دورِ ابتلاء اور اسوۂ ابراہیمی

آج کل پورا عالمِ اسلام، خاص کر ''براہیمی سرزمین'' ابتلاء اور محن کے ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جو حوصلہ شکن بھی ہے اور غضبِ الٰہی کا غماز بھی۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ پوری 'غیر مسلم دنیا' چاروں طرف سے 'مسلم دنیا' کے گرد گھیرا ڈالنے میں مصروف ہے تاکہ کوئی بھی اس کی مدد کو نہ پہنچ سکے، اپنے نہ پرائے۔ اور اندر ہی اندر اس کا دم گھٹ کر رہ جائے۔

یہ نرغہ اور یہ ابتلاء آج سے تقریباً پونے چار ہزار سال پہلے بھی شروع ہوا تھا۔ ہم تو آج تقریباً ستر کروڑ ہیں۔ اس وقت صرف ایک بندۂ خلیل تھا۔ ہمیں آج اپنے تو کم از کم کندھا دینے کو آ ہی جاتے ہیں اس وقت جو اپنے تھے وہ سب سے بڑے دشمن بھی تھے۔ لیکن ہمیں شکستوں پر شکستیں آرہی ہیں اور وہ ایک فاتح کی حیثیت سے سارے سنسار پر بھاری ہو رہے تھے، ہمیں تو یں محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا کی ہر چیز، ابر و باد ہوں یا شجر و حجر، انسان ہوں یا حیوان، پانی ہو یا آگ، ''سبھی ہمیں کھانے اور مٹانے کو دوڑتے ہیں۔ لیکن ساری کائنات ارضی میں رب کے ایک خلیلِ جلیل کی مدد کو پہنچنے کے لئے جاندار بھی بے چین ہیں اور بے جان بھی۔ پرندے ہوں یا فرشتے، آگ ہو یا ایندھن، سبھی پہرے دار بن کر آحاضر ہوئے ہیں۔ ہم آگ و خون میں لت پت ہو رہے ہیں مگر وہاں 'نار گلزار' ہو رہی.... مقامِ غور ہے کہ آخر وہ ایسی کیا بات اور کیا اقتدار تھیں جن کی وجہ سے ہم دونوں ایک دوسرے سے متضاد انتہاؤں پر چلے گئے ہیں۔ وہ آگ میں پڑ کر لالہ زار اور ہم لالہ زاروں میں رہ کر ذلیل و خوار.... ہم میں سے کسی ایک پر بن جائے تو عرب و عجم کا ہر فرد مسلم تڑپ اٹھتا ہے اور مدد کو دوڑتا ہے مگر وہاں حالت یہ تھی کہ:... باپ مخالف، برادری مخالف، شہر مخالف، ملک مخالف، عراق اور مصر جیسی 'نمرودی اور فرعونی سپر طاقتیں مخالف، حضرت مخالف، سفر مخالف، گھر مخالف، در مخالف لیکن نار ہے کہ آنکھیں بچھا رہی ہے۔ دشمن ہے تو تحائف پیش کرنے پر مجبور ہے۔ آخر قصہ کیا ہے؟ بات بھائی صاف ہے: ان کا دل نہ مے خانہ تھا اور نہ بت کدہ بلکہ ان کا دل بے داغ تھا: (قَلْبِ سَلِیْمٍ ۳۷/۸۳) جو دوئی کے ہر تصور سے پاک تھا۔ ﴿حَنيفًا﴾

خدا کے بارے میں غیر متزلزل یقین رکھتے تھے ﴿مِنَ الموقِنينَ﴾

ان کے سارے سفرِ حیات کی منزل ذاتِ الٰہ تھی۔ ﴿إِنّى مُهاجِرٌ‌ إِلىٰ رَ‌بّى﴾

جو رو قصور کے لئے نہیں بلکہ رہنمائی کے حصول کے لئے ﴿إِنّى ذاهِبٌ إِلىٰ رَ‌بّى سَيَهدينِ ﴿٩٩﴾... سورة الصافات

نہ آل و اولاد کے تن و توش کے لئے بلکہ وہ اس کی راہ میں ان کو قربان کرتے تھے۔ ﴿ذِبحٍ عَظيمٍ﴾

اقتدار کے نشہ میں دھت اور دولت و سیاست کے دیوتاؤں کی یک وقتی اور جھوٹی کرّوفر سے تعبیر کیا کرتے تھے، اس لئے سب سے بڑے زوال پذیر ستاروں سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے تھے۔ اور نہ مظاہر قدرت سے کبھی غلط متاثر ہوئے ﴿لا أُحِبُّ الءافِلينَ﴾

بلکہ حق کے معاملہ میں حد درجہ غیور تھے اس لئے باطل جب کبھی سامنے آیا تو پوری قوت کے ساتھ اپنی ضرب کاری سے اس کو پاش پاش کر ڈالا: ﴿فَر‌اغَ عَلَيهِم ضَر‌بًا بِاليَمينِ ﴿٩٣﴾... سورة الصافات

اور جس بھی میدان میں اسے ڈالا گیا، پاس رہے، پاؤں میں لغزش آئی نہ قلب و نگاہ کے طور بدلے:

﴿وَإِذِ ابتَلىٰ إِبر‌ٰ‌هـۧمَ رَ‌بُّهُ بِكَلِمـٰتٍ فَأَتَمَّهُنَّ...١٢٤﴾... سورة البقرة

اس لئے بالآخر آواز آئی، جہاں دنیا کی امامت اور قیادت یہ لو: ﴿إِنّى جاعِلُكَ لِلنّاسِ إِمامًا﴾

باقی رہے دوسرے؛ فرمایا: جو بے وفا ہیں ان کے لئے کوئی وعدہ نہیں:

﴿لا يَنالُ عَهدِى الظّـٰلِمينَ ﴿١٢٤﴾... سورة البقرة

اگر ہم یہ کہیں کہ آج یہ ساری رسوائی خدا سے ہماری اس بے وفائی کا نتیجہ ہے تو اس میں قطعاً مبالغہ نہ ہو گا وہ اپنے آقا سے وفا کر کے خلیل ہوئے اور ہم اس سے بے وفائی کر کے ذلیل ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ؎

بت شکن اُٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر، اور پسر آذر ہیں

اقبال کہتا ہے کہ یہ رونے دھونے کیسے؟ اپنے کو دیکھو کہ تم کیا ہو؟

شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلمان نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود

وضع میں تم ہو نصارےٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

بہرحال ہم سے جو معاملہ کیا جا رہا ہے، وہ ایک باوفا مسلمان سے نہیں کیا جا رہا بلکہ بے وفا مسلمان سے ہو رہا ہے ۔ اگر چاہتے ہو کہ پھر سے وہ اپنے فیضان کو آپ کے لئے عام کرے تو پھر 'اسوہ براہیمی' آپ کے سامنے ہے۔ اگر آپ کے ہاتھوں اس کی تجدید ہو گئی تو پھر ہر نار گلزار ہو گی۔ ان شاء اللہ

اسلامی سربراہی کانفرنس

پورا عالمِ اسلام، فوجی اہمیت کا علاقہ۔ مالی وسائل کے اعتبار سے سونے کی چڑیا اور روحانی لحاظ سے عظیم انبیاء، صحابہ، صلحاء اور اتقیاء کا مسکن ہے۔ مگر افسوس! مدتوں سے اب یہ صرف 'چڑیا' ہو کر رہ گیا ہے۔

فوجی اہمیت کا علاقہ ہونے کے باوجود مجاہدانہ اسلامی اسپرٹ، کیریکٹر اور عشق سے تہی دامنی اسے کھا گئی ہے۔ ملی انتشار، ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی جداگانہ ریاستوں کی تخلیق، ملت فروش حکمرانوں کا غلبہ اسلامی مستقبل سے بے نیاز اور لیلائے اقتدار کے مجنونوں کے تسلط اور غیر وفاقی ذہن کے افراد کے غلبہ نے ہمیں اور ذلیل کیا۔

اس کا مداوا یہ ہے کہ:

اسلامی اقدار زندگی اور نبوی طرز ریاست کے احیاء کی مخلصانہ کوشش کی جائے اور عالمِ اسلام کی چھوٹی چھوٹی سبھی ریاستوں کو ایک ایسے 'وفاقی نظام' میں منسلک کیا جائے جس میں ان کے جداگانہ تشخص کے باوجود 'سیاسی حکمت عملی' ملی وحدت کے تابع ہو۔

جدید اسلحہ کے معاملے میں خود کفیل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے وسائل کو یکجا کیا جائے اور اسلحہ سازی کے لئے مختلف ریاستوں میں اسلحہ ساز فیکٹریاں قائم کی جائیں اور اپنے اپنے حصص اور ضرورت کے مطابق ممبر ملکوں میں ان کو تقسیم کیا جائے۔ لیکن موقع و محل کے لحاظ سے ایک دوسرے کے لئے حاصل کرنا آسان ہو۔ دفاع کے معاملہ میں یکسانیت پیدا کی جائے اور اس کو اتنے طاقت ور بلاک کی شکل دی جائے جسے عہدِ حاضر کی عظیم طاقتوں کے لئے نظر انداز کرنا آسان نہ ہو۔ اگر مسلم چاہیں تو یہ بات کچھ زیادہ دشوار بھی نہیں ہے۔
عالمِ اسلام کی اپنی وفاقی عدالت یا یو۔ این۔ او ہو جہاں ان کے باہمی جھگڑوں کا تصفیہ کیا جا سکے اور جس کی طرف ہمارے لئے رجوع کرنا آسان ہو۔

خارجہ پالیسی اپنے 'وفاقی ادارہ' کی معرفت متعین کی جائے جس کی عالم اسلام کی سب ریاستیں سختی سے پابندی کریں۔ اور اسی وفاقی ادارہ سے آزاد یا باغی ہو کر کوئی ریاست غیر ممالک سے روابط استوار کرنے کی مجاز نہ ہو۔ اور کوشش کی جائے کہ ہر سال اسی وفاقی ادارہ کا چیئرمین باری باری ممبر ملکوں سے منتخب کیا جائے۔

وفاقی نظام میں صرف 'قرآن و سنت' کے دستور کو بنیادی حیثیت حاصل ہو۔ اور ہر ممبر ملک کے لئے یہ ضروری ہو کہ وہ بتدریج اپنے ملک میں اس کو نافذ کرے اور اسلامی اقدار حیات کو فروغ دے تاکہ ایک ایسا اسلامی وفاقی معاشرہ وجود میں آجائے جو آئندہ چل کر ملتِ اسلامیہ کی 'ملی وحدت' کے لئے مضبوط اساس بن سکے اور مسلم کو اسلامی طرزِ حیات کی برکات اور رحمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ بھی نصیب ہو جائے۔

ایک اپنی عالمی خبر رساں ایجنسی کا بھی اہتمام ہونا چاہئے تاکہ اپنی خبریں غیروں کی دروغ آشنا زبان سے سننے کے بجائے اپنی کہانی اپنی زبانی معلوم کی جا سکے۔ غیروں نے ہمیشہ توڑ موڑ کر ہماری خبروں کو پیش کیا ہے جن کی وجہ سے ہم باہم ایک دوسرے سے بدگماں رہے ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے بجائے دفع کرنے کے موڈ میں رہے ہیں۔

اسلامی سربراہی کانفرنس ہی مندرجہ بالا مقاصد کے احیاء اور استحکام کے لئے ایک سازگار فضا مہیا کر سکتی ہے۔ بہرحال ہمارے نزدیک یہ سب جزئیات ہیں، بنیادی اساس وہ عظیم تر وفاق کا قیام جس میں یہ سارے مقاصد بآسانی طے ہو سکتے ہیں۔

قرآنی نقطہ نظر سے ہم اس امر کے پابند ہیں کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور اپنی انفرادی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسے عظیم تر وفاق کی بنیاد الیں جس میں منسلک ہونے کے بعد کوئی ممبر ملک اپنے کو تنہا تصور نہ کرنے پائے اور نہ علیحدگی کا احساس اسے کسی احساس کمتری میں مبتلا کر سکے!

﴿وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّهِ جَميعًا﴾ مل کر اللہ کی رسی کو تھام لو۔

یہ رسی وہ دھاگہ ہے جس میں موتیوں کی لڑی کی طرح ہمارا ہر فرد اور ہماری ہر جمعیت ایک سلیقہ کے ساتھ منسلک ہو رہے اور یہ ہار ہم سب کے لئے سرمایۂ افتخار ہو اور سب کے گلے کا ہار یہی ہار ہو۔

ملّی حدت کو 'رسی' کہنے سے غرض ہی یہ ہے کہ اس میں منسلک ہونے کا سب تصور کر لیں۔ یا یہ ایک ٹیم کی طرح مجتمع ہو کر ایک ساتھ رسی کو تھام لیں اور تنازع للبقاء کی اس 'رسہ کشی' میں ساری دنیا سے بازی لے جائیں۔ دنیا کی امامت آپ کے ہاتھ میں ہو کیوں کہ آپ کی امامت کے بغیر 'دنیا کو' دنیا استعمال تو کر سکتی ہے، اسے کچھ دے نہیں سکتی۔ دنیا سب سے مظلوم ہے۔ اس کے دامن میں دولتِ دیں ہے نہ دنیا۔ اس کو بچانا صرف 'مسلم' کے بس کا روگ ہے:

«وإن تولیت فإن علیك إثم الأریسیین» (بخاری بنام ہرقل)

ورنہ اپنی جواب دہی کے علاوہ پوری دنیا کا گناہ بھی آپ کے ذمہ ہو گا۔ اگر آپ نے دامنِ دیں تھام کر دنیا کو بھی تھام لیا تو اللہ آپ کو اس کا دگنا اجر دے گا۔

«أسلم تسلم یؤتك اللہ أجرك مرتین» (بخاری)