فتاوی

مقتدی کے لیے سِّری نمازوں میں
فاتحہ کے علاوہ قراءة کا حکم؟

جناب حافظ صاحب! السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاته!
ہمارے ہاں ایک مولوی صاحب ہیں۔ انہوں نے اپنے مقتدیوں کو سِّری نمازوں میں یعنی ظہر، عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے علاوہ قراءت سے منع کررکھا ہے اور وہ دلیل میں سنن النسائی کی روایت پیش کرتے ہیں۔ جو ان کے الفاظ میں درج ہے:
''باب ترك القراءة خلف الإمام فیما لم یجھر''
''جس (نماز) میں جہر نہیں کیا گیا، اس میں امام کے پیچھے قرأت چھوڑ دینا۔''

''عن عمران بن حصین قال صلی النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الظهر فقرأ رجل خلفه سَبِّحِ ٱسْمَ رَ‌بِّكَ ٱلْأَعْلَى''
''عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے نماز پڑھائی ظہر کی، پس پڑھا ایک شخص نے آپ ؐ کے پیچھے ''سَبِّحِ ٱسْمَ رَ‌بِّكَ ٱلْأَعْلَى''

''فلما صلّٰی قال من قرأسَبِّحِ ٱسْمَ رَ‌بِّكَ ٱلْأَعْلَى؟ قال رجل أنا! قال لقد علمت أن بعضکم قد خالجنیھا''
''پس جب آپؐ نماز سے فارغ ہوچکے تو فرمایا، ''کس نے پڑھا ''سَبِّحِ ٱسْمَ رَ‌بِّكَ ٱلْأَعْلَى'' کہا ایک آدمی نے کہ ''میں نے!'' آپؐ نے فرمایا''جان لیا ہے کہ میں نے تم میں سے بعض لوگ قرآن کو میرے ساتھ خلط ملط کرتے ہیں۔''

''عن عمران بن حصین أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلّٰی صلوٰة الظهر أو العصر ورجل یقرأ خلفه فلما انصرف قال أیکم قرأ سَبِّحِ ٱسْمَ رَ‌بِّكَ ٱلْأَعْلَى قال رجل من القوم أنا ولم أرد بھا إلا الخیر''
''عمران بن حصین سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھی اور ایک شخص نے آپؐ کے پیچھے قرأت کی۔ پس جب آپؐ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ''تم میں سے کس نے ''سَبِّحِ ٱسْمَ رَ‌بِّكَ ٱلْأَعْلَى'' پڑھی ہے؟'' ایک شخص نے قوم میں سے کہا، ''میں نے! اور میرا ارادہ اس سے (حصول) خیر ہی کا تھا۔''

''فقال النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قد عرفت أن بعضکم قد خالجنیھا'' 1
''پس فرمایا نبی ﷺ نے ''میں نے معلوم کرلیا ہے کہ بعض تم میں سے، مجھ سے قرآن میں جھگڑا ڈالنے والے ہیں۔''

''خالجنیھا'' کی شرح قابل غور اور لائق مطالعہ ہے:
''ابوداؤد شریف میں یہ روایت ایک آدھ لفظ کےہیر پھیر سے دو سندوں سے مروی ہے، مسلم میں تین سندوں سے اور جزء القراءة للبخاری میں کم از کم 9 یا 10 سندوں سے مروی ہے۔ لہٰذا اس کی صحت میں شک نہیں ہونا چاہیے۔''

مزید توجہ طلب باتیں:
(1) صحابیؓ نے پوری سورة الاعلیٰ بلند آواز سے پڑھی تھی یا صرف پہلی ایک آیت؟
(2) سورة الاعلیٰ بلندپڑھنے والے صحابی نے سورة فاتحہ کیسے پڑھی ہوگی؟
(3) جو صحابی سورة الاعلیٰ ضرور پڑھ رہا ہے۔ وہ سورة فاتحہ چھوڑ سکتا ہے؟
(4) پوری جماعت صحابہؓ میں سے ایک نے پڑھا تھا، باقیوں نے کیا کیا تھا؟
(5) صحابی نے جہراً پڑھنے کو ''لم أردبھا إلا الخیر'' سے تعبیرکیا تھا یا قرآن کی قراءة کو؟
(6) عالم استغراق میں آپؐ احیاناً ایک آدھ آیت اونچی پڑھ لیا کرتے تھے، صحابی کو ایسا کرنے پر کیوں ٹوکا؟
(7) ''خالجنیھا'' نفی کے لیے فرمایا یا اثبات کے لیے؟ (انکار کے لیے یا اقرار کے لیے؟)
(سائل محمد اقبال، قصور)

الجواب بعون الوھاب:
کتب احادیث میں نبی کریم ﷺ کی نماز کا جو طریقہ صریحاً منقول ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ ظہر و عصر کے فرضوں کی پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ کے علاوہ بھی قراءة فرماتے تھے۔ بلکہ صحیح مسلم میں ابوسعید خدریؓ کی روایت سے مفہوم ہے، کہ گاہے بگاہے آپؐ ظہر کے فرضوں کی پچھلی دو رکعتوں میں بھی قراءت فرما لیتے تھے۔

صحیح بخاری میں ابوقتادہ ؓ سے مروی ہے:
''کان النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقرأ في الرکعتین من الظهر والعصر بفاتحة الکتاب و سورة و یسمعنا الآیة أحیانا'' 2
کہ ''نبی اکرمﷺ ظہر اور عصر کی ہر دو رکعتوں میں سورة الفاتحہ اور (اس کے ساتھ) سورة (ملاکر) پڑھتے تھے اور کبھی کبھی ہمیں بھی کوئی آیت سناتے تھے۔''

شبہ: اگر کوئی کہے کہ آپؐ کی قرأت تو بحیثیت امام کے تھی اور اس میں کسی کو کلام نہیں۔ اس وقت متنازع فیہ مسئلہ مقتدی کا ہے نہ کہ امام کا؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث ''صلوا کما رأیتموني أصلي'' کے پیش نظر اجازت ہذا مقتدی کو بھی شامل ہے۔

پھر سنن ابن ماجہ کی روایت میں ماموم کے جوز قرأت پر نص صریحاً موجود ہے، پوری روایت بسندہ ملاحظہ فرمائیں:
''حدثنا محمد بن یحییٰ حدثنا سعید بن عامر حدثنا شعبة عن مسھر عن یزید الفقیر عن جاب بن عبداللہ قال کنا نقرأ في الظهر والعصر خلف الإمام في الرکعتین الأولیین بفاتحة الکتاب و سورة وفي الأخریین بفاتحة الکتاب'' 3
کہ ''ہم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں امام کے پیچھے سورة الفاتحہ اور (اس کے ساتھ) سورة (ملا کر) پڑھتے تھے، جبکہ آخری دو رکعتوں میں (صرف) فاتحة الکتاب''

باقی رہی سنن نسائی کی وہ روایت جس کا حوالہ مولوی صاحب مذکور دیتے ہیں، تو امام نووی نے شرح مسلم میں اس کا جواب یوں دیا ہے کہ آپؐ نے اس شخص کو مطلق قرأت سے نہیں روکا تھا، بلکہ صرف آواز بلند کرنے سے منع فرمایا تھا۔ الفاظ یوں ہیں:
''معنیٰ ھٰذا الکلام الإنکار عليه و الإنکار في جھرہ أور فع صوته بحیث أسمع غیرہ لاعن أصل القراءة بل فيه أنھم کانوا یقرءون بالسورة في الصلوٰة السریة'' 4
یعنی ''اس کلام کا مفہوم یہ ہے کہ آپؐ نے اس کو بآواز بلند قراء ت سے روکا تھا۔ کیونکہ اس نے آواز دوسرے کو سنائی، نہ کہ اصلی قراء ت سے انکار مقصود ہے۔ نفس حدیث میں تو یہ مسئلہ موجود ہے کہ صحابہ کرامؓ سری نماز میں سورة پڑھتے تھے۔''

اسی بناء پر امام نوری نے اس روایت پر صحیح مسلم کے حاشیہ میں بایں الفاظ بتویب قائم کی ہے:
''باب نھي المأموم عن جھرہ بالقراءة خلف إمامه''
یعنی ''مأموم کے لیے امام کے پیچھے جہری قراءت کرنا منع ہے۔''

اور امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں یوں باب باندھا ہے:
''باب من رأی القراءة إذا لم یجھر''

لہٰذا حدیث مذکور کے الفاظ کے پیش نظر امام نسائی کی بتویب کی بجائے ابوداؤد اور امام نووی کی بتویبیں درست اور مؤقف کے اظہار کے لیے ہیں، جب کہ امام نسائی کی بتویب سے ان لوگوں کے استدلال کی طرف اشارہ ہے ، جواس حدیث سے مقتدی کے لیے قراءة کے قائل نہیں۔ امام نسائی و ترمذی وغیرہ کی یہ عام عادت ہے کہ اپنی بتویب سے دوسروں کے استدلالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ خود ان کا اپنا مؤقف بھی وہی ہو۔ چنانچہ حدیث ہٰذا کے اخیر میں امام ابوداؤد فرماتے ہیں:
''وقال ابن کثیر في حدیثه قال قلت لقتادة کأنه کرھه قال لوکرهه نھیٰ عنه''

''محمد ابن کثیر اپنی حدیث میں بیان فرماتے ہیں کہ شعبہ نے کہا، ''میں نے قتادہ سے دریافت کیا، معلوم یوں ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس شخص کا آپؐ کے پیچھے ''سبح اسم ربك الأعلى'' پڑھنا مکروہ جانا؟'' تو قتادہ نے جواب دیا، ''اگر آپؐ نے اس فعل کو مکروہ جانا ہوتا تو فعل قراء ت سے منع فرما دیتے۔''

عون المعبود میں ہے:
''فدل علیٰ عدم الکراھة'' یعنی ''اس حدیث سے دلیل ملتی ہے کہ امام کے پیچھے قراءة کرنی مکروہ نہیں۔'' 5

نیز مؤطا امام مالک میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے متعلق مذکور ہے کہ وہ سِّری نمازوں کی چاروں رکعتوں میں سورة فاتحہ کے ساتھ سورة ملایا کرتے تھے۔امام محمد کی روایت میں صراحت موجو دہے کہ ان کا یہ عمل ظہر اور عصر کے فرضوں میں تھا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مرعاة المفاتیح جلد اوّل صفحہ 600) نیز محدث شام علامہ ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب ''صفة صلوٰة النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم'' میں بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
''وجوب القراءة في السریة'' یعنی ''سری نماز میں قراء ت واجب ہے۔''

پھر اس کے تحت تحریر فرماتے ہیں کہ ''نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو سری نماز میں قراء ت پر برقرار رکھا ہے۔

بایں ہمہ آپ نے ان پر صرف قرأت میں حاصل تشویش کا انکار کیا، یہ اس وقت کا قصہ ہے جب کہ آپؐ نے صحابہؓ کو ظہر کی نماز پڑھائی تو فرمایا:
''أیکم قرأسَبِّحِ ٱسْمَ رَ‌بِّكَ ٱلْأَعْلَى'' ''تم میں سے کس نے ''سَبِّحِ ٱسْمَ رَ‌بِّكَ ٱلْأَعْلَى '' پڑھا ہے۔''

ایک آدمی نے کہا ''میں نے۔ اور میرا مقصود اس سے خیر کے سوا کچھ نہیں تھا۔''آپؐ نے فرمایا: ''مجھے احساس ہورہا تھا کہ ایک شخص نے مجھ پر قراءت خلط ملط کردی ہے۔''

ایک دوسری روایت (جو جزء القراءة للبخاری، مسنداحمد اور السراج میں بسند حسن مروی ہے) میں ہے کہ:
صحابہ کرامؓ، نبی اکرمﷺ کی اقتداء میں قراءت بآواز بلند کرتے تھے، تو آپؐ نے فرمایا:
''خلطتم علي القرآن'' ''تم نے مجھ پر قرآن کو خلط ملط کردیا ہے۔''

پھر محدث موصوف صفحہ نمبر 96 کے حاشیہ پر رقم طراز ہیں کہ سِّری نماز میں قراءت خلف الامام کی مشروعیت کے قائل، قدیم قول کے مطابق امام شافعی ہیں اور امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمد سےبھی ایک قول اسی کے موافق ہے۔ملا علی قاری اور بعض حنفی شیوخ نےبھی اس مسلک کو پسند کیاہے اور یہی قول امام زہری ، مالک، ابن المبارک ، احمد بن حنبل اور محدثین کی ایک جماعت وغیرہ کا ہے( رحمہم اللہ تعالیٰ)

اب آپ سوالات کاجواب بالترتین ملاحظہ فرمائیں:
(1) لفظ ''خالجنیھا'' سے ظاہر ہےکہ اس نے سورة کا کچھ حصہ بلند آواز سے پڑھا ہوگا۔ امام خطابی ''معالم السنن'' میں فرماتے ہیں:
''وإنما أنکر عليه مجاذبته إیاہ في قراءة السورة حین تداخلت القراءتان''
(2) جہاں تک سورة فاتحہ کا تعلق ہے، اس کے بارے میں امام خطابی فرماتے ہیں:
''فأما قراءة فاتحة الکتاب فإنه مأموربھا علیٰ کل حال إن أمکنه أن یقرأ في السکتة فعل وإلا قرأ معه لامحالة''
کہ ''جہاں تک سورة الفاتحہ کا تعلق ہے، تو وہ ہر حال میں اس کے پڑھنے کا پابند ہے، اگر ممکن ہو تو خاموشی کے وقفہ میں پڑھے ورنہ ساتھ ساتھ''
(3) سورة الفاتحہ نہیں چھوڑ سکتا۔
(4) ظاہر ہے کہ باقی صحابہ کرامؓ نے سورت سّری پڑھی ہوگی۔ اس لیے تنبیہہ کی ضرورت صرف اس ایک کو سمجھی گئی، جس نے سّری کی مخالفت کی۔
(5) ممکن ہے صحابی کی مراد دونوں ہوں۔ جہر میں چونکہ آپؐ کی سنت کی مخالفت تھی اس لیے اس سے منع فرما دیا۔
(6) آپؐ ایک آدھ آیت اونچی سناتے تھے۔لیکن اس نے زیادہ قراءت کی ہوگی نیز آپؐ کی اونچی قراءت کامقصود یہ ظاہر کرنا ہوسکتا ہے کہ سّری نمازون میں سورة فاتحہ کے علاوہ ، دیگر سورتوں کی قراء ت بھی مشروع ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ کی قراءت جہراً بے فائدہ نہ تھی۔جبکہ مقتدی کی قراء ت جہراً خلل کا باعث ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جب امام سورہ فاتحہ کے سوا کوئی سورة جہراً پڑھے گا، تو مقتدی اسے خاموشی سے سنیں گے۔ مگر جب مقتدی ایسا کرے گا، تو امام خاموش نہ ہوگا۔ لہٰذا اختلاط واقع ہوگا۔
(7) ''خالجنیھا'' سے مقصود (جہر سے) انکار ہے۔


حوالہ جات
1. نسائی شریف محشیٰ بھوجیانی صفحہ 118۔119
2. جلد اوّل ص105، باب القراء ة في العصر
3. ابن ماجة صفحہ 61
4. جلد اوّل صفحہ 172
5. جلد اوّل ص 307