نماز جنازہ میں سورة الفاتحة کا وجوب

استاد محترم! جناب مولانا سعید مجتبیٰ سعیدی صاحب حفظہ اللہ! السلام علیکم
ماہنامہ "محدث" کی جلد 17 شمارہ 8 میں آپ کا ایک مضمون بعنوان "مسنون نمازِ جنازہ" شائع ہوا۔
اس میں آپ نے نمازِ جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنے کے ثبوت میں صحیح بخاری کے حوالہ سے یہ روایت لکھی ہے:
عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ قَالَ: «لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ»
مگر اس روایت سے آپ کا استدلال صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ احمد یار گجراتی نے اپنی تصنیف "جاء الحق' کی دوسری جلد کے صفحہ 242 پر یہی روایت ذکر کر کے مندرجہ ذیل اعتراضات کئے ہیں:
1۔ اس روایت میں یہ نہیں آیا کہ جناب ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ کے اندر سورہ فاتحہ پڑھی۔
بلکہ ظاہر یہ ہے کہ نماز کے بعد میت کو ایصالِ ثواب کے لئے پڑھی ہو۔ جیسا کہ " فَقَرَأَ " کی "ف" سے معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ "ف" تعقیب کی ہے۔
2۔ دوسرے یہ کہ اگر مان لیا جائے کہ نماز کے اندر ہی پڑھی، تو یہ پتہ نہیں لگتا کہ کس تکبیر کے بعد پڑھی۔
3۔ تیسرے یہ کہ اگر اپنی طرف سے کوئی تکبیر مقرر کر لو، تو یہ پتہ نہیں لگتا بنیت حمد و ثناء پڑھی یا بنیتِ تلاوت؟ بنیتِ تلاوت پڑھنا ہم بھی جائز کہتے ہیں؟
4۔ آپ کے سورہ فاتحہ پڑھنے پر سارے حاضرین صحابہ و تابعین کو سخت تعجب ہوا، تب ہی تو آپ نے معذرت کے طور پر کہا کہ میں نے یہ عمل اس لئے کیا تاکہ تم جان لو یہ سنت ہے۔ پتہ چلا کہ صحابہ کرام نہ تو پڑھتے تھے اور نہ اسے سنت جانتے تھے۔ اسی لئے آپ کو یہ معذرت کرنا پڑی۔
5۔ پانچویں یہ کہ آپ نے یوں نہ فرمایا کہ "یہ سنتِ رسول اللہ" ہے بلکہ لغوی معنی میں سنت فرمایا۔
6۔ چھٹے یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں ثابت نہیں ہوا کہ آپ نے نمازِ جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھی ہو۔
7۔ ساتوین یہ کہ بجز سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے کسی صحابی سے جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا ثابت نہیں بلکہ نہ پڑھنا ثابت ہے۔
آپ سے گزراش ہے کہ احادیث کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ مصنفِ مذکور کے اعتراضات کی کیا حقیقت ہے؟ بینوا توجروا                             والسلام
عرغ گزار: محمد زبیر شاکر ننکانہ صاحب، ضلع شیخوپورہ
ألجواب بعون الوهاب
أقول وباللہ التوفیق:
واضح رہے کہ صحیح اور ثابت شدہ احادیث کی مخالفت کرنا حنفی حضرات کا کام ہے۔ بیسیوں صحیح، صریح مرفوع روایات ہیں جن کی یہ لوگ کھلم کھلا مخالفت کرتے آ رہے ہیں۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ تفصیل کے لئے امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ کی "المصنف" کا ایک حصہ "کتاب الرد علی ابی حنیفۃ" ملاحظہ فرمائیں:
تمام نمازوں میں سورت فاتحہ کا لازمی ہونا واضح ترین اور صحیح ترین روایات سے ثابت ہے۔ مگر ان حضرات کو اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق نصیب نہیں۔ نمازِ جنازہ بھی چونکہ ایک نماز ہے اس لئے عام نمازوں کی طرح اس میں بھی سورت فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
ہم نے اپنے مضمون میں جو روایت ذکر کی ہے اس کا صاف مطلب ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ کے اندر سورہ فاتحہ پڑھی تھی نہ کہ نماز کے بعد۔
عربی زبان کی معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ اس قسم کے کلام میں "ف" "تعقیب" کی نہیں ہوتی بلکہ "ف" کا مابعد ماقبل کا حصہ اور جز ہوتا ہے۔ یہ "فا" تفصیل کی کہلاتی ہے۔ مثلا کوئی شخص کہے کہ:
"إغتسل زيد فصب الماء على رأسه"
کہ "زید نے غسل کیا پس اپنے سر پر پانی ڈالا۔"
اس مثال کو سن کر ہر عقل مند آدمی یہی سمجھے گا کہ زید نے غسل کرتے ہوئے پانی اپنے سر پر ڈالا۔ اس کا یہ مطلب لینا کہ زید نے غسل کر لینے کے بعد سر پر پانی ڈالا۔ بالکل غلط اور بے محل ہے۔
اسی طرح مذکورہ روایت میں " فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ " سے یہ مفہوم اخذ کرنا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ کے بعد فاتحہ پڑھی تھی، مصنف کی کور علمی اور جہالت کی دلیل ہے۔ کیونکہ دیگر کتبِ حدیث میں یہی راوی انہی حضرت ابن عباس رضی اللہ سنہ سے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے فاتحہ نمازِ جنازہ کے اندر پڑھی تھی۔ چنانچہ ملاحظہ ہو:
عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَسُورَةٍ وَجَهَرَ حَتَّى أَسْمَعَنَا، فَلَمَّا فَرَغَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ، فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: «سُنَّةٌ وَحَقٌّ»  (سنن نسائى . كتاب الجنائز)
"حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں ایک جنازہ پر نماز پڑھی تو انہوں نے فاتحہ اور ایک سورت اس قدر بلند آواز سے پڑھی کہ ہم نے سن لی۔ نماز سے فارغ ہوئے، تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر (اس بارے میں) ان سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: یہ سنت اور حق ہے۔"
نیز ایک حنفی مصنف عینی نے عمدۃ القاری میں بیہقی کے حوالہ سے ذکر کیا ہے۔
"عن سعيد أبى سعيد قال سمعت ابن عباس يهجر بفاتحة الكتاب فى الصلوة على جنازة"(عمدة القارى 8/140- السنن الكبرى للبيهقى 4/39)
"سعید بن ابی سعید فرماتے ہیں کہ میں نے نمازِ جنازہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کو سورت فاتحہ جہرا پڑھتے سنا۔"
نیز المستدرک للحاکم ج1 ص 359 پر ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ابواء مقام پر نمازِ جنازہ پڑھائی، تکبیر کہی۔ پھر بلند آواز سے فاتحہ پڑھی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا۔" الخ
ان تینوں حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سورۃ فاتحہ نمازِ جنازہ کے اندر پڑھی تھی۔ لہذا گجراتی صاحب کا یہ کہنا غلط ہے کہ اس میں فاتحہ نماز کے اندر پڑھنے کا ذکر نہیں۔ یہ ان کے قلتِ مطالعہ اور کم علمی کی دلیل ہے۔
نیز یہ کہ یہ "ف" تعقیب کی بھی نہیں۔ جیسا کہ ہم ابتداء میں ذکر کر آئے ہیں۔
2۔ گجراتی صاحب کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس میں یہ پتہ نہیں کہ فاتحہ کس تکبیر کے بعد پڑھی؟
ان کا یہ اعتراض بھی وزنی نہیں کیونکہ اوپر المستدرک للحاکم کے حوالہ سے جو روایت بیان ہوئی ہے اس میں صاف ذکر ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورت فاتحہ پڑھی تھی۔
3۔ تیسرا اعتراض کہ یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے فاتحہ حمد و ثناء کی نیت سے پڑھی تھی یا دعاء و تلاوت کی نیت سے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ نماز جنازہ کے اندر پہلی تکبیر کے بعد سورت فاتحہ انہوں نے پڑھی۔ نیت خواہ کوئی بھی ہو، آپ کیوں نہیں پڑھتے اور کیوں منع کرتے ہیں۔ حالانکہ فاتحہ کے بغیر کوئی بھی نماز نہیں۔
4۔ گجراتی صاحب کا یہ اعتراض کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس عمل پر سارے صحابہ اور حاضرین کو تعجب ہوا لہذا معلوم ہوا کہ وہ لوگ فاتحہ نہ پڑھتے تھے۔
یہ بھی محض اعتراض ہی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کا سوال فاتحہ کے بارے میں نہیں بلکہ جہرا پڑھنے کے بارے میں تھا، تو آپ نے فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے۔
5۔ گجراتی صاحب کا یہ کہنا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سنتِ رسول اللہ نہیں بلکہ لغوی معنی میں سنت فرمایا۔
ان کا یہ قول بھی لغو اور اصولِ حدیث سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ ورنہ اصولِ حدیث کا ایک ادنیٰ طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ صحابہ جب کسی عمل کو سنت قرار دیں تو اس سے سنتِ رسول اللہ ہی مراد ہوتی ہے۔
6۔ مصنف کا یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازِ جنازہ کے اندر سورت فاتحہ پڑھنا کہیں ثابت نہیں
یہ بھی غلط محض ہے ورنہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فاتحہ پڑھنے اور جہرا پڑھنے کو سنت کہنا مرفوع کے حکم میں ہی ہے۔ نیز اگر گجراتی صاحب کو کتب حدیث کے مطالعہ کی توفیق ہوتی تو انہیں للمستدرک للحاکم 1/ 358 پر یہ روایت نظر آجاتی:
" عن جابر قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر على جنائزنا  أربعا و يقرأ بفاتحتة الكتاب فى التكبيرة الأولى "
"حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے جنازے پر چار تکبیریں کہا کرتے اور پہلی تکبیر کے بعد سورت فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔"
گرنہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہ آفتاب راچہ گناہ
7۔ گجراتی صاحب کا یہ کہنا کہ بجز ابن عباس رضی اللہ عنہ کے کسی بھی صحابی سے جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا ثابت نہیں۔ یہ یا تو لاعلمی کی وجہ سے انہوں نے دعویٰ کیا ہے یا اپنے حواریوں کو خوش کرنے کے لئے لکھا ہے۔ ورنہ کتبِ حدیث میں متعدد صحابہ کرام سے نمازِ جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا ثابت ہے۔ چنانچہ ذیل میں ہم عینی حنفی کی کتاب "عمدۃ القاری' سے حوالے نقل کرتے ہیں، جو انہوں نے جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کے جواز کے ضمن میں ذکر کئے ہیں:
1۔ انہوں نے ابو نعیم کے حوالہ سے بروایت امِ عفیف نہدیہ بیان کیا ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا۔
2۔ ابن ابی شیبہ کے حوالہ سے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل پیش کیا ہے کہ انہوں نے نمازِ جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھی۔
یاد رہے کہ یہ وہی ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں جن کی مرویات و فتاویٰ پر فقہ حنفی کا اکثر دارومدار ہے۔
3۔ فضالہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ پڑھانے والے شخص نے بھی سورت فاتحہ پڑھی تھی۔
کتاب الجنائز للمزنی میں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام بھی نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھتے تھے۔
5۔ محلیٰ میں ہے مسور بن مخرمہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی، تو پہلی تکبیر کے بعد سورت فاتحہ اور ایک مختصر سورت پڑھی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا: "میں جانتا ہوں کہ یہ سری نماز ہے، لیکن میں تمہیں تعلیم دینا چاہتا تھا کہ اس میں بھی قراءت ہوتی ہے۔
6۔ آخر میں عینی نے لکھا ہے کہ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ، انس رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ لوگ بھی سورت فاتحہ پڑھا کرتے تھے تفصیل کے لئے عمدۃ القاری ج8 ص 140، 141 ملاحظہ فرمائیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ گجراتی صاحب کا یہ دعویٰ بھی سابقہ دعاوی کی طرح غلط ہے ورنہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ کے اندر سورت فاتحہ پڑھنا ثابت ہے۔ اس موضوع پر دلائل اور حوالہ جات تو بے شمار ہیں۔ " و فيما ذكرنا كفاية لمن كانت له دراية"
(أللهم أرنا الحق و ارزقنا إتباعه و أرنا الباطل باطلا و ارزقنا اجتنابه- آمين)