اصلاحی صاحب کی شرحِ صحیح بخاری

خدمتِ حدیث                    یا             انکار حدیث؟
برصغیر پاک و ہند میں انکارِ حدیث کا فتنہ کم و بیش ڈیڑھ صدی سے سرگرم عمل ہے۔ اس کے مختلف انداز اور مختلف روپ رہے ہیں اور ہیں۔ تاہم علمائے راسخین اور منہج سلف سے وابستہ صحیح الفکر علماء اس کی ہر چال اور ہر ڈھنگ کو پہچان لیتے رہے اور الحمدللہ آج بھی وہ ان کی کَج اداؤں اور کَج فکریوں کو پہچانتے ہیں:                  ؎
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش                 من اندازِ قَدت را می شناسم
ان منکرین حدیث کی دو قسمیں ہیں:
ایک تو وہ ہیں جو واضح الفاظ میں حدیث کو حجتِ شرعیہ نہیں مانتے۔ ان کا کچا چٹھا یا روپ بہروپ سب کے سامنے ہے اور علمائے اسلام نے اُن کی بابت فتوائے کفر صادر کرکے ملتِ اسلامیہ کے جسد سے اس عضو ِفاسد کو کاٹ کر پھینک دیا ہے۔
دوسرے وہ ہیں جو بظاہر حدیث کی حجیت کا راگ بھی الاپتے ہیں لیکن اس کا انکار کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ وہ ائمۂ سلف سے وابستگی کا دم بھی بھرتے ہیں لیکن ان کی فکری ترکتازیاں ائمۂ سلف کے منہج کو تباہ کرنے والی ہیں۔ ان کے فکر و عمل میں کھلاتضاد ہے، اُنھوں نے اپنی پٹاری میں دونوں قسم کا سامان رکھا ہوا ہے۔ جہاں ضرورت ہوتی ہے، وہاں وہ حدیث کی حمایت کے الفا ظ بول دیتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ انکارِ حدیث کے مرض کا شکار ہیں ، جو مسلمات اسلامیہ   کو مسلسل مجروح اور مخدوش کررہا ہے۔
بے خبر مسلمان عوام یا ان کے خوانِ علم کے ریزہ چین ان کو قرآنی علوم کا ماہر غوّاص اور حدیث کے اسرار ورموز کا نقاب کشا سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت اُنہوں نے اپنی من مانی تاویلات کے ذریعے سے قرآن کریم کو بھی بازیچۂ اطفال بنا دیا ہے۔اور احادیث نبویہ... علىٰ صاحبها الصلوٰة والتحية... پر بھی ایسی ناوک افگنی کی ہے کہ اس کا سارا جسم اطہر لہو لہو ہوگیا ہے۔
قرآن و حدیث کے ساتھ اس زیادتی کے آغاز کا ’سہرا‘ تو مولانا حمید الدین فراہی کے سر بندھتا ہے لیکن حدیث گریزی کے اس فتنے کو فلک چہارم پر پہنچانے والے ان کے تلمیذِ خاص امین احسن اصلاحی اور ان کے فیض یافتہ جاوید احمد غامدی اور ان کے دامن فکر سے وابستہ کچھ نوجوان ہیں جن کی برین واشنگ’المورد‘ اور ’دانش سرا‘ جیسے اداروں میں ہوئی ہے۔
منکرین حدیث کی فہرست میں امین احسن اصلاحی صاحب کا نام سرفہرست دیکھ کر شاید کچھ لوگوں کو تعجب ہوگا کیونکہ ان کا شہرہ تو تفسیر’تدبر قرآن‘ یا بانیٔ ’ادارہ تدبر قرآن و حدیث‘ کے حوالے سے ہے۔ لیکن اس ’تدبر‘ کے پیچھے’تخرُّب‘ کی کارفرمائی جب ان کے سامنے آئے گی تو ان کا تعجب، حیرت میں بدل جائے گا اور ان کی خوش گمانی کا محل بھی زمین بوس ہو جائے گا، بشرطیکہ اللّٰہ نے ان کو فکرِ سلیم اور فہم ثاقب سے نوازا ہو۔
راقم نے بھی آج سے نصف صدی قبل زمانۂ طالب علمی میں ان کی بعض کتابیں پڑھی تھیں۔ مثلاً: عائلی کمیشن کی رپورٹ پر تبصرہ، پاکستانی عورت دوراہے پر، اسلامی قانون کی تدوین، حقیقتِ شرک، حقیقتِ توحید اور حقیقتِ تقویٰ، وغیرہ۔ تو ان کی علمی عظمت کا ایک نقش قائم ہوا تھا۔ لیکن جب ان کی تفسیر ’تدبر قرآن‘ چھپنی شروعی ہوئی تو ان کی پر تکلف تفسیر...جس کو نظم قرآن کا خوش نما عنوان دیا گیا ہے... پڑھ كر سخت وحشت سی ہوئی۔ بالخصوص احادیث کا انکار، نیز متواتر احادیث کا واضح انکار، مسلمات اسلامیہ کا انکار اور اجماعِ صحابہ سے انحراف سامنے آیا، تو عظمت کا سارا ہیولا گہنا گیا اور عقیدت کا محل زمیں بوس ہوگیا۔ بقول مولانا حالیؔ                        ؎
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے                      اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد                       دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے
تفسیر پر ’تدبر‘ کے بعد جب حدیث پر ’تدبر‘ کا آغاز ہوا، تو موصوف بالکل کھل کر سامنے آگئے اور تفسیر میں انکارِ حدیث کے جو جرثومے اہل نظر کو نظر آتے تھے، وہ خوف ناک روپ اختیار کر گئے اور انھوں نے سارے ذخیرۂ احادیث کو عفونت زدہ کرکے یکسر ناقابل اعتبار قرار دے دیا اور ’سنت‘ کا ایسا من گھڑت مفہوم گھڑا کہ بقول علامہ قبال                ؎
ولے تاویل شاں درحیرت انداخت                       خدا         و  جبریل و   مصطفیٰ را
حالانکہ بدیہی بات ہے کہ کسی گروہ کی خاص اصطلاح کا وہی مفہوم معتبر ہوتا ہے جو اس کے ہاں معروف اور مسلمہ ہوتا ہے۔ جیسے’ختم نبوت‘ کی اصطلاح ہے، زکوٰۃ و صلوٰۃ کی اصطلاح ہے۔ ان اصطلاحات کا جو مفہوم چودہ سو سال سے مسلم چلا آرہا ہے، وہی قابل اعتبار ہوگا۔ کسی بھی شخص کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ ان اصطلاحات کا خود ساختہ مفہوم گھڑ کر دعویٰ کرے کہ میں بھی ان کا قائل ہوں جب کہ اس کے خود ساختہ مفہوم سے چودہ سو سالہ مسلمات کا انکار لازم آتا ہو۔
جیسے مرزائی کہتے ہیں کہ ہم بھی ’ختم نبوت‘ کے قائل ہیں، لىكن اس کا مطلب نبىﷺ پر نبوت کا خاتمہ نہیں ہے جیسے دوسرے مسلمان سمجھتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ آپﷺ کے بعد جو بھی نبی آئے گا، وہ مُہر محمدی کے ذریعے ہی سے آئے گا اور مرزائے قادیانی آپ کی مُہر ہی سے نبی بن کر آیا ہے۔یعنی مسلمانوں کى ختم نبوت کی مسلّمہ اصطلاح کی رو سے قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، اور مرزائیوں کے خود ساختہ مفہوم کی رو سے اسی ’اصطلاح‘ سے اجرائے نبوت کا اثبات ہوگیا۔
ایسے ہی غلام احمد پرویز نے کہا:
’’اقامتِ صلوٰۃ، خاص اصطلاح ہے، جس کے عام معنی نماز قائم کرنا یا نماز پڑھنا کیے جاتے ہیں۔ لفظ صلوٰۃ کا مادہ ص، ل، و ہے جس کے بنیادی معنی کسی کے پیچھے چلنے کے ہیں۔ اس لیے صلوٰۃ میں ’قوانین خداوندی‘ کے اتباع کا مفہوم شامل ہوگا۔بنا بریں اقامتِ صلوٰۃ کا مفہوم ہوگا: ’’ایسے نظام یا معاشرے کا قیام جس میں قوانین خداوندی کے اتباع کا تصور محسوس اور سمٹی ہوئی شکل میں سامنے آجاتا ہے۔‘‘[1]
’زکوٰۃ‘ ایک خاص اصطلاح ہے جس کا مفہوم و مطلب چودہ سو سال سے مسلّمہ چلا آرہا ہے۔ لیکن اس اصطلاح کا بھی پرویزی مفہوم سنیے!...
’’زکوٰۃ عربی زبان میں نشو و نما کو کہتے ہیں، لہٰذا ’ایتائے زکوٰۃ‘ کے معنی ہوں گے: سامانِ نشو و نما مہیا کرنا اور یہ اسلامی حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ افراد معاشرہ کی نشو و نما کا سامان فراہم کرے اور یہ سامان نشو ونما صرف ’روٹی، کپڑا، مکان‘ ہی کو شامل نہیں بلکہ اس میں وہ تمام اسباب و ذرائع شامل ہیں جن سے انسانی صلاحیتوں کی نشوونما (Development) ہوتی ہے۔ قرآن کی آیت ﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَرضِ أَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ ...﴿٤١﴾... سورة الحج" کا بھی یہی مفہوم ہے۔ یعنی یہ نہیں کہا کہ جب ان کی حکومت قائم ہوگی تو یہ لوگوں سے زکوٰۃ لیں گے۔ کہا ىہ گیا ہے کہ وہ زکوٰۃ دیں گے (افراد معاشرہ کی نشو و نما کا سامان فراہم کریں گے)۔‘‘[2]        (ملخص)
اگر چودہ سو سالہ مسلم اصطلاحات کے مسلّمہ مفہوم کو بدل کو خود ساختہ مفہوم لینے کا ادنیٰ سا بھی جواز ہے تو پھر ختم نبوت کا مسئلہ بھی ختم اور نماز اور زکاۃ سے بھی چھٹی...!!
’سنت و حدیث ‘ کا اصطلاحی مفہوم
سنت یا حدیث بھی مسلمانوں کی ایک خاص اصطلاح ہے اور اس کا مفہوم و مصداق بھی چودہ سو سال سے مسلم چلا آرہا ہے اور وہ ہے: رسول اللّٰہﷺ کا عمل، قول اور تقریر یا تصویب۔ اسی طرح یہ دونوں لفظ بھی ہم معنی (مترادف) ہیں، ان میں مغایرت نہیں۔ حدیث ہی کو سنت اور سنت ہی کو حدیث کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں بعض دفعہ حدیث کو اثر یا خبر بھی کہہ لیتے ہیں، اس وقت یہ اثرِ رسول یا خبرِ رسول کے مفہوم میں حدیث ہی کے ہم معنیٰ ہوتے ہیں۔
خبرِ رسول کو عام خبر قرار دے کر صدق و کذب کا محتمل قرار نہیں دے سکتے۔ جب خبر کی اضافت الرسول کی طرف ہو جائے گی تو اس میں کذب کا احتمال یکسر ختم ہو جائے گا، وہ صدق ہی کی حامل اور موجب یقین و عمل ہی ہوگی۔اس لیے کہ جب حدیث کا لفظ حجتِ شرعیہ کی بحث میں استعمال ہوتا ہے تو اس سے صرف حدیثِ ثابتہ ہی مراد ہوتی ہے جو مرفوع، متصل اور تمام علل قادحہ سے پاک ہوتی ہے۔ اس سیاق میں ضعیف، منقطع، معضل اور موضوع وغیرہ حدیث قطعاً مراد نہیں ہوتی۔ کیونکہ دین کا ماخذ اور حجتِ شرعیہ صرف اور صرف احادیثِ صحیحہ و ثابتہ ہی ہیں نہ کہ آپ کی طرف منسوب دوسری احادیث۔ اسی لیے تو محدثین نے بے مثال کاوشیں کرکے نقد و تحقیقِ حدیث کے اُصول و ضوابط بھی مقرر فرمائے اور راویان حدیث کی عدالت وثقاہت جانچنے کے لیے فن اسماء الرجال مدوّن کرکے ان کے صحیح صحیح حالات بھی محفوظ کر دیے۔
بنا بریں جب بھی کوئی حدیث معرضِ استدلال میں پیش کی جائے گی تو دیکھا جائے گا کہ یہ حدیث کی کس کتاب سے نقل کی گئی ہے۔ اگر وہ حدیث کی ان کتابوں سے نقل کی گئی ہے جن کی صحت پر اُمتِ مسلمہ کا اتفاق ہے جیسے صحیح بخاری و صحیح مسلم ہے یا بقولِ بعض موطا امام مالک بھی ہے۔ اور اگر وہ حدیث کی دوسری کتابوں (سنن اربعہ اور دیگر کتبِ حدیث) سے نقل کی گئی ہے جن میں صحیح احادیث کے ساتھ کچھ ضعیف احادیث بھی ہیں اور نقل کرنے والے نے محض حوالے ہی پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس کی صحت کا اثبات بھی کیا ہے (جس کا اہتمام ہر وہ صاحبِ علم کر سکتا ہے جو اصول حدیث اور اسماء الرجال کا درک رکھتا ہے) یا کسی صاحب فن اور محقق حدیث کی طرف سے صحت کی توثیق بھی نقل کر دیتا ہے تو ایسی حدیث سے کذب کا احتمال ختم ہو جاتا ہے۔
مسلّمہ اصطلاحات کا مفہوم بدلنا، سخت گمراہی ہے!
اس مسلّمہ اصطلاحی مفہوم کے برعکس اصلاحی صاحب نے حدیث و سنت کا خود ساختہ مفہوم گھڑا ہے تاکہ حدیث سے جان چھڑائی جا سکے۔ کیونکہ صاف الفاظ میں حدیث کا انکار ممکن نہیں تھا، جیسے مرزائیوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے ’ختم نبوت‘ کے مسلّمہ اصطلاحی مفہوم کو چھوڑ کر خود ساختہ مفہوم گھڑا۔ پرویز نے صلاۃ و زکاۃ سے جان چھڑانے کے لیے ان کے چودہ سو سالہ مسلّمہ اصطلاحی مفہوم کو بدل ڈالا۔
اصلاحی صاحب بھی حدیث سے تو جان چھڑانا چاہتے تھے تاکہ ان کے لیے احادیثِ رجم اور دیگر ان احادیث کے لیے جو اُن کی عقل نارسا کی سمجھ میں نہ آسکیں، انکار کا جواز فراہم ہو جائے۔ لیکن واضح الفاظ میں احادیث کی حجیت کے انکار کی جرأت ان کے اندر نہ ہوسکی تو فکر و نظر کی کجی نے ان کو ایک ایسا ’طریقہ‘ سجھا دیا جس سے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، یعنی حدیث کی حجیت و اہمیت بھی ختم ہو جائے اور وہ بدستور ایک ’مفسر قرآن‘ بھی سمجھے جائیں اور ’شارح حدیث‘ بھی۔ یا کم از کم ان کا حلقۂ ارادت ان کی بابت اسی زعم کا شکار رہے۔ چنانچہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب رہے۔ آج ان کے غالی عقیدت مند ان کو ’امام‘ بھی باور کرا رہے ہیں اور ان کے زیغ و ضلال کو عین حق و صواب بھی۔ اور جیسے وہ خود ضالّ اور مُضِلّ رہے، اب ان کے پیروکار (جاوید غامدی و خالد مسعودى گروپ) ضلّوا فاضلّوا کا مصداق بنے ہوئے ہیں۔ أعاذنا الله منهم!
حدیث و سنت کا خود ساختہ مفہوم اور اس کے خطرناک مضمرات
اصلاحی صاحب نے چودہ صد سالہ مسلّمہ اصطلاحات کا مفہوم کس طرح بدلا؟ ملاحظہ فرمائیں:
ایک تو اُنہوں نے حدیث اور سنت کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا اور کہا: ان دونوں کے درمیان آسمان وزمین کا فرق ہے۔ جب کہ ان میں بال برابر (یک سر مو) فرق نہیں ہے۔ایک ہی مسمیٰ کے دو نام، ایک ہی تصویر کے دو رخ، ایک ہی حقیقت کے دو جلوے اور ایک ہی ہیولیٰ کے دو پیکر ہیں، جیسا کہ پہلے وضاحت کی گئی ہے۔
حدیث کی تو وہی تعریف کی جو مسلمہ ہے۔ رسول اللّٰہﷺ کا قول، عمل اور تقریر یا تصویب، لیکن ساری فنکاری سنت کو حدیث سے الگ کرکے یہ کی گئی کہ سنت سے مراد آپ کا وہ عمل ہے جو تواتر عملی سے نقل ہوتا چلا آیا ہے جس میں چند اعمال عبادات ہیں، جیسے نماز، روزہ، حج و عمرہ وغیرہ۔ یا ان کے ہونہار شاگرد غامدی صاحب کے بقول صرف ۲۷ سنتیں [3]۔ گویا احادیث کا وہ تمام ذخیرہ جو محدثین نے اپنی کتابوں میں جمع اور محفوظ کیا ہے، وہ سب دفتر بے معنی اور غرق مئے ناب اولیٰ کا مصداق ہے، کیونکہ وہ سب غیر محفوظ ہے، ان کا سنت سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ سنت تو قرآن کی طرح متواتر ہے، فرق صرف یہ ہے کہ قرآن تواتر قولی سے ثابت ہے اور سنت تواترِ عملی سے اور دین میں حجت صرف سنت ہے اور حدیث کا دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔
حدیث کو بے وزن کرنے کے لیے دوسرا ظلم حدیث پر یہ ڈھایا کہ
’’محدثین حدیث کو خبر کے لفظ سے تعبیرکرتے ہیں اور ’خبر‘ کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ الخبر یحتمل الصدق والکذب (خبر صدق و کذب، دونوں کا احتمال رکھتی ہے) یعنی علماے فن کے نزدیک خبر میں صدق و کذب دونوں کا احتمال پایا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر احادیث کو ظنی بھی کہتے ہیں، گویا ایک حدیث میں صحیح، حسن، ضعیف، موضوع اور مقلوب سب کچھ ہوسکنے کا امکان پایا جاتا ہے۔‘‘ [4]
اس اقتباس میں کئی مغالطے ہیں:
پہلا مغالطہ: محدثین حدیث کو خبر کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ حدیث کو خبر سے بھی تعبیر کر لیتے ہیں۔ اس معنی میں کہ راوی (صحابی) رسول اللّٰہﷺ کے ایک عمل یا فرمان یا تقریر کی خبر دے رہا ہے۔ اس وقت یہ عام خبر کے معنی میں نہیں ہے بلکہ خبر رسول کے مفہوم میں حدیث وسنت ہی کے ہم معنی ہے۔
کسی بھی محدث نے خبرِ رسول یا حدیثِ رسول یا سنتِ رسول یا اثرِ رسول (کیونکہ ىہ چاروں لفظ الرسول کی نسبت سے ہم معنی ہیں) كو صدق و کذب کا محتمل قرار نہیں دیا ہے۔ خبر کی ایک عام سی تعریف کو محدثین کی طرف منسوب کرنا اور پھر اسے حدیثِ رسول پر چسپاں کرنا ظلم اور حدیث دشمنی کی انتہا ہے۔
خبر ہر طرح کی ہوتی ہے، سچی بھی اور جھوٹی بھی۔ اسی طرح ہر راوی کی خبر کو صدق و کذب کا محتمل بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس طرح تو دنیا کا سارا نظام تلپٹ ہو کر رہ جائے گا۔ دنیا کا سارا نظام ’خبر‘ ہی پرچل رہا ہے۔ آپ کے پاس کوئی خبر آئے، آپ کہیں، اچھا پہلے میں معلوم کرلوں، یہ سچ ہے یا جھوٹ؟ پھر میں کچھ کروں گا۔ اس طرح تو آپ شاہراہِ زندگی پر چند قدم بھی نہ چل سکیں گے۔
اسی لیے قرآن نے یہ نہیں کہا کہ تمھارے پاس کوئی خبر آئے تو پہلے اس کی تحقیق کرو۔ بلکہ صرف فاسق کی خبر کے بارے میں تحقیق کرنے کا حکم[5] دیا ہے۔ اگر احادیث رسول جنہیں اخبار رسول بھی کہا جاتا ہے، ان کی خبر دینے والے تمام صحابہ نعوذباللّٰہ فاسق تھے اور ان کے سلسلۂ سند کے تمام رُواۃ فاسق تھے، پھر تو اصلاحی صاحب کی بات درست ہے کہ تمام احادیثِ رسول صدق و کذب کی محتمل ہیں اور محدثین کی تمام چھان پھٹک کے باوجود متفق علیہ احادیث میں بھی صدق و کذب کا احتمال پایا جاتا ہے، اس لیے کہ وہ بہرحال ’خبر‘ ہی تو ہیں۔
لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے، الحمدللہ تمام صحابہ عادل تھے اور صحیح مرفوع، متصل احادیث کے سلسلۂ اسناد کے تمام رواۃ بھی ثقہ، مُتقِن، حافظ و ضابط اور پیکر ورع و تقویٰ تھے تو ان کی بیان کردہ روایات کو احادیثِ رسول کہہ لیں، سُنن کہہ لیں، آثار الرسول کہہ لیں، اخبار الرسول کہہ لیں،اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ نہ ان کے مفہوم و مطلب میں اور نہ ان کے ثبوت و حجیت میں۔
جو احادیث رسول یا اخبارِ رسول نقد و تحقیق کے مسلمہ اُصولوں کی روشنی میں ثابت ہی نہ ہوں، ان کو ضعیف، منقطع، موضوع وغیرہ کہا جاتا ہے، ان کو حدیثِ صحیح قرار ہی نہیں دیا جاتا۔ اس معیارِ صحت کے اعلیٰ ترین پیمانے پر پوری اُترنے والے احادیث یا اخبار رسول کو بھی محتمل صدق و کذب اگر کوئی قرار دیتا ہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ وہ حدیث دشمنی میں یا تو اپنے عقل و حواس بھی مختل کر بیٹھا ہے، یا شعوری طور پر احادیث کو مشکوک ٹھہرا کر مسلمانوں کو ان سے متنفر کرنا چاہتا ہے۔
اسی طرح احادیث کو جس ضمن میں مذکورہ اقتباس میں ’ظنی‘ کہا گیا ہے، وہ مشکوک یا غیر مستند کے مفہوم میں ہے اور یہ حدیث پر اصلاحی صاحب کا دوسرا ظلم ہے، اس لیے وہ کہتے ہیں:
’’حدیث میں صحیح، حسن، ضعیف، موضوع اور مقلوب سب کچھ ہوسکنے کا امکان پایا جاتاہے۔‘‘
حالانکہ ہم وضاحت کرآئے ہیں کہ حجیت اور ماخذِ شریعت کی بحث میں جب حدیث کا لفظ آتا ہے تو اس سے مراد صرف صحیح یا حسن حدیث ہوتی ہے۔ اس وقت ضعیف ،موضوع اور مقلوب وغیرہ اس میں قطعاً شامل نہیں ہوتی۔ نہ اس کو ظنی بمعنی مشکوک قرار دیا جاتا ہے بلکہ یہ اصطلاحی لفظ ہے جس سے مقصود متواتر حدیث سے حاصل ہونے والے علم کے مقابلے میں اس سے کم تر درجے کے علم کی وضاحت ہوتی ہے جس کو بعض علماء ’ظن غالب‘ بھی کہہ لیتے ہیں۔
اصلاحی صاحب کا مذکورہ اقتباس حدیث کی اہمیت و حجیت کو مشکوک ٹھہرانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
حدیث کی اصطلاحی ظنّیت کو، جس کا مطلب حدیث کا بے اعتبار یا مشکوک ہونا ہرگز نہیں ہوتا، مشکوک کے ہم معنی قرار دینا حدیثِ آحاد کی بے اعتباری کے لیے تمام قدیم و جدید منکرین حدیث کا سب سے بڑا ہتھیار یا ہتھکنڈا ہے۔ اصلاحی صاحب نے بھی حدیث دوستی کی آڑ میں حدیث دشمنی کا یہی راستہ استعمال کیا ہے۔
علاوہ ازیں اصلاحی صاحب کی طرف سے حدیث کو مشکوک ٹھہرانے کی بابت جو شبہات پیش کیے گئے ہیں، یہ نئے نہیں ہیں، وہی ہیں جو ایک عرصے سے منکرین حدیث کی طرف سے پیش کیے جاتے رہے ہیں اور حدیث کے بارے میں جس کا بھی دماغ خراب ہوجاتا ہے، وہ وہی بار بار کے چبائے لقموں کی جگالی شروع کر دیتاہے اور علماء کی واضح تصریحات و توضیحات کی طرف سے آنکھیں بند کرکے اندھے کی لاٹھی کی طرح احادیث پر، ائمۂ حدیث پر اور راویانِ حدیث پر خشت باری شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ علماء ان کے نہایت مسکت جواب دے چکے ہیں۔ بنا بریں ایسے گم کردہ راہوں کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے … ؎
گر نہ بیند بروز شپرۂ چشم                          چشمۂ آفتاب راچہ گناہ
اصلاحی صاحب کی حدیث پر کرم فرمائیاں
’مبادیٔ تدبر حدیث‘ میں اصلاحی صاحب نے مستند ذخیرۂ احادیث کو مشکوک اور ناقابل حجت قرار دینے کے لیے موشگافیاں اور اپنی من گھڑت کسوٹیاں پیش کی ہیں۔ الحمدللہ علمائے اہل حدیث نے ان کی ایک ایک کسوٹی کے تانے بانے کو اُدھیڑ کررکھ دیا ہے اور ایک ایک موشگافی کا نہایت مسکت اور منہ توڑ جواب دے دیا ہے۔ جیسے غازی عزیر﷾کی ضخیم اور نہایت مدلل و مفصل کتاب ’انکارِ حدیث کا نیاروپ ‘ہے جو بھارت میں چار حصوں میں شائع ہوئی تھی اور پاکستان میں بڑے سائز کی دو جلدوں میں مکتبہ قدوسیہ لاہور نے شائع کی ہے۔ اس میں اصلاحی استدلال کے سارے تاروپود بکھیر کر رکھ دیے گئے ہیں۔ جزاہ اللّٰہ احسن الجزاء
اسی طرح ہمارے ایک اور فاضل دوست حافظ عبدالحمید ازہر ہیں۔ انھوں نے بھی اپنے دو تنقیدی مقالوں میں اصلاحی صاحب کی مذکورہ کتاب نامستطاب کا جائزہ لیا ہے اور خوب لیا ہے۔ ان کے یہ مقالے ہفت روزہ ’الاعتصام‘ لاہور میں ’فن نقد حدیث پر مولانا اصلاحی کی کرم فرمائیاں‘ (دسمبر ۱۹۸۲ء، جنوری ۱۹۸۳ء) اور ’تحقیق حدیث کے لیے قیاسی کسوٹیاں‘ (مارچ ۱۹۸۷ءمىں) شائع ہوئے ہیں۔
دو اور اہل علم نے بھی اصلاحی صاحب کی اس کتاب کا ناقدانہ اورنہایت فاضلانہ جائزہ لیا ہے۔ ایک ڈاکٹر سعید احسن عابدی ﷾(جدہ) ہیں۔ ان کی نہایت محققانہ کتاب ’مقام حدیث‘ دو ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی ہے جس میں عرب و عجم کے منکرین حدیث كا مدلل پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے، ان میں اصلاحی صاحب بھی شامل ہیں اور ان کی ’مبادیٔ تدبر حدیث‘ پر بھی نقد ہے۔ دوسرے ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی سلّمہ اللّٰہ ہیں، انہوں نے بھی اس کتاب کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے، ان کا یہ مقالہ مجلس التحقیق الاسلامی کے سہ ماہی ’رشد‘ لاہور میں شائع ہوا ہے۔ بنابریں اس ’فضول‘ سی کتاب کا جواب دینے کی ہمیں نہ ضرورت ہے اور نہ اس وقت ہمارا مقصود ہی ہے۔
خیال رہے ہم نے ان كی کتاب ’مبادیٔ تدبر حدیث‘ کو جو ’فضول‘ سی کتاب کہا ہے، وہ واقعی نہات فضول کتاب ہے جس میں ائمۂ حدیث کی تمام فنی کاوشوں کو، جو اُنہوں نے حفاظت وصیانت حدیث کے لیے کیں، ناکافی قرار دیتے ہوئے، گمراہ ذہنوں کو ایسے ہتھیارفراہم کر دیے ہیں جن کے ذریعے سے محدثین کی مساعیٔ حسنہ کے برعکس احادیثِ صحیحہ کا تیا پانچہ کرنا اور احادیث ِواہیہ کو اپنانا آسان ہو جائے۔ جیسا کہ آپ دیکھیں گے کہ اپنے من گھڑت اُصولوں سے اصلاحی صاحب نے خود بھی یہ کام لیا ہے۔ صحیح بخاری کی متفق علیہ بیسیوں روایتوں کو تو مردود، لیکن زنادقہ و ملاحدہ کی من گھڑت روایات کو مقبول قرار دیا ہے۔
دوسرے، یہ لفظ ’فضول‘ اصلاحی صاحب کا بڑا مرغوب اور نہایت پسندیدہ ہے۔ جو بات یا حدیث ان کی عقل نارسا میں نہیں آتی، یا ان کے مزعومہ نظریات کے خلاف ہوتی ہے، تو وہ اس کے لیے بلا تکلف یہی لفظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً: یہ حدیث فضول سی ہے، شارحین یا مفسرین نے یہ فضول سی بات لکھ دی ہے، وغیرہ۔
اس لیے ان کا حلقۂ ارادت ان کی گمراہ کن کتاب کو ’فضول سی‘ کہنے پر سیخ پا نہ ہو۔ جب ان کی شوخ چشمانہ جسارت کا یہ حال ہے کہ وہ امام بخاری، جلیل القدر راویان حدیث، مفسرین و محدثین کے لیے یہ ’فضول سا‘ لفظ بولنے اور لکھنے میں کوئی تأمل نہیں کرتے تو ان کے وابستگانِ دامن کو بھی اس پر چیں بہ جبین ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔
حدیث دشمنی، یا انکار حدیث کے ناقابل تردید دلائل و شواہد
اصلاحی صاحب کا شہرہ ایک ’عظیم مفسر قرآن‘ کے طور پر ہے لیکن وہ تمام مفسرین اُمت کے ذخیرۂ علمی کو دریا برد کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان کا عمومی تعارف ایک مفسر قرآن اور شارحِ حدیث کے طور پر ہے، ان کی عظمت کے گُن گانے والوں کے نزدیک بھی ان کی یہ دونوں حیثیتیں مسلمہ ہیں۔ لیکن ہم نہایت دکھ کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ان کی ساری کاوشیں مستند احادیث کو مشکوک ثابت کرنے پر مرتکز رہی ہیں، اپنے جھوٹے وقار کے لیے انھوں نے مفسرین، محدثین اور احادیث کے خلاف جو منفی رویہ اختیار کیا ہے، اس کی جرأت آج تک کسی بڑے سے بڑے منکر حدیث کو بھی نہیں ہوئی۔ اس لیے برصغیر پاک و ہند میں ان کی فکر کے نتائج و اثرات بڑے خطرناک ہیں جس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
1۔تضاد فکر یا انتشار فکر
تمام منکرین حدیث کی طرح اصلاحی صاحب بھی تضاد فکر یا انتشار فکر کا شکار ہیں۔ اور شعوری یا غیر شعوری طور پر مغالطہ انگیزی کے لیے یہ تضاد یا انتشار ناگزیر ہے۔
تضاد فکریہ ہے کہ کبھی کبھی یا کہیں کہیں وہ حدیث کی حمایت بھی کرتے ہیں۔ مثلاً: سورۃ الجمعہ کی تفسیر کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔ وہ ’’رسول كى تعلیم، اللّٰہ کی تعلیم ہے۔‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’جمعہ کی نماز، اس کی اذان اور اس کے خطبہ سے متعلق یہاں مسلمانوں کو جو ہدایات دی گئی ہیں اور ان کی ایک غلطی پر جس طرح تنبیہ فرمائی گئی ہے، اس کا انداز شاہد ہے کہ جمعہ کے قیام سے متعلق ساری باتیں اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے انجام پائی ہیں، حالانکہ قرآن میں کہیں بھی جمعہ کا کوئی ذکر نہ اس سے پہلے آیا ہے، نہ اس کے بعد ہے۔ بلکہ روایات سے ثابت ہے کہ اس کے قیام کا اہتمام ہجرت کے بعد مدینہ پہنچ کر نبیﷺ نے فرمایا اور لوگوں کو آپ ہی نے اس کے احکام و آداب کی تعلیم دی۔ پھر جب لوگوں سے اس کے آداب ملحوظ رکھنے میں کچھ کوتاہی ہوئی تو اس پر قرآن نے اس طرح گرفت فرمائی گویا براہِ راست اللّٰہ تعالیٰ ہی کے بتائے ہوئے احکام و آداب کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول کے دیے ہوئے احکام بعینہٖ اللّٰہ تعالیٰ کے احکام ہیں، ان کا ذکر قرآن میں ہو یا نہ ہو۔ رسول کی طرف ان کی نسبت کی تحقیق تو ضروری ہے لیکن نسبت ثابت ہے تو ان کا انکار خود اللّٰہ تعالیٰ کے احکام کا انکار ہے۔‘‘[6]
کیا کوئی باور کرسکتا ہے کہ یہ کسی ’منکر حدیث‘ کی تحریر ہے؟ یہ اقرار و اعتراف دراصل مغالطہ انگیزہے۔ اقتباس میں ’روایات‘ کا لفظ بھی قابل غور ہے، جب کہ موصوف روایاتِ حدیث کو مانتے ہی نہیں۔ وہ تو صرف چند ’سنتوں‘ کو مانتے ہیں جن کی تعداد بھی ان کے فیض یافتہ غامدی صاحب نے متعین کر دی ہے کہ وہ صرف ۲۷ ہیں۔ ان میں جمعہ کے یہ آداب و احکام تو نہیں ہیں۔
2۔مختلف روایات کو متعارض باور کرانا
تمام منکرین حدیث راویانِ حدیث کی کسی ایک مسئلے سے متعلقہ روایات میں بیان روایت میں الفاظ کے جزوی اختلاف، یا اختصار و تفصیل، یا معمولی کمی بیشی کو روایات کا باہم تعارض باور کراکے احادیث کو ردّ کردیتے ہیں۔ اصلاحى صاحب کا بھی بالعموم یہی رویہ ہے لیکن جہاں ان کی اپنی ضرورت ایسی روایت سے استدلال کرنے کی ہوتی ہے، وہاں محدثین والا رویہ اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’تمام روایات کو سامنے رکھ کر حدیث پر غور کرنا چاہیے۔‘‘
چنانچہ وہ ایک حدیث کے دو طرق، جن میں الفاظ کی کمی بیشی ہے، ذکرکرکے لکھتے ہیں:
’’اوپر کی یہ دونوں روایتیں اصل میں ایک ہی روایت ہے... لیکن پہلی روایت قطرہ ہے تودوسری روایت علم کا دریا ہے۔ پہلی روایت کے الفاظ سے شدید قومی عصبیت کا مضمون بھی نکالا جاسکتا ہے لیکن اس دوسری روایت کے بعد اس کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ یہ توجہ میں نے اس لیے دلا دی ہے کہ راویوں میں بیان کا بہت فرق ہوتا ہے ۔روایات میں یہ مشکل بہت ہے، یہ میرا تجربہ ہے۔ یہ چیز حدیث کے طالب علم کی پیش نظر ہونی چاہیے، اور تمام روایات کو سامنے رکھ کر حدیث پر غور کرنا چاہیے۔‘‘[7]
موصوف یہاں جس بات کی تلقین فرما رہے ہیں، یہ تو ائمۂ حدیث کا رویہ رہا ہے اور حدیث کو حجت ماننے والوں کا اب بھى ہے۔ اسی لیے محدثین نے تمام صحیح احادیث کو جمع اور مدون کیا ہے اور اس طرح کے الفاظ کے ظاہری فرق و تعارض کو اہمیت نہیں دی۔ اس لیے کہ بیان واقعہ یا کسی کے ملفوظ کلام کے نقل و روایت میں مختلف راویوں کے الفاظ میں اس طرح کا فرق نہ کوئی حیثیت رکھتا ہے اور نہ اس کی وجہ سے ایسی روایات کو رد ہی کیا جاتا ہے، بلکہ بہ ادنیٰ تأمل نہایت آسانی سے ان کے درمیان جمع و تطبیق کی صورت پیدا کرلی جاتی ہے اور کرلی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ سے کہ بعض احادیث میں اس طرح کے ظاہری تعارض کی وجہ سے محدثىن نے کسی بھی صحیح السند مرفوع، متصل حدیث کو رد نہیں کیا ہے بلکہ جمع و تطبیق ہی کا اہتمام کیا ہے۔
محدثین کا طریقۂ جمع و تطبیق
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں محدثین کے جمع و تطبیق کی مختلف صورتوں اور طریقے کی مختصر وضاحت کر دی جائے تاکہ اس حوالے سے منکرین حدیث جو ’گھپلے‘ کرتے ہیں، اس کی حقیقت واضح ہو جائے۔ بعض روایات میں جو ظاہری تعارض نظر آتا ہے، اس کے حل کے لیے محدثین حسبِ ذیل طریقے اختیار کرتے ہىں:
1.     سند کے اعتبار سے اگر ایک روایت صحیح ہے اور دوسری ضعیف، تو صحیح السند روایت کو وہ قبول کر لیتے اور ضعیف کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
2.   اگر سند کے اعتبار سے دونوں صحیح ہوتی ہیں لیکن درجۂ صحت میں ایک کو دوسری پر کسی وجہ سے برتری حاصل ہوتی ہے تو وہ راجح قرار پاتی ہے۔ جیسے: ایک روایت سنن اربعہ میں سے کسی کی ہے جب کہ دوسری متفق علیہ، یا صحیح بخاری، یا صحیح مسلم کی ہے، تو اس دوسری قسم کی روایت کو صحت کے اعتبار سے فائق تر ہونے کی وجہ سے دوسری روایات پر ترجیح حاصل ہوگی۔
3.     بعض متعارض روایات میں قرائن سے تقدیم و تاخیر کا علم بھی ہو جاتا ہے، وہاں مؤخر روایت کو ناسخ اور مقدم روایت کو منسوخ تسلیم کر لیا جاتا ہے۔
4.     جہاں تقدیم و تاخیر کا علم بھی نہ ہو اور صحت کے لحاظ سے بھی دونوں یکساں ہوں، تو محدثین دونوں روایات کا ایسا محمل اور مفہوم بیان کرتے ہیں کہ جس سے ان کا ظاہری تعارض دور ہو جاتا ہے۔ جیسے مزارعت کی احادیث ہیں، بعض سے مزارعت کا جواز ثابت ہوتا ہے، بعض سے ممانعت کا۔ محدثین کہتے ہیں: ممانعت کا تعلق ان صورتوں سے ہے جن میں کسی ایک فریق پر ظلم و زیادتی کا امکان ہو اورجن میں ایسی صورت نہ ہو، وہاں جواز ہے۔
4.     اسی طرح بعض احادیث ایسی ہیں جن میں کسی میں نَہی (ممانعت) ہے تو کسی میں جواز، تو وہاں تطبیق کی ایک صورت یہ بھی اختیار کر لی جاتی ہے کہ نَہی کو نَہی تنزیہی قرار دے دیتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اس کام کا نہ کرنا بہتر ہے، تاہم کسی موقع پر اسے کر لیا جائے تو اس کا جواز ہے۔ جیسے کھڑے ہو کر پانی پینے کی روایات بھی ہیں اور جواز کی بھی۔ اس میں یہی تطبیق ہے کہ بیٹھ کر پانی پینا بہتر ہے، تاہم کھڑے کھڑے بھی پینا جائز ہے۔ علیٰ ہذا القیاس اس طرح کی دیگر روایات ہیں۔
5.     اسی طرح مثبت کو منفی پر، عمل کو قول پر ترجیح دے کر تعارض کو دور کر لیا جاتا ہے۔
6.     کسی روایت میں اختصار کی وجہ سے ابہام ہوتا ہے، اسے دوسری مفصل روایت سے دور کر لیا جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح تمام صحیح روایات قابل عمل اور قابل حجت رہتی ہیں، کسی کو مسترد کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ تاہم اس میں سب سے بڑی چیز امانت و دیانت کا جذبہ ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے محدثین کرام کو اس وصف سے بھی بدرجۂ اتم نوازا تھا۔
محدثین نے ایک تو سند کے پرکھنے میں کوئی رو رعایت ملحوظ نہیں رکھی۔ اس لیے کہ سند ہی سب سے بڑی اور اصل چیز ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے: الإسناد من الدین، لولا الإسناد لقال من شاء ماشاء. ’’اسناد دین کا حصہ ہے، اگر سند کو ضروری نہ سمجھا جائے تو پھر تو ہر شخص جو چاہے کہہ سکتا ہے۔‘‘ دوسرے، صحتِ سند کے بعد اُنہوں نے کسی بھی روایت کو فقہی تعصب یا کسی بھی وجہ سے نہ کنڈم کرنے کی کوشش کی اور نہ کوئی خلافِ واقعہ تاثر دیا۔ اس طرح انہوں نے امانت و دیانت کی بھی اعلیٰ مثالیں پیش کیں جیسے احادیث کی حفاظت و صیانت میں انھوں نے امکانی حد تک بے مثال کا وشیں کیں۔شَکَرَ اللّٰـهُ مَسَاعِیهِمْ
3۔ حدیث و سنت میں تفریق کا اختراعی نظریہ
حدیث سے جان چھڑانے کے لیے منکرین حدیث مختلف قسم کے دعوے کرتے ہیں۔ ان کاسب سے بڑا دعویٰ یہ ہے کہ حدیث کئی سو سال بعد معرضِ تحریر میں آئی ہے۔ لیکن علماء نے ناقابل تردید دلائل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ حفظ و ضبط کے خصوصی اہتمام کے ساتھ اس کو کتابت کے ذریعے سے بھی محفوظ کرنے اور رکھنے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ عہدِ رسالت و عہدِ صحابہ و تابعین میں بھی یہ کام ہوا، اس کے بعد بھی تسلسل سے جاری رہا۔ تا آنکہ جامعین حدیث نے اس سارے تحریری مواد کو مسانید ومعاجم اور سنن کی کتابوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔ فراہی گروہ جانتا ہے کہ اس بے بنیاد پروپیگنڈے کے غبارے کی ساری ہوا علماء و محققین نے نکال دی ہے۔ تو اس گروہ نے انکارِ حدیث کے لیے ایک نیا نظریہ ایجاد کیا کہ حدیث اور ہے اور سنت اور۔ سنت تو اُمت کے تواتر عملی سے ثابت ہے اور وہ حجت ہے اور وہ چند اعمال ہیں۔ اور حدیث، رسول اللّٰہﷺ کے قول، عمل اور تصویب کا نام ہے جو احادیث کے مجموعوں میں مدوّن ہیں لیکن یہ سب ظنی، یعنی مشکوک ہیں۔ اس لیے یہ سارا ذخیرۂ احادیث غیر معتبر ہے۔ اس سے نہ قرآن کی تفسیر میں مدد لی جا سكتی ہے اور نہ اس سے کسی عقیدہ و عمل کا اثبات ہو سکتا ہے۔ یوں اس خانہ ساز نظریے اور سنت کے اپنے اختراعی مفہوم کی بنیاد پر احادیث کو ناقابل حجت قرار دے کر مکر و فریب کا ایسا شاہکار مظاہرہ کیا ہے کہ لوگ اس گروہ کو سنت کا ماننے والا ہی تسلیم کرتے ہیں، حالانکہ ان کے نزدیک ’سنت‘ سے مراد اصطلاحی سنت نہیں ہے جس میں تمام احادیث رسول آتی ہیں اور تمام مسلمانوں کے نزدیک سنت سے تمام احادیث رسول ہی مراد ہوتی ہیں، نہ کہ صرف تواترِ عملی پر مبنی چند سنتیں، یا صرف ۲۷سنتیں۔
احادیثِ رسول کو غیر معتبر ٹھہرانے کا یہ کیسا بہانہ ہے جو شیطان نے اس گروہ اور اس کے ائمہ کو سجھایا ہے۔
4۔ صحیح احادیث مردود اور منکر روایات مقبول
یہ بھی منکرین حدیث ہی کا شیوہ رہا ہے اور ہے۔ اصلاحی صاحب کا بھی یہی رویہ ہے۔ ان کے نزدیک صحیح بخاری كى متفق علیہ دسیوں روایات مردود ہیں ۔ اس کے مقابلے میں ’مبادیٔ تدبر حدیث‘ میں کئی منکر (سخت ضعیف روایات) سے استدلال کیا ہے۔[8]
5۔صحیح بخاری کی عظمت کو گھٹانا
صحیح بخاری کی عظمت بھی ہر منکر حدیث کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔ اس لیے اس پر نکتہ چینی، اس کی احادیث پر بے جا اعتراضات اور امام بخاری کی شخصیت و فقاہت کو داغ دار ثابت کرنا ہر منکر حدیث کا دلچسپ مشغلہ ہے۔ اصلاحی صاحب بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں۔
اس مقام پر آپ صرف شاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوی کا وہ تبصرہ ملاحظہ فرمائیں جو انہوں نے امام بخاری کی عظمت اور شان گھٹانے والوں کے بارے میں کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون على أن جمیع ما فیهما من المتصل المرفوع صحیحٌ بالقطع، وأنهما متواتران إلىٰ مُصنفَیْهما، وانه کل من یُهَوِّن أمرهما فهو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین. [9]
’’صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی بابت محدثین کا اتفاق ہے کہ ان میں جتنی بھی مرفوع متصل احادیث ہیں، وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور وہ اپنے مصنفین تک متواتر ہیں۔ نیز یہ کہ جو شخص بھی ان دونوں (مجموعہ ہائے حدیث) کی شان گھٹاتا ہے، وہ بدعتی ہے، اور مومنوں کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کا پیروکار ہے۔‘‘
6۔ روایات میں تشکیک پیدا کرنا
یہ بھی منکرین حدیث کی ضرورت ہے، اس لیے یہ بھی ان کا دلچسپ مشغلہ ہے، اصلاحی صاحب کو جہاں بھی ایسا موقع ملا، اس سے فائدہ اٹھانے میں کوتاہی نہیں کی بلکہ اس کے لیے گنجائشیں نکالنے میں رہتے ہیں۔ مثلاً مسئلہ بیع خیار میں ایک حدیث ہے۔ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
’’بائع اور مشتری دونوں کو ایک دوسرے کے مقابل میں اختیار ہے جب تک جدانہ ہوں۔ سوائے بیع خیار کی صورت میں۔‘‘ [10]
اس حدیث میں خیار مجلس کا بیان ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک بائع (بیچنے والا) اور مُشتری (خریدار) جدا نہ ہوں تو دونوں میں سے ہر ایک کو سودا فسخ کرنے کا اختیار ہے، بائع کہے: میں نے جو چیز بیچی ہے، میرا ارادہ بدل گیا ہے، اب میں نے نہیں بیچنی۔ یا خریدار کہے: میں نے جو چیز خریدی ہے، میں نہیں لیتا، تم اسے واپس لے لو۔ جب تک مجلس نہیں بدلتی اور ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو جاتے، دونوں کو اختیار ہے۔ ہاں بیع خیار میں ایسا نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہاں اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس میں تو پہلے ہی متعین دنوں تک اختیارِ فسخ حاصل ہوتا ہے۔اس حدیث میں کسی قسم کا اشکال نہیں ہے۔ لیکن اصلاحی صاحب اس میں تشکیک پیدا فرماتے ہیں، ان کا تبصرہ یا وضاحت ملاحظہ ہو:
’’یہاں الفاظ کل واحد منهما آئے ہیں، یعنی بائع اور مُشتری دونوں میں سے ہر ایک کو اختیار ہے۔ یہ سب روایت بالمعنی کے باعث ہوتا ہے۔ یہ غور کرنا پڑے گا کہ یہ آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے یعنی شریعت کی بات ہے یاکسی راوی صاحب کا اجتہاد ہے۔ حدیثوں میں یہ بہت ہے اور روایت بالمعنی نے مفہوم میں بڑا فرق کر دیا ہے۔‘‘[11]
یعنی حدیث میں قطعاً کوئی اشکال نہیں، لیکن اپنے ذہنی خلجان کو پہلے راوی کے ذمے لگاتے ہیں۔اس میں ’راوی صاحب‘ کے الفاظ بھی راویانِ حدیث سے بغض کے غماز ہیں۔پھر اس کو ’روایت بالمعنی‘ کا کرشمہ باورکراتے ہیں، مزید ستم، یہ کہ ’’حدیثوں میں یہ بہت ہوتا ہے۔‘‘ نیز ’’روایتِ بالمعنی‘ نے مفہوم میں بڑا فرق کر دیا ہے۔‘‘ احادیث میں تشکیک پیدا کرنے ہی کا انداز ہے۔
ایک بات (اشکال) جو سرے سے حدیث میں ہے ہی نہیں، وہ اپنی طرف سے بنائی، پھر اس کو بتنگڑ اور رائی کو پربت بنا دیا۔ گویا بقول فیض احمد فیض  ؎
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا                              وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
ایک اور مثال ملاحظہ ہو، نبیﷺ نے فرمایا:
’’ بائع اور مشتری دونوں کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہوں۔ ہمام کہتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب میں یوں لکھا پایا: تین بار اختیار کرے۔‘‘
اس کی وضاحت میں اصلاحی صاحب فرماتے ہیں:
’’اس روایت میں ایک بات غور طلب ہے وہ یہ کہ ہمام کی اس بات کا کیا مطلب ہے کہ تین بار اختیار کرے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہے: میں نے دیا، میں نے دیا، میں نے دیا۔ اور دوسرا کہے: میں نے لیا، میں نے لیا، میں نے لیا۔ بہرحال میں اس کے سمجھنے سے قاصر ہوں۔‘‘[12]
یہ حدیث کی شرح و وضاحت ہے یا حدیث کے ساتھ استہزا؟ حالانکہ شارحین نے وضاحت کردی ہوئی ہے کہ ہمام راوی کا یہ کہنا کہ میری کتاب میں ’’اختیار کرے‘‘ (یختار) بھی لکھا ہوا ہے، یہ الفاظ غیر محفوظ ہیں اور حضرت قتادہ سے بیان کرنے والے دوسرے راویوں کے بھی خلاف ہیں۔[13] یعنی یہ حدیث ہمام راوی کے الفاظ (یختار ثلاث مرات) کے بغیر ہے۔ پھر ان غیر محفوظ الفاظ کو بنیاد بنا کر حدیث کا مذاق اڑانا، یہ کسی محدث یا شارح کا کام ہے یا کسی منکرِ حدیث کا؟
ایک تیسری مثال: نبیﷺ کی ایک پیش گوئی کا مذاق...اصلاحی صاحب لکھتے ہیں:
’’ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا کہ ایک لشکر کعبہ پر حملہ کرے گا تو جب وہ سرزمین کے کھلے میدان میں ہوں گے تو ان کے اول و آخر سب زمین میں دھنسا دیے جائىں گے۔ الحدیث‘‘
یہ ایک پیش گوئی ہے، پتہ نہیں کب ظہور میں آئے؟ لیکن اصلاحی صاحب دو واقعے نقل کرکے، ایک عبداللّٰہ بن زبیر کے مکہ پر قابض ہونے کا، دوسرا اصحابِ فیل کا، کہ ان میں سے تو کسی پر یہ واقعہ صادق نہیں آسکتا۔ لکھتے ہیں:
’’یہ روایت بہت مشکل ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ رسول اللّٰہﷺ نے کوئی پیش گوئی کی ہے یا کوئی رؤیا بیان فرمائی ہے، یہ شبہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ دوسری روایت میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ایک دن نبیﷺ سے سوتے میں کچھ غیر معمولی باتیں صادر ہوتے دیکھنے میں آئیں۔ اس کے بعد حضرت نے یہ واقعہ بیان فرمایا تو ظاہر ہے کہ اس کا واضح قرینہ تو یہی ہوا کہ آپ نے کوئی رؤیا بیان کی ہو۔ رؤیا تعبیر کی محتاج ہوتی ہے اور کسی روایت میں اس کی تعبیر نہیں ہے۔ اگر فرض کر لیجیے کہ رؤیا کو ظاہر ہی پر محمول کریں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا لشکر ہے جو مکہ پر حملہ آور ہوا اورپھر اس کا یہ انجام ہوا؟ … اگر اس کو پیش گوئی پر محمول کیجیے تو ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔‘‘ [14]
ایک پیش گوئی پر مبنی روایت میں تشکیک پیدا کرنے کی کیسی بھونڈی کوشش ہے کہ پہلے حضرت عائشہ کی ایک روایت کا (بغیر حوالے کے) تذکرہ کرکے اسے رؤیا باور کرایا۔رؤیا والی حدیث کی جو نسبت حضرت عائشہ کی طرف کی گئی ہے، وہ کون سی حدیث ہے؟ ہمارے علم میں نہیں، موصوف نے بلاحوالہ نقل کی ہے۔ پھر اس بے حوالہ روایت کی بنیاد پر اس کو رؤیا سے تعبیر کر دیا، اور پھر اس کو پیش گوئی کے بجائے اس بات کا قرینہ ٹھہرا لیا کہ یہ رؤیا ہے۔ پھر سوال پیدا کر دیا کہ یہ کون سا لشکر ہے؟ یعنی حدیث میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے ایک مفروضہ نہیں، مفروضات کا طومار کھڑا کر دیا۔ پھر بھی کوئی بات نہیں بنی، اس لیے کہ
کیا بنے بات ،جہاں بات بنائے نہ بنے!
یہ کہنا پڑا کہ ’’اگر اس کو پیش گوئی پر محمو ل کیجیے تو ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔‘‘ بات تو حدیث میں اتنی ہی تھی، یعنی ایک پیش گوئی۔ آگے مزید فرماتے ہیں:
’’لیکن پیشین گوئیوں کے وقت کا تعین نہیں ہوسکتا، وہ مستقبل میں کسی وقت بھی ظاہر ہوسکتی ہیں۔‘‘
یہ حدیث کی شرح و وضاحت ہے یا مفروضات کا گورکھ دھندا؟ اور تان بالآخر پیش گوئی ہی پرٹوٹتی ہے جو حدیث کا اصل مقصود ہے۔ لیکن اپنی ہمہ دانی کے زعم اور ادعا سے خوا ہ مخواہ حدیث میں تشکیک پیدا کرنے سے نہیں چُوکے۔شرح صحیح بخاری کی دونوں جلدوں میں قدم قدم پر ’وضاحت‘ کے نام پر تشکیک کی یہ مذموم اور ناکام مثالیں بکثرت ہیں۔                
(تفصیلات کے لئے اس موضوع پر محترم حافظ صلاح الدین یوسف ﷾کی تازہ زیر طبع کتاب کا انتظار کریں)
حوالہ جات:
[1]    مفہوم القرآن، جلد اول، بحوالہ خصوصی اشاعت ’فکرونظر‘ مطالعۂ قرآن، ص : ۳۳۵
[2]    ماہنامہ’طلاع اسلام‘ مئی ۱۹۷۹ء
[3]    دیکھیں ’میزان‘ ازجاوید احمد غامدی: میزان ص 10، طبع دوم
[4]    مبادیٔ تدبر حدیث، ص : ۱۹،۲۰
[5]    ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا ...﴿٦﴾... سورة الحجرات
[6]    تدبر قرآن: جلد ۸؍ ص ۳۸۸، مطبوعہ فاران فاؤنڈیشن
[7]    شرح صحیح بخاری، ج ۲، ص : ۲۲۳۔ مطبوعہ ۲۰۰۵ء
[8]    ملاحظہ ہو ’مبادیٔ تدبر حدیث‘: ص ۶۵، ۷۹،۷۷،۶۷ اور ۱۱۶۔ ان کی شروح حدیث میں بھی اس کے نظائر ہیں۔
[9]    حجۃ اللہ البالغۃ، ص : ۱۳۴
[10] ترجمہ حدیث، از اصلاحی صاحب
[11] شرح صحیح بخاری، ج ۱، ص : ۴۱۳
[12] حوالہ مذکور، ص : ۶۱۶
[13] فتح الباری: 4؍ ۴۲۲، طبع دارالسلام
[14] حوالہ مذکور:ص ۴۱۸، ۴۱۹