جولائی 1981ء

ضمنی مباحث

کیا کثرت رائے معیارِ حق ہے؟

ہم پہلے اسلامی نقطۂ نظر سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ دلیل کے مقابلہ میں کثرت رائے کی کوئی حیثیت نہیں۔ اب جمہوریت پرستوں کی مجبوری یہ ہے کہ جمہوری نظام ''کثرت رائے بظور معیار حق'' کے اصول کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتا۔ پھر اس اصول کو برقرار رکھنے کے لئے اس نظام کو یہ سہارا بھی لینا پڑا۔ ہر بالغ۔ مرد ہو یا عورت۔ کے ووٹ (رائے عقل و دانش) کی قیمت یکساں قرار دی جائے۔ اس اصول کو سیاسی مساوات کا نام دیا گیا۔

ہر ووٹ کی یکساں قیمت:

اس طرزِ انتخاب میں ہر چھوٹے اور بڑے، اچھے اور برے، عالم اور جاہل، نیک اور بد کردار کے ووٹ یا رائے کی قیمت یکساں قرار پاتی ہے۔ یہ نظریہ بھی قرآن آیات کے صریح خلاف ہے۔ مثلاً:

1. نیک اور بدکردار کے ووٹ کی قیمت یکساں نہیں ہے: ارشاد باری ہے:
﴿أَفَمَن كانَ مُؤمِنًا كَمَن كانَ فاسِقًا ۚ لا يَستَوۥنَ ﴿١٨﴾السجدة
بھلا جو مومن ہے وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے۔ جو نافرمان ہو؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔

2. اسی طرح وہ شخص جو کسی نمائندہ یا سربراہ کے انتخاب پر اس کی اہلیتوں اور ذمہ داریوں سے واقف ہے۔ اس کی رائے کی قدر و قیمت اتنی ہی قرار پانا جتنی ایک دِن معاملات سے بالکل بے شعور آدمی کی ہے۔ یہ سخت نا انصافی کی بات ہوتی ہے۔

ارشاد باری ہے:

﴿هَل يَستَوِى الَّذينَ يَعلَمونَ وَالَّذينَ لا يَعلَمونَ...٩الزمر
ترجمہ: کیا عالم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں۔

دوسرے مقام پر فرمایا:۔

﴿قُل هَل يَستَوِى الأَعمىٰ وَالبَصيرُ‌...١٦﴾الرعد
کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہیں؟

3. اسی طرح اچھے اور برے میں تمیز نہ کرنا بھی نا انصافی کی بات ہے۔ ارشاد باری ہے:

﴿قُل لا يَستَوِى الخَبيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَو أَعجَبَكَ كَثرَ‌ةُ الخَبيثِ...١٠٠﴾المائدة
کہہ دیجیے۔ ناپاک اور پاک برابر نہیں ہو سکتے۔ خواہ ناپاک (چیزوں یا لوگوں) کی کثرت آپ کو بھلی معلوم ہو۔

کثرت رائے پر فیصلہ:

یہ تو ایک ضمنی بحث چل نکلی۔ بات کثرت رائے سے متعلق ہو رہی تھی۔ ہاں تو جمہوریت میں فیصلہ کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ معاملہ خواہ کوئی ہو، انتخاب ہو یا قومی اسمبلی میں قانون سازی کا کام یا اور کوئی مشورہ، آراء کی گنتی کر کے اکثریت کی بنیاد پر حق و باطل یا ٹھیک اور غلط کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ اسلامی نظر سے یہ اصول غلط ہے اور قرآن کریم میں تقریباً ۹۱ آیات ایسی ہیں۔ جن میں لوگوں کی اکثریت کو ظالم، فاسق، جاہل، مشرک وغیرہ قرار دیا گیا ہے (جنہیں طوالت کی وجہ سے ہم یہاں درج نہیں کر رہے) نیز حضور اکرم ﷺ اور مسلمانوں کو اکثریت کے تتبع سے سختی سے منع کیا گیا ہے تو ان آیات کے متعلق سیاسی قائدین اور جمہوریت نواز یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ ''ایسی سب آیات کافروں سے متعلق ہیں۔'' حالانکہ ان کا مخاطب معاشرہ ہے نہ کہ محض کفار۔ پھر یہ بات بھی سوچنے کے قابل ہے کہ کیا مسلمانوں میں فاسق، ظالم، جاہل یا مشرک نہیں ہو سکتے۔ اس رفع التباس کے لئے ہم ذیل میں دو ایسی آیات درج کرتے ہیں جن کے مخاطب صرف مسلمان ہیں۔ مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَما يُؤمِنُ أَكثَرُ‌هُم بِاللَّـهِ إِلّا وَهُم مُشرِ‌كونَ ﴿١٠٦﴾يوسف
اور اکثر لوگ خدا پر ایمان لاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ شرک بھی کرتے ہیں۔

اسی طرح دوسری آیت صحابہؓ کرام سے متعلق ہے۔ معرکہ حنین کے موقع پر صحابہ کرام اپنی کثرت کی وجہ سے اترانے لگے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَيَومَ حُنَينٍ ۙ إِذ أَعجَبَتكُم كَثرَ‌تُكُم فَلَم تُغنِ عَنكُم شَيـًٔا وَضاقَت عَلَيكُمُ الأَر‌ضُ بِما رَ‌حُبَت...٢٥﴾التوبة
اور جنگحنین کے دن جب تم کو (اپنی جماعت (کی) کثرت پر ناز تھا تو وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی اور زمین اپنی فراخی کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی۔

اکثریت کی گمراہی کو جائز بنانے کے لئے یہ جواب بھی دیا جاتا ہے کہ سب اوامر و نواہی تو قرآن و سنت میں موجود ہیں۔ مشورہ صرف مباح امور میں ہوتا ہے۔ اور صرف مباح امور میں مشورہ سے گمراہی کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔

میں کہتا ہوں کہ مشورہ مباح امور میں ہو یا انتظامی امور میں، دیکھنا تو یہ ہے کہ مشیروں کی ذہنیت کیا ہے اور ان کی اہلیت کیسی ہے؟ اب دیکھیے کہ موجودہ جمہوریت اور اسلام میں صرف ''مشورہ'' ایک قدر مشترک ہے۔ لیکن مشورہ کے طریق کار، غرض و غایت، فیصلہ کا طریق۔ امیر کا اختیار کئی ایسے ضمنی مباحث ہیں جن میں اختلاف ہے اور دونوں راہیں الگ الگ ہو جاتی ہیں (یہی مباحث کتاب کا اصل موضوع ہیں) لیکن اس کے باوجود جمہوریت نواز اس طرزِ انتخاب کو اسلام کے عین مطابق قرار دے رہے ہیں۔ اور اسلام ہی کے احکامات اور تاریخی واقعات کی من مانی تعبیر کر کے اور حقائق کو مسخ کر کے اپنے دعویٰ کا ثبوت بھی پیش کر رہے ہیں۔ تو پھر اس کے بعد ایسا کونسا مباح مشورہ طلب امر باقی رہ جائے گا۔ جسے حل تو عوامی خواہشات اور کثرت رائے سے کر لیا جائے اور اس کا ثبوت اسلام سے پیش نہ کیا جا سکے۔ لہٰذا جب تک مشیر متقی اور علومِ اسلامیہ سے واقف نہ ہوں گے۔ مباح امور میں مشورہ بھی ضلالت کی طرف ہی لے جائے گا۔

مشورہ کا فیصلہ اور میر مجلس کا اختیار:

ہم بالوضاحت ثابت کر چکے ہیں کہ اسلامی شوریٰ میں آخری فیصلہ کا اختیار میر مجلس کو ہوتا ہے اور اس فیصلہ میں وہ کثرت آراء کا پابند نہیں بلکہ دلیل کی قوت پر انحصار کرتا ہے۔ اگر فریقین کے پاس کوئی دلیل نہ ہو یا مساوی وزن کے دلائل ہوں۔ یا دلائل کی قوت میں صحیح اندازہ نہ لگایا جا سکے۔ تو قطع نزاع کے لئے آخری اور مجبوری شکل کثرت رائے کی بنیاد پر میر مجلس فیصلہ کر دیتا ہے۔ لیکن جمہوری نظام میں کثرت رائے ہی معیار حق اور اسی کے مطابق سب فیصلے سر انجام پاتے ہیں۔ میر مجلس مجبور محض ہوتا ہے۔ یا زیادہ سے زیادہ اس کے ووٹ کی قیمت دو ووٹوں کے برابر سمجھی جاتی ہے اور یہ اس نظام کی مجبوری ہے۔ جس کی طرف ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں۔

اب میر مجلس کو بے اختیار اور کثرت رائے کو معیارِ حق ثابت کرنے کے لئے جو عقلی اور نقلی دلائل پیش کئے جاتے ہیں وہ بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔

کثرت رائے کے حق میں دلائل:

کہا یہ جاتا ہے کہ ''مشورہ طلب کرنے کے بعد اگر امیر مختار ہو چاہے تو اسے قبول کر لے اور چاہے تو رد کرے یہ روحِ مشورہ کے خلاف ہے۔ مشاورت میں فیصلہ کا قدرتی اصول کثرت رائے کا اصول ہی ہے۔ اس لئے امیر کو کوئی حق نہیں کہ وہ شوریٰ کی اکثریت کے فیصلہ کو ٹھکرا دے۔ مشورہ طلب کرنا اور اسے قبول نہ کرنا ایک لغو اور فضول بات ہے ۔ ایسی صورت میں مشورہ طلب یا مشورہ دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ صورتِ حال امیر کو منزہ عن الخطا قرار دینے اور مقامِ خداوندی پر فائز کر دینے کے مترادف ہے۔''

یہاں فیصلہ طلب امر صرف یہ ہے کہ آیا ''مشاورت میں کثرت رائے کا اصول'' فی الواقعہ قدرتی ہے بھی یا نہیں۔ ہمارے خیال میں یہ مفروضہ ہی سرے سے غلط ہے۔ اس کا عقلی جواب تو یہ ہے کہ ایک طرف دس آدمی عام عقل کے ہوں اور دوسری طرف صرف ایک ہی تجربہ کار در پختہ کار تو آپ اپنے ذاتی مشورہ کے لئے یقیناً اس ایک سمجھ دار اور تجربہ کار آدمی کی طرف رجوع کریں گے۔ اور آپ ذرا غور فرمائیں تو معلوم ہو جائے گا کہ اس کائنات کا پورا نظام ہی اس اصول پر قائم ہے کہ کسی پختہ کار اور سمجھ دار آدمی کی طرف رجوع اور اس کا اتباع کیا جائے۔ مگر پارلیمنٹ کا یہ حال ہے کہ اگر ۱۰۰ سے ۵۱ آدمی شراب کے حق میں ووٹ دے دیں تو وہ جائز قرار پاتی ہے۔

اور نقلی جواب یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے مجلسِ ''مشاورت متعلقہ اساریٰ .......'' کے بھرے مجمع میں حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا۔

لَوِ اجتمعًا ما عصیتکما (در منثور)

اگر یہ دونوں ہم رائے ہو جاتے تو میں ان کا خلاف نہ کرتا۔

گویا آپ کے نزدیک ان دو بزرگوں کی رائے باقی سارے مجمع پر بھاری تھی اور جیش اسامہ کی روانگی اور مانعین زکوٰۃ کے بارے میں حضرت ابو بکرؓ کی رائے ساری شوریٰ پر بھاری تھی۔

کثرت رائے کے متعلق فقہاء کے ارشادات:

1. خلفائے راشدین ہر فرد سے مشورہ نہیں کرتے تھے بلکہ ان لوگوں سے مشورہ کرتے تھے جن سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار عمرؓ نے فرمایا تھا:۔

''تمہیں عوام نے اس منصب پر فائز نہیں کیا۔ بلکہ اس منصب کے لئے تمہیں اس لئے اہل تصور کیا گیا ہے کہ تمہارا تعلق رسول اللہ ﷺ سے قریبی تھا اور حضور اکرم ﷺ بھی تمہیں عزیز رکھتے تھے۔'' (طبری، بحوالہ واقعہ کربلا، ابو بکر غزنوی)

2. امام شافعیؒ فرماتے ہیں:

''حاکم کو مشورے کا حکم صرف اس لئے دیا جاتا ہے کہ مشیر اس کو ان امور سے آگاہ کرے جس کی طرف اس کا دھیان نہیں گیا اور اس کی دلیل سے اس کو مطلع کرے یہ حکم اس لئے نہیں دیا گیا کہ حاکم مشیر کے مشورہ یا بات کی پیروی کرے کیونکہ اللہ اور اللہ کے رسول کے سوا کسی کی بھی پیروی کرنا فرض نہیں۔'' (فتح الباری، باب قولہ تعالیٰ وامرھم شوریٰ بینھم)

3. امام ابن تیمیہ کہتے ہیں:

''اگر شورائیہ کے کسی فرد نے کتاب و سنت اور اجماع کے مسئلہ کی کوئی واضح دلیل پیش کر دی تو اس وقت خواہ کتنی بڑی جمعیت ایک طرف ہو جائے اور اس سے کتنے بڑے بھونچال کا خطرہ ہو تو بھی اسے خاطر میں نہ لایا جائے۔ اگر دلائل کے لحاظ سے بھی اختلاف پیدا ہو جائے تو میر مجلس کو اس کی رائے پر فیصلہ کرنا چاہئے جو کتاب و سنت کے زیادہ قریب اور مشابہ ہو۔ (السیاسۃ والشراقیہ)

اسلامی مشاورت کا امیر مطلق العنان نہیں ہوتا بلکہ دلیل اور آراء کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ خود بھی ذہنی کاوش کر کے معاملہ مطلوبہ میں وہ پہلو اختیار کرتا ہے جو اقرب الی الحق ہو۔ محض اس بنا پر کہ اسے ترجیحی پہلو اختیار کرنے کا حق شریعت نے دیا ہے۔ اسے ''منزہ عن الخطاء اور مقام خداوندی پر فائز'' کے القاب سے نوازنا کہاں تک درست ہے؟

ہمارا دستور اور امیر کا اختیار:

حیرت کی بات یہ ہے کہ موجود دستور جو خالص جمہوری قدروں پر ترتیب دیا گیا ہے، نے بھی سربراہ مملکت کو مشورہ قبول کرنے کا پابند قرار نہیں دیا ہے۔ یہاں ہم تحریک آزادی و دستور پاکستان (مؤلفہ فاروق اختر نجیب) کے چوتھے ایڈیشن سے چند اقتباس پیش کرتے ہیں:

1. وزراء کا دوسرا کام حکومت کی پالیسی کی تشکیل میں صدر کو مشورے دینا ہے۔ اس سلسلہ میں صدر جب چاہے ان سے مشورہ طلب کر سکتا ہے۔ مگر وہ ان کے مشورے کو قبول کرنے کا پابند نہیں۔'' (ص ۴۴۴)

2. صدر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور اس کے مشورے سے دوسرے ججوں کا تقرر کرتا ہے۔ اسی طرح وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور متعلقہ صوبہ کے گورنر کے مشورہ سے ہائی کورٹوں کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، متعلقہ صوبہ کے گونر اور متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے مشورہ سے ہائی کورٹ کے ججوں کا تقرر کرتا ہے۔ گویا متذکرہ افراد سے وہ صرف مشورہ کرنے کا پابند ہے۔ اس مشورہ کو قبول کرنے کا پابند نہیں۔'' (ص ۴۳۴)

تو ایک ایسا ملک جہاں انتخابات سے لے کر قانون سازی تک تمام فیصلے اکثریت کی بنیاد پر طے پاتے ہیں۔ اس کے ستور میں بھی سربراہ مملکت کو مشورہ کرنے کا پابند تو بنایا گیا ہے مگر اسے قبول کرنے کا پابند نہیں بنایا گیا تو پھر ہمارے یہ جمہوریت نواز دوست پہلے اپنے گھر کی خبر کیوں نہیں لیتے؟ ان مشیروں سے صدر مملکت مشورہ ہی کیوں طلب کرتا ہے جب کہ وہ ان مشوروں کو قبول کرنے کا پابند ہی نہیں۔

اکثریت کے معیارِ حق ہونے کے دلائل:

اکثریت کے معیارِ حق ہونے کی دلیل میں مندرجہ ذیل دو آیت پیش کی جاتی ہیں۔

1يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّـهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَأُولِى الأَمرِ‌ مِنكُم ۖ فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سولِ...٥٩﴾النساء
اے ایمان والو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحبِ حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو۔

اس آیت سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ امیر کا فیصلہ قطعی اور حتمی نہیں ہو سکتا وہ مختار محض نہیں۔ اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اندریں صورت قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

اس آیت میں امیر سے اختلاف کی گنجائش تک تو بات درست ہے مگر یہ تو نہیں کہا گیا کہ اندریں صورت امیر کو چاہئے کہ وہ کثرت رائے کا احترام کرے۔ پھر بھی قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے، اللہ کی رضا معلوم کرنے اور اس سے مطابق فیصلہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور یہ جھگڑا امیر اور کسی ایک فرد کا بھی ہو سکتا ہے اور امیر اور شوریٰ یا بہت سے افراد کا بھی۔ اور خلافتِ راشدہ کے دَور میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں کہ امیر اور عامۃ الناس کے درمیان جھگڑا ہوا۔ پھر اس کا فیصلہ قرآن و سنت کے مطابق ہوا۔ مثلاً:

1. امیر اور فرد کا جھگڑا:

حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں مسجد نبوی کی توسیع کرنا چاہتے تھے۔ حضرت ابی بن کعبؓ کا مکان اس توسیع میں حائل تھا۔ آپ نے حضرت ابی بن کعب کو کہا کہ اس مکان کی قیمت لے کر فروخت کر دیں لیکن توسیع کے سلسلہ میں رکاوٹ نہ ہو۔لیکن حضرت ابن بن کعبؓ نہیں مانتے تھے۔ معاملہ نے طول کھینچا تو بالآخر فریقین نے حضرت زید بن ثابتؓ کو ثالث تسلیم کر لیا (ثالث بھی عدالت کے قائم مقام ہوتا ہے)۔ ایسے تنازعات میں عدالت کی طرف بھی رجوع کیا جا سکتا ہے اور ثالث کی طرف بھی) حضرت زید بن ثابتؓ نے فریقین کے دلائل سن کر فیصلہ حضرت عمرؓ کے خلاف دے دیا۔ جب فیصلہ ہو چکا تو حضرت ابی بن کعب نے یہ مکان قیمتاً دینے کی بجائے فی سبیل اللہ ہی دے دیا۔

2. امیر اور شوریٰ کا جھگڑا:

عراق کی مفتوحہ زمینوں کے بارے میں ہوا۔ دونوں طرف دلائل قوی تھے اور معاملہ ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ حضرت عمرؓ اس معاملہ میں کئی دن تک سخت پریشان رہے۔ اور قرآن و سنت میں ذہنی کاوش کرتے رہے۔ بالآخر بتوفیقِ الٰہی ان کو ایک ایسی آیت یاد آگئی جو ان حالات پر فٹ بیٹھتی تھی اور حضرت عمرؓ کے دلائل کے حق نص قطعی کا حکم رکھتی تھی۔ آپ نے بھرے مجمع میں یہ آیت سنائی اور اپنا فیصلہ صادر کر دیا۔ جس کے آگے سب نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔

یہ تھا ''ردوه إلى الله والرسول'' کا مطلب۔ افراد کی آزادیٔ حق گوئی اور امیر کی غیر مطلق العنانی۔ پھر ہم تو یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ یہ آیت جمہوریت نوازوں کے حق میں ہے یا ان کے مخالف؟ یہاں تنازعات کے لئے دلیل کی طرف رجوع کیا جائے گا نہ کہ اسے کثرت رائے کے سپرد کیا جائے گا۔

دوسری دلیل:

مندرجہ ذیل آیت بھی اس ضمن میں پیش کی جاتی ہے:

﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّ‌سولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ‌ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَساءَت مَصيرً‌ا ﴿١١٥﴾النساء
ترجمہ: اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا اور رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور قیامت کے دن جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔

کہا یہ جاتا ہے اس آیت سے جہاں اجماع کی حجّیت ثابت ہوتی ہے۔ وہاں یہی آیت اکثریت کے فیصلے کو واجب الاتباع ہونے پر بھی دلالت کرتی ہے۔ پھر اس ضمن میں حدیث علیکم بالسواد الأعظم بھی پیش کی جاتی ہے کہ یہ حدیث بھی اکثریت رائے کے واجب الاتباع ہونے پر نص قطعی ہے۔

ہمیں یہ تسلیم ہے کہ فی الواقع اس آیت سے اجماع کی حجت ثابت ہوتی ہے۔ مگر اس سے اکثریتی فیصلہ کو واجب الاتباع قرار دینا بہت بڑا فریب اور قطعاً غلط ہے جس کی وجوہ درج ذیل ہیں:

1. اجماع کے معنی اتفاق رائے ہے۔ کثرت رائے نہیں۔

2. اجماع صرف صحابہ کا حجت ہے۔ اس کے بعد کے ادوار میں امت کا اجماع کی حجیّت بذاتِ خود مختلف فیہ مسئلہ ہے۔

3. بعد کے ادوار کا اجماع ثابت کرنا اور ثابت ہونا فی نفسہٖ بہت مشکل امر ہے (یہ مفصل بحث موجودہ طرز انتخاب کے اجماع سکوتی میں ملاحظہ فرمائیے)

پھر اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا یہ لوگ کہتے ہیں تو کیا اسمبلیوں میں اکثریتی فیصلے کے خلاف ووٹ دینے والے سب جہنمی ہوتے ہیں؟ حزب اختلاف حزبِ اقتدار کے فیصلے کو دل سے کبھی تسلیم نہیں کرتا کیونکہ ان کا اپنا سیاسی عقیدہ الگ ہوتا ہے اس کے متعلق کیا خیال ہے؟

آیت کا مطلب صاف ہے۔ اکثریتی رائے سے اختلاف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر جب اس اختلاف میں عصبیت پیدا ہو جاتی ہے۔ خواہ یہ اختلاف مذہبی ہو یا سیاسی۔ پھر اس عصبیت کے تحت جماعت کے راستہ کے علاوہ دوسرے راستہ پر چل پڑے اور امت واحد کے انتشارو افتراق کا ذریعہ بنے تو اس کی سزا جہنم سے گویا یہ سزا اصل میں تعصب کی ہوتی ہے۔ نہ کہ محض اختلاف کی۔

مندرجہ ذیل ارشاد نبوی اس بات پر پوری طرح روشنی ڈالتا ہے:-

عن أبي ھریرة عن النبي ﷺ أنه قال: من خرج عن الطاعة وفارق الجماعة فمات مات ميتة جاھلیة ومن قاتل تحت رأیة عمِیَّةیغضُب لعصبة أو یدعوا إلی عصبة أو ینصر عصبة فقتل قتلة جاھلیة (مسلم۔ کتاب الإمارة باب وجوب ملازمة جماعة المسلمین)

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص امیر کی اطاعت سے نکلا اور مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوا پھر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اور جو شخص کسی اندھا دھند نشان کے تحت لڑائی کرتا ہے۔ عصبیت کے لئے غصّہ دلاتا، عصبیت کے لئے پکارتا یا عصبیت کی مدد کرتا ہے سو مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔

اس حدیث سے ضمناً یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ حضرت سعد بن عبادہ یا بنو ہاشم، جنہوں نے حضرت ابو بکرؓ کی سقیفہ بنی ساعدہ میں بیعت نہیں کی تھی، کی لغزش قابل مواخذہ نہیں۔ کیونکہ حکومت وقت کے وقت ان کی کوئی کاروائی ثابت نہیں۔ البتہ ایسی روایات ضرور ملتی ہیں جن سے ان کی اخوت اور اتحاد کا ثبوت ملتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل روایت سے واضح ہے:

''جب حضرت ابو بکرؓ کی خلافت منعقد ہو گئی تو حضرت ابو سفیانؓ کو بھی یہ عصبیت ہی کی بنا پر ناگوار محسوس ہوئی۔ انہوں نے حضرت علیؓ سے جا کر کہا۔

قریش کے سب سے چھوٹے قبیلے کا آدمی کیسے خلیفہ بن گیا۔ تم اُٹھنے کے لئے تیار ہو تو میں وادی کو سواروں اور پیادوں سے بھردوں'' مگر علیؓ نے یہ جواب دے کر ان کا منہ بند کر دیا کہ تمہاری یہ بات اسلام اور اہلِ اسلام کی دشمنی پر دلالت کرتی ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ تم سوار اور پیادے لاؤ۔ مسلمان سب ایک دوسرے کے خیر خواہ اور ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ خواہ ان کے دیار اور اجسام ایک دوسرے سے کتنے ہی دور ہوں۔ البتہ منافقین ایک دوسرے کی کاٹ کرنے والے ہوتے ہیں۔ ہم ابو بکرؓ کو اس منصب کا اہل سمجھتے ہیں۔ اگر وہ اہل نہ ہوتے تو ہم لوگ کبھی انہیں اس منصب پر مامور نہ ہونے دیتے۔'' (کنز العمال ج ۵ ص ۲۳۷۴، طبری جلد ۲ ص ۴۴۹)

اگر کثرت آراء اور سواد اعظم ایک ہی بات ہے تو حضرت ابو بکرؓ نے مانعین زکوٰۃ سے جنگ کرنے کے سلسلہ میں جو شوریٰ منعقد کی تھی۔ اس میں آپ نے اس پورے سواد اعظم کی مخالفت کیوں کی تھی؟ ان کے متعلق کیا خیال ہے؟

یہاں بھی یہ لوگ فریب کاری سے باز نہیں آتے۔ کہہ دیا جاتا ہے کہ ''مانعین زکوٰۃ'' سے جنگ کرنا شریعت کا حکم تھا اور لشکر اسامہ کو خود حضور ﷺ اپنی زندگی میں ترتیب دے چکے تھے لہٰذا اس کا بھی خلاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر مانعین زکوٰۃ سے جنگ کرنا شریعت کا واضح حکم تھا تو شوریٰ بلانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟

اور حقیقت یہ ہے کہ اختلاف اس بات میں نہ تھا کہ مانعین زکوٰۃ سے جنگ کی جائے یا نہ کی جائے؟ بلکہ اختلاف یہ تھا کہ ایسے ہنگامی حالات میں فوری طور پر یہ اقدام کرنا چاہئے۔ یا ابھی کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دینا چاہئے؟'' (جیسا کہ یہ واقعہ تفصیل سے ہم ذکر آئے ہیں لیکن اصل حقیقت کو یار لوگ اس لئے گول کر جاتے ہیں کہ اس سے کثرت لوائے کی حجیت پر کاری ضرب پڑتی ہے۔

پھر کچھ ایسے واقعات بھی پیش کئے جاتے ہیں جہاں کثرت رائے کے مطابق فیصلہ ہوا۔ مثلاً:

جنگ اُحد کے موقع پر مقابلہ شہر سے باہر نکل کر کرنا یا حضرت عمرؓ کا جنگ نہاوند کے موقع پر کثرت رائے کا احترام کرتے ہوئے فوج کی کمان خود سنبھالنے کا ارادہ ترک کرنا وغیرہ وغیرہ۔

جنگ احد میں جس ''اکثریت'' (اگر فی الواقعہ اکثریت تھی) نے باہر نکل کر لڑنے کی رائے دی۔ لیکن آپ نے اس ''اکثریت'' کی رائے کو رد کر دیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ امیر چاہے تو اکثریت کی رائے قبول کر لے۔ ورنہ وہ کثرت آراء کے سامنے کھلونا نہیں ہے۔

اور جنگ نہاوند میں حضرت عمرؓ نے اکثریت کی رائے کا احترام کرتے ہوئے فوج کی کمان سنبھالنے کا ارادہ تو کیا تھا۔ لیکن یہ ارادہ ترک تو صرف چند اہل شوریٰ کے رائے کے مطابق کیا۔ یہاں کثرت رائے کا کوئی قصہ ہی نہیں ہے۔

تیسری دلیل:

ہمارے بعض دوست اکثر شکایت کرتے ہیں کہ عوام کی اکثریت کو خواہ مخواہ بدنام کیا جاتا ہے۔ عوام کی اکثریت نے جب بھی کوئی فیصلہ کیا، ٹھیک اور درست ہی کیا۔ اور اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان بننے سے متعلق، یا تحرتک ختم نبوت یا تحریک نظام مصطفےٰ کے متعلق عوام کی اکثریت صحیح فیصلہ کرتی رہی: لہٰذا یہ کہنا کہ عوام کالانعام کو ریاست و سیاست کا شعور نہیں ہوتا۔ غلط نظریہ ہے۔

عوام کے فیصلہ اور شعور کی درستی یا نادرستی کی بات کا فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں بہرحال یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہمارے عوام کو اسلام سے والہانہ عقیدت ہے۔ جو مثالیں اوپر پیش کی گئی ہیں۔ ان سب میں یہی جذبہ کار فرما تھا۔ عوام کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ پاکستان بن گیا تو وہاں اسلامی نظام خلافت رائج ہو گا۔ یہی صورت تحرک ختم نبوت اور تحریک نفاذ نظامِ مصطفیٰ کی تھی۔

دوسری حقیقت یہ ہے کہ عوام بے چارے فی الواقعہ سادہ لوح ہوتے ہیں۔ ہمارا عیار سیاستدان ہمیشہ ان کو فریب اور چکمہ دے کر اپنا مطلب حل کرتا رہا ہے۔ مثلاً تحریک نظامِ مصطفےٰ کے دوران سیاستدانوں نے مل کر قومی اتحاد قائم کیا اور اسی اسلام کے نام پر عوام کو خطرناک قسم کا دھوکا دیا یعنی انہیں یقین دلایا کہ یہاں نظام مصطفےٰ قائم کیا جائے گا۔ سادہ لوح عوام ان کے بھرے میں آگئے۔ زبردست تحریک چلی۔ عوام نے قربانیاں پیش کیں۔ یہاں تک کہ تحریک کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی سے ہم کنار کر دیا۔

مگر ہمارے عیار سیاستدانوں کا اصل مقصد وزیر اعظم بھٹو کو اقتدار سے الگ کرنا اور نئے انتخابات کا انعقاد تھا۔ جب یہ مقصد حل ہو گیا تو ایک ممتاز سیاست دان کا بیان اخبارات میں شائع ہوا کہ اس اتحاد کا مقصد محض بھٹو کو راستہ سے ہٹانا تھا اور وہ حاصل ہو چکا ہے۔ اسلامی نظام کی ترویج ہمارے پروگرام میں شامل نہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے وہ اتحاد سے نکلے بعد میں باری باری دوسرے بھی رخصت ہونے لگے۔ یہ تو اللہ کی مہربانی تھی کہ اس نے ایک ایسا بندہ بروقت بھیج کر پاکستان کی مدد فرمائی جو اسلام کا شیدائی تھا۔ ورنہ ان سیاست دانوں نے تو قوم سے بد ترین قسم کی غدّاری کی۔

اور حقیقت یہی ہے کہ عوامی رائے کو سنوارنے یا بگاڑنے، جمع کرنے یا منتشر کرنے میں ہمیشہ سیاستدانوں کا ہاتھ ہی کام کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ عوام کی رائے سے فائدہ اُٹھانے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔

مشورہ کا مقام، مختلف نظاموں میں

اب ہم یہ دیکھیں گے کہ مختلف نظام ہائے حکمرانی میں مشورہ کا مقام کیا ہے؟ ملوکیت کو عموماً استبدادی (خود رائے یا خود سر) حکومت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ چنگیز اور ہلاکو جیسے آمر بھی مشورہ کیا کرتے تھے۔ قرآنِ مجید میں ایسے مشوروں کا بھی ذکر موجود ہے۔

﴿قالَت يـٰأَيُّهَا المَلَؤُا أَفتونى فى أَمر‌ى ما كُنتُ قاطِعَةً أَمرً‌ا حَتّىٰ تَشهَدونِ...قالوا نَحنُ أُولوا قُوَّةٍ وَأُولوا بَأسٍ شَديدٍ وَالأَمرُ‌ إِلَيكِ فَانظُر‌ى ماذا تَأمُر‌ينَ...٣٢...٣٣﴾النمل
ملکہ سبا بلقیس کہنے لگی۔ اے درباریو! میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو۔ جب تک تم حاضر نہ ہو اور صلاح نہ دو میں کسی کام کو فیصلہ کرنے والی نہیں۔ وہ بولے (اگر جنگ کا خیال ہے تو) ہم بہت زور آور اور سخت جنگجو ہیں۔ لیکن حکم آپ کے اختیار میں ہے۔ سو جو حکم دیں اس پر نظر کر لیجیے گا۔ حتّٰی کہ فرعون جیسا ڈکٹیٹر بھی اپنے درباریوں سے مشورہ کیا کرتا تھا۔ بموجب ارشادِ باری تعالیٰ:

﴿وَجاءَ رَ‌جُلٌ مِن أَقصَا المَدينَةِ يَسعىٰ قالَ يـٰموسىٰ إِنَّ المَلَأَ يَأتَمِر‌ونَ بِكَ لِيَقتُلوكَ فَاخرُ‌ج إِنّى لَكَ مِنَ النّـٰصِحينَ ﴿٢٠﴾القصص
اور شہر کی پرلی طرف سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا: اے موسی! (فرعون کے) درباری تمہارے قتل کے متعلق مشورہ کر رہے ہیں۔ تم یہاں سے نکل جاؤ۔ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔

نظامِ خلافت میں بھی مشورہ کا حکم ہے اور جمہوریت بھی اصولِ حکومت مشورہ کی علمبردار ہے۔ اب ہمیں معلوم کرنا چاہئے کہ ان میں فرق کیا ہے:۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف صرف دو باتوں میں ہے۔

1. مشیر کون اور کیسے لوگ ہیں۔

2. مشورہ کا فیصلہ کیونکر طے پاتا ہے۔

ملوکیت میں مشورہ نہایت محدود سطح پر ہوتا ہے۔ اگر اس مشورہ کا تعلق ولیعہدی سے ہو تو شاہی خاندان کے قریبی افراد سے مشورہ لیا جاتا ہے اور اگر انتظامی امور سے ہو تو اہل سرکار و دربار سے۔ مشورہ کے بعد اس کا فیصلہ قطعی طور پر بادشاہ کے اختیار میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ آیت نمبر ۱ سے ظاہر ہے۔

جمہوریت میں ریاست کو ہر بالغ شہری کو حتّٰی کہ عورتوں کو بھی مشورہ میں شمولیت کا حق دار سمجھا جاتا ہے۔ انتظامی سہولت کی خاطر پہلے نمائندوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ پھر یہ لوگ صدر مملکت کا بھی انتخاب کرتے اور مشورہ سے دوسرے قوانین بھی بناتے ہیں اس میں مشورہ کے دائرہ کو تاحد الامکان وسیع کر دیا گیا ہے۔ پھر ہر شخص کی رائے کو ہم وزن قرار دیا جاتا ہے خواہ وہ مشورہ طلب امر کو سمجھ بھی نہ سکتا ہو اور فیصلہ کی بنیاد کثرت رائے ہے۔ مشیر کی اہلیت اور تجربہ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مشیر کا کسی خاندان، مذہب یا نسل سے متعلق ہونا ضروری نہیں۔

خلافت میں اعتدال کی راہ اختیار کی گئی ہے۔ صرف ان لوگوں سے مشورہ لیا جاتا ہے جو معاملہ کو سمجھتے اور مشورہ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر مشورہ دینا ''حق'' نہیں بلکہ ایک ذمہ داری اور بوجھ ہے جو مشیر کے سر پر پڑتا ہے کہ وہ سمجھ سوچ کر نہایت دیانتداری اور خیر خواہی سے مشورہ دے۔ ورنہ وہ عند اللہ مسئول ہوگا۔ مشورہ طلب امر میں فیصلہ کے لئے دلیل کی تلاش ہوتی ہے۔ اگر فرد واحد بھی دلیل پیش کر دے تو ساری شوریٰ کو سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ اگر دلیل نہ ہو یا دونوں طرف برابر وزن کے دلائل ہوں تو فیصلہ کثرت رائے سے ہو گا۔ دلائل کو پرکھنے اور آخری فیصلہ کا اختیار امیر کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ شوریٰ کے ممبر کا کسی خاندان یا نسل سے متعلق ہونا ضروری نہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ مسلمان ہی ہو۔ متقی اور صاحب فہم و بصیرت ہونا اس کے لئے ضروری ہوتا ہے۔

جمہوریت نوازوں کے مطابق خلافت و جمہوریت میں ''مشورہ'' قدر مشترک تو ضرور ہے لیکن مندرجہ بالا دو باتیں موجودہ جمہوریت اور اسلامی جمہوریت میں ایک واضح خط امتیاز کھینچ دیتی ہیں۔

کثرت رائے کے معیار حق ہونے کے نقصانات:

اب تک تو ہم ان اعتراضات کا جائزہ لے رہے تھے جو جمہوریت پرست میر مجلس کے فیصلہ پر مختار ہونے پر کرتے ہیں۔ اب ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کثرت رائے کا اصول۔ جس پر یہ لوگ اس قدر فریفتہ ہیں۔ فی نفسہٖ کیا اور کیسا ہے؟

کثرت رائے کو معیارِ حق قرار دینا ایک ایسی اصولی غلطی ہے جو لاتعداد غلطیوں اور بے شمار جرائم کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ الیکشن کے ایام میں جو طوفان بدتمیزی بپا ہوتا ہے وہ صرف اس لئے ہوتا ہے کہ ہر نمائندہ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کر سکے۔ اب اس کوشش میں جو بھی جائز اور ناجائز حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جس طرح فریق ثانی کو ذات پر سوقیانہ حملے کیے جاتے ہیں۔ کنویسنگ اور جلسے جلوسوں پر جس بے دردی سے سرمایہ برباد ہوتا ہے۔ پھر انتخابی مہم انسان کے اخلاق پر کس قسم کے ناپاک اثرات چھوڑتی ہے۔ اس کی تفصیل ہم کسی دوسری جگہ درج کر چکے ہیں۔ کہیں ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے، کہیں تعلقات کے دباؤ، کہیں غنڈہ گردی اور دھمکیوں سے، کہیں پولیس کے تعاون اور ہنگاموں سے ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں اور بالآخر کامیابی سے وہ صاحب ہمکنار ہوتے ہیں جنہوں نے پیشہ بے دریغ خرچ کیا ہو۔ یا پھر کوئی ایسا بڑا بدمعاش اس معرکہ میں کامیاب ہوتا ہے جس کو ووٹ نہ دینے کی صورت میں تعلقات بگڑنے کی صورت میں لوگ اس سے مرعوب اور دہشت زدہ ہوں اور جو صاحب ہمہ صفت موصوف ہوں یعنی سرمایہ دار بھی ہوں اور عیار بھی تو ان کی کامیابی پر شک نہ کرنا چاہئے۔

یہ کچھ تو الیکشن کے دوران ہوتا ہے۔ الیکشن ختم ہو جاتا ہے لیکن اس کے باقیات الصالحات باہمی خانہ جنگیاں، عداوتیں، بعض و عناد وغیرہ ابھی دلوں میں باقی ہوتے ہیں کہ دوسرے الیکشن کی آمد آمد ہو جاتی ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ کبھی ختم ہونے میں نہیں آتا۔

موجودہ اور مروجہ جمہوریت میں کامیابی ہونے والے ممبروں کے تفصیلی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس جمہوری حکومت کا خود سرا میر یا تو روپیہ نکلے گا۔ یا جبر و استبداد اور مکر و فریب۔ کیونکہ جب کثرت رائے کا پردہ فاش ہوتا ہے۔ تو اس کی تہ میں یہی چیزیں کار فرما نظر آتی ہیں۔

یہ کچھ تو اسمبلیوں سے باہر ہوتا ہے۔ اب اسمبلیوں میں پھر جماعتوں کو اسی ''کثرت رائے'' کی ضرورت پیش آتی ہے تو آپس میں جوڑ توڑ اور گٹھ جوڑ کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ اور کوئی مشورہ یا بحث شروع ہو تو بسا اوقات لڑائی جھگڑے یا ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اجلاس ہنگامی آرائی کی وجہ سے ملتوی کر دیئے جاتے ہیں۔

پھر یہ نمائندے ووٹوں کی کثرت کی بنا پر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔ عموماً خود غرض، ہوا پرست اور نااہل قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ جو لوگوں کے جان و مال کے مالک بن بیٹھتے ہیں جن کی نیت اور ہمت ابتدا ہی سے اس کے سوا کچھ نہیں ہوتی کہ انہیں حکومت کی کرسی مل جائے۔ پھر مخلوقِ خدا آرام سے رہے یا تباہ ہو۔ ان کی بلا سے۔ اور جب کوئی معاملہ زیرِ بحث آتا ہے۔ تو ان میں سے اکثر کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کس معاملہ کے متعلق رائے طلب کی جا رہی ہے۔ بس ان کا کام صرف اتنا ہوتا ہے۔ جس طرف زیادہ ہاتھ اُٹھتے نظر آئے ادھر ہی اپنے بھی کھڑے کر دیئے۔ یا پھر اپنی پارٹی کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس رائے دہی میں پارٹی کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔

ان تمام تر خرابیوں کی ذمہ داری صرف کثرت رائے کو معیارِ حق قرار دینے پر ہے۔ اگر اختلاف رائے کے وقت فیصلہ امیر مجلس کے سپرد ہو تو ان میں سے اکثر مفاسد کی جڑ کٹ جاتی ہے۔


 

حوالہ جات

[1] یہ خالص جمہوری ذہن کی عکاسی ہے۔ اہلِ شوریٰ کے ذہن اس سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔

[1] بیہقی، السنن کبریٰ ج۱ ص ۱۳۶۔ دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن۔ طبع اول ۱۳۵۵؁ھ