طریقِ انتخاب

ہمارے جمہوریت نواز دوست عموماً یہ تاثر دیتے ہیں کہ:

1. سقیفہ بنی ساعدہ اس دَور کا پارلیمان تھا۔

2. جہاں انصار و مہاجرین نے سرکردہ حضرات نے جو اس دَور کے قبائلی نظام کے مطابق اپنے اپنے قبیلہ کے نمائندہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے انتخاب میں حصہ لیا اور

3. نتیجۃً حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کثرت رائے سے منتخب ہو گئے تھے۔

4. انصار و مہاجرین کی حیثیت بھی آج کل کی سیاسی پارٹیوں سے ملتی جلتی تھی۔

لہٰذا اندریں صورت موجودہ دَور کے طرز انتخاب میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جو اسلامی طرزِ انتخاب سے متصادم ہو۔

اب ہم ان چاروں اجزا کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔

1. سقیفہ بنی ساعدہ:

سقف عربی زبان میں چھت کو کہتے ہیں۔ دو مکانوں کے درمیان اگر کوئی گلی ہو اور اس پر چھت ڈال کر خواہ وہ محض سائبان ہو یا لکڑی وغیرہ کی چھت۔ گلی کو سایہ دار بنا لیا جائے تو اسے سقیفہ کہا جاتا تھا۔ سقیفہ کا ترجمان مولانا وحید الزمان نے ''منڈوا'' کہا ہے، بعض دوسرے علماء اسے سائبان سے تعبیر کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے ڈیرا (پنجابی دارا) کہتے ہیں۔

یہ ڈیرہ محض قبیلہ خزرج کی ایک شاخ ''بنو ساعدہ'' کا تھا۔ جس سے حضرت سعد بن عبادہ تعلق رکھتے تھے۔ اور یہ ڈیرہ یا سائبان ان ہی کے مکان سے ملحق تھا۔ فراغت کے اوقات روزہ مرہ کی عام گفتگو کے لئے یہاں چند لوگ جمع ہوجاتے تھے۔ یہ نہ تو کوئی ایسا مقام تھا جو مدینہ بھر کے معززین کے لئے مخصوص ہو۔ یا اس جگہ اتنے آدمیوں کی گنجائش ہو۔ پھر یہ کوئی پولنگ سنٹر بھی نہ تھا کہ کسی کے دل میں یہ خیال تک آسکتا کہ انتخاب کے وقت یہ جگہ ہی موزوں رہے گی۔ لہٰذا اسے، اس سقیفہ کو پوری امت کا پارلیمان قرار دینا ہر لحاظ سے حقائق کے خلاف ہے۔

2. نمائندگان کی موجودگی:

جب عام لوگ اور خصوصاً مہاجرین حضور اکرم ﷺ کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے تو رئیس انصار حضرت سعد بن عبادہؓ نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اپنے چند ہمراہیوں کو اکٹھا کیا۔ ان کا یہی خیال تھا کہ مہاجرین کو اطلاع دیئے بغیر ان کی بے خبری میں خلیفہ کا انتخاب ہو جائے تو پھر کسی کو بھی اس سے اختلاف کرنے کی گنجائش باقی یہ رہے گی۔ لہٰذا وہ اس مسئلہ کو جلد از جلد طے کر لینا چاہتے تھے۔

اتفاقاً کسی صحابی نے حضرت عمرؓ کو اس صورتِ حال سے مطلع کیا اور کہا کہ آپ کو جلد وہاں پہنچ کر خبر لینی چاہئے۔ تو ایک روایت کے مطابق وہ حضرت ابو بکرؓ کو ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت ابو عبیدہؓ بھی دو اور ساتھیوں کو لے کر وہاں پہنچ گئے تھے۔ کیونکہ سقیفہ بنی ساعدہ میں کل چار یا پانچ مہاجرین نے حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔

اب تاریخی حقائق یہ ہیں کہ فہر بن مالک (لقب قریش، قبیلہ قریش کے جد امجد) تک تیرہ پشتوں پر حضور اکرم ﷺ کا نسب جا کر جل جاتا ہے۔ عہد نبوی میں قبیلہ قریش کی بے شمار ذیلی شاخیں موجود تھیں تاہم یہ دس قبیلے زیادہ مشہور تھے۔ جو سب مسلمان ہو چکے تھے۔ ہاشم، اُمیہ، نوفل، عبد الدار، اسد، تیم، مخزوم، عدی، جمح، سہم۔

زمانہ جاہلیت میں قریش کی شرافت و حکومت زیادہ تر ان دس خاندانوں میں منحصر و منقسم تھی۔ ان معزز سردار خاندانوں کی ذمہ داریاں یہ تھیں۔

بنوہاشم کے ذمہ سقایت یعنی حاجیوں کو پانی پلانے کا کام تھا۔

بنو نوفل بے زاد حاجیوں کو توشہ اور زادِ سفر مہیا کرتے تھے۔

بنو عبد الدار کے پاس خانہ کعبہ کی چابی اور دربانی تھی۔

بنو اسد سے متعلق مشورہ اور دار الندوہ کا کام تھا۔

بنو تمیم کے متعلق خوں بہا اور تاوان کا فیصلہ تھا۔

بنو عدی سے متعلق سفارت اور قومی مفاخر سے کام تھا۔

بنو جمح کے پاس شگون کے تیر تھے۔

بنو سھم کے متعلق بتوں کا چڑھاوا وغیرہ تھا۔

بنو امیہ سپہ سالاری ان سے متعلق تھی۔

بنو مخزوم۔ سپہ سالاری (خالد بن ولید اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے)

حضرت ابو بکرؓ اپنے قبیلہ تمیم کے سردار جو خوں بہا اور تاوان کا فیصلہ کرتے تھے۔

حضرت عمرؓ بنو عدی سے تھے اور سفارت کی خدمت انجام دیتے تھے۔ جنگ میں سفیر بن کر جاتے اور مقابلہ میں قومی تفاخر بیان کرتے تھے۔

حضرت ابو عبیدہ بن الجراح فہر کے پوتے الخلج کی اولاد سے تھے گویا یہ مندرجہ بالا دس مشہور قبیلوں کے علاوہ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔

حضرت عبد الرحمٰن بن عوف اور سعد بن وقاص بنو تیم (بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب بن فہما کی اولاد سے تھے۔ یہ خاندان بھی مندرجہ دس خاندانوں کے علاوہ ہے۔

سقیفہ مذکورہ میں بیعت کرنے والے مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ پانچ تک ثابت ہے ضروری نہیں کہ یہ سب قریش سے ہی تعلق رکھتے ہوں۔ اگر ان سب کو قریشی ہی فرض کر لیا جائے تو بھی یہ مندرجہ تین یا زیادہ سے زیادہ چار قبیلوں کے نمائندہ تھے تو کیا اس طرح مغربی طرزِ انتخاب کے تقاضے پورے ہو جاتے ہیں جب کہ قریش کے اکثر قبیلوں کے ووٹ کاسٹ ہی نہیں ہوئے۔

پھر انصار کا معاملہ تو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ انصار میں دو بڑے قبائل اوس اورخزرج شامل تھے۔ جن کی ذیلی شاخوں کی تعداد سینکڑوں تک جا پہنچتی ہے تو کیا وہاں سینکڑوں قبائل کے نمائندوں کی گنجائش تھی۔

پھر انصار نے جس عجلت میں یہ مہم سر انجام دینے کی ٹھان رکھی تھی۔ یہ بات قطعاً بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ تمام قبائلی نمائندوں کو شرکت کی دعوت دی جا سکتی ہو۔ یا اس قلیل وقت میں یا غیر متوقع موقع پر سب سرداروں کا جمع ہونا از خود ناممکنات سے ہے۔

پھر یہ قبائلی سردار اس طرح منتخب نہیں ہوتے تھے جس طرح آج کل کسی وارڈ کے ممبر کا انتخاب کثرت رائے سے ہوتا ہے۔ ان قبائل کا معیار انتخاب بالکل سادہ اور فطری ہوتا تھا۔ عام طور پر تین باتیں ملحوظ رکھی جاتی تھیں۔

(۱) عمر میں بڑا ہونا (۲) سمجھ دار اور تجربہ کار ہونا (۳) اپنی عادات و خصائل کی بنا پر محترم ہونا۔

گویا ان سرداروں کا انتخاب کسی مخصوص مجلس یا مخصوص وقت میں نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ فیصلہ کے لئے چند معززین لوگ اپنی نجی گفتگو اور مجلس میں یہ رائے قائم کر لیتے تھے کہ آج کل فلاں شخص ہی اس رتبہ کا اہل ہے۔ ایسی ہی چند متفرق اور نجی مجلسوں میں رائے زنی کے بعد اسے سردار منتخب کر لیا جاتا تھا۔ اس سردار کے اس منصب کی توثیق کے لئے قبیلہ کے ہر کہ دمہ سے رائے لینا چنداں ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا۔

اسلام نے آکر ان اہلیتوں میں صرف علم اور تقویٰ کا اضافہ کیا اور پہلی اہلیتوں کو برقرار رہنے دیا۔

اب ایک دوسرے پہلو سے بھی غور فرمائیے۔ اس وقت مسلمان صرف مہاجرین و انصار ہی کا نام نہ تھا۔ بلکہ وفات النبی ﷺ کے وقت جزیرۃ العرب میں مسلمانوں کی تعداد بیس لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ تو کیا یہ تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ ان بیس لاکھ افراد کے نمائندوں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں شرکت کی ہو گی اور انصار و مہاجرین کے قبائل کے علاوہ دوسرے قبیلوں کے نمائندے بھی شامل ہوئے ہوں گے۔ ان حالات میں تو یہ انتخاب بالواسطہ انتخاب کے تقاضے بھی پورے نہیں کرتا۔ براہِ راست انتخاب تو دُور کی بات ہے۔

نمائندگی کی ضرورت؟

عوام کے نمائندوں کی ضرورت اس مشہور واقعہ سے جائز ثابت کی جاتی ہے جو بخاری میں متعدد مقامات پر مذکور ہے کہ جب قبیلہ ہوازن کے قیدی حضور اکرم ﷺ نے مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے تو اسی قبیلہ کے سر کردہ لوگ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور التجا کی کہ ان کے قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے۔ حضور اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا اور کہا:

''............. اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی ان کو پھیر دوں۔ جو کوئی خوشی سے چاہے ایسا کرے اور جو اپنا حصہ واپس نہ کرنا چاہے تو وہ ٹھہرا رہے۔ آئندہ جب غنیمت کا مال آئے تو ہم اسے معاوضہ ادا کر دیں گے۔''

لوگوں نے عرض کیا۔ ''یا رسول اللہ ہم بخوشی یہ قیدی واپس کر دیتے ہیں۔''

آپ نے فرمایا: ''مجھے یہ کیسے معلوم ہو کہ تم میں سے کون راضی ہے اور کون نہیں (کیونکہ مسلمان بہت تھے) تم ایسا کرو۔ کہ تم اپنے اپنے نقیبوں (حدیث میں عرفاءکم کا لفظ ہے، عرفاء، عریف بمعنی چودھری کی جمع ہے) سے اپنی اپنی مرضی کہلا بھیجو۔''

یہ سن کر لوگ چلے گئے اور عریف لوگ اپنے اپنے لوگوں سے گفتگو کر کے آپ کے پاس آئے اور کہا۔ ''لوگ برضا و رغبت قیدی واپس کرنے کو تیار ہیں۔'' (بخاری کتاب الجہاد والسیر)

اس واقعہ سے موجودہ طرزِ انتخاب میں نمائندوں کی ضرورت اور جواز ثابت کیا جاتا ہے جب کہ اس واقعہ اور موجودہ انتخابات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اس واقعہ میں لوگوں کو فرداً فرداً اپنے حقِ ملکیت سے دست بردار ہونے کی اپیل کی گئی تھی اور اگر کسی ایک آدمی کی بھی مرضی نہ ہوتی اور وہ مجموع عام میں خاموش رہتا تو یہ ایک قسم کا ظلم تھا۔ لہٰذا ہر ایک ہی فرداً فرداً مرضی معلوم کرنے کی ضرورت تھی جو اہل محلہ یا محلہ کے چوہدری ہی بذریعہ بات چیت معلوم کر سکتے تھے۔ مگر شوریٰ یا امیر کا انتخاب اسلامی نقطۂ نظر سے عوام کا حق ہے ہی نہیں۔ وہ تو ایک ذمہ داری ہے۔ انتخاب کرنے والے اور منتخب ہونے والے سب کے متعدد اوصاف ہیں۔ اور انتخاب کنندگان (یا اہل الرائے) پر ایک ذمہ داری اور بوجھ ہے کہ وہ یہ امات اسی شخص کے حوالے کریں جو اس کا اہل تر ہو ورنہ وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔

3. کثرت رائے اور انتخاب حضرت ابو بکرؓ

ہم بخاری کی حدیث سے ثابت کر چکے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے اپنے بیان کے مطابق صرف انہوں نے اکیلے بیعت کی جسے اللہ تعالیٰ نے کامیاب بنا دیا۔ حضرت عمرؓ کے بعد حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح نے، پھر دو تین ''مزید'' وجود قریشیوں نے بیعت کی۔ اس کے بعد انصار کے موجود لوگوں میں سے اکثر نے بیعت کر لی۔

اب حضرت عمرؓ کا بیان یہ ہے کہ میں نے اکیلے حضرت ابو بکرؓ کی بیعت کی اور خدا نے اسے کامیاب بنایا۔ جس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ بیعت کرنے والوں کی گنتی مقصود نہیں بلکہ خلافت کے انتخاب کے متعلق مشورہ دینے والوں کی گنتی مقصود ہے۔ اور وہ صرف حضرت عمر کی ذات تھی۔

اسی طرح حضرت حسنؓ کی بیعت بھی صرف ایک شخص قیس بن سعد بن عبادہ نے کی۔ بعد میں دوسرے لوگوں نے بیعت کی اور یہ خلافت بھی منعقد ہو گئی جس کی صحت میں انکار کی گنجائش نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ایک فردِ واحد کی رائے پر بھی خلافت کا منعقد ہو جانا ثابت ہے اگرچہ یہ ہنگامی حالات کے تقاضے تھے۔ تو پھر کثرت رائے کا سوال ہی کہاں باقی رہ جاتا ہے۔ جب کثرت رائے حق کا معیار ہی نہیں (جیسا کہ مشورہ کے عنوان کے تحت تفصیلاً مذکور ہے) تو پھر کثرت رائے کو ثابت کرنے کا فائدہ بھی کیا ہے؟ کیا جمہوری طرز انتخاب میں ایسی گنجائش موجود ہے کہ ہنگامی صورت میں کوئی شخص برسرِ اقتدار آجائے یا اسے چند اشخاص لے آئیں تو اسے آئینی سربراہ سمجھ لیا جائے؟


نوٹ

آنحضرت ﷺ کی وفات کا حال سن کر ایک طرف مسجد نبوی میں لوگ جمع ہو گئے تھے ان میں قریباً سب مہاجرین تھے۔ کیونکہ مہاجرین کے مکانات اسی علاقہ میں زیادہ تھے۔ یہاں انصار بہت کم تھے۔ دوسری طرف بازار کے متصل سقیفہ بنی ساعدہ میں مسلمانوں کا اجتماع تھا۔ اس مجمع میں تقریباً سب انصار ہی تھے۔ کوئی دو مہاجر بھی اتفاقاً وہاں موجود تھے۔ (تاریخ اسلام۔ اکبر خاں نجیب آبادی ج ۱ ص ۲۷۵)