نفاذِ شریعت کا مطالبہ کیوں؟

اب میں وہ دفعات پیش کرتا ہوں جن کےذریعے قانون حنفی میں چوری کی حد معطل کی گئی ہے۔ اس کے لیے میں نے صرف ہدایہ اور فتاویٰ عالمگیری کو مآخذ بنایا ہے کیونکہ یہ دونوں کتابیں حنفی حضرات کے ہاں معتبر سمجھی جاتی ہیں۔ہدایہ کے متعلق مولانا عبدالحئ لکھنوی نے مقدمہ حاشیہ ہدایہ میں ایک شعر نقل کیا ہے، جس سے حنفی حضرات کے ہان دوسری کتابوں کے مقابلے میں اس کتاب کامقام معلوم ہوتا ہے۔ ؎


إن الھدایة کالقرآن قد نسخت
ما صنفو اقبلھا في الشرع من کتب

یعنی '' ہدایہ قرآن کی طرح ہے کہ اس نے اپنے سے پہلے ، شریعت میں لکھی گئی تمام کتابوں کو منسوخ کردیا ہے''

اور فتاویٰ عالمگیری کی ابتدا میں مآثر عالمگیری کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
''سلطان اورنگ زیب عالمگیر کی توجہ دینی امو رکی طرف بہت تھی۔ ان کا ارادہ یہ ہوا کہ لوگ فروغ حنفیہ کے مفتیٰ بہا مسائل پر عمل کریں مگر انہوں نے دیکھا کہ ایسا کرنا مشکل ہے، کیونکہ مسائل مختلف کتابوں میں بکھرے ہوئے ہیں اور ان میں کئی خلافیات ہیں اور کئی ضعیف روایات سےنقل شدہ مسائل۔ چنانچہ انہوں نے یہ مشکل دور کرنے کی ذمہ داری ہندوستان کے مشہور علماء کے سپرد کی، جنہوں نےسلطان کے دارالکتب میں موجود مذہب حنفی کی مبسوط کتب سے تحقیق و جستجو کے ساتھ مسائل اخذ کئے۔ ساتھ ساتھ اس کتاب کا بھی ذکر کردیا جو اس مسئلہ کی مآخذ ہے اور ایک ایسی کتاب مرتب فرما دی جس میں وہ سب مسائل جمع ہیں جن کی فتویٰ کے لیے ضرورت ہوتی ہے تاکہ دوسرے فتاویٰ کی ضرورت نہ رہے۔ اس کام کی نگرانی سلطان نےمولانا نظام کے ذمہ لگائی اور علمائے مخالفین کے وظائف اور دوسری ضرورتوں کے لیے تقریباً دو لاکھ روپیہ خرچ کیا۔'' عالمگیری کے جس نسخہ سے میں نے حوالے لکھے ہیں وہ مطبع احمدی (1278ھ) میں چھپا ہے۔

اصل حنفی قانون کی تعیین:
میں نے حنفی قانون کے نقل کرنے میں اس بات کاالتزام کیا ہے کہ نقل کردہ قول ہدایہ یا عالمگیری میں بطور مسلّمہ قانون کے بیان کیا گیا ہو۔ چند مقامات، جہاں قانون نقل کرنےکےبعد صاحب مذہب سے ان کے کسی شاگرد کا اختلاف نقل کیا گیا ہے، وہاں میں نے کسی شاگرد کے قول کو اصل مذہب قرار نہیں دیا۔ کیونکہ ایسے مقامات پر تین صورتیں ممکن ہیں:

1۔ ایک صورت یہ ہے کہ شاگردوں کے قول کو اصل حنفی قانون قرار دیا جائے اور خود صاحب مذہب کا قول حنفی قانون ہونے سے انکار کردیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ اس صورت میں تقلید صاحب مذہب کی نہیں ہوگی بلکہ ان کے شاگردوں کی ہوگی۔جو کوئی مخلص مقلد گوارا نہیں کرسکتا۔ قانون بی پھر ابویوسف یازفری وغیرہ کا ہوگا اسے حنفی قانون نہیں کہا جاسکتا۔

2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ صاحب مذہب اور ان کے شاگردوں کے باہم متضاد اقوال کو قانون حنفی ہونے میں برابر کا درجہ دیا جائے۔ اس صورت میں دونوں پر عمل تو ہو نہیں سکتا۔ ایک کو ہی اصل حنفی قانون قرار دے کر اس پر عمل ہوسکتا ہے۔مگر وہ مفتی صاحب کون ہوں گے جو یہ فریضہ سرانجام دیں گے؟ اور انہیں یہ منصب کس نے تفویض کیا ہے؟ صاحب مذہب اور ان کے شاگردوں نے یا احناف نے؟ ظاہر بات ہے کہ ایسا صاحب فتویٰ ایک بھی نہیں جسے خود صاحب مذہب اور ان کے شاگردوں نے یہ منصب عطا کیا ہو اور نہ ہی صاحب مذہب کے مقلدین کسی شخص کے ثالث ہونے کی حیثیت پر متفق ہیں۔ کم از کم مجھے کوئی ایسی ہستی معلوم نہیں ہوسکی جو مفتٰی بہ قول کی تعیین کا حق تمام احناف کے نزدیک رکھتے ہوں اور ان کےمُفتٰی بہ قرار پائے گئے قول سے کسی نے اختلاف نہ کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کسی علاقے میں مفتٰی بہ قول کچھ ہوگا اور کسی علاقے میں کچھ اور ۔ کسی شہر میں اس قول پر عمل ہورہا ہوگا جس میں حد واجب ہے اور کسی میں اس پر جس میں حد واجب نہیں۔ بلکہ ایک ہی شہر میں ایک قاضی حد واجب قرار دے گا تو دوسرا اسے ساقط کردے گا اور بعض اوقات ایک ہی قاضی چاہے تو ایک قول پر حد نافذ کردے گا اور چاہے گا تو دوسرے صاحب کے قول کی رُو سے حد ختم کردے گا ۔ پھر کوئی شخص ان اصحاب فتاویٰ پر مواخذہ بھی نہیں کرسکتا۔کیونکہ صاحب مذہب اور ان کے شاگردوں کےباہم متضاد اقوال کو حنفی قانون ہونے میں برابر کا درجہ دیا گیا ہ۔ ایک ہی شخص پر حد واجب ہونا بھی قانون حنفی ہے اور اسی شخص پر حد ساقط ہونا بھی قانون حنفی، اس صورت کا نتیجہ حد کی تنفیذ میں شریف و ضعیف کے امتیاز کے علاوہ کیا نکل سکتا ہے؟

3۔ تیسری صورت یہ ہے کہ صاحب مذہب اور ان کے شاگردوں کے باہم متضاد اقوال میں سے صرف صاحب مذہب کے قول کو قانون حنفی قرار دیا جائے کیونکہ اس کی نسبت انہی کے نام کی طرف ہے اور انہی کی تقلید بھی کی جاتی ہے۔ اور قانون حنفی کی تعیین کے لیے قابل عمل صورت بھی یہی ہے اس لیے میں نے اسی کواختیار کیا ہے۔

بعض حضرات کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ اقوال جو ابویوسف ، محمد اور زفر (رحمہم اللہ) وغیرہ کی طرف منسوب ہیں، درحقیقت صاحب مذہب کے اقوال ہی ہیں کیونکہ ان کے بعض اوقات ایک مسئلہ میں کئی قول ہوتے ہیں۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کئی مقامات پر صاحب مذہب (امام ابوحنیفہ) کے دو، دو، تین، تین اقوال نقل کیے جاتے ہیں۔ اور سب ان ہی کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ یہاںایسی کون سی ضرورت پیش آئی کہ ان کے اقوال ان کی طرف منسوب کرنے کی بجائے ان کے شاگردوں کی طرف منسوب کردیئے گئے؟ حقیقت یہی ہے کہ ابویوسف، محمد، زفر وغیرہ کے اقوال خود انہی حضرات کے اقوال ہیں ورنہ انہیں ان کی طرف کبھی منسوب نہ کیا جاتا۔ ان اقوال کا ابوحنیفہ کے اقوال ہونے کی دلیل ہرگز نہیں ملتی۔ یہ صرف بے دلیل دعوے ہیں جو حقیقت کے ترازو میں پرکاہ وزن نہیں رکھتے۔

ائمہ ثلاثہ کے اقوال کے مآخذ:
دوسرے ائمہ کرام کے اقوال میں نے وزیر ابن ہبیرہ  المتوفی 560ھ کی کتاب ''الإفصاح عن معاني الصحاح'' سے نقل کئے ہیں۔ کیونکہ اس میں چاروں اماموں کے متفق علیہ اور مختلف فیہ مسائل جمع کردیئے گئے ہیں۔ مصنف نے اپنے زمانہ وزارت میں چاروں مذاہب کے علماء کو تمام عالم اسلام سے جمع کرکے ان کی تصدیق و تصویب سے یہ کتاب لکھی اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اس زمانہ میں ایک لاکھ تیرہ ہزار دینار کی خطیر رقم خرچ کی۔ ائمہ ثلاثہ کے اقوال معلوم ہونے کے علاوہ ہدایہ اور عالمگیری میں امام ابوحنیفہ کے اقوال کی، ان کی طرف نسبت کی، مزید تصدیق بھی اس کتاب سے ہوتی ہے۔ بعض مقامات پر ائمہ ثلاثہ کے اقوال دوسری کتابوں سے بھی نقل کئے گئے ہیں اور باقاعدہ حوالہ دیا گیا ہے۔

اگرچہ چوری کے لیے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حد باطل کرنے کے لیے قانون حنفی میں ایسی دفعات بھی موجود ہیں جن سے قاضی کی طرف سے ہاتھ کاٹ دینے کے فیصلے کے بعد بھی چور کی حد ختم کردی گئی ہے۔ تاہم چونکہ ان سے حد سرقہ کا ردّ کرنا بالکل ہی واضح ہے، اس لیے اس نوبت تک پہنچنے سے پہلے پہلے اسے ختم کرنے کی کئی صورتیں تیار کی گئی ہیں۔ کیونکہ غیر محسوس طریقے سے اگر حد ختم ہوجائے تو کھلم کھلا انکار کرکے نشانہ ملامت بننا کون سا ضروری ہے؟ فیصلے کے بعد حد ختم کرنے کی دفعات اس بحث کے آخر میں آئیں گی۔

دیر سے پہنچنے والی گواہی کا ناقابل قبول ہونا:
''وإذا شھد عليه الشھود بسرقة أو بشرب خمرأو بزنا بعد حین لم یؤخذبه وضمن السرقة والأصل أن الحدود الخالصة حقا للہ تعالیٰ تبطل بالتقادم'' 1
''اگر گواہ کچھ مدت کے بعد چوری، شراب نوشی یا زناء کی گواہی دیں تو اس کے ساتھ مواخذہ نہیں کیا جائے گا اور وہ چوری کا ضامن ہوگا اور اصل یہ ہے کہ وہ حدود، جو خالص اللہ تعالیٰ کا حق ہے، قدیم ہونے کے ساتھ باطل ہو جاتی ہیں۔''

مدت جس کے بعد پہنچے تو شہادت قبول نہیں ہوگی:
''واختلفوا في حد التقادم و أشار في الجامع الصغیر إلیٰ ستة أشھر فإنه قال بعد حین وھٰکذا أشار الطحاوي۔ و أبوحنیفة لم یقدر في ذٰلك وفوضه إلیٰ رأي القاضي في کل عصر و عن محمدأنه قدرہ بشھر لأن مادونه عاجل وھو روایة عن أبي حنیفة و أبي یوسف وھو الأ صح وھٰذا إذا لم یکن بین القاضي و بینھم مسیرة شھر أما إذا کان تقبل شھادتھم'' 2
''ائمہ احناف نے شہادت پرانی ہونے کے لیے مقرر کردہ مدت میں اختلاف کیا ہے۔ جامع صغیر میں اشارہ کیا ہے کہ یہ مدت چھ ماہ ہے۔ کیونکہ انہوں نے ''بعد حین'' کہا ہے۔ طحاوی نے بھی ایسے ہی اشارہ کیا ہے اور ابوحنیفہ نے اس میں کوئی مدت مقرر نہیں کی اور اسے ہر زمانے میں قاضی کی رائے کے سپرد کردیا اور محمد سے روایت ہے کہ انہوں نے تقادم (پرانا ہونے) کی مدت کا اندازہ ایک ماہ قرار دیا کیونکہ اس سے کم (مدت میں ادا کی جانے والی شہادت) ''جلدی'' ہے اور ابوحنیفہ اور ابویوسف سے بھی ایک روایت یہ ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ یہ اس وقت ہے جب قاضی اور گواہوں کے درمیان ایک ماہ کا فاصلہ نہ ہو۔ ہاں اگر اتنا فاصلہ ہو تو ان کی شہادت قبول کی جائے گی۔''

شہادت کو دیر سے پہنچنے کی بناء پرمسترد کرنا نہ اللہ کا حکم ہے نہ رسول اللہ ﷺ کا نہ اس پر اجماع امت ہے نہ قیاس صحیح اس کی تائید کرتا ہے۔ اگر دیر سے پہنچنے والی شہادت اس بناء پر ردّ کی جارہی ہے کہ گواہوں نے دشمنی کی بنا پر شہادت نہ دی ہو یا کوئی سازش نہ گھڑی ہو تو اس کےامکانات تو جلدی والی شہادت میں بھی موجود ہیں۔ پھر تو ہر شہادت ہی ردّ کئے جانے کے قابل ہے۔ ''ادرأ و ا الحدود بالشبهات'' سے بے بنیاد شبہات مراد لینا درست نہیں ویسے اس روایت کی حقیقت پر مستقل گزارشات آگے آئیں گی، ان شاء اللہ۔

پھر قدیم ہونے کےلیے چھ ماہ کے تو صرف اشارے ہیں۔ صاف روایتین دو ہیں۔ ایک روایت ایک ماہ کی اور دوسری قاضی کی رائے پر چھوڑنے کی۔ اب قاضی کو غیر محدود اختیارات حاصل ہوگئے۔ ملزم کو پھنسانا چاہے تو مہینے تک پھنسا دے، چھوڑنا چاہے تو ایک دن دیر سے آنے والے گواہوں کو ''بقول صاحب ہدایہ'' فاسق'' قرار دے کر ان کی شہادت ردّ کرکےملزم کو چھوڑ دے۔ بیشک ایک ماہ کی روایت کو اصح کہا گیا ہے مگر رائ قاضی والی روایت صحیح ہونے سے انکار نہیں کیا گیا اور اگر ایک ماہ کی مدت کو ہی صحیح قرار دیا جائے تو یہ بھی صاف شریعت سازی ہے کہ انتیسویں دن تک پہنچنے والی گواہی تو تازہ بتازہ ہے مگر تیسویں دن والی گواہی پرانی ہے۔ تقادم کی یہ حد اگر کوئی مقرر کرسکتا ہے تو صرف صاحب شرع ، نہ کہ احبار و رہبان، اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت میں اس حد تقادم کا وجود ہی نہیں۔خالص اللہ کے حقوق والی حدود میں تقادم سے حد باطل کرنے میں ائمہ ثلاثہ امام مالک ، شافعی، احمد رحمہم اللہ میں سے کوئی بھی امام ابوحنیفہ کا ہمنوا نہیں۔ چنانچہ ''الافصاح'' میں ہے:
''واتفقوا علیٰ أن الشھادة في الحال تسمع علی القذف والزنا وشرب الخمر۔ واختلفوا فیما إذامضٰی علیٰ وقت المواقعة لذٰلك حین فقال أبوحنیفة لا تسمع ذٰلك بعد تطاول المدة إذا لم یقطعھم عن إقامة البینة بعدھم عن الإمام وقال الباقون تسمع'' 3
''(چاروں اماموں نے) اتفاق کیا ہے کہ قذف ، سنا اور شراب نوشی پر فی الحال (اسی وقت دی جانے والی) شہادت مسموع ہوگی اور اس صورت میں اختلاف کیا ہے جب ان کے واقعہ ہونے پر کچھ وقت گزر جائے، تو ابو حنیفہ نے کہا کہ مدت گزرنے کے بعد نہیں سنی جائے گی۔ جب انہیں گواہی پیش کرنے سے امام سے دور ہونا رکاوٹ نہ بنا ہو اور باقی ائمہ نے کہا، سنی جائے گی۔''

تنبیہ : قذف کے متعلق ابوحنیفہ کا مسلک بیان کرنے میں صاحب ہدایہ اور الافصاح کے بیان میں اختلاف ہے۔

بعض اشیاء کو معمولی قرار دے کر ان کی چوری پر حد باطل کرنا:
حنفی قانون میں ایک لمبی فہرست ان اشیاء کی بنائی گئی ہے جو ان قانون ساز حضرات کے نزدیک مالیت نہیں رکھتیں۔اس لیے ان کی چوری پرہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، خواہ فی الواقع وہ لاکھوں روپے کی قیمت کی ہوں۔ چنانچہ ہدایہ میں ہے:
''ولا یقطع فیما یوجدتا فھا مباحا في دارالإسلام کالخشب والحشیش والقصب والسمك والطیر والصید والذرنیخ والمغرة والنورة'' 4
''جو چیزیں دارالاسلام میں حقیر اور مباح ہونے کی حالت میں پائی جاتی ہیں، ان کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔جیسے کہ لکڑی، گھاس، سرکنڈا، مچھلی، ہڑتال، گیرو اور چونہ''

حد باطل کرنے کا عذر :
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:
''کانت الید لا تقطع علیٰ عھد رسول اللہ في الشيء التافة''
یعنی ''آنحضرتﷺ کے زمانہ میں معمولی چیز پر ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا۔''

چونکہ ہاتھ اس چیز میں کاٹا جاتا ہے جو مالیت رکھتی ہو اور مذکورہ چیزیں حقیر ہیں اور دارالاسلام میں فی الاصل مباح پائی جاتی ہیں اور اس صورت میں ان کی طرف رغبت بہت کم ہوتی ہے۔ لہٰذا ان کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

ردِّ عذر :
حضرت عائشہ ؓ نے خود ہی واضح فرما دیا ہے کہ ''تافة'' شے سے کیا مراد ہے۔ چنانچہ انہوں نے مندرجہ بالا الفاظ کے بعد فرمایا ہے کہ:
''اور ڈھال سے کم قیمت چیز میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا۔ '' حدیث کے الفاظ پیچھے گزر چکے ہیں۔حضرت عائشہؓ کا مطلب تافہ چیز سے وہ چیز ہے جو ڈھال سے کم قیمت ہو۔ نہ کہ آپ لوگوں کی بنائی ہوئی فہرست۔

اس میں شک نہیں کہ مندرجہ بالا چیزیں اگر کسی ملکیت نہ ہوں تو انہیں لے جانے والا چور ہے ہی نہیں کیونکہ اس نے ایک ایسی چیز لی جو سب لے سکتے تھے۔

البتہ یہ کہنا کہ اگر یہ چیزیں کسی کی ملکیت اور حفاظت ہوں اور چوری کرنے والا ربع دینار یا بقول احناف دس درہم یااس سے زائد قیمت کی چیز چرا لے خواہ وہ لاکھوں روپے کی ہو، اس وقت بھی وہ حقیر اور اسےچرانے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، بالکل بے بنیاد بات ہے۔ اس وقت نہ وہ معمول ہے نہ حقیر اور نہ سب کے لیے مباح۔ یہ نہ کتاب اللہ کا حکم ہے، نہ سنت رسول اللہ ﷺ نہ اجماع امت اور نہ قیاس صحیح۔

لکڑی کی چوری کی تفصیل:
اُوپر گزر چکا ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک لکڑی کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ امام صاحب نے اس میں سے چار قسم کی لکڑی مستثنیٰ قراردی ہے کہ ان کی چوری پر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔
''ویقطع في الساج والقنا والآبنوس والصندل'' 5
یعنی ''ساگوان، قنا (جس سے نیزے بنتے ہیں)، آبنوس اور صندل میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔''

اس سےمعلوم ہوا کہ کیکر، شیشم، شہتوت، کیل، دیار، چلغوزہ اور دوسرے درختوں کی لکڑی کی چوری کرنے والے ٹمبر مارکیٹیں بھی خالی کردیں، حنفی قانون کی رو سے قطع ید سے محفوظ رہیں گے۔

ائمہ ثلاثہ کا فتویٰ:
''واختلفوا في وجب القطع بسرقة الخشب إذا بلغ قیمته نصابا فقال مالك والشافعي وأحمد  یجب القطع في ذٰلك علی الإطلاق۔ وقال أبوحنیفة لا یجب القطع إلا في الساج والآبنوس والصندل و القنا'' 6
''اس مسئلہ میں ائمہ کا اختلاف ہے کہ لکڑی کی چوری میں، جب اس کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے، تو اس میں ہاتھ کاٹنا واجب ہے یا نہیں؟ تو مالک، شافعی اور احمد نے کہا: اس میں علی الاطلاق (ہر طرح کی لکڑی میں) ہاتھ کاٹنا واجب ہے اور ابوحنیفہ نے کہا: ہاتھ کاٹنا واجب نہیں مگر ساگوان، آبنوس، صندل اور قنا میں۔''

لکڑی کے تیار کردہ دروازے اور فرنیچر :
''وإن جعل من الخشب الذي لا قطع فيه بابا أو کرسیا أو سیریرا یجب القطع بسرقته...... کذا في المحیط'' 7
''اگر اس لکڑی سے جس میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا، کوئی شخص دروازہ یا کسی یا چارپائی بنا لے تو اس کی چوری پر ہاتھ کاٹنا واجب ہے۔''

قانون حنفی میں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ صنعت (کاریگری) کی وجہ سے اب لکڑی قیمتی بن گئی ہے حقیر نہیں رہی۔ مگر قیمتی تسلیم کرلینے کے بعد تیار شدہ دروازوں کی چوری پر حد باطل کرنے کے لیے کچھ اور ضابطے وضع کئےگئے ہیں۔

وہ دروازے جن کی چوری پر حد واجب نہیں:
''وإنما یقطع في الأبواب إذا کانت في الحرز و کانت خفیة لا یثقل حملھا علی الواحد لأنه لا یرغب في سرقة الثقیل من الأبواب وإن کانت مرکبة علی الباب لا یقطع کذا في التبیین'' 8
''دروازوں کی چوری میں ہاتھ صرف اس وقت قطع کیا جائے گا، جب وہ محفوظ جگہ میں ہوں اور اتنے ہلکے ہوں کہ ایک آدمی پر ان کا اٹھانا بھاری نہ ہو۔ کیونکہ بھاری دروازے چرانے کی رغبت نہیں اور اگر وہ دروازے دیوار میں جڑے ہوئے ہیں تو پھر ہاتھ قطع نہیں کیاجائے گا۔''

اس سے تین باتی معلوم ہوئیں:
1۔ ہاتھ صرف ان دروازوں کے چرانے پر کاٹا جائے گا جو اتنے ہلکے ہوں کہ ایک آدمی بآسانی اٹھا کر لے جاسکے۔
2۔ اگر دروازے ایک آدمی پر اٹھانے میں بھاری ہوں تو ان کی چوری پر حد نہیں کیونکہ ان کی چوری کی رغبت نہیں ہوتی۔
فرمائیے ہزاروں بلکہ بعض اوقات لاکھوں روپے کی مالیت کے بھاری دروازے جنہیں دو یا تین آدمی اٹھا کر یا ٹرک میں ڈال کر لے جائیں تو کیا ان پر آیت ﴿وَٱلسَّارِ‌قُ وَٱلسَّارِ‌قَةُ فَٱقْطَعُوٓاأَيْدِيَهُمَا...﴿٣٨﴾...سورۃ المائدہ'' لاگو نہیں ہوتی یا صرف بھاری ہونے کی وجہ سے ان کی مالیت ختم ہوگئی ہے کہ ربع دینار میں حد ہے مگر ہزاروں روپوں کے دروازوں میں حد نہیں۔ چھوٹے دروازوں کی چوری میں ہاتھ کاٹنا اور بڑے دروازوں کو چرانے میں حد ختم کرنا پہلے لوگوں کے ضعیف اور شریف چوروں میں فرق کا آئینہ دار تو نہیں کہ بڑے دروازوں کی چوری بڑے لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ ضعیفوں میں یہ جرات و ہمت کہاں؟
اور یہ جو کہا گیا ہے کہ بھاری دروازے چرانے کی رغبت نہیں ہوتی، اس میں وضاحت نہیں کی گئی کہ کسے رغبت نہیں ہوتی؟ آیا چوری نہ کرنے والوں کو؟ اگر یہ بات ہے تو انہیں ہلکے دروازوں کی چوری کی بھی رغبت نہیں ہوتی اور اگر آپ کہیں کہ چوروں کو رغبت نہیں ہوتی تو ساتھ ہی یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ پھر وہ اتنی تکلیف کیوں فرماتے ہیں؟ کیا وہ رغبت کے بغیر ہی اپنی راتوں کی نیند اور آرام حرام کرتے ہیں؟
3۔ ''دیوار میں لگے ہوئے دروازے چرانے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا''

فرمائیے یہ کس آیت یا حدیث کا ترجمہ ہے؟ ایک شخص نے لاکھوں روپے کا مکان بنایا، اس میں بہترین لکڑی کے دروازے لگا کر تالے لگا دیئے۔ اس سے زیادہ حفاظت وہ کیا کرسکتا تھا؟ چوروں نے دیواروں سے دروازے ہی نکال لیے چور پکڑے گئے جرم بھی ثابت ہوگیا مگر وہ بے فکر رہیں، قانون حنفی ان کی دستگیری کا ضامن ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی حد سے بچانے کا ذمہ دار۔

مختلف قسم کے پتھروں، سنگ مرمر اور شیشے کی چوری پرحد ختم کرنا:
''ولاقطع في الحجارة کذا في السراج الوھاج ولا یقطع في الرخام...... وظاھر الروایة في الزجاج إنه لا یقطع کذا في فتح القدیر'' 9
''پتھروں میں ہاتھ کاٹنا نہیں ہے۔ سنگ مرمر کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائےگا اور شیشے کے متعلق ظاہر روایت یہ ہے کہ ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔''

عذر :
یہ چیزیں دارالاسلام میں مباح اور مٹی میں ملی ہوئی ملتی ہیں۔ ہر شخص اٹھا سکتا ہے اس لیے ان کی چوری پر حد نہیں۔

ردّ عذر :
اس عذر کی حقیقت پیچھے واضح ہوچکی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی کی ملکیت سے سنگ مرمر، شیشہ اور دوسرے قیمتی پتھر چرا کر اسے زندگی بھر کے اثاثے سے محروم کردینے کے باوجود چور کے ہاتھ نہ کاٹنا صریح ظلم ہے ۔ یہ نہ قرآن ہے نہ سنت نہ اجماع نہ منصفانہ قیاس۔بلکہ نری سینہ زوری ہے۔

ائمہ تلٰثہ کا مؤقف:
فقہ حنبلی کی مشہور کتاب ''المغنی'' میں امام احمد کا مسلک بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
''وما عدا ھٰذا من الأموال ففيه القطع سوآء کان طعاما أوثیابا أوحیوانا أو حجارا أو صیدا أو نورة أو حصا أو زنبیخا أو توابل أو فخارا أو زجاجا أو غیرہ ولھٰذا قال مالك والشافعي و أبوثور'' 10
''اس کے علاوہ جو مال بھی ہو اس میں ہاتھ کاٹا جائے گا برابر ہے کہ طعام ہو یا کپڑے یا جانور یا پتھر یا سرکنڈا یا شکار یا قلعی یا چونہ یا ہڑتال یا گرم مصالے یا ٹھیکرے یا شیشہ یا ان کے علاوہ کوئی اور چیز۔ اور مالک، شافعی اور ابوثور نے بھی یہی فرمایا ہے۔''

گوشت،دودھ، ترپھلوں اور دوسری جلدی خراب ہونے والی چیزوں کی چوری پر حد ختم کرنا:
''ولا قطع فیما یتسارع إليه الفساد کاللبن واللحم و الفواکه الرطبة ''11
''جو چیزوں جلدی خراب ہوجاتی ہیں، مثلاً دودھ، گوشت اور تر پھل ، ان كی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔''

''ولا فرق في عدم القطع باللحم بین کونه مملوحا قدیدا أو غیرہ کذا في فتح القدیر'' 12
''گوشت خواہ نمک لگا کر خشک کیا ہوا ہو یا دوسرا، ہاتھ نہ کاٹنے میں یکساں ہیں۔''

حد باطل کرنےکاعذر :
آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
''لا قطع في ثمر ولا کسر''
یعنی ''پھل اور کھجور کے گودے میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔''

پھر چونکہ جلدی خراب ہوجاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ جلدی خراب ہونے والی کسی چیز کی چوری پر حد نہیں۔ علاوہ ازیں آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے:
''لاقطع في الطعام''
یعنی''طعام (کھانے کی چیز) میں قطع ید نہیں''

اور طعام سے مراد تیار شدہ کھانا ہے یا جو اس جیسی جلدی خراب ہونے والی چیز ہو۔

ردِّ عذر :
1۔ سب سے پہلے تو یہ قیاس ہی فاسد ہے کیونکہ پھل پر صرف جلدی خراب ہونے والی اشیاء کا ہی نہیں بلکہ جلدی خراب نہ ہونے والی چیسوں کا بھی قیاس کرنا چاہیے تھا کیونکہ ہر پھل جلدی خراب نہیں ہوتا بلکہ کئی پھل ، خواہ آپ درخت سے توڑیں، برسوں خراب نہیں ہوتے۔مثلاً پستہ، اخروٹ، بادام، چلغوزہ وغیرہ۔ تو اگر جلدی خراب ہونے والی چیزوں کی چوری کی حد جلدی خراب ہونے والے پھلوں کو بہانہ بنا کر باطل کی گئی ہے تو دیر تک محفوظ رکھی جانے والی چیزوں مثلاً گندم، جو، چنے اور دوسرے تمام اجناس کی چوری کی حد جلدی خراب نہ ہونے والے پھلوں کے بہانہ سے ختم کرنی چاہیے تھی تاکہ آگے آنے والی شقوں کی ضرورت ہی نہ رہتی۔

2۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ پھل کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹنے کی وجہ یہ ہے کہ پھل جلدی خراب ہوجاتا ہے کیونکہ اگر کوئی شخص پھلوں کے ڈھیر میں سے جلدی خراب ہونے والا پھل بھی چرائے اور وہ نصاب کو پہنچ جائے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اور اگر کوئی شخص درخت پر سے خشک پھل بھی چرائے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اس کی تفصیل اگرچہ احادیث کےبیان میں گزر چکی ہے تاہم ایک حدیث یہاں بھی ذکر کی جاتی ہے، جس سے پھل کی چوری کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی وضاحت سامنے آجائے گی:
''عن عبداللہ بن عمر و بن العاص عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أنه سئل عن الثمر المعلق فقال من أصاب بفيه من ذي حاجة غیر متخذ خبنة فلا شيء عليه ومن خرج بشيء منه فعليه غرامة مثليه والعقوبة و من سرق منه شیئا بعد أن یؤويه الجرین فبلغ ثمن المجن فعليه القطع'' 13
'' عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے درختوں پر لگے ہوئے پھل کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا: جو کوئی ضرورت مند اس میں سے کھالے، جھولی بنا کرساتھ نہ لے جائے اس پر کوئی چیز نہیں اور جو اس میں سے کچھ لے جائے اس پر اس سے دوگنا جرمانہ اورسزا ہوگی اور جو شخص پھل کے جمع کرنے کی جگہ میں پہنچائے جانے کے بعد اس میں سے چوری کرے اور وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے تو اس پر ہاتھ کاٹنا لازم ہے۔''

ثابت ہوا کہ پھل کی چوری میں حد ختم نہیں کی گئی، صرف درخت پر سے توڑنے کی صورت میں حد نہیں ہے۔ اگر اس جگہ چرائے جہاں پھل جمع کئے گئے ہیں تو خواہ تر ہوں یا خشک ، نصاب کو پہنچنے کی صورت میں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ چنانچہ پھل، جس کو بنیاد بنا کر حنفی قانون نے دوسری جدی خراب ہونے والی چیزوں کی چوری کی حد باطل کی ہے، خود اس کے ڈھیر میں سے نصاب یا اس سے زائد مقدار کی چوری میں رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ کاٹنا لازم قرار دیا ہے تو دودھ، گوشت اور تیار شدہ کھانے کی چوری سے آپ حد کس طرح ختم کرسکتے ہیں؟

3۔ حدیث ''لا قطع في الطعام'' آنحضرت ﷺ سے ثابت نہیں ۔ اور اگر ثابت مانی جائے تو پھر اسے تیار شدہ کھانے سے خاص کرنا بلادلیل اور خانہ زاد بات ہے، پھر ہر کھانے والی چیز کی چوری سے حد ختم کرنا پڑے گی۔ جو خود احناف بھی صاف لفظوں میں کہنے سے گریز کرتے ہیں۔

ائمہ ثلاثہ کا مؤقف :
''واختلفوا في القطع بسرقة ما یسرع إليه الفساد فقال مالك والشافعي و أحمد: يجب القطع فيه إذا بلغ الحد الذي یقطع في مثله بالقیمة وقال أبوحنیفة: لا یجب القطع فيه وإن بلغت قیمة ما یسرق منه نصابا۔'' 14
''اور ان چیزوں کی چوری میں، ہاتھ کاٹنے کے متعلق ائمہ نے اختلاف کیاہے، جو جلدی خراب ہوجاتی ہیں تو مالک، شافعی اور احمد نے کہا: جب اس حد کو پہنچ جائے، جس کی ہم قیمت اشیاء میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے، تو ہاتھ کاٹنا واجب ہے اور ابوحنیفہ نے کہا: اس میں ہاتھ کاٹنا واجب نہیں اگرچہ اس میں سے چوری کی ہوئی چیز نصاب کو بھی پہنچ جائے۔''

معلوم ہوا کہ اس ضابطے میں احناف کو قرآن و سنت کی نصوص رد کرنے کے ساتھ ساتھ ائمہ ثلاثہ کی مخالفت کا سامنا بھی ہے۔

کھانے کے ساتھ برتن چرانے پر حد ختم کرنا:
''ولا في الإنآء و قدر فيه طعام کذا في العتابیة'' 15
''جس برتن میں یا ہانڈی میں کھانا ہو، اس کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔''

''ولو سرق إنآء فضة قیمته مائة وفيه نبیذ أو طعام لا یبقیٰ أولبن لا یقطع وإنما ینظر ما في الإنآء'' 16
''اگر کوئی شخص چاندی کا برتن چرالے جس کی قیمت سو ہے اور اس میں نبیذ یا کھانے کی ایسی چیز ہو، جو باقی نہیں رہتی یا دودھ ہو، اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائےگا۔ صرف وہ چیز دیکھا جائے گی جو برتن میں ہے۔''

ہزاروں روپے کی دیگیں اور دوسرے قیمتی برتن چرانے کا حیلہ یہ بتایا گیا کہ اس وقت چراؤ جب ان میں کھانے کی کوئی چیز، نبیذ، دودھ ہو، حد سے بچ جاؤ گے۔کتاب و سنت کی رُو سے یہ شخص نصاب سے زیادہ مال چرار ہا ہے تو اب اس سے حد ختم کرنا اللہ تعالیٰ کے فرمان:﴿وَٱلسَّارِ‌قُ وَٱلسَّارِ‌قَةُ فَٱقْطَعُوٓاأَيْدِيَهُمَا...﴿٣٨﴾...سورۃ المائدہ'' کومعطل کرنے کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔

قرآن مجید کے نسخوں کی چوری پر حد ختم کرنا:
''ولا قطع في سرقة المصحف وإن کان عليه حلیة تساوي ألف درھم''17
''قرآن مجید کے نسخوں کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، اگرچہ اس پر آرائش کا اتنا کام ہو جو ہزار درہم کے برابر ہے''

حد باطل کرنے کا عذر :
قرآن مجید مال نہیں ہے، نہ اس کی کوئی قیمت ہوسکتی ہے اور ہاتھ اس چیز کی چوری پر کاٹا جاتا ہے جس کی کوئی مالیت ہو۔ علاوہ ازیں وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے پڑھنے کے لیے چرایا ہے اور قرآن پڑھنا ہر شخص کا حق ہے اس لیے اس کی چوری پر حد نہیں۔

ردّعذر :
قرآن مجید کےنسخے فروخت کرنا اور خریدنا بالاتفاق تمام مسلمانوں کے نزدیک جائز ہے۔ تو اگر قرآن مجید کے یہ نسخے مالیت ہی نہیں رکھتے تو انہیں بیچ کر خریدار سے پیسے لینا ناجائز طریقے سے مال کھانا ہوگا جو حرام ہے۔ پھر ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص اسے خریدے گا تو بیچنے والے کی ملکیت سے نکل کر خریدنے والے کی ملکیت میں آجائے گا۔ اب چور اگر کسی کی ملکیت سے ربع دینار یا اس سے زائد قیمت کا قرآن مجید کا نسخہ چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹنا واجب ہے۔ رہی یہ بات کہ قرآن پڑھنا ہر شخص کا حق ہے، یہ واقعی درست ہے مگر قرآن مجید کانسخہ چوری کرنا کسی شخص کا بھی حق نہیں۔ پڑھنے کے لیے اٹھانا ہوتا تو خرید لیتا یا اجازت کے ساتھ لیتا۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے قرآن پڑھنے والے چوری نہیں کیا کرتے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے کہیں بھی قرآن مجید کے نسخے چوری کرنے والوں کو قطع ید سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔

اگر ایک منٹ کے لیے مان لیا جائے کہ قرآن مجید مال نہیں ہے تو گتے، کاغذ، سیاہی اور اس کی آرائش وغیرہ تو مال ہیں اور ا س کی قیمت بھی ہے۔ چور چراتا بھی انہی چیزوں کے لیے ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ چیزیں تابع ہیں اس لیے حد معاف ہے، تو یہ بات بھی بے دلیل ہے۔نصاب کو پہنچی ہوئی چیز کی چوری پر خواہ وہ تابع ہو یا متبوع، ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ تابع اور متبوع میں حد نہ ہونے اور ہونے کا فرق، کتاب و سنت سے ثابت نہیں، یہ صرف ابطال حدود کا ایک حیلہ ہے۔

کتاب کی چوری پر حد باطل کرنا اور اس کا عذر :
''ولا قطع في الدفا ترکلھا لأن المقصود ما فیھا و ذٰلك لیس بمال إلا في دفاتر الحساب'' 18
''کتابیں چوری کرنے میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا خواہ کسی قسم کی ہوں کیونکہ مقصود وہ چیز ہے جو ان میں ہے اور وہ مال نہیں مگر حساب کی کتابوں میں۔''

ردّ عذر :
یہ اہل علم پر کتنا ظلم ہے کہ ان کی زندگی سے بھی عزیز چیز، جسے خریدنے کے لیے وہ عمر بھر کی کمائی خرچ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور جان سے بڑھ کر اس کی حفاظت کرتے ہیں، کی چوری کو حد سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے اور دانشوری کی طغیانی دیکھئے۔ کہا جارہا ہے کہ کتابوں سے مقصود وہ چیز ہے جو ان میں ہے اور وہ مال نہیں اور ساتھ ہی حساب کی کتابون کی چوری پر حد لازم کی جارہی ہے۔ حالانکہ حساب کے رجسٹر میں لکھی ہوئی چیز بھی صرف حروف و الفاظ اور ہندسے ہوتے ہیں۔ ان حروف والفاظ اور ہندسوں کوبھی مال نہیں کہا جاسکتا، مال کا علم کہا جاسکتا ہے ۔ مال تو الماریوں اور تجوریوں میں ہے، نہ کہ حساب کے رجسٹروں میں۔ فرمائیے ان الفاظ و حروف پر مشتمل رجسٹروں کو چرانے والے نے کون سے روپے چرائے ہیں کہ آپ اس کا ہاتھ رہے ہیں؟

اگر ایک منٹ کے لیے مان بھی لیں کہ کتابوں سے مقصود جو چیز ہے وہ مال نہیں بلکہ علم ہے، تو کتابوں کے گتے، کاغذ، سیاہی کتابت کا خرچ وغیرہ تو بلا شبہ مال ہیں ان کی چوری نصاب یا اس سے زائد کی جائے تو اللہ کے حکم کے مطابق اس پر حد لازم ہوگی۔ ان چیزوں کو غیر مقصود قرار دے کر کتابوں کی چوری کو حس سے مستثنیٰ قرار دینا، خواہ لاکھوں روپے کی مالیت کی کتابیں ہوں، دین میں زبردست جرأت ہے۔ جس کی بنیاد قرآن و سنت کی کسی دلیل پرنہیں۔ صرف اتباع ہویٰ پر ہے۔

ائمہ ثلاثہ کا مؤقف:
فقہ حنبلی کی کتاب ''المغنی'' میں ہے:
''فإن سرق مصحفا فقال أبوبکر و القاضي لا قطع فيه وھو قول أبي حنیفة لأن المقصود منه ما فيه من کلام اللہ وھو مما لا یجوز أخذ العوض عنه واختار أبوالخطاب وجوب قطعه وقال ھو ظاھر کلام أحمد فإنه سئل عمن سرق کتابا فيه علم لینظر فيه فقال کل ما بلغت قیمته ثلاثة دراھم فيه القطع وھٰذا قول مالك والشافعي و أبي ثور و ابن المنذر لعموم الآیة في کل سارق ولأنه متقوم تبلغ قیمته نصابا فوجب بسرقته ککتب الفقه ولا خلاف بین أصحابنا في وجوب القطع بسرقة...... کتب الفقه والحدیث و سائر العلوم الشرعیة''19
''پس اگر قرآن مجید کا نسخہ چوری کرے تو ابوبکر اور قاضی نے کہا اس میں قطع ید نہیں اور یہی ابوحنیفہ کا قول ہے ۔ کیونکہ اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جو اس میں ہے اور وہ ان چیزوں سے ہے جن پربدلہ لینا جائز نہیں اور ابوالخطاب نے اس کا ہاتھ کاٹنے کو اختیار کیا ہے اور کہا ہے کہ امام احمد کے کلام سے یہی بات ظاہر ہے۔ کیونکہ ان سے اس شخص کے متعلق سوال کیا گیا جس نے کوئی کتاب، جس میں علم ہو، اس لیے چوری کی کہ اس کا مطالعہ کرنے پر ہاتھ کاٹنا لازم ہے، اور مالک، شافعی، ابوثور اور ابن المنذر کا یہ قول ہے کیونکہ آیت ہر چور کےمتعلق عام ہے اور اس لیے کہ وہ قیمت والی چیز ہے جس کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہے تو اس کی چوری پر قطع ید واجب ہوگا۔ جیسا کہ فقہ کی کتابیں اور ہمارے اصحاب میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ فقہ، حدیث اور دوسرے علوم شرعیہ کی کتابیں چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنا واجب ہے۔''

اس سے معلوم ہوا کہ ائمہ ثلاثہ کتابوں کی چوری میں قطع ید کو واجب قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید کے نسخے کی چوری میں مالک اور شافعی قطع ید پر متفق ہیں، احمد بن حنبل کا ظاہر کلام بھی اسی کا متقاضی ہے۔ تمام کتابوں کی چوری پر حد باطل کرنے میں حنفی قانون تنہا بھی ہے اور کتاب و سنت کی کسی دلیل سے بھی یکسر محروم۔

آزاد بچے کو زیور سمیت چوری کرنے پر حد ختم کرنا :
''ولا قطع علٰی سارق الصبي الحر وإن کان عليه حلي لأنه لیس بمال وما عليه من الحلي تبع له'' 20
''آزاد بچےکی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اگرچہ اس پر زیور ہو، کیونکہ وہ مال نہیں اور جو زیور اس پر ہے وہ اس کے تابع ہے۔''

غور کے قابل بات یہ ہے کہ چور بچے کو چرا کر بیچ دیتا ہے اور پیسے کھرے کرلیتا ہے۔اگر وہ مال ہو ہی نہیں سکتا تھا تو بک کس طرح گیا۔ جو چیز مال ہی نہیں وہ فروخت کس طرح ہوسکتی ہے؟ اس شخص کو تو چوری کی سزا قطع ید اور آزاد کو غلام بنانے کی مزید سزا ملنی چاہیے۔

پھر مزیر رعایت بچے چرانے والوں کو یہ دی ہے کہ نصاب سے زیادہ کا زیور بھی بچے کے ساتھ چرالیں تو بچے کے ساتھ زیور کی چوری پر بھی حد نہیں۔ گویا بچےچرانا ایسا کارخیر ہے کہ اس کی برکت سے ہزاروں روپے کے زیور کی چوری پر بھی قطع ید کی سزا ختم ہوگئی اور تابع متبوع کا گر بھی خوب ہے کہ کتاب و سنت میں سرے سے مذکور نہ ہونے کے باوجود چوروں کے ہاتھ کٹنے سے بچانے کے لیے امرت دھارے کی طرح استعمال ہوتا ہے۔

کفن چوروں سے حد ختم کرنا:
''ولا قطع علی النباش'' 21
''کفن چور پر قطع ید نہیں''

کفن چور کی سزا بھی قرآن مجید کی آیت﴿وَٱلسَّارِ‌قُ وَٱلسَّارِ‌قَةُ فَٱقْطَعُوٓاأَيْدِيَهُمَا...﴿٣٨ کی رو سے ''ہاتھ کاٹنا '' ہے۔ اگر کفن کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے اور قرآن مجید کی کسی آیت یا کسی حدیث میں اسے حد سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔

ائمہ ثلاثہ کا فرمان :
''واختلفوا في النباش؟ فقال أبوحنیفة وحدہ لا قطع عليه وقال مالك والشافعي و أحمد: عليه القطع'' 22
''کفن چور کے متعلق اختلاف ہے، چنانچہ اکیلے ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اور مالک، شافعی اور احمد کہتے ہیں: اس کا ہاتھ کاٹنا واجب ہے۔''

حد سے بچانے کے لیے ایک اور ضابطہ ، حقیقی اور خود ساختہ شراکت :
''ومن له علیٰ آخر دراھم فسرق منه مثلھا لم یقطع'' 23
''جس شخص کے کچھ درہم دوسرےکے ذمے ہوں، پس وہ اسے اتنے درہم چرالے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔''

آگے فرماتے ہیں:
''وکذا إذا سرق زیادة علیٰ حقه لأنه بمقدار حقه یصیر شریکا فيه''24
''اسی طرح جب وہ اپنے حق سے زیادہ چرالے (تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا) کیونکہ وہ اپنے حق کی مقدار کے ساتھ اس میں شریک بن جائے گا۔''

کسی سے چند روپے لینے ہوں خواہ وہ اس پر قرض ہوں یا اپنے کام کی اجرت ہی وصول کرنی ہو۔ اس کا سارا اثاثہ چوری کرلو، ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ کیسا عمدہ نسخہ ہے؟ چند روپے کسی کو قرض دے دو پھر اس کا سارا اثاثہ چوری کرلو۔ اگرہضم ہوگیا فہو المقصود، پکڑے گئے تو قانون حنفی کی رو سے اس کے مال میں اپنا شراکت نامہ پیش کردو۔ آپ کا ہاتھ کوئی حنفی قاضی نہیں کاٹے گا۔

اوّل تو اگر کسی شخص کے ساتھ واقعی شراکت بھی ہو تو اپنے شریک کا مال چوری کرنے پر حد ختم کرنا قرآن و سنت سے ثابت نہیں۔کیونکہ جب وہ دوسرے کا مال نصاب سے زیادہ چوری کررہا ہے، جو اس کا حق نہ تھا، تو قرآن مجید کے حکم﴿وَٱلسَّارِ‌قُ وَٱلسَّارِ‌قَةُ فَٱقْطَعُوٓاأَيْدِيَهُمَا...﴿٣٨ کے مطابق اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ تو خواہ مخواہ کی بنائی ہوئی شراکت کو اللہ کی حد باطل کرنے کا بہانہ بنانا کس طرح درست ہوسکتا ہے؟ اسی شراکت کے حیلے سے بیت المال کی چوری پر حد ساقط کی گئی ہے۔ 25

حرز (جائے حفاظت) سے چوری کرنے کی شرط:
یہ بات ظاہر ہے کہ چوری کسی فرد یا قوم کی ملکیت سے خفیہ طور پرکوئی چیز لینے کو کہتے ہیں جو ایسی جگہ سے لی جائے کہ اسے لقطہ یعنی گری ہوئی چیز اٹھانا نہ کہا جاسکے۔ ایسی جگہیں کئی طرح کی ہوسکتی ہیں۔ مثلاً آنحضرتﷺ نے پھل کے متعلق فرمایا:
''فإذا آواہ الجرین.... الخ''
یعنی ''پھلوں کے ڈھیر میں آنے کے بعد کوئی شخص اس سے چوری کرے جو ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے توہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔''

اب سب لوگ جانتے ہیں کہ کھیتوں میں غلے اور پھلوں کے ڈھیر کرنے اور سکھانے کے لیے کھلی زمین ہی استعمال کی جاتی ہے جس پر نہ دیوار ہوتی ہے نہ دروازہ۔ آنحضرتﷺ نے وہاں سے چوری کرنےپر بھی قطع ید کا حکم دیا ہے۔

اسی طرح بکریوں کے متعلق آپؐ نے فرمایا کہ باڑے میں آنے کے بعد انہیں چرانے پر ہاتھ کاٹا جائے گا اور بکریوں کے باڑے دیواروں والے بھی ہوتے ہیں ، باڑ والے بھی اور دیوار اور باڑ کے بغیر کھلی جگہیں بھی، جہاں رسیوں سے بکریاں باندھ دی جاتی ہیں۔ ضروری نہیں قفلدار عمارت ہی ہو۔

قانون حنفی میں بہت سے مقامات کو حرز (جائے حفاظت) سے خارج قرار دے کر وہاں سے چوری کرنے پر حد ختم کردی گئی ہے۔

مسجد سے چوری پر حد باطل کرنا :
''ولا یحرز بباب المسجد ما فيه حتٰی لا یجب القطع بسرقة متاعه'' 26
''مسجد کے دروازے سے وہ چیزیں محفوظ نہیں ہوتیں جو اس میں ہیں اس لیے اس کے سامان کی چوری سے ہاتھ کاٹنا واجب نہیں۔''

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول ﷺ نے مسجد سے چیز چرانے والے کو حد سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔

مسجد میں سے کسی شخص کا سامان چرانے پر حد ختم کرنا :
''ومن سرق من المسجد متاعا و صاحبه عندہ قطع'' 27
''جو شخص مسجد سے کوئی سامان چرائے، جس کا مالک اس کے پاس موجود ہو، اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔''

اس شرط کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر مسجد میں سے کسی شخص کا سامان چرالے، جب وہ پاس نہ ہو، تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔''

عُذر :
مالک پاس موجود ہونے کی شرط اس لیے ہے کہ مسجد راستے اور صحرا کی طرح غیر محفوظ جگہ ہے۔ جس طرح راستے اور صحرا میں ہر شخص آجاسکتا ہے، مسجد میں داخلہ کی اجازت بھی عام ہے۔اس لیے مالک پاس نہ ہو تو جس طرح صحرا یا راستے سے کوئی چیزاٹھا لینے پرحد نہیں، اسی طرح مسجد میں سے اٹھانے پر بھی کوئی حد نہیں۔

قطع عذر :
یہ عذر بے کار ہے، داخلے کی اجازت عام ہونے سے کسی جگہ کو صحرا یا شارع عام قرار دینا نہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہے نہ عقل و عرف کا۔ کیونکہ راستے یا صحرا سے چیزاٹھانے والے کو چور نہیں کہا جاتا۔ جبکہ داخلہ عام والی جگہوں سے چوری کرنے والے کو چور کہا جاتا ہے۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ مسجد میں سے سامان کے مالک کی موجودگی میں چوری کرنے والے کا ہاتھ بھی کاٹ دیتے تھے۔ جیسا کہ صفوان بن امیہ کی چادر کے چور کا ہاتھ آپؐ نے کاٹ دیا تھا اور مالک موجود نہ ہوتے ہوئے چوری پربھی ہاتھ کاٹ دیتے تھے۔ جیسا کہ آپﷺ نے عورتوں کے صفّہ میں سے تین درہم کی قیمت کی ڈھال چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹ دیا تھا۔ دونوں حدیثوں کی تفصیل و تخریج پیچھے احادیث کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ:
1۔ آنحضرتﷺ مسجد سے چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹ دیتے تھے۔
2۔ مسجد لوگوں کے لیے داخلے کی عام اجازت کے باوجود سڑک یا صحرا نہیں کہ وہاں سے چیز لے جانے والا حد سے مستثنیٰ ہو۔
3۔ لوگوں کے لیے کسی جگہ پر داخلے کی اجازت انہیں چوری کی صورت میں حد سے نہیں بچا سکتی۔

اب آپ مزید وہ مقامات سنئے جہاں داخلے کی اجازت کو بہانہ بنا کر قانون حنفی میں چور کی حد باطل کی گئی ہے۔

عام داخلے والی جگہوں مثلاً دکانوں، ہوٹلوں وغیرہ سے چوری پر حد باطل کرنا:
''ولا قطع علیٰ من سرق مالا من حمام أومن بیت أذن للناس في دخولھم فيه ........ ویدخل في ذٰلك حوانیت التجارة والخانات إلا إذا سرق منھا لیلا'' 28
''جو شخص حمام سے یا ایسے مکان سے چوری کرے جہاں لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت دی گئی ہو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اور اس میں تجارت کی دکانیں اور ہوٹل بھی داخل ہیں۔مگر جب ان میں سے رات کو چوری کرے۔''

عذر :
چونکہ ان مقامات میں لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت ہے، اس لیے یہ مقامات پوری طرح حرز (جائے حفاظت) نہ رہے اس لیے ان سے چوری پر حد نہ ہوگی۔

قطع عذر:
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ ن ان میں سے کسی جگہ سے چوری کو حد سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ رسول اللہ ﷺ جو عورتوں کے صفّہ سے ڈھال چرانے پر ہاتھ کاٹ دیتے تھے، جہاں داخلہ کی عام اجازت سب کو معلوم ہے۔ وہ لوگو ں کی دکانوں اور ہوٹلوں سے چوری کرنے والوں کی حد کس طرح ختم کرسکتے ہیں؟


حوالہ جات
1. ہدایہ ص216 ج2
2. ہدایہ ص216 ج2
3. الافصاح صفحہ 243 ج2
4. ہدایہ صفحہ 235 ج2۔ عالمگیری صفحہ 62 ج2
5. ہدایہ صفحہ 237 جلد2
6. الافصاح صفحہ 260 جلد2
7. عالمگیری صفحہ 63 ج2
8. عالمگیری صفحہ 63 ج2۔ ہدایہ میں بھی دوسرے الفاظ کے ساتھ یہ مسئلہ مو جود ہے
9. عالمگیری صفحہ 62 ج2
10. المغنی لابن قدامة، صفحہ 246 جلد8
11. ہدایہ صفحہ 235 جلد2
12. عالمگیری صفحہ 63 ج2
13. سنن ابی داؤد صفحہ 603
14. الافصاح صفحہ 251 جلد2
15. عالمگیری صفحہ 63 ج2
16. عالمگیری صفحہ 63 ج2
17. عالمگیری صفحہ 63 ج2
18. ہدایہ صفحہ 237 ج2
19. صفحہ 248 ج8
20. ہدایہ ص236 ج2
21. ہدایہ صفحہ 237 ج2
22. الافصاح صفحہ 254 ج2
23. ہدایہ صفحہ 238 ج2
24. ہدایہ صفحہ 238 ج2
25. دیکھیے ہدایہ صفحہ 237 ج2
26. ہدایہ صفحہ 236 ج2
27. ہدایہ صفحہ 241 ج2
28. ہدایہ صفحہ 241 ج2