جولائی 1981ء

انتخاب حضرت حسنؓ

حضرت علیؓ کی وفات کے قریب آپ سے لوگوں نے کہا اِسْتَخْلِفْ (یعنی اپنا ولی عہد مقرر کر جائیے) آپ نےجواب میں فرمایا: ''میں مسلمانوں کو اسی حالت میں چھوڑوں گا جس میں رسول اللہ نے چھوڑا تھا'' (البدایۃ ج ۸ ص ۱۳-۱۴)

2. ثم قال إن مِتُّ فاقتلوه وإن عشتُ فأنا أعلم کیف أصنع به۔'' فقال جندب بن عبد اللّٰه ''یا أمیر المؤمنین! إن مت نبایع الحسن؟'' فقال ''لا آمرکم ولا أنھا کم، أنتم أبْصَر۔'' (البدایه والنہایه ص ۳۲۷، ج۷)

پھر حضرت علیؓ نے فرمایا: اگر میں مر گیا تو اس (قاتل) کو قتل کر دینا اور اگر میں زندہ رہا تو میں جانوں میرا کام۔'' حضرت جندب بن عبد اللہ نے کہا۔ ''اے امیر المؤمنین! اگر آپ فوت ہو جائیں تو ہم حضرت حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں؟ فرمایا: ''میں نہ تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں۔ تم خود بہتر سمجھتے ہو۔''

3. بُوْیعَ للحسن بن علي علیه السلام بالخلافة وقیل إن أوّل من بایعه قیس بن سعد قال له ابسط یدك أبا یعك علٰی کتاب اللّٰه عزوجل وسنة نبیه(طبری ج ۵ ص ۱۵۸)

حضرت حسنؓ بن علیؓ کی خلافت پر بیعت ہوئی اور کہتے ہیں کہ پہلا شخص جس نے بیعت کی وہ قیس بن سعد تھا۔ اس نے کہا اپنا ہاتھ اُٹھائیے۔ میں آپ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت پر بیعت کرتا ہوں۔''

ضمنی مباحث

ہم نے خلفائے راشدین کی خلافت کے انعقاد سے متعلق حتی الامکان صحیح روایات اولین ماخذوں سے پیش کر دی ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں۔

1. آیا خلافت ایک انتخابی منصب ہے؟

1. استخلاف یا نامزدگی:

الف۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ پہلے خود حضورِ اکرم ﷺ نے حضرت ابو بکرؓ کو خلیفہ نامزد کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن اس یقین کی وجہ سے یہ ارادہ ترک کر دیا کہ ''مسلمان کسی دوسرے کا خلیفہ بننا گوارا نہیں کر سکتے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے۔'' تو پھر خلیفہ نامزد کر دینے سے نامزد نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ آپ کا ترک ارادہ جملہ مسلمانوں کی دلجوئی اور ان پر آپ کی شفقت کا مظہر تھا۔ یعنی اگر کچھ لوگ آس لگائے بیٹھے ہوں تو ان کی دل شکنی نہ ہو۔

ب۔ حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد کر دیا۔ نامزدگی کے وقت ان کے سامنے مندرجہ ذیل باتیں تھیں۔

1. ان کے نزدیک امت میں حضرت عمرؓ سے زیادہ خلافت کے لئے کوئی اہل تر نہ تھا۔

2. انہوں نے اپنے کسی قریبی رشتہ دار کو نامزد نہیں کیا۔

3. نامزدگی کے سلسلہ میں خدا کے سامنے جوابدہی کا تصور غالب تھا۔

ج۔ حضرت عمرؓ کو جب یہ کہا گیا کہ خلیفہ نامزد کر جائیے تو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ایسا کیوں کہتے ہو۔ خلافت تو محض ایک انتخابی منصب ہے۔ بلکہ یوں فرمایا (اور اس وقت آپ کے ذہن میں مندرجہ ذیل باتیں تھیں۔):

1. اگر میں خلیفہ نامزد کر جاؤں تو بھی ٹھیک ہے کہ یہ سنت اپنے سے بہتر آدمی (حضرت ابو بکرؓ) کی سنت ہے اور اگر نہ کروں تو بھی ٹھیک ہے کہ یہ مجھ سے بہتر آدمی (خود حضور اکرمؐ) کی سنت ہے۔

2. آپ نامزدگی کی اس صورت میں ترجیح دے سکتے تھے جب کہ کوئی اہل تر آدمی ان کے پاس موجود ہوتا۔ جیسا کہ آپ نے حضرت عبیدہ بن الجراحؓ اور سالمؓ کے نام بھی لیے۔ کہ اگر ان میں سے کوئی بھی زندہ ہوتا تو اسے ہی نامزد کرنے کو ترجیح دیتے۔

3. اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ کو آپ نے اس لئے نامزد نہیں کیا تھا کہ وہ خلافت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا ایک کٹھن کام سمجھتے تھے اور خدا کے سامنے جوابدہی کے تصور سے ڈر کر خلافت کو اپنے تک ہی محدود رکھنا چاہتے تھے۔

4. اب ثانوی شکل یہ رہ گئی تھی کہ انہوں نے خلافت کے لئے۶ آدمیوں کو نامزد کر دیا۔ کسی ایک کے نامزد نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی نظر میں ان چھ آدمیوں میں سے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ خامی تھی ۔ لہٰذا انتخاب کی ذمہ داری انہی پر ڈال دی۔ اگر انہیں کسی ایک شخص پر بھی اطمینان ہو جاتا تو وہ یقیناً نامزدگی کو انتخاب پر ترجیح دیتے۔

د۔ حضرت عثمانؓ سے بھی ایک مرتبہ لوگوں نے خلیفہ نامزد کرنے کو کہا تھا۔ یہ سوال جواب بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔

أخبرني مروان بن الحکم قال: أصاب عثمان ابن عفان رُعافٌ شدید سنة الرُّعاف حتّٰی حبسه عن الحج وأوصٰی فدخل علیه رجل من قریشٍ قال: استخلف قال ''وقالوه''؟ قال نعم۔ قال ''ومن؟'' فدخل علیه رجلٌ اٰخِرُ أحسبه الحرث فقال استخلف فقال عثمان ''وقالوا؟'' قال نعم، قال ومن ھو؟ فَسَکَتَ۔ قال: فلعلھم قالوا الزبیر؟'' قال نعم'': قال ''أما والذي نفسي بیده أ نه لخیرھم ما علمت وإن کان لَأحَبَّھُمْ إلی رسول اللّٰه ﷺ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب مناقب زبیر بن العوام)

مروان بن حکم نے مجھے خبر دی کہ حضرت عثمانؓ کو ایک سال نکسیر پھوٹنے کی ایسی بیماری لاحق ہوئی کہ وہ حج کو بھی نہ جا سکے اور وصیت کرنے لگے۔ قریش کے کسی آدمی نے انہیں کہا۔ ''کوئی خلیفہ بنا جائیے۔'' کہنے لگے۔ ''کیا لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں۔'' وہ کہنے لگا۔ ہاں۔ آپ نے پوچھا ''کس کے متعلق کہتے ہیں؟'' تو وہ چپ ہو رہا۔ پھر ایک اور آدمی آیا۔ میرا خیال ہے وہ حارث تھا۔ اس نے بھی یہی کہا کہ کسی کو خلیفہ بنا دیجیے۔ حضرت عثمانؓ نے پوچھا۔ کیا لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں؟ کہنے لگا ''ہاں'' آپ نے پوچھا ''کس کے متعلق؟'' تو وہ بھی چپ رہا۔ پھر آپ نے فرمایا۔ ''شاید وہ حضرت زبیرؓ بن عوام کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا۔ ''ہاں۔'' آپ نے فرمایا خدا کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جتنے لوگوں کو میں جانتا ہوں زبیرؓ بن عوام ان سب سے بہتر ہیں اور سب سے زیادہ آنحضرت ﷺ سے محبت رکھتے تھے۔

اس کے ساتھ ہی اگلی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ حضرت عثمانؓ نے تین بار یہ بات دہرائی کہ ''تم خود جانتے ہو کہ زبیر بن عوام تم سب میں سے بہتر ہیں۔''

بخاری شریف کے مترجم علامہ وحید الزمان نے اس حدیث پر یہ نوٹ بھی دیا ہے۔

کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے بعد خلافت عبد الرحمٰنؓ بن عوف کے لئے لکھ کر اپنے منشی کے پاس وہ کاغذ رکھوا دیا تھا۔ مگر حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف ان کی زندگی میں ہی ۲۲ ؁ھ میں انتقال کر گئے۔

اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی اہل تر آدمی موجود ہو تو نامزدگی کو نہ تو خلفائے راشدین ہی ناجائز تھے اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔

ھ۔ حضرت علیؓ کو آخر وقت میں حضرت حسنؓ کو خلیفہ نامزد کرنے کو کہا گیا تو آپ نے نہ تو یہ فرمایا کہ استخلاف ناپسندیدہ یا ناجائز کام ہے اور نہ ہی یہ فرمایا کہ باپ کے بعد بیٹا کیونکر نامزد کیا جا سکتا ہے۔ جب حضرت جندب بن عبد اللہؓ صحابی رسول نے آپ سے فرمایا کہ ہم حضرت حسن کے ہاتھ بیعت کر لیں۔ تو آپ نے فقط یہ فرمایا:

''نہ میں تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں نہ اس سے منع کرتا ہوں۔ تم لوگ اچھی طرح دیکھ سکتے ہو۔''

ان تصریحات سے یہ واضح ہے کہ خلافت محض انتخابی منصب نہیں بلکہ خلیفہ وقت خدا کے سامنے جوابدہی کے تصور کو سامنے رکھ کر اگر خلیفہ نامزد کر جائے تو یہ صورت صرف جائز ہی نہیں بلکہ بہتر ہے۔ جیسا کہ حضرت عمرؓ کے ارشادات سے واضح ہوتا ہے اور دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ باپ کے بعد بیٹا بھی خلیفہ بن سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت حسنؓ کی خلافت کو متفقہ طور پر خلافت راشدہ میں شمار کیا جاتا ہے اور تیسرا یہ کہ باپ اگر خود بیٹے کو نامزد کر دے بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو تو یہ بھی کوئی گناہ کی بات نہیں۔ بلکہ جائز ہے۔ جیسا کہ حضرت علیؓ کے ارشاد سے واضح ہوتا ہے۔

خلافت و ملوکیت:

یہاں آکر خلافت اور ملوکیت کی ایک سرحد آپس میں مل جاتی ہے۔ ہم یہ پہلے بتلا چکے ہیں کہ خلافت، ملوکیت اور موجودہ جمہوریت کے درمیان اعتدال کی راہ ہے۔ اسے نہ ملوکیت سے بَیر ہے نہ موجودہ جمہوریت سے کوئی کد۔ حضرت داؤد علیہ السلام بیک وقت خلیفہ بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ داؤد علیہ السلام کے متعلق درج ذیل آیت میں بعض علماء نے خلیفہ کا ترجمہ ''بادشاہ'' سے بھی کیا ہے:۔ مثلاً:

﴿يـٰداوۥدُ إِنّا جَعَلنـٰكَ خَليفَةً...٢٦﴾ص

''اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں بادشاہ بنایا ہے۔ (احمد علیؒ)

............................................... (فتح محمد جالندھری)

اللہ تعالیٰ نے خود بھی داؤد علیہ السلام کو خلیفہ بھی کہا ہے اور بادشاہ بھی۔ بادشاہ کے لئے ملک اور بادشاہت کے لئے ملک کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

﴿وَقَتَلَ داوۥدُ جالوتَ وَءاتىٰهُ اللَّـهُ المُلكَ وَالحِكمَةَ...٢٥١﴾البقرة

اور داؤدؑ نے جالوت کو مار ڈالا اور اللہ نے سلطنت اور حکمت داؤد کو دی (احمد علیؒ)

اور داؤد نے جالوت کو قتل کر ڈالا اور خدا نے ان کو بادشاہی اور دانائی بخشی۔(فتح محمدؒ)

گویا داؤد علیہ السلام خلیفہ بھی اور بادشاہ بھی تھے۔ جب نظامِ حکمرانی کا پہلو اجاگر کرنا مقصود تھا کہ وہ حق کے ساتھ فیصلے کریں اور خواہشات کی پیروی نہ کریں تو ان کے لئے خلیفہ کا لفظ استعمال کیا گیا اور جب ان کے اقتدار، سلطنت، بادشاہی یا حکومت کی طرف اشارہ مقصود تھا تو مَلِک یا مُلَک کا لفظ استعمال کیا گیا جیسا کہ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کے متعلق فرمایا:

﴿وَشَدَدنا مُلكَهُ وَءاتَينـٰهُ الحِكمَةَ وَفَصلَ الخِطابِ ﴿٢٠﴾ص
اور ہم نے داؤد کی سلطنت کو مستحکم بنایا اور اسے حکمت اور قوتِ فیصلہ بھی بخشی۔

معلوم ہوا کہ ملوکیت فی نفسہٖ مذموم نہیں جیسا کہ آج کل مغربی جمہوریت سے متاثر لوگ محسوس کرتے ہیں۔ داؤد علیہ اسلام کے بیٹے سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے خود بادشاہی کے لئے یوں دعا مانگی۔

﴿قالَ رَ‌بِّ اغفِر‌ لى وَهَب لى مُلكًا لا يَنبَغى لِأَحَدٍ مِن بَعدى...٣٥﴾ص

اے پروردگار مجھے مغفرت کر اور مجھ کو ایسی بادشاہی عطا کر جو میرے بعد کسی کو شایان نہ ہو۔ (فتح محمد جالندھری)

اور سلیمان علیہ السلام کی یہ دعا اللہ تعالیٰ نے قبول بھی فرمائی۔ اسی طرح یوسف علیہ السلام کو خدا نے بادشاہت عنایت فرمائی۔ (۱۳/۱۰۱)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے عرض کی کہ کوئی بادشاہ مقرر کر دیجیے تو نبی نے فرمایا:

﴿وَقالَ لَهُم نَبِيُّهُم إِنَّ اللَّـهَ قَد بَعَثَ لَكُم طالوتَ مَلِكًا...٢٤٧﴾البقرة

اور پیغمبر نے ان سے کہا کہ خدا نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔

اس نبی نے بنو اسرائیل سے یا خدا نے نبی سے یہ نہیں فرمایا کہ ملوکیت تو بری شے ہے اس کا سوال کیوں کرتے ہو؟ اور اللہ تعالیٰ نے خود اپنی قدرت اور حاکمیت ان الفاظ میں بیان فرمائی کہ جسے چاہے بادشاہی عطا کرے اور جس سے چاہے چھین لے۔

﴿قُلِ اللَّـهُمَّ مـٰلِكَ المُلكِ تُؤتِى المُلكَ مَن تَشاءُ وَتَنزِعُ المُلكَ مِمَّن تَشاءُ...٢٦﴾اٰل عمران

کہو! اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے۔

پھر اللہ تعالیٰ جس طرح اپنے فرمانبردار بندوں پر خلافت کی نعمت کا ذکر کرتے ہیں۔ (جیسا کہ پہلے گزر چکا) اسی طرح بادشاہ بنانے کی نعمت کا بھی ذکر فرماتے ہیں:

﴿فَقَد ءاتَينا ءالَ إِبرٰ‌هيمَ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَءاتَينـٰهُم مُلكًا عَظيمًا...٥٤

سو ہم نے خاندان ابراہیم کو کتاب اور دانائی عنایت فرمائی تھی اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی۔

﴿وَإِذ قالَ موسىٰ لِقَومِهِ يـٰقَومِ اذكُر‌وا نِعمَةَ اللَّـهِ عَلَيكُم إِذ جَعَلَ فيكُم أَنبِياءَ وَجَعَلَكُم مُلوكًا...٢٠﴾المائدة
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ بھائیو! تم پر خدا نے جو احسان کیے ہیں ان کو یاد کرو کہ اس نے تم میں سے پیغمبر پیدا کیے اور تمہیں بادشاہ بنایا۔

ہاں اگر بادشاہ اللہ کی فرمانبرداری کے بجائے سرکشی کی راہ اختیار کرے تو ملوکیت ایک مذموم چیز بن جاتی ہے۔ فرعون، نمرود، شداد، ہامان اسی قسم کے بادشاہ تھے۔ ایسی ہی مطلق العنان اور استبدادی حکومت کو قرآن کریم نے مذموم قرار دیا ہے۔ اور حضور اکرم ﷺ نے ''ملک عضوض'' کے نام سے پکارا ہے۔ (خلافت و ملوکیت کے فرق کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر ہے)۔

حضرت عمرؓ نامزد ہوئے یا منتخب؟:

خلافتِ راشدہ میں استخلاف کی واضح مثال حضرت عمرؓ کی نامزدگی ہے۔ جنہیں حضرت ابو بکرؓ نے اپنی وفات سے قبل نامزد کیا تھا۔ لیکن بعض دوستوں نے اسے بھی انتخابی خلافت ہی میں شمار کیا ہے۔ کیونکہ استخلاف کا یہ تصوّر موجودہ جمہوریت کے تصوّر انتخاب سے متصادم ہے۔ یہ حضرات اسے انتخاب ثابت کرنے کے لئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکرؓ نے نامزدگی کا اعلان کرنے سے پیشتر اکابر صحابہؓ سے مشورہ کر لیا تھا۔ لہٰذا یہ نامزدگی بھی فی الحقیقت عوام کا انتخاب ہی تھا۔

اس معاملہ میں بھی حقائق کو موڑ توڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اصل واقعہ بہ روایت صحیحہ ہم پیش کر چکے ہیں۔ حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ کے استخلاف یا نامزدگی کا پتہ عزم رکھتے تھے جیسا کہ پہلی روایت کے ابتدا ہی میں لفظ عقد سے واضح ہو جاتا ہے۔ آپ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کو بلا کر ان سے تذکرہ کیا۔ تو انہوں نے ان کی سختی کا شکوہ کیا۔ تو آپ نے حضرت عبد الرحمٰن کی رائے قبول نہیں کی بلکہ ان کی رائے کو ہموار کیا۔ حضرت عثمانؓ سے بلا کر تذکرہ کیا تو انہوں نے اس نامزدگی کی داد دی۔

بعد ازاں جب اس بات کا تذکرہ عام ہونے لگا تو حضرت علیؓ نے حضرت عمرؓ کی تیزیٔ طبیعت کا شکوہ کیا تو آپ نے یہ کہہ کر ان کی رائے کو بھی ہموار کر لیا کہ اس نامزدگی کے لئے خدا کے حضور میں جواب دِہ میں ہوں۔ میں کہہ دوں گا کہ ''مجھے تیری امت میں عمرؓ سے بہتر کوئی آدمی نہ ملا۔''

مشورہ وہ ہوتا ہے جس میں دوسروں سے رائے لے کر اس پر غور کیا جائے۔ لیکن یہاں دوسروں کی رائے کو ہموار کر کے مطمئن کیا جا رہا ہے۔ ان کے حقائق کے باوجود بھی اگر ہمارے یہ دوست اس واقعہ کو انتخابی خلافت کے زمرہ میں شمار کریں تو ہم اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں:


﴿رَ‌بَّنا لا تُزِغ قُلوبَنا بَعدَ إِذ هَدَيتَنا...٨اٰل عمران
اے پروردگار!جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ نہ پیدا کرنا۔

انتخابی خلافت کا تصوّر؟

نظامِ خلافت میں انتخاب کا وہ تصوّر سرے سے ناپید ہے جو مغربی طرزِ انتخاب کا طرۂ امتیاز ہے جس میں فیصلہ کثرت رائے کی بنیاد پر ہوتا ہے جبکہ حضرت ابو بکرؓ کو بقول حضرت عمرؓ صرف ایک شخص (حضرت عمرؓ) نے انتخاب کیا۔ حضرت حسنؓ کو صرف ایک شخص قیس بن سعد نے انتخاب کیا۔ حضرت علیؓ کو اہلِ بدر اور شوریٰ میں سے (جو کہ بقول حضرت علیؓ انتخاب کے جائز حق دار تھے) ایک قلیل تعداد نے انتخاب کیا تھا۔

البتہ حضرت عثمانؓ کے معاملہ میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کا استصواب عام انتخابی خلافت کے لئے ایک واضح ثبوت ہے۔ لیکن ہمیں افسوس ہے کہ یہ ثبوت بھی اس معیار پر پورا نہیں اترتا۔ جس معیار پر ہمارے یہ دوست اتارنا چاہتے ہیں۔ پوری مملکت اسلامیہ ایک وقت ایک لاکھ ۲۰ ہزار مربع میل میں پھیلی ہوئی تھی جب کہ یہ انتخاب صرف مدینہ میں ہوا اور وہ بھی چیدہ چیدہ لوگوں سے۔

حضرت عثمانؓ کے انتخاب سے دو باتیں سامنے آتی ہیں:

1. انتخاب کا فیصلہ حضرت عبد الرحمان بن عوف نے کیا اور اس اختیار کی بنا پر کیا جو انہیں حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے دیا تھا۔ کثرتِ رائے اس کی حقیقی بنیاد نہ تھی۔

2. حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے جیسا کہ حدیث مندرجہ سے واضح ہے۔ اس اصول کی بنا پر حضرت عثمان کو منتخب کیا تھا کہ وہ کتاب و سنت کے علاوہ پہلے دونوں خلفاء کے نظائر کا اتباع کریں گے۔ یہ بات حضرت علیؓ نے تسلیم نہ کی تھی۔ لہٰذا ان کو منتخب نہ کیا گیا گویا فیصلہ بہرحال اصول کے تحت تھا۔ محض کثرت رائے کے تحت نہ تھا۔ البتہ کثرت رائے بھی اس دلیل کے ساتھ مل گئی تو فیصلہ کرنا مزید آسان ہو گیا۔

3. حضرت عبد الرحمان بن عوف نے صرف ان لوگوں سے ہی مشورہ کیا تھا جن کو وہ مشورہ کا اہل سمجھتے تھے۔ جیسا کہ روایات کے الفاظ سے صاف واضح ہے۔ خواہ وہ چرواہے تھے یا مدرسہ کے طالب علم، پردہ نشین عورتیں تھیں یا راہ چلتے مسافر۔ مشورے کا یہ تصوّر بھی موجودہ طرزِ انتخاب (حق بالغ رائے دہی) کو باطل قرار دیتا ہے۔

انتخاب عام:

اگر حضرت ابو بکرؓ چاہتے تو پوری مملکت میں استصواب کروا سکتے تھے۔ ان کے پاس وقت تھا۔ اور اگر حضرت عمر چاہتے تو وہ بھی کروا سکتے کیونکہ وسائل رسل و رسائل اتنی ترقی کر چکے تھے کہ مسلمانوں کی مردم شماری کی لسٹ تیار کرنے کا کام عہد نبوی میں ہی شروع ہو چکا تھا (بخاری۔ کتاب العباد والسیر باب کتابۃ الامام الناس) اور حضرت عمرؓ کے عہد میں یہ کام ایک علیحدہ شعبہ کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ لیکن ان بزرگوں نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی جو اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ اسلام میں خلیفہ کے انتخاب کا وہ تصور ہی سرے سے مفقود ہے جو مغربی طرزِ انتخاب میں پایا جاتا ہے۔

ماحصل

1. خلیفہ کو اگر شوریٰ منتخب کرے تو یہ سب سے بہتر صورت ہے۔ کیونکہ حضور اکرم ﷺ کا اسوہ یہی ہے اور حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے:

لا خلافة إلا عن مشورة( مصنف ابن ابی شیبة ج ۳ ص ۱۳۹)

مشورہ کے بغیر خلافت نہیں ۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے تھے:

الأ مرة ما اؤتمر فیھا وإن الملك ما غلب عليه بالسیف (طبقات ج ۴۔ ص ۱۱۳)

امارت وہ ہے جسے قائم کرنے میں مشورہ کیا گیا ہو اور بادشاہی وہ ہے جس پر تلوار کے زور سے قبضہ حاصل کیا گیا ہو۔

خود حضور اکرم ﷺ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے اپنے عمل سے اس منصب کو شوریٰ کے سپرد کیا۔ اگرچہ اول الذکر دونوں ہستیاں استخلاف کی طرف مائل نہیں۔

2. شوروی انتخاب کے بعد نامزدگی یا استخلاف کا نمبر ہے جسے حضرت ابو بکرؓ نے عملاً اختیاز کیا۔ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے بھی اسے درست سمجھا۔

3. ہنگامی صورتِ حال میں شوریٰ کے ایک ممبر کی بیعت سے خلافت منعقد ہو جاتی ہے۔ جیسے حضرت ابو بکرؓ اور حضرت حسنؓ کی خلافت منعقد ہوئی۔ اسی طرح ہنگامی صورت میں عوام الناس (شوریٰ کے بغیر) کی بیعت سے بھی خلافت منعقد ہو جاتی ہے جیسا کہ حضرت علیؓ کی خلافت منعقد ہوئی۔

4. باپ کے بعد بیٹے کی خلافت بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ اہل ہو۔ جیسے حضرت حسن کی خلافت یا حضرت داؤدؑ کے بعد حضرت سلیمانؑ خلیفہ سے مندرجہ بالا مختلف صورتوں سے بآسانی یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ خلافت ان معنوں میں انتخابی منصب ہرگز نہیں ہے جو معنی جمہوریت نواز پہنانا چاہتے ہیں۔ یہاں عوامی رائے دہندگی یا موجودہ قسم کی نمائندگی کا کوئی چکر نہیں۔


نوٹ

الفاروق۔ شبلی نعمانی۔

بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ حضرت عمرؓ کے اس قول سے ان کی مراد خلافت کے کاروبار یا انتظام سلطنت میں مشورہ کرنا ہے۔ یعنی ''اصول حکومت مشورہ'' ہے۔ خلیفہ کے تقرر پر مشورہ ضروری نہیں۔ اور یہ بات بہت