مستشرق ہندی کے ناکارہ وارث اور خطبہ حجۃ الوداع

ارشاد رسالت مآب ﷺ :
''اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔''

ارشاد باری تعالیٰ:
﴿إِنَّ عِدَّةَ ٱلشُّهُورِ‌ عِندَ ٱللَّهِ ٱثْنَا عَشَرَ‌ شَهْرً‌ا فِى كِتَـٰبِ ٱللَّهِ...﴿٣٦﴾...سورۃ التوبہ
''قوانین خداوندی کی رو سے مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔'' 1

ارشاد رسالت مآب ﷺ :
''تمہاری عورتوں پر تمہارا ایک حق ہے اور تم پر ان کا ایک حق ہے، وہ تمہارا بستر کسی کے لیے نہ لگائیں او رفحاشی اختیار نہ کریں، وگرنہ تمہیں اجازت ہے کہ تم انہیں بستر میں چھوڑ دو۔''

مرد وزن کے حقوق سے متعلق سورة البقرہ کی آیت﴿  'وَلَهُنَّ مِثْلُ ٱلَّذِى عَلَيْهِنَّ.... الخ'' اوپر ذکر ہوچکی ہے۔

اور ان کے لیے فحاشی نہ اختیار کرنے پر قرآن کریم کی اس آیت کریمہ سےروشنی پڑتی ہے:
﴿مُحْصَنَـٰتٍ غَيْرَ‌ مُسَـٰفِحَـٰتٍ وَلَا مُتَّخِذَ‌ٰتِ أَخْدَانٍ...﴿٢٥﴾...سورۃ النساء

مسٹر پرویز نے لکھا ہے:
''حصان اس عورت کو کہتے ہیں جو پاکدامن ہو او راپنی عفت کو محفوظ رکھتی ہو۔'' 2
''المسافحة کےمعنی زنا کرنے کے آتے ہیں۔''3
''اور ''خدن'' چوری چھپے کی آشنائی کو کہتےہیں۔'' 4

قرآنی الفاظ کی بیان کردہ ان لغات کے پیش نظر آیت بالا کا مفہوم یہ ہوا کہ:
''پاک دامن عورتیں، جو زنا کار نہ ہوں او رچوری چھپے آشنا بنانے والی نہ ہوں۔''

اب صرف اشکال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ مذکورہ آیت لونڈیوں کے بارہ میں ہے، اسے آزاد عورتوں کے حق میں یہ کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے؟ تو اس کا حل بھی مسٹر پرویز کی لغات القرآن سے ملاحظہ ہو:
''اگرچہ یہ لفظ اس زمانے کی لونڈی کے سلسلہ میں آیا ہے لیکن اطلاق اس کا عام ہے۔'' 5

نیز فرمایا:
﴿وَٱلَّـٰتِى تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَٱهْجُرُ‌وهُنَّ فِى ٱلْمَضَاجِعِ وَٱضْرِ‌بُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُواعَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ...﴿٣٤﴾...سورۃ النساء

اس آیت کریمہ کی لغات بیان کرتے ہوئے مسٹر پرویز نے لکھا ہے :
''کسی چیز کا اپنی جگہ سے ہٹ جانا''نشز'' کہلاتا ہے، اس سے ''نشوز'' کے معنی ہیں۔ میاں بیوی میں سے ایک کا مخالفت پراتر آنا، نافرمانی کرنے لگنا۔'' 6

''وعظ کے معنی ہیں کسی کو کسی کام کے اچھے انجام اورمضر عواقب و نتائج سے آگاہ کرکے اس کے دل کونرم کرنا۔'' 7
''الھجروا الھجران'' کسی چیز کو چھوڑ دینا، ترک کردینا۔'' 8
''واضربوھن'' سے مراد بدنی سزا ہے۔'' 9

مذکورہ آیت کریمہ کے الفاظ کی بیان کردہ لغات کے پیش نظر آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ:
وہ بیوی جس کے مخالفت پراتر آنےکا تمہیں ڈر ہو، تو اسے اچھے انجام اور مضر نتائج سے آگاہ کردو اور بدنی سزا بھی دو، اور اسے اپنی بستر گاہ میں چھوڑ دو۔الاّ یہ کجہ وہ اپنی مخالفت ترک کردیں۔

10۔ ارشاد رسالت مآب ﷺ :
''وہ عورتیں تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں۔''

یہاں قید سے مراد جیل نہیں ہے، بلکہ اس سے قید نکاح یعنی عقد نکاح مراد ہے۔ اور قرآن کریم میں اسے یوں ذکر کیا گیاہے:
﴿ٱلطَّلَـٰقُ مَرَّ‌تَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُ‌وفٍ أَوْ تَسْرِ‌يحٌۢ بِإِحْسَـٰنٍ...﴿٢٢٩﴾...سورۃ البقرۃ
یعنی''قاعدے کے مطابق نکاح کے ذریعے روک رکھنا، یا قید نکاح سے آزاد کردینا۔'' 10

11۔ ارشاد رسالت مآب ﷺ :
''تم نے ان کے ستر کو اللہ کے کلمات کے ساتھ حلال کیا ہے۔''

یہاں اللہ کے کلمات سے قوانین خداوندی مراد ہیں۔

مسٹر پرویز نےلکھا ہے:
''ان مقامات میں خدا کے کلمہ کے سیدھے سادے معنی ''خدا کی بات'' ہی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ خدا کی بات سے مراد خدا کا قانون ہے۔چنانچہ یہ لفظ ''قانون خداوندی'' کےمعنوں میں عام طور پر استعمال ہوا ہے۔'' 11

اور عورتوں کے ستر کو قانون خداوندی کے مطابق حلال کرنے سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَٱنكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَآءِ...﴿٣﴾...سورۃ النساء

نیز فرمایا:
﴿أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَ‌ٰلِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ‌ مُسَـٰفِحِينَ...﴿٢٤﴾...سورۃ النساء
''کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو اور اس طرح زوجین ان پابندیوں میں گھر جائیں۔ جو میاں بیوی کی حیثیت سے رہنے میں ایک دوسرے پر عائد ہوتی ہیں، یہ نہیں کہ تم ان سے محض شہوت رانی کے لئے تعلقات پیدا کرو۔'' 12

12۔ ارشاد رسالت مآب ﷺ :
''میں تم میں دو چیزیں چھوڑ چلا ہوں، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ ''

استمساك بکتاب اللہ کےمتعلق قرآنی تعلیم کاذکر اوپر ہوچکا ہے اور سنت رسول اللہﷺ کے حجت ہونےکے بارے میں قرآنی تعلیم بالاختصار حسب ذیل ہے:

حجیت حدیث :
بلا شبہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دور رسالت میں مکمل اسلامی نظام نافذ فرما دیا تھا او راپنے قول و عمل سے قرآنی اصول و احکام کی تعبیر و تشریح کرکے تاقیامت آنے والی امت مسلمہ کے لیے اسوہ حسنہ قائم کردیاتھا اور یہ بات مسٹر پرویز نےبھی تسلیم کی ہے۔ وہ اپنی کتاب''شاہکار رسالت'' میں لکھتے ہیں:
''ان تفاصیل و جزئیات کا تعین سب سے پہلے اسلامی حکومت کے سربراہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا۔'' 13

قرآنی احکامات کی تعمیل میں صادر ہونے والی آپؐ کی بیان کردہ تفاصیل و جزئیات اقوال و افعال اور تقریرات کو ہی ''حدیث نبوی'' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم ہماری راہنمائی اس طرف کرتا ہے کہ یہ سب قرآنی اصول کی طرح وحی تھیں۔ قرآنی احکامات کی ان تفاصیل و جزئیات کا تعین رسول اللہ ﷺ کے منصب رسالت میں شامل تھا او رنظام اسلام کے نفاذ میں آپؐ مکمل طور پر وحی الٰہی کے ہی پابند تھے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ٱتَّبِعْ مَآ أُوحِىَ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ ۖ...﴿١٠٦﴾...سورۃ الانعام
''(اے رسولؐ!) آپ صرف اسی چیزکی اتباع کریں جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔''

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَنِ ٱحْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ...﴿٤٩﴾...سورۃ المائدہ
''(اے پیغمبرؐ) آپ لوگوں کے درمیان منزل من اللہ (وحی) کے ساتھ فیصلہ کیا کریں۔''

اس قسم کی متعدد قرآنی آیات اس بات کی دلیل ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے دور نبوت میں صرف وحی کی اتباع کی ہے، اور آپؐ اسلامی مملکت کے قیام میں منزل من اللہ کے ہی پابند رہتے تھے، بنا بریں آپؐ قرآن کریم کے اصول و احکام کی تفاصیل و جزئیات کا تعین وحی الٰہی سے کیا کرتے تھے۔

اس کے برعکس اگریہ کہا جائے کہ رسول کریم ﷺ قرآنی احکام کی جزئیات کا تعین وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی صوابدید سے کرلیا کرتے تھے، تو اس کامطلب یہ ہوگا کہ آپؐ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ اپنے ذاتی امور کی اتباع و اطاعت کا حکم دیتے رہے، بالفاظ دیگر انہیں اپنا غلام بناتے رہے۔ حالانکہ کسی نبی کے بھی یہ شایان شان نہیں کہ وہ لوگوں کواللہ تعالیٰ کے علاوہ اپنی ذات کی غلامی اختیار کرنے کی دعوت دے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿مَا كَانَ لِبَشَرٍ‌ أَن يُؤْتِيَهُ ٱللَّهُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحُكْمَ وَٱلنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُواعِبَادًا لِّى مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلَـٰكِن كُونُوا رَ‌بَّـٰنِيِّـۧنَ...﴿٧٩﴾...سورۃ آل عمران
یعنی ''کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب و حکم اور نبوت عطا کرے، پھر وہ لوگوں سے یہ کہنا شروع کردے کہ تم (اللہ تعالیٰ کی غلامی کی جگہ) میری غلامی اختیار کرو۔ بلکہ (وہ کہتا ہے کہ )تم رب والے بن جاؤ''

چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرستادہ ہر نبی اور رسول اپنی امت کو اللہ تعالیٰ کی ہی چوکھٹ پر جھکاتا رہا ہے اور کوئی نبی بھی ایسا نہیں گزرا جس نے لوگوں پروحی سے ہٹ کر اپنی طرف سے کچھ بیان کرکے انہیں اپنی ذات کی غلامی اختیار کرنے کی دعوت دی ہو۔ تو ماننا پڑے گاکہ خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے بیان کردہ تمام کےتمام اصول و فروع اور سب کی سب تفاصیل و جزئیات اللہ تعالیٰ سے بذریعہ وحی متعین ہواکرتی تھیں۔

اب جب کہ آنحضرت ﷺ کے اقوال و افعال اور قرآنی اصول کی تعبیر و تشریح کا وحی الٰہی ہونا حقیقت ثابتہ ہے، تو غور طلب امر یہ رہ جاتا ہے کہ عہد رسالت مآب کا تشکیل دیا ہوا یہ نظام اسلام بالکل اسی طرح مکمل طور پر آگے بھی چلا تھا یا نہیں؟

بہتر یہی ہے کہ اس سوال کا حل بھی پرویزی لٹریچر سے ہی پیش کیا جائے۔ ''شاہکار رسالت'' میں ہے:
''جو نظام رسول اللہ ﷺ نے قائم فرمایاتھا وہ آپؐ کی ذات او رحیات تک محدود نہیں تھا، اسے حضورؐ کے بعد بھی اسی طرح جاری و ساری رہنا تھا..... اس نظام کو جاری رکھنےکے لیے حضورؐ کی جانشینی کو خلافت کہا جاتا ہے۔'' 14

خلفاء راشدینؓ کے ادوار میں اتباع سنت کا جذبہ اپنے عروج پرتھااور وہ اپنے پیشآمدہ تمام مسائل کو قرآن کریم او راحادیث نبویہ ہی سے حل فرمایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ ' خلیفة الرسولؐ'' کہلائے۔

ذرا غور فرمائیے! اگر ہر اسلامی مملکت، قرآنی احکام کو اپنے اپنے وقت کے تقاضوں میں احادیث نبویہ کی پابند نہہو۔ جیسا کہ مستشرق پرویز وغیرہ کا خیال ہے۔ تو صدیق اکبرؓ نے اپنے لیے ''خلیفة الرسولؐ'' کے لقب کو کیوں پسند فرمایا؟ صرف اس لیے کہ آپؓ قرآنی اصول کی تعبیر و تشریح اور ان کی جزئیات کی تعیین میں نبی اکرم ﷺ کی احادیث و فرامین کے پابند تھے۔ یوں آ.ؓ لوگوں کی راہنمائی اتباع سنت کی طرف ہی کرناچاہتے تھے تاکہ قرآن کریم کی تعبیر و تشریح میں لوگ بے لگام نہ ہوجائیں اورمثلاً اسلام دشمن ایجنٹ، حدیث نبوی سے انکار کرکے''قرآنی نظام'' کے نام سے، فرنگی آراء کو اسلام میں نہ ٹھونس سکیں۔

خلفاء راشدین کا دور اسی لیے دور خلافت کہلاتا ہے کہ اس میں مسلمان صرف وحی الٰہی (قرآن و حدیث) کی اتباع کرتے تھے، ورنہ قرآنی اصول کی تعبیر اگر مخلوق کی طرف سےہو تو اسےملوکیت کہتےہیں، مسٹر پرویز نے بھی لکھا ہے:
''خلافت ،احکام و قوانین خداوندی کی اطاعت کرنا اور کرانا ہے او رملوکیت دوسروں سے اپنے احکام منوانا، قرآن نصب خلافت کا حکم دیتا اور ملوکیت کو حرام ٹھہراتا ہے۔'' 15

الغرض نبی اکرم ﷺ کے نافذ کردہ اسلامی نظام کے اصول و رفروع اور تفاصیل و جزئیات سب وحی کے تابع تھے او ریہی سلسلہ بعینہ خلفاء راشدینؓ کے ادوار میں جاری و ساری رہا اور وحی الٰہی (قرآن و حدیث) کی اتباع کو ہی خلافت کہا جاتا ہے۔ ورنہ ملوکیت وہ ہوتی ہے کہ جس میں ڈھنڈورہ توپیٹا جاتا ہے قرآنی نظام ربوبیت کا، اور ان کی تعبیر و تشریح کا حق حکمرانوں کو سونپ دیا جاتا ہے۔حالانکہ یہ اختیار خود رسول اللہ ﷺ کوبھی نہیں تھا کہ وہ قرآنی احکام کی تفسیر وحی سے الگ ہوکر اپنی صوابدید سے کرسکیں، بلکہ مسٹر پرویز نے اسےشرک قرا ردیاہے او رلکھا ہےکہ:
''اگر وہ اس پر راضی ہوجائے کہ کچھ معاملات میں خدا کا قانون او رکچھ میں انسانوں کا قانون نافذ العمل ہو، تو یہ شرک ہے، یعنی خدا کی حکومت میں دوسروں کو شریک کرنا۔'' 16

بنابریں یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ قرآن کریم کی تشریح وقت کے تقاضے کے مطابق اپنی ذاتی آراء سے کرکے شرک کاارتکاب کریں، وہ تو اسلامی نظام کےنفاذ میں اور اس کے اصول و فروغ او رکلیات و جزئیات کی تعیین میں صرف وحی ہی کے پابند تھے، پھر نہ جانے کیوں یہی مسٹر پرویز فرنگی نظریات کو قرآن او راسلام کے لبادے میں پیش کرنے میں بڑے مشاق رہے اور قرآن کریم کی تعبیر کا حق صاحب قرآن ﷺ سے چھین کر بڑے دھڑلے سے وقت کے حکمرانوں کو دے دینا چاہتے تھے؟ یہی وہ عجمی سازش ہے، جس کے ذریعے سے امت مسلمہ کو مزید افتراق و انتشار میں مبتلا کرنا مقصود ہے۔کیونکہ ردائے زمین پرجتنی اسلامی مملکتیں ہوں گی، سب کے تقاضے دوسروں سے مختلف ہوں گے اور زمان و مکان کے اختلاف سے ہرایک کی قرآنی تعبیر و تشریح دوسروں سے الگ اور انوکھی ہوگی، یوں امت مسلمہ بے شمار امتوں میں بٹ کر رہ جائے گی۔ پس امت کی وحدت کو باقی رکھنے یا بحال رکھنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآنی احکام کی تشریح صرف فرامین رسولؐ اور احادیث نبویہ ؐ سے کی جائے، جو کہ ان کج فکر لوگوں کو گوارا نہیں ہے۔

قارئین کرام غور فرمائیں، منکرین حدیث کس طرح امت کو ضلالت و غوایت کے اس کنارے پر لے جانا چاہتے ہیں، جہاں سے وہ بآسانی اسے ہلاکت او رتباہی کے عمیق گڑھے میں دھکیل سکیں۔ خطبہ حجة الوداع میں حدیث نبوی کے ساتھ ساتھ چونکہ قرآن کریم کا شرعاً حجت ہونا بھی مذکو رہے، لہٰذا اس خطبہ کی صحت کا انکار کردینے والے دراصل لوگوں کے ذہنوں کوانکار قرآن کی طرف پھیر دینا چاہتے ہیں۔ اللهم إنا نجعلك في نحورھم و نعوذبك من شرورھم۔

طلوع اسلام، احادیث رسول ﷺ کی صحت کے لیے ان کی قرآنی تعلیمات سے مطابقت کی شرط لگاتا ہے۔حالانکہ جہاں کوئی صحیح حدیث قرآنی تعلیمات کے خلاف نہیں ہوتی، وہاں بے شمار ایسی روایات بھی موجود ہیں ، جو اگرچہ قرآنی تعلیمات سے مطابقت رکھتی ہیں، لیکن محدثین نے ان کی استنادی حیثیت کے پیش نظر انہیں ضعیف یا موضوع قرار دیاہے۔ تاکہ کوئی ایسی بات رسول اللہ ﷺ سے منسوب نہ ہوسکے، جو آپؐ نے بیان نہیں فرمائی، او رجس کی سزا جہنم ہے۔ گویا طلوع اسلام کے نقل کردہ خطبہ حجة الوداع کی قرآنی تعلیمات سے مطابقت ثابت کرنےکے بعد اب ہم اُس مروجہ خطبہ کی طرف آتے ہیں جس کی استنادی حیثیت ضعیف ہے۔اسلیے ہم اسے نبی کریم ﷺ سے منسوب کرنے سے گریز کریں گے ، تاہم اس کی مطابقت میں قرآنی آیات پیش کرتے ہیں تاکہ طلوع اسلام کو اپنے اس اصول حدیث کی ناپائیداری کا اندازہ ہوسکے۔

1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے، کوئی اس کا ساجھی نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿قُلْ هُوَ رَ‌بِّى لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ ﴿٣٠....سورۃ الرعد

اور ''قل هو ربي'' کے تحت امام رازی فرماتے ہیں:
''الواحد المتعالي من الشرکاء''17
یعنی ''اللہ تعالیٰ ہی اکیلا معبود ہے ، وہ کسی بھی شریک اور ساجھی سے بلند و بالا ہے۔''

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَا شَرِ‌يكَ لَهُۥ ۖ وَبِذَ‌ٰلِكَ أُمِرْ‌تُ وَأَنَا۠ أَوَّلُ ٱلْمُسْلِمِينَ ﴿١٦٣...سورۃ الانعام

2۔ ''خدانے اپنا وعدہ پورا کیا، اس نے اپنے بندوں کی مدد فرمائی اور تنہا اس کی ذات نے باطل کی ساری مجتمع قوتوں کو زیر کیا۔''
اللہ تعالیٰ کا ''اپنے وعدے کو پورا کرنے '' اور اس کی خلاف ورزی نہ کرنے کےمتعلق ارشاد ہے :
وَلَن يُخْلِفَ ٱللَّهُ وَعْدَهُۥ...﴿٤٧﴾...سورۃ الحج
یعنی ''اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتے، (بلکہ اسے پورا فرماتے ہیں)''

اور ''اپنے بندے'' حضرت محمد ﷺ ''کی مدد کرنے'' کے بارہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِلَّا تَنصُرُ‌وهُ فَقَدْ نَصَرَ‌هُ ٱللَّهُ...﴿٤٠﴾...سورۃ التوبہ
''اگر تم نظام خداوندی کے قیام کے سلسلہ میں رسول کی مدد نہیں کرتے (تو نہ کرو) خدا نے اس کی مدد اس زمانے میں کی تھی (جب وہ بظاہر بے یارو مدد گار تھا)'' 18

جبکہ ''باطل کی ساری قوتوں کے عنقریب زیر ہوجانے '' سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿سَيُهْزَمُ ٱلْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ ٱلدُّبُرَ‌ ﴿٤٥...سورۃ القمر

''ان سے کہو کہ تم سب مل کر میرے مقابلہ میں متحدہ محاذ بنا لو ، اور میدان میں آجاؤ پھر دیکھو کہ تمہیں کس طرح شکست فاش ملتی ہے اور تم کیسے پیٹھ دکھا کر بھاگتے ہو۔'' 19


3۔ ''بیت اللہ کی تولیت او رحاجیوں کو پانی پلانے کی خدمات علیٰ حالہ باقی رہیں گی۔''
یہ سب خدمات نوع انسانی کے بھلائی کے کاموں میں داخل ہیں۔جنہیں قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا ہے:
﴿يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ‌ وَيَأْمُرُ‌ونَ بِٱلْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ‌ وَيُسَـٰرِ‌عُونَ فِى ٱلْخَيْرَ‌ٰ‌تِ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ مِنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ ﴿١١٤...سورۃ آل عمران
''یہ ہیں ان میں سے وہ لوگ جو صحیح معنوں میں اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، ان باتوں کا حکم دیتے ہیں جنہیں قرآن صحیح تسلیم کرتا ہے، اور ان سے روکتے ہیں، جنہیں وہ ناپسندیدہ قرار دیتا ہے، نوع انسانی کی بھلائی کے کاموں میں تیزی سے قدم اٹھاتے ہیں، یہ لوگ صالحین (مؤمنین) کے زُمرے میں شامل ہوچکے ہیں۔'' 20
(جاری ہے)


حوالہ جات
1. لغات القرآن: 4؍1605
2. لغات القرآن: 2؍518
3. لغات القرآن : 2؍878
4. لغات القرآن : 2؍582
5. لغات القرآن: 2؍878
6. لغات القرآن :4؍1622
7. لغات القرآن: 4؍1723
8. لغات القرآن : 4؍1753
9. لغات القرآن : 3؍1064
10. لغات القرآن: 2؍867
11. لغات القرآن :3؍1455
12. مفہوم القرآن: 1؍184
13. ص 266
14. صفحہ 31
15. شاہکار رسالت : ص60
16. شعلہ مستور: ص204
17. تفسیر کبیر: 19؍52
18. مفہوم القرآن : 1؍427
19. مفہوم القرآن: 3؍1253
20. مفہوم القرآن : 1؍149