آدابِِ دعاء

فضیلۃ الشیخ عبداللہ الخضری نے عربی زبان میں دعاء کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے، جسے الدار السلفیہ کویت نے شائع کیا ہے۔ افادہ عام کی غرض سے حضرت مولانا سعید مجتبیٰ السعیدی نے اسے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ امید ہے قارئین محدث اس سلسلہ کو پسند فرمائیں گے۔ (ادارہ)


...........................


جب انسان کے تمام دنیاوی اسباب منقطع ہوجائیں، جب انسان کے سارے حیلے عاجز رہ جائیں، جب انسان کے تمام مادی وسائل بے حقیقت ہوجائیں تو وہ اطمینان، راحت، سکون اورامن کی تلاش میں براہ راست اپنے خالق او رباری تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تاکہ جو چیز وہ انسانوں سے نہیں پاسکا، اپنے خالق حقیقی سے حاصل کرلے۔ چنانچہ اس کی مراد کیوں پوری نہ ہوگی، جبکہ وہ ایک ایسی عظیم ذات کی طرف لپکا ہے جو سب کا پروردگار ، تمام بادشاہوں کا بادشاہ، سب سے بے نیاز اور تمام تعریفوں کامستحق ہے؟ یہی عظیم روحانی عبادت دُعاء کہلاتی ہے، جس کے ذریعہ انسان اپنے پروردگار کی عظمت کومحسوس کرتا ہے۔

آنحضرتﷺ کا یہ ارشاد گرامی بجاہے کہ ''الدعاء مخ العبادہ'' یعنی ''دعا ہی عبادت ہے'' اس لیے کہ اس میں اللہ کی مکمل اطاعت اور انسان کا اپنی عبودیت کا کامل اعتراف ہوتا ہے۔ اس اعتراف کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ انسان انتہائی خشوع و خصوع او رعاجزی کے ساتھ، اللہ کی اطاعت گزارتے ہوئے اور اس کے انعامات کی امید میں ا س سے حسن ظن رکھتے ہوئے، اس کی طرف ہاتھ اٹھا کر، اسی کے سامنے گڑ گڑا کر اس آیت قرآنی کا مصداق بنتا ہے:
﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّى فَإِنِّى قَرِ‌يبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوالِى وَلْيُؤْمِنُوابِى لَعَلَّهُمْ يَرْ‌شُدُونَ ﴿١٨٦...سورۃ البقرۃ
کہ ''(اےنبیؐ) جب میرے بندے آپؐ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (انہیں بتا دیجئے کہ) میں قریب ہوں، جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعاء قبول فرماتا ہوں، تو ان کو چاہیے کہ میرے احکام کو مانیں اورمجھ پرایمان لائیں تاکہ نیک رستہ پائیں۔''

لفظ دعاء کے مختلف معانی
قرآن کریم میں دعاء کا لفظ متعدد معانی کے لیے استعمال ہوا ہے، ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ دعاء بمعنی عبادت:
جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّ‌كَ...﴿١٠٦﴾...سورۃ یونس
''آپ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، جو آپ کو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اورنہ نقصان۔''

2۔ دعاء بمعنی مدد طلب کرنا:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَٱدْعُواشُهَدَآءَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ...﴿٢٣﴾...سورۃ البقرۃ
''تم اللہ کے سوا اپنےمددگاروں کوبلا لو.............!''

3۔ دعاء بمعنی سوال کرنا:
جیسا کہ فرمایا:
﴿ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ...﴿٦٠﴾...سورۃ البقرۃ
''تم مجھ سے مانگو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔''

4۔ دعاء بمعنی بلانا:
جیسے فرمایا:
﴿يَوْمَ يَدْعُوكُمْ...﴿٥٢﴾...سورۃ الاسراء
''جس دن اللہ تمہیں بلائے گا...............!''

5۔ دعاء بمعنی تعریف و ثناء :
جیسا کہ فرمایا:
﴿قُلِ ٱدْعُواٱللَّهَ أَوِ ٱدْعُواٱلرَّ‌حْمَـٰنَ...﴿١١٠﴾...سورۃ الاسراء
''کہہ دیجئے اللہ کی تعریف کرو یا رحمٰن کی (برابر ہے۔ یعنی وہی اللہ ہے اور وہی رحمٰن بھی)''

6۔ دعاء بمعنی قول :
جیسے کہ ارشاد ہے:
﴿دَعْوَىٰهُمْ فِيهَا سُبْحَـٰنَكَ ٱللَّهُمَّ...﴿١٠﴾...سورۃ یونس
''(جنتی جنت میں) کہیں گے، ''سُبْحَـٰنَكَ ٱللَّهُمَّ'' (یااللہ تو پاک او رمنّزہ ہے)''

دعاء کا شرعی معنیٰ :
اپنے سوال صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرنا او راس کے ہاں بندوں کے لیے جو نیکیاں او ربھلائیاں ہیں، ان کا شوق رکھنا او راپنی حاجات و ضروریات کے حصول کے لیےاللہ ہی کے سامنے گڑگڑانا۔یہ ہے دعا کا شرعی مفہوم اور معنیٰ۔

کیا دعاء عبادت ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَقَالَ رَ‌بُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسْتَكْبِرُ‌ونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِ‌ينَ ﴿٦٠...سورۃ غافر
''تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ: تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا اور جو لوگ مجھے پکارنے سے تکبر کرتے ہیں، وہ عنقریب رسوا ہوکر جہنم رسید ہوں گے۔''

اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزّت ہمیں دعاء اور سوال کرنے کی ترغیب دلا رہے ہیں۔نیز بتلایا ہےکہ جو لوگ اللہ سے دعاء و سوال نہیں کرتے ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے عبادت سے اعراض کرنے والے قرار دیا ہے۔اس سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ دعاء ایک عبادت ہے اور اللہ کے نبیﷺ نے اس کی صراحت فرما دی ہے۔
''عن نعمان بن بشیر عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أنه قال: الدعاء ھو العبادة ثم قرأ وَقَالَ رَ‌بُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسْتَكْبِرُ‌ونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِ‌ينَ''1
''حضرت نعمان بن بشیرؓ، آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ؐنے فرمایا کہ : دعا ہی اصل عبادت ہے، اس کے بعد آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔: ''وَقَالَ رَ‌بُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ............ الخ''
کہ ''تیرے رب نے فرمایا: تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعاء کو قبول کروں گا۔ جو لوگ مجھے پکارنے سے تکبر کرتے ہیں۔ وہ عنقریب رسوا ہوکر جہنم رسید ہوں گے۔''

پس معلوم ہوا کہ دعاء صرف عبادت ہی نہیں، بلکہ بڑی عبادتوں میں سے ایک ہے او راللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ایک شاندار ذریعہ بھی۔

دعاء کی فضیلت اور فائدہ:
دعاء اللہ کے نزدیک ایک بڑی اہم عبادت ہے۔ حدیث میں ہے:
''عن أبي ھریرة رضی اللہ عنه عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لیس شيء أکرم علی اللہ من الدعاء'' 2
''حضرت ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے ہاں دعاء سے بڑھ کر کوئی عمل افضل نہیں۔''

اس لیے کہ اس میں انسان اپنی محتاجی، عاجزی او رکمزوری کے ساتھ ساتھ اپنے اللہ کی بے انتہاء قوت و قدرت کا اعتراف اور اقرار کرتا ہے۔

جیسا کہ ایک صحیح حدیث کے حوالہ سے پہلے گزر چکا ہے کہ ''دعاء ہی عبادت ہے'' تو دعاء کرنے والا اجر وثواب کا مستحق ہے، خواہ اس کی دعاء قبول نہ بھی ہو۔

ایک اعتراض او راُس کا جواب:
سوال کیا جاسکتا ہے کہ دعاء کرنے سے کیا فائدہ؟ کیونکہ جس چیز کا سوال کیا جائے، اگر وہ دعاء کرنے والے کے لیے مقدر کی جاچکی ہے تو اسے مل ہی جائے گی، دعاء کرے یا نہ کرے۔ اور اگر مقدر نہیں تو ہرگز نہیں مل سکتی، خواہ وہ دعا کرے یا نہ کرے۔

جواب:
اس اعتراض کا جواب امام ابن القیم یوں دیتے ہیں کہ:
''اس اعتراض کو اگر صحیح قرار دے لیا جائے تو دنیا کے تمام اسباب معطل اور بے کار متصور ہوں گے کیونکہ اگر کہا جائے، بھوک پیاس سے سیرابی کسی کے مقدر میں ہے تووہ واقع ہوکر رہے گی، خواہ کوئی کھائے یا نہ۔ اور اگر اس کے مقدر میں نہیں تو قطعاً یہ حاصل نہ ہوگی، وہ کھائے یا نہ۔

اسی طرح اگرکہا جائے کہ بیٹا کسی کے مقدر میں ہے تو وہ ہوکر رہے گا، خواہ وہ بیوی یا لونڈی سے خلوت کرے یا نہ۔ اور اگر مقدر میں نہیں تو نکاح کرنے او رلونڈی رکھنے کی ضرورت نہیں۔''
علیٰ ھٰذا القیاس او ربھی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، چنانچہ کوئی عقل مند ایسی بات نہیں کرسکتا۔'' 3

اب بات قضأ و قدر کی آگئی ہے، تو ہم اس بارہ میں مفصل گفتگو کریں گے۔

دعاء او رتقدیر:
اس سلسلہ میں صحیح مذہب یہ ہے کہ اعتقاد رکھنا چاہیے ، تمام اشیاء کا وقوع اسباب کے وقوع پر منحصر ہے۔ یوں سمجھیں کہ بیج کا اُگنا مقدر ہے، مگر اس کے اُگنے کےلیے پانی دینا او رحفاظت کرنا وغیرہ اسباب لازمی ہیں۔ اس کی مزید وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے:
''عن ثوبان رضی اللہ عنه قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا یزید في العمر إلا البر ولا یرد القدر إلاالدعاء وإن الرجل لیحرم الرزق بخطیة یعملها'' 4
''حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''نیکی کے علاوہ کوئی دوسری چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی اور دعاء کے علاوہ کوئی دوسری چیز تقدیر کو لوٹا نہیں سکتی اور بیشک انسان کسی غلطی ، گناہ کی پاداش میں رزق سے محروم کردیا جاتا ہے۔''

یعنی نیک عمل عمر میں زیادتی کا سبب ہوتا ہے، جب سبب موجود ہو تو مسبّب بھی واقع ہوجاتا ہے او ریہ سب کچھ اللہ کے ہاں پہلے سے مقدر ہے۔ رہا یہ رسوال کہ جو چیز تقدیر میں لکھی جاچکی ہے، اسے دعاء کیسے رد کرسکتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہےکہ انسان کا بیماری میں مبتلا ہونا اللہ تعالیٰ نے مقدر کررکھا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی مقدر کررکھا ہے کہ یہ انسان جب دعاء کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس مرض سے اسے شفا یاب کردیں گے۔ اسی طرح رزق کا معاملہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے اپنے ازلی علم کی بناء پر یہ مقدر کررکھا ہے کہ یہ شخص فلاں جرم کا ارتکاب کرے گا تو اسے رزق سے محروم کردیا جائے گا۔ اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں:
''عن معاذ بن جبل رضی اللہ عنه عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لن ینفع حذر من قدر ولٰکن الدعاء ینفع مما نزل و ممالم ینزل فعلیکم بالدعاء عباداللہ'' 5
''حضرت معاذ بن جبلؓ آنحضرتﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: ''کوئی بھی احتیاط اور پرہیز تقدیر سے نہیں بچا سکتی، لیکن دعاء نازل شدہ اور آئندہ ناسل ہونے والے مصائب و تکالیف سے نفع اور فائدہ پہنچاتی ہے۔ پس اے بندگان خدا دعاء ضرور کیا کرو۔''

اسی طرح ایک اور حدیث ہے:
''عن سلمان الفارسي رضی اللہ عنه قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا یرد القضاء إلا الدعاء ولا یزید في العمر إلا البر'' 6
''حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں: آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ: ''تقدیر کو سوائے دعاء کے کوئی چیز رد نہیں کرسکتی اور عمر میں سوائے نیکی کے کوئی چیز اضافہ نہیں کرسکتی۔''

اس کی تائید میں ترمذی کی ایک دوسری روایت ہے:
''ما علی الأرض مسلم یدعوا للہ تعالیٰ بدعوة إلا آتاہ إیاھا أو صرف عنه من السوء مثلھا مالم یدع بمأ ثم أو قطیعة رحم'' 7
''آنحضرتﷺ نے فرمایا: ''روئے زمین پر کوئی بھی مسلمان اللہ تعالیٰ سے دعاء کرے تو اللہ تعالیٰ اسے وہی مطلوبہ چیز عطا فرما دیتے ہیں، یا اتنا ہی شر دور فرما دیتے ہیں، بشرطیکہ وہ گناہ اور قطع رحمی کی دعاء نہ کرے۔''

اس سے دعاء کا فائدہ معلوم ہوا، کہ چونکہ یہ عبادت ہے، لہٰذا دعاء کرنے والا ثواب کا مستحق ہے۔نیز یہ دعاء بُری تقدیر کو رد کرنے او رمطلوبہ نیکیوں او ربھلائیوں کو جلد لانے میں مفید اور مؤثر ہے۔ اس موقع پر حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
''دعا کا فائدہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے دعاء کرنے والا اجر وثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ یہ شخص جو دعاء کررہا ہے، اس کا حصول دعاء پر موقوف ہو، کیونکہ اسباب و مسببّات کا خالق تو اللہ ہی ہے۔''
(جاری ہے)


حوالہ جات
1. ترمذی9؍311، ابوداؤد حدیث 1466۔ ابن ماجہ 3828
2. ترمذی 9؍309، ابن ماجہ حدیث نمبر 7821، مسند احمد 2؍362
3. الجواب الکافی ، صفحہ 13
4. ابن ماجہ حدیث نمبر 790، مسنداحمد ص277 ج5
5. مسنداحمد 234؍5
6. ترمذی
7. ترمذی:10؍24