کام کرو اور کرنے دو

نا اہل خود بخود مر جائیں گے

شاید ہر ملک میں ایسا ہوتا ہو، بہرحال ہمارے ملک میں تو یہ رِیت بن گئی ہے کہ جو صاحب بر سرِ اقتدار آتے ہیں وہ ملک کی تعمیر اور استحکام کی طرف کم توجہ دیتے ہیں اور ان کا سارا پیریڈ اپنی کرسی کو تحفظ دینے، حواریوں کو تعاون کی قیمت چکانے اور آنے والے انتخابات کے لئے مزید زمین ہموار رکھنے میں صرف ہو جاتا ہے۔ ان کی سرکاری کارروائیوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے نجی مسائل اور دل چسپیوں سے بہ جبر توجہ ہٹا کر ملکی مسائل کے لئے وقت نکالتے ہیں اور غیر حاضر طبیعت کے ساتھ جوں توں کر کے ٹائم پاس کرنے والی بات کرتے ہیں۔ اس لئے عموماً ان کی کار روائیوں میں بڑی خامیاں اور ضرر رساں پہلو رہ جاتے ہیں۔

دوسری طرف یہ کیفیت طاری ہے کہ شکست خوردہ جماعتیں اور افراد اربابِ اقتدار کی ٹانگیں کھینچنے، اُن کو فیل کرنے، ان کی راہ میں روڑے اٹکانے اور اندرونی تُو تکار میں الجھانے میں اپنا سارا وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ ضعف الطالب والمطلوب

ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ انتخاب کے اختتام کے ساتھ رسہ کشی بھی ختم ہو جانی چاہئے تاکہ بر سرِ اقتدار پارٹی مخالفانہ جوڑ توڑ کی فکر اور اندیشوں سے آزاد ہو کر اپنا یہ انتخابی پیریڈ پورا پورا اور بالکل یکسو ہو کر ملکی تعمیر و ترقی اور استحکام کے لئے صرف کر سکے۔ یہ ہماری بہت بڑی بد نصیبی ہے کہ انتخابات سے بلکہ اس سے سال بھر پہلے سے لے کر پوری مدتِ اقتدار تک اربابِ اقتدار بدمزگی کے سوا اور کچھ بھی اپنے پیچھے نہیں چھوڑ جاتے۔ گویا کہ ہم دونوں اپنی اپنی ذاتیات اور نجی نوعیت کی دل چسپیوں کے لئے پوری قوم، پورا ملک اور پوری مدّتِ اقتدار گنواتے چلے آرہے ہیں۔

اگر دوسری پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ کوئی برسرِ اقتدار پارٹی غلط کار ہے تو ان کو چاہئے کہ وہ اس کو پوری طرح عوام کے حوالے کر دیں تاکہ عوام اس کا پورا مزہ چکھ کر خود ہی کوئی فیصلہ کر سکیں کہ اب کیا ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ عوام کی آپ بیتی بہت بڑی قوتِ حاکمہ ہے اور وہ جو بھی فیصلہ کریں گے، پائیدار ہو گا اور جو بھی ان کے ساتھ کوئی سودا کر کے آئے گا، ادھار نہیں کر سکے گا۔ نقد پیش کرے گا اور نقد ہی وصول کرے گا۔ اس کے بجائے دوسری پارٹیاں جب بر سر اقتدار پارٹی کا شر پسندانہ تعاقب کرنا شروع کر دیتی ہیں تو اس سے غلط سلسلے چل نکلتے ہیں جو کسی کے لئے بھی خوش آئند نہیں رہتے۔ اس لئے بہتر یہ ہے بلکہ یہ ملک دوستی کا تقاضا ہے کہ جو بھی فریق بر سر اقتدار آئے، اس سے پورا پورا تعاون کیا جائے اور ان کو تھام کر چلنے کی کوشش کی جائے تاکہ وہ ملک جو ہم سب کا ملک ہے اس کا بھلا ہو پھر اس کے باوجود بھی اگر کوئی پارٹی ناکام رہتی ہے تو یہ اس کی نا اہلی اور بد نصیبی ہو گی اور یہ اپنے آپ مر جائے گی۔

ان گزارشات سے ہمارا مقصود یہ نہیں کہ تعمیری تنقید بھی نہ کی جائے بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تنقید کے انداز سے یہ مترشح ہونا چاہئے کہ آپ کسی کو تھام رہے ہیں، گرانے کی کوشش نہیں کر رہے ایسی ہی تنقید بنانے اور سنوارنے کا کام دے سکتی ہے اور اسی میں قوم کا، ملک کا، عوام کا، اربابِ اقتدار کا، اپوزیشن کا بلکہ ملک کی ہر ذی روح اور ہر غیر ذی روح شے تک کا بھلا ہے کیونکہ اس کی برکتیں اور رحمتیں جب عام ہو جاتی ہیں تو اس سے دریا کی مچھلیاںِ صحراء کے کیڑے مکوڑے اور کھیت کی جھاڑیاں تک فیض پاتی ہی۔

(1)

جناب مسٹر غلام احمد پرویز بڑے ذہین آدمی ہیں۔ اردو ادب میں ان کو خاصی دستگاہ حاصل ہے اسلامیات کے سلسلہ میں ان کے مطالعہ کا زیادہ تر دارومدار عربی کی بجائے اردو تراجم پر ہے۔ مغرب سے مرعوب ہیں۔ اہلِ مغرب کو دو چار صلواتیں سنا کر انہی کے نظریات کو قرآن و حدیث کے منہ سے اگلواتے ہیں۔ اسلام، اکابرِ دین، حدیث، فقہ اور علمائے امت کے خاص کرم فرما ہیں۔ ان کے معاملہ میں آپ کے قلم کو وہی حیثیت حاصل ہے جو مخالفینِ بنی امیہ کے لئے حجاج کی تلوار کو اور میدانِ کربلا میں حسینیوں کے خلاف یزیدیوں کی یورش کو حاصل تھی یعنی مسٹر پرویز واحد بزرگ ہیں جو اپنے ماضی، اپنے اسلاف اور ان محیر العقول تخلیقات پر فخر کرنے کے بجائے شرمسار ہیں اور جو اپنی ملّی روایات کا مذاق اُڑانے کو کارِ ثواب اور خدمتِ قرآن تصور کرتے ہیں۔

اب انہی کرم فرماؤں کو یہ تازہ غم لاحق ہو گیا ہے کہ پاکستان کے کسی گوشہ میں کوئی ''مولوی'' کیوں بر سر اقتدار آگیا ہے۔ چنانچہ ''طلوعِ اسلام'' جو پرویزیت کا ترجمان ہے۔ ''حقائق و عبر'' کے تحت ''مفتی محمود'' صاحب پر ایک نوٹ تحریر فرماتے ہوئے لکھتا ہے:

''علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ؎

قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے اس کو کیا جانیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام

اگر آج وہ زندہ ہوتے تو اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتے کہ انہی ''دو رکعت'' میں سے ایک صاحب مغربی پاکستان کے ایک صوبہ (سرحد) کی وزارتِ عالیہ کی مسند پر متمکن ہو گئے ہیں۔ ہم اس حادثۂ عظمیٰ پر سوائے اس کے کہ اہل سرحد کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کریں اور کیا کر سکتے ہیں؟ اور یہ حقیقت نتیجہ ہے اس مغربی جمہوریت کی لغت کا جس میں ؎

''بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے۔'' (طلوع اسلام جون ۱۹۷۲ء ص ۱۹)

یہ ہیں وہ مسٹر جو وسیع الظرف مشہور ہیں اور ''تنگ نظر مُلّا'' کی پھبتی سے ''عصائے پیری'' کا کام لے رہے ہیں۔ رات دن طبقاتی ذہنیت کا نوحہ کرتے رہتے ہیں لیکن ان کا اپنا یہ حال ہے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون

دنیا کے ہر گوشے میں بد سے بد تر اربابِ اقتدار پڑے ہیں، جن کی زندگیاں ننگِ قرآن اور ننگِ نبی ؑ ہیں۔ شراب و کباب کے رسیا، سیاسی شعبدہ باز، قوم فروش، کند ذہن، سیاسی تلاش، رسہ گیر، عوام دشمن الغرض ہر لحاظ سے ننگِ دین اور ننگِ وطن بر سر اقتدار آئے اور ہیں لیکن جناب مسٹر پرویز اور آپ کے ترجمان ماہنامہ طلوع اسلام کی کبھی چیخ نہیں نکلی۔ صدیوں بعد ملک کے کسی ایک صوبہ میں اگر عالمِ دین کو محدود اقتدار اور غالباً بے وفا سا مل گیا ہے تو ''مسٹروں'' کی جان پر بن گئی ہے آخر راز کیا ہے؟

جمعیۃ علمائے اسلام اور اس کے رہنماؤں سے ہمیں جو اختلاف ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ ''مسٹروں'' کے اقتدار کی بہ نسبت ایک ''عالمِ دین'' کا اقتدار ان شاء اللہ بہت زیادہ با برکعت ثابت ہوگا۔

بہر حال ''مسٹر پرویز'' اور آنجناب کے ترجمان ''طلوع اسلام'' نے علماء کے خلاف جو توہین آمیز روش اختیار کی ہے اور کمیونسٹوں کی خصوصی ٹیکنیک کے مطابق جس طرح انہوں نے طبقاتی کم ظرفی اور اسلام پسند اکابر کے سلسلہ میں معاندانہ تنگ ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ موصوف دانستہ یا نا دانستہ قرآن کے نام پر بالکل اسی طرح ''قرآنیات'' کے خلاف کام کر رہے ہیں جس طرح ان کے ہم نام اور ہم وطن جناب غلام احمد آنجہانی نے ''نبی'' کے نام پر نبی عربی ﷺ کے خلاف خدمات انجام دی تھیں۔

(2)


۵؍ جون موچی دروازہ لاہور میں ''ختم نبوت کانفرنس'' میں تقریر کرتے ہوئے سرحد کے وزیرِ اعلیٰ اور جمعیۃ علمائے اسلام کے رہنما مولانا مفتی محمود نے فرمایا:

''پاکستان کا مستقل آئین قرآن و سنت کی اساس پر ہونا چاہئے اور یہ کہ پاکستان کا سربراہ مسلمان ہو اور تمام کلیدی عہدے جن میں افواجِ پاکستان کے سربراہوں کے عہدے بھی شامل ہیں، مسلمانوں کے لئے مخصوص رکھے جائیں۔'' نیز فرمایا کہ:

''آئین میں مسلم اور غیر مسلم کی واضح تعریف موجود ہونا ضروری ہے اور ختم نبوت کے مسئلہ کو دستور میں حتمی طور پر طے کر دینا ہو گا۔'' انہوں نے اس امر پر خاص طور پر زور دیا کہ ''مستقل دستور میں اس امر کی واضح شِقّ موجود ہونی چاہئے کہ ریاست کا مذہب اسلام ہو گا۔'' نیز انہوں ے مطالبہ کیا کہ ''دستور ساز اسمبلی کے اختیارات محدود ہونے چاہئیں اور اسے اسلامی دستور کے علاوہ دوسرا دستور بنانے کا اختیار نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں یہ اعلان بھی کیا کہ ''ان کی جماعت تینوں مسلم لیگوں، جمہوری پارٹی اور جماعتِ اسلام کے ساتھ پاکستان کے اسلامی دستور کی تسوید میں پورا پورا تعاون کرے گی۔'' آپ نے کہا کہ ''ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ پاکستان میں غیر اسلامی آئین نافذ کیا جائے گا۔'' (نوائے وقت ۶؍ جون)

مفتی موصوف نے جو باتیں کہی ہیں وہ ہم سب کے دل کی آواز ہے لیکن یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ یہ عظیم مقاصد صرف تقریروں یا بیانات سے پور نہ ہوں گے بلکہ اس سلسلہ میں مخلصانہ اور متحدانہ کوششیں ہی کامیابی سے ہمکنار کریں گی۔ بالخصوص انہوں نے مرزائیت کے بارے میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ بہت ہی اہم ہے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک اشتراکیت کی طرح مرزائیت بھی عہدِ حاضر کا بہت بڑا فتنہ ہے۔ لیکن لوگ کہتے ہیں ''پیسہ شیر کے کان میں ہے۔'' یعنی مرزائیت کے مستقبل کا فیصلہ کرنا، پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے اور وہ نہ صرف مرزائیوں کی ممنون ہے بلکہ بقولِ بعض ان کی جیب میں بھی ہے۔ بہرحال آئیں، اسلامی کی تسوید کا مسئلہ ہو یا اس کے نفاذ کا، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لئے اسلام کو سرکاری مذہب قرار دینے کی بات ہو یا ملک کے کلیدی عہدوں کی تقسیم کا مسئلہ، مسلم کی تعریف کا سوال ہو یا مرزائیت کے فتنہ سے عہد برآ ہونے کا کوئی تہیہ وہ مختلف جماعتوں کے تعاون اور عوام کی بھرپور تائید کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لئے مفتی صاحب موصوف کو چاہئے کہ وہ مؤثر اقدامات کرنے کے لئے مختلف جماعتوں کو اپنے اعتماد میں لیں اور ملک کے مختلف رہنماؤں کا خصوصی اجلاس بلا کر اس کے لئے طریق کار اور لائحہ عمل تیار کریں۔ پھر اللہ کا نام لے کر چل پڑیں۔ اللہ ضرور آپ کی مدد کرے گا۔

مفتی موصوف ہم سے بہتر جانتے ہیں کہ جن امور کو انہوں نے ذکر کیا ہے ان کے خلاف مزاحمت صرف اندرونِ ملک میں ہی نہیں کی جائے گی بلکہ بیرونی طاقتیں بھی کریں گی۔ گویا کہ یہ ''نعرۂ حق'' بلند کر کے آپ نے سارے جہاں کو للکارا ہے۔ اس لئے ان سے بھی چوکنا رہنا ہو گا۔ کیونکہ بڑی طاقتیں اس کو پسند نہیں کرتیں کہ اسلام پھر سر بلند ہو۔

حکومت کے فرائض
اسلامی ہونے کی بنیادی شرائط

﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَر‌ضِ أَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ وَأَمَر‌وا بِالمَعر‌وفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ‌...٤١﴾... سورة الحج

جن کو اگر ہم زمین میں ٹھہرائیں تو وہ۔۔۔۔۔

نماز قائم كريں گے۔ زكوٰة ديں گے۔ نیکی کا حکم کریں گے۔ بدی سے روکیں گے۔

﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الكـٰفِر‌ونَ ٤٤﴾... سورة المائدة

اور جو لوگ اللہ کے قانون کے مطابق حکومت نہ کریں وہ کافر ہیں۔

دعوتِ فکر:

لوگ قرآن میں کیوں غور نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہیں؟

شعبۂ نشر و اشاعۃ ’’حزبُ اللہ‘‘ (پاکستان)