4. خلافتِ راشدہ کی امتیازی خصوصیات

1. اقتدارِ اعلیٰ

نظام خلافت میں مقتدر اعلیٰ خود اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی ہر چیز کا مالک اور وہی قانون ساز ہے۔ ملت اسلامیہ اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے بنیادی قوانین اللہ تعالیٰ خود بذریعہ انبیاء انسانوں کو بتلاتا ہے۔ ایسی قانون سازی کا اختیار کسی نبی کو بھی نہیں ہوتا۔ جب کہ دوسرے تمام نظام ہائے سیاست میں مقتدر اعلیٰ کوئی ایک انسان یا ادارہ ہوتا ہے۔ ملوکیت اور آمریت میں یہ مقتدر اعلیٰ بادشاہ یا ڈکٹیٹر ہوتا ہے۔ جمہوریت میں سیاسی مقتدر اعلیٰ تو عوام ہوتے ہیں اور قانونی مقتدر اعلیٰ پارلیمنٹ۔ اقتدار اعلیٰ کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں۔ مثلاً:

فرانسیسی مفکر بودِن (Bodin) اس کی یوں تعریف کرتا ہے:

''اقتدار اعلیٰ شہریوں اور رعایا پر ریاست کا وہ برتر اختیار ہے جو کسی قانون کا پابند نہیں ہوتا۔''

امریکی مصنف برجس (Burgess) اس کی یوں تعریف کرتا ہے۔

''اقتدار اعلیٰ ہر فرد پر اور افراد کے تمام اداروں پر اصلی، حاوی، مطلق اور غیر محدود اختیار کانام ہے۔''

اور فرانسیسی مفکر روسو (Roasseau) اس کی تعریف یوں کرتا ہے۔

''اقتدارِ اعلیٰ مطلق، قطعی، ناقابلِ تقسیم اور ناقابلِ انتقال اختیار کو کہتے ہیں۔''

ان تعریفوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مقتدر اعلیٰ میں مندرجہ ذیل خصوصیات کا پایا جانا ضروری ہے:۔

وہ مطلق العنان ہو، مستقل بالذات ہو، جامع، منفرد حیثیت کا مالک، ناقابلِ تقسیم، ناقابلِ انتقال اور ناقابلِ زوال ہو۔

اور یہ تو ظاہر ہے کہ ان صفات کی جامع اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی انسان یا ادارہ نہیں ہو سکتا۔ بادشاہ یا آمر کے اختیارات کو ایسے بہت سے خارجی عوامل محدود کر دیتے ہیں جو اس کے قابو میں نہیں ہوتے۔ جمہوریت میں کسی ایک ادارے کے پاس حقیقی حاکمیت موجود نہیں ہوتی۔

ہر ادارے کے ظاہری اختیار کے پیچھے کچھ دوسری با اختیار طاقتیں نظر آتی ہیں۔ اور یہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوتا۔

اب دیکھیے کہ قرآن کریم نے جو مقدرِ اعلیٰ کا تصور پیش کیا ہے وہ مغربی مفکرین کے تصوّر سے کئی لحاظ سے مختلف ہے مثلاً:

1. ملکیت میں فرق: اسلامی نقطۂ نگاہ سے اقتدارِ اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ کوئی فرد یا ادارہ حاکمیت کے اختیارات کا حامل نہیں۔ لیکن مغربی مفکرین کے نزدیک اقتدارِ اعلیٰ کا انسان ہونا ضروری ہے۔ انسان سے ماوراء کسی ہستی کو مقتدرِ اعلیٰ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

2. اختیارات میں فرق: اسلام میں نقطۂ نظر سے کسی فرد کو یا ادارہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خدائی قوانین میں ترمیم و تنسیخ کر سکے۔ جب کہ انسانوں نے قوانین میں آئے دِن ترمیم و تنسیخ کا سلسلہ جاری رہتا ہے کیونکہ اس پر کئی عوامل اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔

3. اکثریت کی حکمرانی: جمہوریت کی اکثریتی پارٹی اپنی مرضی کے مطابق قانون بناتی ہے تو اقلیت کے حقوق و مفادات نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ لیکن اسلام نے اکثریت و اقلیت کی اس مصنوعی تقسیم کو ختم کر کے واحد قانون کا تصور دیا ہے۔ یہ واحد قانون اللہ تعالیٰ کی مرضی اور حکم ہے جو ہر ایک کے لئے یکساں طور پر واجب الاطاعت ہے۔

اسلام میں اقتدار اعلیٰ کی خصوصیات:

1. صرف اللہ تعالیٰ ہی حاکم اعلیٰ ہے۔ کوئی فرد، خاندان، گروہ بلکہ پوری ملت بھی حاکمیت کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔

2. اللہ تعالیٰ ہی قانون ساز ہے۔ کسی دوسرے کو قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں۔ اور نہ خدا کے بنائے ہوئے قانون میں رد و بدل کر سکتا ہے۔ حتّٰی کہ نبی بھی ایسا نہیں کر سکتا۔

3. امیر یا اسلامی حکومت صرف اِسی صورت میں اطاعت کی مستحق ہے کہ وہ خدا کے قانون کو نافذ کرے۔

4. اسلام میں قانونی اور سیاسی حاکمیت میں کوئی امتیاز نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی سیاسی اور قانونی مقتدرِ اعلیٰ ہے۔

اقتدارِ اعلیٰ اور اسلام کی عالمگیریت:

انیسویں صدی کے اواخر میں سائنسی ترقی کے نتیجہ میں جب وسائل ابلاغ میں وسعت اور نقل و حرکت میں آسانی اور تیز رفتاری پیدا ہوئی تو تمام دنیا کو ایک عالمی برادری کا احساس پیدا ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ پہلی جنگِ عظیم میں بہت سے ممالک کو چار و ناچار حصہ لینا پڑا۔ جنگ کے اختتام پر عالمی امن کو برقرار رکھنے کی خاطر جمعیت اقوام (League of Nations) کا قیام عمل میں آیا جو بالآخر ناکام ثابت ہوئی۔ وجہ یہ تھی کہ طاقتور حکومتوں کے مفادات کمزور ملکوں کی حمایت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔

جمعیت اقوام کی ناکامی کا ثبوت اِس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم بپا ہو کر رہی۔ اِس کے اختتام پر نئے جوش و خروش سے ایک دوسرا عالمی ادارہ اقوام متحدہ (U.N.O.) وجود میں آیا۔ اس ادارے نے عالمی امن کے لئے بہت سے قواعد مقرر کئے۔ عالمی عدالت بھی قائم کی۔ تحدید اسلحہ کی کوشش بھی کی اور دنیا بھر کے انسانوں کے لئے ''بنیادی حقوق کا چارٹر'' بھی شائع کیا۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود نتائج کچھ حوصلہ افزاء نہیں۔ وجہ وہی ہے کہ بڑی بڑی طاقتیں اپنے اَنا کو قائم رکھتی اور اپنے اپنے مفادات کی خاطر کمزور ملکوں کے حقوق و مفادات کو کچل دیتی ہیں جیسا کہ آج کل بالخصوص عالمِ اسلام سے ہو رہا ہے۔ اور یہ سب حالات آپ کے سامنے ہیں۔ باہمی آویزش پہلے سے کم نہیں زیادہ ہی ہوئی ہے۔

اب بڑے بڑے مفکرین اِس مصیبت سے نجات کا حل تلاش کرنے میں مصروف ہیں اور ان کے فکر کا نتیجہ اِس شکل میں سامنے آرہا ہے کہ جب تک تمام دنیا میں ایک عالمگیر حکومت قائم نہ ہو، عالمی امن کی ضمانت دینا ناممکن ہے۔ بالفاظ دیگر اِس عالمی حکومت کا اقتدار اعلیٰ صرف ایک ہی ہونا چاہئے۔

اگر انسانی فکر صحیح راہ پر گامزن رہی تو اِسے جلد ہی یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ اقتدارِ اعلیٰ صرف ایسی ہستی ہونی چاہئے جس کی نگاہ میں دنیا بھر کے انسانوں کے حقوق و فادات یکساں حیثیت رکھتے ہوں اور ظاہر ہے کہ یہ صفت کسی انسان میں یا ادارہ میں نہیں ہو سکتی۔ انسان میں اِس لئے نہیں کہ وہ بہرحال کسی نہ کسی قوم اور علاقہ سے تعلق رکھتا ہو گا اور اِسے بہرحال ترجیح دے گا اور ادارہ کی اس لئے نہیں کہ ان کے مفادات آپس میں ٹکراتے رہیں ۔

ان حالات کے پیش نظر وثوق کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب تک دنیا اسلام کی طرف رجوع نہ کرے گی۔ عالمی امن کا قیام ناممکن ہے۔ اسلام ہی ایسا دین ہے جس میں عالمگیر دین کے تمام اوصاف موجود ہیں جس کی تفصیل آئندہ ''ربط ملّت کے تقاضے'' میں آئے گی۔

نظامِ اقتدار کے بجائے نظامِ اطاعت:

نظامِ خلافت کی دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حاکم اور محکوم کا وہ تصوّر سرے سے مفقود ہے جو آج کل کے نظام ہائے حکومت میں پایا جاتا ہے۔ اسلامی معاشرہ میں حاکم اعلیٰ اللہ تعالیٰ خود ہے۔ قانون اور حکم اِسی میں پایا جاتا ہے۔ اسلامی معاشرہ میں حاکم اعلیٰ اللہ تعالیٰ خود ہے۔ قانون اور حکم اِسی کا چلتا ہے۔ آئین تحریری صورت میں موجود ہے۔ حاکم اور رعایا سب اِسی کے تابع فرمان ہیں اور اسی کی منشا و مرضی معلوم کرنے اور اس پر عمل کرنے کے پابند۔ یہاں کوئی انسان کسی دوسرے انسان (حاکم یا اولو الامر) کا غلام نہیں کہ اس کے خود ساختہ قوانین و احکام کی اطاعت و پابندی لازم ہو۔ اس معاشرہ میں حق و باطل، عدل و انصاف اور حقوق و فرائض پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں۔ جن کا حاکم کو بھی ایسے ہی علم ہوتا ہے جیسے اس کی رعایا کے ایک ایک فرد کو۔ خلیفہ یا امیر ان حقوق و فرائض میں اپنی طرف سے نہ کوئی اضافہ کر سکتا ہے نہ ہی ان میں کمی کا مجاز ہے اور اگر وہ ایسا کرے تو یہی نہیں کہ اس کی اطاعت ناجائز ہوتی ہے، بلکہ اس کی مسندِ خلافت بھی معرض خطر میں پڑ جاتی ہے۔ بالفاظِ دیگر اِس معاشرہ کا حکمران کوئی مطلق العنان یا مقتدر اعلیٰ شخصیت نہیں ہوتی بلکہ قانونی لحاظ سے وہ عام آدمی کی سطح پر ہی ہوتا ہے۔ اس کی حکمرانی صرف ان معنوں میں ہے کہ وہ خدائی قوانین کی مشترکہ اطاعت کے لئے طریق کار وضع کرے اور رعایا میں اس کی تنفیذ کے لئے تدبیری قوانین بنائے اور ان کا نفاز کرے۔ وہ اللہ کے احکام پہلے اپنی ذات پر نافذ کرتا ہے پھر دوسروں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔

اس تصورِ حیات کا فائدہ یہ ہے کہ رعایا حکمران کے ایسے قوانین و احکام کی بسر و چشم اطاعت کرتی ہے کیونکہ اس کا بھی عین مقصود یہی کچھ ہوتا ہے اس طرح راعی اور رعایا کے درمیان حاکم و محکوم کے نفرت انگیز تصور کے بجائے اخوت، ہمدردی اور مساوات جیسے ارفع جذبات فروغ پاتے ہیں۔

نظامِ اطاعت کی ہمہ گیری:

پھر اس مشترکہ ذمہ داری نظامِ اطاعت کی ہمہ گیری بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ارشادِ نبوی ہے:-

«کلکم راعٍ وکلکم مسئول عن رعیته» (متفق علیہ)

تم سے ہر ایک حکمران ہے اور اپنی رعایا کے متعلق وہ مسئول ہے۔

یہاں کلکم کا لفظ خاصا توجہ طلب ہے۔ گویا اسلامی معاشرہ کا ہر فرد اپنی حد تک حکمران بھی ہے اور اس سلسلہ میں جواب دہ بھی۔ ایک گھر کا سربراہ افراد خانہ کے لئے۔ ایک شہر کا حکمران اپنے شہر کے لئے، اسی طرح علاقہ کا حکمران علاقہ کے لئے اور پوری ریاست کا حکمران پوری رعایا کے لئے خدا کے ہاں بھی مسئول ہو گا اور حقوق کے اتلاف یا زیادتی کی شکل میں عام رعایا بھی اس سے باز پرس کر سکتی ہے۔

ریاست اور قومیت کے بجائے ملت کا تصور:

اسلامی نظامِ ریاست میں رعایا کا وہ مفہوم مطلق نہیں پایا جاتا جو دوسرے نظام ہائے حکومت میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً ریاست کی جو مختلف تعریفیں کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق ریاست کے عناصر کے ترکیبی اجزاء چار ہیں (۱) آبادی (۲) علاقہ (۳) حکومت اور (۴) اقتدارِ اعلیٰ۔ لیکن نظامِ خلافت کے لئے مخصوص علاقہ کی کوئی شرط نہیں ہے۔ نظامِ خلافت ریاست کی بجائے ملت کا تصور پیش کرتا ہے۔ یہ کسی مخصوص علاقہ کی قید سے آزاد ہے اور اس کا مقصد عمدہ عالمی نظام قائم کرنا اور اس کی تعمیر و بلندی ہے۔ اسلام نے صرف اپنے وطن اور سرزمین کے لوگوں کو اپنا پیغام نہیں دیا۔ بلکہ یہ پیغام تمام دنیا کے لئے یکساں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:-

﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّا خَلَقنـٰكُم مِن ذَكَرٍ‌ وَأُنثىٰ وَجَعَلنـٰكُم شُعوبًا وَقَبائِلَ لِتَعارَ‌فوا ۚ إِنَّ أَكرَ‌مَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم...١٣﴾... سورة الحجرات

لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کی شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔

اِسی طرح اسلام کے پیغامبر کو بھی محض اپنے وطن کی خدمت کے لئے نہیں بھیجا گیا تھا۔

ارشادِ باری ہے۔

﴿وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا كافَّةً لِلنّاسِ بَشيرً‌ا وَنَذيرً‌ا...٢٨﴾... سورة صبا

اور اے محمد! ہم نے تم کو تمام لوگوں کو خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

دنیا کا خدا رب العالمین ہے جس کی ربوبیتِ عامہ میں خصوصیت وطن و مقام نہیں ہے۔ اِس کا پیغام امن و نجات دنیا بھر کے لئے یکساں ہے۔ ملت کی تعریف میں جماعت، امیر اور ان دونوں کے مابین حقوق و فرائض کا تعلق تو پایا جاتا ہے لیکن وطن یا علاقہ کا کوئی تصور نہیں ملتا۔ ارشادِ نبوی ہے۔

«لا إسلام إلا بالجماعة، ولا جماعة إلا بالأمیر ولا أمیر إلا بالسمع والطاعة»

جماعت کے بغیر اسلام نہیں۔ اور امیر کے بغیر جماعت نہیں اور امیر کا حق ہے کہ اس کا حکم سنا جائے اور اس کی اطاعت کی جائے۔

حضور اکرم ﷺ نے ملّتِ اسلامیہ کی تنظیم کا نقشہ پیش فرمایا ہے۔ اِس میں بھی علاقہ یا وطن کا تصور معدوم ہے۔ اِسی تصور کو علامہ اقبال نے یوں واضح کیا۔ ؎

ہر ملک مِلکِ ماست کہ ملک خدائے ماست

اسلام انسانیت کی وحدت اور اتحاد پر زور دیتا ہے اور یہ اصول دراصل اسلام کے عقیدۂ توحید کے ساتھ وابستہ ہے۔ انسانی وحدت قائم کرنے کے لئے ایک منتخب گروہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ جو دوسرے انسان کی رہنمائی کر سکے۔ یہ منتخب گروہ مسلمان ہیں۔

تمام مسلمان ملّت اسلامیہ کے رکن ہوتے ہیں۔ اور ملّت کی تنظیم کے ذریعہ انسانیت کے اتحاد و ترقی کی کوشش کرتے ہیں۔ ملّت کی بنیاد توحید اور ختم نبوّت کے بنیادی اصولوں پر قائم ہے۔ توحید کا اصول اطاعتِ خداوندی کی دعوت دیتا ہے اور انسانی اعمال کی رہنمائی کرتا ہے۔ نبوت کی وجہ سے ملت کا نظم و ضبط قائم ہے۔ حضور اکرم ﷺ ملّت کے رہنما ہیں۔ اور آپ کی ذاتِ اقدس کی وجہ سے ملّت کا نظم و ضبط قائم ہے۔ ملّت کی تنظیم کا تصوّر قومیت کے اِس محدود نظریہ کو رد کرتا ہے۔ جس کی بنیاد جغرافیائی اتصال، یا نسل و رنگ اور لسانی اتحاد پر ہے۔ مسلم ملّت کی بنیاد دین اسلام ہے۔ اور اس لحاظ سے تمام مسلمان خواہ وہ کسی ملک، نسل یا ذات سے تعلق رکھتے ہوں۔ ملّت کے اراکین متصور ہوں گے۔ علاقائی، نسلی، لَونی، لسانی، غرضیکہ کسی طرح کے بھی تعصب کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ وطن کے اختلاف کی بنیاد پر جداگانہ قوموں کا تصور بھی یورپ کی پیداکردہ لعنت ہے۔ وطن پرستی اور قوم پرستی موجودہ دَور کے سب سے بڑے معبود ہیں جن کی پرستش کی جا رہی ہے۔ علاقہ اقبال کے الفاظ ہیں:-
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن ہے اس کا وہ مذہب کا کفن ہے

ملت اسلامیہ کے افراد مختلف زبانیں بولنے، مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے، مختلف رنگوں کے حامل ہونے، مختلف علاقائی حدود میں بسنے اور مختلف لباس اور مقامی رسم و رواج رکھنے کے باوجود ایک ہی طرز پر سوچتے اور ایک ہی سر چشمۂ ہدایت سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اور یہ حقیقت ان سب کو ملتِ واحدہ میں پرو دیتی ہے۔ دراصل اسلام ایک ایسے آفاقی نظام کے قیام کا خواہش مند ہے۔ جس میں نظریہ اور عمل میں مکمل اتفاق و یگانگت پائی جائے اور جو تمام بنی نوعِ انسان کے ہر شعبۂ زندگی میں رہنمائی کرے۔

غیر جماعتی نظام حکومت:

بعض حضرات جو اسلام میں سیاسی پارٹیوں کے وجود کے قائل نہیں وہ اسلامی نظام کو یک جماعتی نظام سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیونکہ آج کل دنیا میں دو ہی قسم کے نظام ہائے حکومت رائج ہیں۔

1. جمہوری نظام جس میں سیاسی پارٹیوں اور خصوصاً حزبِ اختلاف کا وجود لازمی قرار دیا گیا ہے۔

2. یک جماعتی نظام جیسا کہ کمیونسٹ یا سوشلسٹ ممالک میں رائج ہے۔

وہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ غیر جماعتی نظامِ حکومت (No Party System) بھی قابلِ عمل ہو سکتا ہے۔

یک جماعتی حکومت بھی مخالف عنصر کو پہلے سے فرض کر لیتی ہے اگرچہ اِس عنصر کو بزوردبا کر معطل رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس نظام میں انتہائی غیر منصفانہ اقتصادی ناہمواری اور خطرناک مجلسی عدم مساوات ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ دورِ حاضر میں تو یہ نظام کمیونسٹ یا سوشلسٹ ممالک میں رائج ہے۔ قرونِ اولیٰ میں فرعونِ مصر کی حکومت کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔

گو اسلامی معاشرہ میں بھی کاروبارِ حکومت کی کلیدی آسامیاں اور حق انتخاب و مشورہ میں اقلیتیں شامل نہیں ہو سکتیں لیکن وہ اس نظام حکومت میں مقہور و مجبور نہیں ہوتیں۔ وہ اپنا معاشرتی، قانونی اور معاشی حقوق مسلمانوں کے برابر ہی رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظامِ حکومت میں اقلیتیں ہمیشہ حکومت کی خیر خواہ رہی ہیں اور معاون و مددگار ثابت ہوئی ہیں۔

غیر طبقہ دارانہ حکومت:

اسلام نے معاشرتی و سیاسی لحاظ سے ہر مسلمان کا درجہ مساوی قرار دیا ہے۔ اگر کسی کو دوسرے پر افضلیت ہے تو فقط تقویٰ کی بناء پر ہے۔ لہٰذا اسلامی ریاست میں خلیفہ یا امیر کے خاندان یا قبیلہ کو شاہی خاندان کی حیثیت ہرگز حاصل نہیں ہوتی۔ ملوکیت میں تمام کلیدی اسامیوں پر شاہی خاندان مسلط ہوتا اور ہر طرح مادی فوائد حاصل کرتا ہے اور جمہوریت میں برسراقتدار پارٹی تمام کاروبار سلطنت پر چھائی ہوتی ہے اور یہ ان کا حق ہوتا ہے لیکن اسلام میں ایسے حق کی کوئی گنجائش نہیں۔ حتّٰی کہ امیر کے خاندان کے افراد کسی قسم کی سماجی یا مادی مراعات کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتے۔ اسلامی ریاست میں عہدے فقط ذاتی استعداد، تقویٰ اور دیانت کی بنا پر تفویض کیے جاتے ہیں۔ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ نے بھی اِس سلسلہ میں کمال احتیاط کا مظاہرہ کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پرانے قبائلی طرزِ حکومت کے جاہلی نظریہ کی جڑ کٹ گئی اور امت بنیان مرصوص کی طرح متحد رہی۔

حضرت عثمانؓ کا ابتدائی چھ سالہ دَور بھی معاشرہ کے اِسی مزاج سے ہم آہنگ تھا لیکن بعد میں حضرت عثمانؓ کے خاندان بنو امیہ نے چالاکی سے کچھ ناجائز حقوق و مراعات حاصل کر لیے۔ حضرت عثمانؓ ذہنی طور پر اِس مادی دنیا کے مخمصول سے اس قدر دور تھے کہ دنیوی معاملات کے نظم و نسق میں حکمتِ عملی کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا ان کے لئے مشکل تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ فرشتہ سیرت اور رحم دل انسان تھے اور اپنے عزیز و اقارب سے حسنِ سلوک کرنے اور اپنے اختیار کو ان کے مفاد کے لئے استعمال کرنے کو نیکی تصور کرتے تھے (طبری جلد اول) یہ اموی عمال من مانی کاروائیاں کرنے اور ناجائز طور پر املاک غصب کرنے لگے جسے صحابہ اور عامۃ الناس نے شدت سے محسوس کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بعض مفسدہ پردازوں نے عوام کو بر انگیختہ کر دیا۔ بغاوت ہوئی جس کا خاتمہ حضرت عثمانؓ کی شہادت ہوئی۔ اس بغاوت کے بعض دوسرے اسباب میں سے ایک اہم سبب یہی اقربا نوازی تھی۔

حضرت علیؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو انہوں نے ایسے تمام اموی عمال کو معزول کر دیا یا معزولی کے حکم نامے صادر فرما دیئے۔ حالانکہ اب یہ خاندان خلیفہ کے خاندان سے تعلق نہ رکھتے تھے۔ یہی سلوک اگر بتدریج ہوتا تو شاید کسی کو احساس تک بھی نہ ہوتا۔ حضرت علیؓ کے دَور میں حکومت کو استحکام نصیب نہ ہونے کے اسباب میں سے ایک اہم سبب اموی خاندان سے اس قسم کا سلوک تھا۔

گویا اسلامی ریاست اور معاشرہ نہ تو کسی خاندان سے ناجائز ترجیحی سلوک کو برداشت کرتا ہے اور نہ ہی توہین آمیز سلوک کو۔ نتیجۃً دونوں صورتوں میں بگاڑ ہی پیدا ہوتا ہے۔

اخلاقی بنیادیں اور اضافی ذمہ داریاں:

اسلام میں سیاسی تنظیم ایک اخلاقی بنیاد رکھتی ہے یہاں ریاست کا قیام اصل مقصود نہیں بلکہ یہ کسی دوسرے عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں بھی دوسری ریاستوں سے کافی زیادہ ہیں۔ مثلاً ایک غیر اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں محض یہ ہیں کہ پولیس کے ذریعے امن بحال رکھا جائے۔ انتظامیہ کے ذریعہ حکومت کا کروبار چلایا جائے۔ اور فوج کے ذریعے سرحدوں کی حفاظت کی جائے۔ لیکن ایک اسلامی ریاست یہ ذمہ داریاں بھی پورا کرتی ہے اور یہ اس کا ثانوی فریضہ ہے۔ اس کے قیام کے اولین مقاصد یہ ہیں۔

1. نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کیا جائے۔

2. ملک سے ظلم و جور ختم کر کے عدل و انصاف قائم کیا جائے۔

3. مکروہ کاموں کی روک تھام اورنیک کاموں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

4. اور جو قوانین اس نظام کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں ان کو دور کیا جائے۔ اِسی کا نام جہاد ہے۔

اور اِس ساری تگ و دو کا مقصد عمدہ عالمی نظام قائم کرنا اور انسانیت کی تعمیر اورسربلندی ہے۔

یہ تو ظاہر ہے کہ ریاست کا آئین خواہ کتنا ہی بہتر ہو اور حکومت خوا کسی طرز کی ہو۔ اگر اس سے اخلاقی اقدار کو جدا کر لیا جائے تو کبھی مثبت نتائج بر آمد نہ ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے حکومت کے انتظام و انصرام کو وہ اہمیت نہیں دی جو اخلاقی اقدار کو دی ہے اور یہی اخلاقی بنیاد اسلامی طرزِ حکومت کو دوسرے تمام اقسام سے ممتاز کرتی ہے۔

عدلیہ کی بالا دستی:

یوں تو تقریباً سب کی حکومتیں عدلیہ کی بالا دستی کا دعویٰ کرتی رہتی ہیں۔ لیکن نظامِ خلافت کے سوا اس دعویٰ پر پورا اترنا ناممکن ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نظامِ خلافت ہی واحد طرزِ حکومت ہے۔ جس میں مقتدر اعلیٰ اللہ تعالیٰ ہے۔ جس طرزِ حکومت میں جو بھی مقتدرِ اعلیٰ ہو گا حقیقت میں بالا دستی اسی کی ہو گی۔ ملوکیت میں مقتدر اعلیٰ خود بادشاہ کی ذات ہوتی ہے۔ اس کے منہ سے نکلا ہوا لفظ ہی حکم ہے۔ اور وہی قانون ہے۔

جمہوریت میں سیاسی مقتدر اعلیٰ تو عوام ہوتے ہیں اور آئینی مقتدر اعلیٰ پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ عدلیہ محض پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابندی ہوتی ہے۔ حد یہ ہے کہ پارلیمنٹ خود یا وزیر اعظم یا صدر کو اگر عدالت کی طرف سے اپنے مفادات کے خلاف فیصلہ کرنے کا خطرہ ہو تو نیا قانون بنا کر عدلیہ کو بے بس کر سکتی ہے۔ اب ذرا انگلستان جیسے مہذب جمہوری ملک میں پارلیمنٹ کے اختیارات ملاحظہ فرمائیے:-

انگلستان میں اقتدار اعلیٰ پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ ڈائسی (Dycey) کے الفاظ میں ''پارلیمنٹ قانونی طور پر ایسی با اختیار ہے کہ نا بالغ کو بالغ قرار دے سکتی ہے۔ ناجائز بچہ کو جائز بنا سکتی ہے اور اگر یہ چاہے تو ایک شخص کو اپنے مقدمہ میں خود ہی جج بنا سکتی ہے۔'' (یہ سب عدلیہ کے فرائض ہیں)

پارلیمنٹ کے مقابلہ میں عدلیہ کی بے بسی ملاحظہ فرمائیے۔

عدالتیں صرف قانونی اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کرتی ہیں اور اس کے بنائے ہوئے قانون کی روشنی میں مقدمات کا فیصلہ کرتی ہیں۔ انگلستان میں عدالتوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے کسی قانون کو ناجائز یا خلاف ضابطہ قرار دے سکیں۔ وہ صرف اس کی ترجمانی کرنے کی مجاز ہیں۔''

ایک آزاد مملکت میں قانونی مقتدر اعلیٰ ایک مقررہ جماعت یا فرد ہوتا ہے۔ اس کا اختیار لا محدود ہوتا ہے اور اس کی منشاء کو نہ تقسیم کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے احکام کو قوانین کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور کوئی ان کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ اگرچہ وہ اخلاق اور مذہب کے اصول کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ کریں۔ شہریوں کے جو حقوق ہوتے ہیں وہ قانونی مقتدر اعلیٰ کے عطاکردہ ہوتے ہیں اور اس کے خلاف کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ وہ جب چاہے ان حقوق کی تنسیخ کر سکتا ہے۔''

(اصول سیاسیات ص ۱۰۶۔ صفدر رضا صدر شعبہ سیاسیات گورنمنٹ کالج سرگودھا)

''اسمبلی کے ارکان کی تقاریر پر عدلیہ باز پرس نہیں کر سکتی۔'' (آئین پاکستان: دفعہ ۱۱۱)

''اسمبلی کی کسی بھی کاروائی کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔'' (تحریک آزادی اور دستورِ پاکستان ص ۴۵۲)

پاکستان کے آخر دستور (اپریل ۱۹۷۳ء) میں اب تک ایسی دفعات موجود ہیں۔ جن کی ُرو سے سربراہ مملکت، وزیر اعظم، گورنر اور وزرائے اعلیٰ پر نہ تو کوئی فوجداری مقدمہ دائر ہو سکتا ہے۔ نہ عدالت انہیں ایسے مقدمہ میں ملوث قرار دے سکتی ہے اور نہ ہی کوئی بڑی سے بڑی عدالت انہیں طلب کر سکتی ہے۔

ہمارے قومی اسمبلی کے ارکان کو بھی اجلاس کی کاروائی سے ۱۴ دن پہلے اور ۱۴ دن بعد تک کوئی دیوانی یا محصولاتی عدالت یا انتخابی ٹریبونل طلب نہیں کر سکتے۔ نہ ہی ایسی کاروائی کر سکتے ہیں جس میں رکن اسمبلی فریق ہو۔ (دستورِ پاکستان ص ۴۵۳)

اور آج جب کہ مغربی طرزِ انتخاب کو شریعت بنچ میں چیلنج کیا گیا ہے تو جمہوریت نوازوں کی طرف سے یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ جب اس شریعت بنچ کو آئین میں ترمیم و تنسیخ کا اختیار ہی حاصل نہیں تو اس کارروائی کا فائدہ ہی کیا ہے۔

اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر شریعت بنچ اس طرزِ انتخاب کو غیر شرعی قرار دے دے تو آئین کا کیا بنے گا جو اِسی طرزِ انتخاب کے بعد قومی اسمبلی نے بنایا۔ اور پھر پاکستان کی آئینی حیثیت کیا ہو گی؟ جب کہ یہ کثرت رائے کے معیارِ حق ہونے کے اصول پر وجود میں آیا تھا۔'' یہ اور اس قسم کی دوسری باتیں سب اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ آئینی اقتدار اعلیٰ (اسمبلی) یا سیاسی اقتدارِ اعلیٰ (عوام) کے مقابلہ میں عدلیہ کی کوئی وقعت نہیں ہے۔

اب اسلامی عدلیہ کا حال دیکھیے: وہ سربراہ مملکت کو طلب ہی نہیں کر سکتی۔ اس کے خلاف بلا جھجک فیصلہ بھی کر سکتی ہے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ دونوں خلفاء کو عدالت نے اس دوران طلب کیا جب کہ وہ خود خلیفہ تھے۔ جب سربراہِ مملکت عدلیہ کے سامنے یوں بے بس ہو تو دوسرے افراد کو کوئی قانونی رعایت یا گنجائش کیسے مل سکتی ہے۔ یہ محض اِس وجہ سے ہے کہ فرد کے حقوق و فرائض تو خود شریعت نے مقرر کر دیئے ہیں۔ اب ان میں نہ عدالت کمی بیشی کر سکتی ہے اور نہ سربراہِ مملکت۔ دونوں مقتدرِ اعلیٰ (اللہ تعالیٰ) کے سامنے ایک جیسے مجبور اور جوابدہ ہیں۔'' عدلیہ پر کسی بڑی سے بڑی شخصیت کا قطعاً کوئی دباؤ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ''قانون کی بالا دستی'' اسلامی خلافت کی ایک ایسی امتیازی خصوصیت ہے جس کی کوئی دوسری حکومت مثال پیش نہیں کر سکتی۔

انسان کی غلامی سے نجات:

ملوکیت میں ایک انسان کی غلامی ہوتی ہے۔ جمہوریت میں پارلیمنٹ کی۔ اسی طرح دوسرے نظام ہائے حکمرانی میں جو فرد یا ادارہ مقتدر اعلیٰ ہو گا۔ وہ حاکم اور عوام یا رعایا اِس کی غلام ہو گی۔ بادشاہ یا ادارہ جب چاہے نئے احکام و قوانین جاری کر سکتا ہے۔ عوام کے بنیادی حقوق معطّل کر سکتا ہے۔ نیز کئی طرح کی پابندیاں لگا سکتا ہے جب کہ خلافت میں امیر اور رعایا پر ایک ہی قانون نافذ ہوتا ہے۔ دونوں اللہ کے بندے اور غلام ہوتے ہیں۔ کوئی انسان کسی حاکم یا ادارے یا دوسرے انسان کا غلام نہیں ہوتا۔ حضور اکرم ﷺ نے اہل نجران کے نام جو نامہ مبارک لکھا تھا۔ اس میں درج ذیل الفاظ قابلِ غور ہیں۔

«من محمد النبي رسول اللّٰه إلی أسقف نجرانفاني أحمد إلیکم اِلٰه إبراهیم وإسحٰق ویعقوب، أمّا بعد فإني أدعوکم إلی عبادة اللّٰه من عبادة العبادِ» الخ (البدایة والنھایة ج۵ ص ۵۳)

یہ خط محمد رسول اللہ کی طرف نجران کے سردار کے نام ہے۔ میں تمہارے سامنے ابراہیم، اسحٰق و یعقوب کے معبود کی حمد کرتا ہوں۔ زاں بعد تمہیں بندوں کی غلامی سے نجات دلا کر اللہ تعالیٰ کی غلامی اور عبدیت کی طرف بلاتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ تآخر
حوالہ جات

تعارف مدنیت ص ۱۰۶، پروفیسر محمد امین جاوید ایم اے۔ (تاریخ و سیاست)

یہی جمہوریت، ملوکیت اور اسلام کا بنیادی فرق ہے۔