تبصرہ کتب

صبح صادق
از مولانا عبدالرحمٰن عاجز مالیر کوٹلوی
ضخامت:112 صفحات۔ دیدہ زیب مضبوط جلد
نہایت اعلیٰ سفید دبیز کاغذ۔ ہر صفحہ بیلدار
کتاب طباعت نہایت عمدہ
قیمت: مجلد پلاسٹک کور 14 قیمت آفسٹ کاعذ اعلیٰ مجلد 21 قیمت جہیز اڈیشن 27۔
ناشر : رحمانیہ دارالکتب ، امین پور بازار، فیصل آباد۔

مولانا عبدالرحمٰن عاجز مالیر کوٹلوی کا نام اب پاکستان کے علمی دینی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا۔ وہ ایک ایسے خوشگوشاعر ہیں جنہوں نے شاعری کو اپنے جبلی ژوق کی بناء پر اختیار کیا ہے او راسے دین اور اخلاق کی تبلیغ کے لیے ذریعہ اظہار بنایا ہے۔مولانا عاجز فطرتاً ریف الطبع، ملنسار اور وضعدار بزرگ ہیں، ان کی شاعری ، ان کی سیرت و کردار کی عکاس و ترجمان ہے۔ ان کے بیان و اظہار میں سلجھاؤ ہے ژولیدگی نہیں ہے۔ ان کی شاعری میں وہ رمزیت و اشاریت بھی نہیں پائی جاتی جو بعض اوقات مبہم او رمہمل ہوتی ہے۔ یہ کتاب مولانا عاجز کی نظموں کا دلکش مجموعہ ہے جس میں ابوالاثر حفیظ جالندھری اور حضرت احسان دانش مرحوم نے تعریظیں لکھی ہیں۔ مولانا عاجز کے پہلو میں ایک حساس دل ہے۔ جو ملت او رانسانیت کے انتشار اور اضطراب کو دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے۔ یہی شدت احساس اور سوز دل شعر کے سانچے میں ڈھل کر سحر حلال بن جاتا ہے۔ جناب عاجز کی شاعری میں قوم، ملک او رانسانیت کے لیے پیام ہے، وہ پیام جس کامرکزی تصور ایمان او رعمل صالح ہے، ان کی نگاہ دور رس میں بے اخلاق زندگی سے انسانی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے او رانسان ایسے قعر مذلت میں جاگرتا ہے جہاں اس کا دین اور دنیا دونوں برباد ہوجاتے ہیں۔ ہم جناب ابوالاثر حفیظ جالندھری کی اس رائے سے بالکل متفق ہیں کہ ہمارے موجودہ معاشرے کی اندھیری رات میں اس مجموعہ اشعار کو ''صبح صادق'' کا نام دینا بہت ہی مناسب او رموزوں ہے۔

چند منتخب اشعار:


(حمد) رزق تیرا ہی تو کھاتے ہیں تیرے منکر بھی ....... اللہ اللہ میرے اللہ سخاوت تیری!
یہ بدلتے ہوئے موسم یہ غروب او رطلوع ...... اہل دل کے لیے یہ بھی تو ہیں حجت تیری!

(نعت) محمدؐ پہ ہر چیز اُس نے لٹا دی......... ہوا جو بھی رمز آشنائے محمدؐ
محمدؐ جہاں کے لیے راہ نما ہیں ....... خدا آپ ہے رہنمائے محمدؐ
قدم تیرے چومے گی خود آکے منزل ... چلے گر تو برنقش پائے محمدؐ

(متفرق) دراصل ہے عالم وہی اللہ کے نزدیک ...... اللہ سے ڈرتا ہے جو کہ جلوت ہو کہ خلوت
آنکھ پرنم، دل میں غم، اپنے گناہوں پر ملال ...... ہے زباں پر جن کے استغفار اُن کی عید ہے

بھڑک اُٹھے تھے جو شعلے مرے گناہوں کے ...... انہیں باشک ندامت بجھا لیا میں نے
وہ فراز وار ہو یا برش تلوار ہو، ...... سر بخم تیری رضا پر تیرا دیوانہ آیا

ہم آپ ہی اپنی حالت پر انگشت بدنداں رہتے ہیں ...... ہم خود ہی تماشا بن بیٹھے اوروں کا تماشا کیا دیکھیں
بہت کھانا، بہت پینا، بہت سونا، بہت ہنسنا ...... یہ اپنی موت سے پہلے ہی مرجانے کی باتیں ہیں

اہل بینش بھی ہر اندھے کو بینا سمجھے ...... کس قدر قحط ہے اس دور میں بینائی کا

یہ چند اشعار ''مشتے نمونہ از خروارے'' کے مصداق ہیں ورنہ ہر شعر اپنی جگہ دُر شہوار ہے۔ صبح صادق کی نظموں میں تاثیر ہے، درد دل ہے، سوزجگر ہے او رسب سے بڑی بات یہ کہ ان میں شاعر کا خلوص شامل ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مولانا عاجز کی یہ نظمیں ان کے لیے توشہ آخرت ثابت ہوں گی اور قارئین کے لیے تطہیر فکر و نظر کا باعث۔ بلا شبہ ''صبح صادق'' صالح ادبیات میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔