اکتوبر 2011ء

اک چراغ اوربجھا...!

کبھی کبھی لفظ بہت چھوٹےہوجاتےہیں اورکہنےوالےکی بات اوردکھ بہت زیادہ۔دل چاہتاہےکہ ان کاتذکرہ نوکِ قلم سےنہیں بلکہ خون دل سےکیاجائےاورسچی بات تویہ ہےکہ پھربھی حق ادانہیں ہوگا۔محمد عطاءاللہ صدیقی رحلت فرماگئے۔إنالله وإناإليه راجعون
دل شدت غم سےپھٹاجارہاہےاور ان کی ناگہانی موت کایقین کرنامشکل۔وہ ابھی اس قحط الرجال کےدور میں جب ان جیسےعزم اورگوناگوں افکار کےمالک لوگوں کی اشد ضرورت ہےمگر قدرت کااپنانظام ہےجس سےکسی کومفر نہیں۔
میری ان سےشناسائی دس سال پرانی ہےتب سےجب ان کی پرمغز باتیں بھی ٹھیک طرح سےسمجھ نہیں آتی تھیں۔میں ایف اے کی طالبہ تھی جب ان کی تحریر پہلی دفعہ میری نظر سےگزری غالباًطالبان کی بت شکنی کےحوالےسےتھی یاسیکولر ازم پہ...جوماہنامہ'محدث'میں شائع ہوئی۔بہت ہی پراثر اور فکر انگیزتحریر تھی۔جواپنےجداگانہ اسلوب'جری اورغیورفکر سمیت سیدھادل میں اتر گئی اور اس سےاگلےہی دن میں اورمیری دوست ان کی رہائش گاہ پران کےسامنےبیٹھےتھے۔وہ حد مشفق انسان تھے۔بہت محبت اور خلوص سےملےمگرمیرامسئلہ ہنوز برقرار'ان کی بلندعلمی سطح اوراعلی پائےکی ادبی گفتگو آدھی سےزیادہ اوپرسےگزرگئی۔مگرمحبت اورخلوص کی اپنی زبان ہوتی ہےجوعلمی سطح کی محتاج نہیں ہوتی۔یہی محبت اورخلوص ہی تھاکہ ہم اکثر ان کےہاں جانےلگےجب بھی گئےوہ اور ان کی اہلیہ بہت خلوص سےملتے'گھنٹوں گپ شپ ہوتی'امورِخانہ داری سےلےکرسیاسی معاملات تک سبھی موضوع زیر بحث آتے۔کچھ باتیں سمجھ میں آتیں اورکچھ اوپرسےگزر جاتیں...بہرحال وقت گزرتارہا ملاقاتوں کاسلسلہ توویسانہ رہ سکامگرفون پررابطہ کبھی کبھار ہوجاتامگربذریعہ تحریر ان سےجولگاؤ پہلی تحریر کےبعد پیداہواتھاوہ ہمیشہ قائم رہا۔
ماہنامہ محدث میں ان کی تحریریں پڑھنےکوملتی رہتی اور گرتےپڑےہم ایم اےمیں آن پہنچے تھوڑی سی ذہنی سطح بلند ہوئی توان کی تحریریں اوربھی قلب ودماغ کوگرمانےلگیں۔وطن عزیز کی دگرگوں حالت پہ ان کی تحریریں جہاں فکروعمل کےدرواکرتیں وہاں امید اورحوصلےکی نوید بھی سناتیں۔ان کی ناگہانی موت پران کےحلقہ احباب پر ایک سکوت طاری ہےگِدھوں کےاس معاشرےمیں وہ ایک مردِجری تھےجوباطل کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرنےکاہنر جانتےتھے۔وہ ایک بیوروکریٹ تھے'اعلی عہدےپرفائزسرکاری آفیسر'مگر اندر نہایت درویش صفت'پکےتوحید پرست اور مجاہد انسان۔ان کےجنازےپر ایک اعلی فوجی افسر بریگیڈیئر عبدالحمید نےاپنےغم کویوں زبان دی کہ آج ایک توحید پرست ہم سےجداہوگیا۔گورنمنٹ ملازم ہوتےہوئےبھی حق بات کہنےسےکبھی نہیں گھبرائے'سیکولر اورلادینی قوتوں کےخلاف ایک وہ ایک آہنی تلوار تھےجنہوں نےحق پرکبھی سمجھوتانہیں کیا۔
وہ ہمہ گیر شخصیت کےمالک انسان تھے'چلتے پھرتےانسائیکلوپیڈیا'جنہوں نےباقاعدہ کوئی انجمن تونہیں بنائی مگر وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔افکار اورجذبہ حریت سےمالامال بہت حساس موضوعات پرقلم اٹھایابالخصوص ناموس رسالت اس موضوع پر ان کاقلم شعلہ جوالہ بن جاتااورقاری اس کی حدت اورگرمی محسوس کئےبغیر نہ رہ سکتا۔سرکارِدوعالمﷺکی محبت میں سرشار نعت تو بہت سےلوگ پڑھتےہیں مگر مجسم نعت بہت کم لوگ بن پاتےہیں۔عطاءاللہ صدیقی جب لکھتےتونعت بن جاتی تھی۔جب ان کاقلم سرکارِ دوعالمﷺکی محبت میں سرشار الفاظ کاروپ دھارتاتوپڑھنےوالا اس کی تاثیر کوپوری شدت سےمحسوس کرتااورقائل ہوئےبغیر نہ رہ سکتا۔جذبات اوردلائل کی قوت جب باہم ملتی توعطاءاللہ صدیقی کا ہراستدلال ہمیں ایک نئی جہت سےروشناس کرواتا۔سچااوردیانتدارمحقق وہی ہوتاہےجواپنی فکر سےانوکھےاورسچےموتی تحقیق کےدامن میں ڈالتاہے۔
ام الحقوق:تمام حقوق کی بنیاد اور سب سےبڑاحق نبی کریمﷺکی رسالت کاحق ہے۔ناموس رسالت کےحوالےسےان کی یہ اصطلاح جداگانہ اورمنفردطرزِفکر کی حامل ہے۔عطاءاللہ صدیقی اس بات سےبخوبی واقف تھےکہ موجودہ دورمیں جہاں ہر طرف حقوق کی زبان میں مسائل کاچرچاہورہاہےتواسی حقوق کی زبان میں ناموس رسالت کادفاع کیاجائے۔عطاءاللہ صدیقی کااس بات پر پختہ یقین تھاکہ حقوق میں سب سےبڑاحق اگرکوئی ہےتووہ رسالتِ مآبﷺکاحق ہے۔اگر اس میں کوتاہی رہ گئی پھر تمام حقوق اکارت ۔
اپنی وفات سےتین روزقبل وہ اپنی اہلیہ سےکہہ رہےتھے کہ میں نےناموس رسالت پر جتناکام کیااگروہ بارگاہ الہی میں قبولیت پاجائےتووہی میری نجات کےلیےکافی ہے۔اللہ ان کےکام کوقبول فرمائے۔آمین!
مدیر'محدث'بتارہےتھےکہ مولانانعیم صدیقی نےاپنی وفات سےپیشتر محمدعطاءاللہ صدیقی کومخاطب کرتےہوئےکہاتھاکہ میں اپنامشن آپ کےسپرد کرکےجارہاہوں اورمجھےامیدہےکہ آپ اس مشن کوبخوبی احسن نبھائیں گے۔نعیم صدیقی کےاس گمان کو انہوں نےآخری دم تک پوراکیا۔
ناتوانی اوربیماری میں بھی قلم وقرطاس سےان کابھرپوررشتہ استوار رہا۔امریکہ نواز این جی اوز بالخصوص عاصمہ جہانگیر جیسی عورتوں کےاصل چہرےعوام تک لاناانہی کاکام تھا۔اپنےقلم سےلادینی قوتوں کےخلاف جہاد میں سرگرداں اس بات پرہمیشہ فکر مند رہےکہ ان کےمشن میں کوتاہی نہ رہ جائے۔پڑھنےلکھنےکےبےحدشوقین تھےسیکرٹری معدنیات ہونےکےساتھ ساتھ فنون لطیفہ کابھی ذوق رکھتےتھےمگر قلم وقرطاس سےدلی وابستگی تھی۔اپنےاس شوق میں اس حد تک محور رہتےکہ کھاناتک بھول جاتے۔اللہ ان کےمخلص اعمال کودرجہ قبولیت سےسرفراز فرمائے۔ان کی یادیں'ان کی باتیں'ان کاخلوص'ان کی فکر'ان کااسلوب تاحیات دلوں کوگرماتارہےگا۔کچھ لوگ مرتے نہیں امرہوجاتےہیں۔عطاءاللہ صدیقی بھی امر ہوگیا...
توحید تویہ ہےکہ خداحشرمیں کہہ دے یہ بندہ دوعالم سےخفامیرےلیےہے