جمہوریت ، مارشل لاء اور اسلام 1973ء کا دستوراوراسلامی دستور

ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مکمل ہوگئے ہیں۔اور عمومی تاثر یہی ہے کہ انتخابات انتہائی منصفانہ اورپرامن ہوئے ہیں۔چنانچہ جہاں تک ان کے منصفانہ ہونے کا تعلق ہے۔ہم نے بڑے بڑے جبہ ودستاروالوں کے متعلق یہ سنا ہےکہ انہوں نے ووٹروں کو رات کو تنہائیوں میں یہ مشورہ دیا:
"اگر آپ دوسری پارٹی سے ووٹ دینے کی حامی بھر چکے ہیں تو کوئی حرج نہیں آ پ بظاہر ان سے یہی کہتے رہیں کہ ووٹ آپ کو دیں گے۔لیکن در پردہ مہر لگاتے وقت ہمارا انتخابی نشان۔۔۔یاد رکھئے گا!"
۔۔۔اورتجزیہ اکثر لوگوں کا ہوا ہوگا۔۔۔علاوہ ازیں دھاندلیوں اورجبرواکراہ کے کچھ واقعات بھی پڑھنے سننے میں آئے ہیں۔اور جن کی بناء پر بعض شہروں میں کشیدگی کی فضاپائی جاتی ہے۔جمہوریوں کےنزدیک شاید یہ باتیں زیادہ اہم نہ ہوں لیکن یہ بات ضرور ان کے سوچنے کی ہے۔کہ اگر عدل وانصاف ان کے ہاں اسی کا نام ہے۔اور باایں ہمہ انتخابات و اقعی منصفانہ ہوئے ہیں۔تو بھی اس کا کریڈٹ مارشل لاء حکومت کو جاتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں تین مرتبہ انتخابات منفانہ ہوئے ہیں۔اولاً ایوبی دور میں بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات ،ثانیاً یحییٰ خان کے دور کے انتخابات اورثالثاً حالیہ انتخابات!۔۔اور تینوں مرتبہ ان منصفانہ انتخابات کا انعقاد مارشل لاء کے ہاتھوں ہوا ہے۔۔۔جبکہ جمہوری دور کے ایک ہی مرتبہ کے انتخابات نے ملک کی بنیادیں تک ہلا کے رکھ دیں تھیں۔اور نتیجتاً خود جمہوریت پرستوں کو بھی پھر سے مارشل لاء ہی کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا تھا!

۔۔۔اور جہاں تک انتخابات کے پرُ امن ہونے کا تعلق ہے۔تو ان انتخابات کے دوران،انتہائی محتاط اندازے کے مطابق بھی،دس بارہ افراد کا قتل ہوجانا جمہوریوں کے چہرے پر کالک سےکم نہیں!۔۔۔کیا یہ بات عجیب نہیں کہ 77 کامارشل لاء تو بغیر کسی خون خرابے کے لگا۔لیکن  جمہوریت نے سب سے پہلا تحفہ ہمیں خون ناحق کی صورت میں دیا ہے؟۔۔۔مارشل لاء بہت براسہی،اور جمہوریت بہت اچھی سی،لیکن اہل وفکرونظر سے ہمارا سوال یہ ہے کہ ان حقائق کی روشنی میں جولائی 77ء کا مارشل لاء اچھا تھا یا فروری 85کی جمہوریت؟۔۔۔مصیبت کا  احساس اسی وقت ہوتا ہے،جب وُہ اپنے آپ پر آئے۔۔۔بحالی جمہوریت پر خوشیاں منانے والے،ان انتخابات کی بدولت کسی بیوہ ہوجانے والی عورت کسی یتیم ہوجانے  والے بچے اور کسی مقتول بیتے کی سسکتی تڑپتی ممتا سے اس کا حال زار پوچھیں تو شاید انہیں کچھ حد تک اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ انتخابات انہیں کیا دیے گئے ہیں اور ان سے کیا چھین کرلے گئے ہیں!

ادھر صدر صاحب نے بڑے اطمینان سے فرمایا ہے:

"ہم  تشدد کے واقعات کی زیادہ توقع کرتے تھے،مگر خوش قسمتی سے انتخابات پُر امن ہوئے!"

۔۔۔اسی خوش قسمتی کا اندازہ تو انھیں اس وقت ہوگا،جب کل کو روز قیامت وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے،اور ان سے یہ پوچھا جائے گا کہ آپ کے دور حکو مت میں یہ قتل ناحق کس لئے؟۔۔۔اور اگر صدر صاحب یہ کہیں کہ اس بحالی جمہوریت پر جمہوریوں نے انہیں مجبور کیا تھا،تو ساڑھے سات سال کی مدت کچھ کم نہیں ہوتی۔آخر ان کو اسلام کی بھی کچھ مجبوری لاحق تھی یا نہیں؟۔۔۔بلکہ وہ آئے دن عوام سے ا س کے وعدے بھی کرتے  رہے ہیں۔۔۔وہ اگر چاہتے تو نفاذ شریعت کے تقاضوں کو کماحقہ پورا کرکے عوام کو یہ  احساس دلاسکتے تھے۔کہ جس کے  پیچھے تم اب تک بھاگتے  رہے ہو۔وہ ایک سراب تھا حقیقی زندگی تو وہ ہے جو اب تمھیں نصیب ہوئی ہے۔اس  صورت میں عوام جمہوریت کانام بھی لینا پسند نہ کرتے اور جمہوریت کے داعی بھی ناچار خاموش ہوجاتے!۔۔۔لیکن یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ چند دن قبل،اسلام کے نام پر عوام سے صدارت کےلئے مزید پانچ سال کی مدت  طلب کرنے و الے صدر صاحب انہی عوام کو یہ خوشخبری سنارہے ہیں۔کہ نفاذ اسلام اب منتخب اسمبلی کی ذمہ داری ہے جبکہ وہ اطمینان سے صدارت کریں گے!۔۔۔لیکن یہ اطمینان انہیں نصیب نہ ہوگا۔اس لئے کے عوام نے ریفرنڈم میں ان کے طویل سوال کا جواب"ہاں" میں ان کی صدارت برائے صدارت"کے لئے نہیں دیا تھا۔بلکہ یہ"ہاں"صدارت برائے اسلام" کے لئے تھی۔اور جس کو نظر انداز کرکے اگر انہوں نے 73ء کے آئین میں ترمیمات کے ذریعے صدارت کی کرسی کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔تو ان ترمیمات کے چند ہی گھنٹے بعد اس کاشدید  رد عمل بھی سامنے آچکا ہے۔اور اگر جمہوریت نے اپنی "برکتوں" سے عوام کو مزید"مالا مال"کرنا شروع کردیا تو یہ بحران اور بھی زیادہ شدت اختیار کرلے گا!

جہاں تک اسلام کا تعلق ہے۔تواسے نہ جمہوریت راس آتی ہے اور نہ مارشل لاء ہی سے اسے ایک گونہ پیار ہے۔بلکہ اس کا اپنا ایک مخصوص مزاج ہے۔اور بحمداللہ ہمیں یہ اطمینان حاصل ہے کہ ہمارا قلم جب بھی  اٹھا ہے اسلام کی حمایت میں اٹھا ہے۔اور دوسروں سے بھی اسلام کی  حمایت کی توقع ہمارے لئے پسندیدہ تر ہے۔۔۔سطور بالا سے یہ ظاہر ہے کہ جمہوریت کے نزدیک یہ بات کچھ زیادہ اہم نہیں کہ ووٹر اپنا ووٹ بظاہر کسی اور کو دے اور در پردہ کسی اور کو!۔۔۔لیکن اسلام اسے صریحاً منافقت کا نام دیتا ہے۔اور یہ بات اس کے نزدیک  دھوکا دہی اور کذب کے ذیل میں آتی ہے۔۔۔اسی طرح مارشل لاء کو اگر یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ اس نے منصفانہ انتخابات کرواکر جمہوریت بحال کردی ہے۔ تو وہ اس پر جتنا فخر چاہے کرے لیکن نہ مارشل لا ء کو اورنہ ہی جمہوریت کو اس کی پرواہ ہے کہ کئی افراد انتخابات کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے ہیں۔جبکہ اسلام اسے فساد فی الارض سے تعبیر کرتا ہے۔کئی نہیں بلکہ فر د واحد کا قتل بھی اس کے نزدیک سب لوگوں کو قتل کردینے کے مترادف ہے۔۔۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا ﴾...(المائدہ : 32)
"اسی قتل(ناحق کی) وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل فرمایا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا۔(یعنی) بغیر اس کے جان کا بدلہ لیا جائے یا (بایں صورت کہ کسی کو) زمین میں فساد کرنے کی سزا دی جائے تو اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کردیا!"

ہم نے گزشتہ ماہ حالات وواقعات کی روشنی میں جمہوریت کے ناسور پر نشتر زنی کی تھی۔اور ساتھ ہی ساتھ اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ اگر جمہوریت تشریف لارہی ہے۔ تو اس کی موجودگی میں اسلام کی توقع عبث ہی ہوگی۔اور ملک  پھر ایک مرتبہ حقیقی بحران کی ذد میں ہے۔چنانچہ حالات وواقعات نے اس بحران کی نشاندہی شروع کر بھی دی ہے۔علمبرداران جمہوریت کے نزدیک انتخابات منصفانہ بھی ہوئے اور پُر امن بھی!۔۔۔لیکن نتیجہ کیا نکلا؟۔۔۔حکومت کے لئے 73ء کے د ستور میں ترمیمات ناگزیر ہیں۔لیکن اس دستور کے پجاریوں کے نزدیک یہی ترامیم اس دستور پر خط تنسیخ پھیر دینے کے مترادف بھی ہیں۔حکومت کے نزدیک ان ترامیم کا مقصد صدارت اور وزارت عظمیٰ کے اختیارات میں توزان پیدا کرنا ہے۔لیکن جمہوریت پرستوں کو ان ترمیمات کے نتیجہ میں وزارت عظمیٰ نے اختیار ہوتی نظر آتی ہے۔اخبارات چلا رہے ہیں کہ:

"73ء کے آئین پارلیمانی نہیں رہا۔ترمیمات کے بعد اس کی بنیاد ہی ختم ہوچکی ہے!"

اور  صدر صاحب کہتے ہیں کہ:

"صدر کی حیثیت میں آئین کا  تحفظ کروں گا!"

۔۔۔سیادت دانوں کو اصرار ہے کہ:

"اسمبلی میں ارکان کو ان کی خواہش کے مطابق کام کرنے کا موقع نہ ملا تو ملکی سلامتی کو خطرات پیش آسکتے ہیں!"۔۔۔اور:

"حالیہ ترامیم سے پاکستان کی سلامتی کو زبردست خطرات در پیش ہیں!"

۔۔۔لیکن ادھر سے آواز آتی ہے کہ:

"عوام نے میری  پالیسیوں کو گرین سگنل دے دیا ہے!"۔۔۔اور"

"ترامیم کا مقصد کسی شخصیت کو  فائدہ پہنچانا نہیں،یہ ملکی سلامتی کے لئے کی گئی ہیں!"

ان حالات میں سوچیے کہ کس کی بات مانی جائے۔اور کس کی تردید کی جائے؟۔۔۔ایک ہی د ستور میں ایک ہی قسم کی  ترمیمات ملکی سلامتی کی ضامن بھی ہیں اور ملکی سلامتی کے لئے زبردست خطرات کا باعث بھی!۔۔۔کیا "حق وباطل" کا یہی معرکہ یہی کھینچا تانی کسی نئے بحران کا پیش خیمہ نہیں؟۔۔۔منصفانہ اور پر امن انتخابات کے باوجود یہ دستوری بحران کیوں پیدا ہوا؟۔۔۔صرف اس لئے کہ نہ جمہوریت ہمارے ان مسائل کاحل ہے۔اور نہ 73ء کا دستور ہی ہمارا دستور ہے!۔۔۔اور جو اصل د ستور ہے اسے دستور سمجھا ہی نہیں جارہا بلکہ وہ کسی کو یاد ہی نہیں!۔۔۔اگر یاداشتیں بالکل ہی جواب نہیں دے گئیں  تو یہ وہی دستور ہے جس کے متعلق چند ماہ قبل صدر صاحب نے فرمایا تھا کہ:

"مسلمانوں کا دستور مرتب ومدون ان کے ہاتھوں میں موجود ہے اور وہ ہے قرآن مجید!"

۔۔۔اور ان ترامیم کے مخالفین کے نزدیک بھی مسلمان ہونے کے ناطے روئے زمین پر سب سے مقدس اور سب سے بالا تر دستاویز قرآن مجید ہے ۔چنانچہ دستور کی جدید  تعریف سے اگر انہیں واقفیت حاصل ہے۔تو انہیں معلوم ہوگا کہ"یہ سب سے بڑھ کر مقدس اور بالا تر د ستاویز ہوتی ہے!"۔۔۔کیا قرآن مجید کو مقدس ترین دستاویز تسلیم کرنے والوں سے یہ پوچھا جاسکتا ہے۔کہ چند  ترمیمات کی بناء پر ا نھیں 73ء کے دستور کی منسوخی کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔لیکن اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے دستور اسلام قرآن مجید کو ا نہوں نے کب سے معطل کررکھا ہے؟۔اورجو ماہر القادری مرحوم کی زبان  میں ان سے یوں فریاد ہی ہے کہ:

یہ مجھ سے عقید ت کے د عوے           قانون پہ  راضی غیروں کے

یوں بھی مجھے  رسوا کرتے ہیں             ایسے بھی ستایا جاتا ہوں!

کسی بزم میں مجھ کو بار نہیں           کسی عرس میں میری دھوم نہیں

پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں            مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں!

انسانوں کے بنائے ہوئے آئین کا ماتم کرنے والوں نے یہ سوچا کہ انہوں نے اپنےخالق کے بنائے ہوئے دستور وآئین کو کس خانے میں فِٹ کیا ہے؟ اور جو پکار پکار کر ان سے کہہ رہا ہے کہ:

﴿ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾
﴿ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴾
﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾[1]

۔۔۔یہ  دستوری بحران پیدا ہی اس لئے ہوا ہے کہ اس دستور کو دستور سمجھا  جارہا ہے۔جو بنایا بھی جاسکتا ہے اور بگاڑا بھی جاسکتا ہے!۔۔۔ اوراصل  دستور کو سمجھنے سے دانستہ اغماض برتا جارہا ہے۔جو بنایا جاسکتا ہے اور نہ بگاڑا جاسکتا ہے۔۔۔جو آج سے چودہ صدیاں پیشتر ہمارے اسلاف کو ملا تھا۔ آج بھی ہمارے پاس من وعن محفوظ ہے اور قیامت تک آنے و الے ہمارے ہی خلاف کی زبانوں پر ایک زیر،زبر،اور پیش کی بھی ترامیم کے بغیر جاری اور ساری رہے گا!۔۔۔یہ وہ دستور ہے کہ جس کی موجودگی میں اس جمہوری دور تک (جو بلاشبہ اسلام کا دشمن ہے) کسی بھی مسلمان حکومت کو کسی دوسرے دستور کی ضرورت پیش نہیں آئی۔۔۔اور یہ وہ مسلما ن حکومتیں ہیں کہ جن کے ایوانوں  میں چمکنے والے کتاب وسنت کے نور نے یورپ کی آنکھوں کو بھی ذخیرہ کرکے رکھ دیا تھا!۔۔۔یہ وہ  دستور ہے کہ جس نے ایک بوڑھی عورت کو  فاروق اعظم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   ایسے بطل جلیل اور مرد آہن کو بھی مجمع عام میں ٹوک دینے کا حوصلہ عطا فرمادیا تھا۔ جب آپ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے یہ ا علان فرمایا کہ"لوگ حق مہر بہت زیادہ باندھنے لگے ہیں،میں چاہتا ہوں کہ اس کی تعین کردوں!" تو اس بڑھیا نے احتجاج کیا تھا:" عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   آپ کون ہوتے ہیں۔حق مہر کی تعین کرنے والے،جبکہ قرآن مجید نے یہ فرمادیا ہے:

﴿وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ﴾... (النساء : 4)

اس پر فاروق اعظم   رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے فرمایا تھا:

"ایک بڑھیا نے عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے جھگڑا کیا اور اس پر غالب آگئی!"

73ء کے دستور کو دستور تسلیم کرنے والو تم نے دیکھا کہ جب اس دستور اسلام کی بات چھیڑی گئی ہے۔تو متعین تعبیر والے اس دستور کی ایک ہی آیت کریمہ کے اس ٹکڑنے تمہاری کتنی گتھیاں سلجھا کر رکھ دی ہیں؟۔۔۔چنانچہ اگر تم بنیادی حقوق کی بات کرو گے تو تمھیں یہ بنیادی حق مل گیا کہ کتاب وسنت کی دلیل کے ساتھ تم سربراہ مملکت کو بھی ٹوک سکتے ہو!"

۔۔۔اگر تمھیں اسلام میں عورت کے  مقام " کی  تلاش مقصود ہے تو تم نے جان لیا کہ اسلام  میں ایک بوڑھی عورت بھی خلیفہ وقت کو برسر عام مخاطب ہی نہیں کرسکتی۔اپنے حقوق کے لئے اس سے جھگڑ بھی سکتی ہے!

۔۔۔اگر  تمھیں اسلام مساوات کا تصور مطلوب ہے تو تمھیں یہ پتہ چل گیا کہ قانون الٰہی می راعی اور رعایا سب برابر ہیں۔

۔۔۔اگر تم سربراہ مملکت کےاختیارات وفرائض کی بات کرنا چاہو گے تو تمھیں یہ  راہنمائی مل گئی کہ خلیفہ وقت کی اطاعت اگرچہ  فرض ہے لیکن بالادستی صر ف اللہ کے فرمان کی ہوگی!

۔۔۔اگر تمھیں حاکمیت اعلیٰ کا صحیح تصور مطلوب ہے تو تم نے اسے پالیا کہ اسلام میں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ رب العزت کی ہے!

۔۔۔اگر عائلی قوانین کے سلسلہ میں یہ قانون تمھیں مطلوب ہے کہ ایک بیوی کو طلاق دے کر دوسری کو بیا ہ لانے کی صورت میں تم اس مطلقہ بیوی سے حق مہر کے طور پر اسے دی گئی رقم واپس لے سکتے ہو یا نہیں؟ تو تمھیں یہ معلوم ہوگیا کہ قرآن مجید نے اس سے منع فرمایا ہے۔مزید یہ کہ   تبدیلی زوج کی اجازت ہے۔اسلام میں طلاق کا حق مرد کے پاس ہے۔اسلام نے حق مہر کی تعین نہیں فرمائی۔اور کوئی سربراہ مملکت بھی اس کی تعین کا مجاز نہیں ہے!

۔۔۔اور اگر تمھیں دستور حیات کی تلاش ہے۔تو اس واقعے نے تمھیں یہ بھی بتلادیا  کہ  تمہارا دستور حیات صرف اور صرف قرآن مجید ہے نہ کہ انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوا1973ء کادستور۔بخدا! اگر تم اس دستور کو ا پنا دستور حیات تسلیم کرلوگے،تو نہ ترامیم  کی ضرورت پیش آئے گی نہ کوئی دستوری بحران پیدا ہوگا!۔۔۔نہ صدارت و وزارت عظمیٰ کے اختیارات کی بحث جنگ وجدل کی صورت اختیا کرے گی۔اور نہ اسمبلی اپاہج ہوگی!۔۔۔نہ صدر بلیک میل ہوگا اور نہ وزیر اعظم۔۔۔نہ دستور میں ترامیم سے متعلق یہ  تضاد بیانیاں اور مختلف تبصرے تمھیں اغیار کی نظروں میں نکو بنائیں گے اور نہ ہی ملکی سلامتی کو خطرات پیش آئیں گے!

۔۔۔بلکہ ہمیں  تو یقین ہے کہ اس کی بدولت نہ صرف مارشل لاء سے تمھیں نجات مل جائے گی۔بلکہ جمہوریت بھی تمھیں عزیز نہ رہے گی!

۔۔۔لیکن کوئی سوچے بھی،کوئی سمجھے بھی۔۔۔کوئی آمادہ تو ہو!۔۔۔

﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ﴾--- وما علينا الا البلغ!


[1] ۔جس نے منزل من اللہ (قرآن مجید کو دستور نہ سمجھتے ہوئے اس) کے مطابق  فیصلے نہ کئے تو یہ لوگ کافر ہیں۔یہی لوگ ظالم ہیں اور  یہ لوگ فاسق ہیں!"(المائدۃ۔44۔35۔47)