چند مشہور مجالس مشاورت

1. بدر کے قیدیوں کے متعلق آنحضرت ﷺ کا صحابہ سے مشورہ

جنگ بدر میں قریش کے ستر بڑے بڑے آدمی گرفتار ہو کر دربار نبوت میں پیش کیے گئے تو آپ نے حسبِ عادت مجلس شوریٰ طلب کی اور یہ مسئلہ زیرِ بحث آیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔

یہ واقعہ مختصراً صحیح مسلم (کتاب الجهاد۔ باب إباحة الغنائم) میں بروایت حضرت عمرؓ بن الخطاب یوں مذکور ہے:

فلما أسروا الأساری قال رسول اللّٰه ﷺ لأبي بکر وعمر ''ما ترون في ھٰؤلاءا لأ ساریٰ؟ فقال أبو بکرؓ: یا نبي اللّٰه ھم بنو عمّ والعشیرة اَرٰی أن تاخذ منھم فدیة فتکون لناقوة علی الکفار فعسی اللّٰه أن یھدیھم للإسلام۔'' فقال رسول اللّٰه ﷺ ''ما تری یا ابن الخطاب!'' قال: ''قلت لا واللّٰه یا رسول اللّٰه ما اَرٰی رأي أبي بکرولٰکني أرٰی أن تَمکَّنَّا فنضرب أعنقاھم فیَمَکَّنَّ علیًا من عقیل فیضرب عنقه وتمکّنّي من فلان نسبیًّا لعمر فأضرب عنقه فإن ھؤلاء أئمة الکفر وصنادیدھا'' فَھَوِيَ رسول اللّٰه ﷺ ما قال أبو بکر ولم یَھْوَ ما قلتُ۔

فلما کان عن الغد جِئْتُ فإذا رسول اللّٰه ﷺ وأبو بکر قاعِدَیْن وھما یبکیان۔ قلت ''یا رسول اللّٰه أخبرني من أي شیءٍ تبکي أنت وصاحبك، فإن وجدت بکاءً بکیتُ وإن لم أجد بکاءً فباکیت لبکائکما۔'' فقال رسول اللّٰه ﷺ أبکی الذي عرض علی أصحابك من أخذھم الفداء لقد عرض علي عذابھم أدنٰی من ھذه الشجرۃ شجرة قریبة من نبي ﷺ فأنزل اللّٰه عزوجل:

مَا یَکُوْنُ لِنَبِیٍّ اَنْ یَکُوْنَ لَه اَسْریٰ حَتّٰی یَتْخَذَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَة وَاللّٰه عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ لَو لَا کِتٰبٌ مِّنَ الله سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ (۸/۶۷-۶۸)

ترجمہ: جب قیدی گرفتار کر لیے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ سے پوچھا۔ ان قیدیوں کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت ابو بکرؓ نے کہا:-

اے اللہ کے نبی! یہ ہمارے خویش و اقارب اور بھائی بند ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ:-

1. قرابتداری کا لحاظ رکھتے ہوئے انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔

2. اس رقم کو ہم جہاد اور دوسرے دینی امور میں لا کر قوت حاصل کر سکتے ہیں۔

3. یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی اولاد کو اللہ تعالیٰ اسلام کی توفیق عطا کرے۔

پھر حضور اکرم ﷺ نے حضرت عمرؓ سے ان کے بارے میں رائے پوچھی۔ انہوں نے کہا۔ اے اللہ کے رسولؐ میری رائے قطعاً ابو بکرؓ کے مطابق نہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ ان کو تہ تیغ کیا جائے (یہی نہیں بلکہ ہر ایک اپنے قریبی رشتہ دار کو قتل کرے) علی عقیل کی گردن اڑائیں اور میں اپنے فلاں رشتہ دار کی اڑاؤں گا۔ کیونکہ یہ لوگ کفر کے امام اور مشرکین کے سردار ہیں۔''

حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ابو بکرؓ کی رائے پسند کی اور میری رائے کو پسند نہ کیا۔

پھر جب میں دوسرے دن آیا تو حضور اکرم ﷺ اور ابو بکرؓ کھڑے رو رہے تھے۔ میں نے کہا! یا رسول اللہ! مجھے بتلائیے آپ ﷺ اور آپ کا ساتھی کیوں روتے ہیں۔ ایسی ہی بات ہے تو مجھے بھی رونا چاہئے۔ ورنہ میں آپ دونوں کو روتا دیکھ کر رونا شروع کر دوں گا۔''

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا۔ ہمیں اس بات نے رلایا ہے جو فدیہ لینے کی وجہ سے تیرے ساتھیوں پر پیش کی گئی۔ مجھ پر مسلمانوں کے لئے عذاب اس درخت سے بھی قریب پیش کیا گیا ہے۔ یہ درخت حضور اکرم ﷺ کے پاس ہی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی ہیں۔

نبی کو شایان نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی آئیں اور وہ انہیں تہ تیغ نہ کر دے۔ تم دنیا کے مال کے طالب ہو اور اللہ آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ اگر خدا کا حکم پہلے نہ ہو چکا ہوتا تو جو (فدیہ) تم نے لیا ہے۔ اس کے بدلے تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔

اتنی بات پر تو تمام روایاتِ حدیث متفق ہیں کہ اس بارہ میں مختلف آرا پیش کی گئیں مگر یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس مجلس کے کل ارکان کتنے تھے۔ صرف پانچ صحابہؓ کی موجودگی کا علم ہو سکا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت سعد بن معاذؓ۔

تاہم اصل اختلاف حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کی آراء میں تھا۔ حضرت سعد بن معاذ حضرت عمرؓ کے ہم رائے تھے۔ اور عبد اللہ بن رواحہ کی رائے حضرت عمرؓ سے بھی سخت تر تھی۔ آپ نے کہا: ''یا رسول اللہ! میرے رائے تو یہ ہے کہ ان سب کو کسی ایسی وادی میں داخل کیا جائے جہاں سوختہ زیادہ ہو اور پھر اس میں آگ لگا دی جائے۔''

حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا:۔

لَوِ اجْتَمَعَا مَا عصیتکما اگر تم دونوں کسی ایک رائے پر متفق ہو جاتے تو میں اس کے خلاف نہ کرتا (در منثور ج ۳ ص ۲۰۲)

بہرحال آپ یہ مختلف آراء سن کر گھر تشریف لے گئے۔ کوئی کہتا تھا کہ آپ حضرت ابو بکرؓ کی رائے پسند کریں گے اور کوئی کہتا تھا کہ حضرت عمرؓ کی رائے قبول کی جائے گی۔''

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی تحقیق کے مطابق کثرت آراء حضرت ابو بکرؓ کے ساتھ تھی کیونکہ خود حضور اکرم ﷺ بھی اپنی فطری نرمی اور شفقت کی بنا پر حضرت ابو بکرؓ کے ہم خیال تھے۔ اور حاضرینِ مجلس میں بھی اکثر کی رائے یہی تھی۔ گو اِن میں سے بعض کی نظر صرف مالی منفعت تک محدود تھی۔ جیسا کہ قرآن کریم کے الفاظ ''تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا'' سے واضح ہے۔ (حاشیہ آیت مذکورہ ۸/۶۷)

اور مفتی محمد شفیع کی تحقیق کے مطابق کثرت آراء حضرت عمرؓ کے ساتھ تھی کیونکہ جن پانچ اکابر صحابہ کا اوپر ذکر کیا ہے ان میں سے صرف حضرت ابو بکرؓ فدیہ لینے کے حق میں تھے۔ باقی سب حضرت عمرؓ کے ساتھ تھے۔ (اسلام میں مشورہ کی اہمیت ص ۱۶۰) تاہم اس بات پر سب متفق ہیں کہ فیصلہ کثرت و قلت کی بنیاد پر نہیں بلکہ حضور اکرم ﷺ کی صوابدید پر منحصر تھا۔

کچھ دیر بعد آپ گھر سے واپس آئے اور ایک مختصر تقریر فرمائی جس میں فریقین کی دلجوئی کے الفاظ تھے اور فیصلہ بالآخر حضرت ابو بکرؓ کی رائے کے مطابق دے دیا تو اس کے بعد جو وحی نازل ہوئی اس سے ظاہر ہے کہ فدیہ لے کر چھوڑ دینا مسلمانوں کی زبردست اجتہادی غلطی تھی۔

اس واقعہ مشاورت سے مندرجہ ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے:-

1. مشورہ کرتے وقت کثرت رائے کے بجائے مشیر کی اہلیت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا یہ فرمان کہ اگر حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ ہم رائے ہو جاتے (اور باقی خواہ سب صحابی دوسری طرف ہوتے) تو انہیں کی رائے کے مطابق فیصلہ کرتا۔'' اس بات پر واضح دلیل ہے۔

2. مختلف آراء سننے کے بعد حضور اکرم ﷺ گھر تشریف لے گئے تو صحابہؓ نے کسی ایک رائے کی موافقت میں آراء کو شمار کرنے کی بجائے یہی خیال کیا کہ ''دیکھیں حضور اکرم ﷺ حضرت ابو بکرؓ کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں یا حضرت عمرؓ کی رائے کو'' سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ فیصلہ کثرت آراء کی بجائے امیر کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ حضرت عمرؓ کی رائے کے موافق ہوا۔ تو یہ محض وقتی مصلحت کا تقاضا تھا کیونکہ بالآخر شرعی حکم وہی قرار پایا جو حضرت ابو بکرؓ کی رائے تھی۔ سورۂ محمد جو آلِ عمران سے بعد نازل ہوئی اس میں یہ حکم یوں ہے:-

﴿فَإِذا لَقيتُمُ الَّذينَ كَفَر‌وا فَضَر‌بَ الرِّ‌قابِ حَتّىٰ إِذا أَثخَنتُموهُم فَشُدُّوا الوَثاقَ فَإِمّا مَنًّا بَعدُ وَإِمّا فِداءً...٤﴾محمد
جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو ان کی گردنیں اڑا دو۔ یہاں تک کہ جب ان کو خوب قتل کر چکو (تو جو زندہ پکڑے جائیں ان کو) مضبوطی سے قید کر لو۔ پھر یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے یا مال لے کر۔

3. مشاورت متعلقہ اذان

نماز باجماعت کے لئے اذان کی ابتدا کیونکر ہوئی۔ یہ قصہ بخاری۔ مسلم (باب الاذان) میں مجملاً یوں مذکور ہے:-

عن ابن عمر قال: کان المسلمون حین قدموا المدینة یجتمعون فیتَعَیَّنون للصلوٰة ولیس ینادي بھا أحد۔ فتکلموا یومًا في ذلك: فقال بعضھم: اتخذوا مثل ناقوس النصاریٰ۔'' وقال بعضھم: قرناً مثل قرن الیھود: فقال عمر۔ أولا تبعثون رجلا ینادي بالصلوٰة فقال رسول اللّٰه ﷺ: قم یا بلال فناد بالصلوٰة۔

حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ میں آئے تو جمع ہو کر وقت کا اندازہ کرتے اور ایک وقتِ معین کر دیتے تھے اور ان کا کوئی منادی نہ تھا۔ پس ایک روز اس مسئلہ پر مشورہ کیا۔ بعض نے کہا نصاریٰ کا ساناقوس لے لو۔ بعض نے کہا یہود کا ساقرنا لے لو۔

حضرت عمرؓ نے کہا۔ کوئی آدمی کیوں نہ مقرر کر دو جو نماز کا بلاوا دے آیا کرے۔ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ بلال کھڑے ہو جاؤ اور نماز کی منادی کر دو۔

بعض دوسری احادیث کتب مثلاً ابو داؤد، دارمی،دار قطنی اور ترمذی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پہلی مجلس میں اذان کی صحیح شکل اور کلمات متعین نہیں ہوئے تھے یعنی صرف حی علی الصلوٰۃ کے الفاظ سے منادی کر دی جاتی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن زید بن عبدِ ربہ کہتے ہیں کہ:-

مجھے خواب میں ایک شخص ملا جو ناقوس بیچ رہا تھا۔ میں نے کہا: ناقوس بیچ رہے ہو؟ اس نے کہا: ہاں لیکن تمہیں اس سے کیا غرض؟'' میں نے کہا۔ اس سے لوگوں کو نماز کے لئے بلائیں گے۔'' اس نے کہا میں تجھے اس سے بہتر چیز نہ بتلا دوں؟ میں نے کہا۔ ''ہاں'' تو اس نے کہا: اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر.... آخر تک اذان کے کلمات کہے۔

صبح ہوئی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا خواب بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: ''انشاء اللہ یہ خواب حق ہے۔ تم بلال کے ساتھ کھڑے ہو کر اسے یہ کلمات بتلاؤ اور وہ اذان کہے وہ تجھ سے بلند آواز ہے۔ ''پس میں بلال کے ساتھ ہوا اور انہیں اذان کے کلمات بتلانے لگا اور وہ اذان کہتے رہے۔

جب حضرت عمرؓ نے گھر میں اذان کی آواز سنی تو چادر گھسیٹتے (جلدی میں) گھر سے آئے اور آکر عرض کیا ''یا رسول اللہ میں نے بھی بالکل ایسا ہی خواب دیکھا ہے۔'' تو اس پر آپ ﷺ نے اللہ کا شکر ادا کیا۔''

اس مجلس مشاورت سے مندرجہ ذیل امور میں روشنی پڑتی ہے:۔

1. حضور اکرم ﷺ بعض تشریعی امور میں بھی صحابہؓ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ جب کہ بذریعہ وحی کوئی واضح دلیل موجود نہ تھی۔

2. مختلف آراء سننے کے بعد کسی رائے کا اقرب الی الحق یا رضائے الٰہی ہونا ناپسندیدگی کا معیار تھا۔ مشیروں کی تعداد نہیں گنی جاتی تھی۔

3. کسی رائے کی پسندیدگی امیر کی صوابدید پر منحصر ہے۔

4. مشاورت متعلقہ غزوۂ اُحد

جب ابو سفیان اور مشرکین مکہ تین ہزار کا لشکرِ جرار لے کر مدینہ کے پاس پہنچ گئے۔ تو آپ ﷺ نے اس امر میں صحابہؓ میں مشورہ فرمایا کہ جنگ مدینہ میں رہ کر مدافعانہ طور پر کی جائے یا شہر سے باہر نکل کر کھلے میدان میں مقابلہ کیا جائے؟

حضور اکرم ﷺ کی اپنی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں رہ کر جنگ لڑی جائے۔ وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے دو تین خواب دیکھے تھے۔

1. گزشتہ رات آپ ﷺ نے خواب دیکھا کہ ایک گائے ذبح کی گئی ہے۔

2. آپ ﷺ نے یہ بھی خواب دیکھا تھا کہ آپ کی تلوار کی تھوڑی سی دھار گر گئی ہے۔

3. آپ ﷺ نے یہ بھی دیکھا تھا کہ آپ ﷺ نے ایک زرہ میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔

ان میں سے مذکورہ پہلے دو خواب بخاری کتاب التعبیر میں مذکور ہیں اور پھر یہ تینوں خواب البدایۃ والنہایہ ج ۴ ص ۱۲ پر بھی مذکور ہیں۔ مختصراً یہ کہ ان خوابوں کی تعبیر میں مسلمانوں کی شہادت اور آپ ﷺ کے زخمی ہونے کے اشارات پائے جاتے تھے۔ لہٰذا آپ ﷺ مدینہ میں رہ کر مدافعانہ جنگ لڑنا چاہتے تھے۔ صحابہ کرامؓ میں سے اہل الرائے اور بزرگ بھی آپ کے ہم رائے تھے۔ مسلمانوں کا کل لشکر ایک ہزار پر مشتمل تھا۔ جن میں تین سو افراد عبد اللہ بن اُبی منافق کے ساتھی تھے۔ عبد اللہ بن ابی کی بھی رائے یہی تھی کہ جنگ مدینہ میں رہ کر لڑی جائے لیکن کچھ جوشیلے نوجوانوں کا طبقہ جو بدر میں شامل نہ ہو سکا تھا۔ اس حق میں تھا کہ جنگ کھلے میدان میں لڑی جائے۔ اب اس پس منظر میں حافظ ابن کثیر صاحبِ البدایۃ والنہایہ کی زبان سے اس مشورہ کا حال سنیے:

وقال الذین لم یشھدوا بدرًا ''کنا نتمنِّی ھذا الیوم وندعوا اللّٰہ فقد ساقه اللّٰہ إلینا وقرب السیر، وقال رجل من الأنصار: متی تقاتلھم یا رسول اللّٰه إذاً لم تقاتلیھم عند شعبنا؟ وقال رجال ''ما ذا تمنع إذا لم تمنع الحرب بروع؟ وقال رجال صدقوا وامضُوا علیه منھم حمزة بن عبد المطلب قال: والذي أنزل علیك الکتاب لنجَادلنّھم۔ وقال نعیم بن مالك بن ثعلبه وھو أحد بني سالم: یا نبي اللّٰہ لا تحرمنا الجنة۔ فو الذي نفسي بیدہ لادخلنَّھا۔'' فقال له رسول اللّٰه ﷺ: بِمَ؟ قال: بِاَبِّي أحب اللّٰه ورسوله ولا أخِرُّ یوم الزحف۔'' فقال له رسول اللّٰه ﷺ: صدقَتَ واستشھد یومئذٍ۔ وَأبی کثیرًا من الناس إلا الخروج إلی العدوِّ ولم یتناھوا إلی قول رسول اللّٰه ﷺ ورَایه ولو رضوا بالذي أمرھم کان ذلك ولٰکن غلب القضاء والقدر وعامة من أشار علیه بالخروج رجال لم یشھدوا بدرًا قد علموا الذي سبق لأصحاب بدر من الفضیلة۔

فلما صلی رسول اللّٰہ ﷺ الجمعة وعظ الناس وذکرھم وامرھم بالجھد والجھاد ثم انصرف من خطبته وصلوٰته فدعا بلأمته فلبسھا ثمَّ اَذَّنَ فی الناس بالخروج۔

فلما رأی ذلك رجال من ذوي الرأي قالوا: أمرنا رسول ﷺ أن نمکث بالمدینة وھو أعلم باللّٰه وما یرید ویاتیه الوحي من السماء فقالوا: یا رسول الله مکثنا کما اَمَرْتَنَا'' فقال: ''ما ینبغي لنبي إذا أخذ لأمة الحرب وَأذَّن بالخروج إلی الله وأن یَرْجِعَ حَتّٰی یقاتل وقد دعوتکم إلی ھذا الحدیث فأبیتھم إلی الخروج فعلیکم بتقوی الله والصبر عند البأس إذا لقیتم العدوَّ وانظروا إلی ما أمرکم الله به فافعلوا۔'' (البدایة والنھایه ج ۴ ص ۱۳-۱۲)

اور وہ لوگ جو جنگ بدر میں شریک نہ ہوئے تھے۔ کہنے لگے: ہم آج کے دن کی تمنا کرتے اور اللہ سے دعا مانگتے تھے۔ سو اللہ تعالیٰ اسے ہماری طرف لے آیا اور فاصلہ قریب کر دیا۔ انصار میں ایک شخص نے کہا! یا رسول اللہ! ہم اس وقت ایک مضبوط جماعت ہیں۔ اگر اب ان سے لڑائی نہ کی تو اور کب کریں گے۔

اور کچھ لوگوں نے کہا: کیا ہم لڑائی کے خوف سے رکے رہیں۔

اور کچھ لوگوں نے کہا جن میں حمزہ بن عبد المطلب بھی تھے اور انہوں نے اپنی بات سچ کر دکھلائی اور اسی راستہ پر چلے۔ کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ پر قرآن اتارا ہم ضرور لڑائی کریں گے اور نعیم بن مالک بن ثعلبہ نے جو بنی سالم کے یکتا نوجوان تھے، کہا اے اللہ کے نبی! ہمیں جنت سے محروم نہ کیجیے۔ خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ضرور جنت میں داخل ہوں گا۔'' اس کو رسول اللہ ﷺ نے کہا۔ ''کیسے'' اس نے کہا۔ کیونکہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ میں لڑائی کے دوران فرار کی راہ اختیار نہ کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے کہا: تو نے سچ کہا اور وہ اس دن شہید ہو گیا۔

علاوہ ازیں بہت سے لوگوں نے دشمن کی طرف نکل کر لڑنے کی رائے دی۔ اور رسول اللہ ﷺ کی بات اور رائے کی پرواہ نہ کی۔ اگر وہ اس رائے سے راضی ہو جاتے تو ایسا ہی ہوتا۔ لیکن اللہ کی تقدیر غالب ہوئی اور وہ لوگ جو بدر میں شریک نہ ہو سکے اور انہیں اس کی فضیلت معلوم ہوئی تو باہر نکل کر لڑنے کی طرف ہی اشارہ کرتے تھے۔

پھر جب حضور اکرم ﷺ نے جمعہ کی نماز پڑھائی تو لوگوں کو وعظ فرمایا۔ انہیں نصیحت کی اور کوشش اور جہاد کا حکم دیا پھر خطبہ اور نماز سے فارغ ہو کر گھر چلے گئے پھر لڑائی کے ہتھیار منگوائے انہیں زیبِ تن کیا اور باہر نکلنے کا اعلان کر دیا۔

جب لوگوں نے یہ صورتِ حال دیکھی تو کچھ اہل الرائے ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ ہمیں حضور اکرم ﷺ نے مدینہ میں ٹھہرنے کا حکم دیا اور جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہ اسے خوب جانتے تھے اور ان پر آسمان سے وحی آتی ہے تو کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مدینہ میں ہی ٹھہریے جیسے آپ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے۔'' تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

نبی کو یہ لائق نہیں کہ اسلحہ جنگ زیبِ تن کرے اور دشمن کی طرف نکلنے کا اعلان کرے تو اس سے لڑے بغیر واپس ہو۔ میں نے تمہیں یہی بات کہی تھی تو تم نے اسے تسلیم نہ کیا اور باہر نکل کر لڑنے پر اصرار کیا۔ اب تم پر لازم ہے کہ اللہ سے ڈرو اور جب دشمن سے مقابلہ ہو تو جنگ میں ثابت قدم رہو اور اس بات کا خیال رکھو کہ جیسے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ اسی طرح کرو۔

اس مشاورت سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں:

1. حضور اکرم ﷺ نے ان جوشیلے نوجوانوں کی رائے پر فیصلہ فرمایا جو جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے اور جہاد کی انتہائی آرزو رکھتے تھے تو محض یہ ان کی دلجوئی کی خاطر فیصلہ کیا گیا تھا۔

2. کل لشکر کی تعداد ایک ہزار تھی۔ جس میں ۳۰۰ عبد اللہ بن ابی کے ساتھی بھی حضور ﷺ کے ہم رائے تھے۔ اور وہ بزرگ صحابہ جو جنگِ بدر میں پچھلے ہی سال شریک ہوئے وہ بھی آپ کے ہم رائے تھے۔ ان کی تعداد ۳۰۰ کے لگ بھگ تھی۔ لہٰذا من حیث المجموع ان نوجوانوں کی اکثریت ثابت نہیں ہوتی اور متن میں جو کثیرًا من الناس کے الفاظ آئے ہیں تو اس سے مراد سو یا دو سو بھی ہو سکتے ہیں۔ اتنے لوگوں پر بھی یہی لفظ استعمال ہو گا۔

3. اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ وہ فی الواقعہ کثرت میں تھے۔ تو انہی لوگوں نے جنگ سے پہلے ہی اپنے ارادہ کو بدل کر معذرت پیش کی لیکن ﷺ نے اس ''کثرت'' کی بات تسلیم نہیں کی۔

نتیجہ واضح ہے کہ فیصلہ امیر کی صوابدید پر ہوتا ہے۔ وہ اکثریت کے ہاتھوں میں کھلونا نہیں ہوتا۔

4. مانعینِ زکوٰۃ سے متعلق حضرت ابو بکرؓ کا مشورہ

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کہت ہیں کہ جب حضور اکرم ﷺ کی وفات ہو گئی تو مدینہ میں نفاق پھیل گیا۔ عرب قبائل مرتد ہونے لگے۔ کچھ قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔ ادھر جیش اسامہ کی روانگی کا مسئلہ بھی سامنے تھا۔ جس کو خود حضور اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں ترتیب دیا تھا۔ ان حالات کے پیش نظر حضرت ابو بکرؓ نے پہلے جیش اسامہ کی روانگی کے متعلق مشورہ کیا تو ان نازک حالات میں شوری فوری طور پر لشکر کی روانگی کے خلاف تھی لیکن حضرت ابو بکرؓ نے اپنا دو ٹوک فیصلہ ان الفاظ میں فرمایا:

والذي نفس أبي بکر بیدہ، لو ظننت أن السبّاع تخطفني لأنقذت بعث أسامة کما أمر به رسول اللّٰہ ﷺ، ولو لم یبق في القریٰ غیر لَاأنْقَذْتُهُ۔ (طبری جلد ۳ ص ۲۲۵)

اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ ابو بکرؓ کی جان ہے۔ اگر مجھے یہ یقین ہو کہ درندے آکر مجھے اُٹھالے جائیں گے تو بھی میں اسامہ کا لشکر ضرور بھیجوں گا۔ جیسا کہ حضوراکرم ﷺ نے حکم دیا تھا۔ اور اگر ان آبادیوں میں میرے سوا کوئی شخص بھی باقی نہ رہے تو بھی میں یہ لشکر ضرور روانہ کروں گا۔

چنانچہ یہ لشکر بھیجا گیاجو چالیس دن کے دن ظفر یاب ہو کر واپس آگیا۔ اب مانعین زکوٰۃ کے متعلق حضرت ابو بکرؓ نے مہاجرین و انصار کو جمع کیا اور فرمایا:-

''آپ کو معلوم ہے کہ عرب نے زکوٰۃ ادا کرنی چھوڑ دی اور وہ دین سے مرتد ہو گئے اور عجم نے تمہارے لئے نہادند تیار کر رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان جس شخص کی وجہ سے ہمیشہ فتحیاب ہوتے تھے وہ تو گزر چکا۔ اب موقع ہے کہ مسلمانوں کو مٹا دیا جائے۔ آپ مجھے مشورہ دیں کہ اس حالت میں کیا کرنا چاہئے۔ کیونکہ میں بھی تمہیں میں سے ایک شخص ہوں اور مجھ پر تمہاری نسبت اس مصیبت کا بوجھ زیادہ ہے۔''

اس تقریر سے مجمع پر سکتہ طاری ہو گیا۔ طویل خاموشی کے بعد حضرت عمرؓ نے فرمایا:-

''اے خلیفہ رسولؐ! میری رائے تو یہ ہے کہ آپ اس وقت عرب سے نماز ادا کرنے ہی کو غنیمت سمجھیں اور زکوٰۃ چھوڑنے پرمواخذہ نہ کریں۔ یہ لوگ ابھی ابھی اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ تمام اسلامی فرائض و احکام کو تسلیم کر کے سچے مسلمان بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اسلام کو قوت دے دے گا تو ہم ان کے مقابلہ پر قادر ہو جائیں گے لیکن اس وقت کو مہاجرین اور انصار میں تمام عرب و عجم کے مقابلہ کی سکت نہیں۔''

حضرت عمرؓ کی رائے سننے کے بعد حضرت ابو بکرؓ حضرت عثمانؓ کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے بھی حرف بحرف حضرت عمرؓ کی رائے کی تائید کی۔ پھر حضرت علیؓ نے بھی اسی کی تائید کی۔ ان کے بعد تمام انصار و مہاجرین اسی رائے کی تائید میں یک زبان ہو گئے۔

یہ سن کر حضرت ابو بکرؓ منبر پر چڑھے اور فرمایا:

والله لا أبرح أقوم بأمر الله وأجاھد في سبیل الله حتّٰی ینجز الله تعالٰی ویَفِیَ لنا عھدہ فیقتل من قتل منا شھیدا في الجنة ویبقی من بقی خلیفة الله في أرضه و وارث عبادہ الحق فإن الله قال ولیس لقومه خلف ''وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لِیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِیْ الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلِفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ۔'' واللّٰہ لو منعوني عقالًا کانوا یعطون رسول الله ﷺ ثم أقبل معھم الشجر والعَدَرُ والجِنُّ والإنس لجاھدتھم حتّٰی تلحقَ روحي بالله إن الله لم یفرق بین الصلوٰة والزکوٰة ثم جمعھما (کنز جلد ۳ ص ۱۴۲)

ترجمہ: خدا کی قسم! میں برابر امر الٰہی پر قائم رہوں گا اور خدا کی راہ میں جہاد کروں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرما دے اور ہم میں سے جو قتل ہو وہ شہید ہو کر جنت میں جائے اور جو زندہ رہے وہ خدا کی زمین میں اس کا خلیفہ اور اس کے بندوں کا وارث ہو کر رہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور اس کا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہوتا کہ ''اللہ تعالیٰ نے نیک عمل کرنے والے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اِن کو خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا۔ خدا کی قسم! اگر یہ لوگ جو زکوٰۃ حضرت محمد ﷺ کو دیتے تھے اس میں سے ایک رسی بھی روکیں گے تو میں ان سے برابر جہاد کرتا رہوں گا حتّٰی کہ میری روح خدا تعالیٰ سے جا ملے۔ خواہ ان لوگوں کی مدد کے لئے ہر درخت اور پتھر اور جن و انس میرے مقابلہ کے لئے جمع ہو جائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکوٰۃ میں کوئی فرق نہیں فرمایا۔ بلکہ دونوں کو ایک ہی سلسلہ میں ذکر کیا ہے۔

یہ تقریر ختم ہوتے ہی حضرت عمرؓ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور فرمایا ''جس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ابو بکرؓ کا شرح صدر فرمایا میرا بھی اسی طرح پر شرح صدر ہو گیا۔

اسی واقعہ کو امام بخاریؒ نے نہایت اختصار اور تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ یوں بیان فرمایا ہے:

أن أبا ھریرة قال: لما تُوَفِّيَ النبي ﷺ واستخلف أبو بکر و کفر من کفر من الرب قال عمر: یا أبا بکر! کیف تقاتل الناس وقد قاتل رسول الله ﷺ ''أمرت أن أقاتل الناس حتی یقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الله عَصَمَ مِنِّي ما له ونفسه إلا بحقه وحسابه علی الله۔''

قال أبو بکرٍ: والله لَأقاتلَنَّ من فرَّق بین الصلوٰة والزکوٰة فإن الزکوٰة حق المال، والله لو منعوني عناقًا کانوا یؤدونھا إلی رسول الله ﷺ لقاتلھم علی منعھا۔''

قال عمر: فو الله ما ھو إلا أن رأیت أن قد شرح الله صدر أبي بکر للقتال فعرفت أنه لحق (بخاری، کتاب استتابة المرتدین)

ترجمہ: ''حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا: جب آنحضرت ﷺ کا انتقال ہو گیا اور حضرت ابو بکرؓ خلیفہ بن گئے اور عرب کے کچھ لوگ کافر ہو گئے تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکرؓ سے کہا: آپ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: مجھ کو لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک وہ لا الٰہ الا للہ نہ کہیں پھر جس نے لا الٰہ الا اللہ کہہ لیا اس نے اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے بچا لیے الا یہ کہ اس کے لئے کا بدلہ اس کے مال یا جان کا نقصان ہو اور جو اس کے دل میں ہے تو اس کا حساب اللہ پر ہے۔''

حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا۔ ''خدا کی قسم! میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا۔ اس لئے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے (جیسے نماز جسم کا) خدا کی قسم! اگر یہ لوگ مجھے ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیں گے جو آنحضرت ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں اس کی عدم ادائیگی پر ان سے ضرور لڑوں گا۔''

حضرت عمرؓ نے کہا۔ خدا کی قسم! اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ ابو بکرؓ کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ ہوا ہے یہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ڈالا ہے اور میں پہچان گیا کہ حضرت ابو بکرؓ کی رائے حق ہے۔''

چنانچہ حضرت ابو بکرؓ مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کا عزم مصمم کر کے نکل کھڑے ہوئے مقام ذی القصہ تک پہنچ گئے تو حضرت علیؓ نے آگے بڑھ کر گھوڑے کی باگ تھام لی اور فرمایا: ''اے خلیفہ رسولؐ! آج میں آپ سے وہی بات کہتا ہوں جو آپ نے غزوۂ احد کے دن رسول اللہ ﷺ کو کہی تھی۔ یعنی:-

شم سیفك ولا تفجعنا بنفسك فو الله لإن أصبنا بک لا یکون للإسلام بعدك نظاما أبدًا (کنز ج۳۔ ص ۱۴۳)

اپنی تلوار کو میان میں کیجیے اور ہمیں اپنی ہستی سے محروم نہ کیجیے۔ خدا کی قسم اگر آپ کے قتل کی مصیبت ہم پر پڑ گئی تو پھر آپ کے بعد اسلام کا نظام کبھی درست نہ ہو گا۔

حضرت علیؓ کے اصرار پر حضرت ابو بکرؓ خود تو واپس مدینہ تشریف لائے۔ اپنی جگہ حضرت خالد بن ولید کو سپہ سالار بنا کر بھیج دیا اور جہاد کا کام جاری رکھا تا آنکہ مرتد قبائل کو راہِ راست پر نہیں لے آئے۔

مندرجہ بالا واقعات کثرت رائے کے معیار حق ہونے کے ابطال پر دو ٹوک اور قطعی فیصلہ کر دیتے ہیں۔ جہاں خلیفہ وقت تمام شوریٰ کی متفقہ رائے کو ناقابل تسلیم قرار دے کر اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کرتااور اسے نافذ بھی کر دیتا ہے اور شوریٰ نے بھی اعتراف کیا اور واقعات نے بھی ثابت کر دیا کہ واقعۃً اکیلے خلیفہ کی رائے اقرب الی الحق تھی۔

5. مشاورت متعلقہ ''حضرت عمرؓ کا خود سپہ سالار بن کر عراق جانا

(ماخوذ از طبری جلد ۳ صفحہ ۴۸۰ تا ۴۸۲)

حضرت عمرؓ حج بیت اللہ سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ واپس تشریف لائے تو ملک کے ہر حصے سے لوگوں کے گروہ آنا شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام میدان مدینہ آدمیوں سے پُر نظر آنے لگا۔ فاروق اعظمؓ نے حضرت طلحہؓ کو ہرا دل کا سردار مقرر فرمایا۔ زبیر بن العوام کو میمنہ پر اور عبد الرحمٰن بن عوفؓ کو میسرہ پر مقرر فرما کر خود سپہ سالار بن کر اور فوج لے کر روانگی کا عزم فرمایا۔ حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنا قائم مقام بنایا اور فوج لے کر مدینے سے روانہ ہوئے اور چشمہ صرار پر آکر قیام کیا۔ تمام فوج میں لڑائی کے لئے بڑا جوش پیدا ہو گیا تھا۔ کیونکہ خلیفہ وقت خود اس فوج کا سپہ سالار تھا۔

حضرت عثمانؓ نے فاروق اعظم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کا خود عراق کی طرف جانا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔

فاروق اعظمؓ نے تمام سردارانِ فوج اور عام لشکری لوگوں کو ایک جلسہ عظیم میں مخاطب کر کے مشورہ طلب کیا تو کثرت رائے خلیفہ وقت کے ارادے کے موافق ظاہر ہوئی۔ لیکن حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے فرمایا کہ میں اس رائے کو ناپسند کرتا ہوں۔ خلیفہ وقت کا خود مدینہ منورہ سے تشریف لے جانا خطرہ سے خالی نہیں۔ کیونکہ اگر کسی سردار کو جنگ میں ہزیمت حاصل ہو تو خلیفہ وقت بآسانی اس کا تدارک کر سکتے ہیں لیکن خدانخواستہ خود خلیفہ وقت کو میدانِ جنگ میں کوئی چشم زخم پہنچے تو پھر مسلمانوں کے کام کا سنبھلنا دشوار ہو جائے گا۔

یہ سن کر حضرت علیؓ کو مدینہ منورہ سے بلا لیا گیا اور تمام اکابر صحابہ سے مشورہ کیا گیا۔ حضرت علیؓ اور تمام جلیل القدر صحابہؓ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کی رائے کو پسند کیا۔

فاروق اعظمؓ نے دوبارہ اجتماع عام کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ''میں خود تمہارے ساتھ عراق جانے کو تیار تھا لیکن صحابہ کرام کے تمام صاحب الرائے حضرات میرے جانے کو ناپسند کرتے ہیں۔ لہٰذا میں مجبور ہوں۔ اب کوئی دوسرا شخص سپہ سالار بن کر تمہارے ساتھ جائے گا۔

اب صحابہ کرام کی مجلس میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا کہ کس کو سپہ سالار بنا کر عراق بھیجا جائے حضرت علیؓ نے انکار فرمایا۔ حضرت ابو عبیدہؓ اور خالد شام میں مصروف پیکار تھے۔ بالآخر حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے مسعد بن ابی وقاص کا نام پیش کیا۔ سب نے اس کی تائید کی اور حضرت عمرؓ نے بھی پسند فرمایا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ان دنوں صدقات کی وصولی پر مامور تھے۔ چنانچہ انہیں بلا کر سپہ سالار مقرر کیا گیا اور خود حضرت عمرؓ مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے۔''

اس واقعہ مشاورت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف متعدد صاحب الرائے اشخاص کی رائے عوام کی بھاری اکثریت کی رائے سے زیادہ وزنی ہوتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے تمام فوج اور فوج کے سرداروں اور خود اپنی خواہش کے مطابق ایک معاملہ طے کیا۔ لیکن صرف چند اہل الرائے کے مشورہ کو قبول کرتے ہوئے اکثریت کی رائے کو رود کر دیا۔

6. مشاورت عمرؓ۔ طاعون سے متعلق

عن عبد اللّٰہ بن عباس أن عمر بن الخطابِ خرج إلی الشام حتّٰی إذا کان بِسَرَغٍ لقیه أھل الأجناد أبو عبیدة بن الجراح وأصحابُه وأخبروہ أن الوباء قد وقع بالشام۔ قال ابن عباس فقال عمر اُدع لي المھاجرین الأولیجن'' فدعوتھم فاستشارھم وأخبرھم أن الوبا وقع بالشام۔ فاختلفوا۔ فقال بعضھم: قد خرجت لأمرٍ ولا نری أن ترجع عنه۔ وقال بعضھم معك بقیة الناس وأصحاب رسول اللّٰہ ﷺ ولا نریٰ تقدِمَھم علی ھذا الوباء۔ قال ارتفعوا عَنِّي۔

ثم قال: ادع لِي الأنصار۔'' فدعوتھم له فاستشارھم فسلکوا سبیل المھاجرین واختلفوا کاختلافھم فقال ارتفعوا عني۔

ثم قال: ادع لي من کان ھھنا من مشیخة قریش من المھاجرة قبل الفتح۔ فدعوتھم فلم یختلف علیه رجلان۔ فقالوا: نریٰ أن ترجع بالناس فلا تقدمھم علی ھذا الوباء۔

فنادی عمر بالناس أني مصبحٌ علی ظھر فأصبحوا علیه۔''

فقال أبو عبیدة بن الجراح: أفِرارًا من قدر الله؟

فَقَالَ عُمَرُ: لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ - وَكَانَ عُمَرُ يَكْرَهُ خِلَافَهُ - نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللهِ إِلَى قَدَرِ اللهِ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَتْ لَكَ إِبِلٌ فَهَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ، إِحْدَاهُمَا خَصْبَةٌ وَالْأُخْرَى جَدْبَةٌ أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الْخَصْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللهِ، وَإِنْ رَعَيْتَ الْجَدْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللهِ

قَالَ: فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَكَانَ مُتَغَيِّبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي مِنْ هَذَا عِلْمًا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ، فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا، فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ»''

قال: فحمد اللّٰه عمر بن الخطاب ثم انصرف۔

(مسلم۔ کتاب السلام۔ باب الطاعون)

عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ شام کی طرف نکلے اور جب مقام سرغ پر پہنچے تو اسلامی حکام فوج سردار وابو عبیدہ بن جراح (جو اس وقت شام کے گورنر تھے) یہاں آکر ملے اور خبر دی کہ آج کل شام میں وباء (طاعون) پھیلی ہوئی ہے۔ ابنِ عباس کہتے ہیں مجھے حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ''مہاجرین اوّلین کو بلاؤ۔'' میں نے انہیں بلایا تو انہیں شام میں وبا پھیلنے کی اطلاع دی۔ اور اس کے متعلق ان سے مشورہ طلب کیا۔ ان کا آپس میں اختلاف ہوا۔ بعض کہتے تھے کہ ''آپ دینی کام کے لئے نکلے ہیں۔ ہم مناسب نہیں سمجھتے کہ آپ اسے چھوڑ کر واپس جائیں۔ اور بعض کہتے تھے۔ ''آپ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے صحابی اور بہت سے دوسرے لوگ ہیں۔ ہم مناسب نہیں سمجھتے کہ آپ انہیں وبا میں جھونک دیں۔'' حضرت عمرؓ نے فرمایا۔ ''میرے پاس سے اب چلے جاؤ۔''

پھر حضرت عمرؓ نے مجھے کہا۔ ''اب انصار کو بلاؤ۔'' میں انہیں بلا لایا۔ پھر ان سے مشورہ کیا۔ انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح اختلاف کیا۔ آپ نے انہیں بھی یہی کہا کہ ''چلے جاؤ۔''

پھر مجھے کہا۔ اب ان قریشی مہاجرین بزرگوں کو جمع کرو۔ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے ہجرت کی تھی۔'' میں انہیں بلا لایا۔ ان میں سے دو آدمیوں نے بھی اختلاف نہ کیا اور کہنے لگے: ہم یہی مناسب سمجھتے ہیں کہ ''آپ لوگوں کو اس وبا میں نہ جھونکیں۔

اب حضرت عمرؓ نے اعلان کر دیا کہ ''میں علی الصبح واپس مدینہ چلا جاؤں گا۔ اور لوگ بھی واپس لوٹ آئے۔''

یہ اعلان سن کر ابو عبیدہ بن الجراح حضرت عمرؓ سے کہنے لگے: کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں۔''

حضرت عمرؓ کہنے لگے: ''کاش یہ بات ابو عبیدہ کے سوا کوئی اور کہتا'' (کیونکہ حضرت عمرؓ ان کے خلاف بات کو پسند نہ کرتے تھے) ''کہنے لگے۔ ''ہاں! ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔ (پھر فرمایا) بھلا دیکھو تو! اگر آپ اپنے اونٹ کسی وادی میں چرانے کو لے جائیں جس کا ایک حصہ خراب اور قحط زدہ ہو اور دوسرا سبزہ زار تو کیا یہ صحیح نہیں کہ اگر خراب حصہ میں سے چرائیں گے وہ بھی اللہ کی تقدیر کے مطابق ہو گا اور اگر سبزہ زار سے چرائیں گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر کے مطابق۔''

ابن عباس کہتے ہیں کہ اتنے میں عبد الرحمٰن بن عوف آگئے جو اپنے کسی کام کی وجہ سے غیر حاضر تھے۔ کہنے لگے۔ ''مجھے اس کا شرعی حکم معلوم ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ''جب سنو کہ کسی شہر میں طاعون ہے تو وہاں مت جاؤ۔ اور اگر ایسی جگہ طاعون پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہو وہاں سے مت بھاگ نکلو۔''

حضرت عمرؓ نے یہ سن کر اللہ کا شکر ادا کیا اور واپس ہو گئے۔

اس حدیث سے مندرجہ ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے:

1. جن لوگوں سے مشورہ لیا جائے۔ ان کے فرق مراتب کا لحاظ رکھا جائے۔ جو لوگ اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کی رضا جوئی میں پیش پیش ہوں۔ مشورہ کے سب سے زیادہ حقدار وہی لوگ۔ پھر علیٰ قدر مراتب دوسرے لوگ ہوتے ہیں۔

2. مشورہ کے لئے یہ ضروری نہیں کہ سب اصحاب مشورہ ایک ہی مجلس میں اکٹھے ہوں۔ مشورہ علیحدہ علیحدہ بھی لیا جا سکتا ہے۔

3. مشورہ کے بعد رائے شماری یا اکثریت فیصلہ کا کوئی معیار نہیں ہے۔

4. مشورہ کے بعد فیصلہ امیر کی صوابدید پر ہے۔ جب تک حضرت عمرؓ کو دلی اطمینان یا انشراحِ صدر نہیں ہوا آپ مجلسِ شوریٰ بدلتے رہے۔ اگر پہلی ہی پر اطمینان حاصل ہو جاتا تو دوسری یا تیسری مجلس کی ضرورت ہی نہ تھی۔

5. دلی اطمینان کی وجہ یہ نہ تھی کہ تیسری مجلس نے بالاتفاق ایک ہی رائے دی اور اس میں اختلاف نہ ہوا بلکہ یہ تھی کہ ان کا اپنا اجتہاد (یا دلیل) بھی وہی کچھ تھا۔ جو تیسری مجلس نے رائے دی تھی۔ اور اسی دلیل سے آپ نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو بھی مطمئن کیا۔

6. عراق کی مفتوحہ زمینوں کے متعلق

حضرت عمرؓ کی مجلس مشاورت

(یہ واقعہ چونکہ مالیات سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا درج ذیل اقتباسات کتاب الخراج للامام ابو یوسف عنوان متعلقہ میں درج احادیث و روایات سے ماخوذ ہیں)

جب عراق اور شام کو مسلمانوں نے فتح کر لیا اور ان زمینوں پر قبضہ ہو گیا تو امرائے فوج نے اصرار کیا کہ مفتوحہ مقامات ان کے صلہ فتح کے طور پر ان کی جاگیر میں عنایت کیے جائیں۔ اور باشندوں کو ان کی غلامی میں دیا جائے۔ حضرت عمرؓ نے عراق کی فتح کے بعد سعد بن وقاصؓ کو وہاں کی مردم شماری کے لئے بھیجا۔ کل باشندوں اور اہل فوج کی تعداد کا موازنہ کیا گیا تو ایک ایک مسلمان کے حصے میں تین تین آدمی پڑتے تھے۔ اسی وقت حضرت عمرؓ کی یہ رائے قائم ہو چکی تھی کہ زمین باشندوں کے قبضے میں رہنے دی جائے اور ان کو ہر طرح آزاد چھوڑ دیا جائے۔

اکابر صحابہؓ میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف اہل فوج کے ہم زبان تھے۔ اموال غنیمت کے علاوہ زمینوں اور قیدیوں کی تقسیم پر بھی مصر تھے اور حضرت بلالؓ نے تو اس قدر جرح کی کہ حضرت عمرؓ نے دق دکر فرمایا:

اللھم اکفني بلالًا۔

اے خدا مجھ کو بلال سے نجات دے۔

حضرت عمرؓ یہ استدلال پیش کرتے تھے کہ اگر ممالک مفتوحہ فوج میں تقسیم کر دیئے جائیں تو آئندہ افواج کی تیاری، بیرونی حملوں کی مدفعت، ملک کے امن و امان قائم رکھنے کے لئے مصارف کہاں سے آئیں گے اور یہ مصلحت بھی ان کے پیش نظر تھی کہ اگر زمین افواج میں تقسیم کر دی گئی تو وہ جہاد کی طرف سے غافل اور جاگیرداری میں مشغول ہو جائیں گے۔ لہٰذا اموالِ غنیمت تو فوج میں تقسیم کر دینے چاہئیں اور زمین بیت المال کی ملکیت قرار دی جانی چاہئے کیونکہ اتنی کثیر مقدار میں اموال اور زمین اس کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ لگنے کی توقع کم ہی نظر آرہی تھی۔

حضرت عبد الرحمان بن عوف کہتے ہیں کہ جن تلواروں نے ملک کو فتح کیا ہے انہی کو زمین پر قبضے کا بھی حق ہے۔ آئندہ نسلیں اس میں مفت میں کیسے شریک ہو سکتی ہیں؟ لیکن حضرت عمرؓ اس بات پر مصر تھے کہ جب وسائل موجود ہیں تو مملکت اسلامیہ کو ایک فلاحی مملکت بنانا ضروری ہے اور اس میں جملہ مسلمانوں کا خیال رکھنا چاہئے جیسا کہ بخاری کی درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہے:

قال عُمر: لو لا اٰخر المسلمین ما افتتحت قریة إلا قسمتھا بین أھلھا کما قسم النبي ﷺ خیبر۔ (بخاری کتاب الجھاد والسیر۔ باب الغنیمةلمن شھد الوقعة)

ترجمہ: حضرت عمرؓ نے کہا: ''اگر مجھے پچھلے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو میں جو بستی فتح کرتا اسے فتح کرنے والوں میں بانٹ دیتا جیسے آنحضرت ﷺ نے خیبر کو بانٹ دیا تھا۔''

جہاں تک اسلامی مملکت کے استحکام اور جملہ مسلمانوں کی خیر خواہی کا تعلق تھا۔ حضرت عمرؓ کو اپنی رائے کی اصابت کا مکمل یقین تھا لیکن وہ کوئی ایسی نص قطعی پیش نہ کر سکے تھے۔ جس کی بنیاد پر وہ مجاہدین، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف یا حضرت بلال کو قائل کر سکیں۔

چونکہ دونوں طرف دلائل موجود تھے۔ لہٰذا حضرت عمرؓ نے فیصلہ کے لئے مجلس مشاورت طلب کی۔ یہ مجلس دس افراد پر مشتمل تھی۔ پانچ قدماء مہاجرین میں اور پانچ انصار (قبیلہ اوس اور خزرج) میں سے اس مجلس میں شریک ہوئے۔ حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت طلحہؓ نے حضرت عمرؓ کی رائے سے اتفاق کیا۔ تاہم کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ کئی دن تک یہ بحث چلتی رہی۔

حضرت عمرؓ کو دفعۃً قرآن مجید کی ایک آیت یاد آئی جو بحث کو طے کرنے کے لئے نص قاطع تھی۔ اس آیت کے آخر فقرے وَالَّذِیْنَ جَآءُ ومِنْ بَعْدِھِمْ (سورہ حشر) سے حضرت عمرؓ نے یہ استدلال کیا کہ فتوحات میں آئندہ نسلوں کا بھی حق ہے۔ لیکن اگر اسے فاتحین میں تقسیم کر دیا جائے تو آنے والی نسلوں کے لئے کچھ باقی نہیں رہتا۔ اب حضرت عمرؓ نے کھڑے ہو کر نہایت پر زور تقریر فرمائی: جس میں آپ نے زکوٰۃ، غنیمت اور فے کی تقسیم کے بارے میں یوں وضاحت فرمائی۔

عن مالك بن أوسٍ قال قَرَأَ عمر بن الخطاب اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقْرَآءِ وَالْمَسَاکِیْنَ حَتّٰی بَلَغَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔

ثُمَّ قَرَأَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَه وَلِلرَّسُوْلِ حتی بلغ وابن السبیل ثم قال ھذہٖ لھٰؤلاء۔

ثم قَرَآءَ مَآ اَفَآءَ اللہُ عَلٰی رَسُوْلِه مِنْ اَھْلِ الْقُرْیٰ حَتّٰی بلغ للفقراء ......وَالَّذِیْنَ جَآءُوْا مِنْ بَعْدِھِمْ'' ثم قال ھذہ استرعبت المسلمین عامّةً فلئِن عشت فلیاتینّ الراعي وھو بِسَرْوٍ وحَمِیرَ نصیبه منھا لم بعرق فیھا جینیه۔ رواہ في شرح السنة (بحواله مشکوٰة۔ باب الفيء)

مالک بن اوسؓ سے روایت ہے: کہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے یہ آیت پڑھی اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقْرَآءِ وَالْمَسَاكِينَ۔ یہاں تک کہ علیم حکیمٌ تک پہنچے۔ پھر یہ آیت پڑھی۔ واعلموا أنما غنمتم من شيءٍ۔ پھر کہا یہ ان لوگوں کا حصہ ہے۔

پھر یہ آیت پڑھی، جو چیز اللہ نے بستیوں میں اپنے رسول کے ہاتھ لگا دی یہاں تک کہ پہنچے واسطے فقیروں کے۔ اور ان لوگوں کے جو ان کے پیچھے آنے والے ہیں۔ پھر کہا اس آیت نے تمام مسلمانوں کو شامل کر دیا ہے۔ پس اگر میں زندہ رہا۔ تو سَرد اور حمیر کے اس چرواہے کو بھی اس میں سے حصہ پہنچے گا جس کی پیشانی پر پسینہ نہیں آیا (یعنی جس نے جہاد کے سلسلہ میں کچھ بھی محنت نہ کی ہو)

اس پر سب لوگوں نے یک زبان ہو کر کہا۔ بلاشبہ آپ کی رائے صحیح ہے:۔

اس واقعہ سے درج ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے:۔

1. امیر فیصلہ کرتے وقت کثرت رائے کا پابند نہیں۔ اس کا اپنا دلی اطمینان یا انشراح صدر فیصلہ کی اصل بنیاد ہے۔مجلسِ مشاورت کے انعقاد سے پہلے فوج کے سب اراکین حضرت عبد الرحمان بن عوف اور حضرت بلالؓ جیسے صحابہ اس حق میں تھے۔ کہ زمینیں اور کاشتکار غازیوں میں تقسیم کر دیئے جائیں۔ لیکن حضرت عمرؓ اس رائے کے بہت سے نقصات دیکھ رہے تھے۔ لہٰذا کثرت رائے کو قبول نہیں فرمایا۔

2. امیر محض اپنی مرضی اور رائے بھی عوام پر ٹھونس نہیں سکتا۔ ورنہ آپ یہ نہ فرماتے۔ ''اے اللہ! مجھے بلال سے نجات دے۔'' لہٰذا آپ نے دس اکابر صحابہ (پانچ مہاجر، پانچ انصار) کی مجلس مشاورت بلائی۔ حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ جیسے صحابی آپ کے ہم خیال تھے۔ لیکن دوسری طرف صحابہ کی کثیر تعداد تھی۔ علاوہ ازیں عہد نبوی کی نظیر (جنگ خیبر میں یہودیوں کی زمین کی غازیوں میں تقسیم) بھی ان کے حق میں جاتی تھی۔ لہٰذا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔

3. حضرت عمرؓ دین کی سربلندی کے لئے جو انتہائی ذہنی کاوش کرتے رہتے تھے۔ اس کے نتیجہ میں اللہ کی توفیق سے آپ کو ایک آیت یاد آگئی۔ جو آپ کے رائے کے عین مطابق تھی۔ اس دلیل کی بنا پر آپ نے بڑی شد و مد سے اپنا فیصلہ صادر فرما دیا جس کے آگے سب نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فیصلہ کی اصل بنیاد کثرت رائے نہیں بلکہ دلیل کی قوت ہے اور شرط میر مجلس کا انشراح صدر!


نوٹ

ایک روایت میں یہ الفاظ بھی مذکور ہیں کہ حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عمرؓ کو کہا۔ تمہیں کیا ہو گیا۔ تم کفر کی حالت میں تو بہت جری اور دلیر تھے۔ اب اسلام میں آکر کمزوری دکھاتے ہو۔