خلافت و جمہوریت کے تقابلی مباحث

1. فرانس کا منشور جمہوریت

اور حقیقی جمہوریت

جمہوریت کا موجودہ دَور انقلاب فرانس ۱۷۷۹ء سے شروع ہوتا ہے۔ واقعہ باسٹیل کے بعد ۴؍ اگست ۱۷۷۹ء کی شب کو جمعیت وطنیت فرانس نے اپنا مشہور منشور انقلاب شائع کیا تھا۔ جس نے تاریخ میں اوّلین فرمانِ حریت کے لقب سے جگہ پائی۔ مشہور فرانسیسی مورخ حال (Ch.Seignobos) نے اپنی تاریخ انقلاب میں اس منشور کا خلاصہ درج ذیل پانچ دفعات میں پیش کیا ہے:

1. استیصال حکم ذاتی: یعنی حقِ حکم و ارادہ اشخاص کی جگہ افراد کے ہاتھ میں جائے۔ شخص، ذات اور خاندان کو تسلط و حکم میں کوئی دخل نہ ہو۔ یعنی ملک ہی پریزیڈنٹ کا انتخاب کرے۔ اِسی کو حق عزل و نصب ہو۔

2. مساوات عامہ: جس کی بہت سی قسمیں ہیں:

مساوات جنسی، مساوات خاندانی، مساوات مالی (حق ملکیت) مساوات قانونی ( ) مساوات ملکی و شہری وغیرہ وغیرہ۔ اس بنا پر بھی پریزیڈنٹ کو عام باشندگان ملک پر کوئی تفوق و ترجیح نہ ہو۔

3. خزانہ ملکی: ملک کی ملکیت ہو۔ اس پر پریزنڈنٹ کو کوئی ذاتی تصرف نہ ہو۔

4. اصولِ حکومت ''مشورہ'' ہو۔ اور قوتِ حکم و ارادہ افراد کی اکثریت کو ہو۔ نہ کہ ذات و شخص کو۔

5. حریت۔ رائے و خیال اور مطبوعات (پریس) کی آزادی اسی کے تحت ہے۔

جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ موجودہ جمہوریت ملوکیت کی دوسری انتہا اور اس کی عین ضد ہے۔ اب ان پانچوں دفعات کی تحصیل کیجیے تو آخر میں صرف ایک ہی عنصر بسیط باقی رہے گا۔ یعنی قوت حکم و ارادہ اشخاص و ذات کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ جماعت و افراد کے تسلط میں ہو۔

مختصر الفاظ میں اس کی تعبیر اس ایک جملہ میں ہو سکتی ہے۔ ''نفی حکم ذاتی مطلق'' باقی چار دفعات میں جو امور بیان کیے گئے ہیں وہ سب کے سب اس کے ذیل میں آجاتے ہیں۔ مساوات حقوق مالی و قانونی، اساس مشورہ و انتخاب، عدم اختیار و تصرف خزانہ ملکی و حریت آرا و مطبوعات وغیرہ سب ''نفی حکم ذاتی و مطلق'' ہی کی تفسیر ہیں۔

مندرجہ بالا دفعات کا مطالعہ کرنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بادشاہت کی دشمنی کے جوش میں اگر کچھ بادشاہت کے اصول اچھے بھی تھے تو جمہوریت پسندوں نے اس کی بھی مخالفت کو اپنا فرض سمجھ کر افراد کو بے لگام قسم کی آزادی کی بشارت دے دی۔

جمہوریت اور عوامی حقوق

اس اعلان اور اس کی دفعات پر تبصرہ کرنے سے پیشتر یہ متعین کر لینا ضروری ہے کہ حقیقی جمہوریت ہے کیا۔ کاروبار مملکت میں عوام کی عدم مداخلت کا نام شخصی حخومت یا ملوکیت ہے اور جس حکومت میں عوام کی مداخلت جس قدر بڑھتی جائے گی۔ اسی قدر ہی وہ جمہوری حکومت کہلانے کی مستحق ہو گی۔ بالفاظ دیگر رئیس مملکت کے (اور اسی طرح دوسرے حکام یا اولو الامر کے) اختیارات و امتیازات۔ خواہ معاشرت سے تعلق رکھتے ہوں یا معیشت سے۔ جس قدر زیادہ ہوں گے اسی قدر وہ حکومت مائل بہ ملوکیت سمجھی جائے گی اور اس میں عوام کے حقوق کم ہوتے جائیں گے اور رئیس مملکت کے اختیارات جس قدر محدود ہوں گے۔ وہ حکومت مائل بہ جمہوریت سمجھی جائے گی۔ اور اس میں عوام کے حقوق کی نگہداشت زیادہ ہو گی۔

اب اسی معیار پر ہم مذکورہ منشور کی دفعات کا ترتیب وار جائزہ لیں گے۔ جس سے:-

1. خلافت، جمہوریت اور ملوکیت کا فرق واضح ہو گا۔

2. ہر صاحبِ فکر آدمی یہ اندازہ کر سکے گا کہ حقیقی جمہوریت کا علمبردار اسلام ہے یا موجودہ مغربی جمہوریت۔

3. اور یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ عوام کے حقوق کی نگہداشت کس نظام میں سب سے زیادہ ہے۔

1. استیصال حکم ذاتی:

اس دفعہ کی پہلی شق یہ ہے کہ ''حق حکم و ارادہ اشخاص کی جگہ افراد کے ہاتھ میں آجائے۔''

یہ شق ملوکیت کے عین برعکس ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ریاست کے تمام شہری صدرِ مملکت کے انتخاب میں یکساں حق رکھتے ہوں۔ خواہ وہ اس حق کو بالواسطہ استعمال کریں یا بلا واسطہ۔ یہیں سے جمہوریت کا مشہور سیاسی حق۔ حق بالغ رائے دہی (بشمول خواتین) جنم لیتا ہے۔ اور پھر اس کے بعد ہر ووٹ کی قیمت یکساں قرار پاتی ہے۔

اسلام اس لامحدود حق کا قائل نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق چونکہ معاشرہ کی اکثریت جاہل، فاسق اور ظالم لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے وہ نہیں چاہتا کہ ریاست کے اطراف و اکناف سے کوڑا کرکٹ اکٹھا کر کے مرکز میں لا کر ڈھیر کر دیا جائے۔ اسلام ایک نور ہدایت اور روشنی ہے جو مرکز سے نمودار ہو کر ریاست کے اطراف و اکناف میں اجالا کرتی ہے۔ اسلام میں خلیفہ کو انتخاب کرنے کا حق صرف ان لوگوں کو ہے جو اس کے نظریۂ توحید و رسالت اور آخرت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ان رائے دہندگان کے دیگر اوصاف اپنے مقام پر تفصیلاً ذکر کر دیئے گئے ہیں۔

اس کی دوسری شق یہ ہے کہ: ''شخص، ذات یا خاندان کو تسلط و حکم میں دخل نہ ہو۔ یعنی ملک ہی پریزنڈنٹ کا انتخاب کرے۔ اس کو حق عزل و نصب ہو۔''

ملوکیت میں تو ظاہر کہ سربراہ ایک مخصوص۔ شاہی۔ خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور جمہوریت میں ہر شخص کو یہ سیاسی حق دیا گیا ہے کہ وہ سربراہِ مملکت بن سکے۔ خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ لیکن اسلام میں مملکت کا سربراہ صرف مسلمان ہی ہو سکتا ہے۔ دوسرا شخص صدر مملکت تو کجا کسی کلیدی آسامی پر بھی فائز نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اسلام ایک نظریاتی مملکت کا تصور پیش کرتا ہے۔

گویا پہلی دفعہ کی دونوں شقوں میں اسلام اعتدال کی راہ اختیار کرتا ہے۔

2. مساوات عامہ

''اور اس کی بہت سی قسمیں ہیں: مساوات جنسی، مساوات خاندانی، مساوات مالی، مساوات قانونی، مساوات ملکی و شہری وغیرہ وغیرہ۔''

1. مساوات جنسی:

سے مراد یہ ہے کہ عورت بھی مرد کے برابر حقوق رکھتی ہے۔ خواہ یہ سیاسی حقوق جیسے حق رائے دہی، حق نمائندگی، حق منصب و عہدہ اور سیاسی جماعت بنانے کا حق یا دوسرے قانونی اور معاشرتی حقوق ہوں۔

ملوکیت میں تو سیاسی حقوق ہوتے ہی نہیں۔ جمہوریت نے اس کو لا محدود کر دیا اور اس میدان میں عورت کو بھی لا گھسیڑا ہے حتّٰی کہ وہ صدر مملکت بھی بن سکتی ہے۔ جو اسلای نقطۂ نگاہ سے کسی صورت میں درست نہیں۔ اور یہ بحث ہم ''عورت کا ووٹ'' کے تحت درج کر آئے ہیں۔ رہے قانونی اور معاشرتی حقوق۔ تو ان میں اسلام عورت اور مرد میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھتا۔

اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ زندگی کی دوڑ میں عورتیں بھی مردوں کے دوش بدوش چلیں۔ سیاسی کے علاوہ معاشی اور دوسرے میدانوں میں بھی۔ موجودہ تہذیب نے ''مساواتِ مرد و زن'' کے نعرہ سے جو خاندانی مسائل پیدا کر دیئے ہیں۔ اور پھر جوانی و رعنائی کے بعد عورت کو جس کسمپرسی کے میدان میں جا پھینکا ہے۔ اس کی تفصیل ہم پہلے دے چکے ہیں۔ گویا اس مسئلہ میں موجودہ تہذیب افراط اور تفریط دونوں طرح کی مضرتوں کا شکار ہے۔ جب کہ اسلام نے اس معاملہ میں اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔

2. مساوات خاندانی:

کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ سربراہ مملکت کسی بھی خاندان سے ہو سکتا ہے اور اس منشور میں غالباً یہی مطلب لیا گیا ہے۔

اب ملوکیت میں تو یہ عہدہ محض ایک مخصوص خاندان سے تعلق رکھتا ہے جمہوریت اور اسلام دونوں میں خاندان کی کوئی قید نہیں۔ تاہم اسلام ساتھ ہی ساتھ یہ پابندی ضرور لگاتا ہے کہ وہ مسلمان بھی ہو اور متقی بھی۔

اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ میں بلا امتیاز ہر خاندان کی یکساں قدر و منزلت ہو۔ ملوکیت میں تو شاہی خاندان بہرحال شاہی ہوتا ہے۔ دوسرے خاندان اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ جمہوریت اس مساوات کی دعوےدار ضرور ہے مگر اس پر عمل کم دیکھا گیا ہے۔

3. معاشرتی مساوات:

اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آج کے جمہوری اور مہذب ترین ممالک میں گورے اور کالے کے جھگڑے بدستور موجود ہیں۔ امیر اور غریب کے مسائل بھی بدستور ہیں۔ عبادت گاہوں میں امراء کو تو کرسیاں ملیں اور بے چارے فرش پر بیٹھیں۔ حد یہ ہے کہ بعض جگہ امرا کے گرجے ہی الگ الگ ہیں۔ اور ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں تو آج تک ذات پات کی تمیز قائم ہے۔ شودروں کی عبادت گاہیں الگ ہونا تو درکنار۔ ان کے سایہ سے ہی برہمن ناپاک ہو جاتا ہے۔ اسلام نے گورے کالے اور امیر غریب کی تمیز ختم کر کے سب کو ایک صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ حتّٰی کہ امیر اور غلام ایک صف میں کھڑے ہیں اور جو جہاں کھڑا ہے اسے وہاں سے دوسرا ہٹا نہیں سکتا۔ یہاں شرف کا معیار ہے تو تقویٰ ہے۔ یہاں بلال حبشی جیسے پست قد، کالے رنگ اور موٹے ہونٹوں والے صحابی کو حضور اکرم ﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے۔

اَرِحْنَا یا بلال۔ اے بلال ہمیں (اذان کہہ کر) راحت پہنچائیے۔

اور جن کو آپ نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی تھی۔

اور اس معاشرتی مساوات کا سبق خود اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو دیا تھا۔ آپ ﷺ چند سرداران قریش کو اسلام کے متعلق سمجھا رہے تھے کہ اتنے میں ایک نابینا صحابی ابنِ مکتوم آئے اور آکر ایک آیت کا مطلب پوچھنے لگے۔ حضور اکرم ﷺ کو یہ بات ناگوار محسوس ہوئی اور انقباض کے اثرات چہرہ پر نمودار ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ نے عتاب نازل فرمایا تو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ اس نابینا صحابی کی طلبِ صادق کی قدر و منزلت اللہ تعالیٰ کے قریش کے کافر سرداروں سے بہت زیادہ تھی۔

معاشرہ کی مساوات کا دوسرا پہلو ''بڑائی کی نخوت'' کا خاتمہ ہے۔ ایک دنیادار معاشرہ میں وقار کا مسئلہ (Question of Prestige) ایک عام بیماری ہوتی ہے۔ ما تحت کا یہ حق ہے کہ وہ بہرحال افسر کو سلام کرے۔ چاہے ماتحت بیٹھا کام کر رہا ہو اور صاحب بہادر باہر سے تشریف لائیں ورنہ ان کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ اس طرح یہ رواج بھی عام ہے کہ کمتر درجہ کے لوگ بڑوں کو سلام کریں۔ یا خاندان کے افراد سربراہ خاندان کو سلام کریں۔ اسلام نے چند ضابطے مقرر کر کے اس نخوت اور معاشرتی عدم مساوات کا علاج کر دیا ہے۔ وہ یہ کہ ہر آنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ اس طرح ہر سوار پر لازم ہے کہ وہ پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔ سربراہ خانہ پر لازم ہے کہ وہی گھر میں داخل ہو کر اپنے بال بچوں کو سلام کہے۔ افسروں پر لازم ہے کہ جب وہ دفتر میں تشریف لائیں تو اپنے ملازموں کو وہ سلام کریں۔ اسی طرح سوار لوگوں کی نخوت کا یہ علاج ہے کہ وہ پیدل چلنے والے کو سلام کہیں۔ بزرگوں کی بزرگی کے مقامات اور بھی بہت سے ہیں۔ اسلام نے سلام کے یہ ضابطے مقرر کر کے ان کی نخوت کا علاج اور وقار کے مسئلہ کا حل پیش کیا ہے۔

حکام سلطنت کی بود و باش:

معاشرتی مساوات کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حکام اپنے آپ کو برتر مخلوق سمجھتے ہوئے عوام پر اپنے دروازے بند نہ کر دیں۔ نظام خلافت میں امیر اور حکام سے مسجد میں ملاقات کی جا سکتی ہے اور برسرِ عام بازاروں میں بھی۔ ان سے التجا بھی کی جا سکتی ہے۔ سوال بھی اور ان پر تنقید بھی۔ حضرت عمرؓ جب کسی کو عامل مقرر کرتے تو ان سے مندرجہ ذیل باتوں کا عہد لیا جاتا تھا۔

1. ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہو گا۔

2. باریک کپڑے نہ پہنے گا۔

3. چھنا ہوا آٹا نہ کھائے گا۔

4. دربان نہ رکھے گا۔ اہل حاجت کے لئے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے گا۔

یہ شرطیں اکثر پردانہ راہداری میں درج کی جاتی تھیں اور ان کو مجمع عام میں پڑھ کر منایا جاتا تھا۔

مندرجہ بالا شرائط میں سے پہلی تین شرائط تو معاشرتی مساوات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور چوتھی عوام کے بنیادی حقوق اور معاشرتی مساوات سے متعلق۔

عمّال سے احتساب:

ایک بار حضرت عمرؓ بازار میں پھر رہے تھے۔ ایک طرف سے آواز آئی کہ ''عمر! کیا عاملوں کے لئے چند قواعد مقرر کر دینے سے تم عذابِ الٰہی سے بچ جاؤ گے؟ تم کو یہ خبر ہے کہ عیاض بن غنم جو مصر کا عامل ہے۔ باریک کپڑے پہنتا ہے اور دروازے پر دربان مقرر ہے۔

حضرت عمرؓ نے محمد بن مسلمہ (انصاری) کو بلایا (یہ اکابر صحابہ میں سے تھے۔ تمام غزوات میں شریک رہے اور ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ ایک مہم پر تشریف لے گئے تو ان کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ انہی وجوہ کی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں عاملوں کے شکایات کی تحقیقات پر مقرر کیا تھا) اور کہا۔ عیاض کو جس حال میں پاؤ۔ ساتھ لے آؤ۔ محمد بن مسلمہؓ نے وہاں پہنچ کر دیکھا تو واقعی دروازے پر دربان بھی تھا اور باریک کپڑے کا کرتہ پہنے بیٹھے تھے۔ اسی ہیئت اور لباس میں ساتھ لے کر مدینہ آئے۔ حضرت عمرؓ نے وہ کرتا اتروا کر کمل کا کرتہ پہنایا اور بکریوں کا ایک گلہ منگوا کر حکم دیا کہ ''جنگل میں جا کر چراؤ۔''

عیاض بار بار یہ کہتے تھے کہ ''اس سے تو مر جانا بہتر ہے۔'' حضرت عمرؓ نے فرمایا ''تجھے اس سے عار کیوں ہے؟'' تیرے باپ کا نام غنم اسی وجہ سے پڑا تھا کہ وہ بکریاں چرایا کرتا تھا۔''

غرض عیاض نے دل سے توبہ کی اور جب تک زندہ رہے اپنے فرائض نہایت خوبی سے سرانجام دیتے رہے۔

اسی طرح کا دوسرا واقعہ یہ ہے کہ حضرت سعد بن وقاصؓ نے کوفہ میں اپنے لئے ایک محل بنوایا تھا جس میں ڈیوڑھی تھی۔ حضرت عمرؓ نے اس خیال سے کہ اس سے اہلِ حاجت کو رکاوٹ ہو گی۔ محمد بن مسلمہ کو حکم دیا کہ جا کر ڈیوڑھی میں آگ لگا دیں۔ چنانچہ اس حکم کی پوری تعمیل ہوئی اور سعد بن ابی وقاص کھڑے دیکھتے رہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ عام آدمیوں کو بھی باریک کپڑے پہننا یا ڈیوڑھی بنانا ممنوع تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطنت کے ارکان میں طرز معاشرت کا یہ امتیاز عوام کے دل میں اپنی کہتری کے احساس کا سبب بنتا ہے اور اس سے آقا غلام کا تصوّر ابھرتا ہے۔

اب ذرا موجودہ جمہوری معاشروں پر نظر ڈالیے۔ صدر کا عوام کے درمیان مل کر بیٹھنے کا تصور ہی محال ہے۔ اور صدر کی کیا بات ہے۔ چھوٹے چھوٹے افسروں کے دفاتر اور رہائش گاہوں پر کڑے پہرے بٹھائے جاتے ہیں اور بعض صاحب بہادروں کی رسائی تک کئی کئی دن گزر جاتے ہیں مگر ملاقات نصیب ہی نہیں ہوتی۔ نقل و حرکت بھی سیف گارڈ کی کڑی نگرانی میں ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے بادشاہت اور جمہوریت میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے۔ کیا یہی معاشرتی مساوات ہے کہ عوام اپنی جائز شکایات یا ضروریات کے لئے بھی ان حکام کی ملاقات کو ترستے ہیں۔ ان شکایات کا ازالہ تو دور کی بات ہے۔

4. مساوات مالی

یعنی اس بنا پر بھی پریزیڈنٹ کو عام باشندگان ملک پر کوئی تفوق و ترجیح نہ ہو۔

جمہوریت اور سرمایہ داری:

یہ شق زیب منشور تو ہے مگر موجودہ جمہوری ملک میں اس پر عمل پیرا ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ صدارت کا انتخاب لڑنا تو دور کی بات ہے۔ کسی اسمبلی یا بلدیاتی ادارے کا انتخاب لڑنے کے لئے نمائندہ کا سرمایہ دار یا جاگیر ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ طرزِ انتخاب ہے ہی ایسا کہ کافی سرمایہ کا متقاضی ہے۔ نمائندہ کو اپنی تشہیر، کنویسنگ، جلسے جلوسوں اور ضیافتوں کے لئے کثیر سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سرمایہ خواہ وہ خود مہیا کرے یا اسے پارٹی فنڈ سے ادا کیا جائے۔ اس کے بغیر وہ انتخاب لڑ ہی نہیں سکتا۔

ملوکیت میں تو خیر اس طرح کی مالی مساوات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جمہوریت کے پردہ میں بھی حقیقتاً سرمایہ ہی بولتا ہے۔ پارلیمنٹ کے ممبر سب سرمایہ دار یا جاگیر دار ہوتے ہیں اور صدر تو بہرحال ان سے بڑا سرمایہ دار ہونا چاہئے۔ ہر ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ہر وقت تجربہ کیا جا سکتا ہے۔

البتہ اسلامی نظام میں ایسی مثالیں ضرور موجود ہیں۔ حضرت عمرؓ بچپن میں بکریاں چرایا کرتے تھے اور وہ خلیفہ بنے۔ اسی طرح حضرت علی بچپن میں مفلس تھے وہ بھی منصب خلافت پر فائز ہوئے۔

مالی مساوات کا ایک دوسرا مفہوم یہ بھی لیا جا سکتا ہے جسے معاشی مساوات کہا جاتا ہے اور سوشلسٹ اس کا ڈھنڈورا پٹتے رہتے ہیں۔ تو ایسی مساوات نہ ملوکیت میں ہے نہ جمہوریت میں اور نہ اسلام میں۔

سوشلسٹ معاشرہ میں معاشی مساوات سے یہ مراد ہوتی ہے کہ حکومت سب سے ان کی املاک جبر سے چھین لے۔ اور انہیں قومی تحویل میں لے کر عوام کو بقدر سدِ رمق دے کر باقی سب کچھ پر خود قابض ہو جائے۔ بالفاظ دیگر حکومت عوام سب کو ایک جیسا مفلس بنا کر خود بہت بڑی مال دار اور ڈکٹیٹر بن جائے۔ تو اس قسم کی مساوات کا اسلام قائل نہیں ہے کیونکہ معاشی مساوات ایک غیر فطری چیز ہے۔ ہر انسان کی ضروریات الگ الگ نوعیت اور صفت کی ہوتی ہیں۔ ایک کسان کی ضروریات ایک چیف جسٹس کی ضروریات کے مناسب اور برابر نہیں ہو سکتیں۔ حالانکہ دونوں معاشرے کے لابدی رکن ہیں۔ نظریہ ''معاشی مساوات کے ابطال کے لئے یہی ثبوت کافی ہے کہ اس پر اشتراکیت کے مادر وطن روس میں بھی آج تک صحیح طور پر عمل نہیں ہو گا۔

معاشی مساوات سے آج کل یہ مفہوم بھی لیا جاتا ہے کہ حکومت کی طرف سے سب عوام پر وسائل رزق ایک جیسے کھلے رہیں۔ اس نظریہ کی دعویدار تو سب طرح کی حکومتیں ہیں۔ لیکن ان پر عمل مفقود ہوتا ہے۔ ملوکیت میں کلیدی آسامیاں شاہی خاندان کے لئے مخصوص ہوتی ہیں کیونکہ وہ ان کا پیدائشی حق سمجھا گیا ہے۔ جمہوریت میں کلیدی اسامیوں میں اکثر رد و بدل اور عزل و نصب ہوتا رہتا ہے، جو اکثریتی پارٹی برسر اقتدار آتی ہے۔ وہ اپنے مفادات کے پیش نظر ان اسامیوں پر اپنے آدمی براجمان کرتی ہے۔ اسلام میں نہ تو یہ مناصب کسی خاندان کا حق ہے نہ کسی اکثریتی پارٹی کا۔ سارے عوام پر ان کے دروازے کھلے ہوتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان اسامیوں پر متقی اور صالح مسلمان ہی فائز ہو سکتے ہیں۔

رہا معمولی قسم کی ملازمتوں کا مسئلہ تو یہ لوگ چونکہ کاروبارِ حکومت پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ لہٰذا اس مسئلہ میں تمام حکومتیں حسبِ ضرورت ہر شخص سے استفادہ کر لیتی ہیں۔ اسلام میں ایسی ملازمتیں غیر مسلموں کو بھی دی جا سکتی ہیں۔

ملوکیت اور جمہوریت دونوں سرمایہ دارانہ نظام ہیں۔ لہٰذا سرکاری ملازمتوں کے علاوہ دوسرے میدانوں میں عموماً سرمایہ دار ہی کی سرپرستی کی جاتی ہے اور انہیں کے حقوق و مفادات کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ سود اور ٹیکس جو سرمایہ دارانہ نظام کے اہم ستون ہیں ملوکیت و جمہوریت دونوں میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں۔ سود سرمایہ دار کے سرمایہ میں ہر دم اضافہ کرتا رہتا ہے۔ اور ٹیکسوں کا بار بھی بیشتر غریب عوام پر پڑتا ہے۔ صنعتی اور تجارتی ادارے بنکوں سے سود لیتے دیتے ہیں جس سے عوام کا معاشی استحصال ہوتا رہتا ہے۔ حکومت ان سودی اداروں کی سرپرستی کرتی ہے۔ لہٰذا بایں ہمہ دعویٰ یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ ان مذکورہ دونوں نظاموں میں غریب لوگوں پر وسائل رزق کے دروازے بند رہتے ہیں۔ اسلام میں سود کے بجائے زکوٰۃ کا نظام ہے اور کاروباری اشتراک کے مضاربت کا اصول۔ جس کے ذریعہ محنت کش کو وسائل رزق سے وافر حصہ نصیب ہو جاتا ہے۔

5. قانونی مساوات

یعنی اس بنا پر بھی ''پریذیڈنٹ کو عام باشندگان ملک پر کوئی تفوق و ترجیح نہ ہو۔''

ملوکیت میں تو بادشاہ کی ذات خود قانون ہوتی ہے۔ اور شاہی خاندان کے دیگر افراد بھی قانون سے بالاتر سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن حیرانگی تو یہ ہے کہ جمہوریت میں بھی بایں ہمہ دعویٰ یہی کچھ ہوتا ہے جو ملوکیت میں ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارے پاکستان کے دستور میں آج تک (۱۹۷۳ء کے آئین میں بھی) ایسی دفعات موجود ہیں۔ جن کی رو سے صدر مملکت، وزیر اعظم، گورنر اور وزرائے اعلیٰ پر نہ تو کوئی فوجداری مقدمہ دائر ہو سکتا ہے۔ نہ انہیں عدالت کسی ایسے فوجداری مقدمہ میں ملوث قرار دے سکتی ہے اور نہ ہی ملک کی کوئی بڑی سے بڑی عدالت انہیں طلب کر سکتی ہے۔ اور یہ صرف پاکستان پر منحصر نہیں بلکہ ہر جمہوری ملک کے صدر وغیرہ کے لئے ایسی قانونی مراعات موجود ہیں۔

پھر جمہوری ممالک کے صدر جب عوامی بنیادی حقوق کو کم یا سلب کرنا چاہیں تو ہنگامی حالات کا سہارا لے کر کسی وقت بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔ اور یہ تو ہم بتلا چکے ہیں کہ حقوق کا توازن کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ عوامی حقوق بڑھ جائیں تو صدر کے حقوق خود بخود کم ہو جاتے ہیں۔ اور اگر عوام کے حقوق کم کر دیئے جائیں تو صدر کے اختیار خود بخود بڑھ جاتے ہیں۔

اب اسلامی نظام کی طرف آئیے: قانونی مساوات یہ ہے کہ خود حضور اکرم ﷺ نے اپنے آپ کو پیش کر کے یہ اعلان کر دیا کہ جس کسی نے مجھ سے کوئی بدلہ یا قصاص لینا ہو وہ آج لے سکتا ہے۔ پھر جب آپ ہی کے قبیلہ قریش کی ذیلی شاخ کی ایک عورت فاطمہ مخزومی نے چوری کی تو آپ سے اس جرم کی سزا موقوف کرنے کی سفارش کی گئی تو آپ نے فرمایا۔

''پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ہی یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دیتے اور اگر شریف ایسا کرتے تو اس کی سزا موقوف کر دی جاتی۔ یہ نوفاطمہ مخزومی کی بات ہے۔ خدا کی قسم! اگر میری اپنی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔

اسلام کے خلیفہ کے اختیارات:

حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح (گورنر شام) نے حضرت معاذ بن جبل کو رومیوں کے پاس سفیر بنا کر بھیجا۔ رومیوں کے لشکر میں پہنچے تو دیکھا کہ خیمے میں دیبائے زریں کا فرش بچھا ہے۔ ایک عیسائی نے آکر کہا کہ میں گھوڑا تھام لیتا ہوں آپ دربار میں جا کر بیٹھیے۔ معاذؓ نے کہا: ''میں اس فرش پر جو غریبوں کا حق چھین کر تیار ہوا ہے، بیٹھنا نہیں چاہتا۔ یہ کہہ کر زمین پر بیٹھ گئے۔

بات چیت کے دَوران بادشاہ اور اس کے اختیارات کا ذکر چھڑ گیا تو حضرت معاذؓ نے فرمایا:

''تم کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسے شہنشاہ کی رعایا ہو جس کو تمہاری جان و مال کا اختیار ہے لیکن ہم نے جس کو اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے۔ وہ کسی بات میں اپنے کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ اگر وہ زنا کرے تو اس کو درّے لگائے جائیں۔ چوری کرے تو ہاتھ کاٹ دیئے جائیں۔ وہ پردے میں نہیں بیٹھتا۔ اپنے آپ کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا۔ مال و دولت میں اس کو ہم پر ترجیح نہیں۔''

اور یہی وہ بات ہے جنہیں حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ بار بار اپنے خطبوں میں دہرایا کرتے تھے۔

حضرت عمرؓ تو اس قانونی مساوات کا اس قدر خیال رکھتےتھے کہ بارہا خود عدالت میں حاضر ہوئے۔ ایک دفعہ آپ حضرت زید بن ثابت کی عدالت میں بطور مدعا علیہ پیش ہوئے۔ حضرت زیدؓ آپ کی تکریم کی خاطر اُٹھ کھڑے ہوئے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا۔ یہ تمہاری پہلی بے انصافی ہے۔'' اور مدعی کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اس مقدمہ میں فیصلہ حضرت عمرؓ کے خلاف ہوا جس کی تفصیل ہم نے کسی دوسرے مقام پر درج کر دی ہے۔

حضرت علیؓ کے اپنے دورِ خلافت میں ان کی اپنی زرہ چوری ہو گئی۔ جو حضرت علیؓ نے ایک یہودی کے پاس دیکھ لی تو آپ نے یہ نہیں کیا کہ اس سے اپنے زرہ لے لیتے بلکہ قاضی شریح عدالت میں اس یہودی پر مقدمہ دائر کر دیا۔ حضرت علیؓ کے پاس بطور گواہ ان کے بیٹے حضرت حسنؓ اور ان کے غلام تھے۔ قاضی شریح نے آپ کا مقدمہ صرف اس بنا پر خارج کر دیا کہ یہ شہادتیں اسلامی ضابطہ انصاف و عدل کے تقاضے پورے نہیں کرتیں۔ بیٹے کی شہادت باپ کے حق میں اور غلام کی شہادت آقا کے حق میں ناقابل قبول ہے۔ حالانکہ عدالت کو خوب معلوم تھا کہ مدعی اور گواہ سب عادل اور ثقہ ہیں۔ لیکن عدل کا تقاضا یہی تھا کہ مقدمہ خارج کر دیا جائے۔

یہ صورت حال دیکھ کر یہودی نے زرہ بھی واپس کر دی۔ اور خود بھی مسلمان ہو گیا۔

مفت اور بلا تاخیر انصاف:

قانونی مساوات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مملکت کے ہر فرد کو بلا امتیاز مذہب و نسل، عدل و انصاف مفت اور بلا تاخیر حاصل ہو۔ قانونی مساوات کا یہ پہلو بھی جمہوری ممالک میں یکسر ناپید ہے۔ دیوانی مقدمات کا تو یہ حال ہے کہ مقدمہ کا فیصلہ ہونے تک مدعی یا مدعا علیہ میں سے کوئی ایک فریق مر چکا ہوتا ہے۔ یا وہ یہ بھول چکا ہوتا ہے کہ مقدمہ کی نوعیت کیا تھی اور فوجداری مقدمات کا سالہا سال تک فیصلہ نہیں ہو پاتا۔

اسلام نے مفت انصاف کے لئے دو طرح کے اقدامات کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ اسلامی نظام میں کورٹ فیس کا کوئی جواز نہیں اور مدعی پر ظلم کے مترادف ہے اور اس کا فائدہ عام طور پر غریب طبقہ کو پہنچتا ہے۔ اور غریب طبقہ ہی عموماً مظلوم ہوتا ہے۔

اور دوسرا یہ کہ اس نظام میں وکیل کی ضرورت کو ختم کر دیا گیا ہے تاکہ جو لوگ وکلا کی بھاری فیسیں اور ان کے روزمرہ کے مطالبات پورے نہیں کر سکتے وہ بھی وہ اپنے جائز حقوق کے حصول سے محروم نہ رہ سکیں۔ عدالت کو یہ حکم ہے کہ وہ مدعی سے ہمدردی اور دلجوئی کا برتاؤ کرے اور کوئی ایسا اقدام نہ کرے جس سے فریقین میں سے کسی پر عدالت کا رعب طاری ہو سکے۔ یہاں کسی کو عدالت کے آداب ملحوظ رکھنے اور توہینِ عدالت کا خوف نہیں ہوتا۔

اور بلا تاخیر انصاف کے لئے اسلام نے مندرجہ ذیل اقدامات کیے ہیں۔

1. ہر محلہ کی عدالت اسی محلہ میں ہونی چاہئے تاکہ قاضی کو خود بھی حالات کا کسی نہ کسی حد تک علم ہو۔ اور دوسرے یہ کہ مدعا علیہ کو طلب کرنے میں زیادہ وقت خرچ نہ ہو۔ یا دِقّت پیش نہ آئے۔ حضرت عمرؓ بعض دفعہ بازار میں کھڑے ہی مقدمات فیصل کر دیا کرتے تھے۔

2. قانونِ شہادت: اسلامی عدالت میں ہر کس و ناکس کی شہادت قابل قبول نہیں۔ اس کے لئے ضابطے مقرر ہیں۔ اگر کسی گواہ کی شہادت عدالت میں غلط ثابت ہو جائے تو عدالت از خود اس پر فرد جرم عائد کر سکتی ہے اور اس کے جرم کے مطابق سزا دے سکتی ہے۔ اور آئندہ کے لئے اس کی شہادت کبھی قابل قبول نہیں۔ جبکہ ہماری عدالتوں میں ایسے گواہوں کو کھلی چھٹی دی جاتی ہے اور ان پر کوئی مواخذہ نہیں کیا جاتا۔

اسی طرح اگر مستغیث کا الزام عدالت میں جھوٹا ثابت ہو تو ہماری عدالتیں اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتیں الا یہ کہ مستغاث اپنے مقدمہ سے فارغ ہو کر پہلے مستغیث پر نئے سرے سے دعویٰ نہ کر دے۔ یہ بات بھی عدل و انصاف کے خلاف ہے۔

3. بدنی سزائیں: بلا تاخیر انصاف کے حصول کے لئے اسلام نے تیسرا ضابطہ جو مقرر کیا ہے وہ برسر عام بدنی سزائیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے خود مقرر کیا ہے۔ آج کے جمہوری دور میں بدنی سزاؤں کو ''ظلم کے مترادف'' قرار دیا گیا ہے۔ اور اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق کے چارٹر میں اس کو غیر انسانی سلوک قرار دے کر ایسی سزاؤں کو ترک کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اس نظریہ کے دعویدار اپنی حکومتوں میں سیاسی اور بعض دفعہ فوجداری ملزموں پر بند کمروں میں ایسے ایسے مظالم ڈھائے جاتے ہیں اور بدنی سزائیں دی جاتی ہیں جن کے تصوّر سے ہی روح کانپ اُٹھتی ہے اور مشاہدہ یہ ہے کہ ایسی سزائیں مجرموں کو اپنے کردار میں پختہ کر دیتی ہیں۔ پھر یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ جہاں جہاں عدالتوں میں بدنی سزائیں موقوف ہوئیں۔ جرائم میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

ہم حیران ہیں کہ اگر انسانی جسم کو بچانے کے لئے پھوڑے کا آپریشن محض جائز ہی نہیں بلکہ اسے عین ہمدردی سمجھا جاتا ہے تو معاشرہ کو ظلم و فساد سے بچانے کے لئے بدمعاش کو بدنی سزا دینا کیسے غیر انسانی سلوک بن جاتا ہے؟ بدمعاش پر رحم کر کے معاشرہ میں بدامنی کو کیوں گوارا کیا جاتا ہے؟ اور اس وقت لوگوں کی ہمدردیاں کیوں اس کے لئے پیدا ہو جاتی ہیں جبکہ یہ بات قرآن کے حکم صریح کے برخلاف ہے۔ کیا یہ معاشرہ کے ساتھ غیر انسانی اور غالمانہ سلوک نہیں ہے؟ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غیر انسانی سلوک کے یہ علمبردار اپنے ممالک میں قیام امن میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں۔ ہمارے خیال میں غنڈہ عناصر کی اس پشت پناہی کی و جہ محض یہ ہے کہ موجودہ جمہوری دور میں '' غیر انسانی سلوک کے یہ علمبردار'' خود غندہ عنصر کے رحم و کرم کے محتاج اور اسی راستہ سے برسرِ اقتدار آتے ہیں تو ایسے لوگ اپنے معاونین کے حق میں برسر عام بدنی سزا کیسے گوارا کر سکتے ہیں؟

4. رشوت: بلا تاخیر انصاف کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ''رشوت'' ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک لا دینی ریاست میں چند سینکڑے تنخوا پانے والا تحصیلدار، جس کے پاس لاکھوں کی جائیداد کے مقدمے فیصلہ کے لئے آتے ہیں اور فریقین میں سے ہر ایک ہزارہا روپے رشوت دینے کو برضا و رغبت تیار ہوتا ہے، کس حد تک اپنے آپ پر جبر کر کے رشوت لینے سے باز رہ سکتا ہے۔ جب کہ وہ پہلے ہی تنگی ترشی سے بسر اوقات کر رہا ہے۔ اور جمہوری دور کے تقاضوں کے مطابق اسے اپنی پوزیشن (Status) بھی برقرار رکھنا پڑتی ہے۔

اسلام نے رشوت کے انسداد کے لئے دو طریق اختیار کیے ہیں۔ اخلاقی اور عملی۔

اسلامی نظریہ حیات کی بنیاد ہی چونکہ آخرت اور اپنے اعمال کی جزا و سزا پر ہے۔ لہٰذا وہ قانون سے زیادہ اخلاق پر زور دیتا ہے۔ انسان کو زندگی میں لا تعداد ایسے مواقع مل جاتے ہیں جب وہ قانون کی دسترس سے بچ کر آسانی سے گناہ کے کام اور جرائم کا ارتکاب کر سکتا ہے۔ ایسے موقعوں پر اسے صرف یہ تصور ہی گناہ سے باز رکھ سکتا ہے۔ اسلام نے رشوت کو بہت بڑا گناہ اور قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔

الراشي والمرتشي کلاھما في النار

رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔

اور بعض روایات میں الراشٍ کا لفظ بھی موجود ہے۔ یعنی وہ شخص جو درمیان میں سودا طے کراتا ہے وہ بھی جہنمی ہے۔

رشوت تو درکنار، اسلام میں کسی عامل کو ہدیہ یا تحفہ لینے سے بھی سختی سے منع کر دیا گیا ہے کہ وہ بھی رشوت ہی کی ایک قسم ہے۔

اور عملی اقدام یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے قاضیوں کی بیش بہا تنخواہیں مقرر کیں تاکہ انہیں ''بالائی آمدنی'' کی احتیاج نہ رہے۔ مثلاً ربیعہ اور قاضی شریح کی تنخوا پان پان سو درہم ماہوار مقرر کی گئی تھی۔

دوسرے آپ نے یہ قاعدہ مقرر کیا کہ قاضی صرف وہ شخص مقرر کیا جائے جو دولت مند بھی اور صاحب ثروت بھی ہو۔ دولت مند اس لئے کہ وہ رشوت کی طرف راغب نہ ہو۔ اور صاحب ثروت اس لئے کہ وہ فیصلہ کرتے وقت کسی معزز آدمی سے مرعوب و متاثر نہ ہو۔ گویا رشوت اور سفارش دونوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔

5. مساوات ملکی و شہری

یعنی اس بنا پر بھی ''پریذنڈنٹ کو عام باشندگانِ ملک پر کوئی تفوق و ترجیح نہ ہو۔''

اس کا مطلب یہ ہے کہ صدر ریاست ملک کا کوئی باشندہ یا شہری صدر بن سکتا ہے۔ یہ شق دراصل پہلی ہی شقوں کی شرح ہے اور ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اسلامی نظام میں صرف ملکی یا شہری ہونا کافی نہیں۔ بلکہ اس کا مسلمان اور متقی ہونا بھی لازمی شرائط ہیں۔

اور اس مساوات کی دوسری تعبیریں اگر کچھ ہو سکتی ہیں تو ان کا ذکر بھی پہلے درج ہو چکا ہے۔

3. خزانہ ملکی

خزانہ ملکی، ملک کی ملکیت ہو۔ اس پر پریذنڈنٹ کو کوئی ذاتی تصرف نہ ہو۔

جمہوری ملکوں میں شاہانہ ٹھاٹھ:

اس دفعہ کی حقیقت ایک فریب کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بادشاہ اور صدر کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور کروفر میں کچھ فرق نہیں ہوتا۔ یہ ایکڑوں زمین پر پھیلے ہوئے پریزیڈنٹ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کیا ہیں؟ کیا ان جمہوری ممالک کے صدروں کی رہائش گاہیں شاہی محلات سے کسی صورت میں کم ہیں۔ کیا ان پر پہرہ داروں کی کڑی نگرانی نہیں ہوتی۔ نقل و حرکت کے لئے سرکاری خرچ سے چلنے والی بیسیوں فٹ لمبی کاریں اور ہوائی جہاز ان کے لئے ہر وقت تیار کھڑے نہیں ہوتے؟ تو پھر آخر جمہوری ملک کے صدر اور کسی ملک کے بادشاہ کے طرزِ بود و باش میں ..... خطِ امتیاز ہے؟

فرق صرف یہ ہے کہ ملوکیت میں قومی خزانہ بادشاہ کی جاگیر ہوتا ہے۔ جسے وہ اپنی ذات اورخاندان پر بے دریغ خرچ کر سکتا ہے۔ اور جمہوریت میں اکثریتی پارٹی اپنی اکثریت کی طاقت کے بل بوتے پر خزانہ عامرہ پر ہاتھ صاف کرتی ہے۔ ملوکیت میں تو صرف ایک خاندان عیش کرتا ہے جب کہ جمہوریت میں صدر کے علاوہ پوری پارٹی گلچھرے اڑاتی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف علامہ اقبال نے حسب ذیل اشعار میں توجہ دلائی ہے۔

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردے میں نہیں غیر از نوائے قیصری

ترجمہ: جمہوریت کے پردے میں وہ شخصی حکومت کا دیو رقص کر رہا ہے جسے تو آزادی (اظہار خیال) کی نیلم پری سمجھ رہا ہے۔ یہ مغربی جمہوری نظام حقیقتاً ملوکیت ہی کا چربہ ہے۔ جس کی تہ میں اسی شاہانہ شان و شوکت کی صدائے باز گشت ہے۔

بیت المال اور امرا کی دسترس:

اسلام یہ تصور پیش کرتا ہے کہ قومی خزانہ امیر کے پاس ایک قومی امانت ہے۔ اس میں ناجائز ٹیکسوں اور غصب و مظالم سے کوئی آمدنی جمع نہیں کی جا سکتی۔ نہ ہی اس آمدنی کے پہلے سے طے شدہ مصارف کے علاوہ کسی دوسری مدّ میں خرچ کی جا سکتی ہے۔ امیر کا اس آمدنی سے ناجائز فائدہ اُٹھانا یا اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو نوازنا یا ناجائز مصارف میں خرچ کرنا بدترین قسم کی خیانت ہے۔ اب امیر یا کسی عامل کے جائز اخراجات کیا ہیں؟ جو وہ بیت المال سے لینے کا حقدار ہے۔ وہ حضرت عمرؓ کی زبانی سنیے۔

إنما أنا وما لکم کَوَلِّي الیتیم إن اسْتَغْنَیْتُ اِسْتَعْنَنْتُ وإن افْتَقَوْت أکلت بالمعروف (کتاب الخراج ابو یوسف)

مجھ کو تمہارے مال (یعنی بیت المال) میں صرف اس قدر حق ہے جتنا یتیم کے مربّی کو یتیم کے مال میں۔ اگر میں دولت مند ہوں تو کچھ نہ لوں گا تو دستور کے مطابق کھانے پینے کے لئے لوں گا۔

یہ تو حق کی بات تھی۔ اب دوسری بات یہ ہے کہ اسلام خود غرضی اور مفاد خویش کے بجائے ایثار یا دوسرے کے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن کریم میں مومنوں کی ایک یہ صفت بھی بیان کی گئی ہے۔

﴿وَيُؤثِر‌ونَ عَلىٰ أَنفُسِهِم وَلَو كانَ بِهِم خَصاصَةٌ...٩﴾الحشر
اور وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود وہ فاقے سے ہوں۔

اور اس ایثار کی ایسی ایسی مثالیں مسلمانوں نے قائم کی ہیں۔ جن کی نظیر تاریخ میں کہیں ڈھونڈے سے نہیں مل سکتی۔

حضرت ابو بکرؓ جب خلیفہ ہو گئے تو دوسرے دن حسبِ دستور کپڑے کی گٹھڑی کندھوں پر اٹھائے بازار کو نکل کھڑے ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ راستے میں مل گئے۔ ''پوچھا کیا بات ہے؟'' حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ''بچوں کو کہاں سے کھلاؤں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا۔ اب امت کا بار آپ کے سر پر آپڑا ہے۔ آپ کو تمام تر توجہ اس طرف دینی چاہئے۔ رہا معاش کا مسئلہ تو اس کے لئے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح (این الامت، جو اس وقت بیت المال کے ناظم تھے) کے پاس چلتے ہیں۔''

چنانچہ دونوں حضرات ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے پاس گئے۔ اور تینوں کے مشورہ سے حضرت ابو بکرؓ کی تنخواہ ایک عام آدمی کی گزران کے مطابق چار ہزار درہم سالانہ طے پائی۔ حضرت ابو بکرؓ دو سال خلیفہ رہے اور دو سال ہی یہ تنخواہ وصول کی (اپنی وفات سے قبل یہ وصیت کی کہ میرا مکان بیچ کر ۸ ہزار درہم (جو وہ بصورت مشاہرہ بیت المال سے وصول کر چکے تھے) بیت المال کو واپس کر دیئے جائیں۔'' حضرت عمرؓ نے جب یہ بات سنی تو فرمانے لگے۔ ''خدا ابو بکرؓ پر رحم فرمائے انہوں نے بعد میں آنے والوں کو تھکا دیا۔'' (کنز العمال ج۲ ص۲۳۸)

ایثار کی جو مثالیں خود حضور اکرم ﷺ نے قائم کی تھیں۔ ان کو چھیڑنے کی ہمیں ہمت نہیں۔ حضرت عمرؓ کا طرزِ عمل آپ پڑھ چکے ہیں۔ آپ نے قحط کے دوران گندم کی روٹی کھانے سے اس وجہ سے انکار کر دیا کہ جب غریب لوگوں کو گندم کی روٹی میسر نہیں تو میں کیسے کھا سکتا ہوں۔ بیت المقدس کی صلح کے موقع پر عیسائیوں نے آپ کو بلوایا تھا۔ جب وہاں گئے تو کُرتے میں پیوند لگے ہوئے تھے اور اونٹ پر غلام بیٹھا ہوا تھا۔ جب شہر میں داخل ہوئے کیونکہ باری اس کی تھی۔ حضرت عثمانؓ مال دار ضرور تھے لیکن ان کے زہد اور دنیا سے بے رغبتی کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ حضرت علیؓ نے بھی اسی سادگی میں اپنی پوری زندگی بسر کی۔ بلکہ ان کے خلفاء کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیزؓ نے اِسی طرزِ بود و باش پر عمل پیرا ہو کر خلافتِ راشدہ کی یاد تازہ کر دی۔ اب بتلائیے کہ کیا کسی جمہوری ملک کے کسی صدر کی ایسی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟ اور پھر اس کا کیا مطلب ہوا کہ خزانہ ملکی، ملک کی ملکیت ہے۔ اس پر پریزیڈنٹ کا کوئی ذاتی تصرف نہ ہو۔''

یہ تو خلفاء کی مثال تھی۔ اب عمالِ حکومت کی طرزِ بود و باش ملاحظہ فرمائیے۔

یہ تو ہم بتلا چکے ہیں کہ حضرت عمرؓ عمال مقرر کرتے وقت پردانۂ تقرری میں یہ شرائط درج کر دیا کرتے تھے کہ وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہو گا۔ باریک کپڑے نہ پہنے گا اور چھنا ہوا آٹا نہ کھائے گا اور پھر ان شرائط کا جس طرح آپ احتساب کرتے تھے اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ اس کے علاوہ جب کوئی عامل مقرر کیا جاتا تو اس کے مال و اسباب کی مفصل فہرست تیار کر کے محفوظ رکھی جاتی تھی۔ اور اگر عامل کی حالت میں غیر معمولی ترقی ہوتی تو اس سے مواخذہ کیا جاتا۔ (فتوح البلدان ص ۲۱۹)

ایک حضرت عمرؓ کو اطلاع ملی کہ بعض عمال کی جائیداد میں اضافہ ہوا ہے۔ آپ نے سب کی موجودات کا جائزہ لے کر آدھا مال بٹا لیا اور بیت المال میں داخل کر دیا۔

اب تک ہم نے جو کچھ لکھا ہے وہ صرف ایک بیت المال کے خرچ سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی عمالِ حکومت اور امیر مملکت خود بھی اس کا امانت سمجھتے اور اس سے ناجائز تمتع کا حق نہیں رکھتے۔ اب اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس میں ناجائز آمدن از قسم غصب اور ناجائز ٹیکس بھی داخل نہیں کیے جا سکتے۔

بیت المال کی آمدنی کی ایک بڑی اہم مدّ زکوٰۃ اور خراج ہے۔ مسلمانوں سے زکوٰۃ اور عشر وصول کیا جاتا ہے اور غیر مسلموں (ذمیوں) سے خراج اور جزیہ۔ زمین کے لگان کو اہلِ ایران خراگ کہتے تھے۔ خراج اسی سے معرب ہے۔ لگان کے علاوہ دوسرے ٹیکسوں کو اہلِ ایران گزیت کہتے تھے۔ جزیہ کا لفظ اس سے معرب ہے۔ گویا غیر مسلمانوں پر دستور کے مطابق سابقہ ٹیکس ہی بحال رہنے دیئے گئے۔ زکوٰۃ و عشر اور خراج و جزیہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ اور عشر کی شرح ناقابل تغیرّ و تبدل ہے۔ جب کہ جزیہ و خراج کی شرح احوال و ظروف کے مطابق تبدیل کی جا سکتی ہے۔

حضرت عمرؓ نے خراج کی شرح نہایت نرمی سے مقرر کی تھی اور احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ہر سال جب عراق سے زکوٰۃ و خراج کی آمدنی وصول ہوتی تو دس معتبر اشخاص بصرہ سے اور دس کوفہ سے طلب کیے جاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ ان کو چار دفعہ شرعی قسم دلاتے تھے کہ یہ مالگزاری یا زکوٰۃ کسی ذمی یا مسلمان پر ظلم کر کے تو نہیں لی گئی۔ (کتاب الخروج ص ۶۵)

حقوق ملکیت کا تحفط:

اور غصب کے معاملہ میں یہ احتیاط تھی کہ ایک بار حضرت عمرؓ نے مسجد نبوی کی توسیع کا ارادہ کیا تو حضرت ابی بن کعب کا مکان اس میں رکاوٹ تھی۔ حضرت عمرؓ نے ابی بن کعب سے کہا کہ وہ جائز قیمت لے کر مکان دے دیں۔ لیکن حضرت ابی بن کعب مکان فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ تنازعہ بڑھ گیا تو فریقین (جس میں مدعی حکومت وقت تھی اور مدعا علیہ حضرت ابی بن کعب) نے حضرت زید بن ثابتؓ کو ثالث (یا عدالت) منظور کر لیا۔ حضرت زیدؓ نے فیصلہ حضرت زیدؓ نے فیصلہ حضرتؓ کے خلاف دے دیا۔

جب ابی بن کعبؓ نے مقدمہ جیت لیا تو انہوں نے یہ مکان بلا قیمت ہی مسجد کی توسیع کے لئے دے دیا۔

اس واقعہ سے جہاں امیر کی بے بسی اور عوام کا اختیار حق ملکیت ثابت ہوتا ہے۔ وہاں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ غصب تو دور کی بات ہے۔ جائز قیمت ادا کرنے کے باوجود بھی حکومت فرد کو اس کی ملکیت فروخت کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔

اب ذرا جمہوری ممالک میں اس حق ملکیت کا اندازہ لگائیے۔ زمینیں زبردستی (Aquire) کر لی جاتی ہیں تو عوام بے بس ہیں۔ ان کی قیمت مروجہ نرخ سے بہت کم لگائی جاتی ہے تو اس زبردستی پر بھی عوام بے بس ہیں۔ قیمت نقد ادا کرنے کی بجائے کئی کئی سال کی قسطوں میں ادائیگی کی جاتی ہے تو بھی عوام مجبور محض ہیں۔ حکومتیں اپنی مرضی سے بڑی بڑی صنعتوں اور تجارتی اداروں کو اپنی تحویل میں لے لیتی ہیں اور ادائیگی بانڈوں کی صورت میں سالہا سال تک پس پشت ڈال دی جاتی ہے۔ کیا ان جمہوری ممالک میں عوام کے حق ملکیت کے تحفظ کا یہی تصور ہے۔

نظامِ کفالت اور عوام کے حقوق:

''خزانہ ملکی ملک کی ملکیت ہو'' کی صحیح اور واضح تعبیر صرف اسلام کے نظامِ کفالت یا بیت المال میں مل سکتی ہے۔ اسلامی نظام میں حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ غریب اور مستحقِ امداد افراد کا پتہ چلائے۔ پھر ان کی مدد کرے۔ یہاں غریب اور مستحق افراد کو امداد کے لئے حکومت سے نہ التجا کرنی پڑتی ہے نہ چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ جب حضرت عمرؓ نے عراق کی مفتوحہ زمینوں کو بیت المال کی تحویل میں لے لیا تو فرمایا۔

فَلَئِنْ عِشْتُ فلیأتین الراعي وھو بسَرْدٍ وحَمِیْرَ نصیبه منھا لم یخرق فیھا جبینه (مشکوٰة۔ باب الفيء)

اگر میں زندہ رہا تو سَرو اور حمیر اس کے چرواہے کو بھی اس میں سے حصہ پہنچے گا۔

جس کی پیشانی پر پسینہ نہیں آیا۔ (یعنی جس نے جہاد کے سلسلہ میں کچ بھی محنت نہ کی ہو)

حضرت عمرؓ کے غلام اسلم کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ رات کو گشت کرنے کے لئے مدینہ سے تین میل صرار کے مقام تک نکل گئے۔ وہاں دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور دو تین بچے رو رہے ہیں۔ حقیقت حال دریافت کی تو معلوم ہوا کہ بچوں کو کئی وقتوں سے کھانا نہیں ملا۔ ان کے بہلانے کے لئے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چڑھا دی ہے۔ حضرت عمرؓ اسی وقت بیت المال کی طرف لوٹے۔ آٹا، گوشت، گھی اور کھجوریں لیں اور اسلم سے کہا۔ میری پیٹھ پر رکھ دو۔ اسلم نے کہا۔ میں لیے چلتا ہوں۔ فرمایا۔ لیکن قیامت میں تم میرا بار نہیں اُٹھاؤ گے۔'' غرض سب چیزیں اپنی پیٹھ پر لاد لائے اور سب چیزیں اس عورت کے آگے رکھ دیں۔ اس نے آٹا گوندھا اور ہنڈیا چڑھائی۔ حضرت عمرؓ خود چولہے کی آگ کو پھونکیں مار رہے تھے۔ یہاں تک کہ آنسوؤں سے آپ کی داڑھی تر ہو گئی۔ کھانا تیار ہو گیا۔ بچوں نے خوب سیر ہو کر کھایا اور اچھلنے کودنے لگے۔ حضرت عمرؓ ان کو اس حال میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ عورت نے کہا۔ خدا تم کوجزائے خیر دے۔ سچ یہ ہے کہ امیر المؤمنین ہونے کے قابل تم ہو نہ کہ عمرؓ۔

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے مسلمان یہی سمجھتے تھے کہ غریبوں کی خبر گیری امیر مملکت کی ذمہ داری ہے۔ غریبوں کو لازم نہیں کہ وہ اپنی صورتِ حال جا کر حکام کو پیش کریں۔ درج ذیل واقعہ سے یہ تصور اور بھی زیادہ اُجاگر ہو جاتا ہے۔

حضرت عمرؓ کو اس کی ہمیشہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ ان کے عمال رعایا کی پروا کرتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ ہر شخص تو ان تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ چنانچہ محض تفتیش حال کے لئے شام، جزیرہ، کوفہ اور بصری مقامات کے دورہ کا ارادہ کیا۔ لیکن موت نے اتنی فرصت نہ دی۔ تاہم شام کے دورہ میں ایک ایک ضلع میں ٹھہر کر لوگوں کی شکایات سنیں اور داد رسی کی۔ دار الخلافہ کو واپس آرہے تھے کہ راہ میں ایک خیمہ دیکھا۔ سواری سے اتر کر خیمہ کے قریب گئے۔ ایک بڑھیا عورت نظر آئی اس سے پوچھا۔ ''عمر کا کچھ حال معلوم ہے؟''

وہ بولی۔ ''ہاں! شام سے روانہ ہو چکا لیکن خدا اس کو غارت کرے۔ آج تک مجھ کو اس کے ہاں سے ایک حبّہ تک نہیں ملا۔''

حضرت عمرؓ نے کہا۔ ''اتنی دور کا حال عمرؓ کو کیونکر معلوم ہو سکتا ہے؟''

کہنے لگی۔'' اس کو رعایا کا حال معلوم نہیں تو خلافت کیوں کرتا ہے؟''

حضرت عمرؓ کو سخت رقت ہوئی اور رو پڑے۔

حضرت عمرؓ نے تمام لاوارث بچوں کے دودھ پلانے اور دیگر مصارف کا انتظام بیت المال سے کیا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی قاعدہ تھا کہ جب عام بچوں کا دودھ چھڑا لیا جائے تو ان کا وظیفہ مقرر کر دیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ تحقیق احول کے لئے رات کو بھیس بدل کر گشت پر نکلے: ایک قافلہ مدینہ منورہ آیا ہوا تھا اور شہر سے باہر اترا تھا ادھر چل دیئے اور پہرہ دینے لگے۔ ایک طرف سے کسی شیر خوار بچے کے رونے کی آواز آئی جسے اس کی ماں اُٹھائے ہوئے تھی۔ آپ نے ماں کو تاکید کی کہ اسے بہلائے۔ تھوڑی دیر بعد ادھر سے گزرے تو پھر بچے کو روتے پایا۔ غصہ میں آکر اس عورت سے کہا ''تو تو بڑی بے رحم ماں ہے۔''

وہ بولی۔ ''مجھے تنگ نہ کرو۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ عمرؓ نے حکم دیا ہے کہ بچےجب تک دودھ نہ چھوڑیں بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر نہ کیا جائے۔ میں اس غرض سے اس کا دودھ چھڑاتی ہوں اور یہ اس وجہ سے روتا ہے۔''

حضرت عمرؓ کو رقت ہوئی اور بولے: ''ہائے عمر! تو نے کتنے بچوں کا خون کیا ہو گا۔'' پھر اسی دن منادی کرا دی کہ بچے جس دن پیدا ہوں اسی تاریخ سے اس کے روزینے مقرر کر دیئے جائیں۔

ایک دفعہ گشت کے دوران دیکھا کہ ایک خیمہ کے باہر ایک بدّو بیٹھا ہے۔ اس سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں۔ دفعۃً اندر سے رونے کی آواز آئی۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا ''کون روتا ہے۔'' بدو بولا۔ میری بیوی ہے جو دردزہ میں مبتلا ہے اور کوئی پرسانِ حال نہیں۔''

آپ واپس گھر آئے۔ اپنی بیوی ام کلثوم کو ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ بدو سے اجازت لے کر ام کلثوم کو خیمہ میں بھیجا۔ تھوڑی دیر بعد بچہ پیدا ہوا۔ ام کلثوم نے پکارا۔ امیر المومنین! اپنے بھائی کو مبارک باد دیجیے۔

امیر المؤمنین کا لفظ سن کر بدّو چونک پڑا اور مؤدب ہو بیٹھا۔ آپ نے فرمایا۔ کوئی بات نہیں۔ تم کل میرے پاس آنا۔ میں اس بچے کی تنخواہ مقرر کر دوں گا۔

تو یہ ہیں ایک اسلامی مملکت میں عوام کے حقوق۔ جوں جوں عوام کے حقوق بڑھتے جاتے ہیں۔ عمالِ حکومت کی ذمہ داریاں بڑھتی اور ان کے اختیارات محدود ہوتے جاتے ہیں اور یہ ہے قومی خزانہ کے ملک کی ملکیت اور امانت ہونے کی صحیح تصویر۔ اس کے متعلق حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ لوگوں سے یوں خطاب فرمایا:
لکم عَلَیَّ أیھا الناس خصبال فخذوني بھا۔ لکم عَلَي أن لا اُجْتَبِي شیئاً من خراجکم ولا مما أفاء اللّٰہ علیکم إلا من وجھه۔ ولکم عَلَي إذا وقع في یدي أن لا یخرج منّي إلا في حقه۔ ولکم عَلَي أن أزید في عطیاتکم وأسدُّ ثغورکم۔ ولکم عَلي أن لا ألقیکم في المھالك (کتاب الخراج ص ۶۰)

''لوگو! مجھ پر آپ لوگوں کے کچھ حقوق ہیں جن کا تم مجھ سے مواخذہ کر سکتے ہو۔ ایک یہ کہ ملک کا خراج اور مال غنیمت بے جا طور سے نہ جمع کیا جائے۔ ایک یہ کہ جب میرے پاس خراج اور غنیمت آئے تو بے جا صرف نہ ہونے پائے۔ ایک یہ میں تمہارے روزینے پڑھاؤں اور تمہاری سرحدوں کو مضبوط کر دوں اور ایک یہ کہ تم کو خطرات میں نہ ڈالوں۔

4. اصولِ حکومت ''مشورہ'' ہو

اور قوت و حکم و ارادہ افراد کی اکثریت کو ہو۔ نہ کہ ذات و شخص کو۔ اِس دفعہ پر مفصل بحث حصہ دوم میں گزر چکی ہے۔

5. حریت رائے و خیال

اور مطبوعات (پریس) کی آزادی اِسی کے تحت میں ہے۔

آزادی اظہار رائے:

یہ آزادی اگر معقول حدود میں ہو تو مثبت نتائج پیدا کرتی ہے اور اگر یہ آزادی بے لگام و بے مہار ہو تو ہزاروں فتنے پیدا کر کے مملکت کی سرحدوں کو کمزور کرتی رہتی ہے۔ یہ جمہوریت نوازوں کی کمزوری ہے کہ استبداد (خود رائے) کے مقابلہ میں انہوں نے لا محدود آزادی اظہار رائے کر دیا۔ لیکن وقتاً فوقتاً حکومتوں کو اس لا محدود آزادی کو مختلف پابندیوں اور اخلاقی ضابطوں سے محدود کرنا پڑتا ہے۔

یہ اسی بے لگام آزادی کے کرشمے ہیں کہ کہیں اسلام مردہ باد اور سوشلزم زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ کہیں قرآن کریم کو ایک فرسودہ کتاب قرار دیا جاتا ہے اور کہیں جلا بھی دیا جاتا ہے۔ کہیں مسلمانوں کا منشور آزادی (خطبہ حجۃ الوداع) ضبط کیا جاتا ہے۔ سرخ انقلاب اور انتقام کے برسرِ عام نعرے لگائے جاتے ہیں اور کہیں علاقائی اور لسانی تعصب کو ہوا دے کر نظریہ پاکستان اور اسلام کی بیخ کنی کی جاتی ہے اور یہ سب کچھ جمہوریت میں اس لیے گوارا کر لیا جاتا ہے کہ اس کی بنیادی لا دینیت پر ہے اور آزادی رائے پر بے لگام ہے۔

اسلام نے اس آزادی رائے کو جائز اور لازم قرار دیا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ یہ قرآن و سنت کے مطابق ہو۔ خلفائے راشدین کے دور میں ہر مسلمان کو آزادی رائے اور حکومت پر نکتہ چینی کا پورا پورا حق حاصل تھا جسے وہ اپنا دینی فریضہ تصور کرتا تھا۔ تاکہ عوام کو ان کے جائز حقوق مِل سکیں اور تاکہ ملک میں برائی کا استیصال اور نیکی کی حوصلہ افزائی ہو۔ یہاں یہ حق کسی خاص جماعت۔ حزبِ اختلاف۔ کو نہیں کہ وہ حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرے اور اس کے اچھے کام کی بھی مذمت کرتی رہے۔

خلفائے راشدین خود اس جذبۂ تنقید کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ خلیفۂ اول حضرت ابو بکرؓ نے اپنی پہلی تقریر میں یوں فرمایا تھا۔ ''میں تم ہی جیسا ایک آدمی ہوں تم سے بہتر نہیں۔ لہٰذا اچھا کام کروں تو میری مدد کرو اور اگر غلط روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔''

اور حضرت عمرؓ نے اپنی پہلی تقریر میں یوں فرمایا۔ ''میں اس شخص کو زیادہ پسند کروں گا جو مجھے میرے عیبوں اور کمزوریوں پر آگاہ کرے۔'' اور بارہا ایسا ہوا کہ آپ کو برسرِعام ٹوکا گیا۔ اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ایسے موقعوں پر کیا رویہ اختیار کیا۔

ایک دفعہ آپ تقریر میں لوگوں کو ہدایت فرما رہے تھے کہ ''حق مہر زیادہ مقرر نہ کیے جائیں اور اس کی حد چار سو درہم تک ہونی چاہئے۔''

یہ معاملہ عورتوں کے حقوق سے تعلق رکھتا تھا۔ ایک عورت اُٹھی اور کہنے لگی۔ ''تم یہ پابندی کیسے لگا سکتے ہو۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔

﴿وَءاتَيتُم إِحدىٰهُنَّ قِنطارً‌ا...٢٠﴾النساء
اگرچہ تم ان عورتوں میں سے کسی ایک خزانہ بھر بھی (بطور حق ہر) دے چکے ہو۔

یہ بات سن کر حضرت عمرؓ بے ساختہ پکار اُٹھے۔ ''پروردگار مجھے معاف فرما۔ ہر شخص عمرؓ سے زیادہ فقیہ ہے۔ پھر منبر پر چڑھے اور کہا: لوگو! ''میں نے تمہیں چار سو درہم سے زیادہ حق مہر دینے سے روکا تھا۔ میں اپنی رائے سے رجوع کرتا ہوں۔ تم میں سے جتنا پسند کرے۔ مہر میں دے۔

ایک دفعہ آپ تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ایک صحابہ نے آپ کی ذات پر یہ اعتراض کیا کہ آپ نے جو قمیض پہن رکھی ہے یہ انہیں چادروں کی ہے جو مال غنیمت میں ہر ایک حصہ میں ایک ایک چادر آئی ہے۔ ایک چادر سے اتنی لمبی قمیض نہیں بن سکتی۔ آپ کی کیسے بن گئی۔ پہلے اس بات کا جواب دیجیے تب ہم آپ کی بات سنیں گے۔

یہ بات حقیقتاً حضرت عمرؓ پر بیت المال میں خیانت کا الزام تھا۔ آپ برافروختہ نہیں ہوئے۔ اپنے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے مجمع عام میں یہ اعلان کیا کہ میں نے اپنے حصہ کی چادر بھی اپنے والد کو دے دی۔ تب یہ قمیص تیار ہوئی۔

اس پر معترض نے اُٹھ کر کہا۔ ہاں۔ اب فرمائیے۔ ہم آپ کی بات بھی سنیں گے اور طاعت بھی کریں گے۔

ایک دفعہ آپ بازار میں جا رہے تھے۔ جارود عبدی ساتھ تھے۔ راستہ میں ایک خاتون نے سلام کیا اور تند و تیز لہجہ میں کہنے لگی۔ ''عمرؓ! تم پر افسوس ہے۔ میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب تم عمیر کہلاتے اور بازار عکاظ میں نوجوانوں سے کشتی لڑا کرتے تھے۔ پھر تھوڑے ہی دن گزرے کہ عمر کہلانے لگے اور اب کچھ دنوں سے امیر المومنین بنے پھرتے ہو۔ سنو! رعایا کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو۔۔۔۔۔!''

بڑھیا کی یہ بات سن کر جارود عبدی نے کہا۔ ''خاتون! آپ نے امیر المومنین پر بہت زیادتی کی۔'' حضرت عمرؓ کہنے لگے۔ ''انہیں کہنے دو۔ شاید تمہیں معلوم نہیں یہ عبادہ بن صامت کی اہلیہ خولہ بنت حکیم ہیں۔ جن کی بات سات آسمانوں پر سنی گئی تھی۔ عمر کو تو بدرجہ اولیٰ سننا چاہئے۔''

اسی طرح ایک اور موقع پر ایک شخص نے کئی بار حضرت عمرؓ کو مخاطب کر کے کہا ''اِتَّق اللّٰہ یا عمر!'' یعنی اے عمر! خدا سے ڈرو۔'' اسے کہنے دو۔ اگر یہ لوگ نہ کہیں تو بے مصرف ہیں۔ اگر ہم نہ مانیں تو ہم۔

عوامی شکایات اور عمال سے احتساب:

یہ تو خلفاء پر تنقید کی بات تھی۔ اب دیکھیے آپ کے عمال سے کیسے مواخذہ ہوتا تھا۔

آپ جب کوئی عامل مقرر کرتے تو اسے پروانہ تقری ملتا تھا جس میں اس کے اختیارات و فرائض کا ذکر ہوتا تھا۔ اس عامل پر لازم تھا کہ وہ وہاں پہنچ کر مجمع عام میں یہ مکتوب سنائے تاکہ عوام اس کے جائز اختیارات سے آگاہ ہو جائیں اور اگر وہ ان اختیارات کی حد سے آگے بڑھے تو اس پر مواخذہ کر سکیں۔ ان حقوق و اختیارات کو آپ نے بارہا مجمع عام میں خود بھی سنایا۔ عاملوں کے لئے یہ ہدایات ہوتی تھیں۔

''یاد رکھو! میں نے تم لوگوں کو امیر اور سخت گیر مقرر کر کے نہیں بھیجا۔ بلکہ امام بنا کر بھیجا ہے کہ لوگ تمہاری تقلید کریں۔ تم لوگ مسلمانوں کے حقوق ادا کرو۔ ان کو زود کوب نہ کرو کہ وہ ذلیل ہوں۔ بے جا تعریف نہ کرو کہ غلطی میں نہ پڑیں اور ان کے لئے اپنے دروازے بند نہ رکھو کہ زبردست کمزوروں کو کھا جائیں۔ ان سے کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہ دو کہ یہ ان پر ظلم کرتا ہے۔''

پھر عاملوں کی خطاؤں پر سخت گرفت کی جاتی تھی۔ خصوصاً ان باتوں پر جن سے ترفع اور فخر و نمود ثابت ہو اور اس طرح کے چند واقعات ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔

عمال سے احتساب کے تین طریقے درج تھے۔ پہلا یہ کہ لوگ اپنے عامل کے متعلق شکایات لکھ کر دار الخلافہ میں بھیج دیتے۔ ایسی صورتِ حال کے لئے حضرت عمرؓ نے ایک تحقیقاتی کمیشن قرر کر رکھا تھا جو موقعہ پر جا کر تحقیقات کرتا تھا اور حسبِ ضرورت عامل کو مدینہ طلب کر لیا جاتا تھا۔

دوسرا یہ کہ ہر سال حج کے موقعہ پر مختلف علاقوں کے وفود آکر حضرت عمرؓ سے ملاقات کرتے اور اپنے عاملوں کے متعلق شکایات کرتے۔

تیسرا یہ کہ آپ حج کے موقعہ پر سب عاملین کو وہاں بلا لیتے تھے اور منادی کرا دی جاتی تھی کہ جس شخص کو اپنے عامل سے کوئی شکایت ہو وہ بلا روک ٹوک پیش کرے۔

پھر ان شکایات کی پوری تحقیق کی جاتی اور الزام ثابت ہونے پر قرار واقعی سزا دی جاتی تھی اور بسا اوقات انہیں معزول کر دیا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ کے عوامی حقوق کی نگہداشت اور عمال پر گرفت ہی کا یہ اثر تھا کہ عمال ہر وقت اپنے آپ کو یوں سمجھتے تھے کہ حضرت عمرؓ کا ایک ہاتھ ان کے نچلے جبڑے پر ہے اور دوسرا اوپر کے جبڑہ پر، جب کوئی بے اعتدالی ہوئی تو وہ انہیں چیر کے رکھ دیں گے۔

ایک دفعہ حسبِ معمول حج کے موقعہ پر تمام عمال حاضر تھے کہ ایک شخص نے اُٹھ کر شکایت کی کہ ''آپ کے عامل (مصر کے گورنر عمرو بن عاص) نے مجھ کو بے قصور سو کوڑے مارے ہیں۔

حضرت عمرؓ نے اِسی مجمع میں مستغیث کو حکم دیا کہ ''اُٹھ اور اپنا بدلہ لے۔'' عمرو بن عاص کہنے لگے۔ ''امیر المومنین! اس طرح تو تمام عمال بددل ہو جائیں گے۔'' حضرت عمرؓ نے فرمایا ''تاہم ایسا ضرور ہو گا۔'' پھر مستغیث کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ ''اُٹھ اور اپنا کام کر۔''

اب عمرو بن عاص نے مستغیث کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ سو دینار لے لے اور اپنے دعویٰ سے باز آئے۔ اس طرح حضرت عمرو بن عاص کی جان چھوٹی۔ (کتاب الخراج ص ۶۶)

اور حضرت عمرؓ کی عمال پر یہ گرفت اتنی مضبوط تھی کہ سوائے حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ اور حضرت معاویہؓ کے کوئی عامل بھی ان کی گرفت سے آزاد نہ رہا تھا۔ حضرت معاویہ البتہ باریک کپڑے پہنتے اور ٹھاٹھ سے رہتے تھے جس کے لئے انہوں نے حضرت عمرؓ کے سامنے معذرت کر دی تھی کہ میں جس علاقہ (شام) میں رہتا ہوں وہاں کی سوسائٹی کے لحاظ سے مجھے ایسا کرنا پڑتا ہے۔

اسلام اور بنیادی حقوق

جہاں تک فرانس کے منشورِ جمہوریت پر تقابلی تبصرہ کی ضرورت تھی وہ ہم نے پیش کر دیا ہے۔ اس تبصرہ سے بآسانی یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ بنیادی حقوق کی تحفظ و نگہداشت کسی نظام میں زیادہ ہے۔ بالفاظ دیگر صدر اور دیگر حکام جمہوریت میں زیادہ با اختیار ہوتے ہیں یا نظامِ خلافت میں۔ لیکن بنیادی حقوق کے تحفظ کی بحث ابھی مزید تفصیل و تنقیح کی محتاج ہے جو مندرجہ ذیل ہے۔

1. جان و مال کا تحفظ:

انسان کا سب سے بڑا اور بنیادی حق جان و مال اور عزت کا تحفظ ہے۔ جان و مال کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے خود بدنی سزائیں مقرر کر کے اس حق کی حفاظت اور بڑے بڑے جرائم کا انسداد کیا ہے۔ اس کی مثال نظامِ خلافت کے سوا کہیں نہیں مل سکتی۔

جان کے بدلے جان، بصورتِ دیگر انسانی جان کی قیمت سو اونٹ یا تقریباً ۵ لاکھ روپیہ جو کہ قاتل کے پورے خاندان سے علی حفظ قرابت وصول کیا جاتا ہے۔ ایسی سزا ہے جو پورے معاشرہ کو متنبہ کر دیتی ہے کہ اس جرم کے نزدیک نہ جانا چاہئے۔ چوری اور ڈاکہ کی سزا مالی تحفظ کے لئے اور زنا اور شراب کی سزا عزت کی تحفظ کے لئے ہے۔

موجودہ جمہوری قوانین تو زنا کو صرف اس صورت میں جرم سمجھتے ہیں جب کہ وہ بالجبر ہو۔ شراب کبھی حلال کر دی جاتی ہے کبھی حرام۔ آبرو کا مسئلہ کوئی مسئلہ نہیں۔ کوئی بدمعاش آپ کی بے عزتی کرے، گالی دے، مارے۔ موجودہ قانون اس وقت تک حرکت میں نہیں آتا جب تک کہ وہ آپ کو مار کر زخمی نہ کرے۔ رہا چوری ڈاکہ اور قتل کی وارداتیں۔ تو عدالتوں کے طریق اور وکلا کی موشگافیوں اور رشوت کے کاروبار نے ان جرائم کو اتنا ارزاں کر دیا ہے کہ انسان کی قیمت ایک جانور جتنی بھی نہیں سمجھی جاتی۔

اسلام نے ان قانونی اقدامات کے علاوہ کسی کے جان و مال اور عزت سے کھیلنے کے متعلق جو وعید سنائی ہے وہ بھی سن لیجیے۔

حضور اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے ایک لاکھ چوبیس ہزار کے مجمع میں مسلمانوں سے پوچھا۔ بتلاؤ آج کونسا دن ہے؟ لوگوں نے کہا۔ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ حرمت کا دن (یوم النحر) ہے۔ دوسری مرتبہ پوچھا کہ یہ کون سا مہینہ ہے؟ لوگوں کے پہلے سے جواب پر آپ ﷺ نے فرمایا یہ حرمت والا مہینہ (ذی الحجہ) ہے۔ پھر آپ نے تیسری بار پوچھا۔ یہ کون سا شہر ہے؟ لوگوں کے پہلے سے جواب پر آپ نے فرمایا۔ یہ حرمت والا شہر (مکہ مکرمہ) ہے۔ اس سوال و جواب کے بعد آپ نے فرمایا:

ان اللّٰہ حرم علیکم دماؤکم وأموالکم وأعراضکم کحرمة یومکم ھذا في شھرکم ھذا في بلدکم ھذا (بخاري کتاب المناسك)

بے شک تمہاری جانیں، تمہارے اموال اور تمہاری آبروئیں ایک دوسرے پر اس قدر حرام ہیں جیسے آج کے دن، اس مہینہ اور اس شہر میں حرمت ہے۔

2. معاشرتی حقوق:

معاشرتی حقوق سے متعلق بھی اِسی خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا کہ گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں (معیار فضیلت صرف تقویٰ ہے) اور تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے تھے۔

اس پر مفصل بحث ہم خاندانی مساوات کے تحت کر چکے ہیں اور یہ بھی بتلا چکے ہیں کہ یہ مساوات صرف اسلام میں قائم ہو سکتی ہے۔ جہاں سب انسان ہم مرتبہ ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کا محکوم نہیں۔ حاکمیت صرف اللہ کی ہے۔

اب دیکھیے اسلام صرف اس معاشرتی مساوات پر اکتفاء نہیں کرتا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو بھائی بھائی بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ ارشادِ باری ہے۔ ﴿نَّمَا المُؤمِنونَ إِخوَةٌ...١٠﴾الحجرٰت

اور اخوہ ایک باپ کی اولاد کو کہتے ہیں جس میں لڑکے لڑکیاں سب شامل ہوتے ہیں۔ گویا اسلام آپس میں بھائیوں جیسا رشتہ مؤدّت قائم کرنا چاہتا ہے۔

اور رسول اکرم ﷺ نے فرمایا۔ الدین نصیحة دین (یا نظام حیات) خیر خواہی کا نام ہے۔

اور اس خیر خواہی میں سب مسلم اور غیر مسلم شامل ہیں۔ ایک مسلمان کو ہر ایک کے بھلے کی بات ہی سوچنا چاہئے۔

3. قانونی حقوق:

مفت اور بلا تاخیر انصاف کے حصول کے لئے اسلام کے متعدد اقدامات کر کے امیر اور غریب میں جس طرح امتیاز ختم کیا ہے اور یہ حق حاصل کرنے کی جتنی سہولتیں بہم پہنچائی ہیں اس کی تفصیل قانونی مساوات میں گزر چکی ہے۔ اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ دیگر جمہوری معاشروں میں غریب عوام کو یہ حق وصول کرنے میں کیا کیا دشواریاں اور مشکلات پیش آتی ہیں۔

4. حقوق ملکیت:

اس کی تفصیل قومی خزانہ میں حقوق ملکیت کے تحفظ کے تحت دے چکے ہیں اور یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ اس سلسلہ میں جمہوی ملکوں کو عوام پر کیونکر ظلم روا رکھا جاتا ہے۔

5. معاشی حقوق:

کا تفصیلی تذکرہ قومی خزانہ کے تحت نظام کفالت پیش کیا جا چکا ہے۔ اور یہ بھی ثابت کیا جا چکا ہے جس ملک میں۔ خواہ وہاں ملوکیت ہو یا جمہوریت۔ سرمایہ دارانہ نظام قائم ہو، وہاں غریب عوام مالی وسائل سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ اسلام میں سود کے بجائے مضاربت اور زکوٰۃ اور نظامِ کفالت ایسے اقدامات ہیں جن سے غریب عوام کو وسائل رزق بھی مہیا ہو جاتے ہیں اور ان کی امداد بھی ہو جاتی ہے حتّی کہ غیر مسلموں کا بھی پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔

6. حق تعلیم:

یوں تو جمہوری ممالک میں بھی عوام کی تعلیم کا حسب ضرورت اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن اسلام میں تعلیم حاصل کرنا اس کا لازمی حصہ ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس کے لئے کئی تدابیر اختیار کیں اور بہت سے ادارے قائم کیے۔ حتّٰی کہ خانہ بدوش بدؤں کے لئے قرآن مجید کی تعلیم جبری طور پر قائم کی۔ ابو سفیان نامی ایک شخص کو چند آدمیوں کے ساتھ مامور کیا کہ وہ قبائل میں پھر پھر کر ہر شخص کا امتحان لے اور جس کو قرآن مجید کا کوئی حصہ بھی یاد نہ ہو اس کو سزا دے۔

دوسرا فرق یہ ہے کہ اسلامی مملکت میں ایسی تعلیم جو اس کے بنیادی نظریات کے خلاف ہو اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا جبکہ جمہوری ممالک میں ایسی کوئی پابندی نہیں۔ کیونکہ یہ ریاستیں عموماً لا دینی قسم کی ہوتی ہیں۔ بلکہ واضح تر الفاظ میں یوں سمجھیے کہ وہ مذہبی دعوے کے باوجود لا دینی ہی رہتی ہیں۔

7. حق ضمیر و آزادی مذہب:

یعنی ہر شخص کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ جونسا عقیدہ اور جونسا مذہب پسند کرتا ہے، اختیار کرے۔ لیکن کسی دوسرے مذہب یا فریق کی دل آزاری اور نقضِ امنِ عامہ کا باعث نہ بنے۔

اسلام یہ حق تو دیتا ہے کہ ''دین میں کوئی جبر نہیں۔'' ہر شخص جو دین پسند کرتا ہے وہ اختیار کرے۔ لیکن ایک دفعہ اسلام لانے کے بعد دین تبدیل کرنے کو وہ مجرم قرار دیتا ہے۔ کیونکہ اسلام ایک تحریک ہے۔ لہٰذا دین کی تبدیلی کو بغاوت سمجھ کر اس کی سزا قتل قرار دیتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی قسم کے قانونی حقوق ہیں مثلاً حق نقل و حرکت، حق معاہدہ، حق انجمن سازی یا خاندانی حقوق ایسے حق ہیں جو سب نظام تسلیم کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے تذکرہ کا کوئی فائدہ نہیں۔

8. سیاسی حقوق:

جس کی کوئی اقسام ہیں۔ مثلاً حق بالغ رائے دہی (بشمول خواتین) حق نمائندگی (قانون سازی کا حق) حق منصب و عہدہ، حکومت پر نکتہ چینی کا حق وغیرہ اور دراصل یہی حقوق ہیں جن پر جمہوری ممالک کا سارا زور صرف ہوا ہے۔ ان سب حقوق پر ہم پہلے بھرپور تبصرہ کر چکے ہیں۔

گو اسلام میں امیر کا انتخاب شوریٰ کی ذمہ داری ہے۔ امیر باہمی شمورہ سے باقی حکام کو نامزد کرتا ہے۔ پھر بھی اسلام نامزدگی یا عزل و نصب میں جمہوری روح یا حکومت میں عوام کی مداخلت کا عنصر قائم رکھتا ہے:۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے کئی گورنروں کو اہلِ علاقہ کی شکایت کی بنا پر معزول کر دیا تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص جیسے پایہ کے بزرگ صحابی اور فاتح کو حضرت عمرؓ نے کوفہ کی گورنری سے محض اس لئے معزول کر دیا کہ وہاں کے لوگوں نے ان کی شکایت کی تھی۔

صوبجات اور اضلاع کے حاکم اکثر رعایا کی مرضی سے مقرر کیے جاتے تھے اور بعض اوقات بالکل انتخاب کا طریقہ عمل میں آتا تھا۔ کوفہ، بصرہ اور شام میں جب عمال خراج (Collector) مقرر کیے جانے لگے تو حضرت عمرؓ نے ان تینوں صوبوں میں احکام بھیجے کہ وہاں کے لوگ اپنی اپنی پسند سے ایک ایک شخص انتخاب کر کے بھیجیں جو ان کے نزدیک تمام لوگوں سے زیادہ دیانتدار اور قابل ہوں۔ چنانچہ کوفہ سے عثمان بن فرقد، بصرہ سے حجاج بن علاط اور شام سے معن بن یزید کو لوگوں نے منتخب کر کے بھیجا اور حضرت عمرؓ نے انہیں لوگوں کو ان مقامات کا حاکم مقرر کیا۔

عوامی حقوق کے اس سرسری جائزہ سے یہ بات صاف واضح ہے کہ ایسے حقوق جن کا تعلّق لادینیت، فحاشی اور عیاشی سے ہے۔ ان حقوق کا تو مغربی جمہوریت میں خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتا اور ان کی حمایت کی جاتی ہے اور جن حقوق کا تعلّق مصالحِ عامہ، غریب پروری، اور امن سے ہے وہ بالعموم نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام انہیں بنیادی اور عوامی حقوق کی نگہداشت کرتا اور سارا زور ان پر صرف کرتا ہے۔

اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کے حقوق

مملکت اسلامیہ میں قانونی حقوق غیر مسلموں (ذمیوں) کو بھی ویسے ہی حاصل ہوتے ہیں جیسے مسلمانوں کو۔ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو قتل کر ڈالتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوراً اس کے بدلے مسلمان کو قتل کرا دیتے تھے۔ مال اور جائیداد کے متعلق ان کے حقوق کی حفاظت اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ جس قدر زمینیں ان کے قبضے میں تھیں، فتح کے بعد بھی ان کے قبضہ میں بحال رہنے دی گئیں۔ ملکی انتظامات میں بھی ان سے مشورہ لیا جاتا تھا۔ ایسے انتظامات جن کا تعلق ذمیوں سے ہوتا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے مشورہ اور استصواب کے بغیر کام نہیں کرتے تھے۔

ایک دفعہ شام کے ایک کاشتکار نے شکایت کی کہ اہل فوج نے اس کی زراعت کو پامال کر دیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے بیت المال میں سے دس ہزار درہم ان کو معاوضہ میں دلوا دیئے۔

مذہبی امور میں ذمیوں کو پوری آزادی تھی۔ ہر قسم کی رسوم مذہبی ادا کرتے تھے۔ علانیہ ناقوس بجاتے اور صلیب نکالتے تھے۔ مسلمان اگر کسی سے سخت کلامی کرتے تو وہ اس کی پاداش کے مستحق ہوتے تھے۔

ان سے جزیہ اور عشور کے علاوہ کوئی محصول نہ لیا جاتا تھا اور جزیہ کی شرح میں نرمی کا پہلو اختیار کیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ایک بوڑھے کو بھیک مانگتے دیکھا۔ پوچھا بھیک کیوں مانگتا ہے؟ بولا مجھ پر جزیہ لگایا گیا ہے۔ اور مجھ میں ادا کرنے کی طاقت نہیں۔'' آپ اسے اپنے ساتھ گھر لے آئے اور کچھ نقد دے کر بیت المال کے ناظم کو کہلا بھیجا کہ اس قسم کے معذوروں کے لئے بیت المال سے وطیفہ مقرر کر دیا جائے۔

آپ کے دَور میں قاعدہ یہ تھا کہ جو مسلمان اپاہج یا ضعیف ہو جاتا۔ بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر ہو جاتا تھا۔ بعینہٖ ایسی ہی مراعات ذمیوں کو بھی حاصل تھیں۔

ماحصل یہ ہے کہ سوائے کلیدی اسامیوں پر فائز ہونے کے ان لوگوں کو وہ تمام قانونی مراعات حاصل تھیں جو مسلمانوں کو حاصل تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ذمیوں نے اپنی ہم مذہب سلطنتوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ ذمّی ہی تھے جو مسلمانوں کے لئے رسد بہم پہنچاتے، لشکر گاہ میں مینا بازار لگاتے، اپنے اہتمام اور خرچ سے سڑک اور پل تیار کراتے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جاسوسی اور خبر رسانی کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے۔