آغاز وحی سے ہجرت تک (قسط 1)

یہ مقالہ اپنے عنوان سے بظاہر آنحضرتﷺ کے دو رنبوت کے ابتدائی 13 برس کی تاریخی جھلک ہے۔ دراصل دعوت و اصلاح کی اسلامی تحریک کے ارتقاء کا ایک مکمل نقشہ بھی پیش کررہا ہے جسے آج کی زبان میں ''تاریخ انسانیت کے ایک عظیم انقلاب سے'' تعبیرکیا جاسکتا ہے۔ یہی وہ دور عزیمت و استقلالی تھا جس نے دنیائے انسانیت کے سامنے کٹھن سے کٹھن حالات میں حق پرستی اور پامردی کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور تجدید احیائے دین کی راہوں پر چلنے والوں کے لیے سنگ میل لگائے ہیں۔دعوت اسلامی کا یہ ابتدائی دور ہمیں بتاتا ہے کہ صحیح تحریک اگرچہ اعلیٰ نصب العین ، بلند فکری اور دوسرے تمام نظریات پر علمی برتری کی حامل ہوتی ہے لیکن وہ اپنی جامعیت اور نتیجہ خیزی کی بنا پر فکر و نظر تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کا اصل مقصود فرد و معاشرہ میں حق کی قوتوں کی انگیخت ہوتی ہے جو عمل خیر کا موجب بنتی ہیں۔ اس میں علم و معرفت کی اہمیت اسی اعتبار سے ہوتی ہے کہ وہ حق و خیر کے راستوں کی نشاندہی اور باطل سے تمیز کا سبب بنتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء کا ان علاقوں میں مبعوث ہونا ضروری نہیں ہوتا جو علم و فکر کی بالاتری کی وجہ سے سیادت پر فائز ہوں اور نہ ہی انبیاف کی دعوت میں صرف صاحب علم و فضل لوگ ہی ملحوظ ہوتے ہیں نیز یہ دور ِ محن یہ عقدہ کشائی بھی کرتا ہے کہ انبیاء اگرچہ وحی و عصمت کی بدولت عام انسانوں سے ممتاز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے صرف وہی مطاع قرار پاتے ہیں لیکن تبلیغ و دعوت کے میدانوں میں وہ عام لوگوں ہی کی طرح مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں اور اعلیٰ فطرت انسان کی حیثیت سے ابتلا و امتحان میں سرفراز نکلتے ہیں۔ اگر نور نبوت کے ساتھ ان کی یہ بشریت نظر انداز کردی جائے تو پھر ان کا دوسروں کے لیے قابل اتباع اور نمونہ ہونے کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا۔یہ مقالہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مدظلہ تعالیٰ کی تحریروں کی تلخیص ہے اور اسے موجودہ شکل میں ادرہ مطالعہ تحقیق نے مرتب کیا ہے۔ (ادارہ)


تاریکیوں میں بھٹکنے والی انسانیت کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے اللہ نے اپنے ایک برگزیدہ بندے کو منتخب فرمایا اور اس انسانیت کا امام مقرر کیا۔یہ ذمہ داری آپؐ کو یکایک سونپی گئی اور اپؐ اس کے کسی درجہ میں خواہشمند نہ تھے۔ یہ انتخاب خداوندی ہی تھا کہ آپؐ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا اور ایک عالمگیر دعوت کی ذمہ داریاں آپؐ کو سونپ دی گئیں۔ آپؐ کے حاشیہ خیال میں بھی اس کا ارادہ یا خواہش تو درکنار اس کی توقع تک کبھی نہ گذری تھی، بس یکایک راہ چلتے انہیں کھینچ بلایا گیا اور نبی بنا کر وہ حیرت انگیز کام ان سےلیا گیا جس کا کوئی نقش آپؐ کی سابق زندگی میں نظر نہیں آتا۔مکہ کے لوگ خود جانتے تھے کہ غار حرا سے جس روز آپ ؐ نبوت کا پیغام لے کر اُترے اس سے ایک دن پہلے تک آپؐ کی زندگی کیا تھی ، آپؐ کے مشاغل کیا تھے، آپ کی بات چیت کیا تھی، آپؐ کی بات چیت کے موضوعات کیاتھے۔آپؐ کی دلچسپیاں اور سرگرمیاں کس نوعیت کی تھیں۔ یہ پوری زندگی صداقت، دیانت، امانت اور پاک بازی سے لبریز ضرور تھی، اس میں انتہائی شرافت، امن پسندی، پاس عہد، ادائے حقوق وار خدمت خلق کا رنگ بھی غیر معمولی شان کے ساتھ نمایاں تھا مگر اس میں کوئی چیز ایسی موجود نہ تھی، جس کی بنا پر کسی کےوہم و گمان میں بھی یہ خیال گذر چکتا ہو کہ یہ نیک بندہ کل نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھے والا ہے۔ آپؐ سے قریب ترین ربط وضبط رکھنے والوں میں آپؐ کے رشتہ داروں اور ہمسایوں اور دوستوں میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپؐ پہلے سے نبی بننے کی تیاری کررہے تھے کسی نے ان مضامیں اور مسائل اور موضوعات کے متعلق کبھی ایک حرف تک آپؐ کی سبان سے نہ سُنا جو غار حرا کی اس انقلابی ساعت کے بعد یکایک آپؐ کی زبان پر جاری ہونے شروع ہوگئے۔ کسی نے آپ کو وہ مخصوص زبان اور وہ الفاظ اور اصطلاحات استعمال کرتے نہ سنا تھا جو اچانک قرآن پاک کی صورت میں لوگ آپؐ سے سننے لگے ۔ کبھی آپ وعظ کہنے کھڑے نہ ہوئے تھے۔ کبھی کوئی دعوت اور تحریک لے کر نہ اٹھے تھے، بلکہ کبھی آپؐ کی سرگرمی سے گمان تک نہ ہوسکتا تھا کہ آپؐ اجتماعی مسائل کے حل یا مذہبی اصلاح یا اخلاقی اصلاح کے لیے کوئی کام کرنے کی فکر میں ہیں اس انقلابی ساعت سے ایک دن پہلے تک آپؐ کی زندگی ایک ایسے تاجر کی زندگی نظر آتی تھی جو سیدھے سادھے جائز طریقوں سے اپنی روزی کماتا ہے۔ اپنے بال بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔ مہمانوں کی تواضع، عزیزوں کی مدد اور رشتہ داروں سے حُسن سلوک کرتا ہے اور کبھی کبھی عبادت کرنے کے لیے خلوت میں جا بیٹھتا ہے ایسے شخص کا ایک عالمگیر زلزلہ ڈال دینے والی خطابت کے ساتھ اٹھنا، ایک انقلاب انگیز دعوت شروع کردینا ایک نرالا لٹریچر پیدا کردینا، ایک مستقل فلسفہ حیات اور نظام فکر و اخلاق و تمدن لے کر سامنے آجانا اتنا بڑا تغیر ہے جو انسانی نفسیات کے لحاظ سے کسی بناوٹ اور تیاری اور ارادی کوشش کے نتیجہ میں قطعاً رونما نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ ایسی ہر کوشش اور تیاری بہرحال تدریجی ارتقاء کے مراحل سے گذرتی ہے اور یہ مراحل ان لوگوں سے کبھی مخفی نہیں رہ سکتے جن کے درمیان آدمی شب و روز زندگی گزارتا ہو۔ اگر آنحضرتﷺ کی زندگی ان مراحل سے گزری ہوتی تو مکہ میں سینکڑوں زبانیں یہ کہنے والی ہوتیں کہ ہم نہ کہتے تھے کہ یہ شخص ایک بڑا دعویٰ لے کر اٹھنے والا ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کفار مکہ نے آپؐ پر ہر طرح کے اعتراضات کیے مگر یہ اعتراض کرنے والا ان میں کوئی ایک بھی نہ تھا۔

اُتر کر حرا سے سُوئے قوم آیا
پھر یہ بات کہ آپؐ خود بھی نبوت کے خواہشمند، یا اس کے لیے متوقع اور منتظر نہ تھے بلکہ پوری بے خبری کی حالت میں اچانک آپؐ کو اس معاملہ سے سابقہ پڑا، اس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے جو احادیث میں آغاز وحی کی کیفیت کے متعلق منقول ہوا ہے، جبریلؑ سے پہلی ملاقات اور سورہ علق کی ابتدائی آیات کے نزول کے بعد آپؐ غار حرا سے کانپتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچے ہیں، گھر والوں سے کہتے ہیں کہ ''مجھے اڑھاؤ۔ مجھے اڑھاؤ'' کچھ دیر کے بعد جب خوف زدگی کی کیفیت دور ہوتی ہے تو اپنی رفیق زندگی کو سارا ماجرا سنا کر کہتے ہیں کہ ''مجھے اپنی جان کا در ہے۔'' وہ فوراً جواب دیتی ہیں۔ ''ہرگز نہیں۔ آپؐ کو اللہ کبھی رنج میں نہ ڈالے گا ۔ آپ تو قرابت داروں کے حق ادا کرتے ہیں، بے بس کو سہارا دیتے ہیں، بے زر کی دستگیری کرتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتےہیں۔ ہر کار خیر میں مدد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ '' پھر وہ آپؐ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس جاتی ہیں جو ان کے چچا ساد بھائی اور اہل کتاب میں سے ایک ذی علم اور راستباز آدمی تھے۔ وہ آپ3 سے سارا واقعہ سننے کے بعد بلا تامل کہتے ہیں کہ ''یہ جو آپؐ کے پاس آیا تھا۔ وحی ناموس رکار خاص پر مامور فرشتہ ہے جو موسیٰؑ کےپاس آیا تھا۔ کاش میں جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔'' آپؐ پوچھتے ہیں۔''کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟'' وہ جواب دیتے ہیں'' ہاں، کوئی شخص ایسا نہیں گذرا کہ وہ چیزے لے کر آیا ہو جو آپ لے کر آئے ہیں اور لوگ اس کے دشمن نہ ہوگئے ہوں۔''

یہ پورا واقعہ اس حالت کی تصویر پیش کردیتا ہے جو بالکل فطری طو رپر یکایک خلاف توقع ایک انتہائی غیر معمولی تجربہ پیش آجانے سے کسی سیدھے سادھے انسان پر طاری ہوسکتی ہے۔ اگر آنحضرتﷺ پہلے سےنبی بننے کی فکر میں ہوتے اور اپنے متعلق یہ سوچ رہے ہوتے کہ مجھے جیسے آدمی کو نبی ہونا چاہیے اور اس انتظار میں مراقبے کرکرکے اپنے ذہن پر زور ڈال رہے ہوتے کہ کب کوئی فرشتہ اتا ہے اور میرے پاس پیغام لاتا ہے تو غار حرا والا معاملہ پیش آتے ہی آپؐ خوشی سے اچھل پڑتے اور بڑے دم دعویٰ کے ساتھ پہاڑ سے اُتر کر سیدھے اپنی قوم کے پاس پہنچتے اور اپنی نبوت کا اعلان کردیتے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں حالت یہ ہے کہ جو کچھ دیکھا تھا اس پر ششدر رہ جاتے ہیں۔کانپتے اور لرزتے گھر پہنچتے ہیں۔ لحاف اوڑھ کر لیٹ جاتے ہیں۔ ذرا دل ٹھہرتا ہے تو چپکے سے بیوی کو بتاتے ہیں کہ آج غار کی تنہائی میں مجھ پر یہ حادثہ گذرا ہے، مجھے اپنی جان کی خیرنظر نہیں آتی۔ یہ کیفیت نبوت کے کسی امیدوار کی کیفیت سے کس قدر مختلف ہے۔

پھر بیوی سے بڑھ کر شوہر کی زندگی ، اس کے حالات اور اس کے خیالات کو کون جان سکتا ہے، اگر ان کے تجربے میں پہلے سے یہ بات آئی ہوتی۔ کہ میاں نبوت کے امیدوار ہیں اور ہر وقت فرشتے کے آنے کا انتظار کررہے ہیں، تو ان کا جواب ہرگز وہ نہ ہوتا جو حضرت خدیجہؓ نے دیا۔ وہ کہتیں '' میاں گھبراتے کیوں ہو، جس چیزکی مدت سے تمنا تھی وہ مل گئی، چلو اب پیری کی دکان چمکاؤ، میں بھی نذرانے سنبھالنے کی تیاری کرتی ہوں۔'' مگر وہ پندرہ برس کی رفاقت میں آپؐ کی زندگی کا جو رنگ دیکھ چکی تھیں اس کی بنا پرانہیں یہ بات سمجھنے میں ایک لمحہ کی بھی دیر نہ لگی کہ ایسے نیک اور بے لوث انسان کے پاس شیطان نہیں آسکتا نہ اللہ اس کو بُری آزمائش میں ڈال سکتا ہے، اس سے جو کچھ دیکھا ہے وہ سراسر حقیقت ہے۔

اور یہی معاملہ ورقہ بن نوفل کا بھی ہے۔ وہ کوئی باہر کے آدمی نہ تھے بلکہ حضورؐ کی اپنی برادری کے آدمی تھے اور قریب کے رشتے سے برادر نسبتی تھے۔ پھر ایک ذی علم عیسائی ہونے کی حیثیت سے نبوت اور کتاب اور وحی کو بناوٹ اور تصنع سے ممیز کرسکتے تھے۔ عمر میں بڑے ہونے کی وجہ سے آپؐ کی پوری زندگی بچپن سے اس وقت تک ان کے سامنے تھی۔ انہوں نے بھی آپؐ کی سبان سے حرا کی سرگزشتہ سنی تو فوراً کہہ دیا کہ یہ آنے والا یقیناً وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ ؑ پر وحی لاتا تھا کیونکہ یہی بھی وہی صورت پیش آئی تھی جو حضرت موسیٰؑ کے ساتھ پیش آئی تھی کہ ایک انتہائی پاکیسہ سیرت کا سیدھا سادا انسان بالکل خالی الذہن ہے۔ نبوت کی فکر میں رہنا تو درکنار ، اس کے حصول کا تصور بھی اس کے حاشیہ خیال میں کبھی نہیں آیاہے اور اچانک وہ پورے ہوش و حواس کی حالت میں علانیہ اس تجربے سے دوچار ہوتا ہے۔اسی چیز نے ان کو دو اور دو چار کی طرح بلا ادنیٰ تامل اس نتیجہ تک پہنچا دیا کہ یہاں کوئی فریب نفس یا کوئی شیطانی کرشمہ نہین ہے، بلکہ اس سچے انسان نے اپنے کسی ارادے اور خواہش کے بغیر جو کچھ دیکھا ہے وہ دراصل حقیقت ہی کا مشاہدہ ہے۔

یہ محمدﷺ کی نبوت کا ایک ایسا بین ثبوت ہے کہ ایک حقیقت پسند انسانمشکل ہی سے اس کا انکار کرسکتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں متعدد مقامات پر اسے دلیل نبوت کے طور پر پیش کیا گیاہے مثلاً سورہ یونس میں فرمایا ہے:
''اے نبیؐ ان سے کہو کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا تو میں کبھی یہ قرآن تمہیں نہ سناتا بلکہ اس کی خبر تک تم کونہ دیتا ۔ آخر میں اس سے پہلے ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔'' (رکوع ۔2)

اور سورہ شوریٰ میں فرمایا:
''اے نبیؐ تم جانتے تک نہ تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے مگر ہم نے اس وحی کو ایک نور بنا دیا جس سے ہم رہنمائی کرتے ہیں۔ اپنےبندوں میں سے جس کی چاہتے ہیں۔''

آغاز دعوت
جب آیت ''وأنذر عشيرتك الأ قربين'' نازل ہوئی تو نبی ﷺ نے سب سے پہلے اپنے دادا کی اولاد کو خطاب فرمایا اور ایک بات کو پکار کر صاف صاف کہہ دیا کہ ''یا بني عبدالمطلب یا عباس، یا صفیة عمة رسول اللہ، یا فاطمة بنت محمدؐ أنقذوا أنفسکم من النار فإني لا أملك لکم من اللہ شیئا فسئلوا من مالي ما شئتم۔ ''اے بنی عبدالمطلب، اے عباس، اے صفیہ رسول اللہﷺ کی پھوپھی ، اے فاطمہ محمدؐ کی بیٹی تم لوگ آگ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کرو، میں خدا کی پکڑ سے تم کو نہیں بچا سکتا۔البتہ میرے مال میں سے تم لوگ جو چاہو مانگ سکتے ہو۔''

پھر آپؐ نے صبح سویرے صفا کے سب سے اونچے مقام پر کھڑے ہوکر پکارا ''يا صباحاه (ہائے صبح کا خطرہ) اے قریش کے لوگو، اے بنی کعب بن لُوی، اے بنی مرہ ، اے آل قصی، اے بنی عبدمناف، اے بنی عبدالشمس، اے بنی ہاشم، اے آل عبدالمطلب'' اس طرح قریش کے ایک ایک قبیلے اور خاندان کانام لے لے کر آپؐ نے آواز دی۔

عرب میں قاعدہ تھا کہ جب صبح تڑکے کسی اچانک حملے کا خطرہ ہوتا تو جس شخص کو بھی اس کا پتہ چل جاتا وہ اسی طرح پکارنا شروع کرتا اور لوگ اس کی آواز سنتے ہی ہر طرف سے دوڑ پڑتے ۔چنانچہ حضورؐ کی اس آواز پر سب لوگ گھروں سے نکل آئے اور جو خود نہ آسکا۔ اس نےاپنی طرف سے کسی کو خبر لانے کے لیے بھیج دیا۔ جب سب لوگ جمع ہوگئے تو آپؐ نے فرمایا: ''لوگو! اگر میں تمہیں بتاؤں کہ اس پہاڑ کے دوسری طرف ایک بھاری لشکر ہے جو تم پر ٹوٹ پڑنا چاہتا ہے تو تم میریبات سچ مانو گے؟'' سب نے کہا ہاں، ہمارے تجربے میں تم جھوٹ بولنے والے نہیں ہو۔'' آپؐ نے فرمایا: ''اچھا تو میں خدا کا سخت عذاب آنے سے پہلے تم کو خبردار کرتا ہوں۔اپنی جانوں کو اس کی پکڑ سےبچانے کی فکر کرو، میں خدا کے مقابلے میں تمہارے کسی کام نہیں آسکتا۔ قیامت میں میرے رشتہ دار صرف متقی ہوں گے۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے لوگ نیک اعمال لے کر آئیں اور تم لوگ دنیا کا وبال سر پر اٹھائے ہوئے آؤ۔ اس وقت تم پکارو گے یا محمدؐ، مگر میں مجبور ہوں گا کہ تمہاری طرف سے منہ پھیر لوں۔ البتہ دنیا میں میرا اور تمہارا خون کا رشتہ ہے اور یہاں میں تمہارے ساتھ ہر طرح کی صلہ رحمی کروں گا۔''

مکی زندگی کے اہم دور
پہلا دور: آغاز بعثت سے لے کر اعلان نبوت تک تقریباً تین سال، جس میں دعوت خفیہ طریقے سے خاص خاص آدمیوں کو دی جارہی تھی اور عام اہل مکہ کو اس کا علم نہ تھا۔
دوسرا دور : اعلان نبوت سے لے کر ظلم و ستم اور فتنہ کے آغاز تک تقریباً دو سال جس میں پہلے مخالفت شروع ہوئی، پھر تضحیک، استہزاء ، الزامات، سب و شتم ،جھوٹے پروپیگنڈا اور مخالفانہ جتھ بندی تک نبوت پہنچی اور بالآخر ان مسلمانوں پر زیادتیاں شروع ہوگئیں، جونسبتاً زیادہ غریب اور بے یارو مددگار تھے۔
تیسرا دور : آغاز فتنہ (5 نبوی) سے لے کر ابوطالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات (10 نبوی) تک تقریباً 5، 6 سال ، اس میں مخالفت انتہائی شدت اختیار کرتی چلی گئی۔بہت سے مسلمان کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر حبش کی طرف ہجرت کرگئے۔ نبیﷺ اور آپؐ کے کاندان اور باقی ماندہ مسلمانوں کامعاشی اور معاشرتی مقاطعہ کیا گیا اور اپنے حامیوں اور ساتھیوں سمیت شعب ابی طالب میں محصور کردیئے گئے۔
چوتھا دور:10 نبوی سے لے کر 13 نبوی تک تقریباً تین سال ۔ یہ نبیﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں کے لیے انتہائی سختی اور مصیبت کا زمانہ تھا مکہ میں آپؐ کے لیے زندگی دو بھر کردی گئی تھی۔ طائف گئے تو وہاں بھی پناہ نہ ملی۔ حج کے موقعہ پرعرب کے ایک ایک قبیلے سے آپؐ اپیل کرتے رہے کہ وہ آپؐ کی دعوت قبول کرے اور آپؐ کا ساتھ دے مگر ہر طرف سے کورا جواب ہی ملتا رہا اور ادھر اہل مکہ بار بار یہ مشورہ کرتے رہے کہ آپؐ کو قتل کردیں یا قید کردیں یا اپنی بستی سے نکال دیں۔ آخر کار اللہ کے فضل سے انصار کے دل آپؐ کے لیے کھل گئے اور ان کی دعوت پر آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔

ہجرت حبشہ
قریش کے سردار جب تضحیک، استہزا، اطماع ، تخویف اور جھوٹے الزامات کی تشہیر سے تحریک اسلامی کو دبانے میں ناکام ہوگئے تو انہوں نے ظلم و ستم، مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار استعمال کرنےشروع کردیئے۔ ہر قبیلے کےلوگوں نے اپنے اپنے قبیلے کے نو مسلموں کو طرح طرح سے ستا کر، قید کرکے، بھوک پیاس کی تکلیفیں دے دے کر حتیٰ کہ سخت جسمانی اذیتیں دے کر انہیں اسلام چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ غریب لوگ اور وہ غلام اور موالی جو قریش والوں کے زیردست کی حیثیت رکھتے تھے بری طرح پیِسے گئے مثلاً حضرت بلالؓ، عامر بن فہیدہؓ، حضرت اُم عبیسؓ، حضرت زنیرہؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ، اور ان کےوالدین وغیرہم۔ ان لوگوں کو مار مار کر ادھ موا کردیا جاتا، بھوکا پیاسا بند رکھا جاتا، مکہ کی تپتی ریت پر، چلچلاتی دھوپ میں لٹا دیا جاتا اور سینے پربھاری پتھر رکھ کر گھنٹوں تڑپایا جاتاجو لوگ پیشہ ور تھے ۔ ان سے کام لیا جاتا اور اجرت ادا کرنے میں پریشان کیا جاتا ۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت خباب ؓبن ارت کی یہ روایت موجود ہے کہ:
''میں مکے میں لوہار کا کام کرتا تھا۔ مجھ سے عاص بن وائل نے کام لیا، پھر جب میں اس سے اُجرت لینے گیا تو اس نے کہا کہ میں تیری اجرت نہ دوں گا جب تک تو محمدؐ کاانکار نہ کرے۔''

اسی طرح جو لوگ تجارت کرتے تھے ان کےکاروبار کو برباد کرنےکی کوششیں کی جاتیں اور جو معاشرے میں کچھ عزت کا مقام رکھتے تھے انہیں ہر طریقے سے ذلیل و رسوا کیا جاتا۔ اسی زمانے کا حال بیان کرتے ہوئے حضرت خبابؓ کہتے ہیں کہ ایک روز نبیﷺ کعبےکے سائے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:''یارسول اللہﷺ اب تو طلم کی حد ہوگئی ہے آپؐ خدا سےدعا نہیں فرماتے؟'' یہ سن کر آپ ؐ کا چہرہ تمتما اٹھا اور آپؐ نے فرمایا۔''تم سے پہلے جو اہل ایمان تھے ان پر اس سے زیادہ مظالم ہوچکے ہیں۔ ان کی ہڈیوں پر لوہے کی گنگھیاں گھسی جاتی تھی۔ ان کے سروں پررکھ کر آرے چلائے جاتے تھے، پھر بھی وہ اپنے دین سےنہ پھرتے تھے۔ یقین جانو کہ اللہ اس کام کو پوراکرکے رہے گا ۔ یہاں تک کہ وہ وقت آئے گا کہ ایک آدمی صنعا سے حضر موت تک بےکھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا خوف نہ ہوگا۔ مگر تم لوگ جلد بازی کرتے ہو۔'' 1

یہ حالات جب ناقابل برداشت حد کو پہنچ گئے تو (رجب45 عام الفیل۔ 5 نبوی) حضورؐ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ : اچھا ہو کہ تم لوگ نکل کر حبش چلے جاؤ۔وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سرزمیں ہے۔ جب تک اللہ تمہاری اس مصیبت کورفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کرے تم لوگ وہاں ٹھہرے رہو۔''
اس ارشاد کی بنا پر پہلے گیارہ مردوں اور چار خواتین نے حبش کی راہ لی۔ قریش کے لوگوں نے ساحل تک ان کا پیچھا کیامگر خوش قسمتی سے شعیبیہ کی بندرگاہ پر ان کو بروقت کشتی مل گئی اور وہ گرفتار ہونے سےبچ گئے۔
پھر چند مہینوں کے اندر مزید لوگوں نے ہجرت کی۔ یہاں تک کہ 83 مرد، گیارہ عورتیں اور غیر قریشی مسلمان حبش میں جمع ہوگئے اور مکے میں نبی کریمﷺ کے ساتھ صرف 40 آدمی رہ گئے۔ (مسلسل)


حوالہ جات
1. بخاری