اسلام اور مغرب

اسلام اور مغرب


اہل مغرب اپنے سیکولر،روشن خیال،جمہوری معاشرے کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کو پسماندہ اور غیر انسانی سمجھتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے۔اسلام صرف ایک مذہب نہیں،بلکہ ایک تہذیب ہے اور رحم دل تہذیب ہے یہ صحیح ہے کہ بعض  پہلوؤں سے اسلامی معاشرے مغربی معاشرے سے چند دہائیاں  پیچھے ہیں لیکن ترقی کی جو شاہراہ مغرب نے اختیار کی ہے وہ بھی سارے انسانی مسائل کا حل  پیش نہیں کرسکتی۔اصل سوال یہ ہے  کہ ایسا کون ساراستہ ہے جو بدترین نتائج کے بغیر عام انسان کو اعلیٰ زندگی دے سکتا ہے؟اس ضمن میں اسلامی اقدار پر سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے۔
مغربی معاشرہ میں بھی اقدار مستقل نہیں ہیں بلکہ تیزی سے بدل رہی ہیں۔مثال کے طور 1960ء سے پہلے ہم جنس پرستی غیرقانونی تھی اب اس کی اجازت ہے۔اسی طرح یورپ میں سزائے موت ختم کردی گئی ہے جبکہ امریکہ میں اس کا دائرہ وسیع ہورہاہے لیکن جلد ہی امریکہ میں بھی اسے حقوق انسانی کے خلاف قرار دے دیا جائے گا۔
عورتوں کے حقوق:۔
مغرب اسلام کو  عورتوں کے حقوق کے ضمن میں پسماندہ سمجھتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ اسلامی اقدار کی غلط تفہیم مسائل پیدا کررہی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے بہت سے حقوق عورتوں کو مغرب سے بہت پہلے دیے ہیں ۔مثال کے طور پر
1۔برطانیہ میں عورتوں کو جائیداد رکھنے کاحق 1870ء میں ملا ہے جبکہ مسلمان عورتیں چودہ سوسال سے یہ حق استعمال کررہی ہیں۔
2۔مغرب میں چند دہائیاں قبل تک ساری جائیداد بڑے بیٹے کو ملتی تھی جبکہ اسلام اسے چودہ سو سال  پہلے ناجائز قرار دے چکا ہے۔
3۔فرانس اور سوئٹزر لینڈ نے عورتوں کو الیکشن میں ووٹ کاحق بالترتیب 1944ء اور 1971ء میں دیا ہے جبکہ افغانستان ،ایران،عراق اور  پاکستان میں مسلمان عورتیں 50 سال سے یہ حق استعمال کررہی ہیں ۔
4۔مزید برآں مغرب کی سب سے مضبوط  قوم،امریکہ میں آج تک کوئی عورت صدر نہیں بن سکی جبکہ تین سال مسلمان ممالک(پاکستان،بنگلہ دیش  اورترکی) میں مسلم خواتین وزیراعظم رہ چکی ہیں۔بنگلہ دیش میں آج بھی مسلم خاتون وزیراعظم ہے۔
سنسر شپ:۔
اکثر  مسلم ممالک کو سنسر شپ پرمطعون کیاجاتا ہے۔مثلا سلمان  رشدی کی کتاب شیطانی آیات کے بارے میں مسلمان ممالک کے رویہ پر مغرب نے بہت برہمی کا مظاہرہ کیا ہے۔اگر مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مغربی ممالک میں بھی وسیع پیمانے پر سنسر شپ پائی جاتی ہے مگر اس کاطریقہ کار مختلف ہے:
1۔مغربی ممالک جوں جوں سیکولر ہوئے ہیں تو ں توں انہوں نے پاکیزگی کے نئے بت بنا لیے ہیں۔بیسویں صدی کے آخر میں ان کے نزدیک فن کی آزادی مذہب سے زیادہ  پاکیزہ قرار پائی ہے جبکہ مسلمان رشدی کی کتاب کوفن کی آزادی سے زیادہ مذہب کی توہین بلکہ گالیوں کاپلندہ سمجھتے ہیں جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کی پاکیزہ بیویوں کے خلاف سخت نازیبا زبان استعمال کی گئی ہے۔مسلمان سمجھتے ہی کہ رشدی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اسلام کے اعلیٰ ترین افراد کے بارے میں اتنے گندے اور فحش الفاظ استعمال کرے۔
2۔مسلمان سمجھتے ہیں کہ گالی اور فن میں فرق ہوتا ہے۔
3۔یہ کتاب مسلم ممالک میں فسادات کے خوف سے سنسر کی گئی۔حکومت انڈیا نے اس کتاب پر پابندی لگاتے ہوئے یہ جواز دیا کہ یہ کتاب مذہبی جذبات کو بھڑکائے گی۔
4۔برطانوی ناشر نے اس انتباہ کے باوجود یہ کتاب چھاپی جس کے نتیجے میں ممبئی ،اسلام آباد اور کراچی میں بلوہ ہوا  جس میں 15 سے زیادہ افراد مارے گئے۔جبکہ مغربی ممالک میں یہ  بات عام ہے کہ فسادات کے خوف کی وجہ سے کتابیں نہیں چھاپی جاتی۔کیمبرج یونیورسٹی پریس نےAnastasis Karakasidou کی کتاب Fields of wheat, River and Blood. جویونان کے علاقے میکڈونیا کے باشندوں کے بارے میں تھی،یہ کہہ کر نہیں چھاپی کہ اس سے یونان میں کمپنی کےملازمین کی جان کو  خطرہ ہوگا۔اگر برطانوی ناشر جنوبی ایشیا کے 15 مرنے والوں کا خیال  رکھتا  جیسا کہ اسےآزادی اظہار کا خیال ہے ،تو وہ یہ کتاب نہ چھاپتا۔
5۔مغربی ممالک میں بھی سنسر شب اتنی ہے جتنی کہ مسلم ممالک میں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ٹارگٹ، وسائل اور طریقہ کار مختلف ہے۔مسلم ممالک کاطریقہ کھردرا ہے جبکہ مغربی ممالک کاطریقہ زیادہPolished(تراشیدہ) ہے۔مغربی ممالک میں سنسر شپ کو مالی وسائل ،پریشر گروپس ،ایڈیٹرز،پبلشرز کی معرفت کنٹرول کیاجاتا ہے۔
6۔امریکہ میں سنسر آئین اور قانون کی بجائے غیر حکومتی سطح پر کیا جاتا ہے۔یہودیوں کے بارے میں  ریمارکس ،ٹی وی،ریڈیو وغیرہ کے پروگراموں میں مصنفین کی اجازت کے بغیر خارج کردیئے جاتے ہیں۔کارل برنسٹن،باور ڈالیٹ،ایرکاجونگ اور پیٹرماس جیسے معتبر مصنفین اس طرح کے سنسر شپ کےخلاف آواز بلند کرچکے ہیں۔
7۔امریکہ کی مشہور ویسٹ ویوپریس نے جناب علی مزدوری کی کتاب Cultural Forces in World  Politics کے وہ تین باب چھاپنے سے انکار کردیا جن میں انہوں نے شیطانی آیات،(رشدی کی کتاب) کو ثقافتی بغاوت،فلسطینی انتفادہ کوٹیا نمن سکوائر میں 1989ء کی طالب علموں کی بغاوت اورجنوبی افریقہ کی نسل پرست پالیسی A partheidکوZoinism سے  تشبیہ دی تھی۔
8۔اب بھی مغربی میں کسی ایسے آدمی کے لیے جو مارکزم کو پسند کرتا ہو یااسرائیل کو تنقید کانشانہ بناتا ہو،ملازمت(تعلیمی اداروں اور میڈیا وغیرہ میں ) حاصل کرنامشکل ہے۔
9۔ٹی وی اور اخبارات پر بھی ایک خاص طرح کے پروگرام  پیش کیے جاتے ہیں۔جبکہ مسلمانوں کو نقطہ نظر پیش نہیں  کیا جاتا۔
اقلیتوں سے سلوک:۔
مغربی ممالک اپنی سیکولر فکر کو ترقی کاراز سمجھتے ہیں اور اور مسلم ممالک کی مذہبیت کو مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ مذہب اور ریاست کی تقسیم میں مغرب اور مسلم ممالک میں کتنا فرق ہے؟
1۔مغرب نے سیکولرازم کے ذریعے اقلیتی مذاہب کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے۔مگر اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔جرمنی کاHolocaust اس کی بدترین مثال ہے۔اب بھی مشرقی جرمنی میں یہودیت کے خلاف اور فرانس میں اسلام کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔
2۔امریکہ میں 200 سال سے مذہب اور ریاست کی تقسیم ہے۔لیکن پوری تاریخ میں صرف ایک غیر پروٹسٹنٹ (کینیڈی) صدر بن سکا ہے۔
3۔یہودی امریکہ میں بہت زیادہ اثر ورسوخ رکھتے ہیں لیکن صدارت کے لیے انہوں نے بھی کبھی کوشش نہیں کی۔
4۔کیا امریکہ میں کسی مسلمان کا صدر بننا ممکن ہے؟ یہاں تک کہ وہ وزیر بھی نہیں بن سکتا پچھلے سال جب وائٹ ہاؤس میں عید پر مسلمانوں کو کھاناکھلایاگیا تو وال سٹریٹ جنرل نے اس پر تنقید کی۔
5۔برطانیہ فرانس،اور جرمنی میں بھی مسلمان خاصی تعداد میں ہیں لیکن تاریخ اب تک اس بات کاانتظار کررہی ہے کہ کوئی مسلمان وزیر بنے۔
6۔اسلام نے ہمیشہ اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کو اہل کتاب کی حیثیت سے بہت حقوق حاصل ہیں۔مسلم سپین  میں یہودی عالم بہت اہم عہدوں پر فائز تھے۔
7۔ترکوں کے زمانے میں بھی غیر مسلموں نے بہت اہم مقامات حاصل کیے۔سلیمان(1520تا1566ء)اور سلیم(1789ءتا1807) کی کابینہ میں عیسائی وزیر تھے۔مغل بادشاہ اکبر کے ہاں ہندو وزیر تھے۔
8۔اب بھی عراق کے نائب وزیراعظم جناب طارق عزیز عیسائی ہیں۔بطروس غالی کبھی بھی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نہ بن  سکتے اگر وہ مصرمین وزیر خارجہ نہ رہے ہوتے۔پاکستان میں ہمیشہ ایک اقلیتی وزیر ہوتا ہے۔مغربی افریقہ کی 95 فیصد مسلم آبادی والی ریاست سینی گال میں ایک عیسائی بیس سال(60۔1980ء) صدر مملکت رہے ہیں۔جناب لیو پولڈ سیدر سیغور کو کبھی بھی عیسائیت کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرناپڑا۔اب وہاں مسلمان عبدودیوف صدر ہیں مگر ان کی اہلیہ عیسائی ہیں ۔کیا امریکہ میں کسی صدر کی بیوی مسلمان ہوسکتی ہے؟اگر کوئی امریکی صدارتی امید وار ٹی وی پر تسلیم کرلے کہ اس کی بیوی مسلمان ہے کیا وہ پھر بھی الیکشن میں  رہ سکے گا؟
ظلم اور پستی:۔
کسی کلچر کو جاننے کےلیے ہم جہاں یہ دیکھتے ہیں کہ اس نے کیا شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں وہاں یہ بھی دیکھناچاہیے کہ اس نے ظلم وبربریت کو کس حد تک روارکھا ہے؟
1۔ہم یہ مانتے ہیں کہ عیسوی صدی میں اسلام نے جمہور قوتوں کو جنم نہیں دیا لیکن دوسری طرف مغربی عیسائی کلچر نے نازی ازم،فاشزم،اور کمیونزم کو جنم دیا ہے۔شام اور عراق میں زیادتیاں ہوئی ہیں۔لیکن وہاں بھی فاشزم ریاستی نظام نہیں بن سکا۔البانیہ کے علاوہ کمیونزم کسی بھی مسلم ملک میں فروغ نہیں پاسکا۔
2۔مسلمان ممالک کو جہاں جمہوریت نہ لانے پر طعن کانشانہ بنایا جاتا ہے وہاں ان کی تعریف نہیں کی جاتی کہ انہوں نے کس طرح اپنے آپ کو غیر معمولی برائیوں سے بچایا ہے۔مسلم معاشرہ میں نازی کیمپوں کی مثالیں نہیں ملتی۔یورپین کے ہاتھوں امریکہ وآسٹریلیا میں مقامی لوگوں کی تباہی کی مثالیں نہیں ملتیں۔سٹالن اور پول پاٹ کی مثالیں نہیں ملتیں۔نسلی امتیاز کی مثال نہیں ملتی جسے ڈچ چرچ نے جواز بخشا۔جنوبی امریکہ کے نسل پرست کلچر کی مثال نہیں ملتی جہاں ہمیشہ کالے لوگوں پر ظلم کیاجاتاہے۔
3۔اسلام نے ہمیشہ نسل پرستی کے خاتمہ  Genocideاور تشدد کی مخالفت کی ہے۔قرآن نے کھل کر نسلی اور قومی مسئلہ پر رائے دی ہے کہ اللہ نے قومیں اور قبائل صرف اورصرف شناخت کے لیے پیدا کیے ہیں اوراچھائی کا میعار  تقویٰ ہے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا کہ عربی کوعجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقت نہیں ہے۔سفید آدمی کو سیاہ پر کوئی  فوقیت نہیں ہے۔
4۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے غلام ایتھوپیا کے رہنے والے حبشی غلام حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سیدنابلال (ہمارے سردار) کہہ کر پکارتے تھے۔
5۔جدید مصر کے پانچ صدور میں سے دو سیاہ رنگت والے تھے۔مصر اور ہندوستان میں غلاموں نے حکومتیں کی ہیں۔
6۔اسلام میں منتخب زبان(عربی) تو ہے مگر کوئی منتخب قوم نہیں ہے۔چوتھی صدی عیسوی(313ء) میں رومی بادشاہ کا نسٹی ٹائن اول کے عیسائی بننے کے بعد سے آج تک عیسائیت پر یورپ کا غلبہ ہے جبکہ مسلمانوں کی قیادت بدلتی رہی ہے۔عربی اُموی حکومت(661،تا750)مخلوط عباسی حکومت (750تا1258)اور پھر عثمانی سلطنت(1458ءتا1922ء) اس کی مثالیں ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں مغل ،مصر میں فاطمی حکومت،ایران میں صفوی حکومت اس بات کا ثبوت ہے کہ پوری تاریخ میں کبھی بھی ایک علاقہ کے لوگوں نے مسلم دنیا کی قیادت نہیں کی۔جبکہ یورپ نے ہمیشہ عیسائی دنیا کی قیادت کی ہے۔ان متفرق حکومتوں نے مسلم دنیا میں نسلی مساوات کو پھیلایا ہے۔اسلام کے اس غیر نسلی پالیسی کا نتیجہ ہے۔کہ کہیں بھی مسلمانوں نے کسی نسل کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی،ا س کے برعکس  اسلام  تبلیغ تعاون اور باہمی رشتوں سے  پھیلا ہے۔
امن وامان:۔
1۔اہل مغرب یہ کہتے ہیں کہ اسلامی دنیا بنیادپرستی دہشت گردی کو جنم دے رہی ہے۔اگر اسلام مغرب کے مقابلے میں زیادہ سیاسی  تشدد پیدا کررہا ہے تو مغرب اسلام کے مقابلے میں زیادہ شاہراہی تشدد(Street Violence) پیدا کررہا ہے۔مغربی معاشرہ اس سےزیادہ ٹھگ   پیدا کررہا ہے جتنے مجاہدین اسلام پیدا کررہا ہے۔افریقہ میں سب سے بڑا مسلم شہر قاہرہ ہے اور سب سے بڑا مغربی شہر جو ہانسبرگ ہے۔قاہرہ زیادہ بڑا ہے مگر جرائم جوہانسبرگ  میں زیادہ ہیں۔
2۔میعار زندگی کے حساب سے کیا عام شہری سخت اسلامی حکومت میں بہتر ہے یا کسی آزاد مغربی ملک میں؟تہران کی آبادی ایک کروڑ ہے لیکن عورتیں اور بچے  رات کے بارہ بجے آزادی سے پارکوں میں پکنک مناتے ہیں۔لوگ رات کو بلا خوف وخطر سڑکوں پر چلتے ہیں۔کیا نیو یارک اور واشنگٹن میں یہ ممکن ہے؟ عام ایرانی،حکومت کے دباؤ میں ہے جبکہ عام امریکی شہر دوسرے شہریوں کے دباؤ میں ہے۔یہ نہیں کہاجاسکتا کہ تہران کا سکون آمرانہ حکومت کی وجہ سے ہے ایسا ہوتا تو لاگوں میں امن ہوتا،
3۔دنیا کے  تمام اخلاقی نظاموں میں اسلام نے بہت زیادہ بیسویں صدی کی مہلک بیماریAids کے خلاف مزاحمت کی ہے۔جنسی تعلقات میں اعتدال اور نشہ آور ادویات کے استعمال کی کمی نے مسلم معاشرہ کو سے لعنت سے قدرے بچایا ہواہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ مسلم ملک آوری کو سٹ میں ایڈز سے متاثر ہونے والے مسلمان کی تعداد ایڈز سے متاثر ہونے و الے غیر مسلموں سے آدھی ہے۔(نیو ساسئنٹفک،لندن،ستمبر 1993ء)
خلاصہ:مغربی آزاد جمہوریت نے جہاں آزادی،احتساب ،عوام کی حکومت اور اعلیٰ معاشی پیداواری ہے۔وہاں اس کی کوکھ سے نسل پرستی،فاشیت،استحصال اور نسل کشی نے جنم لیاہے۔انسانیت کو اسلام سے سیکھنا ہے کہ کس طرح نشہ،نسل پرستی،مادیت،شراب نوشی،نازی ازم اورمارکسزم جیسی انسانی فطرت کی خامیوں کو کنٹرول کرنا ہے۔
جمہوری اُصول اور انسانی اصولوں میں فرق ہے۔انسانی اصولوں میں مسلم معاشرے دنیا سے آگے ہیں،انسانی مساوات،مستحکم خاندان ،عدم سماجی تشدد،غیر نسلی مذہبی ادارے،اقلیتوں کااحترام جیسے بنیادی انسانی اصول ،آج کی انسانیت کی اہم ضرورت ہیں۔مسلمانوں کافرض ہے کہ اپنے معاملات کو بہتر طو پر چلاتے ہوئے،مغربی دنیا کو حکمت کے ساتھ یہ بتائیں کہ اسلام فی الحقیقت ذاتی اور اجتماعی سلامتی کا دین ہے۔انسانی ذات کا بنیادی مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک کہ انسان کاناطہ اس کے مالک سے جوڑ نہ دیا جائے۔