ختم رسل ؐ!جہان ِ کذب کی تیرہ فضا میں ہے راسخفروغ شمع حقیقت حدیث ختم رسل ؐ! مزید مطالعہ
تو ذوالجلال ہے تو خدائے قدیر ہے یکتا ہے ، لا شریک و علیم و بصیر ہے تو صیف لکھ رہا ہوں تیرے کمال کی طاری دل و دماغ پہ کیف صریر ہے گرداب حاثات میں گھر کر بھی اے خدا دل ہے کہ تیرے ذکر سے راحت پذیر ہے شاہ دو زیر منعم و محکوم و حکمراں جو شخص بھی ہے تیرے ہی در کا فقیر ہے حاوی ہے تیرا علم قریب و بعید پر ! تو اعلم الغیوب و سمیع و بصیرہے حاصل ہو جس کو تیری محبت کی روشنی دراصل آدمی وہی روشن ضمیر ہے راسخ ، کرم ہے اس کا شمیم مزید مطالعہ