3. سیاسی جماعتوں کا وجود

کیا انصار و مہاجرین سیاسی جماعتیں تھیں؟

مہاجرین و انصار میں خلافت کے معاملہ پر سقیفہ بنی ساعدہ میں چند لمحات کے لئے نزاع پیدا ہوئی جو اسی مقام پر ختم ہو گئی۔ تو اس واقعہ کی بنا پر مہاجرین و انصار کو آج کل کی سیاسی پارٹیوں کے مماثل قرار دینا، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے جمہوریت نواز دوستوں کی بہت بڑی جسارت ہے۔ جب یہ مہاجرین اولین مکّہ کی گلیوں میں پِٹ رہے تھے اور کفّار کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنے ہوئے تھے تو کیا یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا تھا کہ ہم کسی نہ کسی وقت کاروبارِ حکومت پر قابض ہوں جیسا کہ موجودہ دور کی سیاسی پارٹیوں کا بنیادی مقصود ہی یہ ہوتا ہے۔

مہاجر اور انصار تو صفاتی نام ہیں جو ان کو خود اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے تھے۔ کیا یہ گروہ مہاجرین و انصار ایسے ہی اغراض و مقاصد کے تحت وجود میں آئے تھے۔ جیسے موجودہ دور میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل ہوتی ہے؟ کتنا گھناؤنا الزام ہے یہ صحابہ کبارؓ پر۔

اب ذرا جمہوریت کے علمبرداروں کی زبانی سیاسی جماعت کی تعریف سنیے۔ بعد میں فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔

1. میک آئیور۔ ''ایسی جماعت جو کسی اصول یا پالیسی کی بنیاد پر منظم ہو اور جو آئینہ ذرائع سے حکومت سنبھالنے کی کوشش کرے۔''

2. گلکرائسٹ۔ ''شہریوں کا ایک منظم گروہ جو ایک ہی سیاسی عقیدہ رکھتے ہیں اور جو سیاسی اتحاد کے ذریعہ اقتدار حکومت کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔''

3. لارڈ برائس۔ ''منظم جماعتیں جن کی رنکیت رضا کارانہ ہوتی ہے اور جن کا پورا زور سیاسی طاقت کے حصول پر صرف ہوتا ہے۔'' (اصول سیاست مصنفہ صفدر رضا صدر شعبہ سیاسیات بعنوان سیاسی جماعتیں ص ۳۰۹ پانچواں ایڈیشن)

گویا موجودہ جمہوری دَور میں ایک سیاسی جماعت میں تین عناصر کا وجود ضروری ہے (۱) کسی مخصوص سیاسی عقیدہ کی بنا پر اس کی تشکیل (۲) رضا کارانہ تنظیم اور (۳) تشکیل کا مقصد اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں جو سیاسی جماعتیں الیکشن ہار جاتی ہیں۔ وہ حزبِ اختلاف کی شکل میں اپنا مستقل وجود برقرار رکھتی ہیں۔ یہ جمہوری طرزِ انتخاب میں لازمی ہے جس کے بغیر اسمبلیاں تشکیل پا ہی نہیں سکتیں۔ اب بتلائیے کہ حضرت ابو بکرؓ کی خلافت کے انعقاد کے بعد کونسا حزبِ اختلاف باقی رہ گیا تھا؟

پھر اس حزب اختلاف کا کام حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرنا ہے۔ اور چونکہ ہر سیاسی جماعت۔ خواہ وہ حزب اقتدار ہو یا حزبِ اختلاف میں ہو۔ اپنا مستقل سیاسی عقیدہ رکھتی ہے۔ لہٰذا حکومت کی پالیسی پر تنقید کے وقت فریقین میں انا کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا مفاہمت کی بجائے مناقشت ہی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اب فرمائیے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں کیا ہوا؟ حضرت ابو بکرؓ نے رسولِ خدا کا ایک فرمان پیش کیا۔ جس کے آگے انصار نے سر تسلیمِ خم کر دیا اور امت میں پیدا شدہ انتشار کا طوفان اسی دم تھم گیا۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے ''سیاسی عقیدے'' الگ الگ نہیں تھے۔ تو کیا اندریں صورت حال انصار یا مہاجرین کو موجودہ سیاسی جماعتوں کے مماثل قرار دیا جا سکتا ہے؟

کیا عرب قبائل سیاسی جماعتیں تھیں؟

بعض دوسرے دوست مہاجرین و انصار کا نام تو نہیں لیتے وہ قبائل کو سیاسی جماعتوں کے مماثل قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اوس اور خزرج میں اندرونی طور پر رقابت موجود تھی۔ لیکن وہ اس ''انتخابی معرکہ'' میں متحد ہو گئے تھے۔ اسی طرح بنو ہاشم اپنے مفاد کی خاطر مہاجرین سے الگ ہو گئے تھے اور عرب میں قبائلی نظام، ان کی آپس میں رقابتیں اور لڑائیاں، یہ سب کچھ ایک دوسرے پر مسابقت اور حصولِ اقتدار کے لئے ہوتا تھا۔ اور پھر اس قبائلی نظام کی اسلام نے مذمت نہیں کی بلکہ یہ کہہ کر حوصلہ افزائی ہی کی ہے۔

﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّا خَلَقنـٰكُم مِن ذَكَرٍ‌ وَأُنثىٰ وَجَعَلنـٰكُم شُعوبًا وَقَبائِلَ لِتَعارَ‌فوا...١٣
لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔

اس آیت کا مطلب تو صاف ہے کہ قبائل کا وجود فطری طور پر ظہور میں آیا ہے اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب آبادی بڑھ جاتی ہے تو ایک دوسرے کو پہچاننے کا یہ ایک ذریعہ ہے۔ ہم ان دوستوں کی ذہانت کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جنہوں نے تعارف کے معنی کو بھی ''غالب و مغلوب'' کا جامہ پہنا دیا۔

برا ہو جمہوریت پرستی کا، اس نے انسانی ذہن کو کن راہوں پر ڈال دیا ہے۔ کیا ان بزرگ ہستیوں کے متعلق یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اسلام لانے کے بعد بھی ان میں پرانی جاہلیت برقرار رہی تھی؟ کیا وہ سقیفہ بنی ساعدہ میں چند لمحات کی نزاع کے بعد اسی طرح شیر و شکر نہیں ہو گئے تھے۔ جس طرح پہلے تھے؟ کیا ایسے اہم معاملہ میں وقتی شکر رنجی کے بعد فوری مفاہمت کے بلند کردار کی کوئی اور مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے؟

یہ درست ہے کہ بنو ہاشم کے چند افراد نے کچھ عرصہ تک بیعت نہیں کی۔ لیکن کیا کوئی ایک ادنیٰ سی مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کر کے حزب اختلاف کا کردار ادا کیا ہو؟ یا اپنا مستقل وجود برقرار رکھنے پر اصرار کیا ہو۔ اگر کسی اجتہادی غلطی یا بشری لغزش اور قرابتداری کی بنا پر بنو ہاشم خود کو خلافت کا حق دار سمجھتے تھے تو کیا انہوں نے اس معاملہ میں عصبیت اختیار کی تھی؟ آخر وہ کون سی بنیاد ہے کہ انہیں ہم موجودہ سیاسی جماعتوں کے مماثل قرار دے سکیں؟

سیاسی فرقوں اور مذہبی فرقوں میں فرق:

سیاسی جماعتوں کے وجود کے جواز میں یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ اگر فقہی اختلاف یا مذہبی فرقوں کا وجود برداشت کر لیا گیا ہے تو آخر سیاسی اختلاف اور سیاسی جماعتوں کے وجود کو کیوں ناجائز سمجھا جاتا ہے؟ ہم یہ عرض کریں گے کہ فقہی اختلاف سے مراد قرآن و سنت کی تعبیر کا اختلاف ہے۔ قرآن و سنت کے علاوہ کچھ نہیں لیکن اس اختلاف میں بھی جب عصبیت پیدا ہو جائے تو فرقہ پرستی تک نوبت پہنچ جائے تو یہ بھی کفر ہے ۔ پھر ایک غلط بات کو جائز قرار دے کر اس کو دوسری غلط چیز کے لئے بنیاد قرار دے دینا کہاں تک درست ہے؟ سیاسی اختلاف ہونا ایک فطری بات ہے لیکن اس اختلاف کو عقیدہ کا رنگ دینا پھر اپنے ہم خیال لوگوں کا منظم ہونا اور پھر حصولِ اقتدار کے لئے کوشش کرنا اور پھر اسے درست سمجھنا اور اس پر اڑے رہنا ایک گمراہ کن امر ہے۔

مذہبی فرقوں اور سیاسی فرقوں میں دوسرا فرق یہ ہے کہ مذہبی قائدین نے کبھی اپنے قیاس و مسلک کو قابلِ اتباع قرار نہیں دیا کہ اس عقیدہ کو لوگ اپنا کر فرقہ بنائیں اور اگر لوگ بنا لیں تو ان کو اپنی غلطی ہے جس سے قائد بیزار ہوتے ہیں۔ جبکہ سیاسی جماعتوں میں ایسی تنظیم بنانا لازمی شرط ہے۔ اور ان قائدین کا یہی مقصد ہوتا ہے۔

اور تیسرا فرق یہ ہے کہ مذہبی فرقوں کا مقصد عوام کی اکثریت کو اپنے ساتھ ملانا اور اقتدار پر قبضہ یا اس کے حصول کی کوشش کرنا نہیں ہوتا جبکہ سیاسی جماعتوں کا اصل مقصود ہی یہ ہوتا ہے کہ ملک میں اپنی اکثریت پیدا کرنے کے لئے نشست و انتشار پیدا کیا جائے اور پھر اس راستہ سے حکومت میں سے حصہ رسدی حاصل کرنے کے لئے راستہ ہموار کیا جائے۔

ایک اعتراض اور اس کا جواب:

ایک استفسار یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ''اگر اسلام سیاسی جماعتوں کا وجود گوارا نہیں تو جماعت اسلامی اور سید احمد شہید کی جماعت کے متعلق کیا خیال ہے؟''

جواب:

سطح زمین پر آباد مخلوق انسانی کی دو ہی قسمیں قرآن کریم نے بتلائی ہیں۔

﴿هُوَ الَّذى خَلَقَكُم فَمِنكُم كافِرٌ وَمِنكُم مُؤمِنٌ ...سورةالتغابن﴿٢

وہی تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا۔ پھر کوئی تم میں کافر ہے اور کوئی مومن۔

اسی مضمون کو قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پر حزب اللہ اور حزب الشیطان کے نام سے پکارا ہے۔ گویا بنیادی طور پر سیاسی پارٹیاں دو ہی ہیں (۱) اللہ کی پارٹی یا مسلمانوں کی جماعت (۲) شیطان کی پارٹی یا پوری دنیائے کفر۔

مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ و انتشار پیدا کرنا یا مذہبی اور سیاسی پارٹیاں بنانا بڑا جرم ہے جس کی تفصیل ہم ''امت مسلمہ'' کے تحت پیش کر چکے ہیں۔ مغربی جمہوریت جیسے لا دینی نظام میں ایسی سیاسی پارٹیوں کا وجود، جو خلوص نیت سے دین کی سربلندی کے لئے کوشاں ہوں، صرف اس حد تک اضطراراً گوارا کیا جا سکتا ہے کہ بے دینی کے بڑھتے ہوئے سیلاب میں کچھ نہ کچھ رکاوٹ پیدا کرتی رہیں۔ اور یہ اَھْوَنُ الْبَلِیّتَیْن میں سے ایک کم ضرر والی صورت کو اختیار کرنے کی شکل ہے۔ اب یہ جماعتیں خواہ جماعت اسلامی ہو، یا جمعیت علمائے اسلام یا جمعیت علمائے پاکستان، سب کی ایک ہی حالت ہے۔ جمہوری نظام کا تقاضا یہ ہے کہ یہ جماعتیں اپنا تشخص برقرار رکھیں جب کہ اسلام نظام کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی سب پارٹیاں اپنا تشخص ختم کر کے ایک ملت واحدہ میں مدغم ہو کر حزب اللہ بن جائیں اور حزب الشیطان کے مقابلہ میں ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ اگر ایسا نہ کریں تو اسے مسلمانوں کی بد بختی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔

اور سید احمد شہید کی جماعت معروف معنوں میں کوئی سیاسی جماعت نہیں تھی جس نے اپنا علیحدہ نام تک رکھنا گوارا نہ کیا بلکہ وہ ایک تحریک تھی۔ جیسا کہ اسلام بذات خود ایک تحریک ہے۔ اس تحریک نے تبلیغ، ہجرت اور جہاد کا بالکل وہی طریق اختیار کیا جو انبیاء علیہم السلام کا شیوہ رہا ہے اور جس طریق سے حضور اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں۔ امتِ مسلمہ کی قیادت کی تھی۔ لہٰذا اسے تحریک علی المنہاج النبوۃ کہنا بالکل بجا ہے۔ اس جماعت نے گاندھی کا طرزِ سیاست اختیار نہیں کیا کہ ظالم کا گریبان پکڑنے کی بجائے اپنا گریبان پھاڑ کر سڑکوں پر واویلا کیا جائے تاکہ اندرونی اور بیرونی رائے عامہ اپنے حق میں استوار کرے۔ گرفتاریاں پیش کرے یا جیل میں اے کلاس کی درخواست کرے اور ضمانت پر رہائی کے بعد پھر گرفتاری اور اس کے بعد بھوک ہڑتال (خود کشی) کی دھمکیاں دیتی پھرے۔

سوچنے کی بات ہے کہ اگر سڑک پر آکر مرنا شہادت ہے تو گولی چلانے والوں کے لئے کیا فتویٰ ہے؟ اور پیٹھ پھیر کر بھاگنے والوں کے متعلق کیا رائے ہے؟ رائے عامہ کو ہموار کرنے کی یہ کوشش اسلام اور جہاد کا نام لیے بغیر بھی کی جا سکتی ہے۔ آخر یہ انداز فکر اسلامی سیاست کا کونسا حصہ ہے۔ جہاں اسلام اور جہاد کا نام لینا ضروری ہو جاتا ہے؟

سید احمد شہید کی تحریک ایسے بے ہودگیوں سے یکسر پاک تھی اور اس نے جو قدم اُٹھایا اسلامی نقطۂ نظر سے بالکل صحیح سمت میں اُٹھایا تھا اور ہماری یہ دعا ہے کہ موجودہ دین پسند سیاسی جماعتیں بھی متحد ہو کر حضور اکرم ﷺ کے اسی اسوہ کی تقلید کریں۔


حوالہ جات

دیکھیے حدیث نمبر ۱۱ زیر عنوان ملّی وحدت۔