جولائی 1981ء

مشورہ اور اس کے متعلقات

قرآن کریم میں مسلمانوں کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے:

﴿وَأَمرُ‌هُم شور‌ىٰ بَينَهُم...٣٨
اور وہ اپنے معاملات باہمی مشورہ سے طے کرتے ہیں۔

اور سورۂ آل عمران میں (جو جنگ اُحد میں نازل ہوئی تھی) حضور اکرم کو یہ حکم دیا گیا کہ:

﴿وَشاوِر‌هُم فِى الأَمرِ‌ ۖ فَإِذا عَزَمتَ فَتَوَكَّل عَلَى اللَّـهِ...١٥٩الشورٰى
اور اپنے کاموں میں ان سے مشورہ لیا کرو اور جب کسی کام کا عزم کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھو۔

حضور اکرم ﷺ مکّی دور سے ہی مسلمانوں سے اکثر مشورہ کیا کرتے تھے۔ جنگ اُحد کے بعد دوبارہ اس لئے تاکید فرمائی گئی کہ جنگِ احد کے دوران مسلمانوں سے چند غلطیاں سرزد ہوئی تھیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ان کی غلطیوں کو معاف کیجیے اور دل میں کوئی بات نہ لائیے بلکہ ان سے حسب دستور مشورہ کا عمل جاری رکھیے اور مشورہ کی اہمیت تو اسی بات سے واضح ہو جاتی ہے کہ جس آیت میں مسلمانوں سے مشورہ کی صفت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس سورہ کا نام ہی ''شوریٰ'' رکھا گیا۔

مشورہ سے متعلق درج ذیل امور تفصیل طلب ہیں:

1. مشورہ طلب امور اور ان کی نوعیت۔

2. مشورہ کی غرض و غایت۔

3. مشیر کی اہلیت۔

4. مشیروں کی تعداد۔

5. مشورہ کا طریق۔

6. طریق فیصلہ۔

اب ہم ان امور کو ذرا تفصیل سے بیان کریں گے۔

1. مشورہ طلب امور:

مشورہ کی ضرورت عموماً اس وقت پیش آتی ہے۔ جب کسی معاملہ کے دو یا اس سے زیادہ پہلو نظروں کے سامنے ہوں اور دونوں پہلوؤں میں فائدے اور نقصان دونوں باتوں کا احتمال ہو۔ ایسے معاملات انفرادی قسم کے بھی ہو سکتے ہیں اور اجتماعی قسم کے بھی۔ تشریعی امور بھی ہو سکتے ہیں اور انتظامی قسم کے بھی۔ تشریعی امور میں حضور اکرم ﷺ صحابہؓ سے مشورہ کرنے کے پابند نہیں تھے کیونکہ وہ شارع ہیں۔ جیسے صلح حدیبیہ کے وقت آپ نے کسی سے مشورہ نہیں فرمایا۔ جب کہ اس صلح کی شرائط اکثر صحابہؓ کی ناپسند تھیں۔ اسی طرح آپ نے حضرت زینبؓ کا نکاح کرتے وقت بھی کوئی مشورہ نہیں کیا۔ یہ نکاح عرب کے دستور کے خلاف تھا لہٰذا عین ممکن ہے کہ اگر مشورہ کیا جاتا تو کثرت رائے اس کے خلاف ہوتی۔

تاہم جہاں آپ مناسب سمجھتے تشریعی امور میں بھی مشورہ فرما لیتے تھے جب کہ خدا کی طرف سے کوئی واضح ہدایت نہ ملتی تھی جیسا کہ اذان کی ابتدا کا ماملہ ہے اس مشورہ کا ذکر بھی ہم شامل کتاب کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ خالص تشریعی نوعیت کا تھا۔ تاہم اس میں بھی آپ نے مشورہ فرمایا۔

تشریعی امور کے علاوہ انتظامی امور میں آپ بھی مشورہ کے پابند تھے۔ جیسے آپ ﷺ نے جنگِ بدر میں لڑائی کے میدان کے انتخاب میں اور جنگ بدر کے قیدیوں کے سلسلہ میں پھر جنگ کے متعلق کہ مدینہ سے باہر رہ کر لڑی جائے یا شہر میں رہ کر، یا جنگ خندق کے موقع پر صحابہ کرامؓ سے مشورے کیے۔ ان میں دو مجالس مشورت بابت ''اساریٰ بدر'' اور ''جنگ اُحد کے لئے جگہ کا انتخاب'' ہم اس کتاب میں شامل کر رہے ہیں۔

انفرادی امور میں بھی مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ آپس کے ذاتی اور نجی معاملات میں بھی ایک دوسرے سے مشورہ کر لیا کریں۔

2. مشورہ کی غرض و غایت:

کسی معاملہ میں مشورہ سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس معاملہ کے تمام تر پہلو سامنے آجائیں۔ پھر ان جملہ پہلوؤں کو سامنے رکھ کر یہ معلوم کیا جائے کہ کونسا پہلو اقرب الی الحق ہے۔ اور کتاب و سنت سے زیادہ مطابقت رکھا ہے گویا مجلس مشاورت منعقد کرنے کی غایت یہ ہے کہ کونسا اقدام اللہ کی مرضی و منشا کے مطابق ہو سکتا ہے۔ مختصر الفاظ میں ہم اسے ''دلیل کی تلاش'' کہہ سکتے ہیں۔

3. مشیر کی اہلیت:

حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے۔

المستشارُ مُؤْتَمِنٌ (متفق علیہ)

جس سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ وہ امین بنایا گیا ہے۔

گویا مشیر کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ نہایت دیانتداری سے مشورہ لینے والے کی خیر خواہی کو ملحوظ رکھ کر بہتر سے بہتر مشورہ دے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو گویا اس نے امانت میں خیانت کی اور اگر اس معاملہ سے اس کی اپنی غرض بھی متعلق ہے تب بھی اس کے ذمہ یہی واجب ہے کہ اپنے فائدہ کو نظر انداز کرتے ہوئے بھی صحیح مشورہ دینے میں کوتاہی نہ کرے۔

مشیر کی دوسری صفت یہ ہونی چاہئے کہ وہ عالم اور سمجھدار ہو۔ جاہل اور بے وقوف نہ ہو۔ ورنہ اس سے مشورہ لینے میں فائدہ کے بجائے نقصان کا زیادہ احتمال ہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ‌ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ ﴿٤٣﴾النخل
ترجمہ: اگر تم لوگ نہیں جانتے تو یاد رکھنے والوں سے پوچھ لو۔

اور اس کی تیسری صفت یہ ہونی چاہئے کہ وہ تجربہ کار اور عقل مند ہو۔ کسی معاملہ کی تہ تک پہنچنے یا اس سے نتیجہ برآمد کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَإِذا جاءَهُم أَمرٌ‌ مِنَ الأَمنِ أَوِ الخَوفِ أَذاعوا بِهِ ۖ وَلَو رَ‌دّوهُ إِلَى الرَّ‌سولِ وَإِلىٰ أُولِى الأَمرِ‌ مِنهُم لَعَلِمَهُ الَّذينَ يَستَنبِطونَهُ مِنهُم...٨٣﴾ النساء
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اسے مشہور کر دیتے ہیں اور اگر اس کو رسول اور اپنے حاکموں کے پاس لے جاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے۔

4. مشیروں کی تعداد:

قرآن و سنت میں مشیروں کی تعداد کے متعلق کوئی قید نہیں۔ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ اگر معاملہ انفرادی نوعیت کا ہو تو ایک دو مشیروں سے اکٹھے یا علیحدہ مشورہ کرنا چاہئے اور اگر اجتماعی نوعیت کا ہو تو پھر زیادہ مشیروں کی ضرورت ہے۔ البتہ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ اگر مشیر متعدد ہوں تو ان کی آپس میں کسی قسم کی چپقلش نہ ہونی چاہئے۔ ورنہ اس مشاورت کا نتیجہ الجھاؤ اور تنازعہ کے سوا کچھ برآمد نہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل کی اسمبلیوں میں اکثر تنازعات برپا ہوتے اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے کیونکہ وہاں حزبِ اقتدار کے حزبِ اختلاف کا وجود لازمی ہوتا ہے اور ان دونوں کے نظریات الگ الگ اور آپس میں منافرت ہوتی ہے۔ حزب اختلاف کبھی حزبِ اقتدار کو دیانتداری سے اور اس کی خیر خواہی کو ملحوظ رکھ کر مشورہ نہیں دے سکتا۔ کیونکہ اس سے اس کے اپنے مفادات اور نظریات پر زد پڑتی ہے۔ بحمد اللہ اسلامی مجلس شوریٰ کا دامن ایسی بے ہودگیوں سے پاک ہوتا ہے۔

5. مشورہ کا طریق:

مشورہ کا طریق کار بھی معاملہ کی نوعیت پر منحصر ہے۔ اگر کوئی معاملہ اہم اور تھوڑے وقت میں حل طلب ہو تو ایک ہی مجلس میں اس کا فیصلہ کر لینا چاہئے جیسا کہ جنگِ احد کے معاملہ میں حضور اکرم ﷺ نے کیا۔ اور اگر مسئلہ اہم بھی ہو اور مستقل نوعیت کا حامل بھی تو اس میں الگ الگ مشورے بھی لیے جا سکتے ہیں۔ بعد میں سب کو اکٹھا کر کے بھی، دوبارہ بھی، سہ بارہ بھی مشورہ کیا جا سکتا ہے۔

جیسا کہ حضرت عمرؓ نے عراق کی زمینوں کو بیت المال کی تحویل میں لینے کے بارے میں کیا۔ یا طاعون والے علاقے میں داخل ہونے یا واپس چلے آنے کے بارے میں کیا۔ ان واقعات کی تفصیل آئندہ مذکور ہے۔

6. طریق فیصلہ:

کسی معاملہ پر مختلف آراء اور بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ کیسے ہو؟ یہی معاملہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام نے فیصلہ کا اختیار میر مجلس کو دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَشاوِر‌هُم فِى الأَمرِ‌ ۖ فَإِذا عَزَمتَ فَتَوَكَّل عَلَى اللَّـهِ...١٥٩الشورٰى
اور اپنے کاموں میں ان سے مشورہ لیا کرو۔ پھر جب کام کا عزم کر لو۔ تو اللہ پر بھروسہ رکھو۔

اس آیت میں عَزَمْتَ کے الفاظ سے یہ بالکل واضح ہے کہ آخری فیصلہ کا اختیار آپ کو دیا گیا ہے۔

فیصلہ کے لئے دو ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں۔ کسی دلیل کی قوت، یا کثرت رائے۔ اسلامی مجلس مشاورت میں فیصلے دلیل کی بنیاد پر ہوتے ہیں جیسا کہ خلافت ابو بکرؓ کے موقع پر تمام انصار نے حضور اکرم ﷺ کے ارشاد کے آگے سر جھکا دیا۔ یا عراق کی مفتوحہ زمینوں کا معاملہ بالآخر (والذین جاء وامن بعدھم ص ۵۹) کی دلیل سے طے پایا۔ یہ تو خیر نص قطعی کا معاملہ ہے۔ اگر نص نہ مل سکے تو امیر مجلس ایسی رائے کو اختیار کر کے جو اسے منشائے الٰہی سے قریب تر معلوم ہو۔ اس پر فیصلہ دے سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمرؓ نے طاعون زدہ علاقہ سے واپسی کے معاملہ میں فیصلہ دیا۔ حتّٰی کہ اگر ساری شوریٰ بھی ایک طرف ہو اور امیر کو یہ وثوق ہو کہ اس کی رائے اقرب الی الحق ہے تو ساری شوریٰ کے خلاف بھی دے سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو بکرؓ نے مانعین زکوٰۃ سے جنگ کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا۔ (ان تمام واقعات کی تفصیل آگے آتی ہے)

کثرت رائے کا یہ فائدہ ضرور ہے کہ جب کوئی نص قطعی نہ مل سکے اور عقلی دلائل دونوں طرف برابر ہوں یا دونوں طرف عقلی دلائل بھی موجود نہ ہوں۔ تو صرف قطع نزاع کے لئے فیصلہ کثرت رائے کے مطابق کر دیا جاتا ہے۔ اس سے تنازعہ تو ختم ہو جاتا ہے لیکن وضوحِ حق کو اس سے کوئی تعلق نہیں اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے قرعہ کے ذریعے کسی تنازعہ کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔

یہاں یہ ذکر کر دینا بے جا نہ ہو گا کہ جمہوریت کا بنیادی اصول ہی چونکہ کثرت رائے کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے۔ لہٰذا جمہوریت نواز عموماً ہر واقعہ کو توڑ موڑ کر پیش کر کے یا غلط تاویل کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ بھی کثرت رائے کے مطابق ہوا اور وہ فیصلہ بھی کثرت رائے سے ہوا اور جہاں کوئی گنجائش نہ مل سکے اس کی کچھ اور توجیہ پیش کر دیتے ہیں۔ ہمیں صرف یہ کہنا مقصود تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں فیصلہ میر مجلس کے بجائے کثرت رائے کی بنیاد پر درست ہوتا تو آیت مذکورہ کے الفاظ مندرجہ ذیل دو صورتوں میں سے کسی ایک طرح پر نازل ہونے چاہئیں تھے۔

1. ﴿وَشاوِر‌هُم فِى الأَمرِ‌ ۖ فَإِذا عَزَمتَ فَتَوَكَّل عَلَى اللَّـهِ...١٥٩الشورٰى
2. وشاورھم فی الامر واتبع اکثرھم وتوکل علی اللّٰہ۔

بلکہ اس سے بھی آگے مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر کثرت رائے ہی معیارِ حق ہوتا تو انبیاء کی بعثت کی ضرورت ہی نہ تھی۔

کثرت رائے کے معیارِ حق ہونے کا اصول ان لوگوں کو وضع کردہ ہے جن کے ہاں سے دلیل گم ہو گئی تھی۔ آسمانی تعلیمات میں تحریف اور ردّوبدل کی وجہ سے اور پھر اپنے مذہبی رہنماؤں کی اجارہ داری سے تنگ آکر جمہوریت کی راہ اختیار کی۔ اندریں صورت انہیں کثرت رائے کا اصول وضع کرنے کے بغیر کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ ورنہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی باہمی کش مکش میں کسی بھی امر کا فیصلہ ہونا ناممکن تھا۔