حفظ قرآن اور تجوید قرآءت کا جدید تعلیمی منہج

(ہمارے فاضل رفیق مجلس التحقیق الاسلامی جناب پروفیسر عبد الجبار شاکر نے اپنے ادارہ بیت الحکمت کی نومبر 1998ءمیں افتتاحی تقریب کا اہتمام کیا تو صرف ایک رسمی تقریب کے بجائے اس کو ایک تعلیمی سیمینار کی شکل دے دی اور مختلف ماہرین تعلیم کو ملک بھر سے عصری اور دینی تعلیم کے اصلاح احوال کے بارے میں اظہار خیال کی دعوت دی گئی دن بھر جاری رہنے والے اس سیمینار میں ادارہ محدث سے منسلک جامعہ لاہور الاسلامیہ کے شعبہ کلیہ القرآن الکریم والعلوم الاسلامیہ کے پرنسیل یگانہ روزگار شخصیت  قاری محمد ابراہیم میر محمدی کو تجوید قرآءت کی تعلیم کے موضوع پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی ۔جناب قاری محمد ابراہیم صاحب بو جوہ اس سیمینار میں کلمات نہ کہہ سکے لیکن انھوں نے سیمینار سے ایک روز قبل راقم الحروف کو اپنی دیرینہ دلچسپی اور محنت سے حاصل ہونے والے گراں قدر تجربات سے نواز اور مجھے اس موضوع پر لکھنے کو ارشاد فرمایا راقم الحروف چونکہ حفظ کا خود تجربہ رکھتا ہے کچھ عرصہ قاری صاحب موصوف سے سبعہ عشرہ قرآءت سیکھتا رہا ہے علاوہ ازیں محترم قاری صاحب کی معیت میں چند سال کلیہ القرآن کے مدیر کے طور پر خدمت انجام دینے کا موقع بھی ملا ہے اس لیے ذمہ داری کو قبول کیا۔ سیمینار کے روز ہی چند گھنٹوں میں لکھے جانے والا یہ مقالہ آخری وقت میں پہنچے کی بناپر سیمینار میں تونہ پڑھا جا سکا لیکن اب سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد اسے محترم قاری صاحب  کی پسند کے ساتھ بعینہ محدث کے قارئین کی نذر کیا جارہا ہے اس مقالہ میں خطاب کے نقطہ نظر سے جو بعض مشکلات محسوس ہوں قارئین سے نظرانداز کرنے کی گذارش ہے(حسن مدنی)

نحمده ونصلى على رسوله الكريم

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ  إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ  فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ * ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ 
"اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو جلدی حرکت نہ دیں قرآن کو جمع کرنا اور اس کو پڑھانا ہمارے ذمہ ہے جب ہم پڑھ لیں تو آپ ہمارے پڑھنے کی پیروی کریں اس کے بعد اس کو کھول کھول کر بیان کرنا بھی ہمارے ذمہ ہی ہے۔"
اس آیت میں (إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ)سے معلوم ہو تا ہے کہ قرآن کو یکجا کرنا اور محفوظ رکھنا اللہ کی ذمہ داری ہے جیسا کہ دوسرے مقالات پر اس کا ذکر ہوا ہے۔ اسی طرح وَقُرْآنَهُ سے معلوم ہوا کہ قرآن کی تلاوت اور اس کی درست ادائیگی کرانا بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیاہے ۔چنانچہ اللہ جل شانہ نے اسی آیت میں ذکر کردہ اپنی دو ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیے مسلمانوں کو توفیق  خاص دی اور ایسے نفوس قدسیہ تخلیق کئے جن کی زندگیاں اس مقدس کام کے لیے وقف ہوئیں ۔الحمد اللہ دور نبوت سے آج تک امت پر ایسا کوئی وقت نہیں آیا جب کہ امت کی طرف چند لوگ ان دو کاموں کی تکمیل اور ذمہ داری کا باراپنے کندھوں پر نہ اٹھائے ہوں۔ ہر دور میں حفاظت قرآن یعنی حفظ قرآن کی درسگاہ ہیں اور قرآءت قرآن یعنی درست ادائیگی اور تلفظ کے ساتھ تلاوت قرآن کی تعلیم کے ادارے موجود رہے ہیں ؛ جو کہ اللہ کے مذکورہ فرمان کا عملی مصداق بنے اور جن کے ذریعے باری تعالیٰ نے اپنے ذمے لیے ہوئے کئی امور کی تکمیل کرائی۔
سب سے پہلے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے بذات خود تعلیم قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔آئیے دیکھتے ہیں کہ اس بارے میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کا طریقہ کار کیا تھا؟
احادیث میں ذکر ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   کو قرآن کی تعلیم دیتے جس میں حفظ واداء کی تعلیم کے ساتھ ساتھ معانی و مفاہیم قرآنی کی وضاحت بھی فرماتے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   آپ صلی اللہ علیہ وسلم   سے اس کو سیکھا کرتے ۔یہ تعلیم قرآن سالہا سال تک جاری رہتی حتیٰ کہ حضرت عبد اللہ بن عمر    رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بارے میں ذکر ملتا ہے۔ کہ انھوں نے 11سال کے عرصے میں سورۃ بقرہ مکمل کی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی تعلیم کا دستور یہ تھا کہ جس آیت کو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   سکھاتے اس کی ادائیگی بتلاتے اور اس کے معانی واضح کرتے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   تب تک اگلی آیت کو نہ پڑھتے جب تک اس پر عمل نہ کرلیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ دور نبوی میں تعلیم قرآن کا سلسلہ قرآءت قرآن اور حفظ تک محدود نہ تھا بلکہ اس میں تفہیم و معانی کی تعلیم بھی شامل ہوتی ۔یہی وجہ ہے کہ اس دور میں قاری قرآن کا لقب فقط ادائیگی کے ماہر کے لیے نہیں بولا جاتا بلکہ اس سے مراد ایسے حضرات ہیں جو حفظ اداء کے ساتھ ساتھ دیگر شرعی علوم کی مہارت بھی رکھتے ہوں ۔نبی اکر م  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ایسے حضرات کے فضائل بہت سے بیان کئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی حاصل کردہ ذمہ داریوں کی تکمیل کا ایک وسیلہ بنتے ہیں ۔اور ان کے ذریعے الل ہ عزوجل کا آخری پیغام اپنے الفاظ و اداء اور مفہوم و معانی ہر لحاظ سے محفوظ و مکمل شکل میں امت کے سامنے موجود ہے اور اللہ کی حجت اہل دنیا پر قائم کر رہا ہے۔ انہی لوگوں کے فضائل میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا :
أشرف أمتى حملة القرآن 
میری امت کے سب سے محترم لوگ وہ ہیں جو قرآن کو سنبھالنے والے ہیں ۔۔انہی کے بارے میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا ہے:
هُمْ أَهْلُ اللَّهِ وَخَاصَّتُهُ 
کہ "وہ اللہ کے عیال اور اس کے خصوصی بندے ہیں ۔"اور نبی اکر م  صلی اللہ علیہ وسلم   کا یہ فرمان تو بہت مشہور ہے:
"خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ "
"تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرآن سیکھتے اور اس کو سکھاتے ہیں۔"
ان فرامین نبویہ سے حفظ و قرآءت اور تعلیم قرآن میں مشغول رہنے والے لوگو ں کی عظمت کا بخوبی پتہ چلتا ہے لیکن یہاں یہ اشاد بھی ملتا ہے کہ اہل قرآن کی ذمہ داری فقط حفظ و قرآءت تک محدود نہیں بلکہ انہیں قرآن کریم کے معانی اور مراد کا علم بھی ہو نا چاہیے جس پر عمل کر کے اس طرح بھی قرآن کو محفوظ کرایا جائے جیسا کہ صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین   کا معمول تھا۔
ایسے لوگوں کا مقام و مرتبہ جہاں بہت عظیم ہے وہاں ان کی ذمہ داری بھی بڑی ہے امانت کے جس باراٹھانے کی انہیں توفیق میسر آئی ہے اس کے تقاضے بھی بڑے ہیں ۔ان کی عظمت اور اہم ذمہ داری کے پیش نظر ان پر شیطان کے خصوصی حملے جاری رہتے ہیں تاکہ ان کو اس راہ سے ہٹا دیا جائے
یا ایسی صورت پیدا کر دی جائے جس سے یہ لوگ اس ذمہ داری میں کو تاہی کے مرتکب ہو جا ئیں ان میں ایسے انسانی عوارض کو اجاگر کر دیا جا ئے جس سے اس مبارک مشن میں خلل واقع ہو جا ئے اور انجام کار کے طور پر یہ لو گ اپنے مشن کے تقاضے اور اُمت کو مطلوبہ رہنمائی میسر نہ کرسکیں اور اُمت اپنے ان محسنوں سے محبت کی بجائے ان سے نفرت کرنا شروع کردے۔۔۔شیطانی عزائم اور اس کے منصوبے اپنے جگہ ہیں اور حضرت انسان اپنی کوتاہیوں اور نفسیاتی عوارض کے باوجود جیسے تیسے صدیوں سے اس ذمہ داری کو انجام دیتا آرہا ہے۔
مرور زمانہ کے ساتھ اس مبارک تعلیم میں بہت سے نقائص پیدا ہو گئے ہیں جس کے لیے اصلاحی تدابیر عمل میں لا ئی جاسکتی ہیں لیکن یہ امر بہر طور واضح ہے کہ شیطان اور اس کے حواری امت کو اس عظیم کام سے ہتانے میں بالکل ناکام واقع ہوئے ہیں ان کی تدبیر یں بڑے مختصر دائرہ کار میں اثر پذیر ہوئی ہیں اگر نبی آخر الزماں کے امتی اور اسلام کے والہ وشیدامسلمان ان کی رشیہ دوانیوں کی طرف توجہ کریں تو شیطان کی کوششوں سے درآنے والے یہ نقائص قلیل مدت میں ختم ہو جا ئیں گے۔اللہ عزوجل کی ذمہ داری کی تکمیل کا وسیلہ ہونے کو اپنے لیے افتخار جان کر اپنے میں وہ اعتماد اور حوصلہ پیدا کر نے کی ضرورت ہے جس سے مسلح ہوکر مسلمان اس نیک کام کو دشمنوں کے شر سے محفوظ کرے اللہ کا فضل اور توفیق ان شاء اللہ خلوص سے محنت کرنے والوں کے ہمراہ ہی ہوگی ۔۔۔اب ہم پہلے مدارس حفظ کے بارے میں روشنی ڈالتے ہیں کہ کون سی وہ کوتاہیاں ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
حفظ قرآن کے بارے میں پائی جانے والی کوتاہیاں :۔
ہمارے مخصوص ماحول میں اللہ کا یہ خصوصی فضل ہے کہ حفظ قرآن کا شوق ہر مسلمان میں پا یا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر یہ انعام ہے کہ اس کے کلام کی محبت اس کے بندوں کے دلوں میں جاگزیں ہے اور چند نادر مثالوں کو چھوڑ کر ہر مسلمان کی یہ خواہش اور کوشش ہے کہ وہ خود یا اپنی اولاد کوحفظ قرآن کی دولت سے مالا مال کرے گذشتہ چند سالوں میں تو یہ شوق و ذوق کافی پروان چڑھا ہے جس کے لیے ہر جگہ مختلف خصوصیات کے ادارہ ہائے تحفیظ القرآن عالم وجود میں آئے ہیں حفظ کے لیے مختلف تدابیر اور تحقیقات کو کام میں لا یا جارہا ہے۔۔۔عمومی طور پر مدارس حفظ کی دو صورتیں ہیں حفظ کے اکثر مدارس تو ان علاقائی مساجد میں مو جود ہیں جہاں محلے کے لوگ نماز پڑھتے اور جمعہ اداکرتے ہیں دیگر ممالک کے برعکس پاکستان میں عرصہ دراز سے یہ اہتمام پایا جا تا ہے کہ یہاں مساجد کے ساتھ کسی نہ کسی نوعیت کے مدرسہ کو اور کم از کم حفظ و ناظرہ قرآن کی کلاسوں کو شروع کیا جا تا ہے ان مدارس کا جال پورے ملک میں پھیلاہوا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اوسطاً 75فیصد مساجد میں حفظ و ناظرہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ ملک میں قرآن کی تعلیم کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔
اس کے بعد ایسے رہائشی مدارس کی باری آتی ہے جہاں چند اہل خیر مل کر کوئی مستقل تعلیمی ادارہ قائم کرتے ہیں طلبہ کو رہائش بھی مہیا کرتے ہیں تاکہ جن علاقوں میں مناسب تعلیم کی سہولت میسر نہیں وہاں کے طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا ئے ۔ایسے طلبہ عموماً مکمل دن تعلیمی ادارہ میں قیام کرتے ہیں اور ہفتہ عشرہ میں گھر کے قریب و بعد کی نسبت سے ایک دوروز ملا قات کے لیے گھر جاتے ہیں۔۔۔حفظ کے مخصوص تناظرمیں اہل نظر عموماً درج ذیل کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہیں ۔
(1)قرآن کریم کے تقدس واحترام کی کمی : ۔
حفظ کے لیے ابتدائی عمر کو مناسب وقت تصور کی جاتی ہے جبکہ بچہ کسی دوسری تعلیم سے قبل تعلیم قرآن سے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز کرے ۔عموماً ان بچوں کی عمریں 10سال سے کم یا اس کے قریب ہوتی ہیں بچوں کو اس صغرسنی میں یہ احساس خود ہوتا ہے نہ ہی دیا جاتا ہے۔کہ کس اعلیٰ نعمت کے حصول کے لیے کتنی عظیم کتاب کو وہ حفظ کر رہے ہیں قرآن کریم کے بارے میں ایسا عظیم و مقدس تصور اس چھوٹی عمر میں ان کے ذہنوں میں راسخ نہیں ہوتا کہ وہ اس کا احترام و تقدس ملحوظ رکھیں ۔کھلنڈری عمر ہو نے کی وجہ سے بھی طلبہ اس پر توجہ نہیں دیتے اور عموماً اس حوالے سے بعض کوتاہیاں دیکھنے میں آتی ہیں ۔۔۔اس سلسلے میں کچھ باتیں تو طلبہ کی چھوٹی عمر کے ناطے مجبوری کی قبیل سے ہیں کیونکہ حفظ قرآن کا مناسب وقت یہی ہے جبکہ حفظ کیا ہواقرآن زیادہ پختہ رہتا ہے اور بچہ ابھی دوسری مصروفیات میں مشغول نہیں ہو تا ۔بڑی عمر میں بچے عموماًاس محنت کے لیے تیار بھی نہیں ہوتے اور دیگر ہم عمر بچوں کی دیکھا دیکھی اس محنت سے جی چراتے ہیں۔ لیکن اس کا حل اساتذہ کی توجہ دلانے اور طلبہ میں اس پر عمل کروانے سے ہو سکتا ہے۔
(2)بد عملی اور اخلاقی کوتاہیاں :۔
دور نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم   میں تعلیم قرآن کے ساتھ مفہوم و علوم قرآنی بھی سکھائے جاتے تھےاس لیے متعلمین  میں آیات قرآنی پر عمل کرنے کا جذبہ قابل رشک حد تک موجود تھا ہمارے ہاں چونکہ الفاظ کے معانی و مفاہیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی چنانچہ طلبہ میں بدعملی پائی جاتی ہے عوام الناس قرآن کے طلب علم سے جس اعلیٰ عمل و اخلاق کی توقع کرتے ہیں طلبہ اس پر عموماًپورے نہیں اترتے ۔۔۔اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حفظ قرآن کے اساتذہ جو دراصل مدارس تجوید کے فارغ التحصیل ہوتے ہیں ۔اس بارے میں خود بھی کوئی اہتمام نہیں رکھتے ان کو بھی معانی قرآن اور ان پر عمل کی تربیت نہیں دی جاتی اور نہ ہی قرآن کے احترام و تقدس کو ان کے ذہنوں میں اُجاگر کیا جا تا ہے چنانچہ وہ اپنے طلبہ میں عملی ذوق پیدا کرنے میں پیدا کرنے میں نا کا م رہتے ہیں ۔۔۔ میری رائے میں اس کو تا ہی کا سد باب یوں کیا جا سکتا ہے کہ اول تو اساتذہ حفظ کو خصوصی ٹریننگ کورس کرائے جائیں ۔انہیں چونکہ نو خیز بچوں کا مربی بننا ہوتا ہے اس لیے اس کو کافی باصلاحیت اور باوقارہونا چاہیے ۔اسی طرح معاشرہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ ان اساتذہ کو مالی اخلاقی طور پر عزت دے ۔کیونکہ داناؤں کا کہنا ہے:
"إِنَّ الْمُعَلِّـمَ وَالطَّبِيْـبَ كِلاَهُمَـا لايَنْصَحَانِ إِذَاهُمَـا لَمْ يُكْرَمَـا" 
"طبیب اور معلم دونوں تب تک کچھ نہیں دیتے جب تک انہیں عزت نہ دی جائے"
عموماًیہی استاد مسجد کے امام بھی ہوتے ہیں۔ جس سے ان کی تربیت کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے اساتذہ کی تربیت کے ساتھ ساتھ طلبہ کو کبھی کبھار اخلاق و عمل پر مبنی حکایتیں اور درس سنائے جاتے رہیں قرآن کی اہمیت پر مبنی واقعات اور آسان کتب تیار کراکے بچوں میں متعارف کرائی جائیں تو ان مسائل پر کسی نہ کسی درجے میں قابو پایا جا سکتا ہے۔
(3)پڑھنے لکھنے اور دیگر بنیادی علوم کی تعلیم کا اہتمام نہ کرنا :۔
حفظ کے دورانئےکو عموماً طلبہ پر خصوصی بوجھ کا وقت سمجھا جاتا ہے ۔چنانچہ دوران حفظ طلبہ کو حفظ و ناظرہ کے علاوہ کسی اور وسیلہ علم سکھانے کی اہمیت محسوس نہیں کی جاتی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حفظ قرآن کا عظیم مقصد حاصل کرنے کے بعد طالب علم جب مروجہ تعلیم کے مرحلے پر آتا ہے تو دیگر علوم کی بابت اس کی قابلیت بالکل ابتدائی ہوتی ہے ۔مزید تعلیم کے لیے بعض صاحب وسیلہ والدین تو بچے کے لیے حفظ کے بعد کم و بیش ایک سالہ تعلیم کا خصوصی اہتمام کرواتے ہیں جو ٹیوشن کی صورت میں ہو تا ہے ۔جبکہ باقی حافظ طلبہ اپنے لکھنے پڑھنے کی کم استعداد کی وجہ سے سکول میں بالکل ابتدائی کلاسوں میں بیٹھنے کی اجازت پاتے ہیں ۔۔۔جبکہ یہ ان کے مناسب حال نہیں کیونکہ یہ طلبہ اپنے علمی و ذہنی معیار کے ساتھ ساتھ لکھنے پڑھنے کی بھی دوسرے عام طلبہ سے زیادہ استعداد رکھتے ہیں ۔کمی صرف یہ ہوتی ہے کہ اس استعدادکو حاصل کرنے کی معمولی مشق نہیں کروائی جاتی۔ چنانچہ مختصر عرصہ میں جیسے ہی انہیں یہ بنیادی استعداد میسر ہو جا تی ہے وہ اپنے دیگر ہم کلاس طلبہ سے ممتاز ہو جا تے ہیں ۔اس کا حل یہ ہے کہ ناظرہ قرآن کی تعلیم کے وقت طلبہ کو کبھی کبھی بچوں کی دینی کتب اور اسلامی قصے بھی پڑھنے کو دئیے جائیں ہفتہ بھر میں کوئی کلاس لکھنے پڑھنے کے لیے بھی مخصوص کردی جائے۔ جس طرح اس سے قبل حفظ قرآن کے ساتھ دعاؤں کو بھی کبھی کبھی حفظ کرایا جاتا ہے اس طرح حفظ کے دوران لکھنے پڑھنے کی بھی مشق جاری رکھی جائے۔طلبہ میں قرآن کو پڑھنے اور حروف کی پہچان کے باعث لکھنے پڑھنے کی استعداد موجود ہوتی ہے ضرورت صرف اس کو نکھار نے کی ہےاس طرح ابتدائی حساب و کتاب بھی دلچسپی کے طور سکھایا جاسکتا ہے۔یاحفظ کی تکمیل کے بعد حفاظ کے لیے کوئی مختصر کورس متعارف کروایا جائے۔
(4)ٹیوشن کی صورت تعلیم قرآن :۔
ہمارے مخصوص ماحول میں قرآنی تعلیم ہر شخص لازمی خیال کرتا ہے اور ادب تو حفظ قرآن کا ذوق ورواج بھی کافی بڑھ چکاہے ۔آسائش و آرائش سے بہرہ ور مالدار والدین اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم تو دینا چاہتے ہیں لیکن مدارس حفظ کے کم تروسائل کی بنا پر اور بعض کوتاہیوں کی بنا پر واقع ہونے والے نقائص کی بدولت وہ پسند کرتے ہیں کہ اپنے گھر میں ہی انہیں قرآن کی تعلیم کا موقع مل جائے جس کے لیے قاری حضرات کی تلاش کی جاتی ہے اور انہیں ٹیوشن کی صورت مختصر مالی خدمت کے عوض گھر میں تعلیم قرآن کے لیے بلایا جاتا ہے ۔ٹیوشن کی صورت میں قرآن تعلیم سے ایسے والدین اپنے بچوں کے لیے معیار زندگی اور اخلاق وصفائی کا اہتمام تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن دوسری طرف ایسے بے شمار مسائل میں گھر جاتے ہیں جن کا کو ئی حل نہیں جن میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹیوشن کی صورت میں بچہ بہت کم ہی اپنے مقصد تعلیم کو پورا کرسکتا ہے اور ایسے بچے عموماًاس میدان میں کورےرہ جاتے ہیں ٹیوشن کی صورت میں یہ مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔
1۔قاری حضرات جب گھروں میں پھر کر بچوں کو تعلیم دیتے ہیں تو اس سے تعلیم قرآن کی عظمت اور قرآن کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ اپنے ماحول میں استاذ کی آمد سے طالب علم بھی استاد اور اس علم کو مطلوبہ اہمیت نہیں دیتا والدین کاطرز عمل بھی بعض اوقات ایسا ہی ہو تا ہے ۔چنانچہ تعلیم قرآن کی روایت تو رہ جاتی ہیں عملاً کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
2۔طالب علم صرف استاد سے سب کچھ حاصل نہیں کرتا بلکہ اپنے رفیقان مکتب سے بھی بہت کچھ سیکھتا ہے دیگر طلبہ سے مقابلہ اسے بہت چیزوں میں محنت پر مجبور کرتا ہے ٹیوشن کی صورت میں اس مسئلہ کا کو ئی حل موجود نہیں۔
3۔اساتذہ کاعلمی معیار اور ان کی قابلیت جانچنے کے لیے کسی وسیلہ کے نہ ہونے کی بنا پر استاذ کی اہلیت بھی مشکوک رہتی ہے۔ تعلیم قرآن کو پیشہ بنا لینے والے بعض اساتذہ کے پیش نظرصرف اپنی ٹیوشن کو طول دینا ہوتا ہے جس کے لیے بچوں اور والدین کی خوشنودی پر ساری توجہ دی جاتی ہے۔
4۔امتحان یا کسی اور ذریعہ سے طالب علم کی صلاحیت کامعیار معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔الغرض والدین جن مسائل کاشکار ہوجاتے ہیں ان سے نکلنا ایک اور عظیم مسئلہ بن جاتا ہے۔میری رائے میں اس مشکل کا حل یوں ممکن ہے کہ اولاً تو مساجدومدارس کا اہتمام اسلامی معاشرہ کو بحیثیت مجموعی کرنا چاہیے اور ہر فرد اپنی صلاحیتوں کی حد تک اس کی اصلاح میں حصہ ڈالے اور اس کی بہتری میں اپنا وقت صرف کرے کیونکہ یہ ادارے مسلم قوم ہونے کے ناطے ہمارے ذمہ داری ہیں اور دین کی حفاظت اور تعلیم کے قومی ذرائع ہیں ۔ اس کے بعد بھی اگر بعض والدین اپنے بچوں کو جداگانہ تعلیم دینے پر مصر ہوں تو مدارس  حفظ کی طرف سے گھروں میں تعلیم کا ایک مستقل ادارہ قائم کیا جا ئے ۔جوگھروں میں قاری حضرات باقاعدہ میسر کرے چند ایک گھروں کے 10/8بچوں کو کسی ایک گھر میں تعلیم دی جائے اور یہ مستقل ادارہ اساتذہ کے علمی معیار اور طلبہ کی تعلیم کا باقاعدہ جائزہ لیتا رہے ۔جس کے تحت ماہوار و سالانہ امتحانات بھی منعقد ہوں۔ ان بچوں کے والدین استاد سے اپنا تعلق واحترام قائم کرنےکے ساتھ ساتھ ٹیوشن کے اس مستقل ادارے سے بھی مربوط رہیں اور اس ادارے کومالی و علمی وسائل مہیا کریں ۔اس طرح ٹیوشن کےنقصانات میں قدرے کمی کی جا سکتی ہے لیکن اس کامستقل حل بہر حال حفظ قرآن کے انہی مستقل ادا روں کو ہی پائیدار کرنے اور بہتر کرنے میں ہے جو صرف اس مقصد کے لیے قائم ہوئے ہیں ٹھوس اور حقیقی تعلیم انہی اداروں میں ممکن ہے جہاں منتظمین بنفس نفیس حفظ قرآن کی کلاسوں کی نگرانی کرتے ہیں۔
حفظ قرآن میں مزید چند سفارشات:۔
جن سے اس نطام کو بہتر بنانے میں مددملے گی!
1۔حفظ کا عمل طالب علم اور استاد ہر دو کے لیے کافی مشقت طلب ہوتا ہے جو والدین کی شرکت کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا ۔رہائشی مدارس  حفظ میں جیسے تیسے یہ ذمہ داری اساتذہ حفظ کو اور انتظامیہ کو نباہنی چاہیےطالب علم کا زیادہ سے زیادہ وقت اور توجہ حفظ قرآن پر صرف کی جانی چاہیے ۔لیکن ایسے علاقائی مدارس حفظ جہاں بچے تعلیم کے بعد گھروں کو لوٹ جاتے ہیں وہاں یہ ذمہ داری والدین پر آجاتی ہے کہ وہ انہیں حفظ میں کوتا ہی نہ کرنے دیں اس ضمن میں والدین کا ساتذہ اور انتظامیہ سے مسلسل رابطہ جہاں ان کی صحیح صورت حال سے آگاہی کا موجب ہوگا وہاں بچے پر بھی اس کے مثبت اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔
2۔اساتذہ کو طالب علم کی کارکردگی رپورٹ روزانہ مرتب کرنا چاہے جس کے لیے انتظامیہ کو مخصوص فارم مہیا کرنے چاہئیں ۔ادارہ کے وسائل کے پیش نظرماہ بہ ماہ یہ رپورٹیں والدین کو ارسال کی جائیں ۔کسی طالب علم کی کارکردگی ناقص ہونے کی صورت میں والدین کو بلا یاجائے اور صوتحال سے آگاہ کر کے بچے کی تعلیم میں ان کی توجہ کو بھی حاصل کیا جا ئے ۔۔۔اگر اس کارکردگی  کو والدین  تک پہنچایا نہ جائے تو سال بھر کے بعد کارکردگی کی ساری ذمہ داری ادارہ حفظ پر آپڑتی ہےاوروالدین اپنی کوتاہیاں نظر انداز کر جاتے ہیں۔
3۔قرآن کریم کو فرمان نبوی کے مطابق عربی لہجے میں پڑھنے کی کو شش کرنی چاہیے اس حوالےسے جہاں اساتذہ طلبہ کے تلفظ واداکی طرف دوران حفظ توجہ رکھیں وہاں جدید وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اجتماعی طور پر نامور قراء کی تلاوت کے کیسٹ طلبہ کو سنائے جائیں نامور قرآء کی تعریف اور ان جیسا قرآن پڑھنے کاذوق پیدا کیا جائے ۔طلبہ میں اس ذوق و شوق کا اہتمام کرنے پر حوصلہ افزائی کی جائے۔بعض مدارس حفظ نے اس کا اہتمام کرتے ہوئے طلبہ کے تلفظ و لہجہ میں بڑی نمایاں تبدیلی اور بہتری محسوس کی ہے۔
4۔بعض مدارس حفظ میں بے شمار طلبہ کی تعلیم کے لیے صرف ایک استاد ہوتا ہے یہ امر واضح ہے کہ حفظ قرآن کا عمل خصوصی توجہ اور محنت ومشقت کا متقاضی ہے۔طلبہ کی تعداد کا انحصار تو بہر حال استاذ کی صلاحیت پر منحصر ہے لیکن اس پر انتظامیہ کو بھی توجہ دینا ضروری ہے۔
علاوہ ازیں تمام مدارس حفظ و ناظرہ کے طلبہ کو یکجا تعلیم دینے کی بجائے اگر ان کو ان کے مراحل کےاعتبارسے قدرے جدا کردیا جائے تو اس سے بھی بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔
قرآن کریم کا صحیح تلفظ :۔
قرائین کرام!حفظ قرآن کے بارے میں اس مختصر جائزے اور بعض سفارشات کے بعد ہم جائزہ لیتے ہیں آیت قرآنی:
"اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ "
کے دوسرے جزقرآنہ کا ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے درست لفظ دادائیگی کی ذمہ داری بھی اپنے سرلی ہے ۔قرآن کریم کی درست تلاوت کے لیے علمائے امت نے بڑی کاوشیں کی ہیں اور ایک مستقل فن ترتیب دیا ہے جس کا مقصد وحید قرآن کی درست تلاوت ہے۔ اس فن کو علم تجوید کانام دیا جاتا ہے ۔علماء نے فن کااہتمام ضروری قراردیا اور اس موضع پر بے شمار تصانیف و تحقیقات  منظر عام پر آئیں جن کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے، امام فن علامہ جزری رحمۃ اللہ علیہ  کا اس کے بارے میں یہ معروف شعر پیش کیا جا تا ہے۔
َالأَخْـذُ بِالتَّـجْـوِيـدِ حَـتْـــمٌ لازِم
مَــــنْ لَــمْ يُصَحّحِ الْـقُـرَآنَ آثِــمُ.
"تجوید پر عمل کرنا از بس لازمی ہے جو قرآن کریم کو تجوید سے نہیں پڑھتا وہ گنا ہگار ہے"
قرآن کریم کی تلاوت بھی ایک عبادت ہےے جس پر اجرو ثواب ملتا ہے۔ جس طرح ہر عبادت کے مخصوص احکام ومسائل ہوتے ہیں جن کو بجالاکر ہی ثواب کی امید کی جاسکتی ہے اسی طرح تلاوت قرآن کے آداب و احکام کی پیروی کرکے ہی اجرو ثواب کا مستحق ٹھہراجاسکتا ہے علم تجوید الٰہی احکام و آداب تلاوت کا ہی نام ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کا یہ فرمان بھی اس علم کی بنیاد ہے۔
اقرَءوا القُرآنَ بِلُحونِ العَرَبِ وَأصواتِها (مجمع الزوئد 199/7ضعیف )
" قرآن کریم کو عرب کے لہجوں اور ان کی آوازوں میں پڑھو "
ادائے قرآن کریم کے اہتمام میں علماء کی بے شمار خدمات ہر دور میں جاری وساری رہیں۔ اُمت مسلمہ کو بتوفیق الٰہی یہ خصوصی ذوق عطا کیا گیا ہے کہ وہ اس کا اہتمام کرتے ہیں اس موضوع میں بحث و نقد کا اہتمام پایا جا تا ہے۔پاکستان میں علم تجوید و قرآءت کی تعلیم کے یہ ادارے بھی ابتدائے سے قائم ہیں۔کسی مسجد سے ملحقہ مدرسہ میں جب چند اہل ذوق میسر آجائیں اورتعلم قرآن کریم کی کو ئی صورت ممکن نظر آتی ہوجس کے لیے ضروری وسائل حاصل ہونے کا امکان بھی پایا جائے تو ہاں بعض اوقات تو مدرسہ حفظ کو وسعت دے کر علم تجوید و قرآءت کی تعلیم بھی شروع کردی جاتی ہے اور بعض اوقات علم تجوید کی تعلیم دی جاتی ہے لیکن عمو ماً اول الذکر نوعیت کے مدارس تجوید کا اہتمام کیا جا تا ہے جہاں حفظ و ناظرہ کی تعلیم کا بھی انتظام موجودہو۔ان مدارس ہائے تجوید وقرآءت کا نصاب عموماً دو سال کے دورانئے پر مشتمل ہوتا ہے جس کے بعد ادارہ کی طرف سے سند تجوید عطا کی جاتی ہے علم تجوید کے اس دوسالہ نصاب میں بعض علوم دینیہ کی مختصر تعلیم بھی دی جاتی ہے اور عربی زبان کے قواعد مثلاًعلم نحود صرف کی بابت بھی کچھ حصہ نصاب میں شامل ہے۔ ان مدارس  کے حوالے سے درج ذیل کوتاہیاں نظر آتی ہیں جن کی اصلاح کی جاناضروری ہے۔
(1)صرف علم تجوید کااہتمام:۔
تجوید کے ان مدارس میں ان کے مقصد قیام کے پیش نظر صرف تلفظ اور درست ادائیگی پر توجہ دی جاتی ہے جبکہ معانی و مفہوم کو سمجھے بغیر تلاوت قرآن کریم سے ثواب تو حاصل ہو جا تا ہے لیکن عملی مقاصد تشنہ رہ جاتے ہیں علم تجوید کے فارغ التحصیل طلبہ تکمیل کے بعد عموماً یہ کا م کرتے ہیں ۔   
  مساجد کی امامت:۔
نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کے فرمان (فليؤمكم أقرؤكم )"تم میں سب سے خوبصورت تلاوت قرآن کرنے والا تمھارا امامت کرائے" کے بموجب علم تجوید کے فاضل حضرات ہی آئمہ مسجد بنتے ہیں ۔لیکن افسوس کہ ان آئمہ کی علمی حالت کافی مخدوش ہوتی ہے۔ یہ آئمہ بعض موٹے مسائل کے علاوہ علم تجوید سے تو آشنا ہوتے ہیں لیکن قرآن کا بعض اوقات درست ترجمہ بھی نہیں کرسکتے بے شمار مسائل کا ان کو خیال بھی نہیں گزرا ہوتا ۔چنانچہ امام مسجد سے عوام کی توقعات اور تقاضے پورے نہیں ہوتے جو بعد ازاں اس عظیم منصب کے استخفاف کی صورت ظاہر ہوتے ہیں۔
علم تجویدکے ان فاضل حضرات کو عموماًتحفیظ قرآن کی ذمہ داری سوپنی جاتی ہے ۔یہاں بھی بچوں کے اولین مربی ہونے کے ناطے وہ اس عظیم ذمہ داری کو کماحقہ نباہنے کی اہلیت سے عاری ہوتے ہیں۔ چنانچہ طلبہ اور اساتذہ ہردو میں کم علمی اور بدعملی پائی جاتی ہے۔
(2)دینی تربیت کا فقدان :۔
مدارس تجوید میں تجوید کے علوم پر تو زور دیا جاتا ہے ۔لیکن قرآن کے اصل علوم پس منظر میں ہوتے ہیں دین صرف احکام و مسائل کو یاد کر لینے کا نا م نہیں بلکہ جب تک ان پر عمل نہ کیا جا ئے دین کے تقاضے پورے نہیں ہو تے ۔عمل کے لیے تربیت کی اشد ضرورت ہے ۔عموماً ان مدارس میں جن عظیم علوم اور جس مقدس کتاب سے طلبہ کو مزین کیا جا تا ہے اس کے تقاضوں کے متعلق آگاہی بہم نہیں پہنچائی جاتی۔ یہ تعلیم جس اعلیٰ اخلاق اور مثبت رویوں کی متقاضی ہے وہ صرف معمولی تربیت سے حاصل نہیں ہوسکتے بلکہ اس کے لیے تربیت کا بڑا ٹھوس اور واضح اسلوب اپنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن افسوس کہ ان مدارس میں اس اس تربیت پر کم زور دیا جا تا ہے۔ جس کے نتیجے میں ان مدارس کے فاضل بعض اوقات ایسا اخلاقی نمونہ پیش کرتا ہے جو علم قرآن سے مالامال فضلاء کے قطعاً شایان شان نہیں۔
(3)علوم قرآن اور قرآن کے بارے میں عوامی تاثر خراب ہوتا ہے!:۔
علم الاداء پر خصوصی توجہ کے ماسوادینی تعلیم و تربیت سے عاری ہونے کی بنا پر علمی و عوامی حلقوں میں قاری کا تصور غیر عالم کا پایا جاتا ہے ۔ابتداء میں میں ذکرکر چکاہوں کہ دور نبوی میں حاملین قرآن حفظ واداء کے ساتھ علوم ومعانی قرآن کے ماہر اور علم دفن کے بھی شاہسوار ہوتے تھے دور نبوی میں قاری سے مراد عالم قرآن اور قاری قرآن دونوں ہوتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ علم و تربیت کا اہتمام نہ کرنے کی بدولت معاشرے میں قاری کامقام و مرتبہ کافی کم ہوکر رہ گیا ہے قاریوں کی بابت یہ تاثر اس کثرت سے موجود ہے کہ عوام الناس کے ذہن علوم قرآن کے بارے میں بھی واضح نہیں ۔چنانچہ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کے علوم  اسی حد تک منحصر ہیں جو ان قراء قرآن کو پڑھا دئیے جاتے ہیں جبکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے غرض قراء کی اس کم عملی کی بنا پر قرآن کی بابت عوامی تاثربگڑ رہا ہے۔
(4)ترتیل کے تقاضے پورے نہیں ہو رہے:۔
ایک بار حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے سوال کیا گیا کہ ترتیل سے کیا مراد ہے؟ آپ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جواب دیا (تَجْوِيْدُ الحُرُوْفِ وَمَعْرِفَةُ الوُقُوْفِ.)"ترتیل نام ہے حروف کو تجوید سے پڑھنے کا اور وقف (ٹھہرنے) کی معرفت کا۔۔۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ترتیل میں درست وقف کرنے کی شدید اہمیت ہے۔ امر واقعہ بھی یہ ہے کہ تجوید الحروف کے ذریعے اگر الفاظ کی تصحیح ہوتی ہے تو معرفۃ الوقوف کے ذریعے معانی کی تصحیح ہوتی ہے۔اگر وقف حسب حال کیا جا ئے تو کلام کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ لیکن درست وقف کرنے کے لیے قاری کاقرآن کریم کامعنی سمجھنا ضروری ہے۔ قرآن کریم کے معانی سمجھے بغیر درست وقف کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ معانی ومفاہیم قرآنی نہ سلکھانے کی بنا پر ترتیل کا اہم ترجز ضائع ہورہا ہے اور قرآن کریم کامعنوی اعجاز متاثرہورہا ہے۔
(5)تجوید کے نام پر فقط غناء کا اہتمام اور احکام تجوید میں کوتاہی :۔
تجوید دراصل قرآن کریم کو صحیح پڑھنے کانام ہے۔آواز اور لہجہ کی تجوید میں حیثیت ثانوی ہے۔قرآن کے معنوی اعجاز اور اس پر عمل کے ذریعے لوگوں کو قرآن کی طرف راغب کرنے کی بجائے قاری صاحبان خوبصورت آوازوں اورتصنع و تکلف کے ذریعے عوام کو قرآن کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔جس طرح واعظوں اور خطیوں کی کثرت کے بعد علماء کے احترام اور مقام و مرتبہ میں کمی واقع ہوئی ہے۔عین اسی طرح خوبصورت آوازوں والے قرآء کی وجہ سے احکام تجوید کے مطابق تلاوت کرنے والوں کی قدد اور اہمیت متاثر ہوئی ہے۔چنانچہ خوبصورت اور متاثر کن آواز میں تلاوت قرآن کا ذوق پھیل رہا ہے اور احکام و مسائل تجوید میں کو تا ہی در آئی ہے۔ دور حاضر  کے قرآء کسی معروف قاری کے لہجہ کی نقل اتارنے یا طویل سانسوں میں تلاوت کر کے عوام سے داد حاصل کرنے کے متمنی رہتے ہیں اور یہ انداز تلاوت اپنی اصل کے اعتبار سے جہاں احکام تجوید سے ناواقفیت ہے وہاںدین کے واضح احکام کی بھی صریح خلاف ورزی ہے جس کے سد باب کی شدید ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حضرت حسن بصری کا یہ فرمان قابل غور ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ "
"قرب قیامت یہ ہو گا کہ کو ئی قاری یہ دعویٰ کرے گا کہ میں نے پورے قرآن کو پڑھا اور اس میں کوئی غلطی نہیں کی ۔جبکہ درحقیقت قرآن کے احکام پر عمل بجانہ لاکر اس نے قرآن کے ہر ہر جز کو ضائع کیا ہو گا ۔۔۔اسی طرح کہنے والا یہ کہے گا کہ میں نے فلاں مکمل سورت کو صرف ایک سانس میں مکمل کیا۔ آپ مزید فرماتے ہیں کہ جب قرآء میں یہ شروع ہوجائے تو اللہ کرے ان کی تعداد کم ہو جا ئے۔!لاکثرالله امثالهمموجودہ دور میں محافل قرآن میں اسی طرح قرآن سے مذاق کیا جا تا ہے جس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔

علم القرآءت اور اس کی تعلیم:۔


قارئین!قرآن کریم کی قرآءت سبعہ عشرہ قرآن کریم کا ایک اعجاز اور امت پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و احسان ہے۔ جس کو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے بڑی خواہشوں سے اُمت کے لیے حاصل کیا۔ آپ نے قرآءت کی ہر ہر صورت کی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   کو تعلیم فرمائی ۔۔۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے اس علم کو مکمل محفوظ رکھا اور آج تک یہ علم بصورت تواتر ہم تک پہنچا ہے۔۔۔متواتر احادیث قرآءت کی تائید میں موجود ہیں۔قرآء کرام کی بے شمار خدمات کے نتیجے میں یہ علم بالکل محفوظ اور یقینی صورت میں ملتا ہے۔ اُمت اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آج بھی مختلف ممالک میں مختلف لہجوں اور ثابت شدہ تبدیلیوں پر قرآن کی تلاوت کرتی ہے۔ مختلف لہجوں اور روایتوں میں قرآن چھپتےہیں۔مختلف مفسروں نے اپنی تفاسیر میں جہاں ان تغیرات سے استفادہ کیاہےوہاں بطور متن قرآن مختلف روایتوں کو اپنا یا ہے یہ قرآء ت جہاں قاری کے لیے تلفظ کی ادائیگی میں معاون ہیں وہاں قرآن کریم کے معانی اور مختلف مسائل و احکام کی توجیہ میں بھی ان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
امت مسلمہ میں قرآءت کی تعلیم کے مدارس ہر دور میں قائم رہے ہیں لیکن  افسوس کہ موجودہ دور میں اس کا اہتمام قدرے کم ہوتا جارہا ہے جس طرح حفظ و تجوید کے مدارس جابجا ملتے ہیں تجوید قرآءت کی درسگاہ ہیں اس طرح کثیر تعداد میں نہیں ۔لیکن قرآءت کی حفاظت اور تعلیم کے باب میں برصغیر کے مسلمانوں کی خدمات اور کاوشیں قطعاً نظر انداز نہیں کی جاسکتیں ۔آج بھی دیگر بہت سے اسلامی ممالک کے مقابلے میں ہمارے ہاں یہ مدارس زیادہ تعداد میں ہیں اور کچھ سالوں سے ان میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔اس تمہیدی تعارف کے بعد میں آپ حضرات کے سامنے ان مدارس کی بعض کوتاہیاں ذکر کرنا چاہوں جن میں اصلاح و بہتری کی شدید ضرورت ہے۔
(1)صرف قرآءت کے لفظی تغیرات کی تعلیم دی جارہی ہے:۔
مدارس قرآءت نے اپنی جہدو جاوش سے قرآءت کے لفظی تغیر و تبدل کو تو محفوظ کر رکھا ہے طلبہ کو اس کی تعلیم دی جاتی اور اس کا ذوق پیدا کیا جا تا ہے ۔لیکن دور جدید میں قرآءت کو پھیلانے کی غرض سے ان طلبہ کو تیار نہیں کیا جارہا ۔دور حاضر میں قرآءت کی تدوین اور حجیت پر بے شمار اعتراضات و شبہات اپنوں اور غیروں کی طرف سے وارد کئے جارہے ہیں حجیت قرآنی کو مشکوک کیا جا رہا ہے۔طلبہ کو الفاظ کے تغیر کی تعلیم کے ساتھ ساتھ علمی و نظری بحثوں کے لیے تیار نہیں کیاجاتا جو اعتراضات کی دنیا میں انہیں درپیش ہیں ۔
(2)حجیت قرآءت پر اعتراضات :۔
مستشرقین اور اسلام کے معترضین کا یہ الزام ہے کہ جس طرح تورات و انجیل میں تحریف ہو چکی ہے اسی طرح قرآن میں بھی لفظی تحریف پائی جاتی ہے۔اس کی تائید انہیں بعض شیعہ حضرات سے بھی مل جاتی ہے جو قرآن کے محفوظ ہونے کے قائل نہیں۔اس الزام کا استدلال مستشرقین یوں مہیاکرتے ہیں کہ قرآءت دراصل تحریف قرآن ہیں ۔ان کا خیال یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے چھ قرآءتوں کو منسوخ کر کے امت کو ایک قرآءت پر جمع کردیا تھا ۔ قرآءت کااہتمام کم ہوجانے کی وجہ سے بدقسمتی سے ہمارے بعض علماء بھی اس الزام و اعتراض سے متاثر نظر آتے ہیں چنانچہ یہ معترضین علماء کے بعض نادر اقوال سے من مانا استدلال کرتے ہیں ۔حالانکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے اور علمی طور سے یہ موقف بہت ڈھیلا ہے۔
واقعاتی طور پر اس الزام کو مان لینے کے اثرات یوں ظاہر ہوتے ہیں کہ انہی مروجہ سبعہ عشرہ قرآءت میں سے ایک ہمارے ہاں مروجہ قرآن کریم کی روایت بھی ہے جو امام عاصم رحمۃ اللہ علیہ  سے ان کے شاگرد حفص رحمۃ اللہ علیہ  کی روایت ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارا مروجہ قرآن بھی انہی قرآءت میں سے ایک ہے ان کے ماسوار نہیں۔اسی طرح مراکش لیبیا الجزائر ،سوڈان اور تیونس یعنی بلاد مغرب وغیرہ میں انہی سبعہ قرآءت کی ہی مختلف روایات متداول ہیں ۔۔۔ 
گذشتہ رمضان المبارک میں جب راقم کو دروس حسینہ میں شرکت کے موقع پر مراکش میں کچھ عرصہ قیام کا واقعہ ملا تو وہاں یہ صورتحال دیکھ کرمیں حیران رہ گیا کہ جس طرح ہمارے ہاں روایت حفص کے علاوہ قرآن کریم کی تلاوت کو اجنبی خیال کیا جا تا ہے عین اسی طرح ان کے ہاں مروج روایت ورش کے ماسوار کسی اور روایت حتیٰ کہ روایت حفص کی تلاوت کو اجنبی بلکہ معیوب تصور کیا جا تا ہے ۔ہمارے بعض لوگ جو قرآن کریم کے کتابی  صورت میں ہی محفوظ ہونے کو اعتماد کی بنیاد قرار دیتے ہیں ۔انہیں ایک نظر روایت ورش قالون وغیر ہ میں چھپے قرآن بھی دیکھ لینے چاہیں الحمد اللہ دارہ محدث کی لائبریری (مجلس التحقیق الاسلامی) میں فی الوقت دنیا بھر سے اکٹھی کی ہوئی قرآن کریم کی کم و بیش 5روایتیں مطبوع صورت میں مو جود ہیں یاد رہے کہ یہ سب روایتیں مصحف عثمانی کے عین مطابق ہیں اور رسم قرآن کی مخصوص معین صورتیں دراصل انہی روایتوں کے تحفظ کے لیے ہی لازمی قراردی گئی ہیں مراکش بلکہ بلاد مغرب کا توعربی حروف تہجی لکھنے کا اسلوب ہی دنیا بھر سے نرالا ہے جو آج سے نہیں بلکہ دوسری صدی میں وہاں طلوع اسلام سے آج تک مروج چلا آرہا ہے چنانچہ قرآءت  کا انکار کرنے والوں کو اپنی نظر وسیع کرنے اور اپنی قوت مشاہدہ کام میں لا نے کی ضرورت ہے۔۔۔المختصر اگر قرآءت کا انکار کر دیا جائے تو ہمارا موجودہ قرآن بھی باقی نہیں رہتا ہمارے اکثر انگریزی نظام تعلیم کے پروردہ مسلمان حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حفاظت قرآن کی کوششوں سے متوتر قرآءت کے انکار کا مفروضہ بھی قائم کر لیتے ہیں جبکہ علمی طور پر یہ امر مسلمہ ہے۔کہ مسلمانوں کو دین کے کسی جز کے حذف کرنے کا اختیار نہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   پر دین مکمل ہو چکا ۔آج کے اس گئےگزرے دور میں قرآن کی ایک حرکت کی تبدیلی کو مسلمان گوارانہیں کر سکتے تو یہ کیسے سمجھا جاسکتاکہ حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے قرآن کے چھ حروف (مروجہ قراتوں ) کو ختم کر دیا اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   نے اس کو برداشت کر لیا۔خلفائے رشداین  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو بھی دین کا کوئی جز منسوخ کرنے کا اختیار نہیں کجایہ کہ وہ قرآن کے چھ حروف منسوخ کردیں ۔آپ کے تیار کردہ مصحف عثمانی سے ہی سب قراءتوں اور روایتوں کا ثبوت ملتا ہے۔
مجھے اس مجلس میں قرآءت کی حجیت پر گفتگو نہیں کرنا ہے ورنہ اس موضوع پر بہت کچھ پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان اعتراضات کے تناظر میں ضرورت اس امرکی ہے کہ طلبہ کو ان موضوعات پر علمی مواد بہم پہنچا یا جا ئے اور فکری غذا فراہم کی جاے۔
(3)علوم قرآءت کو نظر انداز کیا جا رہاہے:۔
قرآءت میں لفظی تغیر کی نوعیت صرف الفاظ تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس سے معافی وتفسیر قرآن میں بہت مدد میسر آتی ہے۔ قرآءت میں الفاظ کے بدلنے سے معنی میں پیدا ہونے والے تغیر کی تعلیم ان درسگاہوں میں نہیں دی جارہی ۔معنی میں ہونے والے تغیرات کو اصلاح میں توجیہ القراءت کا نام دیا جا تا ہے۔ یہ قرآءت کا ایک اہم علمی فائدہ ہے جس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں آیات کے شمار کا علم عینی علم الفواصل رسم قرآنی کے حوالے سے علم الرسم اور علم الضبط کی تعلیم کا اہتمام نہیں کیا جارہا ۔جس کے بغیر قرآءت کی تعلیم ادھوری ہے اور اس کا حقیقی فائدہ حاصل ہونا اور عملاً مفید ہو نا مشکل ہو جاتا ہے۔ میری رائے میں ان کو تاہیوں کے سدباب کے لیے درج ذیل تجاویز کو بروئے کا رلایا جا نا چاہیے۔
1۔عام دینی مدارس میں جہاں علم تجوید و قرآءت کی تعلیم نہیں دی جاتی ضروری ہے کہ ایک مضمون کو ضرور متعارف کرایا جائے تاکہ علماء اس موضوع پر بنیادی معلومات رکھتے ہوں ۔اسی طرح علماء میں تلاوت کی ادائیگی و تلفظ کی درستگی بھی ممکن ہو سکے گی۔اگر ممکن ہو تو مدارس دینیہ میں اس مستقل مضمون کے اضافے کے ساتھ درجہ تخصص میں علم تجوید و قرآءت کا تخصص بھی متعارف کرایا جائے تاکہ قاری و عالم ہر دو طبقے میں ذہنی بعد کم ہوا اور دونوں مل کر زیادہ بہتر انداز میں دین پر اعتراضات کا جواب دے سکیں۔
2۔مدارس تجوید و قرآءت میں الفاظ کے ساتھ ساتھ دیگر علوم قرآءت  کی طرف بھی توجہ دی جائےاور مختلف موضوعات پر علمی و تحقیقی مباحث کا اہتمام بھی کیا جائے۔
3۔مجلس الدفاع عن القرآن والحدیث نامی ادارے کا قیام عمل میں لا یا جائے جو قرآءت اور حدیث کے حوالے سے پیدا ہونے والے شبہات پر علمی بحث و مباحثہ اور مواد تحقیق فراہم کریں۔
4۔ایسے تعلیمی ادارے متعارف کرائے جائیں جن میں قرآءت کے ساتھ مکمل دینی علوم کا بھی اہتمام موجود ہو تا کہ قاری غیر عالم کا تصور ختم ہو اور تجوید و قرآءت کی علمی بنیادوں پر خدمت ممکن ہو سکے۔
یہ وہ چند نکات ہیں جو اس مختصر نشست میں ،میں آپ کے گوش گزار کر سکا ہوں۔ان میں سے ہر ہر موضوع جس قدر تفصیل اور وقت نظر کا متقاضی ہے وہ آپ حضرات بخوبی جانتے ہیں۔ بہر حال کچھ بھی پیش نہ کرنے کی بجائے کچھ نہ کچھ پیش کردینا مفید ہوتا ہے۔میں انتطامیہ اور ادارہ ہذا کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے اس سلسلہ میں مجھے نمائندگی کا موقع دیا ۔
ایک اور لحاظ سے بھی یہ امر خوش آئندہےکہ تعلیمی میدان میں مدارس  حفظ و تجوید وقرآءت کو نمائندگی کے قابل سمجھا گیا ۔ان کے طرز تعلیم اور کوتاہیوں سے آگاہ ہونے کی ضرورت محسوس کی گئی ۔یہ ایک عظیم اقدام ہے جس سےکافی خیر کی تو قع کی جاسکتی ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے دین کو سمجھنے اور درست عمل کی توفیق بخشے ۔آمین۔
قارئین کے لیے یہ امر مسرت کا باعث ہو گا کہ محترم مدیر اعلیٰ جامعہ لاہور الاسلامیہ مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی نے آج سے51/16برس قبل جب قاری ابراہیم میر محمدی مدینہ منورہ یونیورسٹی میں کلیہ القرآن کے مرحلہ پوسٹ گریجویشن زیر تعلیم تھے ۔سے مسلسل ملاقاتوں کے ذریعے اس نیک مشن کی انجام دہی کا منصوبہ بنایا جس کا خاکہ گذشتہ سطور میں حفظ تجوید اور علوم قرآءت کے ضمن میں پیش کیا گیا ہے۔قاری صاحب اپنی اعلیٰ تعلیم سے فارغ ہو کر جب وطن عزیز واپس ہوئے تو جامعہ لاہور الاسلامیہ میں ایک سال کلیۃ الشریعہ کی کلاسوں میں تجوید کا پیریڈمتعارف کرانے کے بعد 1990ءمیں ایک مستقل شعبہ بنام کلہ القرآن الکریم کا اجراء کیا گیا ۔نامور قرآء کرام کی سر پرستی حاصل کی گئی سالانہ محافل قرآءت  کا بڑی گرم جوشی سے انعقاد ہوتا تاکہ تدریجاً نئے طرز تعلیم کو متعارف کرایا جائے۔اب جب کہ اس کلبیہ کو جاری ہوئے 10برس کے الگ بھگ ہونے کو آئے ہیں۔ الحمد اللہ قاری صاحب نے اپنی شبانہ روز محنت سے قاری علماء کی ایک جماعت تیار کر کے اپنے دیرینہ خواب کی تعبیر فرمائی ہے۔ علوم تجوید و قرآءت کی خدمت کا یہی وہ مشن بھی تھا جسے عرصہ سے مدیر اعلیٰ اپنے نہاں خانہ دل میں سماتے آرہے تھے اللہ کا بہت احسان ہے کہ آج برسوں پہلے سوچا جانے والا گلشن مہکتا اور خوشبو دیتا نظر آرہا ہے جس میں گواصلاح احوال کی کافی گنجائشیں موجود ہیں جن میں بعض پر قابو پانا ادارے کے محدود وسائل  کی بنا پر مشکل بھی ہے لیکن الحمد اللہ طلبہ اور علماء میں اس کا شعور پیدا ہو رہا ہے اور ہرسال طلبہ کی ایک عظیم جمعیت اس کلیہ القرآن کی طرف دور دراز سے کھنچی چلی آتی ہے ۔اسی کلیہ سے معروف قرآء نے جہاں ملکی سطح پر اپنی حسن کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہاں اعلیٰ تعلیم کے لیے غیر ملکی اسلامی یونیورسٹیوں میں سکالرشپ بھی حاصل کئے الحمد اللہ قاری صاحب کے زیر سر پرستی ہی طلبہ کی ایک تنظیم تحریک تحفظ قرآءت کے نام سے بھی قائم ہو چکی ہے۔کلیہ القرآن الکریم میں علوم سبعہ عشرہ قرآءت کے ساتھ ساتھ مروجہ درس نظامی کی بھی مکمل تعلیم دی جا تی ہے اور غالباً قرآءت کی۔ اس درجہ اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی موجود ہوں ۔سعودی زیڈیو پر کلیہ ہذاکے طلبہ کی ہفتہ وار ریکارڈنگ اس کے اعلیٰ معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس شعبہ میں صرف حافظ قرآن طلبہ کو داخلہ دیا جا تا ہے۔علاوہ ازیں قاری محمد ابرا ہیم میر محمدی صاحب کی ہی زیر نگرانی حفظ کا ایک وسیع سلسلہ قائم ہے۔جس میں 8کے لگ بھگ کلاسیں قائم ہیں آپ نے اپنی قابلیت اور ذوق و شوق سے اس شعبہ میں بھی نمایاں تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔محترم مدیر اعلیٰ بھی ان شعبہ جات کی اپنی علمی مشاورت سے خاص سر پرستی فرماتے ہیں اور قاری صاحب کو انھوں نے نے شب و روز اس مبارک مشن کے لیے یکسورکھ کر باقی علمی و مادی وسائل کی ذمہ داری کا بوجھ خود اٹھایا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ اس شعبہ کلیہ الشریعہ اور دیگر تمام نیک کاموں کی قبولیت سے سرفراز فرمائے۔ ذمہ داران ادارہ کو زیادہ خلوص عطا فرمائے اور ان تعلیمی تحقیقی اور رفاہی خدمات میں مصروف گلشنوں کو تادیر آباد رکھے ۔آمین!