2. کیا مغربی جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کیا جا سکتا ہے

اس سوال کا اجمالی جواب تو یہ ہے کہ جمہوریت میں یہ لازمی امر ہے کہ مقتدر اعلیٰ کوئی انسان ہو یا انسانوں پر مشتمل ادارہ۔ انسان سے ماوراء کسی ہستی کو مقتدر اعلیٰ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ جب کہ اسلامی نقطۂ نظر سے مقتدر اعلیٰ کوئی انسان ہو ہی نہیں سکتا ۔ بلکہ مقتدر اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جس کی بنا پر ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ جمہوریت سے اسلام کبھی سربلند نہیں ہو سکتا۔ ؎

تراناداں امید غمگساری ہاز افرنگ است دل شاہین نہ سوزد بہر آں مرغے کہ درچنگ است

گو یہ بحث یہاں پر ہی ختم ہو جانی چاہئے تاہم چونکہ ہمارے دستور میں یہ الفاظ شامل کر دیئے گئے ہیں کہ ''مقتدر اعلیٰ اللہ تعالیٰ ہے۔'' اس لئے ہم اس بات کا ذرا تفصیل سے جائزہ لینا چاہتے ہیں کہ آیا ایسا ہونا ممکن ہے بھی یا نہیں؟

فرانس کے منشورِ آزادی۔ جسے موجودہ جمہوریت کی روح سمجھا جاتا ہے۔ کو تیار کرنے والے وہ لوگ تھے جو ایک طرف تو کلیسا کے مظالم اور ٹیکسوں سے تنگ تھے اور دوسری طرف بادشاہ کے استبداد اور اس کے ٹیکسوں سے۔ لہٰذا وہ مذہب سے بھی ایسے ہی بیزار تھے جیسے کہ بادشاہ اور اس کی استبدادی حکومت سے۔ اس منشورِ آزادی میں ان کی مذہب سے بیزاری اور بادشاہت سے دشمنی یہ دونوں باتیں واضح طور پر پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ منشور میں جہاں مختلف قسم کی پانچ مساوات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سیاسی مساوات اور جنسی مساوات اس قسم کی ہیں۔ جن کا جواز غالباً انجیل سے بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اور قرآن و سنت میں تو انہیں غلط ثابت کرنے کے لئے اتنی نصوص مل سکتی ہیں کہ ان سے ایک الگ مجموعہ تیار کیا جا سکتا ہے۔

مندرجہ بالا دونوں قسم کی مساوات دراصل ایک ہی اصل ''حق بالغ رائے دہی'' کی فروغ ہیں اور یہ سیاسی حق مغربی طرزِ انتخاب کی جان اور روحِ رواں ہے۔

مغربی طرزِ انتخاب کا دوسرا بنیادی اصول ''کثرت رائے کو معیارِ حق'' قرار دینا ہے۔

کثرت رائے حاصل کرنے کے لئے امیدواروں کو درخواست، تشہیر، جلسے جلوس، کنویسنگ اور ایسے ہی دوسرے ہتھکنڈے استعمال کرنا پڑتے ہیں اور کثرت رائے کے حصول کے لئے ہی مختلف سیاسی پارٹیاں وجود میں آتی ہیں۔ جن کی ہاؤ و ہو اور غل غپاڑے سے ملک انتشار کا شکار ہوتا اور اس کا امن تباہ ہوتا ہے۔

گویا اصل مبحث یہی دو بنیادی اصول ہیں۔ حق بالغ رائے دہی کے سنجیدہ مطالعہ کے لئے انتخاب خلافت راشدہ کی پوری تاریخ مستند حوالوں سے درج کر دی گئی ہے۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام نہ تو ہرکس و ناکس سے رائے لینے کی ضرورت سمجھتا ہے اور نہ ہی اسے جائز سمجھتا ہے۔ پھر ہر کس و ناکس کی رائے ہم قیمت یا ہم وزن بھی نہیں ہو سکتی۔ نیز اسلام نے عورت کو ایسے امور سے مستثنیٰ ہی لکھا ہے تاکہ بے حیائی اور فحاشی کو فروغ نہ ہو اور عائلی نظام پر بھرپور توجہ دی جاسکے۔

کثرت رائے پر سنجیدہ مطالعہ کے لئے مشورہ اور اس کے متعلق عہد نبوی اور خلفائے راشدین کے دور کے اہم ترین واقعات درج کر دیئے گئے ہیں۔

ان تصریحات سے واضح ہے کہ مغربی جمہوریت میں پانچ ارکان ایسے ہیں جو شرعاً ناجائز ہیں:

1. حق بالغ رائے دہی۔ بشمول خواتین (سیاسی اور جنسی مساوات)

2. ہر ایک کے ووٹ کی یکساں قیمت

3. درخواست برائے نمائندگی اور اس کے جملہ لوازمات

4. سیاسی پارٹیوں کا وجود

5. کثرت رائے سے فیصلہ

ان ارکانِ خمسہ میں سے ایک رکن بھی حذف کر دیا جائے تو جمہوریت کی گاڑی ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتی۔ جب کہ اسلامی نظامِ خلافت میں ان ارکان میں سے کسی ایک کو بھی گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا یہ دونوں نظام ایک دوسرے کی ضد اور ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ یعنی نہ تو جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی نظامِ خلافت میں جمہوریت کے مروجہ اصول شامل کر کے اس کے سادہ، فطری اور آسان طریق کار کو خواہ مخواہ مکدّر اور مبہم بنایا جا سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جمہوریت ایک لا دینی نظام ہے اور اس کے علمبردار مذہب سے بیزار تھے جب کہ خلافت کی بنیاد ہی خدا، اس کے رسول اور آخرت کے تصور پر ہے اور اس کے اپنانے والے انتہائی متقی اور بلند اخلاق انسان تھے۔

ہمارے خیال میں جیسے دِن اور رات یا اندھیرے اور روشنی میں سمجھوتہ ناممکن ہے۔ بالکل ایسے ہی دین اور لا دینی یا خلافت اور جمہوریت میں بھی مفاہمت کی بات ناممکن ہے۔ لہٰذا اگر جمہوریت کو بہرحال اختیار کرنا ہے تو اسے توحید و رسالت سے انکار کے بعد ہی اپنایا جا سکتا ہے۔ ؎

باطل دوئی پرست ہے حق لا شریک ہے شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول

کیا ووٹوں کے ذریعے اسلام لایا جا سکتا ہے؟

آج کے دَو ر میں بعض اسلامی ذہن رکھنے والے حضرات اور نیک نیتی سے اسلامی انقلاب کے داعی لیڈر جب دیکھتے ہیں کہ اقتدار پر قبضہ کیے بغیر اسلامی نظام کی ترویج ناممکن ہے تو اِس کا حل انہوں نے یہ تلاش کیا ہے کہ نیک شہرت رکھنے والے امیدوار انتخاب کے لئے نامزد کیے جائیں اور عوام میں اسلامی تعلیمات کا پرچار ایسے نیک نمائندوں کی ہر ممکن امداد پر لوگوں کو ابھارا جائے تا آنکہ اسمبلی میں نیک لوگوں کی کثرت ہو جائے۔ موجودہ جمہوری دور میں معاشرہ کی اصلاح اور اسلامی نظام کی ترویج کی یہی واحد صورت ہے۔

ہمیں افسوس ہے کہ ہم اس سلسلہ میں ان کی تائید نہیں کر سکتے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ووٹوں کے ذریعہ نہ آج تک کبھی اسلام آیا ہے اور نہ آئندہ آسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوناممکن ہونا تو انبیاء اس پُر امن ذریعۂ انتقالِ اقتدار کو ضرور استعمال کرتے۔

بنی نوعِ انسان کے لئے قرآن کریم اور حضور اکرم ﷺ کی سنت سے بہتر دستور ناممکن ہے اور قرآن کریم کی تبلیغ کے لئے جو ان تھک اور جان توڑ کوششیں حضور اکرم ﷺ نے فرمائیں دوسرا کوئی نہیں کر سکتا۔ آپ ﷺ کو جاں نثار اور مخلص پیرو کاروں کی ایک جماعت بھی مہیا ہو گئی جو اسلام کے عملی نفاذ کے لئے صرف تبلیغ و اشاعت اور پروپیگنڈا پر ہی انحصار نہیں رکھتے تھے بلکہ اپنی پوری پوری زندگیاں اسی قالب میں ڈھال لی تھیں۔ صحابہؓ کی جماعت گویا قرآنی تعلیمات کے چلتے پھرتے نمونے تھے لیکن تیرہ سال کی انتھک کوششوں کے باوجود یہ تو نہ ہو سکا کہ حضور اکرم ﷺ مکّہ میں اسلامی ریاست قائم کر لیتے۔

جب ایک بہترین دستور بھی موجود ہو اور اس کو عملاً نافذ کرنے والی جماعت بھی مثالی کردار کی مالک ہو۔ وہ تو اس دستور کو کثرت رائے کے ذریعہ نافذ نہ کر سکی تو آج کے دَور میں یہ کیونکر ممکن ہے؟

اسلامی نظام کی ترویج کے لئے اقتدار کی ضرورت سے انکار نہیں۔ لیکن رائے عامہ کو صرف تبلیغ کے ذریعے ہموار کرنا اور اس طرح اسلامی انقلاب برپا کرنا خیالِ خام ہے۔ اِس کے لئے ہجرت، جہاد اور دوسرے ذریعے ہی اختیار کرنے پڑیں گے جیسا کہ انبیاء اور مجاہدینِ اسلام کا دستور رہا ہے۔

جماعت اسلامی پوری نیک نیتی سے اسلام نظامی کی داعی ہے اور جب سے اس جماعت نے عملاً سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ہے۔ مندرجہ بالا نظریہ کے مطابق نیک امیدوار کھڑے کرتی رہی ہے۔ لیکن ہر الیکشن میں ہمیشہ پٹتی ہی رہی ہے۔ ۱۹۷۰ء میں جب یحییٰ خان نے انتخابات کرائے اور غالباً پاکستان کی پوری تاریخ میں یہی انتخاباتِ آزادانہ اور منصفانہ ہوئے تھے تو انتخاب سے ایک دو روز قبل تک تمام سیاسی مبصرین اور اخبارات کی یہی رائے تھی کہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا انتخابی مقابلہ برابر کی چوٹ ہے لیکن جب نتیجہ نکلا تو پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے جیت گئی جب کہ جماعت اسلامی کو صرف چار نشستیں مل سکیں۔

ایسے مایوس کن نتائج کی وجہ یہی ذہنی مغالطہ تھا کہ عوام الناس کو محض وعظ و تبلیغ سے نیک بنایا جا سکتا ہے۔ جماعتِ اسلامی زیادہ سے زیادہ یہ کچھ کر سکتی تھی کہ اسمبلی کی پوری نشستوں کے لئے اتنے ہی بڑے نیک اور صالح نمائندے کھڑے کریں لیکن انہیں ووٹ دینا تو عوام کا کام ہے۔ اس مقام پر جماعت کی پوری کارکردگی بے بسی کا شکار ہو جاتی ہے۔ عوام کیا کثریت زبانی طور پر بے شک جماعت اسلامی کو نیک اور دیانتدار اور اسلام کی داعی جماعت تصوّر کرے لیکن اسے ووٹ نہیں دے گی۔ ووٹ تو کوئی شخص صرف اِس وقت دے سکتا ہے جب اپنے آپ پر اسلام کے نفاذ کو قبول کر لے۔

موجودہ طرزِ انتخاب کی تطہیر:

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ نمائندے ایسے منتخب کیے جائیں جو اس کے اہل ہوں اور علاوہ ازیں ووٹ دینے کا حق بھی قرآن و سنت کے قاعدہ کے مطابق صرف صالح افراد کو ملنا چاہئے۔ گویا متقی لوگ ہی کھڑے ہوں اور صرف صالحین کو ووٹ کا حق ہو تو اس طرح بہتر نتائج کی پوری توقع ہے۔

ہمارے خیال میں اس جمہوری دور میں ووٹر پر عمل صالح کی پابندی لگا کر یہ نسخہ آزمانا مشکل سا نظر آتا ہے۔ جب تک کاروبارِ حکومت میں حصہ لینے کے عوامی حق'' کے ذہن کو نہ بدلا جائے تب تک ؎

''تاثر یامے رود دیوار کج''

والا معاملہ ہی رہے گا۔ کثرت رائے کا اصول پھر پارٹیاں پیدا کرے گا۔ جو رائے عامہ منظم کریں گی۔ وہی ہتھکنڈے وہی خرابیاں۔ اور پارلیمنٹ میں پارلیمانی اور صدارتی نظام کے جھگڑے اور کثرت رائے کے فیصلے۔ آخر کیا کچھ اسلامی مزاج کے خلاف برداشت کیا جا سکتا ہے۔

پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ یہ طرزِ انتخاب اور مرکزی اسمبلیوں کا قیام دراصل مغربی عیاشی کی ایک شکل ہے۔ پاکستان جیسا غریب ملک اس مدّ پر ہر چوتھے پانچویں سال کروڑوں روپے خرچ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ قومی دولت اور وقت کے ضیاع کا تو اندازہ لگانا ہی بہت مشکل ہے۔ قوم میں اخلاقی اور معاشرتی برائیاں جو پیدا ہوتی ہیں وہ مستزاد ہیں۔ پھر بھلا وہ کون سی خوبی ہے جس کی بنا پر ہم اِس نظام کی ترمیم شدہ شکل سے چمٹے رہنے کی کوشش جاری رکھیں۔

3. موجودہ طرزِ انتخاب اور اجماعِ سکُوتی

جمہوریت نوازوں کی طرف سے اکثر یہ اعتراض بھی اُٹھایا جاتا ہے کہ:

1. مغربی جمہوری نظام ہمارے ملک میں تقریباً ایک صدی سے رائج ہے لیکن علماء نے اس کے عدم جواز کا آج تک فتویٰ نہیں دیا۔

2. ۱۹۴۹ء میں جو قراردادِ مقاصد منظور ہوئی۔ یہ قرار داد تقریباً ۲۲ ممتاز علمائے دین کی مشترکہ جدوجہد سے منظور ہوئی جن کے سربراہ علامہ شبیر احمد عثمانی تھے۔ اس قرار داد کی منظوری پر سب علماء مطمئن اور خوش تھے۔

3. ۱۹۷۳ء کے آئین میں بھی ممتاز علمائے کرام مثلاً مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد وغیرہ موجود تھے۔ جنہوں نے اس آئین کو صحیح اور پہلا اسلامی آئین قرار دیا۔

4. بہت سے ممتاز علمائے کرام خود اس طرزِ انتخاب میں حصہ لیتے رہے ہیں۔

5. ان ساری سرگرمیوں کے باوجود آج تک (یعنی ۸۰-۱۹۷۹ء تک) کسی عالمِ دین نے اس کے خلاف فتویٰ نہیں دیا لہٰذا یہ اجماع سکوتی ہے جو منجملہ ادلّہ شرعیہ ایک قابلِ حجت امر ہے۔ اب اس کے خلاف آواز اُٹھانا:

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا(۴/۱۱۵)

اور جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا اور رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔

کی رُو سے ناجائز اور جماعت مسلمین میں انتشار اور تفرقہ پیدا کرنے کے مترادف ہے۔

یہاں تین باتیں قابلِ غور ہیں۔

1. اجماعِ صحابہ کے حجت ہونے میں تو کسی کو کلام نہیں۔ لیکن ما بعد کے ادوار کا اجماع کا حجت ہونا بذات خود مختلف فیہ مسئلہ ہے اور راحج قول یہی ہے کہ ما بعد کا اجماع امت کے لئے قابلِ حجت نہیں ہے۔

2. صحابہ کا اجماع تو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ان کا زمانہ بھی محدود اور علاقہ بھی محدود تھا۔ لیکن ما بعد کا اجماع ثابت کرنا ہی بہت مشکل ہے۔ جب کہ امت اقصائے عالم میں پھیل چکی ہے، اور علماء بھی ہر جگہ موجود ہیں۔

3. مسئلہ زیر بحث پر واقعی اجماع ہے یا نہیں؟ بالخصوص ہمارے علاقہ پاکستان کے کیا سب علماء اس پر متفق ہیں؟

ہم صرف تیسری شِق پر غور کریں گے۔ اگر یہ اجماع ہی ثابت نہ ہو سکے تو باقی دو کی تفصیل و تشریح تحصیل حاصل ہو گی۔ ہم پہلے لکھ آئے ہیں کہ مغربی طرزِ انتخاب کے پانچ ارکان ہیں اور ان کی بنیاد عوام کی حاکمیت ہے ان میں سے ایک بھی حذف ہو جائے تو یہ نظام چل نہیں سکتا اب دیکھیے:

1. عوام کی حاکمیت کے بجائے اللہ کی حاکمیت تو ایسا بنیادی مسئلہ ہے جس میں کسی دینی رہنما کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ قرآن کریم میں بے شمار ایسی آیات ہیں جو اس مسئلہ میں قطعی حکم کا درجہ رکھتی ہیں۔ لہٰذا اِس مسئلہ پر علماء کی تصانیف بھی ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جبکہ موجودہ جمہوریت کی بنیاد ہی یہ ہے کہ مقتدرِ اعلیٰ صرف انسان ہی ہو سکتا ہے۔ انسان سے ماوریٰ کوئی ہستی متصور نہیں ہو سکتی ۔ اللہ کی حاکمیت کا زبانی یا تحریری اقرار کچھ سود مند نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ موجودہ طرزِ انتخاب کی تشکیل ہی اس نہج پر ہوتی ہے کہ وہ خواہ عوام کی حاکمیت تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے لہٰذا یہ اجماع سراسر نامکمل ہے کیونکہ اس کی اصل بنیاد سے سب علماء اختلاف رکھتے ہیں۔

2. علامہ اقبال جنہیں سیاسی بصیرت کے لحاظ سے نظریہ پاکستان کا خالق اور دینی بصیرت کے لحاظ سے مفکر اسلام سمجھا جاتا ہے۔ جنہوں نے خود مغربی ملکوں میں گھوم پھر کر اس جمہوریت کا بغور مطالعہ کیا۔ انہوں نے نصف صدی پیشتر مسلمانوں کو جمہوریت کی قباحتوں سے متنبہ کر دیا تھا۔ مثلاً:

1. حق بالغ رائے دہی اور پھر ''ہر ایک کے ووٹ کی یکساں قیمت'' کے متعلق فرماتے ہیں۔

گریز از طرزِ جمہوری غلامِ پختہ کارے شو کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانے نے آید

یہاں دو صد خر سے مراد عوام اور پختہ کار انسان سے مراد صاحب الرائے ہے۔ اِسی مضمون کو دوسرے شعر میں اس طرح ادا کیا ہے۔

جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

2. ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنے کے لئے پارٹیاں بنانے اور الیکشن لڑنے کے متعلق فرماتے ہیں:

الیکشن، ممبری کونسل، صدارت بنائے خوب آزادی کے پھندے

میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے

3. وہ اس نظام کو بھی آمریت اور استبداد ہی کی ایک شکل قرار دیتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ملوکیت میں ایک آدمی خود سر اور خود رائے ہوتا ہے۔ جمہوریت میں اکثریتی پارٹی خدا بن بیٹھتی ہے۔ باقی پارلیمنٹ اور رعایا سب اس کی محکوم و مجبور و مقہور ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں ؎

دیو استبداد، جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

ہے وہی سازِ کہن، مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردے میں نہیں غیر از نوائے قیصری

اِس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر

فرنگ آئین جمہوری نظام نہاد است رسن از گردنِ دیوے کشاد است

دائے بر دستورِ جمہور فرنگ مُردہ تر شد مردہ از صور فرنگ

حیرت تو اس بات پر ہے کہ اس قومی ہیرو کی ہر سال بڑے جوش و خروش سے برسی منائی جاتی ہے۔ مقرر حضرات علامہ اقبال کے شعروں سے اپنی تقریر کو مزین کرتے ہیں اور مصنفین اس کے شعروں کے بغیر اپنی تحریر کو مستند و مکمل نہیں سمجھتے لیکن یہ عقیدت محض رسمی اور نمائشی ہی معلوم ہوتی ہے۔

علامہ اقبال کے بعد قائد اعظم پاکستان کے بانی اور قومی ہیرو ہیں۔ آپ کے ارشادات کا بھی بار بار تکرار کیا جاتا ہے۔ آپ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ۱۰؍ مارچ ۱۹۴۱؁ء کو جو تقریری فرمائی۔ اس کے درج ذیل اقتباس پر غور فرمائیے:-

''میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ جمہوری پارلیمانی نظامِ حکومت، جیسا کہ انگلستان اور بعض دوسرے مغربی ممالک میں ہے برصغیر کے لئے قطعاً غیر موزوں ہے۔'' (نوائے وقت ۷۹/۶/۱۶)

4. مورخ اسلام اکبر شاہ خان نجیب آبادی نے اپنی تصنیف ''تاریخ اسلام'' جلد اول کے مقدمہ کے آخر میں (صفحہ ۳۷ تا ۴۶) ملوکیت، جمہوریت اور خلافت کے فرق کو واضح کر کے موجود جمہوریت کو باطل قرار دیا ہے۔

5. اس وقت سیاسیات کے کورس کی تین کتابیں ہمارے سامنے پڑی ہیں۔ یہ کتابیں کالجوں میں طالب علموں کو پڑھائی جاتی ہیں۔ ان سب میں جمہوریت کے مقابلے نظام خلافت کا واضح تصور پیش کیا گیا ہے اور جمہوریت کو لا دینی نظام قرار دیا گیا ہے۔

1. تعارف مدنیت: پروفیسر محمد امین جاوید ایم اے سیاسیات، تاریخ پہلا ایڈیشن ۱۹۶۵ء، تیسواں ایڈیشن ۱۹۷۸ء صفحہ ۱۰۱ تا ۱۰۶

2. کتاب شہریت: پروفیسر محمد سرور، پروفیسر محی الدین صدر شعبہ سیاسیات پانچواں ایڈیشن ۲۴۴ تا ۲۴۸

3. اصول سیاسیات: پروفیسر صفدر رضا صدر شعبہ سیاسیات پہلا ایڈیشن ۱۹۶۵ء، پانچواں ایڈیشن ۱۹۶۷ء صفحہ ۴۴۸

6. مندرجہ ذیل علماء نے اپنی تصانیف میں سیاسی جماعتوں کے وجود (Party System) کو ناجائز قرار دیا ہے:

a. پولیٹیکل تھیوری سید ابو الاعلیٰ مودودی صفحہ ۳۷

b. اسلام کا اقتصادی نظام مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی صفحہ ۸۹

c. پولیٹیکل تھیوری ڈاکٹر عزیز احمد صفحہ ۱۷

d. قرآنی قوانین غلام احمد پرویز صفحہ ۹ نیا ایڈیشن ص ۳۱ پرانا ایڈیشن

e. اسلام کا نطام حکومت مولانا حامد اللہ انصاری صفحہ ۴۷۱

f. اسلام کا سیاسی نظام مولانا محمد اسحاق سندھیلوی صفحہ ۱۰۶

g. دستورِ اسلام مولانا محمد ادریس کاندھلوی صفحہ ۱۸

7. مندرجہ ذیل مستقبل تصانیف ہیں جو مغربی طرز انتخاب کو باطل قرار دیتی ہیں۔

a. اسلام میں خلیفہ کا انتخاب ڈاکٹر محمد یوسف پی۔ ایچ۔ ڈی

b. اسلام میں مشورہ کی اہمیت مفتی محمد شفیع صاحب کراچی

c. امیر کہاں تک شوری کا پابند ہے؟ قاری محمد طیب مہتمم دار العلوم دیو بند

d. اکثریت معیار حق نہیں مولانا ابو الکلام آزاد

8. جزوی مضامین:

a. درخواست دہندگی اور عہدہ کی طلب تفہیم القرآن زیر آیت اجعلنا للمتقین امام مولانا ابو الاعلیٰ مودودی

b. حق بالغ رائے دہی کا ابطال تفہیم القرآن زیر آیت استخلاف مولانا ابو الاعلیٰ مودودی

ہمیں ایسی مطبوعات یا مضامین کو مزید تلاش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس ''اجماع سکوتی'' کے ابطال کے لئے یہ کچھ بھی بہت کافی ہے۔

آج کل قومی بحث کے عنوان سے نوائے وقت میں جو انٹرویو یا سیاسی لیڈروں کے بیانات شائع ہو رہے ہیں ان میں کئی سیاسی رہنماؤں نے مغربی جمہوریت کے قطعاً غیر اسلامی ہونے کا بیان دیا ہے۔ حالانکہ وہ خود انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔

1. مولانا معین الدین صاحب لکھوی

2. رفیق احمد باجوہ

3. رانا خداداد خاں

4. حافظ عبد القادر روپڑی

اور ایسے حضرات تو بہت زیادہ ہیں جو کسی سیاسی شہرت کے مالک نہیں لیکن وہ جمہوریت کے خلاف مضامین قلمبند کر رہے ہیں۔ اور ایسے مضامین نوائے وقت سمیت دوسرے اخبارات میں بھی چپ رہے ہیں۔

گویا آج سے پچاس ساٹھ سال پیشتر سے لے کر آج تک یہ آواز مسلسل سنائی دے رہی ہے کہ مغربی طرز انتخاب ازروئے اسلام ناجائز ہے تو پھر اِس پر اجماع سکوتی کا فتویٰ کیونکر درست ہے؟

اب رہا یہ سوال کہ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور ان کے ساتھیوں نے ۱۹۴۹ء کی قرار داد مقاصد پر اطمینان کا اظہار کیا تھا تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اسلامی نظام کی طرف پیش رفت کے لئے ایک نسخہ تجویز ہوا تھا۔ یہ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ اس نسخہ کا استعمال بھی کیا جائے گا مگر جب یہ امید بر نہ آئی تو پھر ہر طرف سے آوازیں اُٹھنے لگیں۔ یہ تو واضح ہے کہ نسخہ خواہ کتنا ہی قیمتی اور شفا بخش کیوں نہ ہو اگر استعمال ہی نہ کیا جائے اور اس کاغذ کے پرزے کو سنبھال کر رکھا جائے تو اس سے شفا کی توقع خیال باطل ہے۔

۱۹۷۳ء کے آئین میں جن علماء کی موجودگی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ سب ایک فریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کے اطمینان کو وجہ جواز بنانا فضول ہے۔ سیاسی قائد کا اپنا مفاد اسی میں ہے کہ انتخاب کا سلسلہ چلتا رہے الا ما شاء اللہ۔

اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جو سیاسی اور دینی رہنما جمہوری طرزِ انتخاب کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں وہ خود کیوں انتخابات میں حصہ لیتے رہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ برضا و رغبت الیکشن میں حصہ نہیں لیتے بلکہ بہ امر مجبوری انہیں یہ تلخ فریضہ سر انجام دینا پڑتا ہے تاکہ دین بیزار اور خراب عناصر کے راستہ کو بالکل آزاد نہ چھوڑ دیا جائے۔ بلکہ اس بے دینی اور بد عنوانی کے سیلِ رواں کے سامنے جہاں تک ہو سکے رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہئیں۔ گویا ان لوگوں کا انتخاب میں حصہ لینا ایک دفاعی طریقۂ کار تھا۔ اور اَھْوَن الْبَلِیَّتَیْنِ کے نظریہ کے پیش نظر انتخابات میں حصہ لینا اس لئے گوارا کر لیا گیا کہ اگر انتخاب میں حصہ نہ لیا جائے تو اس کا نقصان اس سے بھی زیادہ ہو گا۔

سیاست دانوں کی جمہوریت سے وابستگی کی وجوہات:

مذکورہ مذہبی رہنماؤں کے علاوہ پیشتر سیاست دان ایسے ہیں جو بہرحال مغربی طرزِ انتخاب کو سینے سے لگائے رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1. حقیقت یہ ہے کہ جمہوری نظام میں حاکمیت عوام کی نہیں ہوتی بلکہ ان پیشہ ور ریاست بازوں کی ہوتی ہے جو عوام کی رائے سے ہروقت کھیلتے اور اپنا اُلّو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔ اس نظام میں سیاسی مقتدر اعلیٰ (یا طاقت کا سرچشمہ) تو عوام کو کہا جاتا ہے لیکن جب وہ اپنا اختیار نمائندوں کو بذریعہ ووٹ منتقل کر دیتے ہیں تو ان کی منتخب شدہ ممبروں کی یہ پارلیمنٹ آئینی اقتدارِ اعلیٰ بن جاتی ہے۔

عوام کی اپنی رائے کچھ نہیں ہوتی نہ ہی وہ اہل الرائے ہوتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ اور دولت کے وسائل پر قابض لوگ ان کی رائے کو بگاڑتے اور سنوارتے رہتے ہیں۔ عوام کی حیثیت اس خام مال کی ہوتی ہے جو چند سرمایہ داروں کو سیاسی اقتدارِ اعلیٰ سے اُٹھا کر آئینی اقتدارِ اعلیٰ کے ایوانوں میں لا کھڑا کرتا ہے تاکہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق قانون بنا سکیں اور اس مدت کے دوران عوام ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ البتہ آئینی اقتدار سے محروم سیاست دان چاہیں تو سیاسی اقتدار اعلیٰ یعنی عوام کو بیوقوف بنا کر آئینی مقتدر اعلیٰ کو مخصوص مدت سے قبل ہی ختم کر سکتے ہیں اور خود آئینی اقتدار اعلیٰ کی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔ لیکن پیشہ ور سیاست بازوں کا ایک اَور خول سیاسی مقتدر اعلیٰ (عوام) کو ایک بار پھر بے وقوف بنا کر نئے آئینی مقتدر اعلیٰ کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ عوام کی حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ کا تصور یہی ہے کہ وہ بار بار بیوقوف بنتے رہیں۔ تاکہ ان کی حماقت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے انہیں ہر بار بے وقوف بنانے کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔

یہی وہ جمہوریت کا دلچسپ کھیل ہے جس سے ہمارا سیاستدان بہرحال چمٹا رہنا ہی پسند کرتا ہے۔ پھر چونکہ عوام بے علم ہونے کے باوجود اسلام کے شیدائی ضرور ہیں۔ اس لئے وہ آیت کی تاویل کر کے اور واقعات کو اِس طرح توڑ موڑ کر پیش کرے گا کہ جس طرف سے دیکھیں جمہوریت کے آئینہ میں اسلام ہی اسلام نظر آئے۔

2. سیاست ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ کوئی سیاست دان چند سالوں کے لئے نہ سہی چند دنوں کے لئے ہی کرسیٔ اقتدار پر متمکن ہو جائے تو اس کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ وہ جائز وناجائز ذرائع سے اس قدر سرمایہ اکٹھا کر لیتا ہے کہ پھر عمر بھر اِسی سرمایہ سے سیاست بازی کا شوق آسانی سے پورا کرتا رہتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے خوف کاتصور تک نہیں ہوتا۔

3. بیشتر سیاسی رہنما بلکہ علماء کو بھی سرے سے اس بات کا علم ہی نہیں کہ مغربی جمہوریت اور نظامِ خلافت میں کتنا بعد ہے۔ مدت دراز سے اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ جب سیاستدان اور علمائے دین دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق اِسلامی قوانین کو منطبق نہیں کر پاتے تو مغرب کے بنے بنائے نظام کو اسلامی اصولوں پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ انہیں خود کچھ ذہنی کاوش نہ کرنی پڑے۔

4. اکثریت سیاست والوں کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ اگر فی الواقعہ اسلامی نظام آجائے تو ان کے مفادات، اقتدار اور جاگیریں سب غیر محفوظ ہو جاتی ہیں۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کا سیاسی کاروبار اسلامی نظام کے نعرہ کے بغیر چل نہیں سکتا۔ لہٰذا اِس نعرہ کی آڑ میں جمہوریت کو ہی عین اسلام یا اسلام سے قریب تر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہ جمہوریت اور اسلامی نظام کے فرق کو واضح کر کے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنا نہیں چاہتے۔

5. کچھ سیاست دان ایسے بھی ہیں جو بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں اور بیرونی طاقتوں کا مفاد اِسی میں ہے کہ مسلمان اِسی لا دینی سیاست میں الجھے رہیں اور ان طاقتوں کو ملک میں عمل دخل کا موقعہ ملتا رہے۔ اِسی جمہوریت کے ذریعے وہ ملکوں پر دباؤ ڈالتے اور جب چاہتے ہیں کسی ملک کی حکومت کا آسانی سے تختہ اُلٹ دیتے ہیں۔ یہ ایجنٹ حضرات بھی چاہتے ہیں کہ جمہوریت کا ساغر چلتا رہے۔ لہٰذا اِنہیں بھی اِس طرز انتخاب کو عوام میں مقبول بنانے کے اسلام کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

انہی عوام کا یہ اثر ہے کہ بھرپور پروپیگنڈہ کے ذریعہ جمہوریت کو عین اسلام بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور اس پروپیگنڈہ میں حق کی آواز دب کر رہ گئی ہے۔


حوالہ جات

تعارف مدنیت ص ۱۰۶۔ پروفیسر محمد امین جاوید ایم اے تاریخ و سیاسیات۔

تعارف مدنیت ص ۱۰۶ بیسواں ایڈیشن از پروفیسر محمد امین جاوید ایم اے (تاریخ سیاسیات)