توحید کے چند اہم پہلو اور راہ اعتدال

مسئلہ صفات باری تعالیٰ کا تفصیلی تذکرہ:

اس مسئلے میں اہل علم نے اپنی اپنی کتب میں سیر حاصل بحثیں فرمائی ہیں۔اور ایک دوسرے کے دلائل کو بھی جواباًپیش کیا ہے۔ذیل میں کچھ صفات باری تعالیٰ کے متعلق عرض کیا جاتا ہے۔تاکہ معلوم ہوسکے کہ وہ صفات ہیں کیا جن کے متعلق اتنی بحثیں ہوئیں۔ اور قرون اولیٰ میں کتب در کتب لکھی گئیں۔

شرح عقیدہ واسطیہ میں ہے:

فقد اتفق السلف على انه يجب الايمان بجميع الاسماء الحسنى وما دلت عليه من الصفات وما ينشا عنها من الافعال مثال ذلك القدرة يجب الايمان بانه سبحانه على كل شيء قدير والايمان بكمال قدرته والايمان بان قدرته نشات عن جميع الكائنات وهكذا بقية الاسماء الحسنى على هذا النمط وعلى هذا فما ورد في هذه الايات التي ساقها الشيخ من الاسماء الحسنى فانها داخلة في الايمان بالاسم وما فيها من ذكر الصفات مثل عزة الله وقدرته وعلمه وحكمته وارادته ومشيئته فانها داخلة في الايمان بالصفات وما فيها من ذكر الافعال المطلقة والمقيدة مثل يعلم كذا ويحكم ما يريد ويرى ويسمع وينادي ويناجي وكلم ويكلم فانها داخلة في الايمان بالافعال .

(اصول اول)

"تمام سلف صالحین اس پر متفق ہیں۔کہ تمام اسماء حسنیٰ پر ایمان لانا واجب ہے۔اور جن صفات پر وہ اسماء دلالت کرتے ہیں۔اور جو افعال ان سے پیدا ہوتے ہیں۔ان پر بھی ایمان لانا واجب ہے۔جیسا کہ قدرت ہے اس بات پر ایما ن لانا واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔کہ اس کی قدرت سے ہی ساری کائنات وجود میں آئی ہے۔اسی طرح باقی تمام اسمائے حسنیٰ پر ایمان واجب ہے۔اور آیات مبارکہ میں جو اسماء واقع ہوئے ہیں وہ ایمان بلاسم داخل ہیں۔اور جو صفات مذکور ہوئی ہیں۔مثلاً عزۃ اللہ۔اس کی قدرت،اس کا علم،اس کی حکمت، اس کا ارادہ،اس کی مشیت،یہ تمام ایمان بالصفات میں داخل ہیں۔

اور آیات مبارکہ میں جو مقید یامطلق افعال کا تذکرہ ہواہے جیسا کہ وہ یہ جانتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے اور ارادہ کرتا ہے ،دیکھتا ہے ،سنتا ہے،منادی کرتا ہے،سرگوشی کرتاہے،کلام کرتا ہے،یہ ایمان بلافعال میں د اخل ہیں۔

دوسرا اصول:۔

دلت هذه النصوص القرآنيه علي ان صفات الباري قسمان

صفات ذاتية لا تنفك عنها الذات،بل هي لازمة لها ازلا وابدا ولا تتعلق بها مشيئته تعالى وقدرته وذلك كصفات الحياة والعلم والقدرة والقوة والعزة والملك والعظمة والكبرياء والمجد والجلال الخ

صفات فعلية تتعلق بمشيئته وقدرته كل وقت وان وتحدث بمشيئته وقدرته احاد تلك الصفات من الافعال وان كان هو لم يزل موصوفا بها بمعنى ان نوعها قديم وافرادها حادثة فهو سبحانه لم يزل فعالا لما يريد ولم يزل ولا يزال يقول ويتكلم ويخلق ويدبر الامور وافعاله تقع شيئا فشيئا تبعا لحكمته وارادته وهنا نشير الى قول الشيخ رحمه الله تعالى :على المؤمن الايمان بكل ما نسبه الله لنفسه من الافعال المتعلقة بذاته كالاستواء على العرش والمجيء والاتيانوالنزول الى السماء الدنيا والضحك والرضى والغضب والكراهية والمحبة المتعلقة بخلقه كالخلق والرزق والاحياء والاماتة وانواع التدبير المختلفة-

قرآنی آیات دلالت کرتی ہیں۔ کہ صفات باری تعالیٰ دو قسم پر ہیں۔

1۔صفات ذاتیہ جو کبھی بھی ذات سے الگ نہیں ہوئیں بلکہ وہ ہمیشہ ذات کے ساتھ ہی متعلق رہتی ہیں۔ان کامیشت یا قدرت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔جیسا کہ حیات ۔علم۔قدرت۔قوت۔عزت۔بادشاہی ،بڑائی ۔کبریائی ۔بزرگی اورجلالت یہ وہ صفات ہیں جو کہ ہمیشہ باری تعالیٰ کے متعلق ہیں۔

2۔فعلی صفات ہیں۔

جو کی مشیت اور قدت کے ساتھ متعلق ہیں۔ ان صفات میں سے کوئی نہ کوئی صفت موجود میں آتی رہتی ہے۔کہ اس کے مطابق افعال کا وجود ہوتا رہتا ہے۔اگرچہ باری تعالیٰ انکے ساتھ بھی متصف ہے۔ معنیٰ یہ ہے کہ وہ اوصاف تو قدیم ہیں لیکن ان کے افراد حادث ہیں۔کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیشہ جو ارادہ کرلے کرتا ہے۔اور ہمیشہ ہی سے کلام کرتا،پیدا کرتا،معاملات کی تدبیرکرتاہے۔اور اس کے افعال ا س کی حکمت اور ارادے کے مطابق درجہ بدرجہ واقع ہوتے ہیں۔مومن پر ضروری ہے کہ ان چیزوں پر ایمان لائے جن کو اللہ تعالیٰ نے ا پنے ساتھ منسوب کیا ہے۔جیسے عرش پر مستوی ہونا آنا ۔دینا۔آسمان دینا پر اترنا۔ہنسنا۔راضی ہونا۔ناراض ہونا۔برا جاننا۔مخلوق سے محبت کرنا جیسے پیداکرنا۔رزق دینا۔زندہ کرنا۔موت دینا۔اور مختلف تدبیریں کرنا وغیرہ ان صفات باری تعالیٰ پر ایمان لانا واجب ہے۔

تیسرا اصول:۔

الاصل الثالث:اثبات تفرد الرب جل شانه بكل صفة كمال وانه ليس له شريك او مثيل في شيء منها.

وما ورد في الايات السابقة من اثبات المثل الاعليٰ له وحده ونفي الند والمثل والكفوء والسمي والشريك عنه يدل علي ذلك كما يدل علي انه منزه عن كل نقص وعيب وآفة

اللہ تعالیٰ کو ایک ثابت کرنا ساتھ صفت کمال کے اس کا کوئی شریک نہیں اور کوئی چیز اس کے مثل نہیں۔

اورآیات میں جو اس کے لئے مثل الاعلیٰ وارد ہواہے وہ اسی اکیلے کی مثال ہے۔شریک اور مثل کفو ،ہم نام،اور اس سے شرکت۔ان تمام چیزوں سے پاک ہے۔جیسا کہ ہر نقص،عیب اور آفت سے سے پاک ہے۔

چوتھا اصول:۔

الاصل الرابع: اثبات جميع ما ورد به الكتاب والسنة من الصفات لا فرق بين الذاتية منها كالعلم والقدلرة والارادة والحياة والسمع والبصر ونحوها ،والفعلية كالرضا والمحبة والغضب والكراهة ،وكذلك لا فرق بين اثبات الوجه واليدين ونحوهما ،وبين الاستواء على العرش والنزول فكلها مما اتفق السلف على اثباته بلا تاويل ولا تعطيل وبلا تشبيه ولا تمثيل.

صفات جو کہ کتاب وسنت میں وارد ہوئی ہیں۔ان کو ثابت کرنا بغیر فرق کرنے کے جیسا کہ ذاتیہ ہیں۔علم۔قدرت۔ارادہ ۔زندگی۔سننا ۔دیکھنا اور ایسی باقی صفات فعلیہ جیسا کہ رضا مندی۔محبت کرنا۔ناراض ہونا۔برا جاننا۔

اور اسی طرح امتیاز نہ کرنا۔چہرہ اور ہاتھ ثابت کرنے میں،اور عرش پر مستوی ہونے میں۔اُترنے میں اور وہ تمام وہ صفات باری تعالیٰ جن پر سلف صالحین متفق ہیں۔بغیر تاویل۔بغیر تعطیل۔وتشبیہ اور تمثیل کے ان کو ثابت سمجھنا چاہیے۔

اس اصل کی مخالفت کرنے والے دوگروہ ہیں:

الجحمية ينفون الاسماء والصفات جميعاً

"جہمیہ نے اسماء اورصفات باری تعالیٰ کا بالکل انکا کردیا ہے۔

2۔معتزلہ:۔

المعتزلة الذين ينفون جميع الصفات ويثبتون الاسماء والاحكام فيقولون عليم بلا علم وقدير بلا قدلرة وحي بلا حياة الخ

وہ صفات کا انکار کرتے ہیں اور اسماء واحکام تسلیم کرتے ہیں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علیم تو ہے مگر بغیرعلم کے،قدیر تو ہے لیکن بغیر قدرت کے،زندہ تو ہے لیکن بغیرزندگی کے۔اورمعتزلہ کا یہ اعتقاد جہمیہ سے بھی بدتر ہے وہ موصوف کو تو ثابت کرتے ہیں لیکن بغیرصفت کے جو کہ صفت کے لئے ہواس کو ذات مجردہ کے لئے ثابت کرنا عقلاً محال ہے۔لہذا شرعاً بھی باطل ہے۔

لطیفہ:۔

امام ابو داؤد ا پنی سنن میں باب قائم کرتے ہیں۔باب الدعاء في الصلواة اس کے تحت حدیث بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی

... أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو في الصلاة : " اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر ..

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے۔کہ اللہ میں تجھ سے قبر کے عذاب کی پناہ مانگتا ہوں۔"

اس حدیث کی تشریح فرماتے ہوئے صاحب عون المعبود ایک پرمغز لطیفہ تحریر فرماتے ہیں۔تفنن طبع کے لئے ہم بھی اس کو ذیل میں درج کردیتے ہیں:

قَالَ اِبْن حَجَر الْمَكِّيّ : وَفِيهِ أَبْلَغ الرَّدّ عَلَى الْمُعْتَزِلَة فِي إِنْكَارهمْ لَهُ وَمُبَالَغَتهمْ فِي الْحَطّ عَلَى أَهْل السُّنَّة فِي إِثْبَاتهمْ لَهُ حَتَّى وَقَعَ لِسُنِّيٍّ أَنَّهُ صَلَّى عَلَى مُعْتَزِلِيّ فَقَالَ فِي دُعَائِهِ اللَّهُمَّ أَذِقْهُ عَذَاب الْقَبْر فَإِنَّهُ كَانَ لَا يُؤْمِن بِهِ وَيُبَالِغ فِي نَفْيه وَيُخَطِّئ مُثْبِته. (عون المعبود ج١ ص٣٢٨)

"امام ابن حجر ؒ مکی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں معتزلہ کا بہت رد ہوا ہے کیونکہ وہ عذاب قبر کا انکار کرتے ہیں۔اور اہل سنت پر بڑی تنقید کرتے ہیں۔کیونکہ اہلسنت قبر کے قائل ہیں۔یہاں تک کہ اہل سنت میں سے ایک شخص نے معتزلی پر جنازہ پڑھا تو کہا اے اللہ اس کو قبر کا عذاب چکھا۔کیونکہ یہ اس پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔اس کی شدید نفی کرتا تھا۔اورعذاب قبر کااثبات کرنے والوں کو غلط کارٹھہراتاتھا۔"

معتزلہ کاعقیدہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے متعلق:۔

وذهب جمهور المعتزله الي ان عائشة وطلحة والزبير ومعاويه وجميع اهل الاعراق والشام فساق بقتالهم امام الحق يعنون علي كرم الله وجهه (مقدمة جامع الاصول ج١ ص ٧٣)

"تمام معتزلہ کا مذہب ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔طلحۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔اور تمام عراق وشام والے فاسق ہیں۔ کیونکہ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےساتھ لڑائی کی تھی،جو کہ امام حق تھے۔"

احناف اور متعزلہ کا امتزاج:۔

وبعضهم يزعم أن بناء المذهب على هذه المحاورات الجدلية المذكورة في مبسوط السرخسي والهداية والتبيين ونحو ذلك ، ولا يعلم أن أول من أظهر ذلك فيهم المعتزلة ... (حجة الله البالغة ج١ص١٦-)

"احناف کے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے مذہب کی بنیاد ہدایہ اور سرخسی کی مبسوط وغیرہ پر ہے۔لیکن ان کو علم نہیں کہ سب سے پہلے ان میں یہ مذہب ظاہر کرنے والا فرقہ معتزلہ ہے۔"

فائدہ:۔احناف میں فرقہ معتزلہ کاکتنا حسین امتزاج ہے۔جس کا ان بیچاروں کو علم نہیں ہے۔حکیم الامت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اسی امتزاج پرآگاہ فرمارہے ہیں۔احناف کو شاہ صاحب کی نصیحت قبول فرمالینی چاہیے۔

صفات باری تعالیٰ کےمتعلق سلف صالحین کامسلک اعتدال:۔

دنیا میں کتاب وسنت کی صحیح دعوت لوگوں میں پیش کرنے والی ایک جماعت اہل اسلام میں قیامت تک موجود رہے گی۔وہ جماعت اہل حدیث ہے ۔اہل اسلام کے بڑے بڑے علماء واکابرین اس پر متفق ہیں۔لوگ ان کی مخالفت بھی کریں گے ۔ان کو ملامت بھی کریں گے۔تاہم یہ جماعت صراط مستقیم پرعمل پیرا اور اس کی دعوت پرگامزن رہے گی ۔ان شاء اللہ۔مسئلہ صفات باری تعالیٰ پراعتقاد میں کئی فرقوں سے لغزشیں ہوئیں۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اہل حدیث کے اکابرین کو اس مسئلے میں بھی افراط وتفریط سے محفوظ رکھا۔اور اہل حدیث نے اس مسئلے میں اسی موقف کو اختیار فرمایا۔جو کہ کتاب وسنت کے مطابق اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کاموقف تھا۔کہ صفات باری تعالیٰ کو اسی طرح تسلیم کیا جائے جس طرح کتاب وسنت میں وارد ہوئی ہیں۔نہ ان میں تاویل کی جائے اور نہ ہی تشبیہ وتعطیل اختیار کی جائے چنانچہ علامہ شہرستانی ؒ لکھتے ہیں:۔

اعلم أن جماعة كبيرة من السلف كانوا يثبتون لله تعالى صفات أزلية من العلم والقدرة ... وكذلك يثبتون صفات خبرية مثل اليدين والوجه ولا يؤولون ذلك (الملل والنحل ص٨ج١)

"بے شک سلف صالحین کی بہت بڑی جماعت اللہ تعالیٰ کے لئے صفات ازلیہ کو ثابت کرتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا علم،قدرت ،حیات ،ارادہ،سمع بصر،کلام کرنا،بزرگی،جلالت،سخاوت،انعام کرنا،عزت،بڑائی، اور وہ صفات ذاتیہ اور فعلیہ میں فرق نہیں کرتے۔بلکہ ایک ہی طرح کا کلام کرتے ہیں۔ایسے ہی صفات خبر یہ کو ثابت کرتے ہیں جیسا کہ ہاتھ اور چہرہ ہے۔اور اس میں کوئی تاویل نہیں کرتے۔

اعلم أن السلف من أصحاب الحديث لما رأوا توغل المعتزلة في علم الكلام ومخالفة السنة التي عهدوها من الأئمة الراشدين ونصرهم جماعة من أمراء بني أمية على قولهم بالقدر وجماعة من خلفاء بني العباس على قولهم بنفي الصفات وخلق القرآن تحيروا في تقرير مذهب أهل السنة والجماعة في متشابهات آيات الكتاب الحكيم وأخبار النبي الأمين صلى الله عليه و سلم .فأما أحمد بن حنبل وداود بن علي الأصفهاني وجماعة من أئمة السلف فجروا على منهاج السلف المتقدمين عليهم من أصحاب الحديث مثل : مالك بن أنس ومقاتل بن سليمان وسلكوا طريق السلامة فقالوا : نؤمن بما ورد به الكتاب والسنة ولا نتعرض للتأويل بعد أن نعلم قطعا أن الله عز و جل لا يشبه شيئا من المخلوقات وأن كل ما تمثل في الوهم فإنه خالقه ومقدره

وكانوا يحترزون عن التشبيه إلى غاية أن قالوا من حرك يده عند قراءته قوله تعالى : { لما خلقت بيدي } أو أشار بإصبعيه عند روايته : "قلب المؤمن بين إصبعين من أصابع الرحمن " وجب قطع يده وقلع أصبعيه

وقالوا : إنما توقفنا في تفسير الآيات وتأويلها لأمرين :

أحدهما : المنع الوارد في التنزيل في قوله تعالى : {فأما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة وابتغاء تأويله وما يعلم تأويله إلا الله، والراسخون في العلم يقولون آمنا به كل من عند ربنا وما يذكر إلا أولوا الألباب ) فنحن نحترز عن الزيغ والثاني ان التاويل امر مظنون بالاتفاق والقول في صفات الباري بالظن غير جائز فربما اولنا الاية علي غير مراد الباري فوتفنا في الزيغ بل نقول كما قال الراسخون في العلم كل من عند ربنا امنا بظاهره وصدقنا بباطنه ووكلنا علمه الي الله تعاليٰ ولسنا مكلفين بمعرفة ذلك اذ ليس ذلك من شرائط الايمان واذ كانه واحتاط بعضهم اكثر احتياط (الملل والنحل ص٩٥ج١)

"جب اسلاف میں سے اہل حدیث نے معتزلہ کو علم کلام اور مخالفت سنت عقائد میں مشغول ہوتے ہوئے دیکھا اور ان کی انکار تقدیر کے عقیدہ پر بنو امیہ کے امراء نے مدد کی اور خلفاء بنو عباس میں سے بھی ایک جماعت نے صفات کی نفی اور مسئلہ خلق قرآن میں ان کی مدد کی تویہ لوگ اہل السنہ کے عقیدہ میں حیران ہوگئےآیات متشابہات اوراحادیث میں ان کو تزلزل ہوا۔

امام احمد بن حنبل ؒ۔داؤد بن علی۔اصفہانیؒ اور اسلاف کی ایک جماعت سلف صالحین کے عقیدہ پر چلی جو عقیدہ امام مالکؒ امام مقاتلؒ بن سلیمان کا تھا۔اور کہنے لگے کہ ہم ہر اس چیز پرایمان لاتے ہیں۔جو کہ کتاب وسنت میں وارد ہوئی ہے۔ہم تاویل نہیں کرتے جب کہ ہمارا عقیدہ ہے۔کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کسے شے کے مشابہ نہیں جو کچھ انسان کے وہم میں پیدا ہوگا وہی اس کو پیدا کرنے والا ہے۔اور مشابہت دینے سے اتنا بچتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر کسی نے یہ آیت(میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا) کی قرات کے وقت ہاتھ کو حرکت دی یا روایت بیان کرتے ہوئے انگلیوں سے اشارہ کیا تو ہاتھ اور انگلیاں کاٹنا واجب ہے۔اور کہتے تھے کہ ہم دو وجہ سے آیات کی تفسیر اور تاویل کرنے میں توقف کرتے ہیں۔

1۔قرآن میں روکاگیا ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کی تاویل تلاش کرتے ہیں۔حالانکہ ان کی تاویل اللہ ہی جانتا ہے۔اور جو مضبوط علم والے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے۔اورعقل والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔

2۔تاویل کرنا کوئی یقینی معاملہ نہیں اور صفات باری تعالیٰ میں غیر یقینی بات جائز نہیں۔اگرہم اللہ تعالیٰ کے مقصد کے خلاف تاویل کریں تو کجی میں واقع ہوجائیں گے بلکہ ہم تو وہ کہتے ہیں جوکہ علم والوں نے کہا کہ ہم نے ظاہر پر ایمان اورباطن کی تصدیق کی اور اس کاعلم اللہ کے سپردکیا۔نہ یہ تاویلات اسلام کی شرط ہیں اور نہ ہم ان کے مکلف ہیں۔"

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا عقیدہ:۔

عن أم سلمة -رضي الله عنها- أنها قالت في قول الله -عز وجل-: الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى قالت: الاستواء غير مجهول، والكيف غير معقول، والإقرار به إيمان، والجحود به كفر. (عون المعبود ج٤ ص ٣٥٣)

"حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ عرش پرمستوی ہونا معلوم ہے اس کی کیفیت عقل سے بلند ہے اور اس کا اقرار کرنا ایمان ہے اور انکار کرناکفر ہے۔"

1۔امام ربیعہ ب ابی عبدالرحمٰن کا عقیدہ:۔

سئل ربيعة بن أبي عبد الرحمن عن قوله تعالى: ﴿الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى﴾ كيف استوى قال: (الاستواء غير مجهول، والكيف غير معقول، ومن الله الرسالة، وعلى الرسول البلاغ المبين، وعلينا التصديق) (عون المعبود ج٤ ص٣٥٣)

"امام ربیعہ ؒ سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ عرش پرکیسے مستوی ہے تو آپ نے جواب دیا کہ استواء معلوم ہے اور کیفیت عقل سے ماوراء ہے۔ اور اللہ تعالیٰ پرپیغام بھیجناہے۔اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ تبلیغ ہے۔اور ہم پر تسلیم کرنا واجب ہے۔

3۔امام اوزاعی ؒ کاعقیدہ:۔

قاله الأوزاعي إمام الشام رحمه الله:قال: (كنا والتابعون متوافرون نقول: إن الله تعالى ذكره فوق عرشه، ونؤمن بما وردت السنة به من صفاته جل وعلا) (عون المعبود ج٤٣٥٣)

"امام اوزاعی ؒ فرماتے ہیں کہ ہم تابعینکے زمانہ میں کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر ہے۔اور اس کی جو صفات سنت میں وارد ہوئی ہیں۔ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں۔"

وعن الازاعي انه سئل عن قوله تعالي ثم اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ فقال هو كما وصف نفسه (عون المعبود ص٣٥٣ ج٤)

"امام اوزاعی ؒ سے مستوی علی العرش کے متعلق سوا ل کیا گیا تو آ پ نے فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق بیان کیاہے اسی طرح ہے۔"

امام مالک ؒ کا عقیدہ:۔

ثنا جعفر بن عبد الله قال: كنا عند مالك بن أنس فجاءه رجل فقال: يا أبا كيف استوى؟، فما وجد الرَّحْمَنُ عَلَى العَرْشِ اسْتَوَى عبد الله مالك من شيء ما وجد من مسألته، فنظر إلى الأرض وجعل ينكتُ بعود في يده حتى علاه الرّحضاء ـ يعني العرق ـ ثمَّ رفع رأسه ورمى بالعود وقال: (( الكيف منه غير معقول، والاستواء منه غير مجهول، والإيمان به واجب، والسؤال عنه بدعة ))، وأمر به فأُخرج (عون المعبود ج٤ص ٣٥٣)

"عبداللہ بن وہب ؒ نے کہا کہ ہم امام مالک کے پاس تھے ایک شخص آیا اس نے کہا اے ابو عبداللہ رحمٰن عرش پرمستوی ہے؟ امام صاحب نے سر جھکا لیا۔آپ کو پسینہ آگیا۔پھر سر کو بلند کیا اور کہا کہ ہاں رحمٰن عرش پر ہے جس طرح اس نے بیان فرمایا ہے۔اور کیفیت اس کی بیان کی نہیں گئی۔اور میرا خیال ہے تو بدعتی ہے،اس کو نکال دو۔"

امام محمد بن حسن شیبانی کا عقیدہ:۔

وَأَسْنَدَ اللَّالَكَائِيّ عَنْ مُحَمَّد بْن الْحَسَنِ الشَّيْبَانِيِّ قَالَ : اِتَّفَقَ الْفُقَهَاء كُلّهمْ مِنْ الْمَشْرِق إِلَى الْمَغْرِب عَلَى الْإِيمَان بِالْقُرْآنِ وَبِالْأَحَادِيثِ الَّتِي جَاءَ بِهَا الثِّقَات عَنْ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صِفَة الرَّبّ مِنْ غَيْر تَشْبِيه وَلَا تَفْسِير ، فَمَنْ فَسَّرَ شَيْئًا مِنْهَا وَقَالَ بِقَوْلِ جَهْم فَقَدْ خَرَجَ عَمَّا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابه وَفَارَقَ الْجَمَاعَة)) (عون المعبود)

" امام محمد بن حسن ؒ نے کہا کہ مشرق ومغرب کے فقہاء تمام متفق ہیں کہ قرآن اور وہ احادیث جن کوثقہ راویوں نے بیان کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ کی صفات میں ان پر ایمان لاناضروری ہے۔بغیر تشبیہ اور تفسیر کے جس نے کسی شے کی ان میں سے تفسیر کی اور جہم بن صفوان کی سی بات کہی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عقیدے سے خارج ہوگیا۔اور جماعت اہل سنت سے الگ ہوگیا۔کیونکہ اس نے اپنے رب کا ایسا وصف بیان کیا جو کہ نہیں ہے۔:

فائدہ:۔یہ ہیں اس مسئلے میں اسلاف بزرگوں کے چند اقوال۔اس سے مسئلہ بخوبی واضح ہوجاتاہے۔کہ سلف صالحین اس مسئلے میں کتنے محتاط ہیں انھوں نے افراط وتفریط سے بچ کر اعتدال کا مسلک اختیار کیا ہے۔

امام العصر حضرت مولانا محمد ابراہیم میر ؒ کے قلم سے مسئلہ کی وضاحت:۔

ہم نے مسئلہ صفات باری تعالیٰ کے بیان کرنے میں بڑی احتیاط سے سلف صالحین کے مؤقف کی وضاحت کرنے کی ناچیز کوشش کی ہے۔اور عرض کیا ہے کہ اس زبردست معرکۃ الآراء مسئلہ میں فرقہ جہمیہ اور معتزلہ کا بہت بڑا مغالطہ ہواہے۔اور اس فریب میں ان کے ساتھ بعض حکمران بھی دھوکا کھا کر صفات باری تعالیٰ کے انکار میں جہمیہ اور معتزلہ کے ہم عقائد بن گئے۔جسے آئمہ سنت کو سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔تاہم آئمہ سنت نے جان پرکھیل کر صحیح اسلامی عقیدے کی حفاظت فرمائی۔جزاہم اللہ احسن الجزاء۔

مسئلہ کو پوری طرح واضح کرنے کےلئے ذیل میں ہم حضرت میر صاحب سیالکوٹی ؒ کی تحریر نقل کررہے ہیں۔تاکہ یہ مشکل اور معلوماتی مسئلہ اردو دان طبقہ کے لئے بھی مفید ہوسکے۔چنانچہ میر صاحب لکھتے ہیں:خلیفہ ہشام بن عبدالملک کےعہد میں ایک شخص جعد بن درہم نے صفات الٰہیہ کا انکار شروع کردیا۔

مسئلہ صفات الٰہیہ بڑا دقیق اور مشکل ہے۔جس کی گتھی عقل وفہم کے ناخنوں سے نہیں کھل سکتی۔ ہم کیا اور ہماری بساط کیا۔خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم دربار ایزدی میں اظہار عجز کرکے اور حقیقی علم کو اسی ذات سرمدی کے سپرد کرکے فرماتے ہیں:

لا احصي ثناء عليك انت كما اثنيت علي نفسك

"میں تیری ثناء کما حقہ بیان نہیں کرسکتا تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنی صفت بیان کی ہے۔"

پس اپنی عاجزی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس وقت ہمارا مقصود مسئلہ صفات کے متعلق اختلاف کی صورت کا بیان کردیناہے جس کی مجمل تشریح یوں ہے۔کہ ذات بیچوں عزاسمہ کی صفات دو قسم کی ہیں۔ سلبیہ اوروجودیہ۔

سلبیہ سے یہ مراد ہے کہ ذات حق کو جملہ معائب اور نقائص سے اور ہر چیز سے جو اس کی شان کے لائق نہ ہو منزہ ومبرا مانا جائے اسے تنزیہ کہتے ہیں۔مثلاً یہ کہ وہ جسم نہیں ہے وہ کسی سے متحد نہیں ہوتا۔ا س کی ذات کسی میں حلول نہیں کرتی۔وغيره ذلك

چنانچہ فرمایا:

﴿لَم يَلِد وَلَم يولَد ﴿٣﴾ وَلَم يَكُن لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤﴾... سورةالاخلاص

"یعنی نہ خدا نے کسی کو جنا اور نہ وہ خود کسی سے جنا گیا۔اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔"

صفات وجودیہ سے یہ مرادہے کہ ذات باری تعالیٰ جل مجدہ کو جملہ صفات کمال سے موصوف سمجھا جائے۔یہ بھی دو قسم پر ہیں۔صفات افعال کے ان کا ظہور بالفعل مخلوق کے ظہور وجود سے ہے۔مثلا ً خالقیت کہ اس کا ظہور بالفعل اس وقت ہوتاہے۔جب کوئی شے مخلو ق ہوجائے اور ربوبیت کے اس کا ظہور شئی مربوب کو چاہتاہے۔ایسی صفات کی دو جہتیں ہیں۔ایک جہت ذات برحق کی نعت وصفت ہونے کے لحاظ سے اور دوسری جہت مخلوق سے متعلق ہونے کے لحاظ سے ذات خداوندی سے تو اس کا تعلق حادث نہیں۔یعنی ایسا کوئی وقت نہیں تھا کہ ذات برحق اس سے مجرد ہواس معنیٰ میں امام الآئمہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے فقہ اکبر میں فرمایا ہے:

كان الله خالقا قبل ان يخلق

"یعنی خدا پیدا کرنے سے پہلے بھی خالق تھا۔"

امام غزالی ؒ نے اقتصاد میں اس امر کو بہت صفائی سے بیان کیاہے۔باقی رہی دوسری جہت یعنی مخلوق کے ساتھ اس صفت کا تعلق سوہ وہ حادث ہے۔یعنی جب خدا نے چاہا کہ کسی شے کو ہستی میں لاوے تو ا پنی صفت خالقیت کو اس شے کی صورت علمیہ کے متعلق کردیا۔جو اس کے علم ازلی میں ہے۔اور اس کو موجودہ بالفعل کردیا۔پس یہ تعلق اور متعلق بہ حادث ہوئے نہ کہ صفت الٰہی۔اس قسم میں سے بعض اضافی ہیں۔مثلاًالْأَوَّلُ وَالْآخِرُ‌(الحدید پارہ 27)

دوسری قسم صفات وجودیہ کی صفات ازلیہ ہیں۔ان کو ذاتیہ حقیقہ اور قدیمہ۔(مطلقاً) بھی کہتے ہیں۔مثلاً علم ۔قدرت اور حیات کہ ان کا انفکاک ذات بیچوں سے نہ کبھی ہوا نہ ہوسکے گا۔یعنی وہ ہمیشہ سے ان صفات سے موصوف ہے اور ہمیشہ موصوف رہے گا۔

صفات سلبیہ اور اضافیہ کی نسبت تو اختلاف نہیں۔ہاں حقیقت کی نسبت یہ اختلاف ہے کہ ان کا مفہوم ،مفہوم ذات عین کا ہے۔یا اس سے کوئی زائد امر۔

مثبتین صفات (اہل سنت اور ان کے موافقین) کہتے ہیں کہ ان صفات کا مفہوم ذات واجب تعالیٰ کے مفہوم پر زائد ہے۔اوراسم اللہ ذات بحت کا نام نہیں ہے۔بلکہ ذات مع صفات کا نام ہے۔ہاں وہ عین ذات بھی نہیں ہیں کہ ان کو خدا سمجھ لیا جائے۔ اور غیر بھی نہیں کہ ذات برحق کو ان سے مجرد وخالی مانا جائے۔چونکہ کوئی ذات جوعلم وقدرت وحیات وسمع وبصر وارادہ وکلام صفات کمال سے خالی ہو۔خارج میں اس کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ وہ خدا ہوسکتی ہے۔اور نہ مستحق عبادت،قرآن شریف میں جا بجا انہیں صفات کی نفی سے باطل معبودوں کی تردید کی گئی ہے۔

جہمیۃ اور ان کے موافقین شیعہ ومعتزلہ کہتے ہیں کہ خدا کی یہ صفات اس کی عین ذات ہیں۔اور مفہوم ذات سے زائد کوئی چیز قدیم نہیں ہے۔ورنہ تعدد قدماء لازم آئے گا جو منافی توحیدہے۔جس کا مختصر لیکن نہایت زبردست جواب یہ ہے کہ تعدد اس صورت میں لازم آئے جب ذوات متعدد ہوں۔ذات واحد ہو۔اور اس کی صفات کثر ت سے ہوں تو تعدد قدما ۔کہاں ہوا۔فافہم۔

پس صحیح یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات کے ساتھ قدیم ہے اور اس میں کوئی دقت نہیں۔

یہ ہے اقرار بالصفات اور انکاار بالصفات کے متعلق مختصر تشریح جو ہم نے بہت سی کتب کلامیہ کی ورک گردانی اور ان میں غور وخوض کرنے سے سمجھی ہے۔واللہ اعلم الحقیقۃ الحال۔(تاریخ اہلحدیث از میر سیالکوٹیؒ61۔63۔)

شیخ الکل فی الکل،فخر المحدثین استاذ الاساتذہ شیخ التفسیر والحدیث حضرت الحافظ محمدصاحب گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ مسئلہ صفات میں فرماتے ہیں۔

ہم اللہ تعالیٰ کو موصوف بصفات کثیرہ مانتے اور ذات کو کثرت سے بری اور اقانیم سے پاک جانتے ہیں۔(اثبات التوحید از محدث گوندلوی ؒ مرحوم ص30)

خلاصہ کلام:۔

ہماری مندرجہ بالا گزارشات سے مسئلہ صفات باری تعالیٰ کے تقریباً دونوں پہلو روشن ہوگئے ہیں۔جہمیہ اور معتزلہ کا عقیدہ بھی واضح طور پرسامنے آگیا ہے۔کہ وہ لوگ صفات باری تعالیٰ کا انکار کرکے کیس کیسی گمراہ کن تاویلات میں پڑے ہیں۔

قرون اولیٰ میں ان کو اور ان ہی جیسے فرقوں کوبدعتی فرقے کہاجاتا تھا۔کیونکہ ان کا یہ اعتقاد اسلامی تعلیم میں نیا اعتقاد تھا۔کتاب وسنت اور تعامل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور ان کے عقائد معتزلہ وغیرہ کے ساتھ صفات باری تعالیٰ میں مطابقت نہیں رکھتے تھے۔اس لئے ان فرقوں کو اسلامی دور کے ابتدائی ادوار میں ہی پہچان لیا گیا اور ان کو گمراہ کن فرقے قرار دے دیاگیا ۔

دوسری طرف محدثین کرام ؒ کامقدس گروہ تھا جو کہ غلط عقائد کی اصلاح پر کمربستہ تھا۔انھوں نے ہر انداز سے ایسے فرقوں کاتجزیہ فرمایا۔حضرت امام مالکؒ۔امام احمد بن حنبلؒ۔امام بخاریؒ۔امام ترمذیؒ۔امام ابو داؤدؒ۔اما م بیہقیؒ۔وغیرہ جہمیہ اور متعزلہ کے رد میں پیش پیش نظرآتے ہیں۔

متاخرین بزرگوں میں امام ذہبیؒ ،امام ابن کثیرؒ۔نے اس فتنہ کی سرکوبی کےلئے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔امام ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ نے تو تمام باطل فرقوں کے ساتھ محاذ آرائی کی ہے۔خصوصا ً جہمیہ اور معتزلہ پر سخت قسم کی تنقیدات فرمائی ہیں۔

امام ابن تیمیہؒ اور امام ابن قیم ؒ کی تحریرات کا مطالعہ کرنے سے تع معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو باطل نظریات رکھنے والوں کے خلاف احقاق حق کے لئے ہی پیدا فرمایا تھا۔قصیدہ نونیہ جو کہ امام ابن قیمؒ نے اشعار میں لکھا ہے،ہماری ان گزارشات کی تائید کرے گا۔

مسئلہ صفات باری تعالیٰ کے متعلق محدثین کرام ؒ نے جو مسلک اختیار فرمایا ہے کہ ہم صفات باری تعالیٰ کو اس طرح مانتے ہیں جس طرح کتاب وسنت میں وارد ہوئی ہیں۔نہ ان میں تاویل کرتے ہیں۔نہ مخلوق کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں۔اور نہ جہمیہ اور متعزلہ کی طرح انکار کرتے ہیں۔یہی مسلک حق ہے صفات باری تعالیٰ کے متعلق محدثین سلف صالحین کا نظریہ بالکل واضح غیرمبہم اور سیدھا ہے۔دلائل کاتقاضاہے کہ ہر مسلمان کو اس نازک اور مشکل مسئلہ میں سلف صالحین کا ہی مسلک اختیار کرناچاہیے۔

فائدہ:۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس نازک مسئلے میں جوکچھ تحریر کیا ہے،قبول فرمائے۔اگر اس کے ذکر کرنے یا لکھنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو اپنے فضل وکرم سے معاف فرمائے۔اورآئمہ محدثین کی طرح اس مسئلہ پر قائم رکھے اور خاتمہ بالخیر ہو۔آمین!

اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق عقائد وزبان میں احتیاط:

حضرت آدم علیہ السلام کے جنت میں رہنے کا واقعہ قرآن پاک میں کئی بار ذکر ہواہے۔اور قرآن پاک میں یہ بھی بیان کردیا گیا ہے کہ ان کا جنت سے نکلنے کا سبب یہ تھا کہ شیطان کے بہکانے سے درخت کا پھل کھا لیا تو حکم ہوا کہ تم جنت سےچلے جاؤ اس واقعہ میں موجود ہے۔کہ شیطان نے دونوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کیاتھا۔

1﴿فَوَسوَسَ لَهُمَا الشَّيطـٰنُ لِيُبدِىَ لَهُما ما وۥرِ‌ىَ عَنهُما مِن سَوء‌ٰتِهِما وَقالَ ما نَهىٰكُما رَ‌بُّكُما عَن هـٰذِهِ الشَّجَرَ‌ةِ إِلّا أَن تَكونا مَلَكَينِ أَو تَكونا مِنَ الخـٰلِدينَ ﴿٢٠﴾ وَقاسَمَهُما إِنّى لَكُما لَمِنَ النّـٰصِحينَ ﴿٢١﴾ فَدَلّىٰهُما بِغُر‌ورٍ‌ فَلَمّا ذاقَا الشَّجَرَ‌ةَ بَدَت لَهُما سَوء‌ٰتُهُما وَطَفِقا يَخصِفانِ عَلَيهِما مِن وَرَ‌قِ الجَنَّةِ وَنادىٰهُما رَ‌بُّهُما أَلَم أَنهَكُما عَن تِلكُمَا الشَّجَرَ‌ةِ وَأَقُل لَكُما إِنَّ الشَّيطـٰنَ لَكُما عَدُوٌّ مُبينٌ ﴿٢٢﴾... سورةالاعراف

"پس وسوسہ دیا ان دونوں کو شیطان نے تاکہ ظاہرکرے۔ اُن کے لئے جو چھپایا گیا تھا ان کی شرمگاہوں سے اور کہا ان کو کہ تمہارے رب نے تم کو اس خطرے رے روکاہے۔اس درخت سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے نہ بن جاؤ یا پھر تم جنت میں ہمیشہ رہنے والے نہ ہوجاؤ۔اور دونوں سے قسم کھائی کہ میں تمہارے لئے خیر خواہوں سے ہوں۔

پس پھسلا دیا ان دونوں کو ساتھ دھوکے کے پس جب چکھا ان دونوں نے اس درخت سے توظاہر ہوگئیں ان کی شرمگاہیں اور وہ اپنےاوپر جنت کے پتے ڈھانکنے شروع ہوئے ان کو ان کے رب نے پکارا کیا میں نے تم کو روکا نہیں تھا۔اس درخت سے اور میں نے کہا نہیں تھا کہ شیطان تمہارا ظاہر دشمن ہے۔

واقعہ نمبر 2۔

﴿وَاتلُ عَلَيهِم نَبَأَ ابنَى ءادَمَ بِالحَقِّ إِذ قَرَّ‌با قُر‌بانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِما وَلَم يُتَقَبَّل مِنَ الءاخَرِ‌ قالَ لَأَقتُلَنَّكَ قالَ إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ المُتَّقينَ ﴿٢٧﴾ لَئِن بَسَطتَ إِلَىَّ يَدَكَ لِتَقتُلَنى ما أَنا۠ بِباسِطٍ يَدِىَ إِلَيكَ لِأَقتُلَكَ إِنّى أَخافُ اللَّهَ رَ‌بَّ العـٰلَمينَ ﴿٢٨﴾ إِنّى أُر‌يدُ أَن تَبوأَ بِإِثمى وَإِثمِكَ فَتَكونَ مِن أَصحـٰبِ النّارِ‌ وَذ‌ٰلِكَ جَز‌ٰؤُا۟ الظّـٰلِمينَ ﴿٢٩﴾ فَطَوَّعَت لَهُ نَفسُهُ قَتلَ أَخيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصبَحَ مِنَ الخـٰسِر‌ينَ ﴿٣٠﴾... سورةالمائدة

"اور پڑھ ان پر آدمؑ کے دونوں بیٹوں کی خبر حق کے ساتھ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان کی قبول کرلی گئی۔اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔اس نے کہا میں ضرور تجھے قتل کروں گا اس نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں سے قبول کرتا ہے۔اگر تو دراز کرے میری طرف اپنا ہاتھ تا کہ تو مجھے قتل کرے تو میں اپنا ہاتھ تیری طرف دراز نہیں کروں گا۔تاکہ میں تجھے قتل کروں۔میں اللہ جہانوں کے پروردگار سے ڈرتاہوں۔

میں ارادہ کرتا ہوں کہ تو لوٹے میرے اور اپنے گناہ کے ساتھ پس تو دوزخ والوں میں سےہوجائے اور یہ ہے بدلہ ظالموں کا۔ پس رغبت دلائی اس کو اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل کرنے میں اُس نے اسے قتل کردیا تو وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوگیا۔"

واقعہ نمبر 3۔

﴿وَاتلُ عَلَيهِم نَبَأَ الَّذى ءاتَينـٰهُ ءايـٰتِنا فَانسَلَخَ مِنها فَأَتبَعَهُ الشَّيطـٰنُ فَكانَ مِنَ الغاوينَ ﴿١٧٥﴾ وَلَو شِئنا لَرَ‌فَعنـٰهُ بِها وَلـٰكِنَّهُ أَخلَدَ إِلَى الأَر‌ضِ وَاتَّبَعَ هَوىٰهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الكَلبِ إِن تَحمِل عَلَيهِ يَلهَث أَو تَترُ‌كهُ يَلهَث ذ‌ٰلِكَ مَثَلُ القَومِ الَّذينَ كَذَّبوا بِـٔايـٰتِنا فَاقصُصِ القَصَصَ لَعَلَّهُم يَتَفَكَّر‌ونَ ﴿١٧٦﴾... سورة الاعراف

"اور تلاوت کیجئے ان پر اس شخص کی خبر کہ اس کو ہم نے اپنی نشانیاں دیں۔پس وہ نکل گیا ان سے ۔پس پیچھا کیا اس کا شیطان نے پس وہ ہوگیا گمراہ ہونے والوں سے۔اور اگر چاہتے تو اس کو بلند کردیتے ساتھ ان آیاتوں کے لیکن وہ لگ گیا طرف زمین کے اور پیروی کی اس نے اپنی خواہش کی۔پس اس کی مثال کتے کی سی مثال ہے۔اگر اس پر لادے تو زبان لٹکائے۔اگر نہ لادے تو بھی لٹکائے۔یہ مثال اس قوم کی ہے جنھوں نے ہماری آیاتوں کو جھٹلایا بیان کر قصہ تاکہ وہ غور وفکر کریں۔

فائدہ:۔

ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان آدم علیہ السلام سے لے کر ہی آدم علیہ السلام کی اولاد کو گمراہ کرنے پر تلا ہواہے۔جو لوگ اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں وہ صراط مستقیم سے بھٹک جاتے ہیں۔شیطان بنی آدم کے دل میں وسواس پیدا کرتاہے۔جو کہ گمراہی کاسبب بنتے ہیں۔وہ وسواس وہ خیالات اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ کہ انسان بحیثیت مخلوق ہونے کے سوچنا شروع کردیتا ہے۔یہ ساری کائنات تو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہے۔تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے۔یہ وسواس وخیال صاف گمراہی ہے۔اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے خیالات سے روکا ہے کیونکہ خالق کائنات کے لئے ایسے خیالات بھی مناسب نہیں،زبان سے تو ایسی بات قابل گرفت ہوگی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو جوہدایات فرمائی ہیں،انکا تذکرہ یہاں درج کررہا ہوں۔تاکہ تعلیم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا علاج ہوسکے۔

ذات خداوندی کے متعلق وساوس کاعلاج:

عن انس۔قال قال النبي صلى الله عليه وسلم (إن الشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم)متفق علیہ بحوالہ مشکواۃ)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان میں چلتا ہے مانند خون کے جاری ہونے کے۔"

فائدہ:۔

محدثین کرام اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ شیطان انسان کو گمراہ کرنے میں ہر کوشش کرتاہے۔اور اپنی پوری طاقت استعمال کرتاہے۔چنانچہ مولانا رحمانی مدظلہ فرماتے ہیں:

والمعني ان الشيطان يتكمن من مِنْ إِغْوَاءِ الْإِنْسَانِ ، وَإِضْلَالِهِ تَمَكُّنًا تَامًّا ، وَتَصَرُّفِهِ فِيهِ تَصَرُّفًا كَامِلًا بِوَاسِطَةِ نَفْسِهِ الْأَمَّارَةِ (مرعاۃ المفاتیح)

"اس حدیث پاک کا معنیٰ یہ ہے کہ شیطان انسان کو گمراہ کرنے میں اتنا تصرف کرتا ہے کہ ا س سے زیادہ اس کے لئے ممکن نہیں۔"

ا س حدیث سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ انسان کوگمراہ کرنے کے لئے شیطان ایڑی چوٹی کا زور لگاتاہے۔اور اس کے گمراہ کرنے کی صورت کیا ہے،دلوں میں وسوسے ڈالنا۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ ، حَتَّى يُقَالَ : هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ ، فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ ؟ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا ، فَلْيَقُلْ آمَنْتُ بِاللَّهِ ورسوله

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ کہا جائے گا کہ اس مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیاہے تو اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا تھا۔جو شخص ایسی کوئی چیز پائے وہ کہہ دے کہ میں اللہ اور اس کے رسولوں پرایمان رکھتا ہوں۔(متفق علیہ )

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يأتي الشيطان أحدكم فيقول من خلق كذا وكذا حتى يقول له من خلق ربك، فإذا بلغ ذلك فليستعذ بالله ولينته.

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ایک کے پاس شیطان آتا ہے پس وہ کہتا ہے یہ کس نے پیدا کیا یہ کس نے پیدا کیا یہاں تک کہ کہے گا تیرے رب کو کس نے پیدا کیا۔جب یہاں تک پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے۔اور ایسے خیال سے رک جائے۔(متفق علیہ بحوالہ مشکواۃ ص18ج1)

لا يزال الناس يسألونك يا أبا هريرة حتى يقولوا: هذا الله، فمن خلق الله؟ فإذا قالوا ذلك، فقولوا: الله أحد. الله الصمد لم يلد ولم يولد. ولم يكن له كفوًا أحد، ثم ليتفل عن يساره ثلاثًا وليستعذ من الشيطان . (مشکاة: ۱۹، باب في الوسوسة)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ سوا ل کرتے رہیں گے یہاں تک کہ کہا جائےگامخلوق کو تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے تو اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے۔جب لوگ یہ کہنا شروع کردیں تو تم کہو،اللہ ایک ہے،اللہ بے نیاز ہے،نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا اور اس کا کوئی برابری کرنے والا نہیں پھر تین دفعہ بائیں جانب تھوکے اور شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے۔"

عن سليمان بن عمرو بن الأحْوَص، عن أبيه، قال: سَمِعت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول في حَجَّة الوداع: ((يا أيُّها الناس، ألا أيُّ يوم أحرمُ؟)) ثلاثَ مرَّات، قالوا: يوم الحجِّ الأكبر، قال: ((فإنَّ دماءَكم وأموالَكم وأعراضكم، بينكم حرامٌ كحُرمة يومِكم هذا، في شهرِكم هذا، في بلدِكم هذا، ألا لا يَجْنِي جانٍ إلاَّ على نفسه، ولا يَجْنِي والدٌ على ولدِه، ولا مولودٌ على والده، ألا إنَّ الشيطان قد أَيِس أن يُعبد في بلدِكم هذا أبدًا، ولكن سيكون له طاعةٌ في بعض ما تَحتقِرون من أعمالكم، فيَرضى بها، (ابن ماجه بحواله مشكواة ص٣٢٤)

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرمایا کہ یہ کونسا دن ہے۔لوگوں نے کہا کہ حج اکبر کا دن ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے خون اور مال تمہاری عزتیں تمہارےدرمیان حرام ہیں۔جیسا کہ اس دن کی حرمت ہے تمہارے اس شہر میں خبردار کوئی بھی جان پر زیادتی نہ کرے نہ کوئی اولاد پر زیادتی کرے اور نہ اولاد اپنے باپ پر ظلم کرے خبردار شیطان اس بات سے ناامید ہوگیا ہے کہ تمہارے اس شہر میں اس کی عبادت کی جائے لیکن تم اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں میں اُس کی عبادت کروگے تو وہ اسی سے راضی ہوجائے گا۔"

فائدہ:۔

ان احادیث مبارکہ سے واضح ہواکہ شیطان ایسی ایسی باتیں کرنے پر بنی آدم کو ابھارے گا۔جو کہ خلاف شرع ہوں گی۔یہاں تک کہ لوگ اتنے دلیر اور بے دین ہوجائیں گے کہ یہ باتیں بھی بنانا شروع کردیں گے کہ خدا تعالیٰ کو پیدا کرنے والا کون ہے؟یہ سخت قسم کی ناجائز بات اور کلمہ کفریہ ہے۔ایسی بات زبان پر لانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

إِنَّ اللّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِیْ مَا وَسْوَسَتْ به صُدُوْرُھاَا مَالَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَکَلَّمْ

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کوسینے کے وسواس معاف کردیئے ہیں۔جب تک عمل نہ کرے یا کلام نہ کرے۔"

فائدہ:۔

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ ایسے غلط خیالات جو کہ خلاف شریعت ہوں ان پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔اور نہ زبان پر لانا چاہیے۔اگر سینہ تک ہی رہیں گے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں گے۔"

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے قریب ہے:۔

اللہ تعالیٰ ذات بابرکات کے لحاظ سے تو عرش بریں پر ہے جس طرح کہ اس کی شان کے لائق ہے۔علم اور قدرت کے لحاظ سے بندوں کے بہت قریب ہے۔جیسا کہ حدیث پاک میں آتاہے۔کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کیاہمارا رب قریب ہے یا کہ دور ہے؟چنانچہ امام ابن کثیرؒ بیا ن کرتے ہیں۔

قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ : أَقَرِيبٌ رَبُّنَا فَنُنَاجِيهِ , أَمْ بَعِيدٌ فَنُنَادِيهِ ؟

"ایک اعرابی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہمارا رب قریب ہے۔کہ ہم اس سے سرگوشی کریں یا دور ہے کہ ہم اسے بلند آوازسے پکاریں؟(تفسیر ابن کثیرؒ)

اس شخص کے سوال کرنے پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

﴿وَإِذا سَأَلَكَ عِبادى عَنّى فَإِنّى قَر‌يبٌ أُجيبُ دَعوَةَ الدّاعِ إِذا دَعانِ فَليَستَجيبوا لى وَليُؤمِنوا بى لَعَلَّهُم يَر‌شُدونَ ﴿١٨٦﴾... سورةالبقرة

"اور جب سوال کریں تجھ سے میرےبندے میرے متعلق۔پس میں قریب ہوں۔قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی پکار کو جب وہ مجھے پکارتاہے۔چاہیے کہ قبول کریں میرے حکم کو اور ایمان لائیں میرے ساتھ تاکہ ہدایت پائیں۔

خدائے ذوالجلال اپنے بندوں کے کتنا قریب ہے۔اس کو بھی قرآن پاک میں بیان کردیا گیا ہے تاکہ اس میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَلَولا إِذا بَلَغَتِ الحُلقومَ ﴿٨٣﴾ وَأَنتُم حينَئِذٍ تَنظُر‌ونَ ﴿٨٤﴾ وَنَحنُ أَقرَ‌بُ إِلَيهِ مِنكُم وَلـٰكِن لا تُبصِر‌ونَ ﴿٨٥﴾... سورةالواقعة

"پس کیوں نہیں جب کہ پہنچتی ہے جان حلق کو اور تم اس وقت دیکھتے ہو ہم بہت نزدیک ہوتے ہیں طرف اس کے تم سے لیکن تم دیکھتے نہیں ہو۔"(سورۃ الواقعہ)

﴿وَلَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ وَنَعلَمُ ما تُوَسوِسُ بِهِ نَفسُهُ وَنَحنُ أَقرَ‌بُ إِلَيهِ مِن حَبلِ الوَر‌يدِ ﴿١٦﴾... سورة ق

"ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیاﻻت اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیاده اس سے قریب ہیں

﴿وَإِلىٰ ثَمودَ أَخاهُم صـٰلِحًا قالَ يـٰقَومِ اعبُدُوا اللَّهَ ما لَكُم مِن إِلـٰهٍ غَيرُ‌هُ هُوَ أَنشَأَكُم مِنَ الأَر‌ضِ وَاستَعمَرَ‌كُم فيها فَاستَغفِر‌وهُ ثُمَّ توبوا إِلَيهِ إِنَّ رَ‌بّى قَر‌يبٌ مُجيبٌ ﴿٦١﴾... سورة هود

"اور طرف قوم ثمود کے ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو بھیجا۔اس نے کہا کہ اے میری قوم! تم عبادت کرو اللہ کی۔تمارے لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔اُس نے تم کو پیدا کیا زمین سے اور آباد کیا اُس میں بخشش مانگو اس سےپھر رجوع کرو طرف اس کے بے شک میرا پروردگار نزدیک ہے قبول کرنےوالا۔"

﴿أَلَم تَرَ‌ أَنَّ اللَّهَ يَعلَمُ ما فِى السَّمـٰو‌ٰتِ وَما فِى الأَر‌ضِ ما يَكونُ مِن نَجوىٰ ثَلـٰثَةٍ إِلّا هُوَ ر‌ابِعُهُم وَلا خَمسَةٍ إِلّا هُوَ سادِسُهُم وَلا أَدنىٰ مِن ذ‌ٰلِكَ وَلا أَكثَرَ‌ إِلّا هُوَ مَعَهُم أَينَ ما كانوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِما عَمِلوا يَومَ القِيـٰمَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمٌ ﴿٧﴾... سورةالمجادلة

"کیا نہیں دیکھاتو نے کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔نہیں ہوتی سرگوشی تین کی مگر ان کا چوتھا وہ ہوتاہے۔اور نہ پانچ کی مگر چھٹاوہ ہوتاہے۔اور نہ اس سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ ان کے ساتھ ہوتاہے۔جہاں بھی ہوں۔پھر وہ ان کو قیامت کے دن ان کے اعمال کی خبر دے گا وہ ہر چیز کو جانتاہے۔"

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا استَعينوا بِالصَّبرِ‌ وَالصَّلو‌ٰةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصّـٰبِر‌ينَ ﴿١٥٣﴾... سورة البقرة

"اے ایمان والو!مدد چاہو ساتھ صبر اور نماز کے بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔"

﴿إِلّا تَنصُر‌وهُ فَقَد نَصَرَ‌هُ اللَّهُ إِذ أَخرَ‌جَهُ الَّذينَ كَفَر‌وا ثانِىَ اثنَينِ إِذ هُما فِى الغارِ‌ إِذ يَقولُ لِصـٰحِبِهِ لا تَحزَن إِنَّ اللَّهَ مَعَنا فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكينَتَهُ عَلَيهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنودٍ لَم تَرَ‌وها وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذينَ كَفَرُ‌وا السُّفلىٰ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِىَ العُليا وَاللَّهُ عَزيزٌ حَكيمٌ ﴿٤٠﴾... سورةالتوبة

"اگر تم مدد کرو گے اس کی پس اللہ نے مدد کی اس کی جب کہ نکال دیا تھا اسے کافروں نے دوکا دوسرا تھا۔جب کہ وہ دونوں غار میں تھے جب کہتا تھا وہ اپنے ساتھی کو غم نہ کھا۔بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔اللہ نے اتاری اس پر اپنی تسلی اور مدد کی اس کی ایسےلشکروں سے کے نہیں دیکھا تم نے ان کو اور کیا کافروں کی بات کو نیچے اور اللہ کا کلمہ ہے بلند ہے۔اوراللہ غالب حکمت والا ہے۔

﴿إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذينَ اتَّقَوا وَالَّذينَ هُم مُحسِنونَ ﴿١٢٨﴾... سورةالنحل

"بے شک اللہ تعالیٰ ساتھ ان لوگوں کے ہے جو پرہیز گار ہوئے اور ساتھ ان کے کہ وہ احسان کرنے والے ہیں۔

10.﴿قالَ لا تَخافا إِنَّنى مَعَكُما أَسمَعُ وَأَر‌ىٰ ﴿٤٦﴾... سورة طه

"(اللہ نے) کہا تم دونوں (موسیٰؑ اورہارونؑ) نہ ڈرو۔بے شک میں تمہارے ساتھ سنتا اور دیکھتاہوں۔"

فائدہ:۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے کہ ہم بہت قریب ہیں یا اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔اس سے مرادذات خدواندی نہیں بلکہ اس کا فضل اور اس کی مدد مراد ہے۔چنانچہ صاحب لغات القران لکھتے ہیں۔بندہ سے اللہ کے قریب ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنے فضل ورحمت سےمتوجہ ہے۔(لغات القران ص186ج1)

مذید لکھتے ہیں﴿اللَّـهَ مَعَنَا﴾ اللہ کی مدد ہمارے ساتھ ہے۔﴿إِنَّ مَعِيَ رَ‌بِّي﴾میرے رب کی مدد میرے ساتھ ہے۔(لغات القرآن ج5ص405)

اللہ تعالیٰ علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے:

اللہ تعالیٰ کے علم سے کوئی چیز نہ پوشیدہ ہے اور نہ اوجھل ہے بلکہ وہ ہر چیز کاعلم رکھتاہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔

﴿وَإِن تَجهَر‌ بِالقَولِ فَإِنَّهُ يَعلَمُ السِّرَّ‌ وَأَخفَى ﴿٧﴾... سورة طه

"اور اگر تو پکار کرکہے بات کو تووہ جانتاہے۔پیچھے بھید کو اور بہت چھپے کو۔"

﴿اللَّهُ الَّذى خَلَقَ سَبعَ سَمـٰو‌ٰتٍ وَمِنَ الأَر‌ضِ مِثلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الأَمرُ‌ بَينَهُنَّ لِتَعلَموا أَنَّ اللَّهَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ‌ وَأَنَّ اللَّهَ قَد أَحاطَ بِكُلِّ شَىءٍ عِلمًا ﴿١٢﴾... سورةالطلاق

"اللہ وہ ہے جس نے پیدا کئے سات آسمان اور زمین مانند ان کی اترتا ہے حکم اس کا درمیان ان کے تاکہ تم جان لو کہ بے شک اللہ ہر چیز پرقادر ہے اور اللہ نے ہر چیز کو علم سے گھیر لیا ہے۔"

13۔﴿هُوَ الأَوَّلُ وَالءاخِرُ‌ وَالظّـٰهِرُ‌ وَالباطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمٌ ﴿٣﴾... سورةالحديد

"وہ سب سے پہلے اور سب سے آخر سب سے ظاہر اور سب سے پوشیدہ اور وہ ہر چیز کو جانتاہے۔"

فائدہ:۔

ان آیات مبارکہ سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر جگہ ہے جوکچھ جہاں کہیں ہورہا ہے اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے چنانچہ حدیث پاک سے اس کی وضاحت ہوجاتی ہے۔

عن أبي هريرة قال بينما نبي الله صلى الله عليه وسلم جالس وأصحابه إذ أتى عليهم سحاب فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم هل تدرون ما هذا فقالوا الله ورسوله أعلم قال هذا العنان هذه روايا الأرض يسوقه الله تبارك وتعالى إلى قوم لا يشكرونه ولا يدعونه قال هل تدرون ما فوقكم قالوا الله ورسوله أعلم قال فإنها الرقيع سقف محفوظ وموج مكفوف ثم قال هل تدرون كم بينكم وبينها قالوا الله ورسوله أعلم قال بينكم وبينها مسيرة خمس مائة سنة ثم قال هل تدرون ما فوق ذلك قالوا الله ورسوله أعلم قال فإن فوق ذلك سماءين ما بينهما مسيرة خمس مائة سنة حتى عد سبع سماوات ما بين كل سماءين كما بين السماء والأرض ثم قال هل تدرون ما فوق ذلك قالوا الله ورسوله أعلم قال فإن فوق ذلك العرش وبينه وبين السماء بعد ما بين السماءين ثم قال هل تدرون ما الذي تحتكم قالوا الله ورسوله أعلم قال فإنها الأرض ثم قال هل تدرون ما الذي تحت ذلك قالوا الله ورسوله أعلم قال فإن تحتها أرضا أخرى بينهما مسيرة خمس مائة سنة حتى عد سبع أرضين بين كل أرضين مسيرة خمس مائة سنة ثم قال والذي نفس محمد بيده لو أنكم دليتم رجلا بحبل إلى الأرض السفلى لهبط على الله ثم قرأ هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شيء عليم

"حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اچانک ان پر بادل ظاہر ہوا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جانتے ہو یہ کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی جانتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ زمین کو سیراب کرنے والا بادل ہے۔اس کو اللہ تعالیٰ ناشکری قوم کی طرف لے جارہے ہیں جو کہ اللہ سے اس کی دعا بھی نہیں کرتے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے۔انھوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھت محفوظ اور موج بند کی ہوئی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جانتے ہو کہ تمہارے اور اس کے درمیان کتنا فاصلہ ہے۔انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ سو سال کافاصلہ ہے۔پھر فرمایا جانتے ہو اس کے اوپر کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں۔تو فرمایا کہ اس کے اوپر دو آسمان ہیں دونوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔ایسے سات آسمان شمار کئے ہر دو آسمانوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے۔جتنا زمین وآسمان کے درمیان ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جانتے ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے۔انھوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے اوپر عرش ہے۔اس کے اور آسمان کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا دونوں آسمانوں کا ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جانتے ہو کہ تمہارےنیچے کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے نیچے دوسری زمین ہے۔دونوں کے درمیان پانچ سو سال کافاصلہ ہے۔ایسے ہی سات زمینیں شمار کیں۔ہر زمین کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقسم بخدا۔اگر تم نچلی زمین کی طرف رسی لٹکاؤ تو وہ اللہ تعالیٰ پر پہنچ جائے گی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تلاوت فرمائی۔وہ پہلا ہے وہ آخر میں ہے وہ ظاہر ہے وہ پوشیدہ ہے اور وہ ہر چیز کو جانتاہے۔"

فائدہ:۔

امام ترمذی ؒ اس حدیث مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔

أبي هريرة قال : وفسر بعض أهل العلم هذا الحديث فقالوا : إنما هبط على علم اللَّه وقدرته وسلطانه ، وعلم اللَّه وقدرته وسلطانه في كل مكان ، وهو على العرش كما وصف في كتابه

"بعض اہل علم نے اس حدیث کی یہ تفسیر بیان کی ہے کہ وہ رسی اللہ تعالیٰ کے علم ۔قدرت اور سلطنت پرگرتی ہے۔کیونکہ اس کا علم،قدرت،اور سلطنت ہر جگہ ہے۔اور وہ خود عرش عظیم پر ہے۔جیسا کہ قرآن میں ہے۔

فائدہ:۔

اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کاعلم ہرجگہ ہے ذات ہر جگہ نہیں جو لوگ ہر چیز میں وجودخدا کے قائل ہیں ان کا عقیدہ سراسر غلط ہے۔