صوبہ سرحد میں 'متحدہ مجلس عمل' کی ترجیحات

گذشتہ شمارے میں پاکستان میں نفاذِ اسلام کے متعلق عام مسلمان جو توقعات وابستہ کرتے ہیں، ان کا مختصر طور پراحساس دلایا گیا تھا۔ ذیلی سطور میں جو کچھ پیش کیا جائے گا، وہ پاکستان میں نفاذِ اسلام کا مفصل خاکہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اس میں بیان کیا جائے گا کہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت کس طرح اپنی ترجیحات کا تعین کرنے کے بعد تدریجی انداز میں نفاذِ اسلام کے کٹھن نصب العین پر عمل درآمد کا آغاز کرے۔

1. تحدیدات کا اِدراک

سب سے پہلی بات جو مجلس عمل کی قیادت کے لئے گہرے غوروفکر کی متقاضی ہے، وہ یہ ہے کہ سرحد کی حکومت اپنی کمزوریوں(Weaknesses)، تحدیدات (limitations) اور مضبوطیوں (Strengths)کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے اور ان کا معروضی تجزیہ کرے۔ ہمارے خیال میں صوبہ سرحد کی صوبائی حکومت کو درپیش اہم ترین مسئلہ اس کا محدود دائرۂ کار ہے۔ آئین کے مطابق صوبائی خود مختاری کی حدود متعین ہیں، اس سے ایک صوبائی حکومت تجاوز نہیںکرسکتی۔ پاکستان کے آئین کے مطابق صوبائی حکومت اپنے انتظامی اور ترقیاتی اخراجات کے لئے وفاقی حکومت کی گرانٹ پر انحصار کرتی ہے، اس کے اپنے وسائل بہت محدود ہیں۔

متحدہ مجلس عمل امریکہ کے خلاف مخالفانہ جذبات کو کیش کرکے اقتدار میں آئی ہے، مگر خارجہ پالیسی کے اُمور صوبائی دائرۂ کار میں نہیں آتے، اس بات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں صوبائی حکومت کی طرف سے غیر ضروری اصرار وفاقی حکومت کے ساتھ اس کے تصادم کے امکانات کو بڑھا سکتا ہے۔

متحدہ مجلس عمل کی حکومت قانون سازی میں بھی وسیع اختیارات نہیں رکھتی کیونکہ ہمارے ملک میں نظم و نسق اور دیگر معاملات کے متعلق اہم قوانین ہمیشہ وفاقی حکومت بناتی ہے۔ صوبائی مجالس ِقانون ساز ایسے اُمور پر قانون سازی نہیں کرسکتیں اور نہ ہی پہلے سے موجود وفاقی قوانین میں کوئی ردّوبدل کرنے کی مجاز ہوتی ہیں۔

مزید برآں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ متحدہ مجلس کی حکومت کو پہلے سے موجود سرکاری مشینری پر انحصار کرنا پڑے گا۔ وہ اپنی طرف سے مختلف افسران اور اہل کاروں کا تبادلہ تو کرسکتی ہے مگر وسیع پیمانے پر نئی مشینری تعینات نہیں کرسکتی۔ عدلیہ کے بارے میں تو اسے تبادلے کے اختیارات بھی حاصل نہیں ہیں، کیونکہ ماتحت عدالتوں کے ججوں کو ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ٹرانسفر کرتا ہے۔ مزید برآں صوبہ میں وفاقی حکومت کے مقرر کردہ گورنر کی موجودگی بھی ایک اعتبار سے صوبائی حکومت پر 'چیک'(Check) ہے۔ صوبائی گورنر اپنے اختیارات کی بنا پر پالیسی سازی پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔

متحدہ مجلس عمل کی حکومت کو بعض معاملات میں دیگر صوبائی حکومتوں پر برتری بھی حاصل ہے۔ نفاذِ اسلام کے سلسلے میں ان میں سے اہم ترین مثبت نکتہ یہ ہے کہ سرحد کے مخصوص ثقافتی پس منظر اور اسلام سے جذباتی وابستگی کی بنا پر وہاں کے عوام میں اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلہ میں نسبتاً زیادہ جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ وہاں کے لوگوں کا سادہ رہن سہن اور سماجی مساوات بھی ایک ایسی فضا پیدا کرتے ہیں جو نفاذِ اسلام کی راہ میں مزاحم ہونے کی بجائے اسے مزید آسان بناتی ہے۔ صوبہ سرحد میں پنجاب اور سندھ جیسا جاگیردارانہ نظام ہے، نہ ہی بلوچستان جیسا سرداری اور قبائلی نظام، جو ہمیشہ اسلامی انقلاب کی راہ میں روڑے اٹکاتا رہتا ہے۔

صوبہ سرحد واحد صوبہ ہے جس کے بعض علاقوں مثلاً مالا کنڈ، سوات، دیر وغیرہ میں گذشتہ کئی برسوں سے نفاذِ شریعت کی تحریک چل رہی ہے۔ سوات میں مولوی صوفی محمد کی تحریک نفاذِ شریعت اور وہاں کی حکومت کے درمیان پہلے ہی نفاذِ اسلام کے ضمن میں ایک معاہدہ یا ٹائم فریم پر اتفاقِ رائے ہوگیا ہے۔ اس طرح کی تحریکیں متحدہ مجلس عمل کی فطری معاون و مؤید ہوں گی۔

صوبہ سرحد کے ایک وسیع علاقہ ہزارہ ڈویژن، مردان اور پشاور پر سیداحمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمہم اللہ کی تحریک ِمجاہدین کے اب تک گہرے اثرات ہیں۔ مزید برآں صوبہ سرحد میں دینی مدارس کا جس قدر طاقتور نیٹ ورک موجود ہے، پاکستان کے کسی دوسرے صوبہ میں موجود نہیں ہے۔ ان کی وجہ سے وہاں دینی علوم کی اشاعت اور نفاذِ اسلام کے لئے سازگار فضا پہلے سے موجود ہے۔ افغان مہاجرین اور جہادِ افغانستان میں عملی طور پر شریک ہزاروں مجاہدین کا تعلق بھی صوبہ سرحد سے ہے۔ صوبہ سرحد کے عوام کی تہذیبی قدامت پسندی اور وہاں کا مستحکم خاندانی نظام بھی متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے لئے ایک مثبت عنصر کا حامل ہے۔ دینی مدارس اور دینی علما کو سرحد کے معاشرے میں بے حد قدرومنزلت کا درجہ حاصل ہے۔ آج بھی ایک عالم دین کو بستی کا قائد سمجھا جاتا اور اس کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔

صوبہ سرحد میں مغربی تہذیب کے دل دادہ طبقات بھی کمزور ہیں۔ مثلاً وہاں سیکولر دانشور، جدید خواتین، فلمی اداکار، مغربی قانون کے محافظ وکلا ،سیکولر صحافی اور این جی اوز پنجاب اور سندھ کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ یہی طبقات ہیں جو پاکستان میں اسلامی نظام کے مقابلے میں سیکولر زم کا نفاذ چاہتے ہیں۔ صوبہ سرحد واحد صوبہ ہے جس میں دو لسانی گروہوں کے درمیان کوئی چپقلش بھی نہیں ہے!!

متحدہ مجلس عمل کی قیادت اگر ان تحدیدات اور مثبت عوامل کو ذہن میں رکھتے ہوئے نفاذِ اسلام کی حکمت ِعملی مرتب کرے گی تواس کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہوں گے۔ متحدہ مجلس کے خیر خواہوں کو بھی سرحد کی حکومت سے حقیقت پسندانہ توقعات وابستہ کرنی چاہئیں۔

2. ساز گار فضاکی تیاری

اگرچہ صوبہ سرحد میں عمومی اور مجموعی طور پر اسلامی نظام کے متعلق فضا مقابلتاً زیادہ سازگار اور ہموار ہے، مگر اسے بہرحال مثالی نہیں کہا جاسکتا۔ صوبہ سرحد کے مختلف علاقوں میں دین داری کا ماحول بھی یکساں نہیں ہے۔ دیر، چترال، مالاکنڈ، سوات ،مانسہرہ اور بنوں کے علاقہ جات میں اسلام سے بے حد جذباتی وابستگی اور شیفتگی پائی جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں پشاور، چارسدہ، صوابی، مردان، نوشہرہ، ہری پور، ڈیرہ اسماعیل خان کی تہذیب و ثقافت پر اسلامی رنگ اتنا گہرا نہیں ہے۔ یہ علاقے میدانی اور زرخیز ہیں، یہاں قدرے خوشحالی بھی پائی جاتی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں غربت نسبتاً زیادہ ہے، شاید وہاں مذہبی جوش و خروش کی ایک و جہ یہ بھی ہو۔ چار سدہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں اے این پی کے اثرات بھی ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبہ سرحد کی مجموعی صورتحال کو پیش نظر ضرور رکھا جائے۔ بے حد حکیمانہ انداز میں اسلامی تعلیمات کو پھیلاتے ہوئے ایک ایسی اخلاقی فضا پیدا کی جائے جس میں عوام الناس اسلامی نظام کے نفاذ کے بعد تنگی یا بیزاری محسوس نہ کریں۔ زمین جس قدر بھی ہموار ہو، مگر ایک اچھے کسان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اسے مزید ہموار کرے، یہی حکمت ِعملی متحدہ مجلس عمل کو بھی اپنانی چا ہئے۔

اسلام کے متعلق بعض شرپسندوں نے غلط فہمیاں بھی پیدا کررکھی ہیں، ان کو بے حد بلیغ اور مؤثر انداز میں رفع کرنا چاہئے۔ جو لوگ کسی و جہ سے اسلامی نظام کے متعلق ذہنی تحفظات رکھتے ہیں، ان کے ساتھ بحث و جدل کی بجائے مروّت اور روا داری کا برتاؤ کیا جائے اور ان کی تالیف قلبی کی ہر ممکن کوشش روا رکھی جائے۔ اگر مناسب ہو تو مختلف علاقہ جات کا سروے کرایا جائے اور ان علاقوں کی اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے ذہنی تیاری اور سازگاری کے لحاظ سے درجہ بندی کردی جائے اور پھر ارتقائی انداز میں مرحلہ وار نفاذ کی حکمت ِعملی وضع کرلی جائے۔

3. تدریجی حکمت ِعملی

'اسلامی انقلاب'کا آدرش بلا شبہ بہت ہی دل فریب ہے۔ گذشتہ نصف صدی میں اسلامی تحریکوں کے کارکنوں کی اس مقصد سے وابستگی کسی حد تک 'اسلامی رومانویت'کی شکل اختیار کرچکی ہے جس میں عقل و خرد کے مقابلے میں جوش و خروش کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اسلامی انقلابی ایک ہی ہلے میں پرانے نظام کو تلپٹ کرکے اسلامی نظام کی بنیادیں رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے خلوص اور نیک جذبات کے احترام کے باوجود یہ کہنے کی جسارت کی جارہی ہے کہ اسلام اشتراکیت کی طرح کسی خونیں انقلاب کا مدعی ہے اور نہ اس میں پہلے سے قائم معاشرے کی فوری اُکھاڑ پچھاڑ کا کوئی تصور ہے۔ اسلام پہلے اصلاحی طریقہ اختیار کرکے لوگوں کے دلوں کوبدلنے کی سعی کرتا ہے۔ اسلام انقلابی اور ہنگامی تبدیلی کی بجائے تدریجی اور ارتقائی تبدیلی کو پسند کرتا ہے۔ قلوب و اذہان کی تبدیلی کے بغیرمحض سیاسی قوت کے بل بوتے پریہ توقع رکھنا کہ اسلامی شریعت کے نفاذ کی منزل قریب آجائے گی، صرف ایک خام خیالی ہے۔

سختی اورتشدد کے ذریعے فوری طور پر مزاحمت کی سرکوبی تو شاید کی جاسکے، مگر یہی مزاحمتی گروہ آنے والے سالوں میں اتنی شدت سے دوبارہ سر اُٹھاتے ہیں کہ اسلامی انقلاب کی تمام قوتِ نافذہ بھی ان کی مزاحمت کو کچل نہیں سکتی۔ ساری قوتیں مثبت کاموں سے ہٹ کر انہی منفی قوتوں کی بیخ کنی پر صرف ہوتی ہیں اور اسلامی انقلاب اصل ٹریک سے ہٹ جاتا ہے۔ اسلامی انقلاب کے داعی مفکرین کی نگاہ سے بھی یہ حقیقت مخفی نہیں رہی۔ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں:

''اگر کوئی اسلامی حکومت قائم ہو تو یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ چھوٹتے ہی مثالی نظام کی طرف پلٹ جائے گی ... اسلامی نظام توقائم ہی اس معاشرے میں ہوا تھا جس کے اندر سب سے پہلے ایمان کو مستحکم کیا گیا تھا۔ پھر اسی ایمان کی مضبوط بنیاد پر پورے اخلاقی نظام کی، پورے معاشرتی نظام کی، پورے معاشی نظام کی، پورے سیاسی نظام اور پورے قانونی نظام کی عمارت اُٹھائی گئی تھی۔'' (ترجمان القرآن: نومبر ۲۰۰۲ء )

ماہنامہ 'الحق' جو جامعہ حقانیہ ،اکوڑہ خٹک کا آرگن ہے،نے اپنے اداریے میں طالبان کو دیے گئے اپنے مشورے کو متحدہ مجلس عمل کی قیادت کے لئے دوبارہ دہرایا ہے:

''تدریج کا عمل اختیار کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہی اُصول، اُسلوب اور طریقہ کار اسلام، قرآن اور حضورﷺ اور خلفاے راشدین کا رہا ہے۔''

(اگست، ستمبر ۲۰۰۲ء)

سرحد کی مجلس عمل کی حکومت کی تحدیدات اور مسائل کو سامنے رکھا جائے، تو اس کے لئے اس کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار باقی نہیں رہتا کہ یہ تدریجی اور اصلاحی حکمت ِعملی پر عمل پیرا ہو۔ انقلابی اقدامات اٹھانے کے لئے اسے ویسے بھی مطلوبہ ریاستی قوت میسر نہیں ہے۔

4. حدود کا نفاذ اور حکیمانہ پالیسی

گذشتہ دنوں صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ جناب اکرم درانی نے ایک اخباری بیان میں کہا کہ دو ماہ کے عرصہ میں اسلامی نظام نافذ کردیا جائے گا اور اسلامی سزائیں بھی نافذ کی جائیں گی۔ جنوری کے دوسرے ہفتہ میں لاہور تشریف لانے والے سرحد اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ سرحد میں عنقریب مجرموں کو اسلامی حدود کے مطابق سزائیں دی جائیں گی۔ اگرچہ بعد میں مجلس عمل کے کسی ذمہ دار نے وضاحت بھی کی کہ حدود کا نفاذ ہی ان کی حکومت کی پہلی ترجیح نہیں ہے، ان کے نزدیک سماجی انصاف اور انسانی آزادیوں کے متعلق اسلام کے روشن اصول بھی بے حد اہم ہیں۔

جب بھی کسی اسلامی ملک میں یا صوبہ میں کوئی اسلام پسند جماعت برسراقتدار آتی ہے تو اس کے ذمہ داران سب سے پہلے جس بات کا اعلان کرتے ہیں وہ اسلامی سزاؤں یا حدود و تعزیرات کے نفاذ کا والہانہ وعدہ ہوتا ہے۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے منصوبوں میںبوجوہ اس معاملے کو اس قدر ترجیح اور اوّلیت دی جاتی ہے کہ اسلامی نظام کا خواب دیکھنے والے سادہ لوح عوام بھی بجا طور پر ایسی حکومتوں سے یہ توقع کرنا شروع کردیتے ہیں کہ آتے ہی وہ مجرموں کی پیٹھوں پر کوڑے برسانے کی مشق کا آغاز کریں گے اور چوری کے مرتکب حضرات کے ہاتھ کٹ کٹ کر گریں گے۔ بدکاری کے مرتکب حضرات کی سنگساری کے عام منظر معاشرے میں دہشت اور خوف کی ایسی فضا پیدا کریں گے کہ معاشرہ ایسے خبیث افراد کے وجود سے پاک ہوجائے گا، وغیرہ۔ جن حضرات نے رسالت مآب ا اور خلفاے راشدینؓ کے مبارک اَدوار کا بنظر غائر مطالعہ کیا ہے اور اسلام کی حدود و تعزیرات کی حقیقی منشا کا سراغ لگانے کی معمولی سعی کی ہے، انہیں ضرور معلوم ہوگاکہ شارعِ اسلام مجرموں کی پیٹھوں کو لہولہان کرنے کے لئے اس قدر بے تاب ہے، نہ ہی حدود کے نفاذ سے ان کا اصل مقصود اسلامی معاشرے میں خوف و دہشت کی فضا پیدا کرنا ہے۔ اسلام میںحدود کے نفاذ کو اصلاحی تدابیر پر فوقیت یا اوّلیت بھی حاصل نہیں ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ کے اپنے دور میں جن دو تین خواتین و حضرات کو رجم کی سزائیں دی گئیں، احادیث اور سیرت کی کتابوں میں ان کی تفصیلات موجود ہیں۔ حضرت ماعز ؓ اور حضرت غامدیہؓ کے واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ حضورِ اکرم ﷺ نے حتیٰ الامکان کوشش کی کہ کسی طرح ان سزاؤں کی تنفیذ مؤخر ہوجائے اور آپ کی خواہش تھی کہ یہ واقعات آپؐ کے نوٹس میں نہ لائے جاتے تو اچھا تھا۔ فقہائے اُمت کا اجماع ہے کہ جرم کے ثبوت میں معمولی سقم یا شبہ حدود کو ساقط کردیتا ہے۔ زنا کے ثبوت کے لئے اسلام نے چار عینی گواہوں اور تزکیۃ الشہود کی جو شرائط رکھی ہیں، عام حالات میں اس کا پورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہاں تفصیلات کی گنجائش نہیںہے اور نہ ہی ہم یہ فرض کئے دیتے ہیں کہ متحدہ مجلس عمل کی قیادت کو ان باتوں کا علم نہیں ہے۔

جب بھی پاکستان میں اسلامی حدود کے نفاذ کی بات ہوتی ہے، یہاں کا سیکولر اور مغرب زدہ طبقہ اس کی مخالفت میں آواز اُٹھاتا ہے۔ سرحد کی اسلامی حکومت کو بھی اس معاملے میں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایسے سیاہ بخت افرا د جو اسلامی سزاؤں کو 'وحشیانہ' کہتے ہیں، ان کی ہرزہ سرائی کا شدت سے نوٹس لینے کی بجائے اِعراض کرنازیادہ مناسب ہے۔ایسے لوگ اپنے خبث ِباطن کے اظہار پر عادتاً مجبور ہیں۔ اسلامی حدود کے نفاذ کی غیر ضروری تشہیر سے اسلام کا فلاحی اور اصلاحی پہلو دب کر رہ جاتا ہے۔ اس سے عام آدمی کے ذہن میں بھی اسلامی نظام کا صحیح تصور دھندلا جاتا ہے۔ مغربی پریس جسے اسلامی نظام سے خدا واسطے کا بیر ہے، بھی اسلامی سزاؤں کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کے ذریعے اسلام کے اِمیج (Image)کو مسخ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ طالبان کو اس ضمن میں جس طرح متعصبانہ پراپیگنڈہ کا نشانہ بننا پڑا، اس سے ہر شخص بخوبی واقف ہے۔

ہماری گزارش یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی قیادت کو اس بارے میں محتاط پالیسی اپنانی چاہئے۔ اسے یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اسلامی سزاؤں پر عمل درآمد حکومت ِسرحد کے دائرئہ اختیار میں نہیں ہے۔ سیشن جج اور دیگر ضلعی ماتحت عدالتیں انتظامیہ کے نہیں بلکہ ہائی کورٹ کے کنٹرول میں ہیں۔ پھر ماتحت عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزاؤں کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکتی ہے۔

حدود آرڈیننس کے نفاذ کو ۲۵ برس ہونے کو ہیں، مگر پاکستان میں آج تک کسی زانی مجرم کو سنگسار کیا جاسکا ہے نہ کسی چور کے ہاتھ کاٹے جاسکے ہیں، کیونکہ اس طرح کے مقدمات جب اعلیٰ عدالتوں میں پہنچتے ہیں تو مقدمہ میں کسی سقم یا کسی اور و جہ سے عموماً ایسی سزائوں کو ساقط کردیا جاتا ہے یا عدالتیں مجرموں کو ریلیف دیتے ہوئے حدود کو بعض اوقات تعزیر میں بدل دیتی ہیں۔ جب عملی حقائق یہ ہیں تو پھر متحدہ مجلس عمل کی حکومت کو اسلامی سزاؤں کے نفاذ کے لئے قبل از وقت نعرے لگانے کی خاص ضرورت نہیں ہے۔ وہ جب ان سزاؤں پر عملدرآمد نہیں کراسکتے، تو عوام سے ان کے نفاذ کے وعدے کس بنا پر کرتے ہیں۔ خواہ مخواہ اپنے خلاف منفی پراپیگنڈہ کے اسباب پیدا کرنا کسی بھی طرح حکمت و دانش کا تقاضا نہیں ہے۔

مندرجہ بالا مشورہ سے یہ تاثر نہیں لینا چاہئے کہ خدانخواستہ ہم اسلامی سزاؤں کے نفاذ پر کوئی معذرت خواہانہ موقف رکھتے ہیں۔ یہ صرف ہمارا مشورہ ہی نہیں، متحدہ مجلس عمل کے بعض اہم سرپرستوں اور مربیوں کی رائے بھی ان حالات میں اس سے مختلف نہیں ہے۔ ماہنامہ 'الحق' )مدیراعلیٰ: مولانا سمیع الحق(بھی مجلس عمل کی حکومت کو ہدایت کرتے ہوئے اپنے اداریہ میں رقمطراز ہے :

''قرآن و سنت، حدود و تعزیرات کی تنفیذ امربالمعروف و نہی عن المنکر کو جاری کرنا بحیثیت ِحکمران طبقے کے، آپ کی اہم ذمہ داری ہے لیکن تنفیذ احکام میں ﴿ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَ‌بِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ...١٢٥﴾... سورة النحل" کا پہلو نمایاں ہونا چاہئے اور تدریج کا عمل اختیار کرنا چاہئے کیونکہ یہی اُصول، اُسلوب اور طریقہ کار اسلام قرآن، حضور ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کا رہا ہے۔ بعض فروعی اور ثانوی مسائل اور جزئیات میں ضرورت سے زیادہ شدت پسندی عوام میں ناپسندیدگی کی وجہ بنتی جارہی ہے۔ آپکا عوام اور شہریوں کے ساتھ برتاؤ، سلوک، رویہ نرم اور اعلیٰ اخلاق پر مبنی اور مصلحت پسندانہ ہونا چاہئے۔''

جماعت اسلامی جو متحدہ مجلس عمل کی اہم جماعتوں میں سے ہے، کے بانی سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے یہ الفاظ بھی پیش نظر رہنے چاہئیں :

''لوگ بڑا غضب کرتے ہیں کہ اسلام کے پروگرام کی ساری تفصیل چھوڑ کر صرف اس کی سخت سزاؤں پر گفتگو شروع کردیتے ہیں۔ اسلام پہلے عام لوگوں میں ایمان پیدا کرتا ہے۔ پھر عوام کے اخلاق کو پاکیزہ بناتا ہے۔ پھر تمام تدابیر سے ایسی مضبوط رائے عامہ تیار کرتا ہے جس میں بھلائیاں پھلیں پھولیں اور برائیاں پنپ نہ سکیں۔ پھر معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام ایسا قائم کرتا ہے جس میں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہوجائے۔ وہ ان تمام دروازوں کو بند کردیتا ہے جن سے فواحش اور جرائم نشوونما پاتے ہیں۔ اس کے بعد ڈنڈا وہ آخری چیز ہے جس سے ایک پاک معاشرے میں سراُٹھانے والی ناپاکی کا قلع قمع کیا جاتا ہے۔ اب اس سے بڑا ظالم اور کون ہوسکتا ہے کہ ایسے برحق نظام کوبدنام کرنے کے لئے آخری چیز کو پہلی چیز قرار دیتا ہے اور بیچ کی سب چیزوں کو نگل جاتا ہے۔'' (ترجمان القرآن، نومبر ۲۰۰۲ء)

5. نظامِ فلاح و کفالت ِعامہ

کوئی بھی نظام جو ایک عام آدمی کی حالت سدھارنے اور معاشی کفالت کی ضمانت نہ دے، فلاحی نظام کہلانے کا حقدار نہیں ہوسکتا۔ اسلامی نظام چونکہ مکمل ضابطہ حیات ہے، اس لئے یہ نہ صرف انسانوں کی روحانی و اخلاقی ترقی کے لئے اُصول فراہم کرتا ہے، بلکہ اس میں اسلامی ریاست کے شہریوں کی دنیاوی زندگی اور عدلِ اجتماعی کے بھی روشن اُصول موجود ہیں۔ علامہ محمداقبال نے قائداعظم کو لکھے گئے ایک خط میں تحریر کیا تھا:

''اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لئے کم از کم حق معاش محفوظ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے؟ مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کیا کوشش کرتی ہے۔ اگر اس امر میں مسلم لیگ نے کوئی وعدہ نہ کیا تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون (شریعت) کے نفاذ میں اس کا حل ہے، اور موجودہ نظریات کی روشنی میں اس میں ترقی کا امکان ہے۔''

علامہ اقبالؒ نے ۱۹۳۷ء میں مسلم لیگ کے لئے جو بات کہی تھی، وہ دورِ حاضر میں کسی بھی اسلامی نظام کے نفاذ کا مقصد رکھنے والی جماعت پر منطبق کی جاسکتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کی حکومت کی کامیابی اور عوام میں اس کی مزید پذیرائی کو یقینی بنانے کے لئے عوام کی معاشی حاجات کی تکمیل کے لئے اس کے عملی اقدامات کو یقینا ترجیحی حیثیت دی جانی چاہئے۔

دورِ حاضر کی ریاست فلاحی نصب العین کا حامل ایک عظیم سیاسی ادارہ ہے۔ جدید یورپ کی ریاستیں، جہاں اِباحیت ِمطلقہ اور جنسی انارکی نے انسانوں کو حیوانوں کی سطح پر لاکھڑا کیا ہے، ان ریاستوں کا اگر وجود قائم ہے اور وہاں ایک اجتماعی خوشحالی کی فضا پائی جاتی ہے، تو اس کی بنیادی وجہ وہاں کا 'ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور' ہے جس نے ایک عام آدمی کی معاشی کفالت کی ضمانت فراہم کی ہے۔ اسلام نے چودہ صدیاں پہلے جس فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا، اس میں نظامِ کفالت عامہ کو اوّلیت کا مقام حاصل ہے۔ اسلامی ریاست ہر شہری کی بنیادی ضروریات کی کفالت کی ذمہ دار ہے۔ محسن انسانیت، خیرالبشر، سرورِ انبیا ﷺ کا فرمان ہے:

«وأيما أهل عرصة أصبح فيهم امرؤ جائع فقد برئت منهم ذمة اﷲ تعالی» ''کسی بستی میں کوئی شخص صبح اس حال میں اُٹھے کہ وہ رات بھر بھوکا رہا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ پر اس بستی کی بقاء و تحفظ کی کوئی ذمہ داری نہیں رہ جاتی۔'' (مسندامام احمدبن حنبلؒ:۲؍۳۳)

قرآنِ مجید میں ہے : ﴿وَيُطعِمونَ الطَّعامَ عَلىٰ حُبِّهِ مِسكينًا وَيَتيمًا وَأَسيرً‌ا ﴿٨﴾... سورة الدهر ''وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔''

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: «من کان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث وإن أربع فخامس أو سادس»

''جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو، وہ تیسرے آدمی کو مہمان بناکر شامل کرے اور اگر چار کا ہو تو پانچویں یا چھٹے کو۔ '' (متفق علیہ؍بخاری: ۲۰۶، مسلم: ۵۳۳۳)

کفالت ِعامہ کا یہی وہ فکر انگیز تصور تھا کہ حضرت عمرؓ جیسا خلیفہ راشد یہ پکار اُٹھا کہ اگر فرات کے کنارے کوئی بکری کا بچہ بھی بھوک سے مرگیا تو قیامت کے دن عمرؓ کو اس کی جواب دہی کرنی پڑے گی۔ علامہ ابن حزمؒ فرماتے ہیں: ''اس بات پر صحابہ کا اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص بھوکا ننگا یا ضروریاتِ رہائش سے محروم ہے تو مالدار کے خاص مال میں سے اس کی کفالت کرنا فرض ہے۔'' (المحلّٰی: ۸؍۱۵۸)

احادیث ِنبوی اور آثارِ صحابہ کی روشنی میں ابن حزمؒ یہ مسئلہ تحریر کرتے ہیں: ''ہر ایک بستی کے اربابِ دولت کا فرض ہے کہ وہ فقرا اور غربا کی معاشی زندگی کے کفیل ہوں اور اگر بیت المال کی آمدنی سے ان غرباکی معاشی کفالت پوری نہ ہوتی ہو تو سلطان ان اربابِ دولت کو ان کی کفالت کے لئے مجبور کرسکتا ہے۔ یعنی ان کے فاضل مال سے بالجبر لے کر فقرا کی ضرویات میں صرف کرسکتا ہے اور ان کی زندگی کے اسباب کے لئے کم از کم یہ انتظام ضروری ہے کہ ان کی ضروری حاجت کے مطابق روٹی مہیا ہو، پہننے کے لئے گرمی اور سردی دونوں موسموں کے لحاظ سے لباس فراہم ہو اور رہنے کے لئے ایک ایسا مقام ہو جو ان کو بارش، گرمی، دھوپ اور سیلاب جیسے اُمور سے محفوظ رکھے۔'' (ایضاً)

علامہ ابن حزمؒ نے حضرت علیؓ کا قول نقل کیا ہے کہ ''اللہ تعالیٰ نے اہل دولت کے اَموال پر ان کے غریبوں کی معاشی حاجت کو بدرجہ کفالت پوری کرنا فرض کردیا ہے۔ پس اگر وہ بھوکے ننگے ہوں یا معاشی مصائب میں مبتلا ہوں گے تو یہ محض اس لئے ہوگا کہ اہل ثروت ان کا حق ادا نہیں کرتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے باز پرس کرے گا اور ان کی کوتاہی پر ان کو عذاب دے گا۔''

فرمانِ نبویؐ ہے: ''جو یتیم اور بے سہارا اولاد چھوڑے تو میں ان کا والی ہوں۔'' (ترمذی)

حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے: ''میری یہ تمنا رہتی ہے کہ کسی کی کوئی حاجت دیکھوں تو اسے فوراً پورا کردوں۔ جہاں تک ہوسکے، ہم ایک دوسرے کی ضروریات کی کفالت کریں اور جب ہم تنہا ایسے کرنے سے عاجز آجائیں تو پھر مل کر کریں؛ یہاں تک کہ ہم سب کا معیار زندگی برابر ہوجائے۔

اللہ کی قسم! میں بادشاہ نہیں ہوں کہ تمہیں اپنا غلام بنائے رکھوں۔ میں تو اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں جس پر خلافت کی امانت مسلط کردی گئی ہے۔ مجھے چاہئے کہ میں اسے پوری کروں اور اسے تمہیں واپس کردوں۔'' (ابن جوزی، سیرتِ عمرؓ)

''جس کسی کو اپنی حاجت روائی کے لئے مال کی ضرورت ہو وہ میرے پاس آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خزانچی اور تقسیم کرنے والا بنایا ہے۔'' (ایضاً)

آپؓ کا یہ بھی قول ہے: ''اگر میں پیٹ بھر کر کھڑا ہوجاؤں اور دوسرے انسان بھوکے ہوں تو اس کے ایک ہی معنی ہیں کہ میں عوام کا اچھا والی نہیں ہوں۔''

کفالت ِعامہ اور فلاح کے پروگراموں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

(1)مختصر المیعاد (2)طویل المیعاد

مختصر المیعاد حکمت ِعملی میں عوام کی بنیادی ضروریات اور قوتِ لایموت کی فراہمی کی فوری منصوبہ بندی ہے۔ ایک انسان جو فاقہ کشی سے ایڑیاں رگڑ رہا ہو یا بیماری کی شدت سے اسے بیہوشی کے دورے پڑ رہے ہوں، اس کے لئے ریاست کے طویل المیعاد ترقیاتی فلاحی منصوبے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ متحدہ مجلس عمل کی حکومت کو چاہئے کہ وہ عوام کی معاشی کفالت ِعامہ کے لئے درج ذیل بنیادوں پر پروگرام مرتب کرے :

(i)کفالت ِعامہ فنڈ یا بیت المال قائم کیا جائے جس کا چیئرمین وزیراعلیٰ ہو، اور ارکانِ اسمبلی اور سینئر حکام اس کے اَرکان ہوں۔

(ii) ہر صوبائی حلقے میں ایک کفالت ِعامہ کمیٹی قائم کی جائے جس کا سربراہ متعلقہ رکن صوبائی اسمبلی ہو۔ اور اسکے ارکان میں اس علاقہ کی یونین کونسلوں کے ناظمین یا دین دار معززین شامل ہوں۔

(iii) صوبائی سطح پر سروے کے ذریعے ضرورت مند خاندانوںاور افراد کی درجہ بندی اسطرح کی جائے :

ا۔ ایسی بیوہ جات یا یتامیٰ اور مساکین اور معذور افراد جن کا کوئی بھی کفیل نہ ہو، ان کی فہرست مرتب کی جائے اور ماہانہ بنیادوں پر معقول مالی امداد کا بندوبست کیا جائے۔

ب۔ مستقل ذریعہ روزگار نہ رکھنے والے ایسے افراد جو خاندان کو معاشی ضروریات بہم نہ پہنچا سکتے ہوں

ج۔ ایسے نوجوان تعلیم یافتہ حضرات جو بے روز گار ہوں۔

د۔ مہاجرین افغانستان اور شہدائِ افغانستان کے خاندان۔

ھ نچلے طبقے کے سرکاری ملازمین جو اپنے خاندان کی کفالت کا بوجھ نہ اُٹھا سکتے ہوں۔

و۔ وہ قیدی جن کے کنبوں کی کفالت کا بوجھ اٹھانے والا کوئی نہ ہو۔

یہ محض ایک مجوزہ درجہ بندی ہے، اس میں مناسب ردّوبدل کیا جاسکتا ہے۔

حضرت عمرفاروقؓ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے بیت المال سے کفالت ِعامہ کے لئے درج ذیل ترجیحات وضع کررکھی تھیں:

1۔اہل بیت 2۔اہل بدر 3۔مہاجرین 4۔عامۃ المسلمین

ان سب طبقات کے لئے الگ الگ رقوم کی مقدار مقرر تھی۔ دورِ حاضر کی اسلامی ریاست کے ذمہ داران عوام الناس کی معاشی حاجات کی نوعیت اور طبقات کے پیش نظر اپنے حساب سے درجہ بندی کرسکتے ہیں۔ کفالت ِعامہ کا فریضہ نبھاتے ہوئے یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ کسی حاجت مند کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ حتیٰ الامکان کوشش کی جائے کہ یہ کام خاموشی سے کیا جائے۔ آج کل دیکھا گیا ہے کہ بیت المال سے ۱۰۰ روپے کی وصولی کے لئے مستحق حضرات کو دفتروں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں، یہ طریقہ انتہائی نامناسب اور تکلیف دہ ہے۔ کفالت ِعامہ کے لئے بنائی گئی مقامی کمیٹیوں کے ارکان کی ذمہ داری ہونا چاہئے کہ وہ مالی اعانت کی تقسیم کا کام اپنے ذمہ لیں۔ ا س کام کے لئے یونین کونسلوں کے نیٹ ورک سے مدد لی جاسکتی ہے۔

گذشتہ دنوں وفاقی حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ وہ ہر سال ڈھائی لاکھ خاندانوں کو اڑھائی ہزار روپے سالانہ کے حساب سے معاشی امداد دے گی۔ اگرچہ یہ ایک کارِخیر ہوگا مگر اس قدر قلیل امدا د سے ایک ضرورت مند خاندان کی معاشی کفالت سے سبکدوش نہیں ہوا جاسکتا۔ مالی امداد کا تعین مختلف افراد اور خاندانوں کی کم از کم بنیادی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر کیا جانا چاہئے۔ اگر تدریجی بنیادوںپرصوبہ سرحد کے ایک لاکھ خاندانوں کی کفالت کا بندوبست کردیا جائے تو اس سے وسیع بنیادوں پر لوگوں کی مالی مشکلات کم ہوسکتی ہیں۔

مختصر المیعاد منصوبہ بندی میں دوسرا اہم نکتہ قرضِ حسنہ کی فراہمی ہے۔ بہت سی بے کار افرادی قوت سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کام نہیںکرسکتی اور اپنی صلاحیتوں کو آزمانے سے قاصر ہے۔ اسے قرضِ حسنہ دے کر اجتماعی ترقی میں ان کی شراکت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ قرضِ حسنہ کی فراہمی کے لئے ضرورت مندوں کے تعین کا طریقہ کار اور اُصول ہمارے ہاں سے سودی بینکوں کے طریقہ کار سے یکسر مختلف ہونا چاہئے۔ قرضِ حسنہ محدود پیمانوں پر قابل اعتماد افراد کو ذمہ دار اور نیک افراد کی شخصی ضمانتوں کی بنیاد پر فراہم کیا جائے اور بغیر کسی معقول وجہ کے اس کی بروقت عدمِ ادائیگی کو قابل تعزیر بنایا جائے۔ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ خواتین و حضرات کے لئے الگ الگ معیار مقرر کیا جائے۔

قرضِ حسنہ میں چھوٹے چھوٹے قرضوں (مائیکرو کریڈٹ) کی اسکیم بھی شروع کی جائے۔ اس مقصد کے لئے رضا کار افراد پر مبنی اسلامی این جی اوز بھی قائم کی جاسکتی ہیں۔ ہر صوبائی رکن اسمبلی اپنے اپنے حلقوں میں ایسی تنظیموں کی نگرانی کا فریضہ انجام دے سکتا ہے۔

مختصر المیعاد حکمت ِعملی کا تیسرا اہم نکتہ یہ ہونا چاہئے کہ ریاست کی قابل کاشت بنجر اراضی کو غریب کاشتکاروں میں تقسیم کردیا جائے۔ یہ اراضی پٹے پر بھی دی جاسکتی ہے اور مالکانہ حقوق کی بنیادوں پر بھی۔ مزید برآں چھوٹے درجہ کے کاشتکاروں کو زرعی ضروریات کی فوری تکمیل کے لئے قرضِ حسنہ دیا جائے۔

مندرجہ بالا تینوں اقدامات کیلئے مخصوص فنڈز منظو رکئے جائیں اور ان کی عادلانہ تقسیم کیلئے مناسب قواعد مرتب کئے جائیں۔ ان کی تنفیذ کیلئے نہایت درجہ ایماندار افراد کا تقرر کیا جائے۔

طویل المیعاد فلاحی منصوبے

طویل المیعاد فلاحی و ترقیاتی اقدامات میں وہ منصوبہ جات شامل ہیں، جنہیں ایک مالی سال یا زیادہ سالوں میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔ ان کا مختصر خاکہ درج ذیل ہے:

1. تعلیم:تعلیم کے شعبہ میں ترجیحی بنیادوں پر تشکیل نو کی جائے۔

درج ذیل تجاویز پر غور کیا جاسکتا ہے :

1. ایک اعلیٰ سطحی تعلیمی کمیشن قائم کیا جائے جس کا بنیادی مقصد پورے تعلیمی نظام کے ڈھانچہ کا جائزہ لے کر اس میں غیر اسلامی عناصر کی نشاندہی کرنا اور بعد میں اسے عصری تقاضوں کی روشنی میں اسلامی خطوط پراستوار کرنا ہو۔

2. جن تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم جاری ہے، انہیں فی الحال جاری رکھا جائے مگر اس میں کچھ ایسی اصلاحات کی جائیں کہ مخلوط تعلیم کے برے اثرات کم ہوجائیں۔ مثلاً یونیورسٹی کی سطح پر اگر برقعہ نہیں تو بڑی چادر کو ضروری قرار دیا جائے اور کلاسوں میں اس طرح جداگانہ انتظام (Partition)کیا جائے کہ ایک کمرے میں ہونے کے باوجود طلبا اور طالبات کے درمیان پردہ حائل رہے۔

ثانیاً، ویمن کالجز میں ایم اے کی زیادہ سے زیادہ کلاسز کا اجرا کیا جائے تاکہ جو والدین اپنی بچیوں کو یونیورسٹی میں نہیں بھیجنا چاہتے، وہ وہاں تعلیم حاصل کرسکیں۔

ثالثا ً،خواتین کے لئے ایک الگ یونیورسٹی قائم کی جائے۔

3. میٹرک تک کی تعلیم کو لازمی اور مفت قرار دیا جائے۔ دور دراز کے علاقوں میں تعلیمی مدارس کے قیام کو ترجیح دی جائے۔

4. سرکاری شعبہ میں ماڈل دینی مدارس قائم کئے جائیں۔ جہاں قرآن و سنت کی تعلیم کسی خاص مسلک یا فقہی سکول کی بجائے مختلف مکاتیب کے امتزاج کو اس طرح پیش نظر رکھا جائے کہ قرآن و سنت کی حقیقی منشا مقصد ِتعلیم قرار پائے۔

5. دینی مدارس کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی جائے مگر بے جا مداخلت سے گریز ضروری ہے۔

6. مسجد مکتب سکیم یعنی مساجد میں تعلیم کو قابل عمل اور متوازن صورت میں جاری کیا جائے۔

7. سائنسی تعلیم کے لئے مزید ادارے قائم کئے جائیں جو راسخ الاعتقاد مسلمان سائنسدانوں کی تربیت کا فریضہ انجام دیں۔

2. صحت:صحت کے شعبہ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بنیادی ہیلتھ مراکز کو دور دراز کے مقامات تک پھیلایا جائے۔ عوام الناس کو مفت اور سستے علاج کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ جعلی ادویات کے گھناؤنے کاروبار کا سختی سے قلع قمع کیا جائے۔ خواتین کے علاج کیلئے زیادہ سے زیادہ خواتین ڈاکٹرز تیار کی جائیں۔ دور دراز پہاڑی علاقوں میں صحت کی سہولیات پہنچانے کے لئے گشتی میڈیکل ٹیمیں بنائی جائیں۔ نرسنگ کے شعبہ میںمردوں کو بھی تربیت دی جائے۔ ڈاکٹرز میں انسانی خدمت کے جذبات کو اسلامی انداز میں پروان چڑھایا جائے ۔

3. ذرائع نقل وحمل:صوبہ سرحد کا وسیع علاقہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جہاں آمدورفت کے لئے ذرائع نقل و حمل محدود ہیں۔ بہت سے علاقے پختہ سڑکوں سے محروم ہیں۔ بعض علاقوں میںبرف باری اور سلائیڈز کی وجہ سے شاہرات شدید متاثر رہتی ہیں۔ ایسے علاقوں میں ترجیحی بنیادوں پر ترقیاتی منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچائے جائیں۔

4. پینے کا پانی:پینے کے صاف پانی کی فراہمی یوں تو ایک قومی مسئلہ ہے، مگر یہ پہاڑی علاقوں میں بے حد سنگین ہے۔ وہاں کافی فاصلہ طے کرکے چشموں یا ندی نالوں سے پانی لایا جاتا ہے جو کہ بے حد دشوار گزار ہے۔ اکثر چشمے بااثر افراد کے قبضہ میں ہوتے ہیں جہاں سے غریب آدمی کو پانی حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسے ترقیاتی منصوبہ جات بنائے جائیں جس سے اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد مل سکے۔

5. ماڈل ویلیج کا قیام:جن لوگوں کو صوبہ سرحد کے پہاڑی علاقوں میں سفر کرنے کا موقع ملا ہے، انہیں بعض اوقات یہ دیکھ کر بے حد تعجب ہوتا ہے کہ بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیوں پر بکھرے ہوئے دور دور تک چھوٹے چھوٹے گھر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا اپنا کلچر ہے۔ بعض اسباب کی بنا پر یہ لوگ آج تک اس منتشر حالت میں رہے ہیں۔ ایسے علاقوں کا سروے کرنے کے بعد 'ماڈل ولیج' قائم کئے جائیں جن میں دور دور بکھرے ہوئے پہاڑی خاندانوں کو ایک جگہ یکجا کیا جاسکے تاکہ وہاں زندگی کی سہولیات مثلاً تعلیم، صحت اور بجلی وغیرہ کی فراہمی کا کام آسان اور سستا ہو۔ ان لوگوں کو جدید تمدن کی سہولیات سے بہرہ مند ہونے کے لئے تیار کیا جائے۔

6. صنعتوں کا قیام:صوبہ سرحد صنعتی اعتبار سے بے حد پسماندہ ہے حالانکہ آگے بڑھنے کے امکانات وہاں کسی سے کم نہیں۔ درّہ آدم خیل جیسے علاقوں میں کلاشنکوف تک تیار کی جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہاں پرایسی صنعتیں قائم کی جائیں جن میں افرادی قوت کی کھپت زیادہ ہو تاکہ بے روزگاری کے خاتمہ میں مدد مل سکے۔ سنٹرل ایشیا سے قریب ہونے کی وجہ سے صوبہ سرحد میں صنعتی اشیا کی برآمد کے امکانات روشن ہیں۔ صوبہ کے خام مال اور افرادی قوت کو سامنے رکھ کر 'کاٹیج انڈسٹری' کا جال پھیلایا جاسکتا ہے۔

7. پاور پراجیکٹ:صوبہ سرحد کی حکومت کا 'کالا باغ ڈیم' کی حمایت میں بیان خوش آئند ہے۔ اس صوبہ میں چھوٹے چھوٹے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام ہوسکتا ہے جسے صوبائی حکومت خود انجام دے سکتی ہے۔ ماہرین سے ایسے منصوبے ڈیزائن کرائے جائیں۔

8. بیورو کریسی (قوتِ نافذہ)

قوتِ نافذہ کے بغیر کوئی بھی نظام نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ ناگزیر تو نہیں مگر ریاستی مشینری کی اس نظام سے نظریاتی وابستگی اس کے نفاذ کی کامیابی کے تناسب کو ضرور بڑھا دیتی ہے۔ جدید پبلک ایڈ منسٹریشن قوتِ نافذہ کو دو درجات میں تقسیم کرتی ہے۔ پہلی سطح پر سیاسی اشرافیہ (Political Elites) ہے، ان کا بنیادی منصب نظام کے بنیادی خدوخال اور مختلف شعبہ جات میں ترجیحات کے تعین کے بعد پالیسی سازی (Policy Formulation) کا اہم فریضہ سرانجام دینا ہے۔

موجودہ حکومتی ڈھانچے میں وزیراعلیٰ، کابینہ کے ارکان،مشیران اور گورنر سیاسی اشرافیہ میں شامل ہیں۔ دوسری سطح پر حکومتی مشینری یابیوروکریسی آتی ہے۔ ان کا بنیادی فریضہ آئین، قواعد و ضوابط اور حکومتی پالیسی پر عملدرآمد (Policy Implementation) ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں کیونکہ سیاسی اشرافیہ پالیسی سازی جیسے اہم کام کو خود نہیں کرسکتی، اسی لئے پالیسی بنانے اور اس پر عمل درآمد کے دونوں کام بالفعل بیوروکریسی ہی انجام دیتی ہے۔ صوبائی سطح سے لے کر تحصیل کی سطح پر حکومتی مشینری ایک انتظامی زنجیر میں منسلک رہتے ہوئے اپنے فرائض نبھاتی ہے۔ اس کے اہم ترین ارکان میں چیف سیکرٹری اور تمام شعبہ جات کے سیکرٹری صاحبان ہوتے ہیں۔ عام طور پر بیوروکریسی کی ترکیب انہی اہم افسران کے لئے ہی استعمال کی جاتی ہے۔ حکومتی مشینری چونکہ مستقل بنیادوں پر قائم رہتی ہے، اسی لئے سیاسی اشرافیہ عام طور پر اس کے مقابلے میں کمزور رہتی ہے۔ ہمارے ہاں فوجی اور سول بیوروکریسی کی وفاقی سطح پر اقتدار میںطویل شرکت نے بھی حکومتی افسران کے مزاج کو متاثرکیا ہے۔

صوبائی مشینری کو تین سطحوں Tiers میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

1. صوبائی سیکرٹریٹ: یہ درحقیقت صوبائی حکومت کے ہیڈکوارٹر کا کام کرتا ہے۔ اس کا سربراہ صوبہ کا سب سے بڑا افسر یعنی چیف سیکرٹری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام شعبہ جات کے سربراہان جو سیکرٹری کہلاتے ہیں، ان کے دفاتر بھی یہاں پر ہوتے ہیں۔ ہر شعبہ میں ایڈیشنل سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری اور سیکشن آفیسرز تعینات ہوتے ہیں۔ سیکرٹریٹ ایک پالیسی ساز ادارہ ہے جو پورے صوبے کی مشینری کو کنٹرول کرتا ہے اور حکومتی پالیسی کے نفاذ کو یقینی بناتا ہے۔ وزیراعلیٰ اور کابینہ کے ارکان سیکرٹریٹ کے ذریعے صوبائی معاملات کی نگرانی کرتے ہیں۔

2. ملحقہ شعبہ جات یا ڈائریکٹوریٹ: ملحقہ شعبہ جات کے سربراہان، انتظامی سیکرٹری کو جواب دہ ہوتے ہیں۔ وہ حکومتی احکامات موصول کرکے فیلڈ کے افسران کے ذریعے اس پر عمل درآمد کراتے ہیں اور اس کی رپورٹ صوبائی سیکرٹری کو ارسال کرتے ہیں۔ ریجنل ڈائریکٹر بھی مختلف علاقہ جات کو کنٹرول کرتے ہیں۔

3. ضلعی حکومتیں: حال ہی میں ضلعی حکومتوں کے ڈھانچہ میں انقلابی اصلاحات کی گئی ہیں۔ ڈویژنل کمشنرز کے عہدے یکسر ختم کردیئے گئے اور ڈپٹی کمشنروں کی جگہ پر ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیشن آفیسرز (DCOs) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ہر ضلع میں DOs,EDOs اور DDOs تعینات کئے گئے ہیں۔ ضلع کا کنٹرول ضلعی ناظم کو دیا گیا ہے جو کہ عوام سے منتخب شدہ ہوتا ہے۔

4. پولیٹیکل ایجنسی : صوبہ سرحد میں ضلعی حکومتوں کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں مختلف ایجنسیوں کاانتظامی ڈھانچہ بھی موجود ہے۔ کل سات ایجنسیاں ہیں، مثلاً خیبرایجنسی، مہمند ایجنسی، مالا کنڈ ایجنسی، وزیرستان ایجنسی، باجوڑ ایجنسی وغیرہ۔ ان کا انتظامی کنٹرول پولیٹیکل ایجنٹ سنبھالتے ہیں جو براہِ راست گورنر کو جواب دہ ہوتے ہیں۔ پی اے کا عہدہ بہت بااختیار ہوتا ہے، اس کے پاس بیک وقت ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کے اختیارات ہوتے ہیں۔

صوبہ سرحد کی صوبائی حکومت کے انتظامی ڈھانچہ کا مختصر خاکہ پیش کرنے کے بعد درج ذیل تجاویز پیش کی جاتی ہیں کہ حکومتی مشینری کو نفاذِ اسلام کے اہم مشن میں کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے :

1. رجحان سازی(Re-orientation): یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان میںبیوروکریسی کا عمومی مزاج آج بھی وہی ہے، جس کی تشکیل نو آبادیاتی دورکے تقاضوں کے پیش نظر کی گئی تھی۔ اس کی تربیت انہی خطوط پر کی جاتی ہے اور اس کے کام کرنے کا سٹائل بھی بہت کم بدلا ہے۔ قواعد و ضوابط کے سینکڑوں مجموعہ جات من و عن نافذ العمل ہیں، کہیں کہیں معمولی سی ترامیم کی گئی ہیں۔ یہ بیوروکریسی انگریز دورمیں بہت بااختیار تھی اور سیاستدانوں یا عوام کی مداخلت کے بغیر کام کرنے کی عادی رہی ہے۔ ان اختیارات کے ساتھ ایک عام افسر اپنے آپ کو وقت کا حاکم سمجھتا تھا۔ انگریز بھی یہی چاہتے تھے کہ وہ بارعب حاکم بن کر نظام چلائیں، عوام کے خادم کے طور پرنہیں۔ گذشتہ اَدوار میں انہیں 'عوام کے خادم' بنانے کی نیم دلانہ کوششیں کی گئیں مگر وہ بہت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔

'متحدہ مجلس عمل' کے لئے سب سے اہم چیلنج یہ ہے کہ وہ حکومتی مشینری میں 'عوامی خادم' ہونے کے احساسات کو کیسے اجاگر کرے۔ ہمارے خیال میں اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ صوبائی وزرا سب سے پہلے عملی طور پر اپنے آپ کو عوامی خادم بنا کر پیش کریں، پروٹوکول کلچر اور انتظامی تعیشات کی حوصلہ شکنی کریں، دفتری اور ذاتی زندگی میں سادگی اور عوامی خدمت کو شعار بنائیں۔ اس کے بعد اسلامی نظام کے نفاذ اور بیوروکریسی کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تربیتی کورسز اور سیمینار کا انعقاد کرائیں۔ اس کا آغاز سینئر ترین افسران سے کریں۔ صوبائی سیکرٹری صاحبان، شعبہ کے سربراہان اور ضلعی ناظمین کی رجحان سازی کے لئے خصوصی کورسز ترتیب دیے جائیں۔ افسران میں اسلامی لٹریچر کو وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے۔ اسلامی تاریخ کے عمال کی قابل تقلید زندگیوں کو رول ماڈل (Role Model) بنا کر پیش کیا جائے۔ انگریزی دور کے افسران اور ان کے لائف سٹائل کے خلاف نفرت کے جذبات پروان چڑھائے جائیں۔

سیکرٹریٹ، گورنر ہاؤس اور دیگر جگہوں پر جہاں کہیں انگریز دور کے افسران کے تصاویر آویزاں ہوں، اسے اتار کر سٹور میں رکھوا دیا جائے۔ ایک ایسا دفتری کلچر پیدا کیا جائے جس کی بنیادیں اسلامی اقدار اور دھرتی کی شاندار روایات پر مبنی ہوں۔ انگریزی دور کے دفتری کلچر کے بدترین نمونوں کی پیروی ممنوع قرار دی جائے۔

2. کلیدی آسامیاں:صوبائی حکومت میں چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، فنانس سیکرٹری، ایجوکیشن سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے عہدے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ کوشش کی جائے کہ ان عہدوں پرایسے افراد کو تعینات کیا جائے جو متحدہ مجلس عمل کے پروگرام سے کافی حد تک متفق ہوں۔ دین سے بیزار ، اِلحاد پسندی کے رجحانات کے حامل افراد کا تقرر کلیدی آسامیاں پر کرنے سے گریز کیا جائے۔

چند دیگر شعبہ جات مثلاً صحت، لوکل گورنمنٹ، جنگلات، زراعت وغیرہ کے سیکرٹری ایسے افسر ہوں جو پیشہ ورانہ قابلیت کے ساتھ ساتھ اسلامی ذہن بھی رکھتے ہوں۔ دیگر محکمہ جات کے انتظامی سیکرٹری بھی ایسے ہوں جو مجلس عمل کی پالیسیوں کے واضح طور پر مخالف نہ ہوں۔

3. بدعنوانی کا خاتمہ :بیورکریسی میں کرپشن کے خاتمے کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں، کرپٹ افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے مگر قانونی تقاضوں کی تکمیل کا خیال ضرور رکھا جائے۔ افسران کے خلاف جائز و ناجائز شکایات کا امتیاز پیش نظر رہنا چاہئے۔

4. انتظامی اخراجات:غیر ضروری انتظامی اخراجات کو کنٹرول کیا جائے مگر قانونی دائروں میں میسر سہولتیں واپس نہ لی جائیں۔ ٹرانسپورٹ، ٹیلیفون اور بجلی وغیرہ کے ناجائز استعمال کو بالخصوص کم کیا جائے۔

5. نفاذِ اسلام کمیشن:نفاذِ اسلام کمیشن قائم کیا جائے جس کا سربراہ چیف منسٹر اور صوبے کا چیف سیکرٹری ہو۔ اس کمیشن کا سیکرٹریٹ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں واقع ہو۔ کیونکہ یہی وہ شعبہ ہے جس کا حکم سارے شعبے مانتے ہیں۔

صوبائی اور ضلعی سطح پر کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کے لئے مؤثر نیٹ ورک قائم کیا جائے۔ مناسب ہوگا اگر ہر ضلع میں ایک 'شریعت کمیٹی' قائم کردی جائے جو اپنی کارگزاری کے لئے کمیشن کو رپورٹ کرے۔

6. اکھاڑ پچھاڑ سے گریز:بیور کریسی میں بہت زیادہ اُکھاڑ پچھاڑ نہ کی جائے کیونکہ اس سے اجتماعی طور پر بددلی اور عدمِ تعاون کی فضا پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ نہایت حکمت کے ساتھ صرف ناگزیر تبدیلیاں کی جائیں۔

7. اسلام پسندوں کی فہرست:متحدہ مجلس عمل کو وفاقی اور صوبائی سروسز کے ان افسران کی فہرست مرتب کرنی چاہئے جو نفاذِ اسلام میں مخلص ہوں اور اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کرنا چاہتے ہوں۔ ان افسران کو سینیارٹی کے لحاظ سے اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا جائے۔

7. ذرائع ابلاغ

جدید دور میں ذرائع ابلاغ کو جو اہمیت حاصل ہے، دین پسند جماعتوں کو ان کا عملاً ادراک نہیں ہے۔ حکومتی پالیسیوں اور اقدامات سے عوام الناس کو آگاہ اور باخبر رکھنے کے لئے ذرائع ابلاغ مؤثر ترین رابطے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ دورِ حاضر میں یہودیوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ذرائع ابلاغ کو جس طرح استعمال کیا ہے، اس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئے۔ ذرائع ابلاغ کا استعمال صرف پالیسیوں اور حکومتی اقدامات کی نشرواشاعت تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ مخالفانہ پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دینے اور مخالف قوتوں پر جوابی ابلاغی حملہ کرنے کے لئے بھی ذرائع ابلاغ کو استعمال میں لایا جانا چاہئے۔ من جملہ دیگر باتوں کے طالبان حکومت کی یہ کمزوری تھی کہ انہوں نے اپنے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لئے مؤثر حکمت ِعملی تیار نہ کی بلکہ ٹی وی جیسے اہم ذریعہ ابلاغ کو یکسر بند کردیا۔

متحدہ مجلس عمل کو ایک میڈیا سیل قائم کرنا چاہئے جو عالمی اور مقامی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں طالبان کے متعلق شائع ہونے والی خبریں مضامین، اداریوں اور کالموں پر نگاہ رکھے۔ متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے خلاف سیکولر، دانشوروں کے منفی پراپیگنڈہ کا مؤثر اور فوری جواب دیا جائے۔ وزارتِ اطلاعات و ثقافت اور محکمہ تعلقاتِ عامہ کے ذریعہ اخبارات کے مدیران اور صحافیوں سے بہتر اور دوستانہ تعلقات استوار کئے جائیں۔ اگر وسائل اجازت دیں تو صوبہ سرحد کی حکومت ٹیلیویژن اسٹیشن قائم کرنے پر غور کرسکتی ہے کیونکہ آئین میں اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اسلامی نظام کے نفاذ اور اصلاحات کے لئے عوام الناس کو اعتماد میں لینے کا ذرائع ابلاغ سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ اس بارے میں مفصل حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

8. معاشی اصلاحات

معاشی اور مالیاتی شعبہ جات میں اصلاحات کے نفاذ کے ضمن میں سود کے خاتمے کو اوّلین درجہ حاصل ہے۔ صوبائی حکومت کے لئے شاید پرانے مالیاتی اداروں کو ختم کرنا ممکن نہ ہو، اس لئے غیر سودی بنیادوں پر نئے مالیاتی ادارے قائم کئے جائیں جو غیر سودی معیشت کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکیں۔ علاوہ ازیں ٹیکسوں اور حکومتی محصولات کی وصولی کے نظام کا مفصل جائزہ لیا جائے۔ ان میں غیر اسلامی عناصر کو نافذ العمل نہ رہنے دیا جائے۔ صوبہ سرحد اگرچہ پنجاب کی طرح جاگیردارانہ ماحول نہیں رکھتا، پھر بھی جہاں کہیں ضرورت محسوس کی جائے، زرعی اصلاحات نافذ کی جائیں۔

9. اجتماعی عدل

اجتماعی عدل کو یقینی بنانے کے لئے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی جائے جو اس سلسلے میں سفارشات تیار کرے ۔ معاشی اصلاحات کے نفاذ میں اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر ماہرین قانون نے نہایت قابل قدر لٹریچر پیدا کیا ہے، اس سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔

آخری گذارش:مندرجہ بالا سطور میں جو تجاویز پیش کی گئیں ہیں، انہیں نفاذِ اسلام کے ضمن میں محض بنیادی ترجیحات کے اِجمالی خاکے کی حیثیت حاصل ہے۔بہت سارے شعبہ جات ایسے ہیں جن کے بارے میں بہت کچھ کہنے کی گنجائش باقی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر متحدہ مجلس عمل کی حکومت مندرجہ بالا چند ترجیحات کے نفاذ میں مناسب پیش رفت کرتی ہے تو اس سے اسلام کے عمومی نفاذ کی راہیں کھل جائیں گی۔ اگرچہ یہ تجاویز صوبائی حکومت کے قانونی اور آئینی دائرہ کار کو سامنے رکھ کر دی گئی ہیں، اگر مستقبل میں پاکستان میں ملکی سطح پر نفاذِ اسلام کیلئے ترجیحات متعین کرنے کی ضرورت پیش آئے تو ان سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکے گا۔