افغانستان میں روسی جارحیت کے آٹھ سال

اپنے افغان بھائیوں کی مدد کرنا مسلمانانِ عالم کی ضرورت بھی ہے اور دینی فریضہ بھی۔

قازان، استرخان، زرقشان، آذربائیجان، سائبریا، کریمیا، قفقاز، خوقند، قوقند، اور سمرقند و بخارا وغیرہ میں ظلم و بربریت کے وحشیانہ مظاہروں کے بعد اب سرخ شیطان افغانستان میں ننگا ناچ رہا ہے۔۔۔27 دسمبر سئہ 1979ء کو روسی فوجوں نے افغانستان میں اپنے ناپاک قدم رکھے اور 27 دسمبر سئہ 1987ء کو اسلام اور اہل اسلام کے خلاف اس شرمناک جارحیت کے آٹھ سال مکمل ہو گئے ہیں۔۔۔یہ آٹھ سال افغان مسلمانوں پر کس قدر بھاری ثابت ہوئے، اس کا اندازہ وہ لوگ یقینا نہیں کر سکتے جو ان سے سینکڑوں میل دور اپنے اپنے گھروں میں سکون و عافیت اور امن و چین کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ہاں بلکہ اس کا صحیح اندازہ صرف انہی لوگوں کو ہے، جنہیں وقت کے کسی بھی لمحہ کا کوئی اعتبار نہیں، کہ روز و شب میں سے کوئی بھی لمحہ ان کے لیے قیامت کا لمحہ ثابت ہو سکتا اور سلسلہ حیات سے ان کا رشتہ آنا فانا منقطع کر سکتا ہے۔۔۔البتہ جہاں تک خبر و اخبار کا تعلق ہے، تو پوری دنیا کو یہ معلوم ہے کہ ان آٹھ سالوں میں روسی فوجوں نے ظلم و بربریت کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں اور افغانوں پر ہرزہ ستم توڑا گیا جو ان روسی درندوں کے بس میں تھا۔۔۔سرزمینِ افغانستان کے طول و عرض میں اگر روسی ٹینک دندناتے پھر رہے ہیں، کہ صرف کھیتیاں، کھلیان اور باغات ہی ان کی زد میں نہیں آئے، بلکہ ہزاروں افغان نوجوانوں کو بھی انہوں نے روند ڈالا ہے، تو اوپر سے روسی طیارے کیمیاوی بم گرا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ہزاروں ہنستی مسکراتی بستیاں ویرانوں میں تبدیل ہو گئی ہیں۔۔۔افغانستان کی فضائیں جہاں زخمیوں اور مظلوموں کی چیخوں سے گونج رہی ہیں، وہاں زہریلی گیسوں، نیپام بموں، جدید ترین میزائلوں اور دُور مار توپوں کی آوازوں اور تباہ کاریوں سے معمور بھی۔۔۔چنانچہ ان آٹھ سالوں کے دوران لاکھوں افغان مرد، عورتیں اور بچے اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔۔۔ہزاروں ماؤں کوکھیں اجڑ گئیں، ہزاروں سہاگنیں بیوہ ہوئیں اور لاکھوں معصوم بچے یتیمی کی خاک سروں میں ڈالے دربدر ہیں۔۔۔اس ملک کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی اپنے گھر بار اور جائیدادیں وغیرہ چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکی ہے، جن میں سے چونتیس لاکھ کے قریب افضان باشندے پاکستان میں موجود ہیں اور جو کسی ملک میں مہاجرین کی ریکارڈ تعداد ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بایں ہمہ، غیرتِ ایمانی سے مسلح اور جذبہ جہاد سے سرشار اسلامیانِ افغانستان گزشتہ آٹھ برسوں سے ایک سپر طاقت کے خلاف جس عزم و حوصلے اور جراءت و بسالت کے ساتھ برسر پیکار چلے آ رہے ہیں، وہ انہی کا حصہ ہے۔۔۔سئہ 1979ء میں روس نے جب افغانستان میں مسلح مداخلت کا ارتکاب کیا تو وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ زیادہ سے زیادہ ایک یا دو ہفتوں میں افغانستان پر اپنا قبضہ مستحکم کر لے گا، لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کا سابقہ کس قوم سے پڑنے والا ہے۔۔۔افغانوں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنے دوست کو اگر سو سال تک یاد رکھتے ہیں تو اپنے دشمن کو دو سو سال تک فراموش نہیں کرتے۔ علاوہ ازیں یہ مسلمان بھی ہیں کہ جنہیں "اگر زندہ رہے تو غازی اور مر گئے تو شہید" کا لازوال اطمینان حاصل ہوتا ہے۔۔۔چنانچہ روسی دہریوں نے ان سے دشمنی مول لے کر نہ صرف اپنی موت کو خود دعوت دی ہے، بلکہ ایک پس ماندہ ترین ملک کے باشندوں نے ایک سپر پاور کو جس شرمناک شکست سے دوچار کیا ہے، قرونِ اولیٰ کو چھوڑ کر تاریخ عالم میں اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔۔۔آٹھ سال کا عرصہ کچھ کم طویل نہیں ہوتا۔ اور ان آٹھ برسوں میں اس سپر پاور نے نہتے افغانوں کے ساتھ کون سی رعایت برتی ہے اور کون سا حربہ نہیں آزمایا؟ لیکن ہنوز روزِ اول کا سا معاملہ ہے اور آج بھی چند بڑے بڑے شہروں اور گنتی کے فوجی ٹھکانوں کو چھوڑ کر افغانستان کے بیشتر علاقہ پر افغان مجاہدین کو مکمل کنٹرول حاصل ہے۔۔۔حتیٰ کہ دیہات، قصبات اور ستر فیصد افغانستان پر مجاہدین کے قبضے کا اعتراف خود روس کی کٹھ پتلی حکومت کے سربراہ ڈاکٹر نجیب نے چند ماہ قبل کابل کی ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق اب تک روس کے بیس ہزار فوجی اس جنگ کے نتیجہ میں جہنم واصل ہو چکے ہیں اور مزید دس ہزار زندگی بھر کے لیے ناکارہ ہو کر روس واپس پہنچ چکے ہیں۔ جہاں تک معاشی نقصانات کا تعلق ہے تو ڈیڑھ لاکھ روسی فوجیوں کے قیام اور ان کی حفاظت پر اٹھنے والے اخراجات ہی کیا کم ہیں کہ ہر سال سینکڑوں طیاروں اور ہزاروں ٹینکوں کی مجاہدین کے ہاتھوں تباہی اس پر مستزاد۔۔۔انسٹیٹیوٹ آف اسٹریجک سٹڈیز اسلام آباد کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف سال 1987ء کے پہلے چھ مہینوں میں روسیوں کے 352 جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر مجاہدین کے ہاتھوں تباہ ہوئے، جب کہ اسی قدر مدت میں 7 ہزار روسی اور کارمل فوجی مارے گئے۔۔۔ادھر جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، مجاہدین کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے اور ان کی حربی قوت و تجربہ میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

افغان عوام میں بھی اس عرصہ میں بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔۔۔آج سے دس برس قبل افغانستان کا ایک عام شہری، بڑے بڑے شہروں میں رونما ہونے والے واقعات سے تقریبا لاتعلق رہتا تھا اور اس کی تمام تر توجہ اپنی تجارت، قبائلی جھگڑوں اور مقامی مسائل پر مرکوز رہتی تھی۔ لیکن یہی افغان عوام اب صدیوں پرانے قبائلی نظام سے نجات حاصل کر چکے ہیں اور ہزارون قبیلوں کے بجائے چند بڑی جماعتوں کے تحت منظم ہو چکے ہیں۔۔۔وقت کی نزاکتوں نے انہیں اس قدر حساس اور چوکنا بنا دیا ہے کہ عالمی طاقتوں، ان کی پالیسیوں اور اسلام دشمن حربوں پر ان کی گہری نظر ہے اور وہ کسی کو بھی اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتے۔۔۔حال ہی میں نجیب ضکومت نے لویہ جرگہ کا ایک اجلاس بلایا۔ جس میں اعلام کیا گیا کہ اس لویہ جرگہ (عوامی نمائندوں کے اجتماع) نے ڈاکٹر نجیب کو متفقہ طور پر افغانستان کا صدر چن لیا ہے۔ مزید یہ کہ ہم ہرگز کمیونسٹ نہیں ہیں اور نہ ہی کمیونزم کے حامی، بلکہ افغانستان کا آئین اسلام کا مقدس دین ہے۔۔۔لیکن مجاہدین نے فورا یہ سمجھ لیا کہ روس کی کٹھ پتلی حکومت کی یہ محض ایک چال ہے اور اپنی بدترین شکست کی ذلت کو چھپانے کے لیے یہ ڈرامہ اس نے رچایا ہے۔۔۔ انہوں نے برملا یہ اعلان کیا کہ یہ لویہ جرگا ہے ہی نہیں، اسے لویہ جرگہ اس وقت کہا جا سکتا تھا جب افغانستان کے ہر قبیلہ کا ایک قابلِ قبول نمائندہ اس میں موجود ہوتا۔ جبکہ صورت حال یہ ہے کہ افغانستان کے تمام تر قبائل ان کمیونسٹوں بغل بچے شریک ہوئے جو ایک مدت سے روسی اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔۔۔انہوں نے مزید کہا کہ کمیونزم سے انکار کے اعلان اور اس جرگہ کو بلانے کی اہمیت کا احساس ان لوگوں کو اس وقت کیوں نہ ہوا جب انہوں نے افغانستان میں روسی فوجوں کو مداخلت کی دعوت دی تھی، جس کے نتیجے میں بارہ لاکھ سے زائد بے گناہ بوڑھوں، عورتوں، معصوم بچوں اور جوانوں کو قتل کر دیا گیا۔ جبکہ ساٹھ لاکھ کے قریب مظلوم عوام اپنے گھر بار چھوڑ دینے پر مجبور کر دئیے گئے۔۔۔صاف ظاہر ہے کہ روسی افواج افغانستان میں مرغِ نیم بسمل کی طرح تڑپ رہی ہیں اور یہ جرگہ روسیوں کی شکست اور ان کے اوسان خطا ہو جانے کا آئینہ دار ہے۔۔۔ورنہ اسلام کو ایک مقدس دین قرار دینے والے یہ وہی لوگ ہیں کہ جو اپنی تقریروں کی ابتداء میں لینن پر "درود" بھیجتے، لینن و مارکس کی تقریروں کے حوالے دیتے ہوئے بڑے فخر سے کمیونزم کا پرچار کرتے اور اسلام کو ایک فرسودہ دین کہہ کر اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔۔۔آج کمیونزم سے انکار کرنے والے یہ وہی لوگ ہیں کہ جو اپنی ہر میٹنگ اور اجلاس میں افغان عوام کو مخاطب کر کے یہ کہا کرتے تھے کہ جس نے ہمارے آقا روس اور سرخ انقلاب کے خلاف زبان ہلائی تو اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جائے گی۔۔۔اس کے باوجود اگر یہ لوگ مجاہدین کو، جنہیں اس سے قبل یہ باغی اور اشرار کہہ کر پکارتے تھے، آج ایک مخلوط حکومت میں شرکت کی دعوت دے رہے ہیں تو یہ نرا دھوکا اور فراڈ ہے تاکہ کسی طرح افغانوں کے جذبہ جہاد اور ان کے قہر و غضب کی آگ کو سرد کیا جا سکے۔ لہذا وہ اس جرگہ کو لویہ جرگہ کہنے کی بجائے اپنی ذلت آمیز شکست پر اپنے ماتم کا جرگہ کہیں اور شکست کا برملا اعلان کرتے ہوئے افغانستان کو اپنے ناپاک وجود سے خالی کر دیں، ورنہ ان کا حشر بد سے بدتر کر دیا جائے گا۔

چنانچہ صرف یہی نہیں کہ اس جرگہ کو مجاہدین نے بیک جنبشِ لب مسترد کر دیا، بلکہ عین اس وقت جب کہ کابل شہر کے ارد گرد روسی افواج کا زبردست اجتماع موجود تھا اور ان حفاظتی تدابیر کے سائے میں یہ اجلاس جاری تھا، مجاہدین نے ٹینکوں کی حفاظتی دیوار توڑکر لویہ جرگہ کے ہال پر راکٹوں کی بوچھاڑ کر دی۔ نتیجتا اس کے ارد گرد کئی جھڑپیں بھی ہوئیں اور جن میں کم از کم پچیس افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔۔۔یوں یہ واقعہ اسلامیانِ افغانستان کی فراستِ مؤمنانہ اور جراءت رندانہ کا ایک لازوال ثبوت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کچھ لوگ یہ کہہ اور سمجھ رہے ہیں کہ روس کے رویہ میں موجود مثبت تبدیلی اس پر عالمی رائے عامہ کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔ یا کچھ لوگ اس سلسلہ میں جمہوریت، انسانی حقوق او کسی ملک کے تحفظِ آزادی ایسے بین الاقوامی قوانین کے احترام کا حوالہ دے رہے ہیں۔۔۔ ان عوامل کو اگرچہ یکسر انداز نہیں کیا جا سکتا، تاہم وہ اصل چیز جو اس کے پاس پردہ کارفرما ہے وہ اپنے رب سے مخلصانہ تعلق جوڑ لینے کے بعد افغانوں کا عزم و استقلال، ان کی جراءت و قوتِ ایمانی، ان کا ولولہ جہاد اور جذبہ شہادت ہے، جس نے انہیں دشمن کے مقابلے میں نہ صرف سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ جانے بلکہ اسے ایک ناقابلِ فراموش سبق سکھا دینے کا حوصلہ عطا فرمایا ہے اور انہیں کان کے بدلے کان، ناک کے بدلے ناک اور آنکھ کے بدلے آنکھ کی پالیسی پر گامزن کر دیا ہے۔۔۔ورنہ مذکورہ بین الاقوامی قوانین اس وقت بھی موجود تھے اور ان کے احترام کی دہائی اس وقت بھی دی جاتی تھی جب روس نے افغانستان میں مسلح جارحیت کا ارتکاب کیا تھا۔۔۔امرِ واقعہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون صرف اور صرف "Might is Right" (جس کی لاٹھی اس کی بھینس) ہے۔۔۔یہاں آزادی صرف اس کے حصے میں آتی ہے جو اسے دوسروں سے چھین لینے کی اہلیت رکھتا ہو، اور غلامی صرف اس کا مقدر بنتی ہے جو اپنی کمزوری کی بناء پر اپنی آزادی کی حفاظت کر سکنے سے قاصر ہو۔۔۔اسلامیانِ افغانستان نے چونکہ یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ باوقار طریقے سے جئیں گے یا اسلام اور آزادی کی خاطر مر مٹیں گے، لہذا روس، جو اب یقینا اس دن کو بھی کوس رہا ہو گا جس دن اس نے افغانستان میں قدم رکھنے اور افغانوں کو للکارنے کا فیصلہ کیا تھا، صرف یہ چاہتا ہے کہ وہ افغانستان سے نکل بھی جائے لیکن یوں ذلیل و رسوا ہو کر نہیں، بلکہ جھوٹی آن اور نمائشی وقار کے ساتھ۔۔۔گویا وہ تو کمبل کو چھوڑتا ہے لیکن کمبل اسے چھوڑنے کو تیار نہیں۔۔۔ بایں ہمہ اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ مجاہدین کی آزمائش کا دور ختم ہو گیا اور ان کا مستقبل محفوظ ہو چکا ہے۔۔۔وہ آج بھی مر رہے اور مار رہے ہیں۔۔۔یہ جنگ ان پر مسلط کی گئی ہے اور مسلسل آٹھ سال سے وہ اس ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔۔۔ان کے سامنے صرف اپنی آزادی اور بقاء کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ وہ اسلام کی بقاء کے لیے بھی لڑ رہے ہیں۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ اسلامیانِ افغانستان اس وقت سرخ سیلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور اگر روس اس رکاوٹ کو عبور کرنے میں خدانخواستہ کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر یہ جنگ صرف افغانستان سے متعلق نہ رہے گی بلکہ پاکستان چھوڑ پورا عالمِ اسلام بھی اس کی زد میں آ سکتا ہے۔ ان حالات میں مسلم برادری کو یہ چاہئے کہ وہ اپنے افغان بھائیوں کی بھرپور امداد و معاونت کرے۔۔۔اور یہ امداد و معاونت چند کمبلوں، دوائیوں اور معمولی نقدی تک محدود نہیں رہنی چاہئے۔ بلکہ انہیں مجاہدین افغانستان کے شانہ بشانہ میدانِ جہاد و قتال میں بھی عملا حصہ لینا چاہئے۔۔۔کہ یہ ان کی ضرورت بھی ہے، ان کا دینی فریضہ بھی اور مومنانہ شان بھی یہی ہے۔۔۔ارشاد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

«ترى المؤمنين فى تراحمهم وتوادهم وتعاطفهم كمثل الجسد اذا اشتكى عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى»

"مومنوں کی مثال ان کے رحم و مروت میں، ان کی رفاقت و دوستی میں اور ان کی مہربانی و ہمدردی میں ایک جسم کی مانند ہے کہ جس کا ایک عضو بیمار ہو تو پورا جسم بے چین و بے قرار ہو جاتا ہے۔"

اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَما لَكُم لا تُقـٰتِلونَ فى سَبيلِ اللَّـهِ وَالمُستَضعَفينَ مِنَ الرِّ‌جالِ وَالنِّساءِ وَالوِلدٰنِ الَّذينَ يَقولونَ رَ‌بَّنا أَخرِ‌جنا مِن هـٰذِهِ القَر‌يَةِ الظّالِمِ أَهلُها وَاجعَل لَنا مِن لَدُنكَ وَلِيًّا وَاجعَل لَنا مِن لَدُنكَ نَصيرً‌ا ﴿٧٥﴾... سورةالنساء

"اور تمہیں کیا ہو گیا کہ خدا کی راہ میں او ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ پروردگار! ہمیں اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں، نکال اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی اور مددگار مقرر فرما"

والله ولى التوفيق وهو ارحم الراحمين!