پارلیمنٹ اور شُوریٰ کا تقابلی مطالعہ

ایک صاحب فرماتے ہیں:

تعاونوا عل البر والتقوى کو پارلیمنٹری پارٹی کی اصل قرار دیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ پارٹیوں کو گوارا نہیں کرتے وہ چاہتے ہیں کہ ہر دو سال بعد جنگ جمل، ۵ سال بعد جنگ صفین اور دس سال بعد کربلا بپا کرتے رہیں۔

ملاحظہ فرمائیے کہ جب انسانی سوچ غلط راستے پر پڑ جائے اور اس میں تعصب پیدا ہو جائے تو کیا کیا گل کھلاتی ہے۔ صاحب موصوف کا خیال ہے کہ مندرجہ بالا واقعات اس لئے پیش آئے کہ پارٹیوں کے وجود کو گوارا نہ کیا گیا۔ بالفاظ دیگر حضرت علیؓ کو چاہئے تھا کہ وہ حضرت معاویہ کی سیاسی کو برداشت کر لیتے۔ اِسی طرح حضرت معاویہ کو بھی چاہئے تھا کہ حضرت علیؓ کی سیاسی پارٹی کو برداشت کر لیتے تاکہ یہ ہنگامے نہ ہوتے۔ اور یہ دونوں فرق (حزب اقتدار اورحزب اختلاف) مل بیٹھ کر کوئی سیاسی سمجھوتہ کر لیتے۔

قطع نظر اِس بات کے کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ محض الگ الگ سیاسی پارٹیاں نہ تھیں بلکہ متوازی حکومتیں تھیں، تاہم اگر فرض کر لیں وہ الگ الگ پارٹیاں ہی تھیں تو کیا ایسی متحارب پارٹیوں کا وجود ملّت اسلامیہ میں برداشت کرنے کا کوئی جواز ہے؟ یا محض اِس وجہ سے برداشت کر لینا چاہئے کہ جمہوری طرز کا تقاضا یہی کچھ ہے۔ کیا ان معرکوں کی اصل وجہ مسلمانوں کے سیاسی اختلاف سے زیادہ باغی اور بدمعاش عنصر کی مفسدہ پردازیاں نہ تھیں؟ جو مسلمان اپنی باطنی خباثت کی وجہ سے فریقین کو جنگ میں صرف اس لئے جھونک رہے تھے کہ صلح و آشتی کی صورت میں ان کی خیر نہیں؟ مندرجہ بالا معرکوں کے اسباب و علل سے متعلق ہمیں زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم سردست یہ پوچھتے ہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ جہاں سیاسی پارٹیوں کا وجود گوارا ہی نہیں بلکہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔ وہاں تو ''سب ٹھیک'' ہی رہتا ہے۔یہ پاکستان دو لخت کیسے ہو گیا۔ نجیب اور بھٹو میں کیا اختلاف تھا کہ ملک ہی تقسیم کرنا پڑا۔ وہاں مسلمانوں کا کتنا جانی اور مالی نقصان ہوا۔ یہ لوگ تو پارٹیوں کے وجود کو گوارا کرتے ہیں۔ اگر آپس کے اختلاف حل کرنے کا یہی طریقہ بہترین ہے تو پھر اسمبلیوں میں کرسیوں سے جنگ کیوں ہوتی ہے اور حزب اختلاف کی غنڈوں سے مرمت کیوں کروائی جاتی ہے؟

پھر کچھ دوست ایسے بھی ہیں جو موجودہ پارلیمنٹ کو شوریٰ کا نعم البدل قرار دیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ وہ بے شک اسے شوریٰ سے بہت مفید ادارہ سمجھیں مگر خدارا درمیان میں اسلام کا نام لا کر عوام کو گمراہ نہ کریں۔ اگر اسلام کا نام لینا ہے تو پھر اسلامی اقدار کے مطابق یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا ایسے ادارہ کے وجود کا جواز بھی ہے یا نہیں؟ ذیل میں ہم ان دونوں اداروں کا موازنہ پیش کرتے ہیں۔

نظام خلافت میں شوریٰ کی حیثیت قطعاً وہ نہیں ہے جو جمہوری نظام میں مقننہ کی ہے۔ ان دونوں کی بنیاد الگ الگ، اصول تشکیل الگ اور اغراض و مقاصد الگ، غرض کوئی چیز ایک دوسرے سے نہیں ملتی۔ اب ہم اس فرق کو ذرا تفصیل سے واضح کریں گے۔

اقتدارِ اعلیٰ:

پارلیمانی نظام میں آئینی اقتدار اعلیٰ خود پارلیمنٹ ہے اور سیاسی اقتدارِ اعلیٰ عوام ہوتے ہیں۔ جب کہ شوریٰ کا اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ ہے۔ ہم اگر اپنے آئین کے دیباچہ میں سنہری اور جلی الفاظ میں یہ درج کر دیں کہ پاکستان کا مقتدر اعلیٰ اللہ تعالیٰ ہے لیکن اگر طرزِ انتخاب کے بنیادی اصول جمہوری ہی رہیں گے یعنی بالغ رائے دہی اور کثرت رائے پر فیصلہ تو یہاں اللہ کی حاکمیت کبھی قائم نہیں کی جا سکتی اور نہ یہاں اسلام کا بول بالا ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی جا چکی ہے (ملاحظہ ہو کیا جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کیا جا سکتا ہے)۔

پارلیمنٹ کا کام عوام کی خواہشات کے مطابق قانون سازی ہے:

اگر ۱۰۰ میں سے ۵۱ ممبر یہ کہہ دیں کہ سود کے بغیر معیشت نہیں چل سکتی تو سود آئینی طور پر جائز ہو جائے گا۔ جب کہ شوریٰ کو قانون سازی کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ وہ قرآن و سنت کی شکل میں پہلے ہی موجود ہے۔ ذیلی اور انتظامی قوانین و ضوابط کے لئے قانون فہمی اور نفاذ کے لئے صرف ضوابط کا کام اس کے ذمہ ہوتا ہے۔

ہمارے بعض دوست کہتے ہیں کہ قرار دادِ مقاصد منظور ہونے کے بعد شریعت کے منافی قانون بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جن باتوں کے متعلق قرآن و سنت سے واضح احکام مل سکتے ہیں وہاں مشورہ کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ مشورہ صرف مباح امور میں کیا جاتا ہے۔

لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قرارِ داد مقاصد کی منظوری ۱۹۴۹؁ء کے بعد سے لے کر آج تک ہمارے آئین میں بے شمار ایسی دفعات موجود ہیں جو قرآن و سنت کے منافی ہیں۔ حالانکہ کئی بار اسلامی مشاورتی کونسلیں اور نظریاتی کونسلیں اِسی غرض سے تشکیل دی جاتی رہی ہیں پھر یہی نہیں بلکہ آئندہ ایسے نئے قوانین بھی بنتے رہے جو صریحاً قرآن و سنت کے مناقی تھے۔ مثلاً عائلی قوانین جو ایوب خان کے دور میں پاس ہوا۔ جس کے خلاف علماء نے احتجاج بھی کیا تھا۔

ہمارے آئین میں ایسے قوانین کی فہرست بہت طویل ہے جو قرآن و سنت سے متصادم ہیں مگر ہمارے جمہوریت پسندوں کو نظر نہیں آتے۔ ایسے غیر شرعی قوانین کی موجودگی کا اس سے واضح ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ موجودہ حکومت نے شریعت بنچ، شرعی وفاقی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے محض اس غرض سے قائم کیے ہیں کہ ہمارے اس آئین کی شریعت کے مطابق تطہیر کی جائے۔

اہلیت:

شوریٰ کے ممبر فہم و بصیرت والے پختہ کار اور نیک اور متقی ہوتے ہیں۔ وہ خدا کے سامنے جوابدہی کے تصور کو مدّ نظر رکھ کر حتی الامکان خیر خواہی سے مشورہ دیتے ہیں۔ اور چونکہ اس مشاورت کا مقصد اقرب الی الحق پہلو کی تلاش اور اللہ کی رضا کی جستجو ہوتا ہے۔ لہٰذا ان میں نہ کسی مسئلہ پر اپنی رائے پر اصرار ہوتا ہے اور نہ ہی اَتَا کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کے ممبر کی اہلیت یہ ہے کہ اس کی عمر ۲۵ سال سے کم نہ ہو اور اس کا نام فہرست میں درج ہو۔ نیز پچھلے ۵ سال کے عرصہ میں کسی عدالت سے فوجداری جرم میں سزا یافتہ نہ ہو۔ اس کی سزا کی مدت ۲ سال قید ہے۔ (آرڈر نمبر ۵، ۱۹۷۷؁ء آرٹیکل نمبر ۱۰)

یہ صاحب چور ہوں، خائن ہوں، ڈاکو، ملک دشمن یا غدّار ہوں کوئی چیز ان کے انتخاب میں آڑے نہیں آسکتی۔

علمی لحاظ سے خواہ وہ قرآن کریم کا ایک لفظ بھی نہ جانتا ہو۔ اسلامی تعلیمات سے یکسر نابلد ہو۔ نظریاتی لحاظ سے خواہ وہ نظریہ پاکستان کا ہی دشمن ہو، سوشلزم کا حامی ہو۔ انتقام اور خونی انقلاب کے نعرے لگاتا ہو۔ بیرونی حکومتوں کا ایجنٹ ہونا بھی ثابت ہو۔ لسانی اور علاقائی تعصبات کو خوب بھڑکاتا ہو۔ کوئی بات اس کی انتخابی اہلیت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ اندازہ لگائیے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے قانون ساز ادارہ میں جہاں قرآن و سنت سے استنباط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ صاحب کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ کیا یہ پوری قوم اور خود اسلام سے بدترین مذاق نہیں؟ ایسے لوگ اپنے پیسہ اور علاقہ میں غنڈہ گردی کے اثر و رسوخ کی بنیاد پر اسمبلیوں تک پہنچ جاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس سینکڑوں کی تعداد میں سے دس آدمی بھی بمشکل ایسے نکل سکیں گے جو معاملہ زیر بحث کو سمجھ کر کچھ مشورہ دینے کی اہلیت رکھتے ہوں۔

علاوہ ازیں اسمبلی میں حزبِ اختلاف کا وجود اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ وہ کبھی حزبِ اقتدار کو خیر خواہی سے مشورہ نہیں دے سکتا۔ باہمی رقابت اور اَنَا کا مسئلہ یہ دونوں باتیں مثبت انداز فکر اختیار کرنے کی راہ میں حائل ہوتی ہیں اور ہمارے خیال میں ہمارے تنزل و انحطاط کی سب سے بڑی وجہ یہی طریق مشورہ اور پارلیمان ہے۔ ہم نے پہلے ۳۰ سال میں اصل منزل کو کھویا ہی ہے کچھ پایا نہیں۔

پارلیمنٹ سرمایہ دار اور عیار لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے پلیٹ فارم سے سرمایہ بولتا ہے۔ سرمایہ یا پارٹی فنڈ کے بغیر جمہوریت ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتی۔ پارلیمنٹ سرمایہ دار کا تحفظ کرتی ہے اور سرمایہ دار اس کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ سرمایہ داری کا نظام ہے۔ ذہانت و فطانت کا نہیں۔ اس سے جمہوریت کے لبادے میں امراء کی حکومت قائم ہو جاتی ہے جو عوام کے نام پر غریب عوام کا استحصال کرتی ہے جب کہ شورائی نظام میں امیر و غریب کا کوئی مسئلہ نہیں وہاں صرف اہل تقویٰ کو آگے لایا جاتا ہے تاکہ وہ امورِ سلطنت کو اللہ کی رضا و مرضی کے مطابق سرانجام دیں۔ یہی وجہ ہے کہ شورائی نظام میں صاحب الرائے اور متقین کی تلاش و جستجو کرنا پڑتی ہے لیکن پارلیمانی نظام میں ہر دولت مند اقتدار حاصل کرنے کے لئے خود بے چین نظر آتا ہے۔

اسمبلی اور دوسرے بلدیاتی اداروں کے ممبروں (عوام کے نمائندگان) میں عملاً مندرجہ اوصاف کا موجود ہونا ضروری ہے۔

1. سرمایہ دار اور اقتدار کا بھوکا ہو۔ یہ سرمایہ خواہ وہ اپنی گرہ سے خرچ کرے یا اسے پارٹی مہیا کرے۔

2. عیار ہو، اپنے گن گانے اور حریف کی تذلیل کے فن سے آگاہ ہو۔ جائز و ناجائز کاموں میں کود جانے کی جسارت رکھتا ہو۔ جوڑ توڑ کے فن سے بھی آشنا ہو۔ خوف خدا اور اسلامی اقدار اس کے سامنے ہیچ ہوں۔

3. تھانہ اور عدالتوں میں اسے دسترس ہو تاکہ بدمعاش لوگوں کی سرپرستی کر سکے۔ ان کے جرم پر پردہ ڈال کر انہیں بے گناہ ثابت کر کے انہیں سزا سے بچا سکے تاکہ یہی لوگ انتخابات کے دوران اس کے دستِ راست اور ممد و معاون ثابت ہوں اور اس کا حساب چکا سکیں۔ اس طرح یہ دونوں مل کر عوام کے حقوق کا استحصال کرتے ہوں۔

اگر ہمارے نمائندہ میں ان اوصاف میں سے کسی ایک کی بھی کمی ہو تو اس کی کامیابی کے امکانات کم ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اہلِ شوریٰ کا نعم البدل ہے۔

کثرتِ رائے معیارِ حق کا اصول:

بہت بڑی قباحت ہے جو مندرجہ بالا صورتِ حال کے پیش نظر گوارا کرنا پڑتی ہے۔ ورنہ اندریں صورتِ حال کسی معاملہ کا فیصلہ ہونا ناممکن ہے۔ جموری نظام میں یہ اصول بہ امر مجبوری اختیار کیا گیا ہے جس کی حیثیت بنائے فاسد علی الفاسد سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس اصول سے معاملہ کا نزاع تو ختم ہو سکتا ہے لیکن راہِ صواب سے اس کا کچھ تعلق نہیں ہوتا۔

اس کے برعکس شوریٰ میں مشورہ طلب معاملہ کے لئے دلیل کی جستجو ہوتی ہے۔ میر مجلس ہر ممبر سے دلیل کا خواہاں ہوتا ہے پھر جس سے دلیل میسر آجائے۔ وہ خواہ اقلیت کی بجائے صرف فرد واحد ہی ہو، جب میر مجلس اس پر مطمئن ہو جائے تو اس کے مطابق فیصلہ کر دیتا ہے۔

پارلیمنٹ میں چونکہ فیصلہ کی بنیاد کثرت رائے ہے۔ اس لئے کثرت رائے حاصل کرنے کے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری پارٹیوں کے ممبروں کو ہم رائے بنانے کے لئے گٹھ جوڑ شروع ہو جاتا ہے جو مزید مناقشت اور انتشار کا باعث بنتا ہے۔ لیکن شوریٰ ایسی قباحتوں سے پاک ہوتی ہے اور مشورہ پوری خیر خواہی سے دیا جاتا ہے۔ گویا پارلیمنٹ کے ممبر انتخاب کے بعد نئے سرے سے جرائم کے ارتکاب میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ جبکہ شوریٰ کے ممبروں کا اصل مقصد ہی جرائم کا استیصال ہوتا ہے۔

حق انتخاب اور طریقِ انتخاب:

پارلیمنٹ کے ممبر کاروبارِ حکومت میں اپنا حق سمجھ کر نمائندگی کے لئے درخواست گزارتے ہیں۔ فیصلہ چونکہ کثرت رائے پر ہوتا ہے۔ لہٰذا انہیں اپنی تشہیر اور دوسرے رقیبوں کے مقابلے میں اپنی اہلیت اور پاکیزگی ثابت کرنے کے لئے اور دوسرے فریق کی تذلیل کے لئے اشتہارات، پوسٹر، گھر گھر جا کر ووٹ کے لئے بھیک مانگنا، جلسے جلوس وغیرہ سر انجام دینے کے لئے کثیر مصارف برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ وہاں کئی قسم کے جائز و ناجائز ہتھکنڈے بھی استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ یہ سب باتیں ایسی ہیں جو قرآن و سنت کی رُو سے ناجائز اور قبیح جرائم ہیں۔ جب منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں تو انہیں سب سے زیادہ فکر اس زر کثیر کی ہوتی ہے جو اس مہم پر صرف ہوا ہے۔ اس کی تلافی کے لئے وہ کئی طرح کی بد دیانتیوں کے مرتکب ہوتے اور خزانہ عامرہ پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔

اس کے برعکس شوریٰ کے ممبروں کا انتخاب بالکل سادہ اور فطری فریق پر ہوتا ہے۔ امیر مشورہ سے حسب ضرورت مشیروں کا انتخاب (Selection) کر لیتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی اہلیت کی بنا پر از خود ہی معاشرہ کی سطح پر ابھر آتے ہیں۔ لہٰذا ان کے انتخاب میں دقت نہیں ہوتی۔ اس سلسلہ میں کسی مخصوص علاقہ کے لوگ بھی ایسے آدمیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اور ان کے عزل و نصب میں عوام کی اس آزادانہ رائے کو بھی خاصا دخل ہوتا ہے۔ ان کے انتخاب کے لئے کسی مصنوعی طریقہ یا انتخابی مہم کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہاں مشیر کا نہ تو دولت مند ہونا ضروری ہوتا ہے۔ نہ اسے کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا انہیں نہ تو مذکورہ جرائم کا مرتکب ہونا پڑتا ہے اور نہ ہی رشوت اور غبن کے ذریعہ انہیں اپنی دولت بڑھانے کی فکر ہوتی ہے۔

مدت منصب:

جمہوریت میں پارلیمنٹ کی ممبر شپ ایک حق ہے۔ اب اِسی طرح کے دوسرے حق دار اِس انتظار میں رہتے ہیں کہ انہیں یہ حق کب نصیب ہوتا ہے۔ لہٰذا اِس منصب کی مدت معین کر دی گئی ہے۔ جب کہ شوریٰ کی ممبر شپ حق نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ اور یہ مشیر خدا کے سامنے جوابدہی کے تصوّر کے سامنے رکھ کر اپنا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ لہٰذا یہاں مدت منصب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

امیر اور شُوریٰ کا انتخاب

اولو الامر کے اوصاف


مسلمان ہونا:

ایک اسلامی ریاست کے خلیفہ یا امیر اور اسی طرح باقی سب اولو الامر، جن میں اہلِ شوریٰ یا ارباب حل و عقد، انتظامیہ اور عدلیہ کے ممتاز ارکان شامل ہیں، کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اسلامی ریاست ایک نظریاتی ریاست ہوتی ہے اور وہ لوگ جو اس نظریہ پر ایمان ہی نہ رکھتے ہوں وہ اس کا کاروبار کیسے چلا سکتے ہیں۔ ارشادِ باری ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَأُولِى الأَمرِ‌ مِنكُم...﴿٥٩﴾... سورة النساء

اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور حاکموں کا جو تم میں سے ہوں۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا بِطانَةً مِن دونِكُم لا يَألونَكُم خَبالًا...١١٨﴾... سورة آل عمران

اے ایمان والو! نہ بناؤ بھیدی کسی کو اپنوں کے سوا۔ وہ کمی نہیں کرتے تمہاری خرابی میں۔

گو امیر یا اولو الامر کی یہ صفت بادی النظر میں چنداں اہم معلوم نہیں ہوتی لیکن اس کی اہمیت اور وضاحت اس لحاظ سے ضروری ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان جو قرارداد مقاصد مارچ ۱۹۴۹؁ء کی رو سے اسلامی جمہوریہ پاکستان بن چکا تھا، کے دستور ۱۵۵۶؁ء اور ۱۹۶۲؁ء میں جب یہ شق شامل کی گئی کہ ''صدر مملکت کا مسلمان ہونا ضروری ہے'' تو قومی اسمبلی میں بعض مسلمان حضرات نے ہی اس پر اعتراض کیا تھا کہ محض مذہبی اختلاف کی بنا پر غیر مسلموں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس شرط کی موجودگی میں خود ملک بھی ایک قابل ترین شخص کی خدمات سے فائدہ اُٹھانے سے محض اس لئے محروم رہ سکتا ہے کہ وہ غیر مسلم ہے۔'' پھر یہ بھی درج ہے کہ قائم مقام صدر، جو قومی اسمبلی کا سپیکر ہوتا ہے، کے لئے ضروری نہیں کہ وہ مسلمان ہو۔ غور فرمائیے ایسی پارلیمنٹ اسلام کی کیا خدمت کر سکتی ہے؟

ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہماری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس (قاضی القضاۃ) جسٹس کارنیلیس رہ چکے ہیں جو ایک عیسائی تھے اور آج کل بھی سپریم کورٹ کے ایک سینئر جسٹس دراب پٹیل عیسائی ہیں۔ اِسی طرح دوسری کئی کلیدی اسامیوں پر غیر مسلم یا کمیونسٹ لوگ براجمان ہیں۔ یہ چیز اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے اور ہمارے دستور کی اس دفعہ کے بھی خلاف ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اقرار کیا گیا ہے اور یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ ہم جمہوریت کو سینہ سے لگائے ہوئے جس کی بنیاد ہی لا دینیت پر ہے۔

علوم قرآن و سنت میں مہارت:

امیر اور اولو الامر سب کے لئے ضروری ہے کہ علوم قرآن و سنت کے اس قدر عالم ہوں کہ احوال و ظروف کے مطابق نصوص سے استنباط کا ملکہ رکھتے ہوں: ارشادِ باری ہے۔

﴿وَإِذا جاءَهُم أَمرٌ‌ مِنَ الأَمنِ أَوِ الخَوفِ أَذاعوا بِهِ ۖ وَلَو رَ‌دّوهُ إِلَى الرَّ‌سولِ وَإِلىٰ أُولِى الأَمرِ‌ مِنهُم لَعَلِمَهُ الَّذينَ يَستَنبِطونَهُ مِنهُم...٨٣﴾... سورة النساء

اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اسے مشہور کر دیتے ہیں اور اگر اِس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اِس کی تحقیق کر لیتے۔

متقی ہونا:

امیر یا اولی الامر کے لئے یہی کافی نہیں کہ وہ علومِ قرآن و سنت میں ماہر ہو بلکہ اس کا عامل اور متقی ہونا بھی ضروری ہے۔ جتنا کوئی زیادہ پرہیزگار ہو گا اتنا ہی اسلامی معاشرہ کا معزز رکن شمار ہو گا۔ بموجب ارشاد باری تعالیٰ۔

﴿إِنَّ أَكرَ‌مَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم...١٣﴾... سورة الحجرات

اور خدا کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔

ذمہ داریوں کو نباہنے کی اہلیت:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ يَأمُرُ‌كُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِها...٥٨﴾ النساء
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اس کے مستحق کے حوالے کرو۔

عمر کی پختگی:

اگر چالیس یا اسکے لگ بھگ ہو تو بہتر ہے۔ کیونکہ انسان چالیس کے بعد پختہ عمر ہوتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿حَتّىٰ إِذا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَر‌بَعينَ سَنَةً...١٥﴾الاحقاف
یہاں تک کہ انسان بھر پور جوان ہوتا اور ۴۰ سال کی عمر کو پہنچتا ہے۔

مندرجہ بالا پانچ اوصاف ''ہر صاحب امر'' میں پائے جانے چاہئیں۔ اب اولی الامر کی تین شاخیں ہو جاتی ہیں۔

1. اہلِ شوریٰ:

کی نمایاں صفت یہ ہونی چاہئے کہ علوم قرآن و سنت میں مہارت کے علاوہ وہ ممارست کی بنا پر اجتہاد و استنباط کر سکتے ہوں۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ اہلِ شوریٰ کی یہ نمایاں صفت ہونی چاہئے۔

2. انتظامیہ کے اولو الامر:

بالخصوص فوج کے افسروں کے لئے جسم کا مضبوط اور بہادر ہونا بھی ضروری ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ اللَّـهَ اصطَفىٰهُ عَلَيكُم وَزادَهُ بَسطَةً فِى العِلمِ وَالجِسمِ...٢٤٧﴾البقرة
اللہ نے تم میں سے اِسے انتخاب کیا اور اسے علم اور جسم (طاقت) میں کشادگی دی گئی ہے۔

3. قاضی کے اوصاف:

اور جو اولو الامر عدلیہ سے تعلق رکھتے ہوں تو ان میں صاحب بصیرت اور قوت فیصلہ کا ملک ہونا، یہ صفات بھی ضروری ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَءاتَينـٰهُ الحِكمَةَ وَفَصلَ الخِطابِ ﴿٢٠﴾ص

ہم نے اسے حکمت اور فیصلہ کن بات کرنے کی صلاحیت دی۔

امام بخاریؒ نے کتاب الاحکام میں ایک باب یہ بھی باندھا ہے کہ قاضی کے اوصاف کیا ہونے چاہئیں؟ وہ لکھتے ہیں:-

وقال الحسن أخذ اللّٰہ علی الحکام اَنْ امام حسن بصری نے کہا اللہ تعالیٰ نے حاکموں سے یہ عہد لیا۔

لا یتبع الھوی (۱) خواہش نفس کی پیروی نہ کریں (غیر جانبدار رہیں)

ولا یخشوا الناس ولا یشتروا بآیاتي ثمنًا (۲) اللہ کے احکام کو تھوڑے سے دنیوی مفاد

قلیلا۔ (رشوت وغیرہ) لے کر پس پشت نہ ڈالیں۔

اور خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیز قاضی کے لئے مندرجہ ذیل شرائط ضروری قرار دیتے تھے۔

وقال مزاحم بنُ زُفَرَ قَالَ لَنَا اور مزاحم بن زفر نے کہا کہ ہم سے عمر بن عبد العزیز

عمرُ بْن العزیزِ: خَمْسٌ إذا اَخْطَأ خلیفہ نے کہا کہ قاضی کے لئے پانچ باتیں ضروری

القَاضِي مِنْھُنَّ خَصْلَةکَانَتْ فِیْه ہیں۔ ان میں سے ایک بھی نہ ہو تو

وصْمة أن یکون فَھِیْمًا (۱) سمجھ والا ہو (قرآن و حدیث میں فہم سلیم رکھتا ہو)

حلِیْمًا (۲) بردبار ہو۔

عَفِیْفًا (۳) حرام کاموں اور بدکاری سے پاک ہو۔

صَلِیْبًا (۴) حق و انصاف پر پکا اور مضبوط ہو۔

عالمًا سؤلا عَنِ الْعِلْمِ۔ (۵) عالم ہو اور علم کی باتیں دوسرے اہل علم سے

(بخاری۔ کرتاب الاحکام باب مذکور) تحقیق کرتا ہو۔

سربراہِ مملکت کا انتخاب

اولی الامر کی مندرجہ بالا صفات کے علاوہ سربراہِ مملکت میں ایک صفت کا اضافہ ضروری ہے اور وہ یہ کہ اسے عوام کا اعتماد بھی حاصل ہو جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے سقیفہ بنی ساعدہ میں الائمۃ من قریش کہہ کر اس اصول کی تصریح فرما دی تھی۔ امیر کا انتخاب اہل شوریٰ ہی کی ذمہ داری ہے اور اہلِ شوریٰ چونکہ امت کے بہترین آدمیوں پر مشتمل ہوتی ہے اس لئے عموماً شوریٰ میں سے ہی اَتْقٰی اور اہل تر آدمی کو امیر منتخب کر لیا جاتا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عمرؓ کو نامزد فرمایا۔ حضرت ابو بکر کے دورِ خلافت میں حضرت عمرؓ شوریٰ کے ممبر بھی تھے اور قاضی القضاۃ کے عہدہ پر بھی فائز تھے۔

حضرت عمرؓ نے جن چھ آدمیوں کو خلافت کے لئے نامزد فرمایا یہ سب آپ کی شوریٰ کے ارکان اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ ایک اور صحابہ سعد بن زید بھی آپ کی کے رکن اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے اور بقید حیات تھے لیکن وہ حضرت عمرؓ کے رشتہ دار تھے۔ لہٰذا ان کا نام اس کمیٹی میں شامل نہیں کیا۔

اب ذرا صدر پاکستان کی اہلیت کا بھی مطالعہ فرما لیجیے:

1. مسلمان ہو (۱۹۶۲ء سے پہلے مسلمانی بھی شرط نہ تھی)

2. ۳۵ سال سے کم عمر نہ ہو اور اس فہرست میں اس کا نام درج ہو۔

3. قومی اسمبلی کا ممبر بننے کا اہل ہو۔ اور قومی اسمبلی کے ممبر کی اہلیت درجِ ذیل ہے:-

a. بالغ شہری اور رائے دہندہ ہو۔

b. کسی منافع بخش عہدے پر متمکن ہو۔

c. دیوالیہ یا ایبڈوزدہ نہ ہو۔

d. سیاسی اور اخلاقی جرائم میں پچھلے ۵ سالوں میں ۲ سال تک قید کی سزا نہ بھگت چکا ہو۔

e. صوبائی یا قومی اسمبلی کا رکن یا کسی صوبے کا گورنر نہ ہو۔

اب پارلیمنٹ کے ممبر کی اہلیت و کردار اور شوریٰ کے ممبر کی اہلیت و کردار کا آپ خود موازنہ کر سکتے ہیں۔

شوریٰ کی ہیئت اور ارکان کی تعداد:

شوریٰ کے ارکان کتنے ہوں، ان کے اجلاس کتنی دیر بعد ہوں اور کہاں ہوں۔ یہ سب باتیں مشورہ طلب امر کی اہمیت اور ضرورت کے پیش نظر ہونی چاہئیں۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں نظامِ حکومت خوب مستحکم ہو چکا تھا۔ اور اس دور میں مسلمانوں کی سلطنت بھی ہمارے پاکستان سے بہت بڑی تھی۔ لہٰذا آپ کے دَور کی شوریٰ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو وہ ہمارے لیے نظیر کا کام دے سکتی ہے۔

یہ تو واضح ہے کہ اسلام میں جو شخص زیادہ متقی اور صالح ہو گا وہ شوریٰ کا زیادہ حق دار ہے۔ اس لحاظ سے مہاجرین اولین کو اسلامی معاشرہ میں سب سے زیادہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کے بعد دوسرا درجہ عام مہاجرین و انصار کا تھا اور اس کے بعد تیسرا درجہ عام مسلمانوں کا تھا۔ تو مشورہ میں بھی یہی ترتیب ملحوظ رکھی جاتی تھی۔

مہاجرین متقدمین پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ مسجد نبوی میں موجود رہتی تھی جس میں صرف مہاجرین صحابہؓ ہی شریک ہوتے تھے جہاں روزانہ انتظامات اور ضروریات پر گفتگو ہوتی تھی۔ صوبجات اور اضلاع کی روزانہ خبریں جو دربارِ خلافت میں پہنچتی تھیں حضرت عمرؓ ان کو اس مجلس میں بیان کرتے تھے۔ بحث طلب امور کا فیصلہ ہوتا اور موجود لوگوں سے استصواب کیا جاتا تھا۔ چنانچہ مجوسیوں پر جزیہ مقرر کرنے کا مسئلہ بھی اوّل اِسی مجلس میں پیش ہوا تھا۔

مورخ بلا ذری نے اس مجلس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے۔

کان للمھاجرین مجلس في المسجد فکان عمر یجلس معھم فيه ویحدثھم عما ینتهي إليه من أمور الآفاق فقال یومًا۔ ''ما أدري کیف أصنع بالمجوس۔

حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں مہاجرین پر مشتمل ایک مجلس مسجد نبوی میں تھی۔

حضرت عمرؓ ان کے ساتھ بیٹھتے اور سلطنت کے اطراف سے آنے والی خبروں پر گفتگو کرتے۔ ایک دِن فرمایا: مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ مجوسیوں کے ساتھ کیسے معاملہ کیا جائے۔''

اس طرح کی مجلس کو ہم رئیس مملکت کے مشیروں کا نام دے سکتے ہیں۔

دوسری مجلس مہاجرین و انصار پر مشتمل تھی اور اِس مجلس میں دونوں گروہوں کی موجودگی لازمی تھی۔ اِس مجلس کے ارکان کی تعداد تو معلوم نہیں ہو سکتی۔ البتہ چھ ارکان کا ذکر عام ملتا ہے جو مہاجرین سے تھے اور یہ وہی بزرگ ہیں جن کو حضرت عمرؓ نے خلافت کے لئے نامزد فرمایا تھا یعنی حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف اور تین انصار کا نام بھی ملتا ہے۔ معاذ بن جبلؓ، ابی بن کعبؓ اور زید بن ثابتؓ۔

جب کوئی اہم معاملہ پیش ہوتا تو یہ اجلاس بلایا جایا۔ اس کے انعقاد کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے ایک منادی اعلان کرتا تھا کہ اَلصَّلوٰةُ جَامِعَة یعنی سب لوگ نماز کے لئے جمع ہو جائیں۔

کیونکہ ان میں سے بعض ارکان مسجد نبوی سے دور ہی رہائش پذیر تھے۔ جب یہ ارکان مسجد میں جمع ہو جاتے تو حضرت عمرؓ دو رکعت نماز پڑھاتے (جیسا کہ ہمارے ہاں تلاوت سے افتتاح ہوتا ہے) نماز کے بعد منبر پر بیٹھ کر خطبہ فرماتے اور بحث طلب مسئلہ پیش کیا جاتا۔

بعض دفعہ حضرت عمرؓ یوں بھی کرتے کہ پہلے ایک گروہ سے مشورہ کر لیا، پھر دوسرے سے جیسا کہ آپ نے طاعون زدہ علاقے شام میں داخل ہونے کے وقت کیا اور عراق کی زمینوں کا مسئلہ مہاجرین و انصار کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا گیا تھا۔ ایسی مجالس میں ہر شخص کو اختیار ہوتا تھا کہ وہ اپنی رائے کا اظہار پوری آزادی اور بے باکی سے کریں۔

ایسی مجلس کو ہم موجودہ اسمبلی کا نام دے سکتے ہیں۔

اور جب کوئی معاملہ اس مجلس میں بھی طے نہ ہو پاتا ۔ تو پھر یہ مسئلہ اجلاس عام میں پیش کیا جاتا۔ معرکہ نہاوند میں حضرت عمرؓ کی بذات خود روانگی کا مسئلہ بھی ایسا ہی تھا لیکن عام اجلاس کے باوجود یہ مسئلہ پھر بھی اہلِ شوریٰ کے رائے کے مطابق طے ہوا اور حضرت عمرؓ نے سپہ سالاری کا خیال ترک کر دیا۔ عراق کی مفتوحہ زمینوں کا معاملہ بھی اجلاس عام میں پیش ہوا لیکن پھر بھی یہ طے نہ ہو سکا۔ بالآخر حضرت عمرؓ کو قرآن کی آیت کا ایک حصہ ایسا یاد آگیا جو اس مسئلہ میں نص قطعی کا درجہ رکھتا تھا۔ چنانچہ اسی کے مطابق حضرت عمرؓ نے فیصلہ دیا۔

اس طرح کی مجلس کوہم استصواب عام کہہ سکتے ہیں۔ اس مجلس کے ارکان کی تقرری کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ان مجالس میں گو آخری فیصلہ کا اختیار حضرت عمرؓ کو تھا مگر بحیثیت مشیر وہ بھی بالکل مساوی درجہ رکھتے تھے۔ آپ کا ارشاد ہے۔

إني لم أزعجكم إلا لأن تشتركوا في أمانني، فيما حملت من أموركم، فإني واحد كأحدكم وأنتم اليوم لقرون يالحق، خالفني من خالفني، ووافقني من وافقني. ولست أريد أن تتبعوا هذاالذي هواي"

میں نے تمہیں اس لئے تکلیف دی ہے کہ تم میرے اس بارِ امانت میں شریک ہو جو تمہارے ہی امور ہی متعلق ہیں۔ میں بھی تم جیسا ہی ایک فرد ہوں اور نہیں چاہتا کہ تم میری رائے یا خواہش کے پیچھے لگو۔

پہلے امیر ہو یا شوریٰ؟

آج کل یہ سوال بڑی شد و مد سے اُٹھایا جا رہا ہے کہ موجود دَور میں نہ تو شوریٰ موجود ہے جو امیر کا انتخاب کرے اور نہ امیر موجود ہے جو شوریٰ کو منتخب کرے تو آغاز کار کہاں سے اور کیسے ہو؟'' پہلے انڈا یا مرغی؟'' والا معاملہ ہو تو کیا کیا جائے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے امیر ہونا چاہئے۔ حضور اکرم ﷺ نے خود شوریٰ کو منتخب فرمایا تھا۔ شوریٰ کے ارکان کے لئے ضروری ہے کہ تقویٰ کی بنیاد پر ان کی Selection ہو۔ امیر کے تقرر میں مشورہ اور انتخاب مستحسن ضرور ہے۔ لیکن لازمی نہیں۔ جیسا کہ ہم خلافت کے مباحث سے تفصیل سے ذکر کر چکے ہیں اور امیر کے لئے ایک مخصوص طرز انتخاب متعین نہ کرنے میں غالباً یہی شرعی حکمت تھی اور یہ بھی وضاحت کر چکے ہیں کہ ملّت اسلامیہ کا اصل مقصد اسلامی نظامِ حیات کا قیام ہے۔ سربراہِ مملکت کا تقرر اصل مقصود نہیں۔ بلکہ اس کے حصول کا ذریعہ ہے۔ امیر کے انتخاب کے لئے شورائی صورت بہتر صورت ضرور ہے جب کہ اور بھی بہت سے طریقوں سے جواز ثابت ہے۔ ان باتوں سے ہم اِس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ سربراہِ مملکت خواہ کسی بھی طریقہ سے برسراقتدار آجائے اگر وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق نظام بپا کرتا ہے تو اس کے تقرر کر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ نہ اسے یہ طعنہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ غیر آئینی طریقہ سے یا چور دروازے سے آیا ہے بلکہ اس کی اطاعت واجب و لازم ہو جاتی ہے۔ (تفصیل ملی وحدت کے تحت ملاحظہ فرمائیے۔)

نظریۂ ضرورت:

اس کی تازہ مثال موجودہ حکومت اور صدر ضیاء الحق کا برسر اقتدار آنا ہے۔ جس کو ہماری عدالت نے نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا ہے۔ ہمارے خیال میں عدالت کا یہ فیصلہ شریعت کے عین مطابق ہے اور اس کی تائید درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيبَ، ثُمَّ أَخَذَهَا جَعْفَرٌ فَأُصِيبَ، ثُمَّ أَخَذَهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيبَ - وَإِنَّ عَيْنَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَتَذْرِفَانِ - ثُمَّ أَخَذَهَا خَالِدُ بْنُ الوَلِيدِ مِنْ غَيْرِ إِمْرَةٍ فَفُتِحَ لَهُ» (بخاري، کتاب الجھاد والسیر، باب من تَاَمَّرَ فِي الْحَرْبِ من غیرِ اِمْرَة)

حضرت انس بن مالک کہتے ہیں: ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خبطہ سنایا اور فرمایا کہ (جنگ موتہ میں) سرداری کا جھنڈا زید بن حارثہؓ نے سنبھالا وہ شہید ہوئے،پھر جعفر بن ابی طالب نے سنبھالا وہ بھی شہید ہوئے، پھر عبد اللہ بن رواحہ نے سنبھالا وہ بھی شہید ہوئے (ان تینوں کا حکم تو حضور اکرم ﷺ نے خود یکے بعد دیگرے دیا تھا) پھر خالد بن ولید نے یہ سنبھالا کہ ان کی سرداری کا حکم نہیں دیا گیا تھا (وہ آپ ہی ضرورت دیکھ کر سردار بن گئے) تو اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح دی۔

لہٰذا اب اگلا مرحلہ یہ ہو گا اور اس بات کا امیر کو حق ہے کہ وہ شوریٰ کا انتخاب حسبِ دستور خود کرے۔ صوبائی گورنر اپنی شوریٰ کا انتخاب بھی اسی طرح کریں گے جس طرح ہائی کورٹ کے ججوں کا انتخاب مشورہ سے ہوتا ہے۔ جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

شوریٰ کا انتخاب کیسے ہو؟

ہمارے موجودہ جمہوری نظام میں سربراہِ مملکت عدلیہ اور انتظامیہ کی کلیدی اسامیوں کے انتخاب خود کرتا ہے اور اس سلسلہ میں اسے وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ مثلاً وہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر خود کرتا ہے۔ پھر اس کے مشورہ سے دوسرے ججوں کا تقرر کرتا ہے۔ اسی طرح وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور متعلقہ صوبہ کے گورنر کے مشورہ سے ہائی کورٹوں کے چیف جسٹس، پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، متعلقہ صوبہ کے گورنر اور متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے مشورہ سے ہائی کورٹ کے ججوں کا تقرر کرتا ہے۔ گویا متذکرہ افراد سے وہ صرف مشورہ کرنے کا پابند ہے اس مشورے کو قبول کرنے کا پابند نہیں۔ یعنی ان تقرریوں میں اسے وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ وہ عارضی جج اور اٹارنی جنرل کا تقرر بھی کرتا ہے۔

یہ عدلیہ کی بات تھی۔ انتظامیہ میں اسے اس سے زیادہ وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ بیسیوں محکموں کے کلیدی مناصب، افواج پاکستان کے بڑے بڑے عہدہ دار اور بیرونی ممالک میں سفیروں کے تقرر تک کے اختیارات اسے حاصل ہیں۔ ان تقرریوں میں بھی وہ مشورہ کا پابند ضرور ہے۔ لیکن اس مشورے کو قبول کرنے کا پابند نہیں۔

ہمارے خیال میں جس طرح سربراہِ مملکت عدلیہ کے جج منتخب کرتا ہے۔ بعینہٖ اِسی طرح اسے اپنی شوریٰ تشکیل دینی چاہئے۔ اس مقصد کے لئے سب سے پہلے صرف ایک نہایت متقی اور عالم شخص کا انتخاب کرنا چاہئے پھر صدر اس کے مشورے سے حسبِ ضرورت جتنے افراد مجلس شوریٰ میں شامل کرنا چاہتا ہے منتخب کر لے۔ اس مجلس شوریٰ میں ماہرینِ فن بھی حسبِ ضرورت شامل کیے جا سکتے ہیں۔ جو کہ کم از کم مسلمانی کی شرط ضرور پوری کرتے ہوں۔

موجودہ جمہوری نظامِ حکومت میں عدلیہ اور انتظامیہ کے بڑے بڑے عہدوں کا تقرر خود صدر مملکت کرتا ہے لیکن مقننہ حق بالغ رائے دہی (بشمول خواتین) کی بنیاد پر نیز ووٹ کی برابر قیمت تصوّر کرتے ہوئے کثرت رائے کے اصول پر عوام منتخب کرتے ہیں۔ لیکن نظامِ خلافت میں ان تینوں شعبوں کے اولی الامر خلیفہ کی مرضی کے مطابق مقرر کیے جاتے ہیں۔ امیر متعلقہ افردا سے مشورہ کرنے کا پابند ضرور ہے مگر اِسے قبول کرنے کا پابند نہیں البتہ نظامِ خلافت میں کسی خاص علاقہ کے لوگ ولی امر انتخاب کر کے اس کی سفارش کر سکتے ہیں۔ اِسی طرح اہل علاقہ کی شکایت پر کسی حاکم کو معزول بھی کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ یہ سفارش یا شکایت صحیح معیار پر پوری اترتی ہو۔

7. ربطِ ملّت کے تقاضے

اور نظامِ خلافت کی طرف پیش رفت

ہم پہلے بتلا چکے ہیں کہ دینِ اسلام اپنے پیرو کاروں سے اتفاق و اتحاد کا تقاضا کرتا ہے اور اس میں تفرقہ و انتشار کو کفر کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ ملی وحدت کے بقا کے سلسلہ میں ہم بہت سی آیات و احادیث درج کر چکے ہیں۔

اور یہ بھی بتلا چکے ہیں کہ ملتِ اسلامیہ کسی مخصوص علاقہ یا قوم یا نسل کی پابند نہیں ہوتی۔ آج کل ریاست کا تصور، جس کا ایک لازمی عنصر علاقہ بھی ہوتا ہے، اسلام میں مفقود ہے۔ کیونکہ یہ عالمگیریت کا متقاضی ہے۔ اس کے احکام اللہ رب العالمین کے نازل کردہ ہیں جس کی نظر کسی ایک قوم یا علاقہ کے مفادات پر نہیں۔ بلکہ اس کی نظروں میں پوری دنیا کی یکساں فلاح و بہبود ہے۔ علامہ اقبال کے الفاظ ہیں ؎

عقلِ خود بیں غافل از بہبود غیر سُودِ خود بیند نہ بیند سُود غیر

وحی حق بینندۂ سود ہمہ در نگاہش سود و بہبود ہمہ

حضور اکرم ﷺ صرف عرب کے لئے نہیں تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ ارشادِ باری ہے:

﴿وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا كافَّةً لِلنّاسِ بَشيرً‌ا وَنَذيرً‌ا...٢٨﴾سبا
اے رسول! ہم نے تجھے تمام عالمِ انسانیت کے لئے نذیر اور بشیر بنا کر بھیجا ہے۔

اور آپ ﷺ کا لایا ہوا پیغام (قرآن کریم) بھی تمام دنیا کے لئے ہے جو ..... الفاظ سے دنیا بھر کے لوگوں کو خطاب کرتا ہے۔

﴿هـٰذا بَصـٰئِرُ‌ لِلنّاسِ...٢٠﴾الجاثية
یہ (قرآن) تمام لوگوں کے لئے دانائی کی باتیں ہیں۔

اِسی طرح اس امت کا مرکز بھی دنیا بھر کے انسانوں کے لئے ہے۔

﴿اِنَّ أَوَّلَ بَيتٍ وُضِعَ لِلنّاسِ لَلَّذى بِبَكَّةَ مُبارَ‌كًا وَهُدًى لِلعـٰلَمينَ ﴿٩٦﴾اٰل عمران
پہلا گھر جو لوگوں (کے عبادت کرنے) کے لئے مقرر کیا گیا تھا وہی ہے جو مکہ میں ہے بابرکت اور جہان کے لئے موجب ہدایت ہے۔

اسی طرح امتِ مسلمہ کو، جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے مامور ہے۔ دنیا بھر کے انسانوں کے اعمال پر نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ارشادِ باری ہے۔

﴿كُنتُم خَيرَ‌ أُمَّةٍ أُخرِ‌جَت لِلنّاسِ تَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌...١١٠﴾اٰل عمران
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے بھیجی گئی۔ تم (لوگوں کو) نیکی کا حکم دیتے اور بری باتوں سے روکتے ہو۔

تفرقہ کی اقسام:

یہ ہے ملت اسلامیہ کا صحیح تصوّر۔ ایسی ہی امت حضور اکرم ﷺ نے تشکیل فرمائی۔ جس میں حبشی، رومی، فارسی، عربی سب ہم مرتبہ تھے۔ اگر کسی کو تفوّق اور فضیلت تھی تو محض تقویٰ کی بنیاد پر تھی۔لیکن آج اس امت میں وحدت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ اور کئی قسم کے تفرقہ و انتشار کا شکار ہے۔ اس وحدت پر سب سے زیادہ کاری ضرب وطن کے موجودہ نظریہ نے لگائی ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں بڑے واضح الفاظ میں فرمایا تھا۔

لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں۔ برتری صرف تقویٰ کے سبب سے ہے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔''

وطن کے اختلاف کی بنیاد پر جُداگانہ قوموں کی تشکیل یورپ کی پیدا کردہ لعنت ہے۔ وطن پرستی اور قومیت پرستی آج کے سب سے بڑے معبود ہیں۔ جنہوں نے مسلمانوں کو بیسیوں ممالک میں تقسیم کر کے ذلیل و خوار کیا اور تباہی و بربادی کے جہنم میں دھکیل دیا ہے۔

دوسری لعنت کسی قوم میں، ملت نہیں بلکہ قوم میں، سیاسی پارٹیوں کا وجود ہے جو موجودہ جمہوریت کا عطا کردہ تحفہ ہے اور جس کے بغیر جمہوریت زندہ نہیں رہ سکتی۔ اِسی جمہوریت کو ہم سینہ سے لگائے ہوئے ہیں اور کسی قیمت پر اِسے جدا کرنے پر آمادہ نہیں۔ پاکستان میں موجودہ مارشل لاء کے نفاذ سے پیشتر ان کی تعداد ایک سو سے متجاوز کر گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ملت کی وحدت کا تصوّر بھی ناممک ہے۔

تیسری لعنت وہ مذہبی فرقے میں جو اپنی الگ الگ فقہ کو سینے سے چمٹائے ہوئے ہیں اور اس بات پر مصر ہیں کہ:

﴿كُلُّ حِزبٍ بِما لَدَيهِم فَرِ‌حونَ ﴿٣٢﴾الروم

سب فرقے اِسی سے ِخوش ہیں جو ان کے پاس ہے:-

کے مصداق جو کچھ ان کے پاس ہے بس وہی ٹھیک ہے۔ باقی سب غلط ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن تو سب کا ایک ہے۔ اور سنت بھی ایک ہے لیکن فقہ چار ہیں۔ بلکہ اگر شیعہ حضرات کی فقہ جعفریہ بھی شامل کر لیں تو پانچ ہیں جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی فقہ دین کا حصہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی ایک مخصوص فقہ پر اصرار کرنا واجب ہے اس سے دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ اگر پہلے ۵ فقہ موجود ہیں تو اب موجودہ زمانہ کے تقاضوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے چھٹی فقہ بھی اگر مرتب کر لی جائے تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ اس کا دوسرا حل یہ بھی ہے کہ ایسے فروعی مسائل، جن میں ہر فریق کے پاس ادلہ شرعیہ موجود ہوں۔ جیسے حنیف، شافعی وغیرہ کے مختلف فیہ مسائل) ان میں سے کسی ایک جانب کو اگر امیر یا خلیفہ متعین کر کے لوگوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم دے تو ان کا فرق ہو گا کہ اس کا اتباع کریں اگرچہ بحیثیت حنفیت یا شافعیت اس کے مذہب کے خلاف ہو (اسلام میں مشورہ کی اہمیت از مفتی محمد شفیع صاحب ص ۱۵۱)

ملکی تفریق اور اس کا حل:

موجودہ دَورمیں ربط ملت کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک کسی ایک ملک کے سربراہ کو جو خلیفہ کے زیادہ سے زیادہ اوصاف سے متصف ہو اپنا سربراہ تسلیم کر لیں۔ اور ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ سعادت سعودی عرب کے حصہ میں آنی چاہئے کیونکہ اتحاد بین المسلمین میں وہ پیش پیش ہونے کے علاوہ کافی ایثار سے کام لے رہا ہے۔ مسلمانوں کا بین الاقوامی مرکز بھی وہیں ہے اور دوسرے ممالک سے نسبتاً وہی زیادہ شریعت کے احکام کا پاسبان بھی ہے۔ اگر مسلمان ممالک کے سربراہ یا ان میں سے چند ایک بھی ایثار کی مثال پیش کرتے ہوئے اِسے اپنا سربراہ تسلیم کر لیں تو ربط ملّت کی داغ بیل پڑ سکتی ہے۔

گو موجودہ دَور کی دَو سُپر طاقتووں امریکہ اور روس کی اسلام دشمنی اور معاندانہ سرگرمیوں نے مسلمان ممالک کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اگر مسلمان زندہ رہنا چاہتا ہے تو اس کی صورت صرف ان کا آپس میں اتحاد و اتفاق ہے۔ تاہم مسلمانوں کی یہ سوچ ابھی مشترکہ تجارت اور مشترکہ دفاع وغیرہ جیسے مسائل تک محدود ہے۔ گو ایسا اتحاد بھی ایک نیک فال ہے۔ تاہم یہ ربط ملت اور ملّی وحدت کے تقاضے پورے نہیں کرتا اور وہ صرف اس صورت میں پورے ہو سکتے ہیں جب کہ یہ اتحاد و اتفاق محض اللہ کی خوشنودی اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے ہو۔ دنیوی مفادات کی حیثیت اس میں ثانوی حیثیت رکھتی ہو۔

اگر مسلمان قوم کی خوش نصیبی اور اللہ کی مہربانی سے ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو منسلکہ ممالک کے سربراہ یا جنہیں وہ منتخب کریں شوریٰ کے ممبر قرار پائیں گے۔ شوریٰ کے ممبروں کے لئے علاقائی تقسیم مناسب نہ ہو گی بلکہ اہل شوریٰ کے اوصاف سے متصف افراد کسی ملک سے ایک سے زیادہ بھی منتخب کیے جا سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی ملک سے ایسا کوئی نمائندہ نہ جا سکے اور یہ سب کچھ اللہ کی رضا مندی کے لئے ہونا چاہئے۔ بطور حق کے نہیں بلکہ بطور ذمہ داری ادائیگی کے یہ کام سر انجام دینے چاہئیں۔

اللہ کے فضل و کرم سے مسلمان ممالک کے پاس ہر طرح کے وافر وسائل موجود ہیں۔ کسی کے پاس دولت ہے۔ کسی کے پاس افرادی اور عسکری قوت تو کسی کے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی کے معتدبہ وسائل موجود ہیں۔ اگر ایسا وفاق عمل میں آجائے تو مسلمان قوم دنیا کی سپر طاقت بن کر اسلام کو سربلند کر کے یہ تقاضا پورا کر سکتی ہے۔

﴿هُوَ الَّذى أَر‌سَلَ رَ‌سولَهُ بِالهُدىٰ وَدينِ الحَقِّ لِيُظهِرَ‌هُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِ‌هَ المُشرِ‌كونَ ﴿٣٣﴾التوبة
وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں۔

پاکستان آج کل جن حالات سے دو چار ہے اور جس طرح پر کھڑا ہے اس کے لئے تو اور بھی ضروری ہے کہ ایسے الحق کی جلد از جلد کوشش کرے اور دوسرے ممالک کو اس کی زیادہ سے زیادہ ترغیب دے۔ اس سے پاکستان کے بیشتر مسائل بالخصوص نظام اسلامی کی ترویج، معاشی مسائل اور اسلام کی سربلندی، بطریق احسن حل ہو سکتے ہیں۔

سیاسی تفریق اور اس کا حل:

ربط ملّت کے لئے اندرون ملک کام کرنے کے یہ ہیں کہ مغربی طرزِ انتخاب کا سلسلہ یکسر بند کر دیا جائے۔ اور سیاسی پارٹیوں کو ختم کر دیا جائے۔ یہ غیر اسلامی فعل اسلام کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کو یکسر منسوخ یر دیا جائے۔ یہ آئین کوئی خدا کا نازل کردہ آئین نہیں ہے جس پر منتخبہ پارلیمنٹ جیسے غیر اسلامی ادارے کے بغیر کسی کو ترمیم و تنسیخ کا اختیار نہ ہو۔

ہم بہ دلائل یہ ثابت کر چکے ہیں کہ شوری سے زیادہ اہم معاملہ امیر کا تقرر ہے۔ امیر اگر شوریٰ کے ذریعے منتخب ہوا ہو تو بہتر ہے ورنہ کسی بھی طریقہ سے کوئی شخس اقتدار حاصل کر لیتا ہے تو اگر وہ اسلامی نظام کا نفاذ کرتا ہے تو وہ امیر برحق ہے۔ اس کی اطاعت واجب و لازم ہے۔ اس کے تقرر کو چیلنج کرنا او اس کی آئینی حیثیت کو زیر بحث لانا جمہوریت پرستوں کا کام تو ہو سکتا ہے اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔

شوریٰ کی تشکیل اور اس کے فرائض:

سربراہِ مملکت کے لئے لازم ہے کہ وہ موجودہ پارلیمنٹ کی جگہ اپنے لئے شوریٰ کے ممبروں کا انتخاب کرے۔ اور اس کی صورت بالکل ویسی ہو ہوگی جیسے وہ سپریم کورٹ کے جج اور ہائی کورٹ کے ججوں کے باہم مشورے سے انتخاب کرتا ہے۔ ایسے انتخاب میں مختلف علاقوں کے علمائے حق کے مشورہ اور رائے سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔ مجلس شوریٰ میں مختلف فنون کے ماہرین کی شمولیت بھی ضروری ہے تاکہ انتظامی میں مشورہ کے وقت ان کے علم اور تجربہ سے فائدہ اُٹھایا جا سکے۔ ایسے مشیروں کی تعداد کا تعین ملکی ضروریات کے پیش نظر جتنی سربراہ مملکت مناسب تصور کرے مقرر کرنی چاہئے۔

صوبائی گورنر اسی طریق پر اپنی الگ مجلس شوریٰ منتخب کرسکتے ہیں۔

اگر سربراہِ مملکت زمانہ کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مناسب سمجھے تو خواتین کا ایک الگ نمائندہ ادارہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے جو ملک بھر کی چند نمائندہ خواتین پر مشتمل ہو اور جس کا اہم فریضہ خواتین سے متعلقہ قانون سازی میں مشورے دینا ہو۔ اس طرح ایک طرف تو خواتین کو ملکی سیاسیات میں عملی طور پر ملوث کر کے اصل ذمہ داریوں سے ان کی توجہ ہٹانے کی ضرورت باقی نہ رہے گی اور دوسری طرف شوریٰ خواتین کے مسائل سے صرف نظر نہ کر سکے گی۔

مجلس شوریٰ کے فرائض یہ ہوں گے:-

1. جن معاملات میں نص موجود ہے اس میں اگرچہ شوریٰ کوئی رد و بدل نہیں کر سکتی تاہم ان کے لئے ضروری ضروری قواعد و ضوابط مقرر کرے گی۔

2. جن احکام میں کتاب و سنت کے احکام کی ایک سے زیادہ تعبیریں ممکن ہوں۔ ان میں سے اس تعبیر کا قانونی شکل دینا جو کتاب و سنت سے قریب تر ہو۔

3. جن معاملات میں احکام موجود نہ ہوں تو اسلام کے مزاج کے مطابق نئے قوانین وضع کرنا یا پہلے سے موجود فقہی قوانین میں سے کسی ایک کو اختیار کر کے اسے قانونی شکل دینا۔

4. جن معاملات میں قطعاً کوئی اصولی رہنمائی نہ ملتی ہو تو ان کے متعلق شوریٰ مناسب قوانین بنا سکتی ہے بشرطیکہ وہ کسی شرعی حکم یا اصول سے متصادم نہ ہوں۔ اور

5. اگر شوریٰ مناسب سمجھے تو پاکستان کے آئین کو از سرِ نو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کرے۔

مندرجہ بالا دفعات اس بات کی متقاضی ہیں کہ اہل شوریٰ کا صاحب علم و بصیرت اور متقی ہونا اشد ضروری ہے ورنہ ان کے غلط فیصلے شریعت کو مسخ کر سکتے ہیں۔

پھر جس طرح شوریٰ کے ممبروں کا عالمِ دین اور متقی ہونا ضروری ہے۔ اِسی طرح انتظامیہ اور عدلیہ کے کلیدی مناصب کے لئے بھی یہ اوصاف ضروری ہیں۔ ان اسامیوں کو کسی غیر مسلم کے حوالے قطعاً نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ جو لوگ اسلامی نظریہ حیات پر ایمان نہیں رکھتے یا اس کے نفاذ میں کوشش نہیں کرتے وہ یقیناً اس کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوں گے جیسا کہ آج کل ہماری بیورو کریسی کا شیوہ ہے۔ لہٰذا ان کلیدی مناصب کی بتدریج تطہیر اشد ضروری ہے۔ ورنہ شوریٰ کی کارکردگی بھی مؤثر نتائج پیدا نہ کر سکے گی۔

عدلیہ کا دائرۂ کار:

نظامِ خلافت میں عدلیہ کا کام قانونِ شریعت کا نفاذ ہے۔ وہ انتظامیہ اور مقننہ کے دباؤ سے آزاد ہوتی ہے۔ گو قاضی القضاۃ اور دیگر قاضیوں کا تقرر امیر کرتا ہے۔ لیکن اس کے بعد امیر کو کوئی حق نہیں کہ وہ عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہو۔ امیر کے خلاف عدالت میں دعویٰ بھی دائر کیا جا سکتا ہے اور اسے ایک عام شہری کی طرح عدالت کی طلبی پر عدالت میں حاضر ہونا اور جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ عدلیہ کی ایسی آزادی کی مثال انسان کے وضع کردہ کسی نظام میں بھی نہیں مل سکتی۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا عدلیہ کو شوریٰ کے کسی طے شدہ قانونی مسئلہ کو اس بنا پر رد کر سکتی ہے کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف ہے؟ خلافت راشدہ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے خیال میں عدلیہ کو یہ اختیار تو ہو سکتا ہے کہ وہ ایسے قانونی مسئلہ کے خلاف آواز اُٹھائے لیکن اسے رد نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس کام کے لئے ایک مستقل ادارہ (شوریٰ) موجود ہے۔ جس کے ارکان علم و تقویٰ کے لحاظ سے عدلیہ کے ارکان سے کسی طرح کم نہیں ہوتے۔

مذہبی تفریق اور اس کا حل:

مذہبی فرقوں کی تفریق سے چھٹکارا حاصل کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ اصل ماخذ قرآن و سنت ہی قرار دیا جائے۔ اور فقہ کی تمام کتابوں سے نظائر کی حقیقت سے استفادہ کیا جائے۔ اگر ممکن ہو تو شوریٰ سابقہ تمام کتب فقہ کو سامنے رکھ کر موجودہ تقاضوں کے پیشِ نظر نئی فقہ کی تدوین کرے اور جب تک یہ صورت ممکن نہ ہو دو صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں۔

1. عدالتیں پرسنل لاء کو ملحوظ رکھ کر مقدمات کے فیصلے کریں۔ فریقین جس فقہ کے پیروکار ہوں اسی کے مطابق ان کے مطابق ان کے مقدمات و خصومات کا فیصلہ کر دیا کریں۔

2. اور دوسری وہی صورت ہے جس کی طرف ہم پہلے اشارہ کر آئے ہیں کہ ایسے فروعی مسائل جن میں ہر فریق کے پاس ادلّہ شرعیہ موجود ہوں (جیسے حنفیہ، شافعیہ کے مختلف فیہ مسائل) ان میں سے کسی ایک جانب کو اگر امیر یا خلیفہ متعین کر کے لوگوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم دے تو ان کا فرض ہو گا کہ وہ اس کی اتباع کریں۔ اگرچہ بحیثیت حنفیت یا شافعیت اِس کے مذہب کے خلاف ہو۔

اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فروعی اختلاف کو ہوا دینے والا علمائے سوء کا وہ گروہ ہے جس کا روزگار ان مسائل سے وابستہ ہے۔ اگر علماء اور آئمہ مساجد کی کفالت کی ذمہ داری حکومت لے لے۔ جس طرح کہ سعودی عرب میں ہے۔ تو یہ تفرقہ و انتشار کی فضا بہت حد تک کم کی جا سکتی ہے۔ بعد ازاں مختلف مذاہب کے مقتدر علماء کی مشترکہ مجلسوں میں ان اختلافات کو زیر بحث لا کر اور بھی کم کیا جاسکتا ہے۔


حوالہ جات

تحریک آزادی و دستور پاکستان طبع چہارم ص ۴۱۵ از فاروق اختر نجیب۔

واضح رہے کہ یہاں طے ہونے سے مراد میر مجلس کا انشراح صدر یا قلبی اطمینان ہے جو محض آراء کی گنتی سے نہیں ہوتا۔ اور جب کوئی صورت نہ رہے تو پھر کثرت رائے کا سہارا لیا جاتا ہے۔

کتاب الخراج۔ امام ابو یوسف۔