4. بیعتِ خاص اور بیعتِ عام

ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھ پر خلافت کے انعقاد کے لئے بیعت سقیفہ بنو ساعدہ میں ہوئی۔ پھر دوسرے دن مسجد نبوی میں عام بیعت ہوئی۔ حضرت عمرؓ کو حضرت ابو بکرؓ نے نامزد کیا۔ نامزدگی کے متعلق گفتگو آپ کے گھر پر ہوتی رہی۔ لیکن عام بیعت مسجد نبوی میں ہوئی۔ اسی طرح حضرت عثمان کی خلافت سے متعلق مشورے تو حضرت مسور بن مخرمہ کے گھر پر ہوتے رہے لیکن عام بیعت مسجد نبوی میں ہوئی۔ حضرت علیؓ بھی یہی کچھ چاہتے تھے۔ کہ ان کا انتخاب اور بیعت حسبِ دستور ہو۔ مگر ہنگامی حالات کی وجہ سے ان کی یہ آرزو پوری نہ ہو سکی۔ البتہ بیعتِ عام مسجد نبوی میں ہی ہوئی۔

ان تصریحات سے واضح ہے کہ بیعت دو قسم کی ہوتی ہے:

1. بیعتِ خاص:

یہ بیعت خلافت کے انعقاد کے لئے ہوتی ہے اور اس میں صرف معزز افراد یا اہل شوریٰ حصہ لیتے ہیں جیسا کہ حضرت علیؓ نے باغیوں کے گروہ سے فرمایا تھا کہ:

''خلیفہ کا انتخاب اہلِ شوریٰ اور اہل بدر کا کام ہے۔ ہم کسی وقت جمع ہوں گے اور اس پر غور کریں گے۔'' ابن قتیبہ۔ الامۃ والسیاسۃ جلد ۱۔ صفحہ ۴۱۔

اس بیعت سے مقصد خلیفہ کا انتخاب، انتخاب کی توثیق اور سمع و اطاعت (حلفِ وفاداری) سب کچھ شامل ہوتا ہے۔

2. بیعتِ عام:

بیعت خاص کے لئے کوئی خاص مقام مقرر نہیں لیکن بیعتِ عام کسی مرکزی مسجد میں برسرِ عام ہونی چاہئے۔ خلفائے اربعہ کی بیعتِ عام مسجد نبوی میں بر سرِ عام اور اعلانات کے ذریعے ہوتی رہی۔ بیعت عامہ کا مقصد محض سمع و اطاعت ہے جیسا کہ تمام متعلقہ اور محولہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ عوام کا کام صرف یہ ہے کہ وہ خواص کے فیصلہ کو تسلیم کر لیں۔ خلیفہ کے انتخاب میں عوام کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ نہ ہی انہیں اس بات کا اختیار ہے کہ خواص کے فیصلہ کو مجلس عام میں رد کر دیں۔ نہ ہی ایسی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے کچھ دوست یہ کہنے میں باک محسوس نہیں کرتے کہ اہل شوریٰ کے انتخاب کے بعد یہ فیصلہ عوام کے سامنے بغرض قبولیتِ عامہ'' پیش کیا جاتا تھا چاہے تو اسے منظور کریں یا رد کریں۔

اور میں سمجھنے میں شاید غلطی پر نہ ہوں گا کہ حضرت علیؓ کے زمانہ میں امتِ مسلمہ جس تشتّت و انتشار کا شکار رہی اور جنگ جمل و صفین جیسے معرکے پیش آئے تو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ ان کی بیعتِ عامہ تو ہو گئی لیکن اس سے پہلا اقدام ''بیعتِ خاص'' ان کی آرزو کے باوجود انہیں میّسر نہ آسکا۔ کیونکہ خلیفہ کے انتخاب کے اہل ذمہ دار اور حق دار ''اعیان ملّت'' ہیں عوام نہیں۔

ہمارے جمہوریت نواز دوست بیعتِ خاص اور بیعت عام کے موضوع سے تعرض نہیں کرتے کیونکہ اسی سے موجودہ طرزِ انتخاب کے بنیادی عقیدہ ''حق بالغ رائے رہی'' پر کاری ضرب پڑتی ہے۔

ہمارے ہاں ''ووٹ'' کی مروجہ اصطلاح پہلے معنوں یعنی بیعت خاص کی ترجمانی کرتی ہے۔ جیسا کہ اس کے عنوان ''حق بالغ رائے دہی'' سے ظاہر ہے جب کہ بیعت عامہ محض ایک ذمہ داری ہے۔ حق نہیں۔

عموماً یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ عہد نبوی یا خلفائے راشدین میں براہِ راست یا بالواسطہ انتخاب کا کوئی باضابطہ نظام موجود نہ تھا۔ لہٰذا مدینہ میں موجود بزرگ صحابہ (جو تمام عرب کے قبائل کے نمائندہ کی حیثیت رکھتے تھے) ہی خلیفہ کے انتخاب میں حصہ لیتے رہے۔

یہ بات بھی حقیقت کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کی باقاعدہ مردم شماری کا رواج تو حضور اکرم ﷺ کے عہد میں ہی پڑ چکا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔

عن حذیفة قال: قال النبی ﷺ: ''اکتبوا لِیْ منْ تَلَفَّظَ بالاسلام من الناس۔'' فکتبنا له اَلْفَا وخمس مائة (بخاری۔ کتاب الجھاد والسیر۔ باب کتابة الإمام الناس)

حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں۔ ہمیں حضور اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ ہر وہ شخص جس نے اسلام کا کلمہ پڑھا ہے ان کے نام لکھ کر مجھے دیئے جائیں۔'' سو ہم نے آپ ﷺ کے لئے فہرست تیار کی تو ایک ہزار پانچ سو 1500 مسلمان ہوئے۔

اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں تو یہ مردم شماری کا ایک الگ محکمہ بھی قائم ہو گیا تھا۔ اگر بالغ رائے دہی فی الواقع کوئی پسندیدہ چیز تھی تو کسی بھی دَور میں ان رجسٹروں سے کیوں نہ کام لیا گیا جب کہ انتخابی فہرستیں پہلے سے ہی موجود تھیں۔

بالغ رائے دہی کے حق میں دلائل

پہلی دلیل:

حق بالغ رائے دہی کے جواز میں مندرجہ ذیل آیات سے استدلال پیش کیا جاتا ہے۔

﴿إِنَّ اللَّـهَ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِها...سورة النساء﴿٥٨

کہا یہ جاتا ہے کہ اس حکم میں نمائندہ پر تو پابندی ہے کہ وہ اس کا اہل ہو۔ لیکن ووٹر پر کوئی عمل صالح کی کوئی پابندی نہیں۔ پھر اس عام حکم کو کس رُو سے مقید کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے پاس کون سا ایسا معیار ہے کہ ہم لوگوں کے اندرونی حالات کا پتہ لگاتے پھریں کہ کون صالح ہے اور کون غیر صالح؟ جبکہ قرآن کریم میں یہ بھی واضح حکم ہے کہ:

﴿وَلا تَجَسَّسوا...سورة الحجرٰت﴿١٢

اور کسی کا بھید نہ ٹٹولو۔

جواب:

قرآن کریم میں بے شمار ایسے احکامات موجود ہیں جن میں صیغۃ جمع حاضر استعمال ہوا ہے۔ حکم عام ہے لیکن اس کا اطلاق صرف اس کے اہل افراد پر ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن کریم میں ہے:

وَالسّارِقُ وَالسّارِقَةُ فَاقطَعوا أَيدِيَهُما...سورة المائدة﴿٣٨

اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت، ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔

آیت مذکورہ میں حکم عام ہے لیکن اس کے مخاطب صرف عمال حکومت ہی ہو سکتے ہیں۔ جو سزا دینے کے اہل ہیں۔ اب اگر اس حکم کو عام سمجھ کر عام لوگ بھی یہ فریضہ سر انجام دینے لگیں تو جو حشر ہو گا اس کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔

اسی طرح ''وآتوا الزکوۃ'' کا حکم عام ہے اور قرآن کریم میں سینکڑوں جگہ استعمال ہوا ہے لیکن اس کے مکلّف صرف وہ لوگ ہیں۔ جو زکوٰۃ دینے کے اہل یا صاحب نصاب ہیں۔

گوہم پہلے خلافتِ راشدہ کے نظائر سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ عوام انتخاب میں حصہ لینے کے مکلف نہیں ہیں۔ تاہم اگر ہمارے دوستوں کو یہ اصرار ہے تو ہم وہ قیود بھی پیش کر دیتے ہیں جو شریعت نے اس عام حکم پر لگائی ہیں۔

ووٹر کی اہلیت:

1. پہلی پابندی تو یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو کیونکہ اس آیت کے مخاطب مسلمان ہیں۔ کسی نام نہاد اسلامی ریاست کے عوام نہیں۔ اور مسلمان کی قانونی تعریف یہ ہے کہ وہ کم از کم اور روزہ کا پابند ہو اور ایک اسلامی مملکت میں وہ حقوق شہریت کا مجاز نہیں ہے۔ ارشاد نبوی ہے۔

أمرت أن أتا تل الناس حتّی یشھدوا أن لا إلٰه إلا اللّٰه وان محمدًا رسول اللّٰه ویقیموا الصلوٰةویوتوا الزکوٰة فإذا فعلوا ذلك تعصموا مني وماءھم إلا بحق الإسلام وحسابھم علی اللّٰه (مسلم۔ کتاب الإیمان باب الأمر لقتال الناس)

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا إلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں۔ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ اگر ایسا کریں تو ان کی باتیں محفوظ ہو جائیں گی۔ الا یہ کہ وہ اسلام کے کسی حق کے تحت اس حفاظت سے محروم رہیں اور ان کے باطن کا حساب اللہ پر ہے۔

2. ووٹ جیسے ایک مقدس امانت ہے۔ ویسے ہی ایک شہادت بھی ہے کہ دور فی الواقعہ (بدل و جان) اس نمائندے کو نمائندی کا اہل تر سمجھتا ہے۔ جیسے وہ ووٹ دے رہا ہے۔ لہٰذا جس شخص کی شہادت اسلام ناقابل قبول قرار دیتا ہے اس کو ووٹ دینے کا بھی حق نہیں پہنچتا۔ اور ایسے لوگ درج ذیل ہیں:

1. جس پر حدّ قذف نافذ ہو چکی ہے: ارشاد باری ہے:

﴿َوَالَّذينَ يَر‌مونَ المُحصَنـٰتِ ثُمَّ لَم يَأتوا بِأَر‌بَعَةِ شُهَداءَ فَاجلِدوهُم ثَمـٰنينَ جَلدَةً وَلا تَقبَلوا لَهُم شَهـٰدَةً أَبَدًا...سورة النور﴿٤

اور جو لوگ پرہیز گار عورتوں کو بدکاری کا عیب لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی ۸۰ دُرے مارو۔ اور کبھی ان کی شہادت قبول نہ کرو۔

2. جھوٹی گواہی دینے والے لوگ جن کی جھوٹی گواہی ہو چکی ہو۔ قرآن میں مومن کی صفات سے ایک یہ بھی ہے:

﴿وَالَّذينَ لا يَشهَدونَ الزّورَ‌...سورة الفرقان﴿٧٢

اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔

جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہوں سے ہے اور قابلِ تعزیر جرم بھی۔ حضرت عمرؓ جھوٹے گواہوں کا سر مونڈ کر چہرہ پر سیاہی لگا دیتے، پیٹھ پر کوڑے لگاتے اور طویل عرصے کے لئے قید کر لیا جاتا۔

حضور اکرم ﷺ سے کسی نے پوچھا کبیرہ گناہ کیا کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا:

الإ شراك باللّٰہ وعقوق الوالدین وقتل النفس وشھادة الزور (بخاری۔ کتاب الشھادات)

خدا تعالیٰ سے شرک کرنا، والدین کی نافرمانی، کسی کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی۔

3. فاسق کی شہادت قبول نہ کرنی چاہئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا...سورة الحجرٰت﴿٦

اے مومنو! اگر کوئی بد کردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو۔

انہی نصوص سے فقہاء نے درج ذیل قسم کے اشخاص کی گواہی ناقابلِ قبول قرار دی ہے۔

(۱) نماز روزے کا عمداً تارک (۲) تمیم کا مال کھانے والا (۳) زانیہ۔ زانی (۴) لواطت کا مرتکب (۵) جس پر حدّ نافذ ہو چکی ہو (۶) چور۔ ڈاکو (۷) ماں باپ کی حق تلفی کرنے والا۔ (۸) خائن ۔ خائنہ۔

اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ہمارے پاس وہ کونسا معیار ہے جس سے ہم صالح اور غیر صالح کی تمیز کر سکیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ اپنی مسجد سے رابطہ قائم فرمائیے یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔ وہاں سے آپ نماز ادا کرنے والوں، زکوٰۃ ادا کرنے والوں، چوروں، ڈاکوؤں، خائنوں اور فاسقوں سب کا پتہ چل جائے گا۔ پھر اگر کچھ غلطی ہو بھی جائے تو اس کا حساب اللہ پر ہے (بموجب حدیث) اور ایک مسلمان کے لئے یہ بات کافی ہے۔

دوسری دلیل:

حق بالغ رائے دہی کے اثبات میں مندرجہ ذیل آیت پیش کی جاتی ہے جو آیۂ استخلاف کے نام سے مشہور ہے۔

﴿وَعَدَ اللَّـهُ الَّذينَ ءامَنوا مِنكُم وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ لَيَستَخلِفَنَّهُم فِى الأَر‌ضِ كَمَا استَخلَفَ الَّذينَ مِن قَبلِهِم...سورة النور ﴿٥٥

اللہ نے وعدہ فرمایا ہے، تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔

اس آیت کی مختلف تعبیریں مولانا ابو الاعلی مودودیؒ کی زبان سے سنیے۔ ایک طرف آپ ایک سیاسی جماعت کے بانی اور جمہوریت نواز ہیں تو دوسری طرف مفسر قرآن۔ لہٰذا ان کی اپنی دونوں تحریروں میں یہ تضاد بہت واضح ہو گیا ہے۔

تشریح نمبر ۱:

''خلیفہ بنانے کا وعدہ تمام مومنوں سے کیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ ان میں سے کسی ایک کو خلیفہ بناؤں گا۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ سب مومن خلافت کے حامل ہیں۔ یہاں ہر شخص خلیفہ ہے۔ کسی شخص یا گروہ کو حق نہیں کہ عام مسلمانوں سے ان کی خلافت کو ساب کر کے خود حاکم مطلق بن جائے۔ یہاں جو شخص حکمران بنایا جاتا ہے اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ تمام مسلمان یا اصطلاحی الفاظ میں تمام خلفاء اپنی رضا مندی سے اپنی خلافت کو انتظامی اغراض کے لئے اس کی ذات میں مرکوز کر دیتے ہیں جو ایک طرف خدا کے سامنے جوابدہ ہے اور دوسری طرف ان عام خلفاء کے سامنے جنہوں نے اپنی خلافت ان کو تفویض کی ہے۔'' (اسلام کا سیاسی نظریہ)

بات سیدھی سی تھی۔ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

﴿إِذ جَعَلَ فيكُم أَنبِياءَ وَجَعَلَكُم مُلوكًا...سورة المائدة ﴿٢٠

اور اللہ نے تم میں سے انبیاء بھی بنائے اور تم کو بادشاہ بھی بنایا۔

اب اس آیت میں صیغہ کُمْ جمع حاضر اور ملوک بھی جمع کا لفظ ہے۔ لیکن اس آیت سے کبھی کسی نے یہ نہیں سمجھا کہ بنی اسرائیل کے جملہ افراد سارے کے سارے ہی بادشاہ تھے۔ جو اپنا حق ملوکیت کسی ایک خاص فرد کو منتقل کر دیتے تھے۔ لیکن آیت استخلاف میں مندرجہ بالا معنیٰ کر کے بالغ رائے دہی کا حق ثابت کیا جاتا ہے۔

تشریح نمبر ۲:

اب اسی آیت مذکورہ کی تفسیر تفہیم القرآن میں اس طرح ہے:

''اس ارشاد سے مقصود منافقین کو متنبہ کرنا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کو جو وعدہ کیا ہے اس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں، اخلاق و اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں، اللہ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو کر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے پابند ہوں۔ ان صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے لہٰذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں۔''

یہاں حق بالغ رائے دہی کو بہت حد تک مقید کر دیا گیا ہے۔

اور تیسرے مقام پر مولانا موصوف خود ہی حق رائے بالغ دہی کا فیصلہ یہ فرما رہے ہیں

''حضرت عثمان کی شہادت کے بعد جب کچھ لوگوں نے حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانا چاہا تو انہوں نے کہا

''تمہیں ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ یہ تو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کے کرنے کا کام ہے۔ جس کو اہل شوریٰ اور اہلِ بدر چاہیں گے۔ وہی خلیفہ ہو گا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے۔'' (خلاف و ملوکیت ص ۸۶ بحوالہ ابن قتیبہ: الامامۃ والسیاسۃ)

''اسلام کا نظریہ سیاسی'' کے مطابق تو ہر بالغ مسلمان ووٹ کا حق دار ہے جب کہ تفہیم القرآن کے مطابق ووٹ دینے کا اہل صرف نیک، صالح اور متقی مسلمان ہو سکتا ہے۔ اب خلافت و ملوکیت کے مطابق حضرت علیؓ کی اپنی وضاحت یہ ہے کہ انتخاب صرف اہل بدر اور اہل شوریٰ کا کام ہے۔

بالفاظ دیگر نیک اور متقی لوگوں میں سے بھی چہ افضل ترین افراد (جسے اعیانِ ملّت یا ارباب حل و عقد کہا جاتا ہے) کا انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہیں۔ اور یہی بات حق ہے کہ بالغ رائے دہی کے حق کا عام تصور عقل اور شرع دونوں کے خلاف ہے۔ کسی لا مذہب سیاست میں تو اسے قبول کیا جا سکتا ہے لیکن اسلامی نظام میں ایسے بے ہودہ نظریات کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔

عورت کا ووٹ اور سیاسی حقوق

مغربی طرز انتخاب کے ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے عورت کو بھی اس میدان میں لا گھسیڑا ہے اور پھر مساوات مرد و زن کے نعرہ کی بدولت وہ ووٹر بھی ہے۔ ممبر اسمبلی بھی بن سکتی ہے۔ صدر بھی بن سکتی ہے اور دوسری کلیدی سامیوں پر بھی فائز ہو سکتی ہے۔ عہد نبوی سے لے کر خلافت راشدہ کی پوری تاریخ دیکھ جائیے آپ کو کوئی ایسی مثال نہ مل سکے گی کہ عورت نے ووٹ دیا ہو یا مجلس شوریٰ کی ممبر ہو یا کوئی کلیدی اسامی اس کے سپرد کی گئی ہو یا میدانِ امارت و سیاست میں اس کا کسی قسم کا عمل دخل ہو ۔ قرآن میں بھی عورتوں کی بیعت کا ذکر ہے۔ اور بخاری کتاب الاحکام اور اسی طرح دوسری احادیث کی کتابوں میں بھی۔ ان احادیث میں انہی پر بیعت کا ذکر ہے۔ جن کا ذکر قرآن کریم نے کر دیا ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ إِذا جاءَكَ المُؤمِنـٰتُ يُبايِعنَكَ عَلىٰ أَن لا يُشرِ‌كنَ بِاللَّـهِ شَيـًٔا وَلا يَسرِ‌قنَ وَلا يَزنينَ وَلا يَقتُلنَ أَولـٰدَهُنَّ وَلا يَأتينَ بِبُهتـٰنٍ يَفتَر‌ينَهُ بَينَ أَيديهِنَّ وَأَر‌جُلِهِنَّ وَلا يَعصينَكَ فى مَعر‌وفٍ ۙ فَبايِعهُنَّ وَاستَغفِر‌ لَهُنَّ اللَّـهَ...سورةالممتحنة ﴿١٢

اے پیغمبرؐ! جب تمہارے پاس عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ خدا کے ساتھ نہ تو شرک کریں گی، نہ چوری کریں گی، نہ بدکاری کریں گی، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی (یعنی جو کہ ان کا نہ ہو اس کو اپنے خاوندوں سے منسوب نہ کریں گی) نہ نیک کاموں میں تمہاری نافرمانی کریں گی تو ان کی بیعت لے لو اور ان کے لئے خدا سے بخشش مانگو۔

مساوات مرد و زن:

اسلام مساواتِ مرد و زن کا ہرگز قائل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کی شہادت کو مکمل نہیں بلکہ نصف قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَاستَشهِدوا شَهيدَينِ مِن رِ‌جالِكُم ۖ فَإِن لَم يَكونا رَ‌جُلَينِ فَرَ‌جُلٌ وَامرَ‌أَتانِ مِمَّن تَر‌ضَونَ مِنَ الشُّهَداءِ...سورة البقرة ﴿٢٨٢
اور اپنے میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ بنانا پسند کرو۔

صرف یہی نہیں بلکہ میراث میں بھی عورت کا حصہ مرد سے نصف ہے اور عبادت میں بھی عورت مراد کے برابر نہیں۔ حیض و نفاس کے ایام میں عورت سے نماز ساقط ہو جاتی ہے۔ انہی وجوہ کی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے عورت کو ''ناقص العقل والدین'' کہا ہے۔

اور امارت و سیاست کے معاملات میں تو عورت کی شمولیت کو اسلام نے ہرگز پسند نہیں کیا۔ نہ ہی خلفائے راشدین کے انتخاب میں عورت کے ووٹ کی کوئی مثال ملتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نہ تو عورت کی جسمانی ساخت اور فطری صلاحیت ایسی ہے کہ امارت و سیاست جیسے معاملات میں وہ حصہ لے اور اسلام امیر کے لئے جس شرائط کی پابندی لگاتا ہے ان پر پوری اتر سکے اور نہ ہی اسلام ایسی بے حیائی اور مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط کی اجازت دیتا ہے جس کے بغیر ایسے امور میں حصہ لینا ناممکن ہے۔ نیز ایسی صورت میں عائلی نظام بھی تباہ ہو کر رہ جاتا ہے جو اسلامی نکتہ نگاہ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جب اہل ایران نے بنت کسریٰ (پوران، نوشیرواں کی پوتی اور شیرویہ کی بہن) کو اپنا بادشاہ بنا لیا۔ یہ خبر حضور اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپﷺ نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور فرمایا:۔

کیف یفلح قوم وَلَّوا أمرھم امرأة (بخاری۔ کتاب المغازی)

وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جس نے اپنی سربراہ ایک عورت کو بنا لیا ہے۔

ایک اسلامی معاشرے میں ایسے امور کا عورتوں کے ہاتھ میں چلے جانا کوئی اچھی علامت نہیں ہوتی۔ درج ذیل حدیث اس پہلو پر پوری روشنی ڈالتی ہے۔

عن أبي ھریرة قال قال رسول اللّٰہ ﷺ: إذا کان اُمُرَاءکم خیارکم وأغنیاءُکم سُمحَاءُکم واُمورُکم شوریٰ بَیْنَکُمْ فَظَھَرَ الأرض خیرٌ لکم من بطنھا وإذا کان اُمراءَکم شِرَارکم وأغنیاءکم بخلاءُکم وأمورکم إلی نساءِکُمْ فبطن الأرض خیرٌ من ظَھْرِھَا (ترمذی بحوالہ مشکوٰة باب تغیر الناس)

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہارے حکمران اچھے لوگ ہوں اور تمہارے دولتمند سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورہ سے طے ہوں تو تمہارے لئے زندگی موت سے بہتر ہے اور تمہارے حکمران بدکردار ہوں اور دولت مند بخیل ہوں اور تمہارے معاملات بیگمات کے حوالے ہوں تو تمہاری موت زندگی سے بہتر ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر سے عورت کا مقام:

ہو سکتا ہے ہمارا نوجوان طبقہ اور موجودہ دَور کی مہذب عورتیں ان احکام و ارشادات سے یہ تاثر لیں کہ اہل مغرب نے عورت کو جو حقوق عطا کیے ہیں وہ اسلام کے عطا کردہ حقوق سے کہیں زیادہ ہیں۔ لہٰذا ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مغرب نے عورت کو کس طرح کے حقوق بخشے ہیں اور اسلام نے کیسے؟

مغرب نے عورت کو آزادی اور مساوات کے نام پر جو حقوق دیئے ہیں وہ انہوں نے عورت کو پہلے مرد بنا کر عطا کیے ہیں۔ اسے ملازمتوں اور کھیلوں، مقابلۂ حسن اور دوسری تفریحات کے بہانہ گھر سے نکال کر بازار میں لا کھڑا کیا تو مردوں نے اس سے اپنی جنس ہوس کی تکمیل کی۔ فحاشی اور بے حیائی عام ہوئی۔ اور جب عورت اپنی جوانی کی عمر سے گزر کر اپنی رعنائی کھو بیٹھتی ہے تو اس کی حالت قابلِرحم ہوتی ہے۔ مگر کوئی اس کا پرسان حال نہیں ہوتا اور بڑھاپے کے ایام اپنی اولاد کی یاد اور تڑپ میں سسکیاں بھر کر گزار دیتی ہے جبکہ اس کی اولاد۔ اسی کی طرح۔ اپنی رنگ رلیوں میں مصروف ہوتی ہے اور اس بوڑھی کھوسٹ کی آرزوؤں کو اپنی عیش و طرب میں مداخلت تصور کر کے اسے دھتکار دیتی ہے۔ ایسے بے شمار واقعات مغربی دنیا کے جرائد میں آئے دن چھپتے رہتے ہیں۔

اسلام نے عورت اور مرد کے دائرۂ کار الگ الگ مقرر کیے ہیں۔ اور ایک کے دائرۂ میں دوسرے کی مداخلت برداشت نہیں کرتا۔ عورت کی فطرتی ساخت اور طبیعت اسی بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ معاشی اور سیاسی الجھنوں سے آزاد ہو کر بال بچوں کی نہایت اطمینان سے تربیت کرے اور گھر کے اندر کا پورا انتظام سنبھالے اور نہایت باوقار طریقے میں اپنے گھر میں خود مختار بن کر اپنی اولاد کی بہتر سے بہتر تربیت کرے۔ مرد کے دائرۂ کار میں اس کی مداخلت کو اسی لئے ناپسند کیا گیا ہے ۔ اس پہلو کو مستثنیٰ کرنے کے بعد کہیں تو عورت کا درجہ مرد کے بالکل برابر قرار دیا گیا ہے جیسے کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

وَمَن يَعمَل مِنَ الصّـٰلِحـٰتِ مِن ذَكَرٍ‌ أَو أُنثىٰ وَهُوَ مُؤمِنٌ فَأُولـٰئِكَ يَدخُلونَ الجَنَّةَ وَلا يُظلَمونَ نَقيرً‌ا ﴿١٢٤﴾سوؤة النساء
ترجمہ: اور جو نیک کام کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان ہو گا تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان کی تل برابر بھی حق تلفی نہ ہو گی۔

اور کہیں عورت کا درجہ مرد سے بہت زیادہ بلند قرار دیا گیا۔ ارشاد نبوی ہے:

عن أبي ھریرة قال جاء رجل إلی رسول اللّٰه ﷺ فقال یا رسول اللّٰه! من أحَقُّ بِحُسنِ صحابتي؟ قال ''اُمُّك'' قال ثم من؟ قال ''اُمُّك'' قال ثم من؟ قال ''اُمُّك'' قال ثُمّ من؟ قال ''أبوك'' (بخاری کتاب الادب)

ابو ہریرہؓ کہتے ہیں۔ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا۔ یا رسول اللہ! میرے بہتر سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے۔ فرمایا ''تیری ماں'' وہ کہنے لگا۔ اس کے بعد۔ فرمایا۔ ''تیری ماں'' پھر کہنے لگا۔ اس کے بعد۔ فرمایا ''تیری ماں'' پھر کہنے لگا اس کے بعد؟ فرمایا۔ ''تیرا باپ''

دوسرے مقام پر فرمایا:

عن المغیرة عن النبي ﷺ قال: اِنَّ اللّٰه حرم علیکم عقوق الأمھات (بخاری حوالہ مذکورہ)

حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ''اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کو حرام کیا ہے۔''

کہیں آپ ﷺ نے یوں فرمایا کہ ''ماؤں کے قدموں میں جنت ہے۔'' (ترغیب ترہیب) اور کہیں فرمایا کہ ''لڑکیوں کی تربیت انسان کو دوزخ کے عذاب سے بچا لے گی'' (بخاری) توبہ ہیں عورت کے وہ حقوق جو اسے معاشرہ میں بلند مقام عطا کرتے ہیں۔

ایک دفعہ آپ نے فرمایا۔ ''تف ہے اس شخص پر جو اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کر کے جنت حاصل نہیں کرتا (بخاری) گویا جس وقت عورت بوڑھی ہو، اہل مغرب کے معاشرہ میں اہل ناکارہ اور ناقابلِ التفات چیز ہوتی ہے، اس وقت اسلام اسے وہ مقام عطا کرتا ہے جو معاشرہ میں بلند تر ہوتا ہے۔

4. طلبِ امارت اور اس کی آرزو

ہم ''خلافت ابو بکرؓ کا پس منظر'' کے عنوان کے تحت ''امتناع طلب امارت'' کی سرخی کی متعدد مستند احادیث درج کر آئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ امارت طلب کرنے والوں حضور اکرم ﷺ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ ''خدا کی قسم ہم ایسے لوگوں کو کرسی نہیں دیتے جو اس کو طلب کرتے ہیں۔'' آپ نے اس کی آرزو رکھنے والوں کی بھی مذمت فرمائی ہے۔ اس کی کئی وجوہ آپ نے بیان فرمائی ہیں مثلاً:

پہلی یہ کہ: ''انسان کی دولت اور مرتبے سے محبت اس کے دین میں اس چیز سے زیادہ تباہ کر ڈالتی ہے جیسے دو بھوکے بھیڑیے کسی بکریوں کے ریوڑ میں پڑ کر تباہی مچا سکتے ہیں۔

دوسری یہ کہ: ''امارت جب تک رہے تو امیر سمجھتا ہے کہ خوب مزے ہیں لیکن اس کا انجام برا ہوتا ہے۔

تیسری یہ کہ: ''امارت ایک عظیم ذمہ داری ہے اور قیامت کے دن ذلّت اور مذامت کا باعث بنے گی۔ اِلّا یہ کہ کسی نے اس کی ذمہ داریوں کا پورا پورا حق ادا کر دیا ہو۔''

اب ہم ان ارشادات کے تحت خلفائے راشدین کا تعامل دیکھیں تو حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت حسنؓ سے کسی نے بھی امارت کی خواہش نہیں کی۔

حضرت علیؓ نے جس وقت اس کی خواہش کی اس وقت انہیں ملی نہیں اور جب وہ خلافت قبول کرنے پر تیار نہ تھے تب یہ انہیں سونپ دی گئی۔

حضرت ابو بکرؓ نے بیعتِ عام کے بعد مسجد نبوی میں جو پہلی تقریر فرمائی۔ اس میں امارت کی ذمہ داریوں کو بوجھ محسوس کر کے اسے ناپسند فرمایا:

''میں آپ لوگوں پر حکمران بنایا گیا ہوں۔ حالانکہ میں آپ کا سب سے بہتر آدمی نہیں ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں نے یہ منصب اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا ہے۔ نہ یہ میں چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کی بجائے یہ مجھے ملے۔ نہ میں نے کبھی خدا سے اس کے لئے دعا کی۔ نہ میرے دل میں کبھی اس کی حرض پیدا ہوئی۔ میں نے تو اس بادلِ ناخواستہ اس لئے قبول کیا ہے کہ مجھے مسلمانوں میں فتنۂ اختلاف اور عرب میں فتنۂ ارتداد برپا ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ میرے لیے اس منصب میں کوئی راحت نہیں ہے بلکہ یہ ایک بار عظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے جس کے اٹھانے کی طاقت مجھ میں نہیں ہے۔ اِلّا یہ کہ اللہ ہی میری مدد فرمائے۔ میں یہ چاہتا تھا کہ میرے بجائے کوئی اور یہ بار اُٹھائے۔ اب بھی اگر آپ لوگ چاہیں تو اصحابِ رسول میں سے کسی اور کو اس کام کے لئے چن لیں۔ میری بیعت آپ کے راستے میں حائل نہ ہو گی۔'' (السیرۃ النبویہ ج ۴ ص ۴۹۳، کنز العمال ج ۵ احادیث نمبر ۲۲۶۱، ۶۴، ۶۸، ۷۸، ۹۱، ۲۲۹۹)

اور حضرت عمرؓ یہ فرمایا کرتے تھے۔ جب یومِ فتح خیبر سے پہلی شام جب حضور اکرم ﷺ نے یہ فرمایا کہ میں کل صبح اس مستحق کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھوں خیبر فتح ہو گا۔'' اس رات بہت سے صحابہ کبار کو یہ آرزو تھی کہ شاید کل اسے ہی یہ جھنڈا مل جائے اور یہ جھنڈا حضرت علیؓ کے نصیب میں تھا۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ''بس اس ایک دن کے علاوہ مجھے کبھی امارت کی خواہش نہیں ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب المغازی، باب غزوہ خیبر)

اور جب آپ سے ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر کو خلیفہ نامزد کرنے کو کہا گیا تو آپ نے فرمایا:

''ہمیں تمہارے معاملات کی کوئی خواہش نہیں۔ اگر یہ خلافت اچھی چیز تھی تو اس کا مزہ ہم نے چکھ لیا اور اگر یہ بری چیز تھی تو عمر کے خاندان کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کل کو خدا کے سامنے ان میں سے صرف ایک آدمی سے ہی حساب لیا جائے گا۔ (بخاری۔ باب الاستخلاف)

طلبِ امارت کے دلائل

ان تصریحات کے بعد ایک مسلمان کے لئے تو اعتراض کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ لیکن جمہوریت پرستوں نے یہاں بھی بہت سی جولانیاں دکھائی ہیں اور مندرجہ ذیل آیات سے طلب امارت کی درخواست یا آرزو ثابت کی ہے:

پہلی دلیل:

حضرت یوسف علیہ السلام کی عزیز مصر سے درخواست۔

﴿قالَ اجعَلنى عَلىٰ خَزائِنِ الأَر‌ضِ ۖ إِنّى حَفيظٌ عَليمٌ ﴿٥٥﴾سورة يوسف

ترجمہ: یوسفؑ نے بادشاہ مصر سے کہا: اس ملک کے خزانوں پر مجھے مقرر کر دو کیونکہ میں حفاظت بھی کر سکتا ہوں اور اس کام سے واقف ہوں۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ طلب عہدہ کی درخواست نہیں تھی۔ اقتدار تو انہیں پہلے سے بِن مانگے ہی مل چکا تھا۔ اس سے پہلی آیت اس طرح ہے:

﴿وَقالَ المَلِكُ ائتونى بِهِ أَستَخلِصهُ لِنَفسى ۖ فَلَمّا كَلَّمَهُ قالَ إِنَّكَ اليَومَ لَدَينا مَكينٌ أَمينٌ ﴿٥٤﴾ سورةيوسف

بادشاہ نے کہا۔ یوسف کو میرے پاس لاؤ تاکہ میں اسے اپنے لئے مخصوص کر لوں۔ جب یوسفؑ نے اس سے گفتگو کی تو کہنے لگا۔ آج سے آپ ہمارے نزدیک قدر و منزلت رکھتے ہیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے قالَ اجعَلنى عَلىٰ خَزائِنِ الأَر‌ضِ کہنے سے مراد وزارت مالیات کی درخواست نہیں تھی بلکہ آپ نے مکمل اقتدار کا مطالبہ کیا تھا جو حالات کی نزاکت کے پیش نظر فرعون کو ماننا پڑا۔ جس کے بعد فرعون مصر کی بادشاہت ختم ہو کر رہ گئی۔ چنانچہ اس سے اگلی آیت یوں ہے:

﴿وَكَذٰلِكَ مَكَّنّا لِيوسُفَ فِى الأَر‌ضِ يَتَبَوَّأُ مِنها حَيثُ يَشاءُ...﴿٥٦﴾سورة يوسف

اسی طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف کو اقتدار بخشا۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔

چنانچہ اس تبدیلیٔ اقتدار کے بعد قرآن نے پہلے فرعونِ مصر کو کبھی مَلِک کے لفظ سے یاد نہیں کیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ہستی ہی ختم ہو چکی تھی۔ اس واقعہ کے بعد مَلِک کا لفظ حضرت یوسف علیہ السلام کے لئے استعمال ہوا ہے۔

پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا ایک نبی یہ گوارا کر سکتا ہے کہ ایک کافرانہ حکومت کا کل پرزہ بن کر اس کی چاکری گوارا کرے۔ اگر حضرت یوسف علیہ السلام کو ایسی ملازمت کی خواہش ہوتی تو اس طرح کے موقعے تو وہ اس سے پہلے بھی پیدا کر سکتے تھے۔ اتنی مدت قید و بند کی سختیاں کیوں جھیلیں؟

دوسری دلیل:

دوسری آیت جس سے طلب امارت کا جواز پیش کیا جاتا ہے وہ یہ دعا ہے جو مسلمانوں کو سکھلائی گئی ہے:

وَاجعَلنا لِلمُتَّقينَ إِمامًا ﴿٧٤﴾الفرقان

اے خدا تو ہمیں متقین کا امام بنا دے۔

کہا یہ جاتا ہے کہ ''متقین کی امامت اسلامی مملکت میں ایک بلند ترین منصب ہے جب دعا کے ذریعے اس کی خواہش کی جا سکتی ہے تو دوسرے مناصب کو کس طرح شجر ممنوعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔''

اس کا جواب ہم اپنی طرف سے نہیں دیتے بلکہ تفہیم القرآن کے حاشیہ پر ہی اکتفا کریں گے۔

''یعنی ہم تقویٰ اور طاقت میں سب سے بڑھ جائیں۔ بھلائی اور نیکی میں سب سے آگے نکل جائیں۔ محض نیک ہی نہ ہو بلکہ نیکوں کے پیشواہوں اور ہماری بدولت دنیا بھر میں نیکی پھیلے۔ اس چیز کا ذکر بھی یہاں دراصل یہ بتانے کے لئے کیا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مال و دولت اور شوکت و حشمت میں نہیں بلکہ نیکی و پرہیزگاری میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہمارے زمانے میں کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں جنہوں نے اس آیت کو بھی امامت کی امیدواری اور ریاست کی طلب کے لئے دلیلِ جواز کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ''یا اللہ! متقی لوگوں کو ہماری رعیت اور ہم کو ان کا حکمران بنا دے۔'' اس سخن فہمی کی داد ''امیدواروں'' کے سوا اور کون دے سکتا ہے؟

بعض دوسرےلوگ اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مملکت کے تمام حکام کا متقی ہونا ضروری ہے۔ اور امیر یا سربراہ تو بہت ہی زیادہ متقی ہونا چاہئے۔ گویا یہ آیت امارت کی اہلیتوں میں سے ایک اہم اہلیت پر دلالت کرتی ہے۔

تیسری دلیل:

تیسری آیت جس سے استدلال کیا جاتا ہے وہ یوں ہے:

﴿وَاجعَل لى مِن لَدُنكَ سُلطـٰنًا نَصيرً‌ا ﴿٨٠﴾الإسراء
اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ و تذکیر سے ناممکن ہے۔ اس کے لئے سیاسی اقتدار کے حصول سے کسے انکار ہو سکتا ہے اور اسلام کی سربلندی، اقامتِ دین، نفاذ شریعت اور حدود اللہ کے اجراء کے لئے سیاسی اقتدار کے حصول کی خواہش رکھنا جائز ہی نہیں عین مطلوب یہ ہے اور اسی لئے اللہ نے خود یہ دعا حضور کو سکھائی۔

یہ آیت سورۂ بنی اسرائیل کی ہے جو مکی دور کے آخر میں نازل ہوئی۔ جبکہ اسلام ابھی کمزور تھا اور اسلامی ریاست قائم نہیں ہوئی تھی۔ مکی دور میں ہی آنحضرت ﷺ نے یہ دعا بھی فرمائی تھی۔ ''اے اللہ ہر دو عُمر میں سے (عمر بن الخطاب اور عمر بن الحکم یعنی ابو جہل) کسی ایک عمر کو مسلمان کر کے اسلام کی مدد فرما۔'' چنانچہ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی۔ اسی طرح آیت کا مفہوم واضح ہے کہ یا تو خود مجھے اقتدار عطا کر یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے تاکہ اسلام سر بلند ہو سکے۔ اور اگر یہی خواہش جاہ طلبی اور مفاد پرستی پر مبنی ہو تو گناہ بن جاتی ہے جیسا کہ بے شمار احادیث سے ثابت ہے۔ جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیات سے جو طلبِ عہدہ کی درخواست کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ حضرت علیؓ کے اس قول سے مناسبت رکھتی ہے جو آپ نے ''تحکیم قرآن'' کے سلسلہ میں خوارج کے متعلق کہی۔ آپ نے فرمایا تھا۔ کلمۃ الحقِّ ارید بہ الباطل یعنی بات سچی ہے لیکن اسے غلط معنی پہنائے جا رہے ہیں۔

طلب عہدہ سے متعلق احادیث پر اعتراض

ہمارے جمہوریت نواز دوستوں نے ہی انکشاف بھی فرمایا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے جس جس مقام پر بھی طلب عہدہ سے منع کیا ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ اس شخص کو کسی نہ کسی ....... سے اس کا اہل نہ سمجھتے تھے۔ مثال کے طور پر صرف ایک حدیث پیش کرتے ہیں جو یہ ہے:

یا أبا ذرٍّ إنك ضعیف وإنھا أمانة وإنھا یوم القیمة خزي وندامة إلا من أخذ بحقھا وأدی الذي علیه (مسلم کتاب الامارة)

اے ابو ذر! تو ایک ضعیف آدمی ہے اور امارت ایک امانت ہے۔ جو قیامت کو رسوائی اور ندامت کا باعث ہو گی۔ مگر جس نے اس کی ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھایا اور اس کے سب حقوق ادا کیے۔

ساتھ ہی ساتھ یہ ارشاد بھی ارشاد بھی فرما دیا گیا ہے کہ ایسی احادیث جن میں طلب عہدہ سے منع کیا گیا ہے۔ اور خبر واحد کی بنا پر قرآنی آیات و احکام کو مقید نہیں کیا جا سکتا۔ یا اگر تعارض پیدا ہو تو نص قرآنی کے مقابلہ میں خبر واحد کا ترک اولیٰ ہے۔

امتناع طلب امارت کے متعلق بے شمار صحیح احادیث موجود ہیں۔ ان میں سے نہایت اختصار کے ساتھ ہم نے صرف پانچ احادیث درج کی ہیں۔ انہیں ایک بار پھر پڑھ لیجیے کہ ان احادیث میں سائل کی کون کونسی کمزوری کا ذکر ہے۔ نیز یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ان احادیث میں جاہ طلبی، اس کی خواہش اور درخواست سے کس شدت سے منع کیا گیا ہے۔

اور یہ خبر واحد کا نکتہ بھی خوب رہا۔ یہ نکتہ اگر دوسرے موضوعات سے متعلق متواتر اور صحیح احادیث پر آپ اگر فٹ گرنے لگیں تو شاید ہمارے دین کا حلیہ ہی بگڑ کر کچھ کا کچھ بن جائے۔

اگر اسی طرح پہلے آیات کی من مانی تاویل کر لی جائے۔ پھر احادیث کو خبر واحد قرار دے کر ان کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا جائے تو پھر بے چارے مرزائیوں کا کیا قصور ہے اور پرویزی کیوں موردِ الزام ٹھہرتے ہیں۔ وہ بھی اس سے زیادہ تو کچھ نہیں کرتے۔ ہم ایک بار پھر یہ دعا کرتے ہیں۔

﴿رَ‌بَّنا لا تُزِغ قُلوبَنا بَعدَ إِذ هَدَيتَنا...﴿٨﴾اٰل عمران
اے پروردگار! جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ نہ پیدا کر۔

چند استفسارات اور ان کا جواب:

بحث کے آخر میں چند سوالوں کا جواب دینا ضروری ہے پہلا سوال یہ ہے کہ آیا شوریٰ کی رکنیت کوئی منصب ہے بھی یانہیں۔ اور کیا شوریٰ کے علاوہ دوسرے مناصب مثلاً منصفی، ججی، ڈپٹی کمشنری، تحصیلداری، کلرکی، چوکیداری وغیرہ سب کے لئے درخواست دینا ممنوع قرار پائے گی؟

اس سوال میں بڑی ہوشیاری سے خلط مبحث کیا گیا ہے۔ آپ حضرات تو اسمبلی کی وکالت کر رہے ہیں لہٰذا بات بھی اسی کی ہونی چاہئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ فی الواقعہ ایک منصب ہے۔ اسمبلی کے ارکان قومی خزانہ سے تنخواہ اور کئی طرح کے الاؤنس وصول کرتے ہیں۔ نیز ان سے حلف وفا داری بھی لیا جاتا ہے ۔ کیا پھر بھی اس کے منصب ہونے میں کوئی شک رہ جاتا ہے۔ رہا شوریٰ کی رکنیت کا مسئلہ تو بلا خوف ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک منصب ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ خلافت ایک منصب ہے۔

جو لوگ اولو الامر کی تعریف میں آسکتے ہیں ان سب کے لئے درخواست دینا ممنوع ہے۔ اولو الامر کو ہم اپنی زبان میں ''حکام'' کہہ سکتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو شوری، انتظامیہ اور عدلیہ کی کلیدی اسامیوں پر فائز ہوتے ہیں۔ کلرک، تحصیلدار اور چپڑاسی وغیرہ حاکم نہیں ہوتے۔ اولو الامر سے مراد آج کے دَور میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج، انتظامیہ میں کلیدی اسامیوں پر براجمان افسر ہیں۔ جن کا انتخاب (SELECTION) آج بھی صدر مملکت اپنی صوابدید پر کرتا ہے۔ وہ اپنے مشیروں سے مشورہ ضرور لیتا ہے۔ مگر اس مشورہ کو قبول کرنے کا پابند نہیں۔ ایسے حکام نہ خود درخواست کرتے ہیں نہ ان سے درخواست طلب کی جاتی ہے۔

البتہ یہ بات حیران کن ضرور ہے کہ کلرک اور چپڑاسی تک تو اس کے منصب کے مطابق اس کی اہلیتوں کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے مگر ایک قانون ساز ادارہ کے لئے فرد کے لئے اس کے سوا کسی اہلیت کا ذکر نہیں ملتا کہ وہ ۲۵ سال سے کم عمر کا نہ ہو۔ اس نام فہرست میں درج ہو اور پچھلے ۵ سالوں میں کسی عدالت سے سزا یافتہ نہ ہو؟ کیا اس منصب کے لئے اتنی اہلیت یا نا اہلیت کا کافی ہے۔ فیا للعجب۔

کسی دوست نے یہ نکتہ بھی اُٹھایا تھا کہ آج کل نمائنگی کی درخواست میں نام کوئی دوسرا پیش کرتا ہے اور تائید بھی کسی اور کی طرف سے ہوتی ہے۔ اور یہی کچھ حضرت ابو بکرؓ کی خلافت کے وقت ہوا۔ نام حضرت عمرؓ نے پیش کر دیا۔ تائید حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اور پھر دوسروں نے کی۔ اب اگر حضرت ابو بکرؓ کی خلافت درست اور جائز ہے تو درخواست دہندہ کی یہ کارروائی کیسے ناجائز ہوئی؟

اسی طرح ایک اور صاحب نے خلفائے راشدین کے انتخاب پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:

حضرت عمرؓ کی نامزدگی ہوئی اور چند افراد سے مشورہ کیا گیا۔ اس کے بعد حضرت .... کا انتخاب چھ نامزد کردہ آدمیوں سے ہوا۔ حضرت علیؓ کا انتخاب برسرِ عام ہوا۔ اگر تدریجی ارتقا جاری رہتا تو تھوڑی ہی مدت بعد انتخاب یہی شکل اختیار کر لیتا۔ جو آج کل پایا جاتا ہے۔

پہلے سوال کے جواب میں تو ہم یہ عرض کریں گے آج کل معاملہ صرف نام پیش کرنے اور تائید کرنے تک محدود نہیں۔ عہدہ کی خواہش۔ درخواست (از طرف نمائندہ) نشان کنویسنگ، تشہیر، بے پناہ اخراجات، امیدواری کا حلاف نامہ، ضمانت، الیکشن ایجنٹ اور پولنگ ایجنٹ کا تقرر اور اس دوران ہر طرح کے جائز و ناجائز حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ تو کیا یہ سب کچھ حضرت عمرؓ کے نام پیش کرنے اور ابو عبیدہ بن الجراحؓ کی تائید سے جائز ثابت ہو جاتا ہے؟

آج کل مسجدوں میں مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے انتخابات بھی بالاکل سادہ اور فطری طریقہ سے ہوتے ہیں۔ ایک شخص صدارت کے لئے نام پیش کرتا ہے۔ کوئی دوسرا اس کی تائید کر دیتا ہے تو وہ صدر نامزد ہو جاتا ہے۔ نہ کوئی درخواست نہ تشہیر نہ ووٹوں کی گنتی، نہ ہی دوسرے دھندے ہوتے ہیں۔ اسی طرح سیکرٹری اور دوسرے عہدہ داروں کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ یہی طریقۂ انتخاب فطری اور شریعت کے عین مطابق ہے۔ اب اس طریق انتخاب اور موجودہ الیکشن اسسٹنٹ میں جو فرق ہے وہ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔ ؎

ببیں تفاوت ایں از کجاست تابہ بکجا

اور دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ واقعات کو گول مول کر کے پیش کرنا تو درکنار یہ تبصرہ نگار صاحب خلافت راشدہ کی پہلی اور آخری کڑی (یعنی حضرت ابو بکرؓ اور حضرت حسنؓ کا انتخاب) کا ذکر چھوڑ گئے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے ان کا یہ نظریۂ ارتقاء باطل قرار پاتا تھا۔ اسی سے آپ کی دیانت کا پتہ چل جاتا ہے۔


نوٹ

حضرت عائشہ اور جنگ جمل:

خلافت راشدہ کے چالیس سالہ دور میں ہمیں صرف ایک مثال ایسی ملتی ہے جہاں میدان سیاست میں کسی عورت نے حصہ لیا ہو اور وہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی جنگ میں شمولیت اور قیادت ہے جنہوں نے شہادت عثمان اور قصاص کے جذبہ شدید کی وجہ سے جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ تو حضرت علیؓ نے اس اقدام کے متعلق انہیں لکھا کہ:

فإنك خرجت غاضبة لِلّٰه ولرسوله تطلبین أمرا کان علیك موضوعاً ما بال النسوة والحرب وإصلاح بین الناس (الامامة والسیاسة لابن قتیبة من ۷۰)

''آپ اللہ اور رسول (کے احکام، قصاص) کے لئے غضب ناک ہو کر ایک ایسے معاملہ کے لئے نکلی ہیں۔ جس کی ذمہ داری سے آپ سبکدوش تھیں۔ بھلا عورتوں کا جنگ اور لوگوں میں مصالحت سے کیا تعلق ہے؟''

اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ جو اس جنگ جمل میں غیر جانبدار تھے اور جنہیں حضور اکرمؓ نے ''نیک بخت آدمی'' (بخاری کتاب المناقب) فرمایا تھا۔ کی حضرت عائشہؓ کی جنگ میں شمولیت کے متعلق یہ رائے تھی۔

إن بیت عائشة خیر لھا من ھودجھا (الامامة والسیاسة لابن قتیبة ص ۶۱)

''حضرت عائشہؓ کا گھر ان کے لئے ہودج سے بہتر ہے۔''

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ:

1. حضرت عائشہؓ کی جنگ میں شمولیت کی اصل وجہ حضرت عثمانؓ کا قصاص تھا نہ کہ سیاسی معاملات میں دلچسپی اور عمل دخل۔ اگر قانون شرعی کے مطابق قصاص کا مسئلہ طے ہو جاتا تو انہیں شمولیت سے کوئی غرض نہ تھی۔ جیسا کہ اس موقع پر صلح کی بات چیت سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کے نزدیک اس معاملہ کی نوعیت سیاسی ہرگز نہ تھی۔

2. ان حالات میں بھی اکابر صحابہؓ نے حضرت عائشہؓ کی شمولیت کو مناسب نہیں سمجھا۔

حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف نے خلافت عثمان کے تقرر کے سلسلہ میں بعض پردہ نشین عورتوں سے بھی مشورہ لیا تھا۔ اس واقعہ سے عورت کا حق رائے دہی ثابت کیا جاتا ہے۔ جو دو جہ سے غلط ہے:۔

1. مشورہ ان کے گھر پر لیا گیا، پردہ کی حدود و قیود کو توڑا نہیں گیا۔ نہ انہیں خود کہیں جا کر مشورہ سے مطلع کرنے کو کہا گیا۔

2. صرف ان عورتوں سے مشورہ کیا گیا۔ جنہیں اس کا اہل سمجھا گیا۔

رہا صاحب الرائے عورتوں کے مشورہ سے استفادہ کا معاملہ تو اس پر کوئی پابندی نہیں۔ اکابر صحابہؓ حضرت عائشہؓ سے مسائل پوچھتے اور مشورہ لیا کرتے تھے۔

مغربی تہذیب مذہب سے بیزاری اور لا دینیت کے نتیجہ میں معرض وجود میں آئی۔ موجودہ دور کا مہذب انسان اپنے مسائل خدا کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر حل کرنے پر مصر ہے۔ انہی مسائل میں سے ایک شادی کا مسئلہ بھی ہے۔ ''مساوات مرد و زن اور عورت کی آزادی'' کے نعروں کی مقبولیت کے بعد۔ عورت کی آزادی سے یہ مطلب لیا جانے لگا کہ وہ اپنے گھر کو خیر باد کہہ کر ہر شعبہ میں مرد کے دوش بدوش کام کرے۔ اب عورت مرد کے ساتھ صرف صنفی حد تک منسلک رہ گئی ہے۔ گھر کے کام کاج اور بچوں کی تربیت سے اس نے خلاصی حاصل کر لی ہے۔ معاشی طور پر بھی اب وہ مرد کے زیرِ بار نہیں۔ جب دونوں میں سے کسی ایک کا دوسرے سے جی بھر جاتا ہے تو نئے ازدواجی تجربے شروع کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح نکاح کا یہ بندھن جو مقدس اور مذہبی فریضہ سمجھ کر زندگی بھر اسے نبھانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ محض ایک ذاتی فعل سمجھا جاتا ہے۔

عورت کو مساویانہ حقوق اور آزادی دینے کے بعد مغربی ممالک بے شمار خاندانی مسائل سے دو چار ہو چکا ہے۔ خاندانی زندگی کا شیراہ بکھر رہا ہے۔ اکثر بچے نرسریوں اور سکولوں میں پلتے ہیں۔ ماں کی مامتا، باپ کی شفقت اور خاندانی برکات سے محروم رہتے ہیں۔ مشرقی ممالک جوں جوں مغربی تہذیب کا اثر قبول کر رہے ہیں وہ بھی ایسے ہی مسائل سے دو چار ہو رہے ہیں۔ اس ''جدید خاندان'' کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی ناپائیداری اور طلاقوں کی بھرمار ہے اور بہت کم شادیاں صحیح معنوں میں کامیاب قرار دی جا سکتی ہیں۔ عائلی نظام کی ناپائیداری کے باعث بہت سے دیگر ذیلی مسائل پیدا ہو گئے ہیں مثلاً:

(۱) طلاقوں کی کثرت (۲) میاں بیوی میں اکثر ناچاقی رہنا (۳) بچوں سے عدم توجہی اور غفلت (۴) نافرمان اولاد (۵) میاں بیوی دونوں کا گھریلو ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے گریز کرنا وغیرہ۔

ایسی صورتِ حال کی وجہ سے ہی سیاسیات کے مفکرین میں اس بات پر اختلاف رائے ہے کہ خواتین کو حق رائے دہی ملنا چاہئے یا نہیں۔ دنیا کے متمدن ترین ممالک میں بیسویں صدی کے ربع اوّل تک عورتوں کو حق رائے دہی نہیں ملا تھا۔ انگلستان میں یہ حق ۱۹۲۸ء میں، فرانس میں ۱۹۴۶ء میں اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ۱۹۶۴ء میں عورتوں کو یہ حق دیا گیا۔ سوئٹزر لینڈ میں جو کہ دنیا کی متمدن ترین اول درجے کی جمہوری ریاست شمار ہوتی ہے ابھی تک خواتین کو حق رائے دہی نہیں دیا گیا۔ وجہ یہ ہے کہ خواتین کا چونکہ دائرۂ کار الگ ہے اس لئے انہیں ملکی سیاسیات کی خار دار وادیوں میں گھسیٹ لانا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ اب بھی جو یہ حق عورتوں کو عطا ہوا ہے تو اس کے پیچھے دراصل مرد و زن کی ظاہری مساوات کا وہ مغربی تصور ہے جس کے مطابق خواتین کے قدرتی فرائض اور ان کی گھریلو ذمہ داریوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

حقیقی مساوات:

مساوات کا کبھی یہ مطلب نہیں لیا جاتا کہ ہر شخص ایک ہی جیسا معیار زندگی رکھتا ہو اور ایک ہی پیشہ اختیار کیے ہوئے ہو۔ جس طرح ایک ڈاکٹر اور ایک انجینئر بالکل الگ الگ نوعیت کے فرائض ادا کرنے کے باوجود مساوی مرتبہ کے انسان ہی رہتے ہیں اسی طرح اگر عورت اپنے مخصوص دائرۂ کار میں اپنے گھریلو فرائض اچھے طریقے سے سرانجام دے رہی ہے تو وہ بھی مساوی انسانی مرتبہ سے گِر نہیں جاتی۔

طلب جاہ کا امام فرعون اور طلب مال کا امام قارون تھا۔

تحریک آزادی و دستور پاکستان از فاروق اختر نجیب ص ۴۵۲

ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے اہل شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

''تمہیں عوام نے اس منصب پر فائز نہیں کیا بلکہ اس منصب کے لئے تمہیں اس لئے اہل تصور کیا گیا ہے کہ تمہارا تعلق رسول اللہ ﷺ سے قریبی تھا اور حضور اکرم ﷺ بھی تمہیں عزیز رکھتے تھے۔ (طبری۔ بحوالہ واقعہ کربلا از ابو بکر غزنویؒ)